منگل، 20 جنوری، 2015

کیا آپ کے نزدیک شہرحلب اور ریف حلب (حلب کے گردونواح کے علاقہ) میں چوری کی حد کا نفاذ درست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا آپ کے نزدیک شہرحلب اور ریف حلب (حلب کے گردونواح کے علاقہ)
میں چوری کی حد کا نفاذ درست ہے؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی


سوال:
ہمارے محترم شیخ، السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، ہم حلب اور ریف حلب (حلب کے گردونواح کے علاقے)میں محکمہ شریعہ رکھتے ہیں ، ہم آپ سے یہ سوال کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کہ فالوقت ان ایام میں چوری کی حد کی تطبیق کرنا (حلب میں) آپ کی نظر میں کیسا ہے؟ اگراس چوری کی حد کا نفاذ کیا جائے تو اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟


جواب:
الحمدللہ رب العالمین، وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ، وبعد،

ہم حلب اور اس کے گردونواح (ریف حلب کے علاقے)میں رہنے والوں کے حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے چوری کی حد کی تطبیق کو (اس وقت) درست نہیں جانتے ہیں اور اس کی دو وجوہات ہیں:

ا)اس کی پہلی وجہ اِس کا ’دارالحرب‘ ہونا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ’دارالحرب‘ میں اقامتِ حدود سے منع فرمایا ہے۔
۲)عمومی طور پر اہل شام پر غربت اور قحط سالی کی آفت کا شبہ ہونا اور حدود کے نفاذ کو شبہات کی بنیاد پر روک دیا جاتا ہے۔

تاہم اگر چوری کرنے والا پیشہ ور مجرم ہے اور مالدار بھی ہے، اور اس چرانے کے عمل کے ساتھ ساتھ اس نے خود کو صفتِ محاربہ(راہزنی) کے عمل پر بھی جمع کیا ہوا ہے اور راستے بھی منقطع کرنےکا سبب بن رہا ہے، اور لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا بھی ہے، تواس قسم کی مثل کے افرادکے لیے جی ہاں! میں ان کے اوپر چوری کی حد کی تطبیق کو درست سمجھتا ہوں،اور اِس کے ساتھ ساتھ اِن پر دوسری سزائیں اور حدود کے نفاذکو بھی جمع کیا جا سکتا ہے جس کے وہ مستحق ہوں، جیسا کہ آیتِ حرابہ میں مذکور ہے۔

واللہ اعلم۔

آیتِ حرابہ:
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمین میں اس لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں کہ فساد برپا کریں اُن کی سزا یہ ہے کہ قتل کیے جائیں، یا سولی پر چڑھائے جائیں، یا اُن کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں، یا وہ جلا وطن کر دیے جائیں، یہ ذلت و رسوائی تو اُن کے لیے دنیا میں ہے اور آخرت میں اُن کے لیے اس سے بڑی سزا ہے۔‘‘
(المائدہ: ۳۳)

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
15.01.2015

مصدر:
http://www.altartosi.net/forum/upload/showthread.php?694

ہفتہ، 3 جنوری، 2015

تنظیم (دولۃ) کی تکفیر ، ان پرلعنت کرنے اور ان کے قیدیوں اور اموال سے متعلق شرعی حکم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تنظیم (دولۃ) کی تکفیر ، ان پرلعنت کرنے اور ان کے قیدیوں اور اموال
سے متعلق شرعی حکم

هيئة الشام الإسلامية کا فتوی

سوال:
اس سے پہلے آپ نے فتوے میں بیان کیا تھا کہ تنظیم دولۃ خوارج ہیں، تو کیا خوارج کفار ہیں، اور کیا ان پر لعنت کرنے یا ان کو بد دعا دینے کا جواز ہے؟ اور کیا ان کے خلاف قتال کرنے میں ابتداء کی جا سکتی ہے؟ ان کے قیدیوں کا کیا حکم ہے، اس اسلحہ اور اموال کا کیا حکم ہے جو ان سے غنیمت کیا جاتا ہے؟

جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وبعد

بلاشبہ خوارج اہل بدعت و ضلالت ہیں اور اربابِ فسق و انحراف ہیں، اور ان سب جملہ اوصاف کے ساتھ مجموعی طور پر وہ اہلِ ملتِ اسلامیہ ہیں، اور ان پر دین سے خروج کرنے کا اطلاقاً حکم نہیں ہے، ان کو بد دعا دینا جائز ہے، اور ان پر عمومی طور پر لعنت بھی کی جا سکتی ہے،ان کے اہل تدبیر کا پیچھا کیا جا سکتا ہے ،ان کے زخمیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، اور ان کے قیدیوں کو مصلحت کےپیش نظر قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔

اول:
اس موقف پرسلف و خلف کے جمہور علماء قائم ہیں:
وہ خوارج کی عدم تکفیر کے قائل ہیں،اس بات کی دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم نے خوارج سے قتال کرنے کے باوجود ان پر کفر کا حکم نہیں لگایا تھا، جیسا کہ ابن ابی شیبۃ ’’المصنف‘‘ میں صحیح اسناد کے ساتھ طارق بن شہاب سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں: میں سیدنا علیؓ کے ساتھ تھا، میں نے ان سے اہل نہروان(یعنی خوارج) سے متعلق سوال کیا؛

کیا وہ مشرکین (کفار) ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: وہ تو شرک سے فرار اختیار کرنے والے تھے۔
میں نے کہا: کیا وہ منافقین میں سے ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: منافقین تو اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت تھوڑا کرتے ہیں۔
میں نے ان سے پھر کہا: تو پھر وہ کون ہیں؟
انہوں نے جواب دیا: ایسی قوم (گروہ) جنہوں نے ہم سے بغاوت اختیار کی۔

ابن تیمیہؒ ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’سیدنا علی بن ابی طالبؓ اور سعد بن ابی وقاصؓ اور دیگر صحابہؓ نے ان (خوارج) کی تکفیر نہیں کی تھی، ان سے قتال کرنے کے باوجود وہ انہیں مسلمان سمجھتے تھے، سیدنا علیؓ نے ان سے اس وقت تک قتال نہ کیا جب تک انہوں نے ناحق خون نہ بہایا اور مسلمانوں کے اموال پر لوٹ مار شروع نہ کی، پھر انہوں نے ان کے ظلم اور بغاوت کو دفع کرنے کے لیے ان سے قتال کیا، نہ کہ ان کے کفار ہونے کی وجہ سے یہ قتال ہوا۔‘‘

خطابیؒ کہتے ہیں، جیسا کہ الحافظ نے ان سے ’’الفتح‘‘ میں نقل کیا ہے:
’’علمائے مسلمین اس بات پر جمع ہیں کہ خوارج اپنی ضلالت وگمراہی کے باجود مسلمانوں کے فرقوں میں سے ایک فرقہ ہے، اور ان کے ساتھ نکاح کرنے اور ان کا ذبیح کھانے کی اجازت ہے، اور وہ ان کی تکفیر نہیں کرتے جب تک کہ وہ اسلام کی اصل سے جڑے ہوئے ہیں۔‘‘

ابن تیمیہؒ ’’منہاج السنۃ النبویہ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’بلکہ صحابہؓ اور سیدنا علیؓ کا خوارج سے متعلق معاملہ سیرتِ صحابہؓ کے اہل ارتداد کے ساتھ تعامل کے موقف سے مختلف تھا اور ان میں کسی صحابیؓ نے بھی سیدنا علیؓ سے اس معاملے پرمخالفت نہ کی تھی،اس سے معلوم ہوا کہ صحابہؓ کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا کہ یہ (خوارج) دینِ اسلام سے خارج مرتدین میں سے نہیں ہیں۔‘‘

امام نوویؒ ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’صحیح و مختار مذہب جس کو جمہوراور محققین لوگوں نے بیان کیا ،وہ یہ ہےکہ خوارج کی تکفیر نہیں کی جائے گی، جس طرح کہ باقی اہل بدعت کی تکفیر نہیں کی جاتی۔‘‘

ابن حجرؒ ’’فتح الباری‘‘ میں کہتے ہیں:
’’اہل سنت میں سے کثیر اہل ِ اصول اس جانب گئے ہیں کہ خوارج فساق ہیں، اور ان پر حکمِ اسلام ان کے شہادت کہنے اور ارکانِ اسلام پر جمے رہنے کی وجہ سے قائم ہے، اور یہ مسلمانوں کی تکفیر میں فسق کا شکار ہوئے جو انہوں نے فاسد تاویل سےمستنبط کیں، اور یہ وجوہات انہیں اپنے مخالفین کے خون اور اموال کو جائز قرار دینے پر لے کر گئیں اور انہوں نے ان پر کفر اور شرک کا حکم لگایا۔‘‘

علی ہذالقیاس:
یہ بات درست نہیں ہے کہ ’’تنظیم دولۃ‘‘ پر کفر کا حکم لگایا جائے، یہ بات اس چیز کو مانع نہیں ہے کہ ان کے بعض افراد کسی کفر میں مبتلا ہوں؛ اس بناء پر کہ انہوں نے نواقضِ اسلام میں سے کسی ناقض کا ارتکاب کر لیا ہو یا ان کی صفوں میں کوئی غیر مسلم سرایت کر گئے ہوں، یا اس طرح کے دیگر معاملات، لیکن ان پر حکم(ارتداد) بغیر کسی واضح شرعی دلیل کے نہیں لگایا جائے گا، شرائط کی موجودگی اور موانع کو زائل کرنے کے بعد ہی یہ حکم لگے گا۔

تاہم ان پر بدعت اور ضلالت کا حکم ہے، جیسا کہ امام الاجری نے اپنی کتاب "الشريعة"میں لکھا ہے:
’’علمائے متقدمین اور متاخرین نے اس بات پر اختلاف نہیں کیا کہ خوارج کا تعلق قومِ سوء سے ہے، جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرنے والے ہیں، اگرچہ وہ نماز پڑھیں ، روزے رکھیں اور عبادات میں ریاضت کریں، یہ بات ان کے لیے بالکل بھی نفع بخش نہیں ہے۔‘‘

دوم:
ان کی مقتول اور فوت شدگان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے گا جیسا کہ بقیہ مسلمانوں کے فوت شدگان کے ساتھ رکھا جاتا ہے: جن میں غسل، کفن،ان پر نمازِ جنازہ پڑھنا شامل ہے، یہ مسلمانوں پر ہے کہ وہ ہر کوئی جو اسلام کا اظہار کرتا ہے اور جس سے متعلق کسی بھی نفاق اور ارتداد کا علم نہیں، ان کی نماز(جنازہ) ادا کریں۔

ابراھیم النخعی کہتے ہیں:
’’انہوں نے اہل قبلہ میں سے کسی کی بھی نمازِ جنازہ سے نہیں روکا ہے۔‘‘ اسے اللالكائي نے"شرح أصول اعتقاد أهل السنة" میں روایت کیا ہے۔

امام مالکؒ کہتے ہیں:
’’اس فوت شدہ پر نمازِ جنازہ کو ترک نہ کرو ، جو قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہو۔‘‘

ابن عبدالبر ؒ ’’ الاستذکار‘‘ میں کہتے ہیں:
’’یہ امام شافعیؒ اور فقہاء کی ایک جماعت کا قول ہے کہ جو کوئی بھی لا إله إلا الله وأن محمداً رسول الله صلى الله عليه وسلم کی شہادت دیتا ہو اس کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے۔‘‘

لیکن یہ اہل مقام اور اہل علم کے لیے مشروع ہے کہ وہ اس کی نمازِ جنازہ میں شریک نہ ہوں تاکہ اسے سزا کے طور پر دیکھا جا سکے، اور ان کے اعمال کے سامنے رکاوٹ ڈالی جا سکے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی نماز ترک کی جس نے خودکشی کی، جس نے قیمتی مال غنیمت سے لوٹا، جو مقروض تھا، لیکن صحابہؓ کو حکم دیا کہ وہ اس پر نمازِ جنازہ ادا کریں۔

امام ابن تیمیہؒ ’’منھاج السنۃ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’اگر بدعت کی طرف دعوت دینے والے اور فجور کو ظاہر کرنے والے شخص کی نمازِ جنازہ کو ترک کر دینے میں لوگوں کو اس گناہ سے دور رکھنے میں مصلحت ہے، تو پھر اس نماز کا ترک کر دینا اس شخص پر جو اس (بدعت) کو دور کرنے میں اثرانداز ہو سکتا ہو ایک مشروع عمل ہے، اسے چاہیے کہ اس پر نمازِ جنازہ نہ پڑھے۔‘‘

سوم:
اہل علم میں سے ایک فریق یہ رائے رکھتا ہے کہ خوارج کا حکم بغاۃ(باغیوں) کے حکم جیسا ہےجو کہ اس طرح ہے کہ ان کے خلاف قتال کی ابتداء نہیں کی جا سکتی، نہ ہی ان کے زخمیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے، نہ ہی ان کےاہل تدبیر کا پیچھا کیا جا سکتا ہے،اور نہ ہی ان کے قیدیوں کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

ان میں درست موقف جس پر کثیر محققین جمع ہیں، وہ یہ ہے کہ خوارج کا حکم بغاۃ(باغیوں) کے حکم سے مختلف ہے؛ کیونکہ باغی جماعت المسلمین کے خلاف خروج کرتے ہیں یا ان کے امام کے خلاف بغاوت کرتے ہیں، کسی شبہ پر جو انہیں لاحق ہوتا ہے، لیکن وہ مسلمانوں کی تکفیر نہیں کرتے اور نہ ہی ان کے خون کو بہانا جائز قرار دیتے ہیں، اس لیے ان سے فقط اسی لیے قتال کیا جاتا ہے تاکہ ان کی بغاوت اور عدوان کو دور کیا جا سکے؛ برعکس خوارج کے جو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور ان کے خون کو مباح قرار دیتے ہیں، اور یہ (شریعت سے)روکنے والا گروہ ہے،اس لیےان کی بغاوت،گمراہی اور مسلمان امت سے ان کے شر کو روکنے کے لیے قتال کیا جاتا ہے ،جیسا کہ ان سے متعلق نبوی امر بھی وارد ہوتا ہے‘‘۔

اس بات کے لیےدلیل یہ ہے کہ امیر المومنین علی بن ابی طالبؓ نے خوارج کے ساتھ وہ معاملہ نہیں رکھاجو انہوں نے اہل جمل اور صفین میں موجود بغاۃ کے ساتھ رکھا۔

ابن قدامۃ المقدسی ’’المغنی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’یہ ان شاء اللہ صحیح ہے کہ: خوارج کے ساتھ قتال میں ابتداء کی جا سکتی ہے،ان کے زخمیوں کو ختم بھی کیا جا سکتا ہے؛ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو قتل کر نے کا حکم دیا ہے، اور ان خوارج کو قتل کرنے والوں کے لیے ثواب کا وعدہ ہے۔‘‘

سیدنا علیؓ نے ارشاد فرمایا:
’’اگر تم تکبر نہ کرتے، تو میں تمہیں اللہ تعالیٰ نے جوان (خوارج) کو قتل کرنے والوں سے متعلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے وعدہ کیا ہے اس کو بیان کرتا۔‘‘

پس اس لیے ان کی بدعت اور سوء عمل، ان کے خون کومباح(جائز) کرنے کا تقاضا کرتا ہے، اس دلیل کی بناء پر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ان کےگناہ کے بڑے ہونے کے متعلق خبر دی ہے، اور یہ کہ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں، وہ دین سے نکل چکے ہیں، وہ جہنم کے کلاب (کتے) ہیں، اور ان کے قتل پر ابھارا اور ان سے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو پالیں تو انہیں قوم عاد کی طرح قتل کریں گے۔

اس لیے ان خوارج کو ان لوگوں کے ساتھ ملانا جائز نہیں جن سے ہاتھ روکنے کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے۔اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سےکثیر نے ان سے قتال کرنے سے پرہیز کیا، اور یہ بات بدعت نہیں ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’جمہور اہل علم تفریق کرتے ہیں (مارقہ خوارج) اور (اہل جمل و صفین کے بیچ) جنہوں نے تاویل کرتے ہوئے بغاوت کی، اور یہ صحابہؓ میں معروف تھی، اور اسی پر مجموعی طور پر اہل حدیث اور اہل فقہ اور متکلمین قائم ہیں، اور اس پر کثیر ائمہ اور ان کے متبعین اصحاب جیسا کہ مالک، احمد، شافعی وغیرہ کی جانب سے بہت سی نصوص ہیں۔‘‘

علی ہذالقیاس:
خوارج کے قیدیوں کو قتل کیا جا سکتا ہے، ان کے زخمیوں کو ختم کیا جا سکتا ہے ،ان کے فتنہ انگیزوں کا تعاقب کیا جا سکتا ہے، اور ان کے خلاف قتال کی ابتداء کرنا جائز ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’اگران کے پاس قابل قوت جماعت ہے، تو بلاشبہ ان کے قیدیوں کو قتل کرنا ، ان کے فتنہ انگیزوں کاتعاقب کرنا اور ان کے زخمیوں کو ختم کرنا جائز ہے، اگر یہ خوارج ان کے ملکوں میں موجود ہیں، اور اسی عقیدے پر ہیں، تو پھر مسلمانوں پر واجب ہے کہ اپنے ملکوں میں ان سے قتال کرنے کی کی نیت و ارادہ کریں حتی کہ دین تمام کا تمام اللہ تعالیٰ کے لیے ہو جائے۔‘‘

یہ گروہ اسی چیز کا مستحق ہے؛ کہ ان کے فساد کو ختم کیا جائے، اور یہی مناسب ہے کیونکہ وہ بار بار مکر اور دھوکہ دہی کرتے ہیں، االلہ تعالی کے حکم پر اترنے سے روکتے ہیں خصوصی طور پرمسلمانوں، ان کے قائدین، اور ان کے فضلاء کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

بلکہ یہ بات بھی جائز ہے کہ ان کے اکیلے فرد کو قتل کیا جائے، اگرچہ اس کی کوئی جماعت یا گروہ نہ ہو، جبکہ وہ اس بدعت کی طرف دعوت دے رہا ہو، کیونکہ اس کے باقی رہنے میں مسلمانوں کا ضرر ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’جہاں تک ان خوارج میں سے کسی ایک فرد کو جس پر قدرت حاصل ہو کو قتل کرنےکا معاملہ ہے؛ جیسا کہ حروریہ اور رافضہ اور ان جیسے دیگر فرقے: تو اس سے متعلق فقہاء کی رائے موجود ہیں، اور اس میں فقہاء کے دو قول ہیں اور یہ دونوں ہی امام احمدؒ سے مروی ہیں، اور صحیح قول یہ ہے کہ ان کے فرد واحد کو قتل کرنا جائز ہے،جیسا کہ وہ افراد جو اس مذہب(خوارج) کی طرف دعوت دے رہے ہوں، اور اسی طرز پر ہر وہ شخص جس میں اس قسم کا فساد ہو‘‘

اسی طرح ان کو قیدی بنانا بھی جائز ہے تاکہ ان قیدیوں سے دوسرے مسلمان قیدیوں کے لیے فائدہ اٹھایا جا سکے یا ان کو بدعت سے روکنے کی کوشش کی جا سکے۔

چہارم:
جہاں تک ان اموال کا تعلق ہے جو ان کے قبضہ میں ہے:

جہاں تک ان اموال کا تعلق ہے جو عامۃ الناس کے ہیں: جیسا کہ اسلحہ، تیل کے کنویں، حکومتی عمارتیں، کارخانے وغیرہ، تو انہیں غنیمت نہیں بنایا جا سکتا اور نہ ہی تقسیم کیا جا سکتا ہے، بلکہ ان کی بقدرِ استطاعت حفاظت کی جانی چاہیے تاکہ ان کی منفعت عامہ باقی رہے، اور ان کی حفاظت کو یقینی بنانا چاہیے اور ان کی حمایت بھی کرنی چاہیے، جیسا کہ اس سے قبل ہم اپنے فتوی میں بتا چکے ہیں(بعنوان :عوامی سرمائےاور تیل کے کنووں کے انتظامات سے متعلق تصرف کا حکم)

جہاں تک ان کے مخصوص اموال کا تعلق ہے:
اس بارے میں جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ اسے غنیمت نہیں بنایا جا سکتا ،وہ مال ان کے ورثاء کو دیا جائے گا۔ ان کی عوام کےخلاف بغاوت اور خروج ان کے ساتھ قتال کو تو جائز کرتا ہے لیکن ان کے اموال کو حلال نہیں کرتا، مگر اُس صورت میں اگر اس مال کا سہارا لیتے ہوئے مسلمانوں سے قتال کر رہے ہوں، اس صورت میں ان کے مال کورکھا جا سکتا ہے حتی کہ ان کا فتنہ ختم نہ ہو جائے، اور اگر مسلمانوں کی مصلحت ہو ان کے مال کو رکھنے میں تو وہ حکمِ شریعت کے پیش نظر جائز ہے۔

ابن المناصف اپنی کتاب ’’ الإنجاد في أبواب الجهاد‘‘ میں کہتے ہیں:
’’یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی صورت میں ان کے اموال کو مباح نہیں کیا جا سکتا، مگر صرف وہ مال جو دوران جنگ ضائع ہو جائے، ان سے دفاع کی ضرورت کے پیش نظر ہو اوران کی اصلاح کے پیش نظر، جو شرعاً مامور ہے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں [آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ]، پس ان لوگوں سے قتال تو اس لئے مباح قرار دیا گیا ہے تاکہ ان کے فساد کو ختم کیا جا سکے، اور ان کو ان کے باطل سے روکا جا سکے، حتی کہ یہ اللہ کے حکم کی طرف آ جائیں، ان کے اموال کی اجازت نہیں دی گئی اور نہ ان کے قیدیوں میں(لونڈی، غلام بنانے کی)اجازت ہے، جیسا کہ کفار کے معاملے میں(اموال اور قیدیوں میں) اجازت دی گئی ہے، بلکہ یہ تمام حرمتِ اسلام کی وجہ سے معصوم ہیں، البتہ اتنی مقدار کی اجازت ضرور ہے جس کے ذریعے ان کے ساتھ قتال تکمیل تک پہنچ جائے، یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر وہ شخص جسے قتل کیا جائے یا جس سے قتال کیا جائے ، اس سے اس کا مال بھی مباح ہو جائے۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ’’ منهاج السنة النبوية ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ جن لوگوں نے سیدنا علیؓ سے قتال کیا تھا،ان میں سب سے بدترین خوارج تھے، تاہم اس کے باوجود انہوں نے ان پر کفار والا حکم نہیں لگایا تھا، بلکہ ان کے اموال اور قیدیوں کو(لونڈی، غلام بنانا) حرام قرار دیا۔‘‘

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ ’’مجموع الفتاوی‘‘ میں کہتے ہیں:
’’ان (خوارج) سے لڑا جائے گا جب تک کہ یہ (فتنہ سے) رکتے نہیں، ان کی اولاد کو لونڈی غلام نہیں بنایا جائیگا. ان کا وہ مال غنیمت نہیں بنایا جائے گا جس کے ذریعے انہوں نے قتال کے لیے معاونت حاصل نہیں کی، اور جہاں تک معاملہ ہے ان گھوڑوں اور ہتھیاروں کا جن سے یہ خوارج لڑائی میں معاونت لیتے ہیں، تو اس معاملہ میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، سیدنا علی بن طالبؓ کے بارے میں روایت ہے کہ ان کے لشکر نے ہر وہ چیز چھین لی تھی، جو ان خوارج کے لشکر میں تھی، اگر امیر (ولی الامر) کی رائے یہ بنتی ہے کہ خوارج کے لشکر میں موجود مال کو حلال قرار دے، تو یہ اچھا ہو گا۔‘‘

پنجم:
جہاں تک خوارج پرلعنت کرنے کا معاملہ ہے تو اس میں تفصیل ہے:

(۱)اگر ان پر لعنت کرنے کا انداز عموم پر ہے، جیسا کہ یوں کہا جائے: اللہ تعالیٰ اہل بدعت پرلعنت کریں یا اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو خوارج پر یا اللہ تعالیٰ مجرمین ظالمین پر لعنت کریں یا اِس مجرم تنظیم پر اللہ کی لعنت ہو، تو یہ لعنت کرنا جائز ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں،

اللہ تعالیٰ نے ظالمین پر لعنت کی ہے:
خبردار! ظالمین پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے [ھود: ۱۸]
اور جھوٹوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے:
اور خد ا سے دعا کریں کہ جو جھوٹا ہو اُس پر خدا کی لعنت ہو [ آل عمران: ۶۱]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر لعنت کی ہے جو اپنے والدین کو لعنت کریں، جو سود کھائیں یا چوری کریں اور اسی طرح دیگر مثالیں موجود ہیں۔

اس معاملے میں اجماع کا انعقاد ہوا ہے، ابن عربی ’’احکام االقرآن‘‘ میں کہتے ہیں:
’’جہاں تک کسی گناہگار پر مطلقاً لعنت کرنے کا سوال ہے، تو اس پر اجماع ہے۔‘‘

علی ہذالقیاس خوارج پر مطلقاً لعنت کا جواز موجود ہے، تو یہ کہا جا سکتا ہے: اے اللہ، خوارج پر لعنت فرما! کیونکہ ان کا فساد عظیم ہے، یہ مسلمانوں کو قتل کرتےہیں، ان کی تکفیر کرتے ہیں، اور غدر کا معاملہ کرتے ہیں، اور ان سے متعلق بعض صحابہؓ کی طرف سے وارد ہوا ہے: ازارقہ پر لعنت ہو (اور یہ خوارج کا ایک فرقہ ہے)

(۲) جہاں تک ان کے کسی شخص پر معین کر کے لعنت کا حکم ہے، جیسا کہ یوں کہا جائے: اللہ تعالیٰ کی لعنت فلاں شخص پر ہو یا فلاں پر اللہ کی لعنت ہو۔

اس طرح سے لعنت کرنا حرام ہے اور جمہور علماء کے نزدیک اس کا کوائی جواز نہیں؛ کیونکہ اس قسم کی لعنت سے مقصود یہ بد دعا ہوتی ہےکہ یہ محروم ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہو جائے، حالانکہ اس سے متعلق ہم یقینی طور پر نہیں جانتے کہ اس کا خاتمہ کس حال پر ہو گا۔

ابو حامد الغزالی ’’احیاء علوم الدین‘‘ میں کہتے ہیں:
’’کسی فاسق پر معین کر کےلعنت کرنا جائز نہیں، اور یہ بات یاد رہے کہ لوگوں پر لعنت کرنا ایک خطرناک معاملہ ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے۔‘‘

امام النووی ’’شرح صحیح مسلم‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’کسی بھی کافر یا مسلمان یا جانور کو معین کر کے لعنت کرنا جائز نہیں ہے، مگرجبکہ یہ شرعی نصوص سے واضح ہو جائے کہ وہ شخص کفر پر مرا ہے یا یہ کہ مرنے والا ہے، جیسے ابو جہل اور شیطان(کہ ابوجہل کفر پر مر گیا ہے اور شیطان کفر پر مرنے والا ہے)‘‘

صحیح بخاری میں حدیث وارد ہے سیدنا عمر سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانے میں ایک شخص جس کا نام عبد اللہ تھا، وہ رسول کریمﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، نبی کریمﷺ نے شراب نوشی پر اسے کوڑے لگوائے تھے، ایک دن (پھر) اسے لایا گیا تو نبی کریمﷺ نے اسے کوڑے لگانے کا حکم صادر فرمایا۔ تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ اس پر لعنت کرے کتنی مرتبہ اسے (شراب پینے پر سزا دینے کیلئے) لایا گیا ہے۔ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم، جہاں تک میں اسے جانتا ہوں یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔

امام ابن تیمیہؒ ’’منھاج السنۃ‘‘ میں کہتے ہیں:
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متعین صحابیؓ پر لعنت کرنے سے منع کیا جو اکثر شراب پیا کرتا تھا،جس کے لیے انہوں نے اس شخص کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کو دلیل بنایا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب پینے والوں پر مطلقاً لعنت بھی فرمائی، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مطلقاً لعنت کرنا جائز ہے، جبکہ متعین طور پر ایسے شخص پر لعنت کرنا جو اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے ناجائز ہے، اور یہ ایک معلوم بات ہے کہ تمام مومن کا معاملہ ایسا ہوتا ہےکہ وہ اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سےلازماً محبت کرنے والا ہوتا ہے۔‘‘

بعض سلف کی طرف سے اہل بدعت اور ضلالت کے ائمہ پر جنہوں نے مسلمانون کو شدید نقصان پہنچایا پر لعنت کی اجازت آئی ہےجیسا کہ مختار بن ابی عبید، بشر المریسی، جھم بن صفوان اور ان جیسے دیگر افراد۔

ہر حالت میں یہ ضروری ہے لعنت اور طعن و تشنیع کی عادت سے بچا جائے،
جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے:
[مومن بہت طعنے دینے والا، بہت لعنت کرنے والا، فحش گوئی کرنے والا، بےہودہ بکنے والا نہیں ہوتا ہے] (رواہ ترمذی)

مسلمان زبان کی حفاظت کرتا ہے، بہترین قول کہتا ہے، نہ ہی گالیاں دیتا ہے اور نہ ہی لعنت کرتا ہے، نہ ہی طعن کرتا ہے،
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[(اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) میرے بندوں سے کہہ دیجیے کہ زبان سے وہ بات نکالا کریں جو بہترین ہو]

سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فحش گوئی کرنے والے اور لعنت کرنے اور گالی گلوچ کرنے والے نہ تھے ۔‘‘ (صحیح بخاری)

پھر یہ کہ کسی معین پر لعنت کرنا کسی شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور اور محروم ہو جانے کی بددعا ہے ،حالانکہ زیادہ مناسب دعا جو مانگنی چاہیے وہ رشدوہدایت کی ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ اے اللہ رسول قبیلہ دوس نے اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ، اور (اسلام قبول کرنے سے) انکار کیا، آپ ان کے لیے بددعا کیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا:
’’اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت دیجیے اور انہیں (میرے پاس) بھیج دیجیے۔‘‘

ششم:
جہاں تک معاملہ ہے خوارج پر ان کے ظلم، بغاوت اور فساد کی وجہ سے بددعا کرنے کا تو یہ جائز ہے، اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں:
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘( النساء: ۱۴۸)

ابن عباسؓ کہتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں فرماتے کہ ایک شخص دوسرے شخص کو بد دعا دے، مگر تب جبکہ وہ مظلوم ہو، اسی لیے یہ بات بیان ہوئی ہے کہ بددعا تب کر سکتا ہے جب کوئی اس شخص پر ظلم کر رہا ہے، اس لیے اللہ تعالی کا یہ قول ہے [الا من ظلم]، مگر یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، لیکن [وَإِنْ صَبَرَ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ] اگر وہ صبر کرے تو اس کے لیے بہتر ہے[اسے طبری نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے]‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہؓ نے کئی ظالموں کو بددعا دی۔

لیکن اس کے ساتھ ساتھ بددعا میں تجاوز کرنے کی اجازت نہیں ہے جیسا کہ یہ کہا جائے کہ اس کی موت کفر پر ہو یا ان کے خلاف بددعا کی جائے جو کہ مستحق نہیں جیسا کہ ان کے اہل و عیال، یا ا ن کو گالی گلوچ کرنا، ان کی عزت پر جھوٹے الزامات لگا نا، یا ان کی شکل و صورت سے متعلق تمسخر اڑانا اور اسی طرح کی دیگر بددعائیں۔

ان تمام باتوں کو بیان کیے جانے کے بعد:

ان کو حق کی طرف دعوت دیتے وقت مایوس نہ ہوا جائے، ان کو علم سے روشناس کروایا جائے، ان کے شبہات کو دور کیا جائے، بلاشبہ ابن عباسؓ کے ذریعے اولین خوارج کی صفوں میں سے ایک تہائی سے زیادہ تعداد (دلائل کی بنیاد پر) واپس آگئی تھی۔

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ان میں ان لوگوں کو ہدایت نصیب فرمائیں جن کی ہدایت سے اسلام اور مسلمانوں کو خیرہو، اور ان کے مکر کو انہی پر لوٹا دیں، ان کے فتنہ کو روک لیں، اور عَلم جہاد کو ملکِ شام اور دیگر مسلمانوں کے ممالک میں بلند فرما دیں، اور ان میں موجود سازشوں کو انہی کی طرف لوٹا دیں۔ (آمین)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

مصدر:
http://islamicsham.org/fatawa/2046