جمعہ، 31 اکتوبر، 2014

شام کی طرف ہجرت کرنے والے مہاجرین کے نام ضروری پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد،

شام میں حالیہ ہی ہجرت کرنے والے ایک بھائی نے شام سے محبت کا اظہار مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ کیا:
[مجھے شام سے بہت قریبی محبت ہو چکی ہےاور میں اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ اپنی بقیہ زندگی بھی ادھر ہی گزار دوں]

میں نے اس سے کہا:
[تم مجھے ایک چیز کی ضمانت دے دو، میں تمہیں باذن اللہ اس چیز کی ضمانت دے دوں گا جو تمہیں محبوب ہے]

اس نے جواب دیا:
[میں دس چیزوں کی ضمانت دینے کے لیے بھی تیار ہوں!]

میں نے پھر اُس سے کہا:
[نہیں،  بلکہ صرف ایک ہی چیز کی ضمانت کافی ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ تم جو اپنے ہتھیاروں کا رخ اہلِ شام کے چہروں کی جانب نہیں کرو گے۔۔۔اہلِ شام سے نہیں لڑو گے۔۔۔، ان کے اہل و عیال،  مسلمانوں اور جن لوگوں کا تم دفاع کرنے کی غرض سے شام آئے ہو، انکے خلاف نہیں لڑوگے]

اس نے جواب دیا:
[کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ تو ناممکن بات ہے]

میں نےاُ س سے کہا:
[ہاں، بالکل ایسا ممکن ہے؛ ہم نے یہ پہلے بھی بقیہ علاقوں میں ہوتے دیکھا ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ شام کو اس معاملہ میں استثنا حاصل ہو۔اب اِن گزرتے ایام نے  ہمارے اس خدشے کو واضح کر دیا ہے جس سے متعلق ہم ڈر رہے تھے، اور مسلسل  تنبیہ کر رہے تھے ، اس امید کے ساتھ کہ اس سے بچا جا سکے گا، تاہم بدقسمتی سے اس کی توقع ضرور تھی۔ اب یہ معاملات مسلسل اور بڑے پیمانے پر ہونے لگےہیں ، یہاں تک کہ ان پر قابو پانا  بھی اب مشکل ہوتا جا رہا ہے، اندرونِ خانہ مختلف وجوہات اور اسباب کی بنا پرلوگ قتل ہو رہے ہیں، جن میں اکثریت کا قتل ہونا بے بنیاد ہے، اور جن کا معاملہ درست ہے وہ  بھی غلط اہداف  کو پورا کرنےکے لیے استعمال میں لائے جا رہے ہیں]

میرے پیارے مہاجرین بھائیو، جو شام اور اہل شام کے دفاع کے لیے یہاں پر آئے ہو، اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ جب تک تمہارے اسلحے کا رخ طاغوت بشار الاسد اور اس کے مجرم حمایتیوں کی جانب ہے، تو پھر اہل شام تم سے اور تمہارے جہاد سے سب سے زیادہ خوشی محسوس کرنے والے ہیں ، وہ آپ کو سراہیں گے اور آپ کی قربانیوں کو بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ تاہم اگر تمہارے اسلحے کا رخ اہل شام کے سینوں کی جانب ہو گیا، چاہے وہ دعوی کسی بھی قسم کا ہو، اور تم نے  طاغوت اور اسکے  شریر رافضہ اتحادیوں کی تلواروں کے ساتھ ساتھ اپنی تلواروں کا رخ بھی  اہل شام کے سینوں کی جانب کر لیا ؛ اور اہل شام پر تمہارا ظلم اور طاغوت کا ظلم جمع ہو گیا، تو بلاشبہ اہل شام تمہارے یہاں آنے پر بہت ہی بدنصیب سمجھیں جائیں گے۔ ہم اس چیز کو سخت نا پسند کرتے ہیں کہ آپ اپنے اعمالِ خیر کو اعمالِ بد میں بدڈالیں یا پھر آپ اپنے اچھے اعمال کے اوپر بد اعمال کی مہر ثبت کر لیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے]  (النساء: ۹۳)

مزید براں، صحیح مسلم میں  رسول اللہ ﷺسے ثابت روایت میں بیان ہوتا ہے:
[ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا مال،عزت اورجان، اس شخص کے اندر وافر شر موجود ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو رسوا کرے] (صحیح مسلم)

رسول اللہﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
[میرے بعد دوبارہ کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو] (متفق عليه)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، مہاجر وہ ہے جو اللہ کی طرف سے حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب برتے](صحیح بخاری)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[ مسلمان کو گالی دینا فسوق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے] (متفق عليه)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[ مومن اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں  سے محضوض ہوتا رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرلیتا] (صحیح بخاری)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جو کوئی کسی مومن کو نقصان پہنچائے گا،اس کا کوئی جہاد قبول نہیں کیا جائے گا]  (صحیح الجامع: ۶۳۷۸)

یہ تو اس شخص کی حالت کا بیان ہے جو  کسی مومن کو ’نقصان‘ پہنچائے گا، پھر اس شخص کا معاملہ کیا ہو گا جو اپنا اسلحہ بھی اپنے مومن بھائی کی طرف کرے اور اسے قتل بھی کر دے۔۔۔؟

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا ] (السلسلة الصحيحة: ۳۹۷۳)

بنابریں، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کعبہ کی طرف ایک مرتبہ دیکھا اور یہ ارشاد فرمایا:
[اے کعبہ!  تجھ پر سلامتی ہو، تو کتنا عمدہ ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے،بلاشبہ مومن کی حرمت اﷲکے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے،اللہ تعالیٰ نے تیری ایک چیز کی حرمت کو بیان فرمایا ہے اور ایک مومن کی حرمت سے متعلق تین چیزوں  کا لحاظ رکھا ہے،اس کی جان،مال اور اس  کی عزت سے متعلق سوئے ظن سے کام لینا] (السلسلة الصحيحة: ۳۴۲۰)

میرے پیارے مہاجر بھائیو، تمہیں ایک فتنہ کی لڑائی کی دعوت دی جائے گی جو کہ مجاہدین اور انقلابیوں  کےمابین ہو گی۔ اس جنگ کا حصہ نہ بننا۔ اس چیز کا انکار کر دینا جس سے تم اور تمہارا دین داغ دار  ہو۔ اپنے سفید پاکیزہ ہاتھوں کو اس سے مت رنگنا،بلکہ اس سے فرار اختیار کرنا بلکل اسی طرح جس طرح ایک صحت مند شخص ایک کھجلی والے بیمار شخص سے دور بھاگ جاتا ہے۔تم اس لیے یہاں نہیں آئے ہو، نہ ہی یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم جدوجہد اور قتال کر رہے ہو۔ اگرچہ تمہیں اپنے ہتھیاروں کو توڑنا پڑے، اپنے گھروں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے اور تمہیں اپنے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں ہی کیوں نہ لینی پڑیں، پس اگر کر سکو تو ضرور  کر لینا۔ مزیدبراں، اگر تم سمجھو کہ اس  فتنہ سے بچنا بغیر اپنے ملکوں کی طرف واپس ہجرت کیے بغیرممکن نہیں، تو پھر ضرور یہ کام کر لو، یہ تمہارے لیے اور تمہارے دین کے لیے زیادہ بہتر  اور قابلِ عزت ہےچہ جائیکہ کہ تم مسلمانون کے مابین فتنہ کی لڑائی کا حصہ بن جاؤ، اور اپنے پاکیزہ ہاتھوں کو جو وضو  سے پاک ہوتے ہیں کو  بے گناہ لوگوں اور ناحق خون سے رنگ لو۔ اگر تمہیں اس کے برعکس امر کیا جائے، جو کہ تمہیں ضرور کیا جائے گا، تو اپنے امیر کی اطاعت مت کرنا، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور اس کو کوئی بھی  مقدس دعوی ہو اور اس بات کو  اچھی طرح جان  لو کہ اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز امر نہیں ہے۔

یہی وہ موقف ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کو اپنانے کی  ترغیب دلائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[اگر مسلمانوں کے مابین فتنہ کھڑا ہو جائے، تو  اپنے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں تھام لو] (صحیح الجامع: ۷۶۰)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[بلاشہ فرقہ واریت اور اختلاف ہو گا ، اگر ایسا ہو جائے تو اپنی تلواروں کو توڑ دینا، ایک لکڑی کی تلوار لینا اور اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا حتیٰ کہ تم کسی حادثہ میں جاں بحق ہو جاؤ یا تمہیں موت اس حالت میں آ لے] (صحیح الجامع: ۲۳۹۲)

عديسة بنت أهبان الغفاري سے روایت ہے، جب حضرت علیؓ بن طالب بصرہ میں تشریف لائے، تو وہ میرے والد صاحب کے ہاں تشریف لائے اور کہا: ’ابو مسلم، کیا تم میری حمایت ان لوگوں کے خلاف نہ کرو گے( اس سے ان کا قصد اہل شام، معاویہؓ اور ان کے اصحاب سے جنگ تھی)؟‘ انہوں نے جواب دیا: ’ جی کیوں نہیں! اور اپنی باندی کو آواز دی اور کہا: ’اے باندی، مجھے میری تلوار دے دو‘، غلام عورت نے وہ تلوار ان کے حوالے کر دی، اور پھر انہوں نے اس تلوار کو نیام سے اتنا نکال لیا کہ یہ واضح ہو گیا کہ تلوار لکڑی کی ہے۔ پھر انہوں نے کہا: ’میرے محبوب اور آپ کے چچازاد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے یہ نصیحت فرمائی تھی: ’ اگر مسلمانوں کے مابین فتنہ ظاہر ہو جائے تو لکڑی کی تلوار تھام لینا‘، اگر تم مجھ سے مدد لینے کا ارادہ رکھتے ہو، تو میں اس کے ساتھ ہی تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں‘، سیدنا علیؓ نے جواب دیا:’ مجھے تمہاری اور تمہاری تلوار کی کوئی حاجت نہیں ہے‘۔ (صحیح سنن ابن ماجہ:۳۲۱۴)


اپنی محبت اور مخلصی کے ساتھ تمام دیانتداری کے ساتھ یہ بات میں آپ سے بیان کرتا ہوں، مجھے یہ بات کہنا پڑے گی کہ میں نے آپ کے معاملہ میں تکفیر میں غلو کو دیکھ رہا ہوں، جس کے اندر دوسرے افراد کی تکفیر کی سعی ہوئی ہے اور دوسرے اللہ کے بندوں سے متعلق سوئے ظن رکھنے کی عجلت بھی شامل ہے۔ یہ بہت بڑے شر کا معاملہ ہے جس سے متعلق میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کیونکہ اس کے نتائج بہت ہی بھیانک ہیں۔ چونکہ  دوسروں پر تکفیر میں شدت پسند رحجانات  دکھانے کا پیش خیمہ عام طور پر دھماکے، قتل و غارت اوربغیر حق کے حقوق کا غصب ہونا ہی بنتے ہیں، روزِ حساب میں ملنے والی سزا اس کے علاوہ ہے،  یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہے  جب انہوں نے فرمایا:
[جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کہا: اے کافر، پس  یہ اسے قتل کرنے کے مترادف ہے، اور مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کی مانند ہے] (صحیح بخاری)

رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جس کسی نے دوسرے مسلمان کواے کافر یا ’اللہ کے دشمن‘ کہا، اور وہ شخص ایسا نہ تھا، تویہ بات اس شخص پر جس نے بیان کی ہے واپس لوٹ جائے گی] (صحیح مسلم) (صحیح مسلم)

یہی وہ بات ہے جس کو بیان کرنے کا میں ارادہ رکھتا تھا اور اسی سےمتعلق نصیحت بھی مطلوب تھی۔
[میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں اور مجھے تو صرف الله ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ] (ھود: ۸۸)

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
13.07.2013

www.abubaseer.bizland.com
http://www.altartosi.net

اتوار، 26 اکتوبر، 2014

بیعتِ بغدادی کی صحت سے متعلق شرعی رائے

(جماعت )الدولۃ سے کچھ بھائیوں نے مجھے سوال بھیجا اور اس میں پوچھا ہے کہ کیا ان کے اوپر کوئی گناہ ہے اگر وہ (جماعت) الدولۃ کو چھوڑ دیں اور ان کے گردنوں پر بیعت بھی موجود ہو، اس پر میں کہتا ہوں:

اے سوال کرنے والی بھائی،
میری رائے اس معاملہ پر وہی ہے جو ہمارے شیخ علامہ سلیمان العلوان (فک اللہ اسرہ) کی ہے، جب ان سے بیعتِ بغدادی سے متعلق سوال کیا گیا:
[جس بیعت کاانعقاد اصلاً ہوا ہی نہ ہو وہ (بیعت) باطل ہے اور اسے منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے]

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے]

 مزید ارشاد فرمایا:
[اور کام میں ان سے مشورہ لیا کریں]

 اللہ تعالیٰ نے مشاورت کا حکم دیا، جبکہ اُس وقت وحی کا نزول بھی  جاری تھا،یہ امر معلوم ہوا کہ لوگوں کے آپس کے معاملات بغیر  باہمی مشورےکے صلح کے طریقے  پرطےنہیں ہوتے، مسلمان اس بات پر جمع ہیں کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد  امت کے بہترین شخص ابو بکر صدیقؓ ہیں، اس امر کے باجود صحابہؓ نے اس امر میں مشاورت کی حتیٰ کے تمام اس پر جمع ہو گئے اور لوگ بھی ان کی امامت پر راضی ہوگئے۔

ابن تیمیہؒ ابو بکر صدیقؓ کی بیعت سے متعلق فرماتے ہیں:
[اگر صرف سیدنا عمرؓ اور انکے اصحاب  سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت کرتے اور باقی صحابہؓ  سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت نہ کرتے، تو پھر امامت قائم نہ ہوتی، بلاشبہ سیدنا ابو بکرؓ کی امامت تبھی قائم ہوئی جب جمہور صحابہؓ  ، جو اہل قدرت اور اہل شوکت تھے،نے اُن کی بیعت کر لی]

ابن تیمیہؒ خلافتِ عمرؓ سے متعلق بیان کرتے ہیں جن کو ابو بکر صدیقؓ   (مشاورت کے بعد)منتخب کر گئے تھے:
[ اسی طرح سیدنا عمرؓ کا انتخاب  جو سیدنا ابو بکرؓ  نے کیا تھا، صرف اس انتخاب کی وجہ سے امامت قائم نہ ہوئی،  بلکہ وہ امامت  اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)  کی بیعت اور اطاعت کے بعد  ہی  قائم  ہوئی،   اگر فرض کریں کہ اصحابِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سیدنا ابو بکرؓ کے انتخاب ِ سیدنا عمر ؓ کا عملی نفاذ نہ کرتے اور نہ ہی سیدنا عمرؓ کی بیعت کرتے، تو پھر امامت  قائم نہ ہوتی]

اے بھائی،
اس وقت  شام میں۲۳ملین لوگ آباد ہیں، ان میں جنگجوؤں کی تعداد  ۱۵۰ہزارسے تجاوز کرتی ہے، ان میں ایسے مجاہدین موجود ہیں ، جوتعداد اور شوکت میں اِن (جماعت الدولۃ )سے زیادہ ہیں، بلاشبہ جب کوئی بیعت  وامامت (بغدادی) ان اہل شوکت (مجاہدینِ شام) سے ہی تجاوز کر کے قائم ہو گی، تو ایسی بیعت درست نہیں ہے۔

اسی بنیاد پر سیدنا عمرؓ نے کہا تھا:
[پس اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے]

اے بھائیو! آپ لوگ شام اس لیے نہیں آئے تھے کہ آپ اہلِ شام کے مشورے کے بغیر ہی ان پر حاکم بن جائیں، ہم ان کے پاس  اس لیےآئے تاکہ اپنے قتل کے بدلے اِن کو قتل عام سے بچا نے کے لیے اپنے نفس کو کھپا دیں،  ان کے خون کی جگہ اپنا خون پیش کر دیں، ان کی عزتوں کی حفاظت کے لیے خود کو شام لائے، تاکہ شام میں شریعت کی حاکمیت قائم ہو جائے اور ہم شام میں اہل شوکت کو یہ اختیار دیں کہ جب تک اللہ کی شریعت کے قوانین کی حاکمیت قائم رہتی ہے، وہ جس شخص سے متعلق بھی شروطِ امامت کو پورا ہوتے دیکھیں ، اس کا انتخاب کر لیں ۔

اس سے پہلے جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس کے سیاق میں اپنے بھائیوں سے یہ بات کہتا ہوں:

مسئلہ بیعت:
 یہ بیعت(بغدادی) باطل ہے، جس کا انعقاد نہیں ہوا، اور جو بھی چیز باطل پر کھڑی ہے، وہ خود بھی باطل ہوتی ہے، اس لیے  اس میں کوئی گناہ نہیں کہ آپ (جماعت) الدولۃ کو چھوڑ دیں، اور یہی فتوی دورِ حاضر کے کبار علمائے اسلام نے بھی دیا ہے۔

جہاں تو اس مسئلہ کا تعلق ہے:
الفاظ حدیث:
[جو شخص اس حالت میں مر جائےکہ اس کی گردن پر بیعت نہ  ہو،تو اس کی موت جاہلیت پر ہوئی]

یہ حدیث کسی شخص کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ اس باطل بیعت کے لیے اور خود کو جاہلیت کی موت سے بچانے کے زعم میں اس کا استعمال کرے اور خود ایک جاہلیت سے دوسری جاہلیت کی طرف چلا جائے، اس حدیث کےان  الفاظ (کہ جس کی گردن پر بیعت نہیں) سے مراد  وہ بیعت ہے جس  کا انعقاد صحیح طریقہ پر ہوا ہو، بلاشبہ صحابہؓ نے بغیر بیعت کے حبشہ میں زندگی گزاری اور اسی طرز پر ابو بصیرؓ اور ابو جندلؓ کا معاملہ رہا جو ارضِ بیعت سے دور رہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان سے بیعت نہ لی کیونکہ وہ ان کی زمین (سلطہ) میں نہ تھے، بلکہ وہ ان دوسری زمینوں پر اپنے دین کی وجہ سے داخل ہوئے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں اپنی بیعت کرنے کا  امرنہ  دیا، بیعتِ ولایت  اوربیعت سلطان نہ رہی کیونکہ وہ اُن کی زمین پر موجود نہ تھے۔

شیخ د۔ عبداللہ المحیسنی
بیعتِ بغدادی کی صحت سے متعلق شرعی رائے
ڈاکٹر عبداللہ بن محمد المحیسنی


عربی متن:
http://mhesne.com/index.php?option=com_content&view=article&id=184

ہفتہ، 25 اکتوبر، 2014

کھل گیا بابِ عطا ‘اہلِ وفا کے واسطے

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علیٰ رسولہ الامین وعلیٰ آلہ و صحبہ اجمعین ۔۔۔
امابعد:

شام کے مسلمانوں پر امریکہ کی قیادت میں نئے صلیبی حملے کے تناظر میں ، مسلمانوں کی نصیحت اور کفار کو خبردارکرنے کے لیے ہم اللہ کی توفیق سے یہ کہنا چاہتے ہیں:

بلاشبہ جس دن شام میں اسدی نظام کے خلاف مظاہرے اور مسلح جہاد کا آغاز ہوا اسی دن سے ہی امریکہ نے پورے شدو مد کے ساتھ جہادی عمل کو تاراج کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔ابتدا ہی میں ‘جب کہ جبہۃ النصرۃ نے جماعت قاعدۃ الجہاد کے ساتھ الحاق کا اعلان بھی نہیں کیاتھا ‘اس کا نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں ڈال دیا گیا پھر اس کے بعد امریکہ نے امن کوششوں کے نام پر اہلِ شام پر مسلط کرنے کے لیے سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش جاری رکھی۔اس دوران میں جب مجاہدین کوفتوحات ملنی شروع ہوئیں تو مغربی فوجیں خاموش بیٹھی رہیں تاکہ یہ تاثر دے سکیں کہ وہ ہمارے مددگار ہیں جب کہ فی الاصل وہ ہمارے لیے مرض الموت کی طرح مہلک ہیں۔یہ سارا ڈھونگ اس لیے رچایا گیا تاکہ شام کو ایرانی تسلط سے نکال کر مغرب کے تسلط میں دے دیا جائے۔لیکن متعدد اسباب سے واضح ہے کہ زمینی صورت حال اس سے مختلف ہے ۔۔۔

اسلام کا پاکیزہ جھنڈا شام میں لہرایا ، اس جھنڈے کے لہلہانے سے اہلِ اسلام کا وقار بلند ہوا اور اہلِ شام اس جھنڈے تلے متحد ہوکرمجاہدین کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔انہوں نے جان لیا کہ ظلم و ناانصافی سے نجات کا واحد راستہ اہلِ جہاد کا ساتھ دینے میں ہے ۔امریکہ کے لیے عسکری مداخلت کے راستے میں جو واحد رکاوٹ حائل تھی وہ کسی واضح جواز کا فقدان تھا لیکن وہی جواز اُن کے لیے ’تنظیم الدولۃ‘نے مہیا کر دیا۔

اسی طرح افغانستان و عراق سے امریکہ کی عسکری پسپائی ‘سیکھنے والوں کے لیے عبرت کے دروس سے بھری پڑی ہے ۔لیکن لگتا یہی ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اس شکست سے کامل سبق نہیں سیکھا،وگرنہ وہ اس خطے کی طرف آنکھ نہ اٹھاتے جہاں چہار سو جہاد کاغلغلہ ہے ۔ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہاں اس درس کے کچھ پہلووں کی وضاحت کردیں جس سے غالباً وہ غافل ہیں شاید کہ اس جنگ میں کودنے سے پہلے ان کی عقل میں یہ بات آجائے کہ وہ ایک آتش فشاں کے دھانے پر کھڑے ہیں اور اگر انہوں نے اس پر ضرب لگائی تو اُس کا لاوہ انہیں بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔یہ خطہ جسے مشرقِ وسطیٰ کہا جاتا ہے اس وقت ایک ابلتے ہوئے آتش فشاں کی مانند ہے اگر کسی نے اس پر ہاتھ ڈالنے یا اس میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو یہ سارا خطہ شدید بھونچال کی زد میں آجائے گا چاہے حملہ آور کتنی ہی بڑی بادشاہت یا طاقتور ملک کیوں نہ ہو، اس کی دو وجوہات ہیں:

پہلی وجہ یہ ہے کہ مغرب اب بھی ان مسلمان ممالک کی عوام کو ان پر مسلط حکمرانوں کی آنکھ سے دیکھ رہا ہے جب کہ حقیقت میں عوام پر ان حکمرانوں کی گرفت کمزور ہو چکی ہے اور یہ حکومتیں نہ صرف اپنی رعایا کو قابو کرنے کی قدرت کھو چکی ہیں بلکہ عوام سے خوف زدہ بھی ہیں۔ ان کی غلامی اور خیانت ہر چھوٹے بڑے پر عیاں ہو چکی ہے کہ انہوں نے فقط دھوکے اور چال بازی سے اپنی کرسیوں کو بچا رکھا ہے ۔یہ سب حکومتیں اس وقت اسی خدشے کا شکار ہیں کہ کس وقت عوام کے ہاتھوں ان کے اقتدار کی آخری رمق بھی ختم ہوجائے اور خطے میں جدید مغربی یلغار کے آغازکے بعد ایسا ہی ہونے والا ہے ۔دروغ گو میڈیا کا دور چلا گیا جو جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو ان کے کٹھ پتلی ،فاسدو مرتد حکمرانوں کے بارے میں مطمئن کر دیا کرتا تھا۔نہ ہی سیکورٹی ایجنسیاں اب اس بات پر قادر ہیں کہ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر حکمرانوں کے خلاف آواز یا اسلحہ اٹھانے سے روک سکیں۔یہ افواج جن کی کمزوری کھل کر سامنے آچکی ہے ،مجاہدین کی ضربوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔اسی طرح ان علمائے سلطان کی طرف رجوع اور دلچسپی بھی ختم ہو چکی ہے جو اپنے بادشاہوں کی رضا کے مطابق حلال و حرام کے فتوے دیتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ آج حقیقی اسلام اس خطے کے عوام کی آواز بن چکا ہے ، جس کا مقدمہ مجاہدینِ صادقین ہیں۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کا اسلام !جو بہت ضعف کی حالت میں اٹھا اور پھر اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اسے اتنی قوت دی کہ اس نے مشرق و مغرب کی عظیم بادشاہتوں کو زیرِ نگوں کردیا۔آج مسلمان عوام شعوری طور پر اس تنازعے اور معرکے کی حقیقت کو سمجھ چکے ہیں۔یہ وہی قدیم تاریخی کشمکش ہے جو صدیوں سے حق و باطل کے مابین جاری ہے جس میں ایک طر ف یہود اور روم و فارس کی سلطنتیں ہیں اور دوسری طرف مسلمان ہیں۔موجودہ دورمیں بھی اورمستقبل میں بھی پیش آنے والے معرکے اسی کشمکش کاتسلسل ہیں،جس میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کی نصرت سے اہلِ اسلام کا پلڑا ہی بھاری ہوگا۔اس خطے پر قابض ان قوتوں کے مابین طاقت کی یہ تقسیم تین ہزار سال پرانی ہے اور تاریخ میں صرف اسلام نے ہی اس کو شکست دی ہے اور آج بھی اہلِ اسلام ہی اس جنگ کا نیا نقشہ کھینچیں گے۔عراق، شام اور لبنان میں فارس کی قدیم بادشاہت کے اعادے کی تیاری ہے اسی طرح خائن حکمرانوں کے ہاتھوں یمن ،خلیجی ریاستیں اور مصر ‘ روم(نصاریٰ) کے تسلط میں ہیں اور اردن و فلسطین پر یہود کا قبضہ ہے ۔ان میں سے ہر کوئی اپنے نفوذ کو بڑھانے اور تسلط کو وسعت دینے کی کوشش میں ہے۔ ان حالات میں صرف اہلِ جہاد ہی ہیں جنہوں نے ان کا راستہ روک رکھا ہے اور ان کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ جیسا کہ مجاہدین کی قوت روز بروز بڑھ رہی ہے اور عوام کی بڑی تعداد مجاہدین کے ساتھ شامل ہو رہی ہے ۔اس صورت حال سے یہ واضح ہے کہ اگر خطے میں مسلمانوں کے خلاف کسی جارحیت یا عسکری مداخلت کی کوشش کی گئی تو لبنان،اردن ،فلسطین،جزیرۃ العرب، یمن المدداور ارضِ کنانہ مصر ،مغربِ اسلامی اور مشرقی ایشیاکی اقوام کی طرف سے اس کے خلاف شدیدمزاحمت سامنے آئے گی۔

حالیہ تاریخ میں اس کے واضح دلائل کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ مغربی اقوام کو ان کی قیادت کی مسلمانوں کے خلاف جنگ چھیڑنے کی حماقت سے آگاہ کردوں۔بش بھی ایک دہائی پہلے بڑے تکبر سے طالبان کی حکومت گرانے کے لیے نکلا تھااور دس سال بعداوباما اپنی عوام کو یہ تسلی دے رہا ہے کہ ہم طالبان سے مذاکرات اور بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں۔جماعت قاعدۃ الجہاد جو امریکی حملے سے پہلے صرف افغانستان تک محدود تھی اب پاکستان ،یمن ،صومالیہ،مالی،الجزائر،عراق اور پھر شام تک پھیل گئی ہے اور ابھی حال ہی میں برصغیر کے لیے اس کی شاخ کا اعلان ہو گیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے ۔جنگ رکی نہیں بلکہ وسیع ہو گئی ہے اور مجاہدین اللہ کے فضل سے مغرب کے حکمرانوں کی حماقتوں کے ثمرات سمیٹ رہے ہیں۔اگر افغانستان پر حملے کے نتیجے میں جماعت قاعدۃ الجہاد کو اتنی ترقی نصیب ہو ئی ہے تو شام کی حساس جغرافیائی اور تاریخی حیثیت سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شام پر امریکی حملے کا کیا نتیجہ نکلے گا۔اگرچہ ہمیں کچھ آلام ومصائب برداشت کرنے پڑیں گے لیکن ان شاء اللہ مغرب‘ شام میں جو جنگ چھیڑنے جارہا ہے وہ ان کے لیے خسارے اور ہمارے لیے نفع کا باعث ہو گی۔اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِن تَکُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّہِ مَا لاَ یَرْجُونَ وَکَانَ اللّہُ عَلِیمًا حَکِیمًا(النساء:۱۰۴)
’’اگر تم بےآرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بےآرام ہوتے ہو تو اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا (اور)بڑی حکمت والا ہے ‘‘۔

اگر مغرب ‘دور سے یا اپنے غلاموں کے ذریعے ہمارے خلاف لڑائی جاری رکھنا چاہتا ہے تو ہمیں یقین ہے کہ اس جنگ کے اخراجات اس حد تک ناقابلِ برداشت ہو جائیں گے کہ انہیں پلٹ کر آنے میں مزید سو سال لگیں گے۔اے امریکہ اور یورپ کے عوام !مسلمانوں اور مجاہدین کے خلاف تمہاری یہ جنگ تمہارے ملکوں اور بیٹوں کے لیے مصائب و آلام کے علاوہ کسی چیز میں اضافہ نہیں کرے گی ۔ کیا تم مسلمانوں کے معاملات میں مداخلت ،ان کے ملکوں پر غاصبانہ تسلط،ان کے وسائل کی لوٹ مار اور خطے میں یہود کی پشتی بانی کے نتائج بھول گئے ہو؟کیا تمہیں افغانستان و عراق اور صومالیہ میں قتل و زخمی ہونے والے اپنے ہزاروں بیٹے یاد نہیں؟ کیا معرکہ گیارہ ستمبر اور ایس ایس کول کے احوال تمہاری نظروں سے ہٹ گئے ہیں اور خطے میں پھیلے ہوئے تمہارے وہ مفادات جو مجاہدین کے نشانے پر ہیں؟کیا تمہیں ان خود ساختہ جنگوں پر اٹھنے والے بے پناہ اخراجات کا علم نہیں جو تمہارے ملکوں میں آنے والے اقتصادی بحران کا سبب ہے ؟ خدشہ یہ کہ شاید تمہارے حکمران تمہیں اس دھوکے میں رکھیں کہ تمہاری فوجیں زمین پر نہیں اتریں گی اور وہ دور سے ہی بم باریاں کرتے رہیں گے اور تمہارے بیٹے مجاہدین کی ضربوں سے محفوظ رہیں گے۔نہیں بلکہ عنقریب یہ جنگ تمہارے ملکوں کے قلوب(مرکزی شہروں) تک پہنچے گی ۔یہ نہیں ہو سکتا کہ مسلمان اپنی سرزمینوں میں اپنے بچوں کو تمہاری بم باریوں میں قتل ہوتا دیکھتے رہیں اور تم چین سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو!یہ جنگ صرف تمہاری قیادت تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کا بڑا حصہ تمہیں ہی لڑنا پڑے گا!اس لیے تمہیں چاہیے کہ اپنے آپ کو اس جنگ کی مصیبتوں سے بچانے کے لیے اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہو جاؤ اور انہیں اپنے ملکوں اور گھروں پر جنگ کی تباہی مسلط کرنے سے روکو۔یاد رکھو! تمہارے یہ حکمران تمہارے سامنے یہی نقشہ کھینچنے کی کوشش کریں گے کہ ان کی یہ جنگ تمہاری حفاظت کے لیے ہے ۔خبردار رہو !اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَقَدْ مَکَرَ الَّذِینَ مِن قَبْلِہِمْ فَلِلّہِ الْمَکْرُ جَمِیعًا یَعْلَمُ مَا تَکْسِبُ کُلُّ نَفْسٍ وَسَیَعْلَمُ الْکُفَّارُ لِمَنْ عُقْبَی الدَّارِ (الرعد:۴۲)
’’جو لوگ ان سے پہلے تھے وہ بھی (بہتیری) چالیں چلتے رہے ہیں سو چال(تدبیر) تو سب اللہ ہی کی ہے۔ ہر متنفس جو کچھ کر رہا ہے وہ اسے جانتا ہے۔ اور کافر جلد معلوم کریں گے کہ عاقبت کا گھر (یعنی انجام محمود) کس کے لیے ہے‘‘۔

شیخ اسامہ تقبلہ اللہ کی طرف سے تمہیں یہ تنبیہ کئی دفعہ پہنچ چکی ہے کہ مجاہدین کے ساتھ جنگ سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ تم ہمارے خطوں میں اپنی مداخلت مکمل طور پر ختم کردو،یہود کی حمایت اور پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا لو،مسلمانوں کے وسائل کی لوٹ مار بند کر دو اور ہمیں ہمارے حکمرانوں سے حساب برابر کرنے کے لیے چھوڑ دو تو ہمیں تم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔اگر تم اپنے ملکوں تک محدود رہو تو مجاہدین اور مسلمانوں سے امن میں رہ سکتے ہو۔لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا اور اپنے حکمرانوں کے ذریعے مسلمانوں کے دلوں میں اپنی نفرت بھرتے رہے تو پھر ہماری امت کی مائیں بھی تمہاری خبر لینے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ،سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ اور شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ جیسے قائدین پیدا کرتی رہیں گی۔بے شک خطے کی جنگوں نے تمہارے مقابلے کے لیے ایسے ہزاروں نوجوان تیار کر دیے ہیں جنہیں جنگ سے کوئی خوف نہیں ہے ۔جو طیاروں کی بم باری سے الفت رکھتے ہیں ، ٹینکوں کو للکارتے ہیں ، دھماکوں اورتوپوں کی گھن گرج کے درمیان لڑتے ہیں۔ایسی نسلیں جنھیں موت سے عشق ہے اور جن کی زندگی کی سب سے بڑھ خواہش یہ ہے کہ ان کی قیمتی جانیں جہاد فی سبیل اللہ میں قربان ہو جائیں ۔مسلمانوں کے لشکر سے یہ تمہارا پہلا آمنا سامنا نہیں ہے ۔۔۔تم جانتے ہو کہ اسلام کے سپاہی جب تم سے قتال کر رہے ہوتے ہیں تو اپنے رب سے دعاگو ہوتے ہیں کہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوجائیں۔یہی وہ جذبۂ ایمانی ہے جس سے تم محروم ہو ، جس کے سبب ہم نے پہلے بھی تمہاری روم و فارس کی سلطنتوں کو شکست دی اور یہود کو جزیرۃ العرب سے بے دخل کیا۔جس کی وجہ سے ہمارے قدم یورپ کے دروازے تک پہنچے اور ماسکو ‘اسی (۸۰)سال تک مسلمانوں کو جزیہ دیتا رہا۔۔۔اے ہمارے اہلِ شام!آپ کے صبر،باطل کے سامنے مزاحمت اور بشار کے مظالم کے مقابلے میں جفا کشی نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔

آپ تین سال سے زائد عرصے سے بم باریوں میں اپنے گھروں کو تباہ اور بچوں کو قتل کروارہے ہیں اور دشمن کے ساتھ اس قتال میں لہو لہان ہیں ۔۔۔اہلِ سنت پر بربریت کی انتہا کر دی گئی ہے لیکن آپ نے تاریخ کے صفحات پر استقامت و ثابت قدمی کی ایسی مثال رقم کی ہے جسے نسل در نسل یاد رکھا جائے گا۔آپ نے ایسی جنگ کا بوجھ اٹھایا ہے جو دنیا کی کسی اور قوم پر پڑتا تو وہ نہ اٹھا سکتے اور اس سے آپ کے صبر ویقین میں ہی اضافہ ہوا ہے ۔بے شک یہ صلیبی اتحاد آپ پر اس لیے حملہ آور ہوا ہے تاکہ جابر نظام کے خلاف آپ کی فتوحات کے ثمر کو ضائع کر کے آپ کو دوبارہ بشار کی غلامی میں دے دے۔آپ سے صرف اس بات کا انتقام لیا جارہا ہے کہ آپ نے غلامی سے نجات کا حقیقی راستہ پہچان لیا ہے ۔انہوں نے آپ کے ساتھ مصر میں سیسی اور یمن میں آقا کے غلام منصور جیسا ڈرامہ رچانے کی کوشش کی لیکن اللہ سبحانہ تعالیٰ کے فضل ، باطل و اہلِ باطل کے مقابلے میں آپ کے صبر و ثبات او ر معزز جہاد کی وجہ سے مغرب کی مکروہ خواہشات پوری نہیں ہو سکیں۔مغرب نے تین سال تک آپ کے جہاد کو ناکام بنانے کے لیے طرح طرح کی کوششیں کیں،کبھی علاقائی حکومتوں سے تعاون کے ذریعے،کبھی آپ کے اور مسلمانوں کے خون کا سودا کرنے والے خائنوں کی حمایت کرکے اور کبھی اندر کے لوگوں کو خرید کر، تاکہ جدید صلیبی منصوبے کی تنفیذ کی جاسکے۔کبھی خاموشی و مہلت کا ڈھونگ رچا کر،کبھی کیمیائی بم باری کے جرائم پر دوغلی پالیسی اپنا کر !لیکن جب یہ سب حربے اور چالیں کارگر نہ ہوسکے تو یہ نیا صلیبی اتحادخود اس مہم کو سر کرنے کے لیے آیا ہے اور اس نے آپ کے جبہۃ النصرۃ کے بیٹوں اور بے گناہ عورتوں اور بچوں پر بم باری شروع کی اور ان کے گھروں کو زمین کے ساتھ ہموار کر دیا۔اے اہلِ شام! اللہ گواہ ہے کہ صلیبی اتحا دجن بم باریوں میں ہمیں ہدف بنا رہا ہے وہ نصیری نظام کے دفاع کے لیے ہمارے خط اور مورچوں کو کمزور کرنے کے لیے ہیں۔

حلب کے میدان ہمارے رباط و قتال کے شاہد ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اس نقصان کا زیادہ اثر جبہۃ النصرۃ کی بجائے مقامی آبادی پر ہوگا۔اس لیے اے اہلِ شام! آپ کو چاہیے کہ اس معاملے میں سخت موقف اپنائیں اور مقامی لوگوں میں سے جو کوئی صلیبیوں کا ساتھ دے اس سے شدت سے نمٹیں۔اللہ کی قسم !ہمارا سب کچھ آپ پر قربان ہے اور ہم آپ کے دفاع کے لیے اپنا خون پیش کریں گے!۔۔۔بے شک اہلِ وفا کے لیے عطا کے دروازے کھل گئے ہیں!!!۔۔۔ولاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ۔۔۔ہمارا آپ سے وعدہ ہے کہ جبہۃ النصرۃ اللہ کے اذن سے اپنی پوری قوت کو بروئے کارلاتے ہوئے اللہ کے دشمن نصیری نظام اور اس کے حلیفوں کے خلاف لڑے گی۔ہم اپنا سب کچھ شام اور اہلِ شام اور یہاں موجود مہاجرین کے صلیبی حملے سے دفاع میں لگا دیں گے اور سارے دستیاب وسائل اس غرض کے لیے کھپا دیں گے۔میں میدان میں موجود تما م مخلص مجاہدین کے مجموعات کو یہ نصیحت اور تنبیہ کرنا چاہوں گاکہ اگرچہ جماعت الدولۃ نے آپ کے قائدین کو قتل کرکے اور آپ کے اموال پر قبضہ کرکے بہت ظلم و زیادتی کی ہے اور ہم شام کو جس شر سے بچانا چاہ رہے تھے ‘وہ اس کو شام میں لے آئی ہے اور سارے قضیے کے شرعی محاکمے سے بھی انکار کیا ہے ۔۔۔لیکن یہ سب کچھ آپ کو امریکہ اور مغرب کے بارے میں کسی دھوکے میں نہ ڈالے،کوئی اس معاملے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ نہ دے !جن کا مقصد حملے کے ابتدائی اہداف حاصل کرنے کے بعد شام میں لادین نظام یا نصیریوں کے ساتھ کوئی سیاسی سمجھوتہ کرناہے ۔لہٰذا جو کوئی جماعت الدولۃ کے مسئلے کو یا اس جیسے کسی اور مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اپنی حیثیت میں جو کچھ کر سکتا ہے کرے لیکن صلیبی اتحا د کا حصہ ہرگز نہ بنے۔ اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ الْیَہُودَ وَالنَّصَارَی أَوْلِیَاء بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء بَعْضٍ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَإِنَّہُ مِنْہُمْ إِنَّ اللّہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ (المائدۃ:۵۱)
’’اے ایمان والو!یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ۔ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں۔ اور جو شخص تم میں سے ان کو دوست بنائے گاوہ بھی انہی میں سے ہوگا۔ بے شک اللہ ‘ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔


کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ مغرب اور امریکہ ،شام میں مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے آئے ہیں۔ یہاں پر ہی بشار گذشتہ تین سال سے بم باریوں اور کیمیائی ہتھیاروں سے اہلِ سنت کو قتل و ذبح کرنے اور اذیتیں پہنچانے میں مصروف ہے اور لاکھوں مسلما ن اس کے مظالم کی وجہ سے شہید اور زخمی ہو چکے ہیں لیکن یہ امن کے نام نہاد دعوے دار تماشا دیکھ رہے ہیں۔کیا یہ وہی نہیں ہیں جنہوں نے عراق و افغانستان میں ہمارے بھائیوں کا قتلِ عام کیا؟ جو یہود یوں کی مالی اور عسکری امداد کے ذریعے فلسطین میں مسلمانوں کے قتلِ عام میں شریک ہیں۔وہی جنہوں نے یمن و صومالیہ اور وزیر ستان میں بم باریوں میں زمین کے پاکیزہ ترین نفوس کو شہید کیا۔اے ارضِ شام میں لڑنے والے مجموعات !یاد رکھیں کہ شرعی ،فطری اور تاریخی ہر حوالے سے یہ ایک قبیح ترین وصف ہے کہ کوئی اپنے ملک و حرمت پر حملہ آور دشمن کے ساتھ مل جائے ۔یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ کسی کے دل میں آئے کہ اگر وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مغرب سے مل جائے گا ،ان کے شر سے محفوظ رہے گا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

فَتَرَی الَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ یُسَارِعُونَ فِیہِمْ یَقُولُونَ نَخْشَی أَن تُصِیبَنَا دَآءِرَۃٌ فَعَسَی اللّہُ أَن یَأْتِیَ بِالْفَتْحِ أَوْ أَمْرٍ مِّنْ عِندِہِ فَیُصْبِحُواْ عَلَی مَا أَسَرُّواْ فِی أَنْفُسِہِمْ نَادِمِینَ (المائدۃ:۵۲)
’’ تو جن لوگوں کے دلوں میں (نفاق کا)مرض ہے تم ان کو دیکھو گے کہ ان میں دَوڑ دَوڑ کے ملے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہمیں خوف ہے کہ کہیں ہم پر زمانے کی گردش نہ آجائے۔ سوقریب ہے کہ اللہ فرح بھیجے یا اپنے ہاں سے کوئی اور امر (نازل فرمائے)پھر یہ اپنے دل کی باتوں پر جو چھپایاکرتے تھے پشیمان ہو کر رہ جائیں گے‘‘۔

جیسا کہ نام نہاد خائن شریفِ مکہ نے خلافتِ عثمانیہ کے ظلم کو حجت بنا کر اس سے خلاصی کے بہانے برطانیہ اور فرانس کے تعاون سے بغاوت کی۔۔۔اس کا گمان تھا کہ وہ بڑااچھا کام کررہا ہے لیکن تاریخ میں اس کا نام ہمیشہ کے لیے قبیح افراد میں لکھا گیا۔ اس کے آخری دور میں خلافتِ عثمانیہ کے ظلم کی جگہ یہود یوں کے مظالم اور معاہدہ بالفور نے لے لی جس کے بارے میں ہم ہر وقت اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ کب اس سے ہماری جان چھوٹے گی۔پھر جب برطانویوں نے اسے اس خسیس کام کے لیے استعمال کر لیااس کے بعد بمشکل ایک دن اس کی طاقت باقی رہ سکی۔۔۔لیکن ہم پہلے عراق پر برطانویوں اور شام پر فرانسیسیوں کے تسلط کی شکل میں اور پھر آج تک خطے میں امریکی تسلط کی صورت میں ب تک اس کی خیانت کو بھگت رہے ہیں۔۔۔گزشتہ سو سال سے ہماری نسلیں ذلت و رسوائی کی شکل میں اس کی قیمت چکا رہی ہیں۔

اب جب کہ سنجیدہ بنیادوں پر ان غلامی کے بادلوں کے چھٹنے کے اقدامات شروع ہو چکے ہیں تو کیا ہم پھر اسی قیدِقفس کی طرف لوٹ جائیں؟ ہرگز نہیں !ہمارے سمیت تمام مخلص اہلِ ایمان قطعاًفلسطین جیسے کسی سانحے کو دہرانے یا اسلام کے منصوبے کو ناکام بنانے کی اجازت نہیں دیں گے جس کے لیے ہم نے اور امتِ مسلمہ کے اور اہلِ سنت کے نمائندہ مجاہدینِ صادقین کی نسلوں نے اپنا سب کچھ قربان کیا ہے ۔بلاشبہ آج اہلِ سنت کی مسلم اقوام اس فیصلہ کن تاریخی لمحے کے انتظار میں ہیں جب مجاہدینِ صادقین ان کو ذلت و رسوائی کی اس دلدل سے نکال لیں گے اور غلامی کی ان زنجیروں سے نجات دلائیں گے جن میں وہ جکڑے ہوئے ہیں ،جو مغرب کی مدد کا خواب دیکھنے والوں کے بس کی بات نہیں ہے ۔ہم وہ لوگ ہیں جو کیسی ہی گردشِ ایام کا شکارہ ہوجائیں یا کیسے ہی مشکل حالات میں گرفتار ہوجائیں لیکن اپنی تاریخ ،شاندار ماضی اور اپنی بنیاد کو کبھی فراموش نہیں کرتے اسی کے لیے جیتے ہیں اور اسی پر جان دیتے ہیں اور اسی پر ان شاء اللہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے۔

قُلْ ہَذِہِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَی اللَّہِ عَلَی بَصِیرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی وَ سُبْحَانَ اللَّہِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِین(یوسف:۱۰۸)
’’کہہ دو میرا راستہ تو یہ ہے۔ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں (ازروئے یقین و برہان)سمجھ بوجھ کر۔ میں بھی (لوگوں کواللہ کی طرف بلاتا ہوں)اور میرے پیرو بھی۔ اور اللہ‘ پاک ہے۔ اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں‘‘۔

ہم علما ،طلبا،داعیان،ادیبوں ،شعراء اور ہر باصلاحیت صاحبِ قلم کو دعوت دیتے ہیں کہ اس جدید صلیبی حملے کے خلاف اہلِ شام کی نصرت کریں۔۔۔اپنے مجاہد بیٹوں کی حرمت کا دفاع کریں اور نوجوانوں کو تحریض دلانے اور ان کی رہنمائی کرنے میں اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔

اے لبنان کے اہلِ سنت!وقت آپہنچا ہے کہ آپ اپنے شامی بھائیوں کا بھرپور ساتھ دیں۔اپنے دشمن حزب الشیطان سے برأت کا اظہار کریں جو دن رات آپ کو دھوکہ دینے میں مصروف ہیں ،جنہوں نے شام میں اہلِ سنت کو یرغمال بنا رکھا ہے اور بے دریغ ان کے بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں کو قتل کر رہے ہیں۔۔۔انہیں موقع ملنے کی دیر ہے جب وہ یہ ہی بربریت لبنان کے اہلِ سنت پر ڈھائیں گے ۔۔۔انہوں نے پچھلے عرب انقلاب کے بعد ہی دانت تیز کرنے شروع کر دیے تھے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو چودہ سو سال سے اہلِ سنت کے ساتھ انتقامی رویہ رکھے ہوئے ہیں اور انہیں اپنا اولین دشمن سمجھتے ہیں۔۔۔وہ حضرت امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا بدلہ لینے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اسی ایک نقطے پر ان کا سارا دین قائم ہے اوراسی جھوٹ کو وہ اہلِ سنت کے قتال کا جواز بناتے ہیں۔۔۔ دراصل یہ ایران کا وہ حیلہ ہے جو اس نے اپنی اس سلطنت کوواپس لینے کے لیے اپنایا تھا جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے چھینی تھی۔۔۔

آج لبنان میں حزب اللہ کو شدید داخلی توڑ پھوڑ کا سامنا ہے اور جیسے جیسے یہ صورت حال آگے بڑھ رہی ہے اہلِ عقل اس سے خوف زدہ ہیں۔۔۔لیکن مسکین حسن نصراللہ نے شام میں نصیری نظام کی درگت اور مجاہدین کے ہاتھوں اپنے سیکڑوں لوگوں کے قتل سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی،نہ ہی اپنے ملک کے جنوبی علاقوں میں ہونے والے ریموٹ کنٹرول دھماکوں سے کوئی سبق سیکھا ہے ، نہ ہی عراق میں روافض کا حشر اس کو نظر آ رہا ہے! اسے ہر اس گروہ کے عبرت ناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہیے تھا جس نے اہلِ سنت کو ایذا دینے کی کوشش کی لیکن وہ اپنے زخموں کو مندمل کرنے کے لیے شام میں اہلِ سنت کے خلاف کارروائی کرنے پر مُصر ہے ،عرسال اور اس سے پہلے کے بہت سے واقعات ہر کسی پر واضح کرتے ہیں کہ لبنانی فوج حزب الشیطان کے امر کے تحت اور اسی کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہے اور لبنان میں رافضی منصوبے کی تکمیل کے لیے بنائی گئی ہے۔

تو اے اہلِ لبنان !اپنے بیٹوں کو اس فوج سے دور رکھو جو تمہارے دشمن کی خدمت کے لیے بنائی گئی ہے بلکہ انہیں مجاہدین کی صفوں میں شامل کرو جو عقیدے اور دین کے محافظ اور مسلمانوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے برسرِ پیکار ہیں۔

اے جبہۃ النصرۃ کے مجاہدین!تم نے جو کچھ کیا اللہ عزو جل اس پر تم سے راضی ہوگا اور تمہارا ذکرِ جمیل باقی رہے گااور جنت کے در تمہارے لیے کھلے ہوئے ہیں۔اے گروہِ مجاہدین اللہ کی مدد کرو وہ تمہاری نصرت کرے گا اور اللہ کے راستے میں قتال کرو اور اپنی جانوں کا احتساب کرو۔

یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّہَ(آل عمران:۲۰۰)
’’اے اہل ایمان (کفار کے مقابلوں میں)ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور (مورچوں پر)جمے رہو اور خدا سے ڈرو تاکہ مراد حاصل کرو‘‘۔

جان رکھو! اس کے بعد تمہیں ایسے کسی دشمن سے واسطہ نہیں پڑے گا ۔بے شک ہمارے اور ان کے درمیان اسی معرکے کا فاصلہ ہے۔ پھر ہم اللہ تعالیٰ کے اذن سے ان کو مفلوج کرکے رکھ دیں گے،ان شاء اللہ۔۔۔خبردار !پیٹھ نہ پھیرنا کہ تمہیں اللہ عزوجل کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے۔

یہ صلیبی اتحاد آپ کو قتل کرنے اور آپ کے دین سے ہٹانے کے لیے آپ پر حملہ آور ہوا ہے ۔دنیا نصیریوں کے خلاف جنگ میں آپ کی اور اہلِ شام کی بے مثال قربانیوں کو دیکھ چکے ہیں۔۔۔بلا شبہ ہم نے اپنے بہترین نوجوان اور مرد میدانِ جنگ میں اتارے ہیں۔۔۔آپ سے انتقام صرف اس وجہ سے لیاجارہا ہے کہ آپ اہلِ سنت کا دفاع کررہے ہیں اورمجمع خلائق بن چکے ہیں!اب آپ کو ایک نیامعرکہ درپیش ہے جس میں صلیب کے غلام اور ان کے آلہ کار عرب کا کوڑا کرکٹ آپ کے مدِ مقابل ہے ۔۔۔اللہ کی قسم! بلاشبہ یہ تمہارے لیے[ترنوالہ] ہیں اور کبھی تمہارے اوپر غالب نہیں آسکتے۔

اے اہلِ اسلام! ان کے طیارے تمہیں خوف زدہ نہ کریں ،وہ تمہارے سامنے آنے سے ڈرتے ہیں اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات ان سے بڑھ کر کہیں زیادہ ارفع و اعلیٰ ہے ۔۔۔اے اہلِ ایمان!اے حاملینِ قرآن !تم میں سے جو کوئی مارا جائے گا ،ان شاء اللہ جنت میں جائے گا اور تمہارے دشمنوں میں سے جو کوئی مارا جائے گا اس کاٹھکانہ جہنم ہے کیوں کہ باغی ہرحال میں رسوا ہوتا ہے ۔میں آپ کو بشارت دینا چاہتا ہوں کہ یہ ان شاء اللہ فتح کی ابتدا ہوچکی ہے۔۔۔

وَمَکَرُواْ وَمَکَرَ اللّہُ وَاللّہُ خَیْرُ الْمَاکِرِینَ (آل عمران:۵۴)
’’اور وہ [کافر]چال چلے اور اللہ تعالیٰ بھی چال چلا اور خدا خوب چال چلنے والا ہے‘‘۔

اے جبہۃ النصرۃ کے سپاہیو!عامۃالناس سے جڑ جاؤاور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو۔۔۔ان کی خدمت میں جُت جاؤ،ان سے انکساری سے پیش آؤ۔۔۔زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا،بچوں سے شفقت اور بڑوں کا احترام کرو،ان کی رائے کااحترام کرو اور مشورے کو قبول کرو۔۔۔جاہلوں کی جہالت سے بچو ،بے شک عوام میں حق کی غیبت ہمیشہ سے ہوتی آئی ہے ۔۔۔جو لوگ آپ کے ساتھ جڑے ہیں ان پر بے جا سختی نہ کرو اور ان کی جان و مال کے تحفظ میں اور بھی محنت کرو۔۔۔ مہاجرین اور ان کے خاندانوں کے بارے میں مَیں تمہیں اللہ سے ڈراتا ہوں! ہر انصاری کا فرض ہے مہاجر کے ساتھ مواخات قائم کرے ،اسے اپنے گھر میں پناہ دے اور اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کرے۔۔۔اہلِ علم اور علماکے وقار کا خیال رکھو اور حکماکی بزرگی کی حفاظت کرو۔۔۔معروف میں اپنے امرا کی سمع و اطاعت کرو۔۔۔میں تمہیں ظلم سے خبردار کرتا ہوں کہ ظلم تو قیامت کے اندھیروں میں سے ایک اندھیرا ہے۔۔۔لوگوں کی امانتیں ان کو ادا کرواور جو تم سے خیانت کرے اس سے خیانت نہ کرو۔۔۔حق داروں کو ان کا حق ادا کرو اور انصاف سے کام لو،کسی قوم کی دشمنی تمہیں عدل سے روکنے نہ پائے۔۔۔ حق سے جڑے رہو اور اللہ کے راستے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرو۔۔۔اپنے گناہوں پر اللہ سبحانہ تعالیٰ سے استغفار کرو۔۔۔باطل کا جواب باطل سے نہ دو بے شک باطل حق سے ٹکرا کر ختم ہو جائے گا۔۔۔دیگر مخلص مجموعات کے ساتھ ہر خیر میں تعاون کرو اور اسلام اور توحید کی بنیاد پر اپنے مابین رابطے کو مضبوط بناؤ،اسی بنیاد پر دوستی و دشمنی کرو اور اسلام کے حکم پر مجتمع رہو۔۔۔صلیبیوں کے آلہ کار گروہوں سے خبردار رہو ،ان سے کسی قسم کا اتحاد نہ کرو۔۔۔اپنے دشمن کے مقابلے میں شدید ہو جاو،کسی جاسوس ،مخبر یا صلیبیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے سے کوئی نرمی نہ کرو۔۔۔اللہ کی اطاعت کرو اور اپنے باہمی معاملات کی اصلاح کرو۔۔۔یاد رکھو! ہزیمت ہمیشہ دلوں کے آپس میں پھٹنے سے آتی ہے !غیبت کرنے والے اور چغل خور سے خبردار رہو۔۔۔کوئی جادوگر ایک سال میں اتنا فساد نہیں مچاتا جتنا چغل خور ایک لمحے میں مچا دیتا ہے ۔۔۔غلو سے بچو اور خوارج و مرجۂ کی فکر سے کوسوں دور رہو۔۔۔لوگوں کے درمیان ہمیشہ عدل سے فیصلہ کرو اور حالاتِ حاضرہ ،زمینی حقائق اور عوام کی صورتحال کی رعایت کرو۔۔۔متشابہات کی حدود سے دور رہو،جس معاملے کا علم نہ ہو اس میں کوئی رائے قائم نہ کرو۔۔۔مشکل حالات میں بھی خود اپنے لیے فتوے صادر نہ کرو بلکہ جس معاملے میں اشکال ہو اہلِ علم اور علما سے رہ نمائی حاصل کرو۔
فتح ہمیشہ صبر کے بعد ہی ملتی ہے اور تنگی کے بعد آسانی ہے ۔تمہارے رب نے اپنی کتاب میں تم سے یہ وعدہ کیا ہے

إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ(محمد:۷)
’’اے اہل ایمان ! اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا ‘‘۔

اللہ کی قسم !مجھے اس آزمائش میں تمہارے لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے عظیم خیر اور بڑے درجات نظر آرہے ہیں۔

اے اللہ! ہمارے مقتولین کو شہدا کے درجات عطا فرما اور آخرت میں اپنے انعام یافتہ انبیاء ،صدیقین،شہدااور صالحین کے ساتھ اکٹھا فرما ،بے شک وہ بہترین ساتھ ہے ۔ان سے پیچھے رہ جانے والے بھائیوں کو ان کے نیک اعمال کی بہترین جزا عطا فرما، ان کے دلوں کو جوڑ دے ،قدموں کو ثبات اور کفار پر فتح عطا فرما۔بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔ آمین

وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ




کھل گیا بابِ عطا ‘اہلِ وفا کے واسطے
شیخ المجاہد ابو محمد الجولائی حفظہ اللہ
امیر جبہۃ النصرہ شام


منقول:
مجلہ نوائے افغان جہاد

جمعہ، 24 اکتوبر، 2014

ایک مطمٔن روح کی کہانی

میری شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) سے پہلی ملاقات ، جو مجاہد عالم دین ہیں اورتنظیم القاعدۃ الجہاد کی مرکزی لجنہ شرعیہ کے رکن بھی ہیں، 2005 میں خراسان میں ہوئی۔ میں ایٍک تدریبی مرکز میں کورس میں حصہ لے رہا تھا جب وہ حصہ لینے والے ساتھیوں کے ساتھ ایک دن گزارنے کے لیے تشریف لائے۔ اپنی بات کے نکتہ پر آنے سے پہلے میں ایک چیز پہلے بیان کرنا چاہوں گا جو کہ اس ملاقات کے اندر پیش آیا جو میرے اندر یہ تاثر چھوڑ گیا اور مجھے مزید اس بات کی تصدیق ہوئی کہ القاعدہ کا پیغام اور اسکے امراء کا مذہبی فہم کتنا پختہ ہے۔ اس ملاقات میں القاعدہ کے عسکری مسوؤل، شیخ خالد حبیب بھی شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) کے ہمراہ تھے۔ عصر کی نماز کے بعد شیخ منصورؒنے ایک چھوٹا سا درس دیا اور بھائیوں کو اس بات کی طرف ابھارا کہ وہ اپنے اعمال کی درستگی کریں۔ اس کے بعد ایک غیررسمی سوال و جواب کی نشست شروع ہوئی۔ اس مباحثہ میں ایک سوال تکفیر کے اوپر سامنے آیا۔ شیخ خالد حبیب نے  تبصرہ کے طور پر کہا ’دو ایسے لفظ ہیں جو مجھے نہایت ہی مشتعل کرتے ہیں: تکفیر اور طلاق‘۔ اس بات کو سننے کے بعد، شیخ منصور الشامی ؒنے قطع کلامی کی اور کہا: ’ جو آپ نے کہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات ہی ہمیں شریعت نے دی ہیں۔ اگر ان کا استعمال صحیح جگہ صحیح انداز میں کیا جائے، تو اس سے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار درست نہیں ہو گا۔ اس لیے آپ کو اس ناپسندیدگی کا اظہار عمومی  الفاظ کےطور پر نہیں کرنا چاہیے۔‘

اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کرے شیخ خالد حبیب پر، میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے خاموشی سے سن رہے تھے، اور اپنے سر کو جھکا کر اطاعت گزاری کا مظہر بنے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی بھی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ تھا، حالانکہ وہ شیخ منصورؒ سے عسکری قیادت، تجربہ، اور جہاد میں وقت لگانے کے اعتبار سے بڑے تھے۔ علماء اور  علمِ شریعت کا اسقدر احترام مرکزی عسکری امیر کی جانب سے اور ایک عالم کے سامنے اسقدر انکساری ایک ایسا عملی سبق تھا جو کہ طویل کتب کے مطالعےسے بھی آپ حاصل نہ کر سکتے تھے۔ دوسری طرف شیخ  منصور الشامیؒ  کا کردار اور ان کا حوصلہ جس کے ذریعے انہوں نے حدود اللہ کی حفاظت کو ممکن بنایا ایک قابلِ ستائش نمونہ تھا۔

شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ)  اپنے علم میں گہرائی،اعتدال،تقوی اورعبادت و زہد کی وجہ سے معروف تھے۔بہت سالوں تک وہ مختلف جہادی جماعتوں کی مذہبی تربیت کرنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے ترکی سے آنے والے مجاہدین کی فکری نشونما کے لیے بہت جہدِ مسلسل کیا۔ انہوں نے ان کے علم اور عمل کو نکھارا، یہاں تک کہ انہیں ’شیخ الترک‘(ترکوں کےعالم شیخ) کا لقب حاصل ہو گیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی علمی کاوش جاری رکھی۔ انہوں نے ایک خوبصورت کتاب کی تالیف کی جس میں انہوں نے غزوۂ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے حاصل ہونے والے عملی اسباق پر روشنی ڈالی۔ اس کتاب کو نشر کیا جا چکا ہے۔ آخر میں ایک طویل اور نمایاں جہادی سفر کے بعد وہ وقت آن پہنچا جس نے ان کی شہادت کی خواہش کو پورا کرنے کا سبب بننا تھا۔

شہادت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اُن کی اِس خواب کی تاویل تھی کہ ان کی شہادت کا وقت قریب آن لگا ہے۔ انہوں نے اس چیز کا ارادہ کیا کہ اپنے اہل و عیال کو دور بھیج دیں، اپنی کچھ ذاتی چیزیں اپنے دوستوں میں تقسیم کرد یں اور باقی چیزوں کو بیچ دیا۔ انہوں نے اپنے گھر کو اپنے تمام مال و اسباب سے خالی کر لیا، ایک چٹائی کو زمین پر بچھایا، اور نیند نے ان کو آ لیا۔ کچھ منٹ بعد ہی، امریکی ڈرون نے میزائل سے حملہ کیا جس سے ان کے جسم  کے ٹکڑے ہوگئے۔ پس ان کی دیرینہ خواہشِ شہادت کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اس مطمٔن روح کو شرفِ قبولیت سے نوازیں، ان کے مقام کو بلند کریں اور انہیں مجاہد، شہید، عالم کی نیکیوں سے روزِ قیامت نواز دیں، آمین۔


ایک مطمٔن روح کی کہانی
ماخوز: مجلہ انبعاث (Resurgence)

پیر، 13 اکتوبر، 2014

شیخ مصطفی ابو الیزیدؒ کا ’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ کے نام سے متعلق موقف

صحافی:
اگر ہم اب عراق کے موضوع کی طرف آئیں کیونکہ شیخ اسامہؒ نےکہا ہے کہ فلسطین اور بیت المقدس کی طرف پیش قدمی عراق سےہو گی۔ہم کس طریقہ سے اس حقیقت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکیں گے کہ یہاں پر دو ‘امیر المومنین’ ہیں، ایک امیر المومنین عراق ہیں اور ایک امیر المومنین افغانستان ہیں؟اور آپ کس طرح دولۃ العراق الاسلامیہ کی طرف سے کیے گئے برتاؤ کو دیکھتے ہیں جب کہ کافی اعتراضات دوسرے جہادی جماعتوں کو جو عراق میں ہی موجود ہیں ان کے بارے میں موجود ہیں؟

شیخ:
جہاں تک عراق کا تعلق ہے، الحمدللہ، تووہاں پر جہاد کے بہت سے اہداف حاصل ہوئے ہیں۔ امریکی دشمن ۶ سال بعدعراق سے ہزیمت اٹھانے کے بعد پسپائی اختیار کر گیا۔جہاں تک معاملہ دو امیر المومنین کا ہے،ایک افغانستان اور ایک عراق میں، توپہلی بات یہ کہ ان میں سے ہر ایک اپنے علاقہ میں مسلمانوں کے امیر ہیں۔ پس اس طرح کہا جا تا ہے کہ یہ امیر المومنین عراق کے ہیں، اور دوسرے امیر المومنین افغانستان کے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کا ایک ہی امیر (امام) ہوتا ہے، اور یہ بھی تب ہوتا ہے جب خلافت اسلامیہ قائم ہو جائے۔پس ایسی صورتِ حال میں ایک ہی امیر ہونا چاہیے جوکہ ایک خلیفہ ہو جو تمام مسلمانوں کے لیےہولیکن علماء نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کی ہےکہ جب حسبِ دستور حالات نہ ہوں کہ جس میں لوگوں کو ایک امام کے اوپر جمع نہ کیا جا سکتا ہو تو اس معاملہ میں اِن حالات میں اجازت موجود ہے، جو کہ استثنی حالت ہی کہلائے گی،کہ جس میں ایک سے زیادہ امیر مسلمانوں کےلیے مقرر کیے جا سکتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ مسلمانوں پر واجب رہے گا کہ وہ مسلسل کاوشوں کے ذریعے ایک امیر (خلیفہ) کو منتخب کرنے کی سعی کریں۔ یہی اس معاملہ کی اصل ہے۔


جہاں تک دولۃ العراق الاسلامیہ کا تعلق ہے تو ہم نے اس کی پہلے بھی حمایت کی تھی اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو اس جگہ موجود ہونا چاہیے، لیکن جہاں تک اس کےاصول اور بنیاد کا تعلق ہے، اور جہاں تک اس کے نام (دولۃ الاسلامیہ العراق) کا تعلق ہے، تو اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اگر یہاں پر کوئی بہت بڑا مفسدہ نہیں ہے۔ ہم ناموں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ وہ اپنا نام تبدیل کر سکتے ہیں لیکن ہم اس معاملہ کو عراق کے بھائیوں کے طرف لوٹاتے ہیں، جنہوں نے اس پر فیصلہ کرنا ہے۔جہاں تک بات ہے اعتراضات اور تنقید کی جو کہ دولۃ الاسلامیہ العراق کے خلاف اٹھائے گئے ہیں، ان میں زیادہ تر باتیں ان لوگوں کی طرف سے بیان ہوتی ہیں جوصادق نہیں ہیں۔ وہ ایسی چیزوں کا دعوی دولۃ الاسلامیہ العراق سے متعلق کرتے ہیں جن میں سچائی نہیں پائی جاتی۔ کچھ غلطیاں اس جہادی عمل سے گزرتے وقت ممکنات میں سے ضرورہو سکتی ہیں، لیکن یہ معاملہ اکثر ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں بھی ہوا۔ کچھ صحابہؓ سے غلطیاں ہوئیں، جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ اور اسامہ بن زیدؓ سے، پس غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن یہ ان کا عمومی طریقہ کار نہیں ہوتا نہ ہی ان کا منہج ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دولۃ العراق الاسلامیہ خیر اور درست منہج اور عقائدکی حامل ہیں۔

صحافی:

کیا آپ عراق میں موجود دوسری جماعتوںکو متحد کرنےکاارادہ رکھتے ہیں جس میں دولۃ العراق الاسلامیہ اور دیگر شامل ہو جائیں یاآپ کی یہ خواہش ہے کہ تمام قتالی جماعتیں دولۃ العراق الاسلامیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں؟


شیخ:
ہم پہلے بھی اور ہمارے امراء اور داعیان بھی جن میں شیخ اسامہؒ شامل ہیں اس معاملہ میں بہت واضح ہیں۔ انہوں نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ یہ ایک اسلامی فریضہ ہے کہ تمام گروہوں کوایک وحدت کی طرف جمع ہونا چاہیے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دولۃ العراق الاسلامیہ چونکہ پہلے سے قائم ہو چکی ہے اور بہت سی جہادی جماعتیں اس میں شامل بھی ہو چکی ہیں، تو یہ اولیٰ بات ہے کہ باقی جماعتیں بھی جو اس وقت میدان میں موجود ہیں وہ اس میں داخل ہو جائیں، لیکن اگر اس نام (دولۃ العراق الاسلامیہ) کا استعمال ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے،تو ہم سمجھتے ہیں کہ نام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ تمام عراقی مجاہدین متحد ہو جائیں۔

شیخ مصطفی ابواليزيدؒ کا’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ کے نام سے متعلق موقف
(القاعدۃ الجہاد کے سابقہ مسوؤل)

جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

شیخ ابوقتادہ فلسطینی کا جماعت الدولۃ کے متعلق موقف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجاہدین اور محبان جہاد کے نام ایک پیغام
شیخ ابوقتادہ فلسطینی کی جانب سے

یہ خط میں شدید دکھ کیساتھ لکھ رہا ہوں اور اگر یہ اللہ کیساتھ اس عہد کے مطابق نہ ہوتا جوکے اس نے اپنی مخلوق سے لیا تھا تو میں یہ خط کبھی نہ لکھتا، ۔اللہ گواہ ہیں کہ میں نے اس خط کو جاری نہ کرنے کے لیے اپنے آپ سے کتنی سخت جدوجہد کی ہے لیکن اس بات کے خوف نے کہ کہیں میں وہ سچ تو نہیں چھپا رہا جو کے میں جانتا ہوں میں اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔میں نے خاص حلقہ احباب میں اور عوامی سطح پر ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اہل جہاد پر سے کسی بھی نقصان کو ہٹاوں تاہم وہ لوگ جو کے جھوٹ ،شیطان اور گمراہی کا شکار ہوچکے ۔انکا عظیم مقصد صرف جہاد کو تباہ کرنا ہے اور اسکی بھلائی انہیں مقصود نہیں ہے ۔ ان الفاظ کا مخاطب "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کی قیادت اور شام میں انکی شاخ ہے "۔ مجھ اسپر مکمل شرح صدر حاصل ہوچکی جسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ گروہ (الدولۃ الاسلامیہ)بمعہ اسکی عسکری و اسلامی قیادت کے "جہنم کے کتے" ہیں اور انکے اعمال اسپر گواہی دیتے ہیں ،اور وہ رسول اللہ کی اس تعریف پر سب سے زیادہ پورا اترتے ہیں جو کے احادیث میں وارد ہوئی ہے ۔ "وہ مسلمانوں کو ماریں گئیں اور کافروں کو چھوڑ دیں گئیں ۔اللہ کی قسم اگر میں انہیں پاوں تو قوم عاد کی طرح قتل کروں "۔ میں انکے بدترین اعمال کیوجہ سے اس فتوی کو دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی ہرممکن کوشش کی حتی کے انہوں نے نصحیت ،سچائی و رہنمائی کو ماننے سے انکار کردیا ۔میرا یہ خطاب ان لوگوں کیساتھ ہے جو کے اپنے آپ کو ان سے منسوب کرتے ہیں اور جنکے دلوں میں رتی بھر بھی سنت ، دین یا اللہ کا خوف ہے ،جو مسلمانوں کا خون بہانے سے ڈرتے ہیں کہ یہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ کے رسول کا فرمان ہے ۔ رسول اللہ کی بیان کردہ تعریف کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ ہم ایسے لوگوں کے متعلق (خارجی کے علاوہ)کوئی اور نام تلاش کریں۔

بعض لوگ یہ اعتراض کریں گئیں کہ خوارج کی تعریف ان کے عقیدے پر پورا نہیں اترتی کیونکہ خوارج یہ یقین کرتے تھے کہ جو بھی بندہ کبیرہ گناہ کرتا ہے وہ مرتد ہوتا ہے لیکن رسول اللہ کی حدیث و تعریف ہمیں انکے رویئے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے بغیر اس بحث میں جائے کہ انکا عقیدہ کیا تھا ۔ انکے بڑوں کا رویہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا جیسا کے آج انکا ہے ،اسلیے کسی کوبھی رسول اللہ کے فتوی کے علاوہ بات نہیں کرنی چاہیے ۔ان لوگوں کی مثال ایسی ہے ہے جو کے ایمان والوں کیساتھ لڑائی کرتے ہیں جیسے کے جبھۃ النصرہ۔(اللہ انکے کمانداروںوعلماء کی حفاظت فرمائے آمین )۔یہ وہ ہیں جوحکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ جیسے جہاد کے رہنماوں پر پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا منہج بدل لیا ہے ،یہ وہ ہیں جو کے الفاظ سے دھوکہ دیتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ جہاد کے راستے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے نہ ہی یہ اہل جہاد کے عقیدے کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انکی حکمت عملی کو ۔انکا یہ دعوی کتنا عجیب ہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کاعقیدہ شیخ اسامہ بن لادنؒ کے عقیدے سے ہٹ کر ہے !۔ماسوا انکے جو کے انکے ہی جیسے ہیں ان کی بات کوئی نہیں سنتا جو ان لوگوں (مجاہدین رہنما)کی تاریخ کو نہیں جانتے اور انکے کارناموں کی انہیں کچھ خبر نہیں ہے ۔ یہ دوسروں کو اپنے الفاظ و اصطلاحات سے گمراہ ہونے کا الزام دیتے ہیں حالانکہ یہ خود اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں گمراہ ، جھوٹے و متکبر کہہ کر پکارا جائے !گو کے ان کے الزامات کی اب میرے نزدیک کوئی حثیت نہیں ہے اور یہ مجھے زیادہ متاثر نہیں کرتے لیکن انکے جرائم ہمارے سر پر یہ زمہ داری ڈالتے ہیں کہ ہم ان سے اظہار برآت کریں کیونکہ یہ رسول اللہ کی بتائی گئی خوارج کی تعریف پر پورا اترتے ہیں مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ جاہل بہت ساری باتیں کریں گئیں جن میں سے کم از کم یہ بات ہوگی کہ "یہ بندہ جیل میں ہے اس لیے کچھ نہیں جانتا"۔ میں جوابا کہتا ہوں کہ اللہ گواہ ہیں کہ میں ان سے زیادہ جانتا ہوں ۔مسئلہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ مجھے معلومات نہیں مل رہیں بلکہ دراصل یہ ہے کہ میں ان معلومات میں سے بہت کم ہی افشا کرسکتا ہوں ،میں اس مقام پر نہیں ہوں کہ میں ہرروز دوسروں کی طرح ایک نیا بیان جاری کرسکوں اور یہی وجہ ہے کہ میدان ان جیسے جہلاء کے لیے خالی پڑا ہے جو کے الدولۃ کے ساتھ یوں چمٹے ہوئے ہیں جیسے ایک جاہل اپنے قبیلے کیساتھ جہالت کیوجہ سے چمٹا ہوتا ہے ۔میرا یہ خطاب صرف ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے اگر دین میں کوئی بدعت پھیلتی ہے تو اسکی مثال کتے کی بیماری کی طرح ہے جو کے ہرروز اسے اندر باہر سے کمزور و اندھا بنارہی ہوتی ہے ۔ میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ معاملات اس حد تک پہنچے اور جہادی صفوف کی صفائی ہوئی اور اہل جہاد و اہل بدعت میں فرق واضح ہوگیا۔ میں مجاہدین شام کے دکھ کو محسوس کرسکتا ہوں جو کے انہیں ان لوگوں کے جرائم کی وجہ سے پہنچا ہے ،جو کبھی انکے ساتھ ملکر غداروں سے لڑرہے تھے لیکن انکے جنون و انتہا پسندی نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ساتھیوں کا خون بھی حلال کربیٹھے ہیں !۔

میں ان تمام مجاہدین کو جو ان سے محبت رکھتے ہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ کی حدیث کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں (کہ میری امت میں ایک گروہ بقیہ رہے گا)۔ یہ اسلیے کے وہ سمجھیں کہ یہ ایک گروہ (مجاہدین)ہمیشہ رہنے والا ہےجسکو یہ (الدولۃ کے خوارج )جہادی رہنماوں ،انکے کمانداروں اور انکو جنہوں نے جہاد کا پودا اپنے خون سے سینچا ہے اور اپنے خاندانوں و زندگیوں کی اسکے لیے قربانی دی ہے ،مار کر توڑنا چاہتے ہیں!۔اور ایسا کرنے کے بعد یہ خوفناک بیانات جاری کرتے ہیں !۔میں اس لیے جبھۃ النصرہ میں علم سے محبت رکھنے والوں اور اسکے طالبین ،ڈاکٹر سامی العریدی حفظہ اللہ ، ابوماریہ العراقی حفظہ اللہ اور عبداللہ الشامی حفظہ اللہ اور انکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر المحسینی کے صبر اور انکی کوششوں کا شکر گزار ہوں جو انہوں نے ان جاہلوں کے پھیلائے ہوئے شبہات کا جواب دینے کے لیے کی ہیں ۔میں یہاں الشام کے سارے اہل علم کا تذکرہ نہیں کرسکتا ۔ شام کا جہاد جہاں بدترین دشمن کے ہاتھوں مصائب کا شکار ہے وہاں ایسے جہلاء کے ہاتھوں بھی مصائب کا شکار ہے جو کے جہاد سے محبت رکھتے ہیں یہ بھی جہاد کو اسی طرح نقصان پہنچا رہے ہیں جیسے کے دشمن پہنچا رہا ہے ۔ایمان دار لوگوں کو انکے جرائم کے مقابلے پر صبر کرنا چاہیے ،اہل علم اور اہل فراست کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے(میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا)۔یہ حدیث نہ خیبر کے یہود سے متعلقہ ہے اور نہ ہی یہ قریش پر منطبق کی جاسکتی ہے حالانکہ وہ رسول اللہ کے سب سے سخت دشمن تھے ،اسکی وجہ یہ ہے کہ ان خوارج کا کتوں کے پاگل پن کی طرح کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا اور ان میں سے اگر کوئی ایک بھی زندہ بچ گیا تو وہ امت محمدیہ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا ۔ اس گروہ خوارج کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔

اگر ان میں سے ایک یا دو بھی زندہ بچ جائیں تو یہ اپنی گمراہی صحراوں میں اور ان جگہوں پر تیزی سے پھیلا دیں گئیں جہاں علم کی کمی ہو جسکا نتیجہ انکے دوبارہ ابھرنے کی میں نکل سکتا ہے ،الدولۃ کا گروہ وہی خوارج کا گروہ ہے جو کے ماضی میں پایا جاتا تھا ،ان دونوں میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے ۔ اگر سوال کرنے والا انکے متعلق فتوی پوچھے یا اسکی دلیل طلب کرے تو اسے اہل جہاد کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ یہ ذلت کی اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے اہل جہاد کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے !انہیں مرتدین کہتے ہیں انکے رہنماوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے اموال کو حلال سمجھتے ہیں ! ان امور کے بعد شک و شبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ؟ یہ میرا انکے متعلق فتوی ہے اور میں اسکے لیے اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں اور اگر یہ جہاد کے حق میں نہ ہوتا اور مجھے خاموش رہنے میں حکمت محسوس ہوتی تو میں ضرور ایسا ہی کرتا ۔ اللہ گواہ ہے کہ میرا  ان الفاظ کا مقصد صرف نصیحت کرنا ہے اور سنت پر عملدارمد کرنا اور جہلاء کے شر کو رفع کرنا و جہاد کو ان سے پاک کرنا ہے ۔یہ الفاظ میں ایسی جگہ(جیل خانہ) سے کہہ رہا ہوں جہاں سے میں اس فتوی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب یا ان اعتراضات کا جواب نہیں دے پاوں گا جو کے اس فتوی سے متعلق اٹھائیں جائیں گئیں ۔زندگی کی نعمت تھوڑی ہے اور اسمیں اللہ ہی کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنی بھی کوئی کرسکے ۔جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے وہی دوسرے علماء کا بھی فرمانا ہے جو کے اسی منہج سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہر کوئی اپنے طریقہ اور تاویلات رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرے اور اس بات کی جانب جو کے اللہ کو خوش کرتی ہے اور اسے پسند ہے ۔اللہ تعالی جہاد کو اور مجاہدین کو فتح عظیم سے نوازے ۔ آمین

آپکا بھائی
ابوقتادہ
28 اپریل،2014
منقول:(آن لائن بلاگ)

یہ ہے ہمارا پیغام! شیخ ابو دجانہ الپاشا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام على اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى یوم الدین
بعدازاں:

یہ  معاملہ کسی سے  بھی مخفی نہیں ہے کہ کس طرح مسلم ممالک پر ملت ِکفر اور مرتدین کے گروہ ہر چہار جانب سے جمع ہو رہے اور ان مسلم آبادیوں پر ظلم و جبر کر رہے اور انہیں سوء عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔زمین میں فساد پھیلا رہے اور اللہ کے بندوں کو دین میں آزمارہے، حرمتوں کو پامال کر رہے اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے، اور دیارِ مسلمین میں ان کے رہنے والوں کے خلاف وہ جرائم سرزد کر رہے ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکتااور قلم  بھی ان کو بیان کرنے سے عاجز ہیں،  اور ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ  نے اپنی امت کے مقدرمیں مجاہدین کو لکھ دیا، جو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ  نہیں کرتے، جو کہ امت کی بیماری کا علم بھی رکھتے ہیں اور اس کی دوا کو بھی جانتے ہیں، اور وہ اس چیز کا ادراک بہت اچھی طرح رکھتے ہیں کہ ان تلخ حالات سے  جس سے امت دوچار ہے باہرنکلنے کا سبب صرف اور صرف اللہ اور دین کی طرف رجوع ہے، اور اس کی طرف پہنچنے کا راستہ سوائے دعوت اور جہاد کے کوئی دوسرا نہیں ہے۔ پس انہوں نے امت کے دشمنوں کو پچھاڑا اور اس امت کا دفاع کیا اور اپنی طرف سےمزید اس کا دفاع  میں لگ گئے اور اس کی نصرت  ایسے وقت میں کی جب اس امت کی مدد کرنے والے  بھی قلیل تھے اورایک کثیرتعداد ان کی مخالفت کر رہی تھی،  انہیں دھوکہ دے رہی تھی اور انہیں اس رستے سے روکنے کی  بھرپورکوشش بھی کر رہی تھی ، اور یہ معاملہ اسی  طریقہ  پرگامزن  تھا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

[لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم كذلك]
’’میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں  چھوڑے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جائےگا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے‘‘

پس نہ ہی  کوئی قوت ہےاور  نہ عزت سوائے  اس کے کہ یہ امت اللہ کے دین کو مضبوطی سے نہ تھام لے، اور اسلام کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ تعالیٰ پر اٹھ کھڑی  نہ ہو جائے، اور جب بھی امت اپنے دین سے دور رہے گی اور جہاد فی سبیل اللہ  کا راستہ اختیار کیے بغیر،امت کی اقامت اور نصرت کی راہ اپنائے گی ،تو وہ  سوائے ضعف،ذلت اور بےچارگی کے کچھ نہ پائے گی اوریہ ان شرعی احکامات کو  چھوڑنے  کے بقدر  ہی ان پر مسلط  کر دی جائے گی۔

اے میر ی محبوب امت،
اللہ تعالیٰ کےر ستے میں دعوت و جہاد ہی وہ عنوان ہے ہمارے پیغام کا  جز ہے جس کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور جس کے لیے قربانیاں دینے کی تحریض دلاتے ہیں، اور ہم اس رستے پر گزرتے ہوئے ان نقصانات، مصائب و آلام پر صبر کرتےہیں، ہم لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاتےہیں، اور اللہ عزوجل کو عبادات، حکم،قانون سازی میں یکتا  ماننے کی دعوت دیتے ہیں؛  کفر بالطاغوت، شرک اور اہل شرک سے برات ،  ناپید  شریعتِ اسلامی کی تحکیم ، دین کو قائم کرنے کی طرف بلانا ہی ہماری دعوت ہے جو کہ آج بھی ویسا ہی اجنبی ہے جیسا  اسلام اپنی ابتداء میں تھا۔ ہم منہجِ نبوت پر خلافت راشدہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں، نہ کہ ہماری دعوت  نہجِ انحراف ، جھوٹ، عہد شکنی اور بیعت شکنی پر ہے،ایسی خلافت جو   مشاورت (شورٰی)، عدل، الفت ، اتحاد، اور اجتماع کے اوپر قائم ہو، نہ کہ  ایسی  خلافت جس کی بنیاد ظلم، تکفیر المسلمین، قتلِ موحدین اور مجاہدین کی صفوں میں تفریق پر رکھی جائے۔ ہم تمام مسلمانوں کو کلمۂ توحید پر اکٹھا کرنے کی  طرف بلاتے ہیں، اور ایسے پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں جو انحراف کےداغوں سے پاک ہو، جو افراط و تفریط سے آزاد ہو۔ ہم تمام مسلمانوں کودشمنانِ دین کے خلاف جہاد کے فرض کی ادائیگی کی طرف بلاتے ہیں، جن  اعداء اللہ میں دیارِاسلام  پر قبضہ جمانے والے صلیبی، یہودی، مشرکین بھی شامل ہیں اور ان کے معاونین بھی ہیں جو مرتدحکمرانوں کی شکل میں ہیں جنہوں نےاللہ کی شریعت کو بدل ڈالا ہے۔ ہم   عامۃ الناس کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ  اہل شام اور اہل عراق کی نصرت کریں، ان حملہ آور دشمنوں کو پچھاڑیں جو  کہ ان کے دین اور حرمات پر حملہ آور ہے جن میں  نصیری ،روافض اور دیگر دشمنانِ ملتِ اسلام و دین شامل ہیں۔ ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں جہاد ہر مسلمان پر فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیےیہ کسی خاص گروہ یا جماعت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ واجب ہے کہ یہ جہاد ِامت ہو ، نہ کہ ایسا جہاد جو مخصوص چیدہ اشخاص کا ہو جو امت سے کٹ گئے ہوں۔ ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان منحرف راستوں سے بچنے کی کوشش کریں جو دین میں شامل نہیں، جیسا کہ جمہوریت اور اسی طرح دوسری گمراہیاں جس کی شریعت نے نشاندہی کی ہے اورجن کا حقیقت نے بھی کذب کھول کر رکھ دیا ہے، ہم ابنائے امت کے درمیان الولاء والبراء کے عقیدہ کو راسخ کرنے کی دعوت دیتے ہیں، پس اس لیے اتحاد تو فقط  مومنین کے ساتھ ہی ہو گا اگرچہ اس کی قومیت ، رنگ اور زبان کچھ بھی ہو، اور اسی طرح کفار سے دشمنی اور عداوت  رکھی جائے گی۔ پس ہمارے دین میں تقوی اورعمل صالح کے علاوہ کوئی فوقیت کسی شخص کو دوسرے پر حاصل نہیں ہے ۔

ہم  مسلمانوں کے ساتھ نرمی رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں اس دعوت کو بتدریج ترتیب وار طریقہ پر سمجھانے کی سعی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے دین کو درست کر لیں، اور ان پر حق کو نرمی، بردباری، رحمت اور حکمت سے  واضح کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ان پر ہر چہار جانب سے جنگ مسلط ہے اور شدید سازش کے ذریعے ان کو  اپنے دین، عقیدے ،اخلاق سے دور رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ ہم  دعوت دیتے ہیں کہ  مظلوم لوگوں کی نصرت اور مدد  تمام بقعۂ ارض میں کی جائے، ہم ہر اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے جو کتاب اللہ وسنتِ نبوی ﷺ میں موجود ہے، تاکہ سیاستِ شرعیہ کے اصولوں کا تحفظ یقینی بھی بنایا  جائے، اور اس معاملہ میں  نہ کوئی نقصان ہو، نہ ظلم ، نہ افراط  اور نہ ہی تفریط!

اے امت ِ مسلمہ،
ان دو متشدد گروہوں سے محتاط اور خبردار رہیے جو افراط اور تفریط میں پڑ چکے ہیں، اس سے قبل بھی ہمیں ان چیزوں میں آزمایا جا چکا ہے، جب لوگ امتِ مسلمہ  کو اس شرکیہ جمہوریت کی طرف لے گئے اوردین و شریعت کے اصولوں پرسمجھوتا کیا، اور وہ ابھی تک مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اگرچہ  اس پر بہت تلخ اور ناکام تجربے بھی ہو چکے ہیں۔ اگروہ بندگانِ خداکے  معاملہ میں اللہ سے ڈرتے، تو انہیں ضرور ربِ رحمان کی  شریعت اور توحیدِ باری تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے، اور وہ اللہ کی حاکمیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ،بالکل اسی طرح جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی عبادات میں کسی کو شریک نہیں کرتے ہیں۔ پس یہ  رحجان بعض مسلم  ممالک کے لیے تباہی کا سامان لایا اور ایک ایسا ہتھیار بن گیا  ہےجس کے ذریعے مخلص ابنائے امت کو دبایا  جا نےلگا جو کہ شریعت کی حاکمیت قائم کرنے کی سعی کر رہے ، جس طرح کہ ہم آج  غزہ، تیونس اور دوسرے مسلم ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح اس امت کو اہل غلو  اور اہل جہل اور اہل افراط نے بھی آزمائش میں مبتلا کیا، پس انہوں نے اللہ کی بندوں کی تکفیر کی،  موحدین کو قتل کیا ، جہاد کو فساد میں بدلا، مجاہدین کے پیغام کو مسخ کیا، اپنے سیدھے رستے کوالجھا دیا، اور ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ اے اللہ! آپ گواہ ہو جائیں ہم ان دونوں مناہج سے برات کا اظہار کرتے ہیں اور ان دونوں کے ہی رستوں سے لاتعلق ہوتے ہیں۔اے اللہ! ان دونوں  فریقین کے لیے ہم  آپ سے ہدایت  کا سوال کرتے ہیں۔


اے ہماری امتِ مسلمہ،
تمہارے بیٹوں کی طرف سےیہی ہمارا  پیغام ہے، جس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ہم اس پیغام کو آپ کے سامنے صاف اور واضح انداز میں پیش کر رہے ہیں جو ارجاء کے نقص  اور غلو کے فساد سے پاک ہو۔ پس اے بہترین امت جو انسانیت کی طرف بھیجی گئی ہو، ہر جگہ اپنے ان مجاہد بیٹوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

اس کے بعد میں اپنا پیغام دیارِ اسلام  میں موجود امت کے مجاہد بھائیوں کی طرف بھیجتا ہوں جو کہ ہمیں اس اہم مرحلے  میں اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی سازشوں سے گزرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعدبھی بدقسمتی سے اسے کچھ لوگوں کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے سہارا دیا گیا، جنہوں نے اس فتنہ کی چنگاری کو بھڑکایا اور صفوں میں تفریق پیدا کی اور مجاہدین کے درمیان قتال کو سرگرم کیا ، اس معاملہ میں اب سب کچھ ہی  ظاہر ہو چکا ہے اور کچھ بھی مخفی نہیں رہا ہے، اور ہم  اللہ تعالیٰ سے مدد کے طلبگار ہیں۔

اے مجاہد بھائیو!
آپ کو  اس قوم کی  سب سے عظیم امانت سپرد کی گئی ہے اور آپ اس  بہترین امت جوانسانیت کے لیے بھیجی گئی ہےکے دفاع کا حصار ہو۔آپ ادھر دیکھتے ہیں کہ ہم شام میں کس طرح کے مصائب سے دو چار ہوئے ہیں جس میں اختلاف ، قتال اور بعض کی بعض پر تکفیر ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کی ایسے حالات میں سنت رہی ہے کہ اس سے شکست کا خوف  پیدا ہوتا ہے  اور طاقت بکھر جاتی ہے، اور یہ چیز اس بات کو مزید واجب کرتی ہے کہ آپ اس  شگاف کو بھریں  جس سے جہاد کو  نقصان پہنچا ہے ، اور امت کے مستقبل پر چوٹ پڑی ہے، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اس خرابی  کی اصلاح کی کوشش کریں، اور مجاہدین کو واپس وحدت  اور اتحاد کی طرف لانے کی سعی کریں، اور ہر قسم کے بگاڑ اور انحراف کو پسپا کریں، اور ہر قسم کی مکروہ تدبیر کا رد کریں جو اختلاف اور فرقہ کو ہوا دے۔

اے میرے بھائیو جو میدان  ِ کارزار میں موجود ہو!
میں خصوصی طور پر اہل علم، اہل تجربہ اور جو آپ میں موجود  اختصاصی علم میں مہارت رکھنے والے ہیں،جنہوں نے دیکھ ہی  لیا ہے کہ کس طرح جہاد  انحراف کا شکار ہو رہا ہے اور کس طریقہ سے اس  جہاد کے ثمرات کو کھویا جا رہا ہے، اورکیسے بغیر کردار والے لوگ مجاہدین کی صفوں میں سرایت کر رہے ہیں  جو چاہتے  ہیں کہ ان کی رہنمائی ناکامی اور زوال پر کر دی جائے ، ان کو تمام دوسرے احباب سمیت  دعوت دیتا ہوں کہ وہ جہاد کے معاملہ میں اللہ کا تقوی اختیار کریں اور  اس کے تدارک کی کوشش کریں اور امتِ مسلمہ اور مجاہدین پر  درست رستے کو واضح کر دیں اور تمام  متنازعہ مسائل میں حق کو ظاہر کر دیں،اور یہ ایک ایسی امانت ہے جس کے بارے میں سب سے سوال کیا جائے گا۔ اور یہ بات جان لو میرے بھائیو  کہ آپ کے خراسان میں مجاہدین بھائی ، باذن اللہ، کفار  اور اعدائے دین کے حلق کا کانٹا بنے رہیں گے، اور وہ اللہ کی مدد و نصرت سے اپنے دین پر ثابت قدم ہیں۔ وہ نہ ہی تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی پلٹ گئے ہیں وللہ الحمد ؛  وہ صبر کر رہے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں  اضافہ، حالات کی تنگی ، آزمائشوں کی شدت، افتراء، طعن و تشنیع،  غلط بیانی  اور جھوٹ پر مبنی ظلم،ان کے حوصلہ کو کمزور نہیں  کر رہا ہے؛  وہ جانتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں اس رستے  میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ باذن اللہ، وہ  یہ بات بھی  جانتے ہیں کہ آزمائشوں کا بڑھنا فتح کی قربت،نجات،  تمکین پر ایک  دلیل ہے۔ 

اور اب میں اپنا کلام اور نصیحت  ارضِ شام میں موجود بھائیوں  کی طرف کرتا ہوں، جنہیں القابات اور عنوانات کے ذریعے دھوکہ دیا گیا، اور وہ  نصیحت یہ ہے کہ  وہ اپنے عقل و شعور کو استعمال کریں، بصیرت سے کام لیں، اور تمام امورکا انصاف اور غیرجانبدار طریقہ سے موازنہ کریں، اور خود کو تعصب اور ہوائے نفس سے بچائیں، کیونکہ یہ کسی بھی شخص کی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سامان ہے۔ بے شک یہ تو ایک ہی نفس ہے، جس کے علاوہ آپ  کے پاس دوسرا کوئی نفس موجود نہیں ہے۔ اس  سفینۂ جہاد کو بچاؤ، اور اس چیز کا ادراک اس رستے سے  انحراف  اور اہل ھواء  کے طریقہ پر پہنچنے سے قبل ہی  کر لو۔ اس  فتنہ کی آگ کو بجھانے کی سعی کرو اور مجاہدین کے آپس کے تعلقات کو  بحال کرنے کی کوشش کرو اور میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ آپ شیطان کو  اپنے اور مجاہدین بھائیوں کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے سے دور رکھیں، خونِ مسلم کے بارے میں احتیاط آپ  پر لازم ہے اور مجاہدین کے ساتھ قتال یہ شکست ہے،قوت وطاقت کے دنیا  میں  ٹوٹنے کا سبب اور آخرت میں عذاب اور خسارے کا سودا ہے۔میں آپ کو، خود کو عالم باور کروانے والے جہلاء کی پیروی پر شدید تنبیہ کرتا ہوں۔

 یہ لوگ بالکل ایسے ہی ہیں جیسا کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور کثرت سے گمراہ بھی کرتے ہیں‘‘

پس اہل علم سے ہی سوال کرنا چاہیے۔ اہل تجربہ اور اہل بصیرت کے اقوال سے خود کو روشناس کروائیں، اور نہ ہی کسی بھی قسم کے عنوانات، القابات اور نام تمہیں گمراہ کر پائیں، یہ توایسی  خوش فہمیاں ہیں جو گمراہ کرتی ہیں اور یہ ایک  ایسا سراب ہے  جس کے سبب تم تباہ کر دیے جاؤ گے ، یہ امت میں فرقے کا سبب بنے گا جس میں تمہارا حصہ شامل ہو جائے گا اور تم بھی ان لوگوں میں شمار ہونے لگ جاؤ گے جو مجاہدین کی صفوں میں تفریق پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔
 اے میرے بھائیو!

میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ شریعت پر عمل پیرا ہوں اور خود کو خواہشاتِ نفس سے دور کر لیں اورآپ پر علمائے صادقین کی پیروی لازم ہے۔ ان کے  بلند مرتبہ سے واقف ہو جائیں، اور ان ہی سے ان مسائل کے بارے میں پوچھیں جس کا علم آپ نہیں رکھتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح جان  لیں کہ جو علم میں راسخ علماء کی مخالفت کرے اور اعلی درجہ کے جہلاء یا خود کو عالم باور کروانے والوں کی پیروی کرے، تو وہ عظیم خطرے اور واضح گمراہی میں پڑ جائے گا ۔

اے میرے بھائیو!
یہ بھی جان لو کہ حق، لوگوں (عام و خواص)  میں فرق نہیں کرتا ہےاور اہلِ حق کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہوائے نفس ہے اور سوائے فرقہ اور اختلاف کے ان کی گردنیں کوئی بھی چیز نہیں توڑ سکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو نہ ہی تبدیل ہوتی ہے اور نہ بدلتی ہے۔

 اس کے بعد میں علمائے صادقین کو  دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان  تصورات کی درستگی کے لیے اپنے  فرض کی ادائیگی کریں لیکن اس دفعہ یہ معاملہ عام مسلمانوں کے درمیان بیان کرنے کے لیے  فقط نہیں ہے، بلکہ ہمارے مجاہد بھائیوں کےد رمیان اس کو بیان کیا جانا چاہیے تاکہ  ہوائے نفس کہیں دین  اور منہج نہ بن جائے، اور انحراف اور غلو  کہیں استقامت اور ثابت قدمی نہ قرار پائیں، دین کے اصولوں میں تفریط کہیں حکمت  اور راست بازی نہ بن جائے، اور جہاد کی راہ کہیں شدت پسند جہلاء  کی موجودگی اور علم اور اہل علم کی غیر موجودگی  کے سبب انحراف کے رستے پر گامزن نہ ہو جائے؛  اورحالیہ ہی جو  چیز سب سے زیادہ عام ہوئی ہے وہ  مجہول(نامعلوم)،  خود کو عالم باور کروانے والے اور جہلاء کی طرف سے کثرتِ فتاوی اور توجیہات ہیں، جس کی وجہ سے ایسے لوگوں نے بھی بیانا ت دینا شروع کر دیے ہیں جن کا علم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے؛ خصوصی طور پر ایسے موضوعات پر جوکہ تمام دین کے ابواب میں سب سے عظیم  ہیں اور وہ ہے ’اسماء اور احکام کا باب ‘؛ پس انہوں نے مسلمانوں کی تکفیر کی بلکہ بہترین مجاہدین کی تکفیر کی ہے۔ ان کے خون کو بہانا جائز قرار دیا اور یہ امور اگر ہم نے انہیں نظر انداز کر دیا تو یہ بڑھیں گے اور مزید پھیل جائیں گے۔ انہوں نے  ہی جہاد کو نقصان پہنچایا اور جہاد کرنے والوں کی تصویر کو آلودہ کیا، اور تنبیہاً  یہ اس امت کے حاضر اور مستقبل کے لیے ایک  شدید خطرہ ہے۔  ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اس کا مقصود جہاد  کو مسخ کرنا اور لوگوں کو اس سے دور بھگانا ہےاور یہ معاملہ فقط جہلاء اور مجہول افراد کے سامنے آنے اور کثرتِ فتاوی اور توجیہات  دینے تک محدود نہ رہا بلکہ یہ حالات لوگوں کو صادقین اہل علم سے دور ان کی حوصلہ شکنی تک لے گئے ہیں۔  علم کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے  علماء کو امانت دار ٹھہرایا،  پس اس معاملہ میں ان سے عدم رجوع کیا گیا ہے۔ پس  یہ تمام حالات تو ان  اہل علم پر اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں آستین چڑھا کر اپنے بھائیوں کو علم اور توجیہات سے روشناس کروائیں تاکہ احکامِ شریعت مجاہدین کے درمیان اجنبی نہ بن جائیں اور جو ان احکامات کو بیا ن کرے، انہیں منحرف ہونے اور منہج تبدیل کرنے کے الزامات  سے بچایا جا سکے۔ اس معاملہ کو شجاعت سے بیان کیا جانا چاہیے۔ ہم خود کو خطا اورکوتاہی سے مبرا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم  سےجب غلطیاں سر زد ہوتی ہیں، تو ہم ان کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی درستگی اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اللہ کے رستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔

اور آخر میں ایک اہم  امر کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ بہت سے لوگ جو ہم سے محبت رکھتے ہیں انہوں نے ہم پر  یہ گمان رکھ لیا تھاکہ ہم نے اپنے شیخ، امیر  ،حکیمِ امت، قائد  المجاہدین، عالی مرتبت شیخ ایمن الظواہری( اللہ ان کی حفاظت فرمائیں اور انہیں ظالمین کے حلق کا کانٹا بنائے رکھیں) کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نے ان کی عزت اور حرمت کی خاطررد میں جواب نہیں دیا ہے ۔ پس میں کہتا ہوں؛ ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہم اس غفلت کا شکار ہو جائیں۔

بےشک رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو کوئی اپنے بھائی کی عزت و حرمت کا دفاع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے روزِ قیامت بچا لیں گے‘‘

لیکن ہمارے پاس  بھی کوئی اختیار نہ تھا۔ شیخ نے اپنے بھائیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خاموش رہیں اور ان کی عزت و حرمت کے دفاع میں جواب نہ دیں اور وہ  اس  مشکل حالت میں فقط امت کی مصلحت کے حریص ہونے کے  پیش نظر رہے اور اس چیز کی امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس  معاملہ کو درست فرما دیں گے اور فتنہ ختم ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے قدر میں ان  کی حسنِ نیت کے پیش نظرہی خود ان کی حفاظت  اور مدد فرمائی اور انہیں قوت بخشی۔ پس شیخ کی حالت وہی تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

[وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا]
’’بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتے ہیں‘‘

اے اللہ! امت کی سمت کو درست فرما دیجیے جس  میں تیرے اطاعت گزار بندوں کوعزیمت نصیب ہواور تیری نافرمانی کرنے والے ہزیمت سے دور چار ہوں۔
اے اللہ! تمام قیدی بھائیوں کو رہائی عطا فرمائیں اور انہیں حق پر ثابت قدم رکھیں۔ یا اکرم الاکرمین!
اے اللہ! اپنے مجاہد بندوں کی ہر جگہ نصرت فرمائیں۔
اے اللہ! ان کی نصرت شام، صومالیہ، یمن، مصر، اسلامی مغرب اور اسی طرح عراق، افغانستان، چیچنیا، برما، کشمیر ، ترکستان اور دیگر بلادِ اسلام میں فرما دیجیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين


یہ ہے ہمارا پیغام!
بیان: شیخ ابو دجانہ  الپاشا حفظہ اللہ

ایک پکار امت مسلمہ اور مجاہدین کے نام : شیخ ابو محمد المقدسی

خراسان، یمن، اسلامی مغرب، سیناء، صومالیہ اور قوقاز کے مجاہد بھائیوں اور قیادت کی طرف، ( اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں اور ان کو اپنے دین کی نصرت کے لیے استعمال فرمائیں)

السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
اس کے بعد جو بیان ہوتا ہے؛

میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی  عبادت  کے لائق نہیں، اور درودوسلامتی ہو اس ذاتی گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) پرجن کو قیامت تک تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیاتاکہ صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔

اے بھائیو! آپ اس  معاملے کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں کہ جو کچھ سامنے ہوا ہے اور مسلسل شام کے میدان میں وقوع پذیر ہو رہاہےاختلافات  باقی ہیں اور مجاہدین  حالتِ جنگ میں ہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کو شدید دلی طور پر دکھ پہنچا ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے معاملے میں غیرت مندہیں۔ یہ کیفیت ان کی فکرمندی کی وجہ سے ابھی بھی جاگ رہی ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے متعلق  معاملات میں تشویش  رکھتے ہیں اور اس معاملہ نے دشمنوں کو بہت خوشی بھی دلائی ہے۔

شاید آپ لوگوں کے علم میں ہو کہ ہم نے ثالثی کردار ادا کرنے میں اپنی تمام تر قوتوں کو صَرف کر ڈالا ہے، جیسا کہ ایسا ہی بقایا تمام عزت مآب لوگوں، علماء اور مجاہدین نے کیا ہے۔ آپ کے علم میں یہ بھی ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے رابطہ میں رہے ہیں جو اس تنازعہ اور اندرونی جنگ کا حصہ ہیں، اوراس میں البغدادی بھی شامل ہے۔ میں نے اسے خفیہ بھی نصیحت کی اور جماعت الدولۃ کو اعلاناً بھی مشورہ دیتا رہا۔ میں نے جماعت کے مرکزی ترجمان، العدنانی، کے تجاوزات کاجہاں تک مجھ سے جیل میں ممکن ہو سکا جواب  کے ذریعے رد کیا، اس کے باوجود کہ اس کے تجاوزات اورغفلت سے پھرپور گفتگو اس چیز کی بھی متقاضی نہ تھی کہ اس کا جواب دیا جاتا۔

میں نے اپنے محبوب بھائی، امیر، مجاہد، شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کو بھی لکھا، اور میں نے انہیں جماعت الدولۃ اور جبھۃ النصرہ کے درمیان اپنی ثالثی کوششوں سے بھی آگاہ کیا اور ان کے علم میں اس مفاہمتی عمل اور ثالثی کرادر کا نقشہ سامنے لایا۔ میں نے یہ بھی معلومات ان کو فراہم کیں کہ میں نے اپنے سب سے قریبی اوراعتماد والے طالب علموں کو، جو جماعت الدولۃ کی طرف سے لگائی گئی شرائط پر  بھی پورا اترتے ہیں، اس میں اجازت سے شریک  ہونے کا بھی کہا ہے؛ جب انہوں نے پرانی شرائط پر شدت دکھائی، اور انہوں نے سابقہ مفاہمتی عمل اور تحکیم سے  ہی انکار کرڈالا تھا۔

یہی وہ معاملہ ہے جس سے متعلق البغدادی کو میں نے آگاہی دی، اور اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ اس کا ان مفاہمتی عمل کا اب انکار تمام مجاہدین کے سامنے اس کے اپنے کاندھوں پر ہی ہو گا، اور ان اپنے اعمال کے سنجیدہ نتا ئج کے ذمہ دار وہ خود ہی ہوں گے۔

اس کے ساتھ ساتھ میں جماعت الدولۃ کے اندر موجود بہت سے    دینی علمی شخصیات سے بھی رابطہ میں رہا ہوں، اور میں نے ان کے ساتھ خط و کتابت کو محفوظ بھی کیا ہے، جس سے ان کی دھوکہ بازی ظاہر ہوتی ہے، ان کا  بات کو بار بار ایک ہی جگہ پھیرنا نمایاں ہوتا ہے اور امراء جہاد سے متعلق معاملات میں جھوٹ کا سہارا لینا بھی عیاں ہوتا ہے؛ اس کے علاوہ بھی بہت سے خصائل ہیں، جو کہ مجاہدین کے اوپر کم از کم صادق نہیں آتے، جو کہ اصولاً سب سے زیادہ اس چیز کے مستحق بننے والے افراد میں سے ہیں جو عدل کو قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہی سچی شہادت دیں، اگرچہ وہ ان کے خلاف ہی جاتی ہو!

آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ نے ناحق خون کو بہایا ہے، اور یہ تصدیق شدہ  ہے۔ انہوں نے اپنے مجاہدین امراء اور مشائخ کا حکم ماننے سے بھی انکار کیا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی مفاہمتی عمل اور نصیحت کو نہ کرنے پر بضد رہے  ہیں۔ یہ ان کے بارے میں معروف ہو چکا ہے، اس کو محفوظ بھی کیا جا چکا ہے، اور اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ آپ اس چیز کا بھی علم رکھتے ہیں کہ غلو نے ان کی صفوں میں کچھ لوگوں کو بری طرح متاثرکر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے دینی علوم سے وابستہ افراد بھی اس کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کی صفوف میں خوارج موجود ہیں۔

آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ اس قسم کی مماثلت رکھنے والے افراد شامی مسلمانوں کے اوپر زبردستی قابض ہو رہے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار اعلاناً کر رہے ہیں، جہاد اور مجاہدین کی طرف نسبت کر کے باتیں بیان کی جارہی ہیں، جبکہ خود کو انہوں نے ‘اسلامی ریاست’ کے لبادے میں چھپا رکھا ہے، اور اس سے منسلک اصطلاحات کے استعمال سے جہاد، مجاہدین اور مطلوب اسلامی ریاست کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا۔

ان معاملات کی وجہ سے مختلف دوسری قومی قوتیں مجاہدین کی  نصرت کرنے والی عوام کے خلاف آپس میں اتحاد کریں گی،اور پھر اس کے پیش نظر صحوات (حکومتی بیداری ملیشیاء)  پیدا کی جائیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہنمائی سے انحرف کے نتیجے میں غلو پیدا ہو جاتا ہے ، اور چیزوں کو اس طرح بیان کیا جانے لگتا ہے جو کہ ن کا حق نہیں۔ ظلم اور قتلِ ناحق یقیناً ایسے ثمرات کو سامنے لائے گا جو جو بالکل ایک شیطانی درخت جیسے ہوں گے۔

آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ، اس کے مرکزی ترجمان، اور ان کے مذہبی  اشخاص  ہمارے علماء اور امراء کے خلاف اپنی تمام حدود سے تجاوز کر چکےہیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر ہمارے محبوب بھائی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کے لیے بالکل درست ہے۔

جب انہوں نے ان کے حکم سے انکار کر کے ان کی نافرمانی تک کی، اور مجاہدین نے ان کے خلاف شہادت دی جس میں ان کا دعوی تھا کہ ان کی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) سے بیعت ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنے گناہ  پر جواز پیش کرنے کی سعی کی اور مجاہدین کے خلاف اپنے ظلم کی بھی وکالت کرنا شروع کر دی، اور ساتھ انہوں نے اپنے امراء کے خلاف بھی بغاوت کر ڈالی اور ان کی نصیحتوں سے بھی انکار کر دیا؛ اور یہ تمام کام انہوں نے اس لبادہ میں کرنے کی کوشش کی کہ القاعدہ نے  منہجِ جہاد سے انحراف کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے امراء جہاد کے بیانات سے  سیاق و سباق سے ہٹ کر اقتسابات نکالے اور اپنے لیے جواز وضع کیے؛ جبکہ حقیقت میں وہ کلام تو کسی بھی اسلامی خطا سے پاک تھا۔

ان کی قیادت کے بیانات کی روشنی میں جس میں انہوں نے تنقید اور تعصب کا مظاہرا کیا  ، یہ ان کے جھوٹے اہداف اور نا اہل سمجھ کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گناہوں کے جواز پیش کرنے، باطل ردود کرنے اور مجاہدین کی صفوں کو بانٹنے کے لیے انجام دیا۔ ان کے اس طرح سے جواز فراہم کرنا ، ان کے سطحی علم، ناپختہ سوچ اور کم فہم فقہ پر دلالت کرتا ہے؛ اس کے ساتھ ان کا غلو کے معاملے میں تساہل پسند ہونا اور معاملات کو غلو کی طرف لے کر جانا تاکہ اس میں باطل  وزن لایا جا سکے جیسی کوتاہی بھی اس میں شامل ہے۔

میں نے العدنانی کا سب سے حالیہ بیان سنا ہے، جو کہ مذکور بالا سطور کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے اندر بہت سی اور خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں،جن کو آپ ان کی دوسرے بیانات کے ساتھ جمع کر کے دیکھ پاتےہیں، جس کے اندر یہ واضح طور پر اس حکم کا انکار کرتے ہیں جو کہ ان کو امیر شیخ الظواہری (حفظہ اللہ) نے دیے ہیں۔

اس معاملے کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کی ابتداء کرنا اس مسئلے کا بنیادی حصہ تھا جس کے بارے میں شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ)  کو لکھا گیا تھا اور اس کی آگاہی جماعت الدولۃ کو بھی دی گئی تھی۔ ان کا تحکیم سے واضح انکار کرنا جس کو دنیا کے ہر فرد نے سناہے، وہ تمام دروازے ہی بند کر دیتا ہے جس کے ذریعے کوئی مفاہمتی عمل پر پہنچا جا سکے اور مسئلہ کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کا  حقِ انتخاب بھی ختم ہو گیا؛ جس سے اس معاملہ پر کسی کے بھی بولنے کی حاجت ہی نہ رہی ہے۔

پس اس معاملہ میں کوئی فائدہ ہی نہیں ہے کہ اس  کے لیے تاخیر کی جائے یا اس کے لیے انتظار کیا جائے۔ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ ہمیں نہی عن المنکرکے فریضے پر خاموش رہنا پڑے گا اور جھوٹ کو عدم منسوخ کرنا پڑے گا۔ پس اس کے بعد یہ ہم پر اور دنیا بھر میں تمام علماء جہاد اور امراء جہاد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ حق بات کو بیان کریں، حق بات کہنے والوں کی صفوف میں یگانگت پیدا کریں اور اس گروہ کی نشاندہی کریں جس نے تحکیم کا انکار کیا، وہ گروہ جس نے اپنے امراء اور شیوخ الجہاد کے امر  کی بھی نافرمانی کر ڈالی۔

اس بنیاد پر، میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تنظیم الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام ایک گمراہ جماعت ہے جو حق سے دور ہے، یہ مجاہدین کے خلاف ظالموں میں سے ہیں۔ یہ غلو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ناحق خون بہانے میں خود کو الجھاتے ہیں، ان کے اموال کو غصب کرتے ہیں، ان کو مالِ غنیمت سمجھتےہیں، اور ان علاقوں پر جو انہوں نے بشاری نظام سے لیے ہیں اس کے اندر قبصہ گیری بھی کرتے ہیں۔ اس گروہ نے جہاد اور عظیم مجاہدین کے نام کو بدنام کیاہے۔ انہوں نے مرتدین اور محاربین سے لڑنے کی بجائے اپنے ہتھیاروں کا رخ مجاہدین اور مسلمین کی طرف پھیر دیا ہے اور جو ان کی دوسری محفوظ شدہ انحرافات ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔

میں تمام مجاہدین کو پکاروں گا کہ وہ بھی میرے  اس بیان کو رسمی بیان کے طور پراختیار کریں، اور اعلانیا اس کا اظہار کریں تاکہ حق اور حق والوں کی نصرت ہو سکے۔ میں جماعت الدولۃ کے تمام افراد سے کہوں گا کہ وہ خود کو جبھتہ النصرہ کی صفوف میں شامل کر لیں، اور ان کے امراء کی بیعت کریں۔ یہ ہمارا ان کے لیے فتوی ہے اور اسی چیزکی طرف میں ان کو تحریض دلاتا ہوں اور اسی کا انتخاب ان کے لیے کرتا ہوں۔ میں تمام جہادی اعلامی ویب سائیٹ اور دیگر منسلک افراد سے جو مسلمانوں اور جہاد کے معاملات کے متعلق تشویش رکھتے ہیں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بیان کو نشر کریں اور اس کی نصرت کریں اور جماعت الدولۃ کےکسی بھی قسم کے اعلامی مواد کو نشر کرنے سے گریز کریں۔

یہ بیان بالکل اایسا ہے جیسے کہ کسی باغی جماعت کے متعلق اسلامی حکم کو واضح کر کے اس سے اس دینی وابستگی کو لے لیا جائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ان کے شدت پسند منہج کا انکار کیا جائے اوراس سے برات کا بھی اظہار کیا جائےجس کا باطل منہج اس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے کہ ناحق خون کو بہایا جائے؛ جبکہ اس کی وجہ سے جہاد اور مجاہدین کے نام بدنام بھی ہونے لگ گئے ہوں۔ پس ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رستے سے انحراف کرتے ہوئے گمراہی اختیار کی گئی، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا گیا اور اس کے خلاف بغاوت تک کر دی گئی۔

ان کے انحراف کی وجہ چونکہ تحکیم سے کنارہ کشی تھا اور ہر قسم کے مفاہمتی عمل سے انکار تھا، پس میں نے اس موقف کو  اس وقت اختیار کیا ہے جب کہ تمام قسم کی نصیحت (البغدادی) کو پہنچا دی گئی اور اس کی قیادت کے امراء اور مذہبی علمی شخصیات سے خفیہ اور اعلانیا رابطہ نہ کر لیا گیا تھا۔

یہ موقف بھی تبھی اپنایا گیا جب کہ امراء، علماء جہاد کے تمام قسم کے بیانات کا مکمل طور پر ہی لحاظ نہ رکھا گیا، اور تحکیم کے مسئلہ پر بھی واضح انکارکر دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ الممتنعة عن التحکیم  (شریعت کی تحکیم کا انکار کرنے والا) قرار پایا اور اُس نے لوگوں کے حقوق واپس کرنے سے انکار کر دیا، بالکل اسی طرح جس طرح اس نے اپنے امراء جہاد کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ پس یہ ہم پر لازم ہو گیا کہ ہم حق کو بیان کر دیں جبکہ تمام قسم کی کاوش اس پر صَرف نہ  کر لی گئی اوراسی مرحلے میں ہر قسم کے طریقہ ٔکار کو اپنانے کی  بھی سعی کی کہ اُس کو واپس حق کی طرف بلا لیا جائے، لیکن اُس نے انکار کیا اور یہاں تک کے اُس کے قیادت اور مذہبی شخصیتوں نے بھی اس انحراف پر اپنا اصرار جاری رکھا۔

پس یہ بھی اب اہل جہاد پر فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف تنبیہ کریں اور مجاہدین کو کہیں کہ وہ ان کے ساتھ برات کا اظہار کر دیں اور ان اہل حق اور اہل جہاد کی صفوف میں شامل ہو جائیں، جو متقی اور صادق ہیں۔ یہ جہاد کے متعلق معاملہ کے لیے ایک ضروری امر ہے کہ اکٹھی واپسی کی جائے تاکہ مجاہدین کی صفوف کو اکٹھا کر لیا جائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں جو ان کے راہ میں ایک صف ہو کر لڑیں جیسے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ اہلِ جہاد اپنی صفوف کو منتشر کریں اور بکھر جائیں ،جس سے نہ صرف ان کی طاقت ضائع ہو گی بلکہ جہاد کمزور ہو جائے گا اور دشمنانِ اسلام کو یہ موقع فراہم کردے گا کہ وہ یک جان ہو کرمجاہدین  پر حملہ کر دیں۔

ہم اللہ تعالیٰ سےسوال کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کی صفوف میں وحدت ، ان میں موجود سب سے متقی شخص کے ذریعے پیدا فرمائیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ توحید کے جھنڈے کو سربلند فرما دیں اور شرک اور باطل کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔

درود اور سلامتی ہو! اور اللہ تعالیٰ کے مبعوث نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر

رجب، ۱۴۳۵ھ کے درمیانی ایام میں لکھا گیا
بمطابق مئی، ۲۰۱۴ء
ابو محمد المقدسی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پکار
امت مسلمہ اور مجاہدین کے نام
از
شیخ ابو محمد المقدسی
(اللہ تعالیٰ ان کو رہائی عطا فرمائیں)

شیخ طرطوسی کا مجاہدین شام اور جماعت الدولۃ کے درمیان لڑائی کی بابت اعلان

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہیں اور درود و سلام ہو  آخری پیغمبر محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر
  
جب سے عراق میں نام نہاد ’اسلامی  ریاست‘ کا ظہور ہوا، جو کہ بعد میں شام میں دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام کے نام سے منسوب ہوئی، میں نے اپنی طرف سے اس کے خلاف تنبیہ دینا شروع کی اور اس کی شدت کو واضح کیا کہ یہ ایک خونی گروہ ہے جس کا مقصد مسلمانوں اور شام کے مجاہدین کے درمیان لڑائی ہے اور یہ فتنوں کو ایجاد کرنے اور مسلمانوں کے مابین تنازعات کو کھڑا کرنے میں بہت مہارت رکھتی ہے۔ میں نے تنبیہ دی تھی، الحمد للہ، کہ وہ یہ تمام کام ’اسلامی ریاست‘ کا لبادہ اوڑھ کر کرتی ہے، ایسا نعرہ جو اچھا ہے لیکن اس کے پیچھے نیت جھوٹ پر مبنی ہے، بالکل اسی طرح جس طرح ان کے سابقین اجدادِ خوارج نے شروع کی، جب انہوں نے حضرت علیؓ سے کہا [ان الحکم الاللہ]  6: 55 (حکم تو صرف اللہ کا ہی ہے)، جس کا مقصد یہی تھا کہ  حضرت علیؓ نے فیصلہ اس چیز سے نہیں کیا جو اللہ تعالیٰ نے شریعت اتاری، جس کے جواب میں حضرت علیؓ نے فرمایا:’یہ بات حق ہے لیکن اس کا مقصود باطل ہے۔ ‘

ہمیں اس تنبیہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لیکن آنے والے ایام نے ہماری امیدیں اور اعتقاد کو جو’ داعش‘ (الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام بمعنیٰ جماعت الدولۃ)  کے متعلق تھے، ان کویقینا درست ثابت کر دیا۔ ان کے افعال ہوبہو نصیریوں کے افعال جیسے ہیں، انہوں نے  نا اہل وجوہات کی بنا پرمسلمانوں اور مجاہدین شام پر کفر کا فتویٰ لگا دیا، انہوں نے ان کو مرتدین، صحوات (حکومت کے حامی)  کہا اور انہوں نے غداریاں کی، لوگ اغواء کیے،لوگوں کو جیلوں میں ڈالا، قتل وغارت کی یہاں تک کہ مسلمان قیدیوں کو قتل کیا، بارودی مواد کو پھیلایا اور دھماکہ خیز مواد سے بھری اشیاء کا استعمال عام سڑکوں پر کیا  جس سے معصوم جانیں اور مجاہدین کے مراکز ہدف بن گئے۔ کوئی بھی شخص ان مجرمین سے محفوظ نہیں ہے۔ یہ مسلمین کے مفاد کا کوئی لحاظ نہیں رکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے کاموں پر کوئی پچھتاوا ہے، یہاں تک کہ اس پر بھی نہیں کہ ان کی عملیات سے بشار الاسد اور اسں کی شیطانی ریاست کو تقویت مل رہی ہے۔ اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ لوگ بشار الاسد کے نظام  کے تحت کیے جانے وا لی مجرمانہ عملیات اور ان  کی عملیات کے درمیان بھی کوئی فرق نہیں کر پار ہے ہیں اور یہ نہیں بتایا جا سکتا کہ بشار الاسد کی عملیات عام معصوم مسلمانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہیں یا ان مجرمین کی؛ اور یہ بھی بتانا ناممکن ہو گیا ہے کہ کس کا عمل کس کو تقویت دے رہا۔ وہ یہ تمام کام  اس دعوے کے اوپر کر رہے ہیں کہ وہ ’اسلامی ریاست‘ کا قیام کر رہے ہیں، حالانکہ یہ صرف ان کے بیمار اذہان میں ہی موجود ہے۔

جب بات ہوتی ہے طاغوتی نظام اور اس کی فوج سے لڑنے کی، آپ کو ان کی طرف سے کچھ بھی سننے کو نہیں ملتا ہے اور نہ ہی آپ ان کو ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے، لیکن جب ان کا معاملہ مسلمانوں اور مجاہدین سے لڑنے کا ہو تو یہ اپنے تمام اسلحہ سے بھرے گودام لے کر آتے ہیں، یہ وحشیانہ جنونی جنگ کرتے ہیں اور ایسی شدت دکھاتے ہیں جو یہ کسی اور جگہ بالکل (کفار کے مقابلے میں) نہیں دکھاتے۔ 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کے بارے میں سچ فرمایا:
[یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور مشرکین کو چھوڑ دیتے ہیں، اگر میں ان کے وقت تک زندہ رہا، تو میں انہیں  قوم عاد کی طرح قتل کروں گا] (بخاری و مسلم)

میں نے چھ ماہ پہلے اپنے مجاہدین بھائیوں کو پیغام لکھا تھا جس کا عنوان تھا ’مہاجرینِ شام اور جو  ان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں کے  نام پیغام‘ جن کے اندر ان کو تنبیہ کی تھی کہ کہ وہ  اپنے نشتر اور بندوقیں ان مرکزی اہداف کی طرف رکھیں، جس کےلیے وہ ہجرت کر کے شام آئیں ہیں؛ جس کا مقصد شام کے مسلمانوں  اور مجاہدین کی نصرت  ہے جواصل میں مجرم نصیری بشار اور اس کے ظلم کے خلاف ہے اور  ان مہاجرین کو منع کیا کہ وہ مسلمانوں، مجاہدین اور باغیوں کے سینوں کی طرف  ان ہتھیاروں کو مت کریں۔ ہمیں اس وقت بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ہمارے پیغام کو مہاجرین اور  شام کی طرف ہجرت کر کے آنے والوں کے خلاف ایک بدگمان سوچ کے طور پر پیش کیا گیا۔؛لیکن ایام آگے بڑھے،  اور جن خطروں سے ہم نے آگاہ کیا تھا وہ وقوع پذیر ہو گئے۔ جماعت الدولۃ بہت کامیابی سے بہت سے مہاجرین کو بھرتی کر رہی  تھی تاکہ ان کے ذریعے اپنے اہداف اور مقاصد کو پورا کرے اور انہوں نے ان کا استعمال شامی عوام اور مجاہدین شام کے خلاف کرنا شروع کیا اور انہوں نے مہاجرین کو ان جنگوں میں دھکیلا جس کے لیے وہ شام میں نہیں آئے تھے، اور اس کا ان کو کوئی فائدہ نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ ایک حرام کام کے اندر شرکت کرتے جس کے اندر معصوم لوگوں کا خون بہایا جانا تھا۔ اس  عمل کے نتیجے میں جماعت الدولۃ ان کو مار رہی ہے یا ان کو مرنے کی طرف دھکیل رہی ہے۔

جس چیز نے جماعت الدولۃ کے ظلم، شدت پسندی اور گمراہی کو بڑھایا ہے وہ یہ ہے کہ کچھ داعیان اور عزت مآب لوگوں نے یہ راستہ اختیار کیا کہ ان کو ملامت کا نشانہ نہ بنایا جائے اور انہوں سے  لکڑی کو بیچ سے پکڑ لیا ہے، اس شعور کے ساتھ کہ وہ حق کی حمایت بھی نہیں کریں گےاور نہ ہی باطل کا رد کریں گے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں اس کا اعلان کروں اور اپنے ضمیر کو اس معاملے سے صاف کر دوں، امت کو نصیحت کروں اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد  کے ذریعے ثبات اور سچ کو انجام دوں۔

میں اس چیز کا اعلان کرتا ہوں کہ جماعت الدولۃ شدت پسند خوارج ہیں، بلکہ انہوں نے تو اپنے قدیم خوارج  کو بھی اپنے اخلاق اور عمل میں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انہیں نے شدت پسندی، ظلم، بربریت اور معصوم خون کے بہانے کو جمع کر لیا ہے۔ تمام مستند احادیثِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) جن کے اندر خوارج کا ذکر ہے، وہ ان پر لاگو ہوتی ہیں اور ان لوگوں پر بھی جو ان کے ساتھ مماثلت رکھتے ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
[خوارج جہنم کے کتے ہیں ]  (صحیح سنن ابن ماجہ: ۱۴۳) 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: 
[ آخری زمانے میں ایک گروہ ظہورپذیر ہو گا، جو کم عمر اور بے وقوف ہوں گے، وہ   مخلوق میں سب سے  بہترین کا کلام استعمال کریں گے، ان کا ایمان ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، جہاں بھی انہیں پاؤ ، انہیں قتل کر دو، یقیناً ان کو قتل کرنے میں روزِ قیامت اجر ملے گا] (بخاری و مسلم)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:
[میری امت میں تنازعہ اور نااتفاقی ہو گی، ایسے لوگ ہوں گے جو بہترین بات کریں گے لیکن عمل برا کریں گے، وہ قرآن پڑھیں گے، لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں  جائے گا، وہ دین سے ایسے خارج ہوں گے جیسے  تیر کمان سے نکل جاتا ہے، وہ دین کی طرف واپس نہیں آئیں گے جب تک کہ وہ تیر کمان میں واپس نہ آ جائے۔ یہ بدترین مخلوق ہیں، ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جو انہیں قتل کریں اور جو ان کے ہاتھوں قتل ہوں۔ وہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف بلائیں گے، لیکن ہم ان سے بری ہیں، جو ان سے لڑے گا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا درجہ ان سے بڑا ہو گا۔  پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ان کی نشانی کیا ہے؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:  سر منڈوائیں گے]
 (ابو داؤد،  مشکوۃ المسابی ۳۵۴۳)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے  یہ بھی فرمایا:
[وہ امت کےبدترین لوگ ہیں جنہیں امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے]
(ابن حجر، فتح الباری، ۱۲:۲۹۸)

حضرت علیؓ فرماتے ہیں:
[میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے سنا‘ میری امت میں ایک گروہ ہو گا جو قرآن پڑھیں گے، تمہاری تلاوت ان کے مقابلے میں نہ  ہو گی، تمہاری نمازیں ان کے مقابلے میں نہ ہوں گی، تمہارے روزے ان کے مقابلے میں نہ ہوں گے، وہ قرآن پڑھیں گے اور گمان کریں گے کہ یہ ان کے حق میں گواہی ہے، جبکہ وہ ان کے خلاف ہو گا، ان کی نمازیں ان کے حلق کے نیچے نہیں اتریں گی، وہ اسلام سے ایسے خارج ہوں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے]
(صحیح مسلم)

یسیر بن عمروؓ فرماتے ہیں‘ میں  سہل بن حنیف ؓسے پوچھا: ’کیا تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خوارج کے متعلق کچھ سنا ہے؟‘  کہتےہیں ’میں نے سنا جبکہ وہ اپنا اشارہ عراق (نجد) کی طرف کر رہے تھے ‘ یہاں پر ایک ایسا گروہ ہو گا جو کہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، اور وہ اسلام سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے تیر کمان سے خارج ہوتا ہے۔‘
(بخاری و مسلم)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے  یہ بھی فرمایا:
[یہ دین میں بہت گہرائی تک جاتے ہیں یہاں تک کہ اس سے اس طرح باہر آ جاتےہیں جیسے تیر کمان سے باہر آ جاتا ہے]
(احمد اور دوسرے افراد نے  اسےصحیح کہا ہے، شیخ ناصر کی کتاب ’سنہ‘ میں  بھی ذکر ہے)

ابن عمرؓ فرماتےہیں:
[یہ لوگ ان آیات کی طرف گئے جو کفار کے اوپر  تھیں اور ان کا اطلاق مسلمانوں پر کر دیا]
(صحیح بخاری)


 اور اس طرح انہوں نے کفار پر لگنے والے اصولوں کا اطلاق کیا  اور ان مسلمانوں کو بھی کفار سمجھنا شروع کر دیا،
جس طرح کے اوپر مذکور ہے، اگر جماعت الدولۃ نے اپنا ظلم، بربریت اور شدت پسندی کو نہ روکا اور  اور شام، شام کے مسلمانوں اور مجاہدین کو ضرر پہنچانے سے باز نہ آئے اور حکمت پر فائز معزز لوگوں کی نصیحت کو قبول نہ کیا، تو یہ تمام مجاہدین ِ شام پر شرعی حوالے سے فرض ہو جاتا ہے کہ وہ ان کے خلاف قتال کریں اور ان کی جارحیت کی سرکوبی کریں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد ہوگا ۔ اور ہم اس پر یقین  کےساتھ عام شہادت دیتے ہیں کہ مجاہدین کی طرف سےہونے والا تمام جانی نقصان ان شاء اللہ شہادت کے زمرے میں ہے، اور ان کو اجر دیا جائے گا اور جماعت الدولۃ کے مقتول گناہ گار ہیں اور وہ جہنم میں ہوں گے اور ان کا شمار  ’جہنم کے کتوں‘ میں ہو گاکیونکہ انہوں نے اس جنگ میں اپنے ہتھیاروں کا رخ شام کے مسلمانوں اور مجاہدین پرکر کے بشار الاسد کے ظالمانہ نظام  کی طرفداری کی ہے  اورشام کے مسلمانوں کے خلاف ہوئے ہیں۔ 

ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرمان کو دہراتے ہیں
[ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جو انہیں قتل کریں اور جو ان کے ہاتھوں قتل ہوں]۔

ہم تما م مخلص اوران افراد کو جن کو گمراہی کی طرف لگایا گیا کو دعوت  دیتے ہیں جو کہ اس گمراہ گروہ کا حصہ ہیں کہ وہ اپنے تعلقات کو  اس گروہ سے ختم کر دیں اور ان سے اور ان کے اعمال سے برات کا اظہار کریں، اور پھر کسی بھی اور جہادی جماعت میں شامل ہو جائیں۔ ان کے لیے اس چیز کی اجازت نہیں ہے کہ وہ اس گروہ میں موجود رہیں، ان کے ساتھ  شریک ہوکر لڑنے کی ممانعت ہے یا کسی بھی صورت میں ان کی تعدار بڑھانے کی اجازت بھی موجود نہیں ہے۔

جہاں تک ان افراد کا تعلق ہے جو شام کی طرف ہجرت کر کے گئے تو ہم ان سے  ہیں اور وہ ہم سے ہیں، ہمارے حقوق اور فرائض  ایک دوسرے کے لیے یکساں ہیں۔ لیکن اگر کوئی بضد رہے کہ وہ جماعت الدولۃ   کےمتشدد، گمراہ اور ظالم گروہ کی طرف داری کرتے ہوئے ان کی تعداد میں اضافہ کرے گا، تو پھر وہی حکم جو جماعت الدولۃ کا ہے، وہ اس کے اوپر بھی ہو گا اور ان کو بھی اسی طرح سمجھا جائے گا جیسے جماعت الدولۃ کو سمجھا جاتا ہے، اور وہ صرف خود کو ہی ملامت کر سکتے ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے’ جو کوئی کسی قوم کی تعداد بڑھائے، وہ انہیں میں سے ہے‘۔ شیطان ابلیس ان میں کسی کو بھی اس افراتفری کا شکار نہ کر پائے کہ ان کی جماعت الدولۃ  کے ساتھ مل کر لڑنا فی سبیل اللہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑنا تبھی درست ہوتا ہے اگر اس میں اللہ تعالیٰ ، جو سب سے عظیم ہے ، کے لیے مخلصی ہو، ، اور اس قتال کی اجازت (شریعت میں) ہو، اور وہ سنتِ رسول کی اتباع میں ہو۔ لیکن جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو بدعت اور مخصوص خواہشات کے لیے لڑتے ہیں، جیسا کہ خوارج اور دوسرے نفس کے بندے لڑتے ہیں، تو وہ  جہنم میں ہوں گے اور ان کے اس دعویٰ کو نہ دیکھا جائے گا کہ  وہ تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑ رہے تھے اور وہ تو اپنی کاوش میں اللہ تعالیٰ کے لیے مخلص تھے۔

آخر میں  شام کی عوام اور علماء اور مجاہدین کی شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ سے درخواست ہے کہ وہ ان  شدت پسند بے قوفوں کے خلاف بیان دیں، جنہوں نے خود کو  بہت عرصے سے آپ کے نام اور آپ کی تنظیم کی آڑ میں چھپا رکھا تھا تاکہ اہل شام اور اس انقلاب کو  پیش آنے والے خطرات  کو جہاں تک ممکن ہو دور کیا جائے،  اور  مجاہدین شام میں موجود کسی بھی رابطہ کو ان کے خلاف ختم کر دیا جائے، اور ان ناموں کے استعمال کو روکا جائے جس سے شام کو خطرات لاحق ہو رہے ہیں اور جس سے اہل شام  اور شامی مجاہدین کے دشمنوں میں اضافہ ہو رہا ہے، جبکہ شامی  طاغوت کے خلاف  معرکہ بھی ایسا ہے کہ نظام سے منسلک شیعہ اور ان کے اتحادی اور سپاہیوں پر فیصلہ کن برتری حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اگر شیخ ایسا کر لیتے ہیں تو اہل شام، علماء اور مجاہدین اس معاملہ کو بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ ہم صرف شیخ کی حکمت پر اچھا گمان ہی غالب رکھتے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں حق کو حق دکھائیں اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دے اور باطل کو باطل دکھائیں اور اس سے اجتناب کی توفیق دیں۔ اے اللہ قبول فرمائیں!

ہمار ی آخری دعا یہی ہے کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے۔

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
15.01.2014
www.abubaseer.bizland.com
http://www.altartosi.net

اردو فتوی کا لنک:
http://justpaste.it/tartosi1
عربی فتوی کا لنک:
http://www.abubaseer.bizland.com/hadath/Read/hadath%20100.pdf
انگریزی فتوی کا لنک:


http://www.abubaseer.bizland.com/hadath/Read/hadath%20101.pdf