پیر، 23 مارچ، 2015

شرانگیز فکرِ حروریہ(خوارج) کی دس خطرناک قسم کی خامیاں

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرانگیز فکرِ حروریہ(خوارج) کی دس خطرناک قسم کی خامیاں
ڈاکڑ طارق عبدالحلیم


الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم، وبعد

قارئین کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہوتا ہے کہ اُن کو فکرِ بدعت کے انحراف اور نقائص سے متعلق آگاہی دی جاتی رہے، تاکہ اس بدعت کی اصلیت ہمیشہ اہل سنت کے سامنے واضح طور پر موجود رہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے سامنے ضرور اس کا بیان ہو جو اہل تخصص(جو دینی علم میں مہارت رکھتے ہیں) نہیں ہیں۔ یہی ہم نے تقریباً ۳۵ سال سے زائد عرصہ پر محیط فکرِ ارجاء کے ساتھ عملی طور پر کیا ہے، مثلاً جیسا کہ جماعت اخوان المسلین کی فکر، جو خاص طور پر پچھلے ۳ سال کے عرصے میں میں سامنے آئی جب سے ۲۵ جنوری، ۲۰۱۱ء کا انقلابِ مصر میں شروع ہوا، جس میں ہم روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو مقالے منظر عام پر لاتے رہے، تاکہ اُن کی سیاسی مصلحت اندیشی کے نقائص کو واضح کیا جائے، جو کہ عقیدۂ ارجاء کے خلل کی وجہ سے نسل در نسل وراثت میں ملے ہیں۔

ہم نے اس سے قبل بھی فکرِحروریہ کی خطرناکی سے متعلق متعدد مختلف فارم پر آگاہی دی، تاہم [نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی ] (الذاریات: ۵۵)

(۱)
مسلمانوں کی تکفیر کرنا اور احکاماتِ ارتداد کا اطلاق بغیر شرعی وجوہات کی بنیاد پر کرنا، جس کی معرفت تحقیق اور اِن مسائل کی گہرائی میں جا کر ہی کی جاسکتی ہے جو اہل علم اور اہل عدل ہی صحیح طور پر انجام دے سکتےہیں، نہ کہ اہل جہل اور اہل ظلم!

(۲)
قتل اور ذبح کی اشاعت ایسے احکامات کی بنیاد پر کرنا جو غیر شرعی ہیں، اُن بناوٹی جعلی طلباء، قاضیوں کی جانب سے جو احکامات کی صحیح تنفیذ نہیں کرتے، اگر یہ واقعی جانتے اُس عذاب کے بارے میں جو یہ اپنے اعمال کی وجہ سے کما رہے ہیں، تو یہ خون کے آنسو روتے اور خوشی محسوس نہ کرتے، حتیٰ کہ اب اہل سنت کے منہج پر قائم مجاہدین اِن کی دغابازیوں کے سبب ویسے ہی یا اس سے بھی زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں ، جو کہ یہ مجاہدین حکومتی نظام(اسد) کی غداریوں کے سبب کرتے ہیں یایوں کہہ لیں کہ کم از کم اتنا خوف ضرور محسوس کرتے ہیں۔

(۳)
اس ہستی کی تقدیس کرنا جس کی انہوں نے منادی کی ہے، اور اسے ’الدولۃ‘ (ریاست) کا نام دیا ہے، اور اس کو ایک صنم(بت) بنا لیا ہے، اور اس کی عبادت بھی وہ بت کے ہر مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے ہیں، بلکہ وہ اِس بت (دولۃ) کی عبادت کرنے میں، اہل جمہوریت کی پارلیمنٹ کی عبادت کرنے سے بھی زیادہ آگے نکل گئے ہیں یا پھر اُن کے برابر تو کم از کم ضرور یہ عبادت پہنچ چکی۔

(۴)
علم اور علماء کی تحقیر کرنا، اور جہلاء کو احکاماتِ شریعہ کا اطلاق کرنے کے لیے چھوڑ دینا جو کہ حلال و حرام اور خون کے احکامات کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں، تاکہ اُس کے ذریعے وہ دیگر عامی لوگوں کے سامنے مقبولیت حاصل کر سکیں، اور اُن کی قیادت کے اہل ہونے کو مقبولیت دے سکیں۔ بلاشبہ آپ(مجاہدین) ہی میدانِ جہاد میں اُن کے سامنے اکیلےکھڑے ہوئے ہیں، جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، اور بلا شبہ آپ اس معاملہ میں ابطالِ حق ہیں!

(۵)
اہل رویبضات(نااہل گھٹیا لوگ جو لوگوں کے اہم معاملات میں گفتگو کرتے ہیں) کو علماء کا قائم مقام ٹھہرانا، جب اُن کو علماء کی طرف سے کسی کی بھی تائید حاصل نہ ہوئی، تو سوائے رویبضہ کے کسی نے اُن کی نصرت نہ کی،جو نہ ہی کوئی علمی ، جہادی یاتدوینِ کتب کے حوالے سے کوئی تاریخ رکھتے ہیں،اِن تمام نے فقط اِس لیے انحراف اختیارکیا کیونکہ یہ اُن کی نصرت و حمایت کرتے ہیں اور ان کے (باطل) طریقوں سے متفق ہیں۔

(۶)
انہوں نے غلاظت، مرعوب کُن اخلاقِ رزیلہ، اوچھے پن کی تائید کے لیے دلائل پیش کیے، جس کو شیطان نے حق کے مقابلہ میں اِن کی آنکھوں پر تکبیر کے سبب مزین کر دیا، یہ تکبر فقط اِن کی بےوقوفی کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور یہ (بےوقوفی) ’ران‘ (زنگ چڑھ جانے) کی مثل ہے۔

(۷)
جھوٹ، خیانت اور غداری سے کام اس وجہ سے لینا کہ کہ یہ مسلمان مرتدین ہیں، اور یہ حروریہ اُن مجاہدین کے ساتھ جنگ میں ہیں، اور اُن سے جنگ کے سبب جھوٹ اور غداری حلال ہے۔

(۸)
سابقہ بعثی نظام کے کارکنان کے ساتھ تعامل اور تعاون اس حجت کے ساتھ کرنا کہ انہوں نے توبہ کر لی ہے، بلکہ اُن ارکان کو مرکزی قیادت میں اہم مناسب دیے تاکہ وہ اپنی مرضی سے تمام گروہ پر اپنی عملی اجارہ داری قائم کر سکیں۔ بعثی گروہ کے لیے یہ چیز اہم نہیں ہے کہ کون سے جھنڈے تلےلڑا جائے جب تک کہ وہ اس گروہ پر عملی اجارہ داری کا مکمل اختیار رکھتے ہوں۔

(۹)
عالمی قوتوں کو موقع فراہم کرنا جن کے پاس کسی بھی اسلامی جماعت کی نسبت اِس وقت حقیقی سلطہ اور قوت موجود ہے۔ یہ حقیقت ہم سےاِس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اِس (جارحیت) کا جواب ایک واضح حکمتِ عملی کے ذریعے دیں،نہ کہ اس کی بنیاد عاقبت نااندیش طریقے پر ہو، خاص طور پر تب جبکہ اس کی بنیاد شرعی تصرفات پر ہو،جس کے لیے کوئی نص بھی موجود نہیں اور نہ ہی کوئی قاعدہ اِس سلسلے میں اِس عمل کی توثیق کرتا ہو،مثلاً صحافیوں کو ذبح کرنا، بلکہ اس کے برعکس یہ ایک بےوقوفی پر مبنی تصرف ہے، جوکہ عالمی طاقتوں کو حملے کرنے کےلیے حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ایک منصوبہ بندی ہو گی، اور اللہ تعالیٰ اُن کے اس منصوبہ بندیوں پر اُن پر کافی ہو جائیں۔(آمین)

(۱۰)
اور آخر میں، جو کہ اِن سے فکری انحراف پر حرفِ آخر نہیں ہے،یہ تمام(باطل) عقائد عامۃ الناس میں پھیلا ئے جا رہے ہیں ، جبکہ اِن لوگوں کے پاس جن تک یہ بات پہنچ رہی ہے(دینی) علم نہیں ہے، جو کہ اُن کے انحراف کو دیکھ سکیں، اور نہ ہی وہ عقل رکھتے ہیں، اور یہ معاملہ حقیقت میں سب سے خطرناک ہے، اور باقی چیزوں کی نسبت فتنہ میں شدید تر ہے۔ امت کے پہلے سے بیمار جسم میں اِس قسم کے خبیث مرض کو داخل کرنا، جس میں مسلمانوں کی(ناحق) تکفیرکرنے کی بیماری ہو ، ناحق خون بہانے کی روش ہو، وہ امت کے لیے بہت ہی ضرر کا باعث ہے،جو کہ عصرِ حاضر اور آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن اثرا ت سامنے لائے گا۔ ہماری امت اپنے جسد پر پہلے سے ہی بہت سی بیماریاں عملی طور پر برداشت کر رہی ہے، جس میں طواغیتِ عرب اور عجمی کفار کی سازشیں شامل ہیں، جو امت کی سانس روکنے کی کوشش میں ہیں، جبکہ یہ لعنت شدہ سرطان(کینسر) اِس کو اس جگہ پر زخم لگا رہا ہے، جس سے متعلق اِس سے قبل کسی نے بھی متنبہ اِس انداز سے نہ کیا تھا، جہاں پر ہمارے علماء اُس کے سامنے حقیقی طور پر بَروقت کھڑے ہونے سے عاجز ہوئے، جو کہ حقیقت میں اصل معالجین میں سے تھے، اور صرف وہی اِس سرطان سے نجات دلا سکتے ہیں۔جب اس کینسر کو چھوڑا گیا اورعلماء کی طرف سے مزاحمت اُس انداز سے نہ دکھائی گئی، تو یہ بدن میں بغیر روک ٹوک کے داخل ہو گیا، جیسا کہ ہم اس قضیہ کو اپنے دوسرے مقالہ میں ظاہر کریں گے۔ ان شاء اللہ!

جو کچھ ہوا، اور جو آج بھی شام میں جاری ہے،یہ فقط اس آفت کا آغاز ہے، جیسا کہ اِس سے قبل بھی امت مصائب سے کافی دفعہ گزاری گئی ہے ، یہ عمل آنے والی نسلوں کے لیے بھیانک انجام لے کر آئے گا،جبکہ ہماری امیدیں اسلام کی واپسی سے جڑی ہوئی ہیں، الا یہ کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اِس کا تدارک نہ کروایا۔


ڈاکٹر طارق عبدالحلیم
16 ذوالحجۃ 1435 ھ بمطابق 10 اکتوبر، 2014ء

مصدر:
http://tariqabdelhaleem.net/new/Artical-72784




ہفتہ، 21 مارچ، 2015

ابراہیم بن عواد کی قیادت میں تنظیم الدولۃ کی حقیقت

بسم اللہ الرحمن الرحیم

لَتُبَيِّنُنَّهُ لِلنَّاسِ وَلَا تَكْتُمُونَهُ
کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں (۳:۱۸۷)


ابراہیم بن عواد کی قیادت میں تنظیم الدولۃ کی حقیقت
تنظیم کی خصوصیات اور عقائد کی اصلیت
شیخ ڈاکٹر طارق عبدالحلیم / شیخ ڈاکٹر ھانی السباعی

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله وعلی آلہ و اصحابہ، وبعد:

جس تنظیم کو ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کہا جاتا ہے کا تنازعہ جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا ہے اور یہ ایک تلخ حقیقت کے اندر مختلف عوامل اور وجوہات کی وجہ سے داخل ہو گیا ہے جن عوامل کا احاطہ کرنا ہمارے اس بیان کا مرکزی نکتہ نہیں ہے۔ بہت سی جانیں لاپرواہی کی بنا پر ضائع ہوئیں، بہت سے خاندان اور گھر تباہ ہوئے، بہت سے مخلص مجاہدین کو قتل کیا گیا، اسلام کے تصور کو مسخ اور تباہ کیا گیا، اور بہت سے عامی مسلمانوں کو تنظیم الدولۃ کے غلغے نے متذبذب چھوڑ دیا ۔ تنظیم الدولۃ نے جہاد کے تصور کو بدترین انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا اور اسلام کا عالمی سطح پرمذاق اڑایا گیا جبکہ اسلام اور جہاد تنظیم الدولۃ کے اُن تمام اعمال سے بری ہیں جو یہ پیش کرتے ہیں یا جس کی یہ حمایت کرتے ہیں ،اسلام اور جہاداُس سے بری ہیں۔ اس گروہ کی اصل کامیابی یہی رہی ہے کہ اس نے حقیقی دولتِ اسلامیہ اور اسلام کے تصور کو مسخ کیا ہے! حقیقت یہ کہ اس جماعت ’’دولتِ اسلامیہ جس کی قیادت ابراہیم عوادی کے سپرد ہے اور جس کو خلیفہ کے منصب پر فائز کیا گیا‘‘نے مغرب کے اُن اہداف کو پورا کیا جن کو حاصل کرنے سے وہ خود عاجز آ چکا تھا اوراس حوالہ سے اُن کی خدمت کی ہے، جو کہ اصل میں اسلام کے تصور کو مسخ کرنا ہے اور لوگوں کے سامنے اسلام کا مسخ شدہ اور بھیانک چہرہ سامنے لانا ہے، ایسی چیز جو مغرب اپنی تمام تر طاقت، ذرائع ابلاغ اور غداری کے باوجود بھی اپنے طور پر اُس کو حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔

ہم نے متعدد مقالات،ویڈیوز اور صوتی پیغامات کے ذریعےاس تنظیم کی حقیقت کو پیش کرنے کی کوشش کی اور یہ تنظیم الدولۃ تاریخ میں سابقہ مشہور فرقہ خوارج یا حروریہ کی نئی شکل ہے، یا یہ انہی سابقہ شرپسند غالی خوارج کی نئی قسم ہے جو اپنی وحشت اور شدت پسندانہ نظریے کی بنا پر مسلمانوں کو قتل کرتے ہیں اور اہل شرک کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم نے اس چیز کو محسوس کیا کہ بہت سے امتِ مسلمہ کے حالات پر مباحثہ کرنے والے اِن کے منہج کی نوعیت سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں، اور ہم نے بغیر ہچکچاہت کے یہ طے کیا کہ اس سے متعلق بالکل واضح موقف دیا جائے، جس میں کسی بھی قسم کا شائبہ نہ ہو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم یہ اس بات کی وضاحت کریں کہ اہل سنت کے عقیدے کے مقابلہ میں یہ تنظیم کہاں کھڑی ہے اور اِن کے ساتھ تعامل سے متعلق احکاماتِ شریعہ کو واضح کیا جائے اور اِن کے اعمال سے متعلق آگاہی دی جائے اور خود کو گمراہ کن تحمل کے تناظر میں خاموش نہ رکھا جائے جبکہ بہت سے نوجوانانِ شام اور نوجوانانِ عالم اِن سے متعلق حکم کے بارے میں افراتفری کا شکار ہیں۔ اس قسم کا گمراہی پر مبنی تحمل جبکہ خاص طور پر اِن کا شر پھیل چکا ہو اور بہت سے مخلص مسلمان اور مجاہدین قتل کیے جا چکے ہیں کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی صورت اِن علمی حضرات کو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے اور نہ ہی خود کو روکنا چاہیے، اہل علم کے لیے ضروری ہے، جن کو علم کی امانت دی گئی ہے تاکہ وہ کھول کر (عامۃ الناس کے سامنے) بیان کر دیں کہ وہ اس تنظیم ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ سے متعلق حق بات کی وضاحت کریں اور اِن سے متعلق صحیح حکم کو بیان کریں جنہوں نے اپنی تلواروں،خنجروں اور اسلحے کا رخ مجموعی اور عمومی طور پر مسلمانوں کی طرف کر رکھا ہےاور خصوصی طور مجاہدین کی طرف اِن کا رخ ہے

اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ اس بیان کو نشر کریں تاکہ اپنے موقف کو واضح کریں اور بغیر کسی شک و شبہ کے اپنے موقف کی وضاحت کردیں تاکہ ہم قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہ ہو سکیں، جب ہم سے پوچھا جائے کہ کیا ہم نے اپنے علم میں سے دنیاوی مفادات کے لیے کہیں کتمانِ حق تو نہ کیا تھا ؟ کیا ہم نے واضح طور پر لوگوں کے سامنے حق کو بیان کر دیا تھا؟ اور کیاتمام قسم کی جماعت الدولۃ اور انصارانِ الدولۃ کی طرف سے دھمکیوں کے باوجود اِس علم کو بیان کرنے کے لیےتمام اسباب کے ذریعے کوشش کی تھی یانہیں؟

مزید براں، اِس بیان کو ہم تمام قسم کے فقہی اورمدلل حوالہ جات کو بیان کرنے کے لیے استعمال نہیں کر رہے، بلکہ اس کا واضح مقصد اصولوں کو بیان کرنا ہے اور اُن اصولوں کو دلائل کے ذریعے اور فقہ اور واقعات کو کلی طور پر استعمال کرتے ہوئے سامنے لانا ہے تاکہ ہمارے پچھلے دیے گئے بیانات کے ذریعے حتمی نتیجے پر پہنچا جا سکے۔ [تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیلِ روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے] ( سورۃ الانفال: ۴۲)

ضروری ابتدائیہ:

اپنے دلائل کو مستحکم کرنے کے لیے ہم اس سے متعلق کچھ ضروری ابتدائیہ دینا چاہیں گے جس کے ذریعے عقلی، شرعی اور تاریخی حقائق کو قائم کیا جا سکے:

(۱)
سب سے اہم اُصول اور لازمی بنیاد تمام ایمان کے معاملات میں کتاب اللہ اور سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے۔ یہی منہجِ سنتِ نبویﷺ ہے جو کہ صحابہؓ کے فہم پر کھڑا ہے جیسا کہ محترم علمائے امت نے اس کی وضاحت کی ہے، جن سے علم لینے پر سب متفق ہیں اور وہی اصل صاحبِ علم ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: [اہل ذکر (علم) سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود علم نہیں رکھتے] (۱۶:۴۳)؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ اُن علماء سے پوچھا جائے جو حق کو جانتے ہیں تاکہ اس مسئلہ کو سمجھا جا سکے؛پس چاہیے کہ معاملہ کو اہل حق کی معرفت کے ذریعے جاننے کے لیے رجوع کیا جائے اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:[کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہو سکتے ہیں؟] (۳۹:۹)؛ مزید ارشاد ہوتا ہے: [اللہ نے خود شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، او ر (یہی شہادت) فرشتوں اور سب اہلِ علم نے بھی دی ہے](۳:۱۸)، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پابند کیا ہے کہ وہ اہل علم اور اہل ذکر کی اتباع کریں، نہ کہ اہلِ باطل اور اہل ہوائے نفس کی پیروی کریں۔

رسول اللہ ﷺ نے بہت سے صحیح احادیث میں خوارج کی صفات سے آگاہ کیا کیونکہ یہ وہ پہلا فرقہ تھا جو عہدِ نبوی ﷺمیں ظاہر ہوا۔صحیح بخاری میں ابو سعید الخذریؓ کی طرف سے روایت میں ذی الخویصرۃ التمیمی کا تذکرہ ہے، کہ جب رسول اللہ ﷺ مالِ غنیمت کی تقسیم فرما رہے تھے، تو ذی الخویصرہ ، جس کا تعلق بنو تمیم قبیلے سے تھا، رسول ﷺ کے پاس آیا اور کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ، عدل کیجیے‘۔ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’تمہاری بربادی ہو، اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ تم یقیناً تباہ اور گمراہ ہو جاؤ گےاگر میں عدل سے کام نہ لوں‘۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: ’اے اللہ کے رسول ﷺ، مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کا سرقلم کر دوں‘۔ رسول اللہ ﷺ نے سیدنا عمرؓ کو جواب دیا: ’’ اس کو چھوڑ دو کیونکہ اِس کے ساتھی ہیں جن کے مقابلے میں تم اپنی نماز وں کو کمتر جانو گے، جن کے روزوں کو تم اپنے روزوں کے مقابلہ میں کمتر جانو گے، یہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ اِن کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔‘‘

ان کی ایک صفت جو کہ تقریباً ہر کسی میں ہی پائی جاتی ہے، وہ امام بخاری نے حضرت علی بن طالبؓ کی طرف روایت کی ہے ، جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنی جب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: [آخری زمانے میں ایک قوم ظاہر ہو گی جو کم عمر ناپختہ ذہن ہوں گے ،جو انسانیت میں بہترین لوگوں کی بات کو بیان کریں گے، یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے، اِن کا ایمان اِن کے حلق کے نیچے نہیں اترےگا، پس تم انہیں جہاں بھی پا ؤ، انہیں قتل کر دو، کیونکہ قیامت کے دن اِن کو قتل کرنے والوں کو اجر سے نوازا جائے گا]

جیسا کہ سنن نسائی میں ابو سعید الخدری ؓ سے بھی ان کی ایک صفت کو روایت کیا گیا ہے کہ جو اِن (خوارج) سے متعلق مشہورہے[یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے، اگر (میں اس وقت تک زندہ رہوں) اور ان کا تدارک کر لوں(کہ یہ خوارج ہیں) ، تو میں انہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح قومِ عاد کو قتل کیا گیا تھا]

اِن احادیث سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ ناپختہ،بےعقل اور بے پرواہ کم سن لوگ ہیں، جن کے اندر حق بات کے سامنے جرات دکھانے کا مادہ آ چکا ہو گاکہ جیسا کہ ان کے جدِ امجد ذوالخویصرہ نے حدود سے تجاوز کیا اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو انصاف کرنے کا کہا، اور اسی طرح انہوں نے تب بھی اپنی حدود سے تجاوز کیا ، جب انہوں نے کبار صحابہؓ کے سامنے جرات دکھائی اور اِن(خوارج) کے نامرادلوگوں نے امیر المومنین سیدنا علی بن طالبؓ کے ساتھ مباحثہ کیا اور اُن کی بھی تکفیر کی اور خیارِ امت اور ائمہ امت کی بھی تکفیر کی! اسی طرح اِن کی یہ صفت بھی ہے کہ ’ یہ انسانیت میں بہترین کے کلمات کو بیان کریں گے‘، جیسا کہ یہ قرآن کو پڑھیں گے اوربعض احادیث ِ نبوی پر حجت بیان کریں گے لیکن یہ تمام معاملہ اِن کی طرف سے فقط ظاہری نصوص پر ہی ہو گا! اِن کی عبادت میں بہت ریاضت ہو گی ، یہاں تک کہ ایک سنی مسلمان اِن سے خوف کھائے گا، اور اپنی نماز کو اِن کے مقابلے میں حقیر جانے گا، اس خارجی کے روزوں کو اپنے روزوں کے مقابلہ میں حقیر سمجھے گا! اور یہی بہت سے نوجوانوں کو اِن(خوارج) سے متعلق دھوکہ دینے کا باعث ہو گا! اور ان تمام صفات پر علماء نےصراحت کے ساتھ وضاحت کی ہے، جو اُن کی طرف سے کی گئی شرح میں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔

امت پر ان حروریہ(خوارج) عقیدے کے خطرے کو دیکھتے ہوئے، علماء نے اس مذہبِ خارجی کی اتباع کرنے والوں کی سختی سے نکیر کی ہے، جن میں کچھ کو مثال کے طور پر بیان کیا جا رہا ہے:

علامہ الآجری (متوفی: ۳۶۰ھ) کہتے ہیں:
[علمائے متقدمین و متاخرین نے اس بات پر بالکل اختلاف نہیں کیا ہے کہ خوارج (اصل میں )قومِ سوء ہے، جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمان ہے، اگرچہ وہ نماز پڑھیں، روزے رکھیں یا اپنی عبادت میں ریاضت سے کام لیں، اِن کے یہ اعمال ان کے لیے فائدہ مند نہیں ہیں، اور اگر وہ امر بالمعروف و النہی عن المنکر کو بھی ظاہر کریں تب بھی اِن کے لیے اس میں نفع نہیں، اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے متعلق خبردار کیا ہے، اور نبی ﷺنے بھی اِن سے ہمیں خبردار کیا ہے، اور اِن کے بعد خلفائے راشدین نے بھی اِن سے خبردار کیا ہے، اور اسی طرح صحابہؓ نے بھی تنبیہ کی ہے اور اس کے بعد آنے والوں نے بھی جنہوں نے احسان کے ساتھ اِن صحابہؓ کی پیروی کی، اِن(خوارج) سے متعلق آگاہ کیا ہے، اور خوارج قدیم وجدید شریر اور سفاک ہیں، اور وہ تمام بھی جو خوارج کے مذہب کی پیروی کریں،اور یہ ائمہ اور امراء کے خلاف خروج کرتے ہیں، اور مسلمانوں کو قتل کرنے کو حلال قرار دیتے ہیں]

ابن تیمیہؒ (متوفی: ۷۲۸ ھ) کہتے ہیں:
[یہ(خوارج) مسلمانوں پر شرکے معاملہ میں سب سے بڑھ کر ہیں، مسلمانوں پر خوارج سے زیادہ ضرر پہنچانے والا کوئی گروہ نہیں ہے؛ یہود و نصاری بھی نہیں ہیں، کیونکہ یہ(خوارج) ہر اس مسلمان کو قتل کرنے کی سعی کرتے ہیں جو ان کی موافقت نہیں کرتا، وہ مسلمانوں کے خون بہانے اور(ناحق) لوٹنے اور اُن کی اولاد کے قتل کو حلال قرار دیتے ہیں اور اُن سب کی تکفیر کرتے ہیں، اور یہ اپنی کثیرجہالت اور گمراہ کن بدعت کے پیشِ نظر اِس (تکفیر کرنےاورناحق خون بہانے) کو نیک اعمال میں گردانتے ہیں]

علمائے حدیث تو خوارج کے معاملہ میں بہت سخت موقف رکھتے تھے جیسا کہ امام بخاری، ابن عربی،قرطبی( المفہیم کے مؤلف)، سبکی،امام مالک اور دیگر علماءکی طرف سے بھی ایسا ہی (سخت موقف) بیان کیا گیا ہے۔

علامہ ابن قدامہ المقدسی( متوفی: ۶۲۰ھ) کہتے ہیں:
ہمارے اصحابِ متاخرین فقہاء کا قول اِن(خوارج) سے متعلق قول یہ ہے کہ یہ جابرظالم ہیں، ان کا حکم بھی ظالم کے حکم جیسا ہی ہے، اور یہ قول ابو حنیفہ،شافعی اور جمہور فقہاء کا بھی ہے اور کثیر علمائے حدیث کا بھی ہے۔ امام مالکؒ کی رائے یہ ہے کہ اِن کو توبہ کی دعوت دی جائے، اگر وہ اسے قبول نہ کریں، تو پھر انہیں قتل کر دیا جانا چاہیے، اور اِس قتل کی وجہ اُن کا فساد ہے نہ کہ اُن کا ارتداد۔ علمائے اہل حدیث کے ایک دوسرے گروہ کی رائے یہ ہے کہ خوارج کفار مرتدین ہیں ، اور ان کا حکم مرتدین کے حکم جیسا ہے یعنی کہ ان کا خون بہانا اور اموال لوٹنا حرام نہیں ہے۔ مزید براں، اگر یہ کسی جگہ پر جمع ہو کر خود کو مضبوط کر رہے ہوں اور ان کے پاس قوت وشوکت بھی ہو، تو پھر یہ اہل حرب (حربی) گردانے جائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے محارب کفار سے جنگ کی جاتی ہے]

ایک اور جگہ علامہ ابن قدامۃ ایک مزید سخت موقف بیان کرتے ہوئے کہتےہیں:
[ اس معاملہ میں صحیح رائے یہ ہے کہ خوارج کے خلاف قتال کی ابتداء کی جا سکتی ہے اور ان کے زخمیوں کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے جیسا کہ نبیﷺ کا اِن سے متعلق قتل کرنے کا حکم موجود ہے اور اُس شخص سے ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے جو اِن خوارج کو قتل کرے گا، جیسا کہ علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہوتا ہے جب انہوں نے کہا: اگر آپ لوگ کے جذبات کی لہروں میں جوش پیدا نہ ہو، تو میں آپ کو اس چیز کا بیان کروں گا جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کی زبانِ مبارک سے اِن خوارج کو قتل کرنے والوں کے لیے بیان فرمایا ہے، کیونکہ ان کی بدعت او ر بداعمالیاں اِس چیز کا تقاضا کرتی ہیں کہ ان کے خون بہانے کو جائز قرار دیا جائے؛ جس کی دلیل نبی ﷺ کا اِن کے گناہِ عظیم کی خبر دینا ہے، اور یہ خوارج مخلوق میں سب سے بدترین ہیں، اوریہ دین سے نکل جائیں گے، اور یہ جہنم کے کتے ہیں، اور رسول ﷺ نے اِن کے خلاف قتال کرنے تحریض دلائی اور اس چیز کی خبر دی کہ اگر وہ اُس وقت تک زندہ رہیں اور اِن خوارج کا تدارک کر لیں، تو وہ انہیں قومِ عاد کی طرح قتل کریں گے، اس لیے یہ بات جائز نہیں کہ ان خوارج کو ان لوگوں میں سمجھا جائے جن کو(قتال کرنے کے معاملہ میں) معاف کر دیا جائے گا، اور اصحابِ رسول ﷺسے کثیر تعداد نے اِن کے خلاف قتال سے اجتناب کیا ہے، اور اس میں کوئی بدعت نہیں ہے]

ہم یہ بات واضح کر دیں کہ ہم یہ اپنی آراء بیان نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی کسی ایک رائے کی طرف جھکاؤ رکھ رہے ہیں بلکہ آپ کے سامنے فقط وہ تمام آراء جوعلمائے اہل سنت کی طرف سے نقل ہوئی ہیں، اُس کو بیان کر رہے ہیں تاکہ یہ واضح کیا جا سکے کہ امت پر خوارج کا فرقہ کتنا خطرناک ہے! ہم اس بات کی بھی وضاحت کرنا چاہیں گے کہ خوارج کے خلاف قتال کے وقت اُن کو قتل کرنا جب کہ وہ خود کو مضبوط ومنظم کر رہے ہوں یا کسی حملے کی تیاری کر رہے ہوں کا معاملہ اُن کے کسی قیدی پر قدرت پانے کے بعد قتل کرنے سے مختلف ہے کیونکہ اِن کے قیدیوں سے متعلق علماء میں دو رائے پائی جاتی ہے کہ اِن (خوارج)کے قیدیوں پر قدرت پا لینے کے بعد قتل کیا جانا چاہیے یا نہیں!

(۲)
تمام بدعتی فرقے شروع میں ایک محدودفکر سے شروع ہوتے ہیں، یا پھر جیسا کہ اصحاب اصول اسے بیان کرتے ہوئے’کلّی اصل‘ کا نام دیتے ہیں، پھر وہ پھلتی پھولتی ہے، اور اس سے مزید فروع اور شاخیں مختلف طریقے سے سامنے آتی ہیں، حتی کہ بعض یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ اس فرقہ کا اصل فرقے سے کوئی تعلق نہیں ہے یا اس کے برعکس بھی گمان کیا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں، یہ ذیلی فرقے آپس میں بھی بحث ومباحثہ کچھ امورپر کرتے ہیں، بلکہ خوارج کے فرقے کا معاملہ یہاں تک گیا کہ بعض خوارج کے فرقوں نے دوسرے خوارج کے فرقوں کی تکفیر کی، اور بعض فرقوں نے ایک دوسرے سےبھی قتال کیا۔ یہاں خوارج کی ایسے بھی فرقے ہیں جو اِس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ وہ خارجی ہیں! جیسا کہ فرقہ اباضیہ کا معاملہ ہے جو کہ خود فرقہ خوارج میں سے نہیں سمجھتے! جبکہ اس بات سے اُن کی مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ فرقہ ازارقہ میں سے نہیں ہیں، یہ وہ لفظ ہے جوخوارج کی اصطلاح کے طور پر پہلی صدی ہجری کے نصف تک مستعمل رہا، پس جب اُن کو خوارج کہا جاتا ہے تو وہ اِس سے فرقہ ازارقہ،نجدات اور محکمِ اولیٰ میں مستعمل اصطلاحات کو مراد لیتے ہیں، اس لیےفرقہ اباضیہ کا یہ قول صحیح ہے کہ وہ اپنی اساس لے لحاظ سے عملی طور پر فرقہ ازارقہ نہیں ہیں! لیکن وہ خوارج کے فرقہ میں ضرور داخل ہیں! پھر اس کے بعد یہ فرقہ بھی مزید تقسیم ہوا اور مزید ذیلی فرقے اِن سے سامنے آئے۔

(۳)
فرقہ حروریہ(خوارج) سے متعلق جامع متفق بنیادی اصول یہ ہے، جو کہ ان خوارج فرقے کی اصل ہے، اس سے قبل کہ ہم ان کے مزید فرقوں کے اعتقاد کی طرف جائیں، وہ بنیادی اصول یہ ہے[مسلمانوں کی تکفیر ایسے اصولوں کی بنیاد پر کرنا جو اہلسنت والجماعت کے نزدیک کفر نہیں ہے، پھر اُس کے بعد اُن کے خون بہانے کو حلال جاننا اور اُن کے خلاف قتال کرنے کی غرض سے خروج کرنا] یہی وہ اصول ہے جس کی بنیاد اُن کے اصل فرقہ خوارج نے رکھی، جب انہوں نے سیدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ کے خلاف خروج کیا، اور سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کی تکفیر کی، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہروان اور حروراء کے مقام پر لڑے(اسی وجہ سے حروریہ کہلائے)۔ یہ بنیادی اصول کو پھر مزید وسعت دی گئی اور اُس میں مختلف صدیوں کے درمیان ترمیم ہو تی رہیں اور یہی وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر تنظیم الدولۃ نے بھی جہالت کی بنیاد پر عذر دینے والوں کی تکفیر کی ہے۔

(۴)
نافرمانی اور کبائر گناہوں کی بنیاد پر تکفیر کرنا، جیسا کہ چوری، قتل، زنا وغیرہ، یہ خوارج کے خروج کرنے سے متعلق جامع صفت نہیں ہے، بلکہ یہ فروعی اختلافات تو اولین حروریہ(خوارج) کے ظاہر ہونے کے بعد کے زمانہ کے ہیں، جن کو حروریہ کے نام سے صحابہؓ نے متصف کیا،جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ام المومنین سیدنا عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے روایت ہوتا ہے: [ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ کیا خواتین کو (حیض سے)طہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی چھوڑی گئی نمازوں کی قضاء دینی چاہیے؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا: کیا تم حروریہ ہو؟ ہم رسول اللہ ﷺ کے وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھیں،انہوں نے کبھی ہمیں ایسا حکم نہیں دیا یا انہوں نے ایسا کہا کہ ہم ایسا نہیں کیا کرتی تھیں]۔ خوارج کے بیس(۲۰) سے زائد فرقہ ہیں ، اُن خوارج کے فرقوں نے سیدنا علیؓ کی بھی تکفیر کی کیونکہ انہوں نے ایک شخص کی تحکیم کو قبول کیا اور ان پر یہ تہمت لگائی کہ انہوں نےاللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کیا۔

اور اسی طرز پر فرقہ تنظیم الدولۃ سرزمینِ شام میں موجود اسلامی جماعتوں پر یہ تہمت لگاتی ہے کہ یہ حدود کی تطبیق نہیں کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ کی شریعت کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں یا یہ صحوات ہیں، اس لیے یہ مرتدین ہیں! بجز اس کے یہ فرقہ اس بات کا علم رکھتا ہے کہ علمائے سنت کے درمیان دار الحرب کے اندر تطبیقِ حدود کے درمیان بھی اختلاف ہے!! نجدات (فرقہ خوارج) نے ازارقہ(فرقہ خوارج) کی تکفیر اس بنیاد پر کی کیونکہ ازارقہ نے قعدہ فرقہ(جو لوگ ازارقہ کے ساتھ جہاد نہیں کرتے) کی تکفیر کی تھی! اسی طرح نجدات فرقہ کی تکفیر عطویہ(فرقہ خوارج) نے اس بنیاد پر کی نجدات احکامات کی تطبیق میں جہالت کا عذر دیتے تھے!

جو کوئی بھی فرقہ قعدۃ کی رائے کو دیکھے گا تو یہ گمان کرے گا کہ یہ خوارج کے فرقہ میں سے نہیں ہیں کیونکہ وہ ایسا گروہ تھا جو (خوارج) کی نصرت کرنے سے دور رہا، اور انہوں نے امیر المومنین سیدنا علیؓ کے خلاف بھی قتال نہیں کیا، اور وہ تحکیم کے معاملہ کو بھی حق بجانب سمجھتے تھے سوائے یہ کہ انہوں نے لوگوں کے خلاف خروج نہیں کیا۔ نجدات(فرقہ خوارج) نے فرقہ قعدۃ کی تکفیر نہیں کی لیکن نافع بن الازرق(فرقہ ازارقہ کا بانی) نے اُن کی تکفیر کی؛ حالانکہ وہ خود بھی خوارج کے گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے جتنے بھی ذیلی فرقے تھے وہ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی رائے سے ممتاز ہوتے رہے، لیکن اِس کے باوجود وہ تمام کے تمام کو ایک ہی عنوان خوارج یاحروریہ یا شراۃ یا غالیہ (غالی) کے تحت رکھا گیا! ان خوارج کی کسی بھی شکل میں خوارج سے متعلق اصل بنیادی قول یہ ہے جو کہ علامہ ابو الحسن عشری (متوفی: ۳۲۴ھ) نے بیان کیا : [خوارج کے عقائد کی اصل بنیاد وہ ازارقہ،اباضیہ، صفریہ، نجدیہ کے اقوال ہیں، اور باقی قسمیں سوائے ازارقہ اور اباضیہ کے، وہ فرقہ صفریہ کی فروع میں سے ہیں]

اس کو بیان کرنے کے بعد ہم اِس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ یہ بات لازم نہیں ہے کہ اہل علم کےفہم کو جمود کی طرف لے جایا جائے اور حروریہ کی صفت کو صرف گناہ ِ کبیرہ کی بنیاد پر تکفیر کرنے والوں یا نہ کرنے تک محدود کر دیا جائے! یہ بہت بڑی منہج میں غلطی ہو گی! بلکہ اِس فرقہ خوارج کی اصل بنیاد یہ ہے کہ یہ ایسے اعمال کو ارتداد سمجھتے ہیں جو اصل میں گناہ نہیں ہوتے، چاہے وہ معصیت میں سے ہوں یا نہ ہوں، پھر اس کے بعد یہ اپنے فاسد قواعد کی بنیاد پر اس فاعل کی تکفیر کرتے ہیں، اور ناحق خون بہانے کا حلال قرار دیتے ہیں،اپنی تلواروں کو بلند کرتے ہیں اور اس کے ساتھ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں۔

(۵)
خوارج کی صفات میں سے ایک اصل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے خلاف خروج قتال کی غرض سے کرتے ہیں، جیسا کہ عہدِ علیؓ میں واقع ہوا تھا، اور ایسا ہی خوارج سے متعلق حدیثِ رسول ﷺ میں بیان ہوا ہے کہ (یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے)، پس جو کوئی بھی خوارج کی طرف نسبت کرے لیکن قتال نہ کرے، اس کے باوجود بھی خوارج کی اصلی صفت سے علیحدہ نہیں ہو گا، اور وہ ہے کہ ایسی چیز کی بنیاد پر تکفیر کرنا جو اصلاً کفر نہیں ہے، پھر اس کے بعد اُس بنیاد پر قتال کرنا،جیسا کہ حدیثِ صحیحہ میں رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اِن کی صفات بیان ہوئی ہیں۔

(۶)
اختلاف اور انحراف کا ہونا بدعت کی وجہ سے ایک قدرتی عمل ہے، کیونکہ بدعت ہمیشہ ہوائے نفس کے تابع ہوتی ہے، جو شخصیت کی پیروی کرتی ہے نہ کہ اس کی بنیاد راسخ العقدۃ منہج پر ہوتی ہے۔

(۷)
یہ بدعت ارتقاء کے منزال طے کرتی ہے حتی کہ عہدِ حاضر میں بھی یہ عمل جاری ہے، غفلت میں سے ایک بات یہ ہو گی کہ ہم یہ خیال کریں کہ جو فرقے کتبِ تاریخ میں ذکر کیے گئے ہیں صرف وہی اصل بدعتی فرقے ہیں اور کسی دوسرے فرقہ کو اُن کے منہج کے ساتھ منسوب نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ جو نام ان فرقوں سے متعلق موجود ہیں جیسا کہ طربانی، ابن حزم، شھرستانی، بغدادی اور دیگر کتب میں بیان ہوئے ہیں کے علاوہ کسی دوسرے فرقے کا ظہور نہیں ہو گا۔ مثلاً فرقہ معتزلہ، اس کی بنیاد اس بات پر رکھی گئی کہ عقل شریعت پر فوقیت رکھتی ہے، پھر اس فکر نےدوسری صدی میں ارتقاء کرتے ہوئے اپنے نئے پانچ اصول وضع کر لیے، چونکہ منہج وفکر کی موت اُن کے بانیوں کی موت سے واقع نہیں ہوتی، پس عہدِ حاضر میں یہی فکر مختلف ’فارم‘ اور ’افراد‘ کے اندر پھر سے واقع ہوئی ہے، جو اپنے اصل بنیادی فرقہ کی بنیاد پر ہی کھڑی ہے، جس کا پہلابنیادی کلیہ یہ ہے کہ عقل شریعت پر فوقیت رکھتی ہے، اگرچہ کہ وہ اصل فرقے سے اختلاف رکھیں یا اس میں موجود بعض تفصیلات اور تقسیم سے متفق نہ بھی ہوں، مثال کے طور پر، بعض معاصرمصنفین جنہوں نے مدرسہ معتزلہ کو اپنایا کا معاملہ ایسا ہی ہے، بلکہ یہاں کچھ باقاعدہ مراکز ہیں جو اسی معتزلہ فکر کے ساتھ متفق ہیں جیسا کہ ’عالمی مرکز برائے فکرِ اسلامی‘ جو واشنگٹن میں موجود ہے۔

(۸)
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اِس فرقہ کی خصوصیات اِن کے اصلی بنیادی امور سے متعلق تھیں، اور اس سے متعلقہ دیگر شکلیں دوسرے فرقوں کی نشاندہی کے لیے ہیں۔ اس فرقہ خوارج کی اصل بنیاد یہ ہے کہ ’یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے‘؛ اسے ابو داؤد نے روایت کیا ہے، اور یہ قرآن کو اس کے سطحی فہم پر ہی دیکھیں گے اور ’یہ قرآن اِن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا‘؛ اسے مسلم نے روایت کیا ہے(جس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کا مفہوم اِن کے دلوں میں داخل نہیں ہو گا)۔

جہاں تک دوسری صورتوں کا تعلق ہے، جس میں وہ سر کے بال منڈواتے ہیں اور عبادت میں ریاضت کرتے ہیں! تو یہ خصوصیات خوارج سے متعلق اہل سنت نے اضافی طور پر بیان کی ہیں، جو اِن کی اصل خصوصیت کے علاوہ ہیں، جیسا کہ سچائی اور امانت داری، لیکن جو اِن کا اصل بنیادی اصول ہے وہ کسی بھی خارجی (فرقہ) میں موجود ہونا چاہیے۔

جہاں تک دیگر خصوصیات کا تعلق ہے تو وہ وقت اور جگہ کے ساتھ تبدیل ہوتی ہیں۔ مثلاً ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہر کوئی جو اپنے بالوں کو نہیں منڈواتا وہ حروریہ(خوارج) نہیں ہو سکتا، یہ واضح جہالت ہو گی! رسول اللہ ﷺنے یہ خصوصیت اُن سے متعلق بیان کی جو ان کے عہد میں پہلے ظاہر ہوئے، اور یہی اِس کی غالب تفسیر سب (علماء)نے بیان کی ہے، مزید یہ کہ دولتِ خوارج اور اِن خوارج کا ظہور فقط مشرق کی طرف سے نہیں ہوا بلکہ مغرب سے بھی اِن کا ظہور ہوا، اس لیے رسول اللہﷺکا تمام خوارج کے لیے قیامت تک کے لیے سر منڈوانے کی صفت کو خاص کرنا ،ان فرقوں سے متعلق صحیح تشریح نہیں ہو گی۔

(۹)
جب ہم کسی گروہ کو کسی فرقہ سے منسوب کرتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوتا ہے یہ فرقہ اُن تمام صفات کا حامل ہو گا جو ان کے اول فرقہ میں پائی جاتی تھیں، بلکہ اس نام کی تطبیق ہر اس فرقہ کے ساتھ کی جا سکتی ہے جو اس کی کچھ صفات رکھتے ہوں یا کلی طور پر تمام صفات رکھتےہوں، اور بعض دفعہ اس نام کا استعمال دوسرے فرقہ پر مجازی طور پر بھی کیا جاتا ہے، جس سے تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہےیا اصل نص کی طرف منسوب کرنا بھی مقصودِ نظر ہو سکتا ہے، اور اس کے لیے دلیل سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہاکی طرف سے بیان کی گئی بات ہے جو بخاری اور مسلم میں معاذۃ العدویہ کی طرف سے روایت ہوئی ہے۔[ایک عورت نے حضرت عائشہؓ سے سوال کیا کہ کیا خواتین کو(حیض سے) طہارت حاصل کرنے کے بعد اپنی چھوڑی گئی نمازوں کی قضاء دینی چاہیے؟ حضرت عائشہ ؓ نے جواب دیا: کیا تم حروریہ ہو؟ ہم رسول اللہ ﷺ کے وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھیں،انہوں نے کبھی ہمیں ایسا حکم نہیں دیا یا انہوں نے ایسا کہا کہ ہم ایسا نہیں کیا کرتی تھیں]۔ سیدۃ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے یہ سوالیہ خطابت کا انداز جب وہ حروریہ(خوارج) کے دور میں زندہ تھیں، اور جبکہ وہ اس بات کا علم رکھتی تھیں کہ اس نام کا کون حقدار ہے، ہمارے سابقہ نکتہ کی وضاحت کرتا ہے،جبکہ اُس عورت کا سوال تو حائضہ عورت کی نماز دہرانے سے متعلق تھا، پھر اُس شخص کا معاملہ کیا ہو گا جو کہ مسلمانوں کے خون کو حلال قرار دے اور انہیں مرتد ہونے کے شبہ پر قتل کرے؟

(۱۰)
غلبہ،پھیلاؤ، اختیار،تمکین، حکومت کسی کے منہج کے درست ہونے کے لیے لازمی دلیل نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کے اعتقاد کے سالم ہونے پر دلالت کرتی ہے، بعض اہل بدعت نے مسلمانوں کے مختلف علاقوں میں مختلف تاریخی عہد میں حکومت کی ہے، جیسا کہ عہدِ خلافتِ عثمانی کے وقت میں خلیفہ مامون سے لے کر خلیفہ متوکل تک معتزلہ کی حکومت تھی! اسی طرح عبیدیہ اسماعیلیہ کی حکومت ڈھائی صدی تک محیط رہی۔ اسی طرح خوارج نے مشرق کے علاقوں پر حکومت کی اور عبداللہ بن وہب الراسبی کو اپنا امام بنا لیا اور اُس کی بیعت ازارقہ قطری بن الفجاء نے کی اور اسے امیر المومنین کا خطاب دیا!! اسی طرح خوارج کی کچھ ریاستیں مغربِ اسلامی میں اہل سنت کے کھنڈرات پر قائم کی گئیں، جب خوارج نے کچھ بربر قبائل کو قائل کر لیا، جو کہ حال ہی میں مسلمان ہوئے تھے اور انہوں نے پھر اہل سنت کی قائم ولایتِ خلافت کے خلاف خروج کیا، اس طرح بربر قبائل کو مذہب خوارج صفریہ اور اباضیہ سے معرفت حاصل ہو گئی، اور پھر اِس منہج(خوارج) کو قبائل زناتہ،ہوارۃ، مکناسہ، مغراوہ وغیرہ نے قبول کیا، حتی کہ انہوں نے اپنی سلطنت کو مغربی صحراء اورکچھ پہاڑی علاقوں تک وسعت دے دی۔

الجزائر اور وسطی افریقہ میں، خوارج اباضیہ نے دولتِ رستیہ (۱۴۴ھ سے ۲۹۶ھ) کی بنیاد ڈالی جو کہ ڈھائی سال کی مدت تک حکومت کرتی رہی۔ اسی طرح دولتِ بنی مدرار (۱۴۰ھ سے ۲۹۷ ھ) جو صفریہ خوارج میں سے تھے نے حکومت کی، اور خوارج صفریہ خوارج اباضیہ کی نسبت بہت زیادہ شدت پسند تھے، اور انہوں نے مراکش کے شہر سجلماسۃ کو اپنا دارالحکومت بنایا۔

اس طرح خوارج صفریہ کی دولتِ برغواطۃ نے دو صدیوں تک حکومت کی! پھر یہ تمام ریاستیں ناپید ہوئیں، جب اُن کے مخالفین نے ان پر ضربیں لگائیں اور جب ان کے اعتقادات میں تبدیلی پیدا ہوئی اور یہ بہت سے خوارج کے عقائد سے دستبردا ر ہو گئے!

اس طرح اِن تمام دولتِ خوارج کا ظہور ہوا اور وہ پھر زوال کا شکار ہوئیں اور اُن کا اثر کچھ وقت بعد زائل ہو گیا! اور مذہبِ اہل سنت قائم و دائم رہا اور آج بھی اس فکری انحراف کے خلاف مزاحمت کر رہا ہے۔ کسی نے بھی یہ رائے پیش نہیں کی کہ خوارج اباضیہ کو جن کے پاس سلطنتِ عمان (کے احاطہ )میں دولت حاصل تھی یا جو زنجبار، الجزائر وغیرہ میں خوارج رہتے تھے! ان کو خوارج کی اصطلاح سے متصف نہ کیا جائے! حقیقت یہ ہے کہ سلطان قابوس بن سعید جو حاکمِ عمان ہے اس کا تعلق مذہبِ اباضیہ خوارج سے ہے، لیکن اپنے ہی منہج سے مخالفت کرتے ہوئے وہ خودسیکولر لادین ہے اور شریعت کے مطابق حکمرانی نہیں کرتا! پس وہ بھی باقی حکام کی طرح خود کو اہل سنت سے منسوب کرتا ہے، لیکن وہ سب سیکولر لادین ہیں جو اسلام کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور شریعت کے مطابق فیصلہ نہیں کرتے!

خوارج سے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ ان کی تمام ریاستیں جن کی بنیاد ڈالی گئی وہ اہل سنت کے خون اور لاشوں کے اوپر قائم کی گئی! جس کی مثال بالکل اسماعیلیہ فرقے جیسی ہے جس نےرعب، دھمکیوں، قتل و غارت کے ذریعے عالم اسلام میں موجود بہت سے مسلمانوں کی قیادت کو نشانہ بنایا! آج وہ کہاں ہیں! وہ ایک قسم کا ناپید فرقہ بن چکا ہے جس کے امراء اب مغرب کے تابع ہیں اور اُن کے بعض امراء اقوامی متحدہ کے ادارے میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں! تو پھر کیا اس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ہم انہیں قرامطہ فرقہ کہنا چھوڑ دیں جن کامذہب اسماعیلی شیعہ مسلک کی بنیاد پر ہے ؟

اب جب کہ ہم اس مسئلہ سے متعلق ضروری ابتدائیہ بیان کر چکے ہیں، تو اب آئیں ایک نظر اِس تنظیم کی طرف ڈالتے ہیں جس کی قیادت ابراہیم بن عوادعراقی کر رہا ہے، ہم اس پر یہ بیان کرتے ہیں:

(ا)
تنظیم الدولۃ نے مسلمانوں کی تکفیر اس بنیاد پر کی ہے جو اصلاً کفر نہیں ہے،جس میں انہوں نے عمومی آیات کی تاویلات کی ہیں اور اُن سے متعلق عملی شبہات کا شکار ہوئے ہیں، پھر اُس کے بعد انہوں نے اہل اسلام کے خلاف قتال کیا اور اُن کو بدترین انداز سے قتل کیا! اِن سے متعلق تواتر کے ساتھ بیان ہوا کہ انہوں نے لاتعداد مجاہدین کو مذہب اور(مخالف) رائے کی بنیاد پر قتل کیا، مثلاً انہوں نےابو سعد الحضرمی،ابو خالد السوری، ابو محمد فاتح اور دیگر سینکڑوں مجاہدین کو قتل کیا، خصوصی طور پر شام میں اور لوگوں نے ان کے جرائم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔

(ب)
تنظیم الدولۃ نے نصیریوں اور روافض کے خلاف قتال ترک کیا اور اعلان کیا کہ ’مرتدین‘ سے قتال اِن نصیریوں اور روافض سے قتال پر فوقیت رکھتا ہے۔ انہوں نے پہلے دیر الزور کے گاؤں میں دہشت پھیلائی، اور قبیلہ شعیطات کو دربدر کیا، اور اُن کی لاشوں کا مثلہ کیا، جیسا کہ انہوں نے کبھی اہل شرک کے ساتھ وہ معاملہ نہ کیا، اور اہل ِ شام پر مصائب وآلام کو دیگر (علاقوں)کے مقابلہ میں مخصوص کیا، یہاں تک کہ یہ مقولہ بھی نقل ہونے لگا کہ ان کی بعض قیادت کے اندر بعثی عراقی خفیہ طور پر داخل ہو گئے ہیں۔

(ج)
ہمیں اس چیز کا یقین ہے کہ ان کے اپنے اعمال کی بنیاد پر اِن کے اندر اولین خوارج کے اصول و ضوابط کی اصل بنیاد موجود ہے، جیسا کہ عہدِ علیؓ کے خوارج میں موجود تھیں۔

(د)
ان کی طرف سے تواتر جھوٹ، بہتان، تقیہ،اخلاقِ رزیلہ سامنے آئے ہیں، جیسا کہ ان کے بڑے عدنانی نے شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری پر جھوٹ اور بہتان باندھا اور خود کو شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کی طور منسوب کیا، حتیٰ کہ ہم پریہ بھی واضح ہو گیا اور باقی افراد پر یہ بات عیاں ہو گئی کہ انہوں (شیخ اسامہؒ) نے اِن(تنظیم الدولۃ) کی مخالفت کی تھی اور ان سے متعلق تنبیہ کی تھی اور انہوں(شیخ اسامہؒ) نے عرب انقلابات کی پزیرائی کی تھی جس کویہ تنظیم ارتداد سمجھتی ہے! اِن صفات کی وجہ سے یہ اپنے اسلاف خوارج سے بھی مخالفت پر ہیں، لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہو گا کہ انہیں اس صفتِ حروریہ (خوارج) سے متصف نہ کیا جائے، بلکہ یہ تو سابقہ خوارج کی نسبت ذلالت اور سفلہ پن میں اُن سےبھی بڑھ کر ہیں۔

(ہ)
ان کی طرف سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ انہوں نے ان علماء پر خروج کیا ہے جن کے بارے میں ہم یہ گمان رکھتے ہیں کہ نہ وہ تبدیل ہوئے اور نہ ہی بدلے ہیں، اور ہم اُن کو اسی طرح علمائے ربانین میں گردانتے ہیں، جس پر تنظیم الدولۃ نے دلیل یہ پیش کی [ہم بھی انسان ہیں، جس طرح یہ(علماء) انسان ہیں] اور اصل بات ’اتباعِ دلیل‘ ہے، یہ بات بھی اُن کی طرف سے بیان ہوئی جنہوں نے ایک کتاب بھی کھول کر نہیں دیکھی،بجز یہ کہ اُس کو پڑھ کر دیکھا ہو، یا اس کو سمجھا ہو، یا اس سے مستفید ہوئے ہوں! یہی باتیں اُن کی طرف سے انحراف کا باعث بنی ہیں، جس میں سب سے اوپر اِن کا سربراہ ابراہیم بن دعواد ہے،جس کو کوئی بھی دینی علم،مقالات یا کتب کے ذریعے نہیں جانتا، بلکہ یہ نام توشیخ ابو عمر بغدادی کے ایام میں بھی نہ سنا گیا تھا حتی کہ(بعد میں) یہ اس جماعت کے ساتھ منسلک ہو گیا! پھر اس کے بعد اِن کا ترجمان عدنانی ہے! جو کہ اپنے نام اور کام کی وجہ سے مجہول ہے، خصوصی طور پر اس عجیب و غریب ترجمہ کے بعد جوالدولۃ کے متبعین میں سے کسی نے(اس سے متعلق) لکھا ؛ مرجیہ خوارج!
الغرض،

اول:
ہم پر یہ بات ثبوت،دلائل، تحقیق اور انصاف پسند شہادت دینے والوں سے پچھلے سال سے اب تک یقین کے ساتھ ثابت ہو چکی ہے کہ تنظیم دولتِ اسلامیہ عراق و شام نے، جس نے حالیہ ہی خلافت کا دعوی کیا ہے، نے بہت ہی منظم انداز سے جرائم کا ارتکاب کیا ہے، نہ کہ یہ کسی ایک فرد کی طرف سے کیا جانے والا جرم ہے جیسا کہ بعض لوگوں نے شروع میں ایسا گمان رکھا تھا! جیسا کہ انہوں نے شام میں مجاہدین کی قیادت کےناحق خون کو بہانے کو حلال کیا اور جنہوں نے بھی اِن کی مخالفت کی، اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کیا، مثلاً

• ہسپتال میں داخل ہوئے جہاں پر محمد فارس کا علاج ہو رہا تھا، جو کہ احرار الشام کے ایک مجاہد تھے، اور ان کا سر چھری سے کاٹ دیا۔
• شیخ ابو سلیمان الحموی کو قتل کیا جو جندالشام کے امیر تھے
• ڈاکٹر ابو ریان کو تعذیب کا نشانہ بنایا اور اُن کا قتل کیا جو کہ احرار الشام سے تعلق رکھتے تھے
• رقہ شہر کے جبھۃ النصرہ کے امیرابو سعد الحضرمی کو قتل کیا
• جبھۃ النصرہ کے قائد ابو حذیفہ المشھدانی کو گھات لگا کر قتل کیا
• اہل سنت مجاہدین کی قیادت میں سے شیخ ابو خالد السوری جوقیادتِ احرار الشام میں سے بھی تھے کو قتل کیا
• والی ادلیب ابو محمد، ان کی زوجہ اور بچوں اور دیگر افراد جو گھر میں موجود تھے، اُن کو قتل کیا
• علاقہ مرکدۃ اور دیگرعلاقوں میں قتلِ عام کیا
• مسلمانوں کو تعذیب کا نشانہ بنایا، جس میں خصوصی طور پر مجاہدین کی قیادت شامل ہے، اور بعض شرعی رہنماؤں کے ساتھ بھی یہ سلوک کیا، اور پھر انہیں ذبح کیا اور ان کے سروں کو کاٹ دیا!
• اور اس کے علاوہ بھی بہت جرائم ہیں جن کا انہوں نے ارتکاب کیا، جس میں سے کچھ کو ہم نے اِس بیان کےضمیمہ کا حصہ بنایا ہے، اور جن اعمال کی بنیاد پر مسلمانوں کی صفوف میں تفریق پیدا ہوئی،جس سے انہوں نے جہاد کو داغدار کیا اور اسلام کو مسخ کیا! ولا حول ولا قوۃ الا باللہ!

دوم:
ہم پر یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ جماعت الدولۃ مسلمانوں کو قتل شک و شبہ اور منحرف تاویلات کی بنیاد پر کرتی ہے، اور ایسے بے بنیاد قواعد و ضوابط کی بنیاد پر تکفیر کرتی ہے جو اِن کے مخالفین نے آج تک کبھی قبول بھی نہیں کیے ہیں،ہم پریہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ جب اپنے مخالفین کے گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو سوائے ناحق خون بہانے کے اور کوئی کام نہیں کرتے! اور جماعت الدولۃ نے ذبح کرنے اور سروں کو کاٹنے میں شہرت حاصل کر لی ہے بلکہ اِن کٹے ہوئے سروں کو عام چوراہوں پر لٹکاتے بھی ہیں جیسا کہ دیر الزور اور رقہ شہروں میں واقعہ ہوا اور جیسا کہ انہوں نے شعیطات قبیلہ کے ساتھ کیا اور ریف حلب شمال اور دیگر جگہوں پر بھی یہی کام کیا گیا۔

سوم:
ہم پر یہ بھی واضح ہے کہ تنظیم الدولۃ کے کارکنان ناپختہ کم عمر نوجوان ہیں جو کہ خونِ مسلم کی حرمت کے معاملہ میں تخفیف سے کام لیتے ہیں اور اسے بڑا معاملہ نہیں جانتے۔ یہ کسی بھی عالم کا احترام نہیں کرتے، نہ ہی اُس قائد کا احترام کرتے ہیں، چاہےوہ شخص تاریخی تجربہ ٔجہاد کی کاوش میں بہت آگے ہی کیوں نہ ہو ، چاہےاس کا علم کے معاملہ میں یا جہاد میں حصہ لینے میں کیسی ہی قدرو منزلت کیوں نہ ہو، یہاں تک کہ ’دولت‘(جماعت الدولۃ) ان کے نزدیک ایک صنم (بت) کی حیثیت اختیار کر گئی ہے، جس کا یہ احترام اور تعظیم کرتے ہیں! ان کی تمام ولاء (دوستی)تنظیم الدولۃ کے ساتھ ہے جو کہ اپنے آپ کو خلافت گمان کرتی ہے اور اِن کی تمام براء(دشمنی) اُن کے ساتھ ہے جو اِن کے خلیفہ کو بیعت نہیں دیتے، اِس سے قطع نظر کہ کسی شخص کی علمی حیثیت، تقوی اور جہاد کا مقام کیسا ہے!!

چہارم:
ہم پر یہ بات ثابت ہے کہ تنظیم الدولۃ کی قیادت جھوٹ اور افتراء سے کام لیتی ہے، اور جو بھی اِن کی مخالفت کرتا ہے اس کی بالواسطہ اور بلا واسطہ تکفیر کرتی ہے، جیسا کہ ان کے رسمی ترجمان نے اپنے بیان میں واضح کیا جس کا عنوان ہے [یہ ہمارا منہج نہیں تھا] (تاریخ: ۱۸ جمادی الثانی ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۸ اپریل ۲۰۱۴ء)؛ اس بیان کے رد میں میں ہم نے بیان نشر کیا جس کا عنوان تھا [اظہارِ برات اور دست برداری کا اقرار] (تاریخ:۱۹ جمادی الثانی، ۱۴۳۵ھ بمطابق ۱۹ اپریل، ۲۰۱۴ء)، اور پھر اس کے بعد جب تنظیم الدولۃ نے ایک اور بیان نشر کیا جس کا عنوان تھا [معذرت ، اے امیر القاعدہ]، اس سے متعلق رد بھی ہم نے اپنے ریڈیو اسٹیشن، المقریزی پر نشر کیا، اور اس سے متعلق کچھ عدد مقالات بھی لکھے۔

پنجم:
ہم پر یہ بات واضح ہے کہ ان کی خلافت جس کا اعلان انہوں نے پہلی رمضان، ۱۴۳۵ھ میں کیا ، ایک باطل خلافت ہے، اس سے متعلق بھی ہم نے رد میں بیان نشر کیا، جو مقریزی ریڈیو نے ۳ رمضان، ۱۴۳۵ھ کو نشر کیا اور اس سے متعلق متعدد مقالات اور مضا مین بھی دیگر فاضل مشائخ نے تحریر کیے، جس میں انہوں نے اِس خلافت کے دعوی کا جواب دیا، ہم نہیں سمجھتے کہ یہ خلافت مسلمانوں کے لیے رحمت اور سلامتی ہے! بلکہ ہم اس کو مسلمانوں کے اوپر دہشت گرد خلافت کے طور پر دیکھتے ہیں، اور اِن کے بیعت یافتہ افراد کی جانب سےمسلمانوں کے دلوں میں اِن کا رعب بھی موجود ہے، اور جو کوئی اِن کی صف سے خروج کرے گا، اس کے سر میں صرف گولی ماری جائے گی! جیسا کہ اِن کے رسمی ترجمان نے پہلی رمضان کی تاریخ میں بیان کیا! اس بیان میں دھمکیاں اور وعید بھی سنائیں جو اس (نام نہاد خلافت) کی بیعت نہ کرے، جو پورے عالم میں موجود جماعتوں اور تنظیموں کو کی گئیں ، اگرچہ وہ جماعتیں حملہ آور دشمن کو ہی اپنے علاقہ میں کیوں نہ پچھاڑ رہی ہوں!منہج ِ خلافتِ بغدادی کے لحاظ سے ان کے پاس انتخاب کے لیے کوئی گنجائش نہیں، سوائے اِن کے خلیفہ کی بیعت میں داخل ہونے کے!

ششم:
ہم اس بیان کے ساتھ ضمیمہ بھی نشر کر رہے ہیں جو تنظیم الدولۃ کےاُن جرائم کو واضح کرتا ہے جو انہوں نے مسلمانوں اور مجاہدین کے خلاف سرانجام دیے، جس سے اِن کے مسلمانوں کوذبح کرنے کے منہج کے ثبوت ملتے ہیں، جو کہ رسول اللہﷺکے اِس فرمان کی خوارج سے متعلق تصدیق کرتا ہے [یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے] الغرض، غالب اکثریت جن کو یہ قتل کرتے ہیں وہ اہل اسلام ہیں، اگرچہ یہ کبھی کبھار کفار کے ساتھ بھی محاذوں پر قتال کرتے ہیں۔

ہفتم:
اس جماعت کی سیاست وہ سیاستِ حروریہ جیسی ہے،اور یہ قرامطہ کے نہج کی پیروی بھی کرتے ہیں، اور جماعت قلعہ ’موت‘ کے ساتھ بھی مطابقت رکھتے ہیں، جن کو تاریخی طور پرحشاشین کے لقب سے پکارا جاتا تھا، جو فدائیوں کے دستے رکھتے تھے! یا ’انغماسیین‘(فدائی) کی اصطلاح بھی اب تنظیم الدولۃ کے دستے استعمال کر رہے جو انتقامی کارائیوں کے ذریعے مومنین کے دلوں میں رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں! ان انغماسی(فدائی) دستوں کو یہ مسلمانوں کی صفوف اور قیادتِ مجاہدین کو گھات لگا کر قتل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جس میں یہ خود کش بمبار کا کام کرتے ہیں، اور معصوم لوگوں کو قتل کرتے ہیں جن کا خون بہانا اللہ تعالیٰ نےحرام قرار دیا ہے، اور نہ ہی کوئی بچے ، عورت ، بوڑھے اِن کے دھماکوں اورخاموش اسلحے کی زد سے محفوظ ہیں، یہ تمام کام یہ اس دعوی پر کرتے ہیں کہ یہ(مجاہدین) صحوات مرتدین ہیں۔

ہشتم:
ہم اس بات کی گواہی دیتے ہیں، ایسی گواہی جس سے متعلق ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے خود کو جوابدہ سمجھتے ہیں، کہ جو بھی اس تنظیم جو دولتِ اسلامیہ کے نام سے معروف ہے ، کے ساتھ الحاق اور منسوب ہوتا ہے، اُن کا منہج مذہب خوارج جیسا ہے، خصوصی طور پر مسئلہ تکفیر اور ناحق خون بہانے کے معاملہ میں۔

نہم:
ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ چیزوں کو ان کی اصل صفت کے ساتھ ہی متصف کیا جائے، اور اس کی نسبت سے ہی ان کو نام دیےجائیں اور اسی سے پکارا جائے،جبکہ معاملہ حق کو ظاہر اور واضح کرنے کا بھی درپیش ہو، اور باطل کی نفی کی جائے اور اُسے ترک کیا جائے، جو کوئی ایسا نہیں کرے گا، اس نے لوگوں کے سامنے حق کو نظرانداز کیا اور لوگوں کی گمراہی کا سبب بنا!

دہم:
ہم امت کو بھی تنبیہ کرتے ہیں، خاص طور پر علماء اور داعی حضرات کو کہ وہ اس منحرف فکر کو نشر کرنے سے گریز کریں، نہ صرف تنظیم الدولۃ کے انصاران کے درمیان، بلکہ دیگر جماعتوں کے درمیان بھی،جو کہ اہل سنت کے صافی عقیدےکوڈھانے کا سبب بنے گا اور حرکتِ جہاد کی کمزوری کا باعث ہو گا اور اُن کے اہداف کو منحرف کر دے گا۔ اس لیے سب پر واجب ہے کہ وہ ا س تنظیم کو ہر دعوتی منبر اور ذرائع ابلاغ کو بقدراستطاعت استعمال کرتے ہوئے اِن کے باطل کو رد کریں۔

یاز دہم:
ہم تنظیم الدولۃ کی قیادت کو کہتےہیں کہ فکرِغلو اور منہجِ خوارج سے توبہ کریں جن کو انہوں نے اختیار کر رکھا ہے اور اُن کو اس بات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کہ وہ خوارج ہونے سے انکار کریں کیونکہ اباضیہ خوارج اور دیگر بعض خوارج کے فرقوں نے بھی اس بات سے انکار کیا کہ وہ خوارج ہیں! ہم انہیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کی طرف بلاتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ناحق خو ن بہانے سے توبہ کریں، اور لوگوں پر کیے گئے ظلم سے متعلق صاحبِ حق کے حقوق کو واپس لوٹا دیں ، ہمیں انہیں اِس بات کی طرف بھی دعوت دیتے ہیں کہ وہ ناحق خونِ مسلم سے متعلق شریعت کے تحاکم کی طرف آئیں، جس کو انہوں نے اور اُن کے انصاران نے بغیر حق کے بہایا ہے۔ اور ہم جو بات بیان کر رہے ہیں اس پر اللہ تعالیٰ گواہ ہیں۔

ہم اللہ تعالیٰ سے توفیق، رشد وہدایت کا سوا ل کرتے ہیں۔
کیا ہم نے پہنچا نہیں دیا! اے اللہ، آپ گواہ رہیے گا!

۲۹ شوال ۱۴۳۵ ھ بمطابق ۲۵ اگست ۲۰۱۴ء

ضمیمہ:
یہ ایک جامع لنک ہے جوخلافتِ بغدادی کےخوفناک جرائم کی نشاندہی کرتا ہے:
http://justpaste.it/gtdq

مقریزی ویب سائٹ پر بیان کا لنک:
http://www.almaqreze.net/ar/news.php?readmore=2505






اتوار، 15 مارچ، 2015

جماعتِ بغدادی کے ساتھ ہمدردی اور مجاہدینِ شام کے لیے نصیحتِ عامہ اور مجاہدینِ غوطہ کے لیے نصیحتِ خاصہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعتِ بغدادی کے ساتھ ہمدردی اور
مجاہدینِ شام کے لیے نصیحتِ عامہ اور مجاہدینِ غوطہ کے لیے نصیحتِ خاصہ

شیخ ابو قتادہ فلسطینی حفظہ اللہ

سوال:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اے ہمارے محبوب شیخ، اللہ تعالیٰ آپ کو زندگی دے، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کو خیر و برکت عطا فرمائیں،اے ہمارے شیخ، اللہ تعالیٰ آپ کی حفاظت فرمائیں اور آپ میں اور آپ کے علم میں برکت عطا فرمائیں،ہم غوطہ شرقیہ(شام کے علاقہ کے نام) میں جبھۃ النصرہ کے لشکر کا حصہ ہیں، جن کو اپنے کچھ بھائیوں سے جو جماعتِ بغدادی کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں کے ساتھ تحمل کا معاملہ کرنا پڑتا ہے،ہمیں آپ اِس ہمدردی کرنے کے معاملہ سے متعلق کسی حل سے آگاہی دیجیے۔

اے ہمارے محبوب شیخ ، اللہ تعالیٰ آپ میں اور آپ کے علم میں برکت عطا فرمائیں،ہم آپ سے یہ بھی التماس کریں گے کہ آپ اپنے غوطہ شرقیہ کے بیٹوں کو نصیحت کریں تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کویاد رکھیں اور اس کو مضبوط کریں،اور آپ پریہ بات چھپی ہوئی بھی نہیں ہے کہ غوطہ کے مجاہدین تقریباً ڈیڑھ سال سے زائد عرصہ سے یہاں پر محاذ پرموجود ہیں۔ اے ہمار ےمحبوب شیخ، اللہ تعالیٰ آپ میں اور آپ کے علم وعمل میں برکت عطا فرمائیں۔ (آمین)

جواب:
و علیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

خوش آمدید اے محبوب بھائیو اوردورِ حاضر کے بہترین لوگو، اور یہ مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، میں کتنا ہی خوش ہوں جب آپ کے پیغام کو اپنی طرف آتا دیکھتا ہوں، جس سے آپ مجھ سے مخاطب ہوتے ہو، اور اللہ کی قسم! آپ کا یہ جہاد تب تک جاری رہے گا جب تک آپ کے سپاہی بیت المقدس میں داخل نہیں ہو جاتے، باذن اللہ، اور آپ کو یہی کہوں گا کہ آپ کو کوئی فتنہ اس معاملہ سے دور رکھنے سے باز نہ رکھے جبکہ آپ اپنے اندر اس خیر کو بھی دیکھتے ہیں، اور فتنے تو نیک بندوں کی درجہ بندی کے لیے ہوتے ہیں، حتی کہ یہ معاملہ تو نماز کے اندر بھی ہوتا ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں، اور یہ فتنہ تو لوگوں کے اندر درجہ بندی کی معرفت حاصل کرنے کے لیے ہیں اور اِن کے مرتبہ کو دیکھنے کے لیے ہیں اور جو کچھ اِن کے دلوں میں ہے اس کو واضح کرنے کے لیے ہے، جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ بازارِ خیر تو ہمیشہ کھلے ہیں جیسا کہ افغانستان، شیشان و یمن میں ہیں، اور ان سے وہی فیض پا کر نکلے ہیں جنہوں نے خود کو طاعت وجہاد میں مشغول رکھا، اور یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے شہادت یا امامت میں سے ایک چیز کو چن لیا ہے، اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ کا آج جہادِ غوطہ، بیت المقدس سے پتھر پھینکے جتنی مسافت کے قریب ہے، بلاشبہ کیا ہی خیر ہے جس پر آپ اِس وقت موجود ہیں، اور اللہ کی قسم، ہر عاقل شخص آپ کے اس مرتبے کی وجہ سے آپ سے ضرور حسد رکھے گا، اور آپ کے مقام کو پانے کی تمنا کرے گا، لیکن ہمیں زندگی نے یہ سکھایا ہے کہ جو شخص جس نعمت میں زندگی گزارتا ہے اور اس میں بہت اتر جاتا ہے وہ اس کی عزمت کو خود جاننے سے قاصر رہتا ہے، جیسا کہ اُس شخص کی حالت ہوتی ہے جو خوشبو لگاتا ہے، وہ خود اس کے اِحساس سے محروم رہتا ہے جب کہ اس کے اردگرد لوگ اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں، اسی لیے جہاد و اذکار اور مسلمانوں کے لیے دعا کے علاوہ اپنے آپ کو کسی بھی چیز سے مشغول نہ رکھیں۔

آپ پر واجب ہے کہ آپ مسلمانوں سے رحمت کا معاملہ رکھیں اور ان کے ساتھ بردباری سے پیش آئیں کیونکہ ہماری امت کو طواغیت کے ہاتھوں بہت کچھ برداشت کرنا پڑا ہے، اور اِن کے درمیان جہالت اور غلطیاں کو پھیلایا گیا ہے، اِن کے معاملے میں صبر سے کام لیں حتی کہ یہ دین کی طرف آ جائیں، اور ان کے ساتھ شدت سے پیش نہ آئیں کہ یہ آپ سے دور ہو جائیں اور آپ اِس چیز کا علم رکھتے ہیں کہ یہ جہاد امت کا جہاد ہے، نہ کہ کسی خاص گروہ یا جماعت کا جہاد ہے، اور مقاصدِ جہاد اِن امور پر عمل کیے بغیر ممکن نہیں ہو پائیں گے، یعنی کہ تمام امت اِس میں اپنا حصہ ڈالے، اور آپ پر یہ بھی لازم ہے کہ آپ آپس میں محبت والفت اوررواداری سے کام لیں، اور شیطان کی پیروی نہ کریں کہ وہ اپنے بھائیوں اور احباب میں تفریق پیدا کردے ، بلکہ صبراور حلم اور آپس میں میں ایک دوسرے کے لیے نماز میں اور خفیہ بھی دعاگو رہیں، اے محبوب بھائیو، آپ ایک واجب الوقت کو ادا کرنے کے لیے نکلے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس پر ثابت قدم کیا ہےجبکہ باقی کثیر لوگ اِس سے محروم رہے، اور آپ اس مقام پر آ گئے جس کی باقی تمنا کرنے لگے لیکن وہ یہ نہ بن پائے، پس خود کو اللہ تعالیٰ کی نظروں کے سامنے رسوا مت کریں، جس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو خیر عطا کی، پس اُس خیرکو خود سے دور مت کریں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہادت کی منزل پر لا کھڑا کیا ہے اور یہ ایک عظیم عبادت ہے، پس اپنی پیٹھ پھیرکر پیچھے مت ہٹنا، اور اللہ کی قسم، ہم نے جس منزل پر آپ ہیں، وہاں سے لوگوں کو واپس ہوتے دیکھا ہے اور ہمیں اُن کے چہرے پر سوائے ہزیمت اور چھوٹے پن کے کچھ نہیں دکھا اور ذلت ان پر چھا گئی جیسے ہی انہوں نے جہاد کو چھوڑا ،جو اسلام کی چوٹی ہے، اور وہ دنیا کے مردار کے طرف آ گئے، اور ممالک کے خبث کو دیکھ لیا اور اپنے نفس کی حقارت اور لوگوں کی طرف سے اہانت کو برداشت کرنے لگے، اور یہ بات بھی بہت ہی عجیب ہے کہ جس نے بھی جہاد کو چھوڑا اور واپس ہوا، لوگوں نے اُن کے جھوٹ اور تضاد اور کلام میں تناقص کو دیکھ لیا، اور تمام لوگوں نے یہ بات بھی بیان کر دی کہ یہ جہاد سے واپس ہونے والے بزدل ہیں،اور جہاد فی سبیل اللہ تعالیٰ کے انجام سے ڈرتے ہیں۔

جہاں تک ان شدت پسند غالیوں کا تعلق ہے، جو گمراہ(ابو بکر) بغدادی کی اتباع کرتے ہیں، تو اللہ کی قسم، یہ ایک فتنہ ہے جس سے سوائے جاہل یا ادنیٰ ہی مرعوب ہوئے ہیں، اور بھائیوں نے دیکھا کہ اِن لوگوں کو جو اس جماعت ِ بغدادی میں گئے، تو اُن میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے دین کی حمیت، یااپنے اخلاق یا اپنے علم میں معروف ہو، بلکہ ان کے اندر وہی گمراہ گئے جواپنی بداخلاقی اور خطابِ غلو اورمخلوق اور بھائیوں پر تکبرجیسا معاملہ کرنے والے لوگ تھے، پھر اس کے بعد آپ نے اے محبوب بھائیو، یہ بھی دیکھ لیا کہ کہ کوئی بھی شریعت کا معروف طالب علم اِن(جماعتِ بغدادی) کی طرف نہیں گیا ہے، ان کے درمیان سوائے جہالت کے اور کوئی چیز نہیں ہے، پھر انہوں نے شر کو بڑھایا اور اِن کے فتنۂ تکفیر کی زد میں مسلمان اور مجاہدین سامنے آئے، پھر اُن کو قتل کیا اور اُن کے خلاف قتال بھی کیا، تو پھر کیا یہ اہل سنت کا اخلاق ہے؟ یا کسی ہدایت یافتہ شخص کی خصوصیت ہے؟ اور اللہ کی قسم اور پھر اللہ کی قسم، میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے اِن (غالیوں) سے متعلق استخارے (مدد)کا طالب رہتا ہوں، پھر اس کے بعد اِن سے متعلق سوائے اس بصیرت کے کسی بات میں اضافہ نہ ہوا کہ یہ جہنم کے کتے(خوارج) ہیں، اور میں آپ سے اِن (غالیوں) کےمعاملے میں ایمانداری سے یہ بات بیان کروں گا، اور اللہ تعالیٰ ہمارا بھی آپ کا بھی محاسبہ کرنے والے ہیں، کہ یہ (گروہ) زوال کی طرف گامزن ہیں، اور یہ فتنہ صفِ جہاد کو ان (شدت پسند غالیوں) سے علیحدہ کرنے کاباعث ہے، اور ہم ان سے نہیں ہیں اور یہ ہم سے نہیں ہیں۔

البتہ یہ ممکن ضرور ہے کہ بعض سادہ ذہن لوگ اِن کے خلافت کےد عوی اور اقامتِ حدود کی وجہ سے دھوکہ میں مبتلا ہوئے ہیں، لیکن یہ کسی عاقل شخص کو یہ بات نہیں بھلائے گی کہ اِن کا اصل مذہب اور عمل کیا ہے، اور آپ لوگ اِن کو دیکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں اور مجاہدین کے خلاف قتل وقتال کر رہے ہیں اور خصوصی طور پر اُن جگہ پر حملہ آور ہوتے ہیں جہاں پر مجاہدین(نصیریوں کے خلاف) پیش قدمی کرتے ہیں، اور یہ گمراہ جہلاء اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ مسلمانوں کی نصرت ہو، اور آپ نے صلاح الدین شیشانی کی گواہی بھی اِن (غالیوں) کی طرف سےسنی ہے کہ یہ آپ کی تکفیر کرتے ہیں اور آپ کو ارتداد پر دیکھتے ہیں، اور اس مطلب جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ آپ کے خون بہانے کو جائز سمجھتے ہیں، اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ آپ سےارتداد کی بنیاد پر قتال کرنا اس وقت ہر چیز پر فوقیت رکھتا ہے، اِس جرم سے بڑا بھلا کیا جرم ہو گا؟ لوگوں کے دلوں میں موجود خبث میں سے اس سے بڑا کیا خبث ہو گا؟ یہ لوگ آپ پر کسی بھی غفلت کے لمحے میں کسی بھی قسم کا شر لے آئیں گے اور اِن کے اُن اعمال کا آپ نے گمان بھی نہ کیا ہو گا، اس لیے ان کو خود سےدور کر لیجیے، اور آپ پر لازم ہے کہ اِن کواپنے امور اور جہاد سے متعلق کسی بھی قسم کی آگاہی نہ دیں، بلکہ اگر آپ یہ استطاعت رکھتے ہیں تو ان کو اپنی صفوں سے نکال دیجیے، بےشک اس میں خیر ہے۔

اور کبھی بھی ان سے متعلق کسی بھی قسم کے جھوٹ میں گرفتار مت ہوں، ان لوگوں میں پاگل کتوں کے کاٹنے والے جنونی جراثیم ہیں، آپ کو اس چیز کا علم نہیں ہے کہ کب یہ جنونی جراثیم اپنا کام شروع کر دیں، پھر اُس وقت آپ کو ندامت کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہو گا۔ سب سے پہلے اِن افراد کے لیے علم اور نصیحت کے ذریعے مباحثہ کیجیے، اگر پھر بھی وہ اس نصیحت کو قبول نہ کریں، پھر اِن کو خود سے دور کر دیجیے، اور اِن سے متعلق ایسے ہی خطرہ محسوس کریں جس طرح آپ اپنے دشمنوں سے خطرہ محسوس کرتے ہیں اور بے شک یہ دشمن ہی ہیں، انہوں نے لوگوں کی تکفیر کر کے اُن کو قتل کیا ہے، اور اُن کے خون بہانے اور اموال لوٹنے کو حلال کیا ہے، اِس کے باوجود بعض اصحاب جو اِن کے متعلق ٹھنڈا رہنے کی تلقین کرتےہیں، اب بھی اِن (جماعتِ بغدادی)سے متعلق یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے بھائی ہیں، نہیں، اللہ کی قسم، ایسا نہیں ہے اور آپ لوگ اِن سے متعلق پہلے سے واقعہ شدہ امور سے بھی زیادہ معاملات کو ہوتا دیکھنے والے ہیں۔

اللہ کی قسم، میں حیرت زدہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہو اور خونِ مسلم کی حرمت کا علم بھی رکھتا ہو، اور مجاہدین کی تکفیراور اُن کی خواتین کوحلال جاننےکے خطرے سے بھی آگاہی رکھتا ہو، وہ کس طرح اِن (جماعتِ بغدادی) کے ساتھ ہمدردی دکھا سکتا ہے،اللہ کی قسم، یہ معاملہ میرے لیے ایک ابدی تعجب ہے،اور میں یہ گمان رکھتا ہوں کہ آپ نے ان خبثاء کی طرف سے نشر کیے گئے مقالات کی جہالت کو سن رکھا ہے، اس میں یہ بات یقین کے ساتھ ثابت شدہ ہے، جس میں کسی بھی قسم کا کوئی شک باقی نہیں رہتا کہ یہ آپ کے جان و مال کو حلال سمجھتے ہیں، بلکہ اللہ کی قسم، ان میں سے بعض نے تمہاری عزتوں کو جائز سمجھتے ہوئے دھمکیاں بھی دی ہیں، اور میں یہ بات یقین کے ساتھ بیان کر رہا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، بلکہ ان میں سے بعض صغار نے اپنے ایک دوست سے کہا، اور وہ ایک نوجوان شخص ہے، کہ اگر اگر مجھے فلاں شخص(اور اُس نے بڑی عمر کے ایک شخص کا تذکرہ کیا) پر قدرت حاصل ہو گئی، تو میں اسے اس کے ارتداد کی وجہ سے اپنے ہاتھوں سے ذبح کر ڈالوں گا۔

اللہ اللہ یہ ہمارا جہاد! پس اس جہاد کو اپنی غفلت کی وجہ سے ضائع مت کرو،اور نہ ہی اس جہاد کو برے اور گمراہ لوگوں کے لیے چھوڑ دو، اور یہ جان لو کہ اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ خود ان کا پہلا شکار بن جائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد نہیں کریں گے اور نہ ہی آپ کے دشمن آپ کو چھوڑیں گے، حق کی نصرت کریں، اللہ تعالیٰ تمہاری نصرت فرمائیں گے، اس جہاد کی حفاظت کریں کہ اسے خبیث قسم کے لوگ جیسا کہ گمراہ کذاب بغدادی کی اتباع کرنے والے چرا کر نہ لے جائیں، اگر آپ نے ایسا کر لیا ،تو بے شک نصرت آپ کی ہی ہو گی، اور اللہ تعالیٰ تو معاملے کو واضح کرنے اور اقامتِ حجت کو پسند فرماتے ہیں، اور آپ پھر اُس حق کے حقدار اوراِس (جہاد)کی حفاظت کرنے والے گردانے جائیں گے۔

میں آپ سے اس مختصر کلام پر معذرت چاہوں گا، بلاشبہ آپ خیر کے معاملہ میں سبقت لینے والے لوگوں میں سےہیں اور آپ کے لیے ہی محبت اور نصیحت کیے جانے کا اصل حق ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کاوش ایک ضعیف (شخص) کی ہے۔

والسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
شیخ عمر محمود ابو قتادہ فلسطینی

جمعرات، 12 مارچ، 2015

خلافت ِ بغدادی کے اعلان سے متعلق بیان (هيئة الشام الإسلامية)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
خلافت ِ بغدادی کے اعلان سے متعلق بیان
هيئة الشام الإسلامية

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، سوائے ظالموں کے کسی پر جارحیت نہیں، اور درود وسلام ہو اُن پر جو واضح حق لے کر آئے(صلی اللہ علیہ وسلم)،اُن کی آل پر، اُن کے اصحابؓ پراور اُن پر جو احسان کے ساتھ اُن کی قیامت تک پیروی کریں، بعد ازاں:

فتنے یکے بعد دیگرے نازل ہو رہے ہیں، آزمائشیں امتِ اسلام پر گردش کی مانند آ رہی ہیں حتی کہ میل کچیل ایسے زائل ہو رہے ہیں جیسے لوہے کی دھات کا زنگ ختم ہو تا ہے، انہی آخری فتن میں سے،ایک ’خلافت‘کا دعوی ہے جس کا اعلان جماعتِ بغدادی نے کیا ہے،جو پہلے اہل شام پر زخموں سے چورمصائب کو لائے، بالکل ویسے ہی جیساکہ انہوں نے پہلے اہل عراق پر یہی زخم لگائے تھے، جس میں قتل وغارت اور تکفیرکی گئی، اور انقلاب و جہاد کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور(مسلمانوں کی) وحدت میں تفریق پیداکرنا شامل رہا ۔

ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ یہ بودے قسم کا دعوی جو اپنے ظاہرپر باطل پرکھڑا ہوا ہےکی بابت کوئی بیان کرنے کی ضرورت ہے، لیکن جماعت ِبغدادی نے ذرائع ابلاغ کے ذریعے دھوکہ دینے میں مہارت حاصل کی ہوئی ہے،جس کے ذریعے وہ اپنی تنظیم کےجملۂ امور کے معاملہ میں غلو کرتے ہیں، تعداد کو بڑھا کر پیش کرتے ہیں، اور بہت سے دوسروں کی حاصل کردہ فتوحات کو خود سے منسوب کرتے ہیں، اور جس گروہ کی امت کے دشمن ذرائع ابلاغ بھی معاونت کرتے ہیں،جنہیں ایک ایسا گروہ میسر آ گیا ہے جو مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے والا باغی گروہ ہے اور مجاہدین کے نام کو بدنام کرنے کا سبب بھی بنتا ہے۔

یہ واقعات تمام لوگوں سے غوروفکر اور ہوش مندی کا مطالبہ کرتے ہیں، اور ہر جگہ سے تعلق رکھنے والےاہل علم ، اہل فکر، اہل جہاد پر اس بات کو نئے انداز سےفرض ہونے کی حیثیت سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اس فتنہ سے متعلق اپنے سکوت و خاموشی کو توڑیں، اِن سے متعلق بات کریں، معذرت سے پرہیز کرتے ہوئے، اِن(داعش) کے خلاف اس طریقے سے بیان جاری کریں، جو اس سے قبل نہ کیا گیا ہو۔

اور اس خلافتِ مزعومہ سے متعلق ان مختلف وجوہات کی بنا پر اِس کے باطل ہونے کو واضح کرتے ہیں:

(۱)اس اعلان کا بیان ایک باغی مارقہ فرقہ کی طرف سے ہونا ہے، جو تکفیر پر کھڑا ہے اور(ناحق) خون کو جائز قرار دیتا ہے، جو منہجِ نبوی سے منحرف ہیں، وہ منہج جو اصل میں خلافتِ راشدہ کی اقامت پر کھڑا ہے۔

(۲)دولت (امارت) سے متعلق شرعاً اور عرفِ عام میں ضروری عناصرموجود نہیں ہیں،اور نہ ہی اِن کو تمکین حاصل ہے، نہ ہی لوگ اِن کے تابع ہیں، اگر پھر بھی ان کی کچھ شخصیات کو ظاہراً تمکین اور غلبہ حاصل ہے، تو یہ دولت کی نسبت ایک گروہ کے زیادہ قریب ہے۔

(۳)خلافت کا اعلان انفرادی طور پر بغیر اہل علم اور اہل رائے اور مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کرنا، جیسا کہ حزبِ بغدادی کے ذہنوں میں یہ بات سرایت کر گئی ہے کہ یہ خود ہی اہل شوری اور اہل حل و عقد ہیں، اور ان کے علاوہ افراد پر مرتدین اور صحوات کے حکم کے علاوہ کچھ نہیں لگتا، جیسا کہ متعدد بار انہوں نے اس بات کو واضح کیا ہے! یہ انفرادی فیصلہ امت پر نیا استبدادوظلم ہے اور امت کےاقتدار سے تجاوز کرنے والا امر ہے،امت کی رائے پر رسوائی لانے والا اور مصلحت ِ امت کو نظرانداز کرنے والا معاملہ ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے امت پر اِس کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا:

[پس اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے] (امام بخاری اور دیگر نے اسے روایت کیا ہے)۔

ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ
[جس نے یہ (بغیر مشورے کے) بیعت والا معاملہ کیا ، تو اس نے گویا خود کو اور صاحب ِ بیعت کو بھی قتل کےخطرے سے دوچار کر دیا]

(۴)لوگوں پر اُس بیعت سے متعلق غضب ناک ہو رہے ہیں، جس کا اصلاً انعقاد ہوا ہی نہیں ہے، جب انہوں نے کہا:
[ہم مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ خلیفہ کے اعلان کے بعد تمام مسلمانوں پر خلیفہ ابراہیم(ابو بکر بغدادی) کی بیعت اور نصرت واجب ہو چکی ہے۔۔۔]

اور پھر یہ کہ:
[وہ تمام دنیا میں بسنے والوں مسلمانوں کے امام اور خلیفہ بن گئے ہیں]

اور یہ بات بھی ان کی طرف سےبیان ہوئی کہ:
[جو صفوں میں تفریق پیدا کرنا چاہے، اس کے سر کو گولیوں سے اڑا دو اور اس میں موجود سب کچھ باہر نکال دو، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور اس کے لیےکوئی عزت نہیں ہے]

(۵)ایک مجہول الحال (نامعلوم غیر معروف)خلیفہ کا تعین کرنا،جس کا کسی ایک بھی اہل علم نے تزکیہ نہیں کیا، یہ اپنی جماعت کے افراد سمیت جمہور مسلمانوں کے لیے(فالوقت) مجہول العین ہے، اگر اس کا نام معلوم بھی ہو، تو بھی علمائے امت کی طرف سے ایک معتبر خلیفہ کے شروط کو نظر انداز رکھا گیا ہے، اور یہ امت کا تمسخر اڑانے کے مترادف ہے، یہ تو بالکل جابرانہ حکومتوں جیسا طرزِ عمل ہی ہے۔

(۶)بغدادی کا اپنے امیر(ایمن) ظواہری کے ساتھ عہد شکنی کرنا اور بیعت کو توڑ دینا جب کہ بغدادی نے کہا تھا:
[آپ (شیخ ایمن الظواہری)ہمارے معاملات میں ولی الامر ہیں اور جب تک ہم باقی ہیں ،ہم پر آپ کی سمع و اطاعت کا حق ہے!]

اور(شیخ ایمن) ظواہری نے شام میں دولت کی توسیع کو اپنے فیصلے میں باطل قرار دے دیا تھا، اور اُس فیصلہ والے بیان کے بعد لی گئی تمام بیعات باطل و مردود ہیں ۔ کیا مسلمانوں کے’خلیفہ‘ کا پہلا عمل غداری، خیانت اور عہد شکنی ہوتا ہے!

یہ شریعت کی مخالفت پر مبنی اعلان اہل اسلام پر بہت سے فتن و شرور اور مفاسد و مصائب لے کر آیا ہے، ان میں سے بعض یہ ہیں:

(۱) اس طریقے پر ’خلافت‘ کا اعلان کرنااور ایسے طبقہ کی جانب سے اس کا اعلان خلافت کے مقاصد کو فوت کر دیتا ہے، جس کے ذریعے دین اور سیاستِ دنیا کی حفاظت ہوتی ہے، بلکہ یہ تو اسلام کی صورت کو مسخ کرنے کے مترادف ہے جس سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دولت تو دراصل دولتِ قتل اور دولتِ جرائم ہے، جوفقط سروں اور ہاتھوں کو کاٹنے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔

(۲)پوری امت ِ اسلامیہ کواِس مجہول(مامعلوم و غیر معروف) ’خلیفہ‘ کی بیعت نہ کرنے پر گناہگار قرار دینا، اور ان کے ساتھ قتال کو جائز قرار دینا اور اُن کے خون کو مباح سمجھنا اگر وہ اِس جماعت کےخلیفہ کی اطاعت کو قبول نہیں کرتے! اس بات کو ملحوض رکھتے ہوئے کہ کوئی بیعت(عامہ) اُس وقت تک معتبر نہیں ہوگی، جب تک باقی لوگ (تمام نہیں تو جمہور) اس کے تابع نہ ہو جائیں، اور ایک امرِ عامہ جیسا نظم سامنے نہ آ جائے، یہی اس حدیث سے مقصود ہے [جو شخص اس حالت میں مر جائےکہ اس کی گردن پر بیعت نہ ہو،تو اس کی موت جاہلیت پر ہوئی]، اِس حدیث کا اطلاق اُس طبقہ یا گروہ پر نہیں ہوتا جس کو امت ہی نہ جانتی ہو اور نہ ہی سابقہ ومابعد علمائے امت جانتے ہوں۔

(۳)مسلمانوں اور اُن کے فتوحات اور جہاد کو شام و عراق میں کمزور کرنا، ان کے درمیان فتنہ کو بھڑکانا، اور انہیں دشمن کے گروہوں سے قتال سے ہٹا کر دوسری طرف مشغول کرنا۔

(۴)ان تمام کتائب اور مجموعات کو جو اِن(الدولۃ) کے جھنڈے تلے جمع نہیں ہوئے، ان کی طرف سے کیے جانے والے دعوتی، علمی، جہادی، رفاعی کاموں کو کالعدم اور بےکارقرار دینا۔

(۵)مسلمانوں کے ممالک میں اسلام دشمنوں کو تمکین فراہم کرنا، اور ان کو نئے انداز سے ایک موقع عطا کرنا، اِن دشمنوں کی سیاست و مفاداس چیز کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ اس نقصان دہ ’خلافت‘ کی ترویج اور نشرواشاعت کریں؛ اس لیے وہ اِن کی مزاحمت (اُس طرز پر)نہیں کرتے بلکہ اِن کے لیے مسلح ہونے اور انتشار پھیلانے کو آسان بناتے ہیں ، تاکہ وہ مجاہدین کے علاقوں کا حصار کر سکیں، اور یہ جماعتِ مارقہ مسلمانوں کے دشمنوں پر سوار ہوتے ہوئے سنی علاقوں کو تباہ کر سکے اور اُن کی تقسیم میں معاونت کرے، پھر یہ اِن (الدولۃ) سےاور باقی مسلمانوں کے خلافت قتال کرتے ہیں اور شدت پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے ناموں کو بنیاد بناتے ہیں ۔

اس بڑی مخالفت اور عظیم مفسدے کے سامنے تمام لوگوں پر واجب ہے کہ وہ اس کا سامنا کر کے مقابلہ کریں:

اول: اہل علم اور اہل فکر کو چاہیے کہ ابتدائی قدم اٹھائیں اور ان امور کو تعین کر کے ان کی وضاحت کریں:

(۱) خلافتِ اسلامیہ کے مفہوم کی وضاحت کریں، جو سوائے اللہ تعالیٰ کی سنت کے مطابق نصرت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور جس نصرت کے بعد دولتِ اسلامیہ پھیلتی ہے اور اس کا قیام ممکن ہوجاتا ہے، یہ صرف کسی شخص کے اپنی مرضی کا دعوی کر لینے سے وقوع پذیر نہیں ہوتی،اور نہ ہی خلافت کی شرط اقامتِ دین کے لیے کسی محدود ملک کے ساتھ مشروط ہے اور نہ ہی کسی خاص معین کیفیت کے ذریعے قائم ہوتی ہے، بلکہ جیسے جیسےاللہ کا دین قائم ہوتا جاتا ہے اسی طرز پر دولتِ اسلام قائم ہوتی جاتی ہے، اور مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تمکین حاصل کرنے میں جلدبازی کریں جبکہ اس کے مادی اسباب بھی سامنے نہ پاتے ہوں ، اور نہ ہی اس تمکین کے مسئلہ میں اُجلت دکھائیں یا اپنی جماعت کے ذریعے بغیر باقی مسلمانوں کو شامل کیے، اس کی یکتا کوشش کریں ؛ بلاشبہ یہ ایک واضح ضلالت وگمراہی ہے، اور امت میں بہت سے جھوٹے اور دجال ظاہر ہوئے ہیں، جوسب مختلف گمان رکھتے تھے کہ اُن میں کوئی نبی ہے، یا مہدی ہے یا خلیفہ ہے۔

(۲)اس اعلانِ خلافت کا شریعت سےمتصادم ہونے کی تصدیق کی جائے، جیسا کہ کئی اعتبار سے اس کی وضاحت ہوتی ہے، جیسے اس خلافت کا اعلان کرنے والے امت کی رائے میں غالی خوارج مارقہ ہیں، اور ان کے آگے تسلیم ہونے کی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ کسی کے آگے تسلیم ہو جانے کا حق متغلب حاکم کے پاس محفوظ ہوتا ہے جو مسلمانوں کی جان کی حفاظت کرتا ہے، اور اِن (الدولۃ)کے پاس کسی قسم کا سلطہ نہیں ہے، بلکہ اِن کے سامنے تسلیم ہونے سے مزید ناحق خون بہے گا، اور اِن خوار ج کے بڑوں نے کہا ہے [ہم خون پیتے ہیں اورکھوپڑیوں کے گھر بناتے ہیں]، اور یہ رائے ہمارے معصوم لوگوں کے ناحق خون اور مال کے متعلق بیان کرتے ہیں، بلکہ اُن مجاہدین کے خلاف جو دشمنوں سے لڑ رہے ہیں۔

(۳) امت ، اُس کے انقلاب، اُس کے جہاد پر اِن کی طرف سے اپنائی گئی حکمتِ عملی کے ضرر اثرات کی وضاحت کریں، جو اس اعلان کی وجہ سے سامنے آئے ہیں، اور اس سے قبل بھی دئے گئے بیان اور دیگر بیانات کی روشنی میں اِس کو عامۃ الناس پر واضح کریں۔

(۴) تاریخ میں غالیوں اور خوارج کے موقف کا انکشاف کرنا، اور سابقہ دہاہیوں میں دولتِ اسلام پر ان کی تخریب کاری اور بگاڑ کے اثرانداز ہونے کو سامنے لانا، اور فتوحات کا راستہ روکنا، اہل ایمان کو قتل کرنا، اہل شرک کو چھوڑ دینا، اور اِن کی پناہ میں گئے ہوئے لوگوں کے ساتھ کی گئی غداری کو واضح کرنا۔

(۵) خوارج کے احوال کو دولتِ بغدادی کی مماثلت کو استعمال کرتے ہوئے واضح کرنا، جس میں علمائے امت کا سقوط کرنا، اِن (جماعت الدولۃ)کی طرف سے نشر جہالت کو واضح کرنا، اور ان کے اندر موجود منحرف سمت بندی کو منکشف کرنا، اوراِن کی بعض قیادت کا روافض کو چھوڑ دینے کا(اہل سنت پر) معاملہ کرنا، اور اِن (روافض)کی خدمت امت کے دشمنوں کی مصلحت کو فائدہ پہنچا کر کرنا(جیسا کہ مجاہدین سے لڑنا)، اور بعض محاذون پر براہِ راست اِن سے قتال کو روکے رکھنا، اور بعض علاقوں میں ڈاکؤں اور راہزنوں سے لڑائی کرنے سے گریز کرنا، اور اس معاملہ کی وضاحت کرنا کہ سابقہ اولین خوارج کے اپنے نماز، روزے اور تلاوتِ قرآن کی ریاضت بھی ان کو کوئی اطمینان نہ دلا سکی تھی۔

دوم: ہم قیادتِ جہاد اور انقلاب کے داعی حضرات کو کہتے ہیں ، جن کو عامۃ الناس نے اپنی قیادت کرنے کی ذمہ داری سپرد کی، اللہ تعالیٰ کی ذات کے بعد وہ اس معاملہ میں ہمارے معاون و مددگار ہیں، اور ان سے بھی ہم مندرجہ ذیل فرض کی ادائیگی کی درخواست کرتے ہیں:

(۱) اہل علم کے ساتھ تعلق استوار کیجیے، اور ان کے ساتھ مستقل مشاورت کا عمل جاری رکھیے اور اسی طرح اہل خبر اورمختلف اہل تخصص کے ساتھ بھی مشورہ کیجیے، تاکہ اکٹھے ہو کر مشترک رائے اور حکمتِ عملی کو وضع کیا جا سکے جس سے یہ نازل ہونے والی آفت کو دور کیا جا سکے، اور ان جیسے افراد کے ساتھ تعامل اور اُن کی طرف دعوت دینے والوں کے ساتھ تعامل کی وضاحت ہو سکے۔

(۲)تمام لوگوں کو ایک کلمہ پر جمع کرنے کے معاملہ کو فوقیت دی جائے، اور اُن تمام اسلوب کو اپنایا جائے جس سے اِس طریقے پر جانے میں معاونت ہوسکے، اور اسلام کے ساتھ ولاء کو فوقیت دی جائے ،چاہے وہ کسی بھی وجود یا جماعت کے ساتھ ہو، اور تمام کے ساتھ سچائی کے ساتھ تعامل کیا جائے، حسنِ ظن رکھا جائے، اور کسی مصیبت پہنچنے پر صبر سے کام لیا جائے۔

(۳)مسلمانوں کے علاقوں میں اس خبیث شجر کے خاتمے کے لیے مکمل عزم اور ارادہ ہو، اور اس میں کسی بھی قسم کے تردد سے پرہیز کیا جائے، اور موجودہ صورتِ حال اور حسبِ حال کیفیت کو سامنے رکھتے ہوئے ان (داعش) کے خلاف قتال اور دشمنوں کے خلاف قتال میں ایک متوازن ملاحظہ برقرار رکھا جائے، اور ان پر ظاہری حکم کے فریب سے بچنے میں احتیاط ہو یا اِن کی فکراور روابط جس کے ذریعے جہاد اور اہل جہاد کو نقصان پہنچتا ہو، اس سے غفلت برتنے میں پرہیز کیا جائے۔

سوم: ہم امت کے غیور نوجوانوں کو اللہ تعالیٰ کے لیے ان امور میں نصیحت کرتے ہیں:

(۱) اس امر سے متعلق غوروفکر کریں، اور اہل علم سے سوال کریں جب ان کو کوئی اشکال ہو جائے، اور یہ بات جان لیں کہ صفِ بغدادی میں کوئی بھی مشہور عالم نہیں ہے، جس کا مسلمانوں نے نزدیک مقام ہو، جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نےاِن (داعش)کے اسلافِ خوارج سے ان کی جہالت کی وضاحت کرتے ہوئے یہ بات بیان کی تھی:

[ ہم تمہارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ کی طرف سے آئے ہیں، جو مہاجرین اور انصار میں سے ہیں؛ تاکہ تم پر یہ بات واضح کریں جو وہ صحابہؓ بیان کرتے ہیں، اور تمہیں وہ بات پہنچائیں جس کی وہ خبر رکھتے ہیں، اور اِن صحابہؓ کے دور میں قرآن اترا، اور وہ تم سے زیادہ وحی کا علم رکھتے ہیں، اور اُن کے عہد میں وحی کا نزول ہوا ہے، اور تمہارے درمیان اِن صحابہ ؓ میں سے کوئی بھی نہیں ہے] (حاکم نے اس کی تخریج کی ہے)

(۲) ان کی طرف کسی بھی قسم کی موافقت سے اجتناب برتا جائے، یا ذرائع ابلاغ میں ان کو کسی قسم کا فروغ دیا جائے یا اِن کے حق میں کسی بھی قسم کی مبالغہ آرائی کے ذریعے معاملہ کو ابھارا جائے، اور لوگوں کو اس بات کا ادراک کروایا جائے کہ جماعت الدولۃ جھوٹ اور جعل سازی سے کام لیتی ہے، اور اپنی حقیقت کو چھپانے اور تقیہ کرنے کے معاملہ میں روافض کی تقلید کرتی ہے۔

(۳)جماعت الدولۃ کے اعلانِ خلافت کے باطل ہونے پر کسی قسم کا شائبہ نہ رکھا جائے، کیونکہ بلاشبہ یہ کہیں سے بھی منہجِ نبوت پر اپنی ہیت، نہ ہی معنی کے اعتبار سے قائم ہے، کہ جماعت الدولۃ ایک باغی ظالم تنظیم ہے جو اللہ کے رستے سے منحرف ہو چکی ہے، اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ انہی لوگوں کو اپنے دین کی حفاظت کی جانشینی عطا فرماتے ہیں جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، نہ کہ وہ جو ( اہل اسلام کو قتل کریں اور اہل شرک کو چھوڑ دیں)۔

(۴) اہل علم کی توقیر کی جائے اور ان کی عزت کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے، اور اُن پر تہمتیں لگانے سے گریز کیا جائےکہ وہ جماعت ِ بغدادی سے حسد کرتے ہیں یا اُس کی مخالفت کرتے ہیں، یا یہ کہ وہ اقامتِ خلافت کے خلاف ہیں، یا یہ کہ وہ طواغیت کے سامنے جھکتے ہیں اور اُن سے راضی ہیں، بلاشبہ یہ سب بہتان باتیں ہیں۔

(۵)اللہ کے حکم کے معاملہ میں اپنے نفس کی حفاظت کی جائے، اور کسی مصیبت پر صبر سے کام لیا جائے، اور باطل کے خلاف اپنا دفاع کیا جائے، اور شیطان کے ان وسوسوں سے بچا جائے کہ اللہ کے امر کو موت فی سبیل اللہ سے ہی باندھ دیا جائے، اور زندگی فی سبیل اللہ گزارنے کے معاملہ کو وقعت نہ دی جائے، کیونکہ شہادت کا انتخاب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے، نہ کہ وہ کوئی ایسی چیز ہے جس کے بارے میں آپ خود انتخاب کرنے لگ جائیں۔

چہارم: عامۃ المسلمین کو، جو امت کا حصہ ہیں، اس کا جزو ہیں، اس کو قائم رکھنے والے ہیں، اُن سے ہم کہتےہیں:

(۱)اس تنظیم کو بے نقاب کریں اور اس کے خطرے کو واضح کریں اور عامۃالمسلمین پر اِن کی حقیقت کو آشکار کریں، اس کی مسوؤلیت اُن تمام لوگوں پر ہے، جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں۔

(۲)آپ سب اپنے اموال کے بارے میں خود ذمہ دار ہیں،اس لیے اِن اموال کو سچےعملی کام کرنے والوں کو دیجیے، اور وہ الحمدللہ کثرت سے ہیں، اور وہ کسی خاص معین تنظیم تک محدود بھی نہیں ہیں۔

(۳)آپ کے بیٹے بھی آپ کی گردنوں پر ایک ذمہ داری ہیں اور (ہر کوئی شخص اپنی رعایا سے متعلق ذمہ دار ہے)، اس لیے انہیں اہل غلو کے دھوکہ میں جانے سے روک لیجیے، جو یہ دھوکہ خلافت کے دعوی سے کر رہے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ان مجرمین کے ہاتھوں میں ایسا آلہ بن جائیں، جس کے ذریعے یہ مسلمانوں کے خلاف قتال کریں۔

اے اللہ، ان شریر لوگوں کے شر کو روک دیجیے، فاجر لوگوں کے غدر سے ہمیں بچا لیجیے، کفار کے فریب سے ہمیں نجات دیجیے، اے عزیز، اے غفار۔ (آمین)

الحمدللہ رب العالمین

مصدر(عربی):
http://islamicsham.org/letters/1892


جمعہ، 6 مارچ، 2015

جماعت ’’الدولۃ‘‘ اوراس سے متعلق شرعی حکم از جبھۃ النصرہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت ’’الدولۃ‘‘ اوراس سے متعلق شرعی حکم

جبھۃ النصرہ، ولایت درعا


الحمدللہ رب العالمین والصلاۃوالسلام علی نبینا محمد و علی آلہ وصحبہ اجمعین و من تبعھم باحسان الی یوم الدین و بعد:

ایسے وقت میں جب اہل شام، شام کے اندر نصیری طاغوت کو گرانے کی سعی کر رہے، جو کئی دہائیوں سے یہاں فساد پھیلانے میں مصروف رہا، ایسے وقت میں مسلمانوں کی امیدیں دوبارہ جاگ اٹھیں، جب ارضِ شام میں اسلامی مجاہد قوت کا ظہور ہوا ، جو امت کو اس کی عزت اور کرامت کو واپس دلا نے میں مصروف ہو گئی ،اور اس سائے تلے جب مجاہدین مسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے تھے، ان ساحاتِ جہاد میں ایک نئی تنظیم کا ظہور ہوا، اور وہ ہے (جماعت الدولۃ)، اور اُس دن سے مسلمان تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور مجاہدین میں تفریق پیدا ہونی شروع ہوئی ہے، الا اس پر جس پر اللہ تعالیٰ نے رحم فرما دیا۔ دوسری طرف نصیری نظام پیش قدمی کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگا ہے، تمام مسلمانوں پربیانات اور ان کے اعمال کی وجہ سے حقیقت واضح ہوئی، جن کا علماء،قیادت عامہ اور عوام الناس نے مکمل رد کیا۔

بہت سے لوگوں نے اس جماعت کے حکم سے متعلق استفسار کیا، اور ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کی وضاحت کریں گے اور اس کے لیے راسخین علمائے متقدمین اور متاخرین کے اقوال کے ذریعے اس کی وضاحت کریں گے۔ اس بات پر تنبیہ ضروری ہے کہ کسی بھی فرد یا جماعت سے متعلق حکم بیان کرتے ہوئےضروری ہے کہ وہ حجت اور دلائل کی بنیاد پر قائم ہو، اور ہوائے نفس اور تعصب کا اس سے دور کا بھی تعلق نہ ہو، پس ہم اس بارے میں یہ کہتے ہیں، اور تمام قسم کی توفیق اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے:

اس جماعت(الدولۃ) کے اصول اور خصائل کا اطلاق کلی طور پر غالی خوارج کے اصول اور خصائل سے کیا جا سکتا ہے، خوارج کے فرقہ کا شمار اولین گمراہ فرقوں میں ہوتا ہے، جو اسلام میں ظاہر ہوا اور جس کی شناخت غلو اور شدت پسندی بنی،ا ور اس وقت سے اُن کا خروج ہوتا رہا ہے، بلکہ اِن کا خروج دجال کے دور تک ہوتا رہے گا جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ہے، اور انہوں نے جدید وقدیم جہادی ساحات کو فتنہ زدہ کیا ہے، اوریہ بات معلوم ہے کہ یہ خوارج کے اصول اور خصائل ہیں جن کو معتبر اہل علم نے واضح کیا ہے۔

ان کو یہ نام(خوارج) اس وجہ سے دیا گیا کیونکہ انہوں نے سنت سے بدعت کی راہ اپنائی، جماعت المسلمین کے خلاف خروج کیا، اور دین سے نکل گئے، اور ان کے کچھ نمایاں خصائل یہ ہیں:

(۱) امامت اور بیعت کے مسئلہ میں غلو:
خوارج اپنے امیر کی بیعت کو واجب جانتے ہیں اور اُسے امامِ اعظم کے طور پر تعبیر کرتے ہیں، اور اُن سب کے خون کا بہانا جائز سمجھتے ہیں جو ان کے امیر کی بیعت نہیں دیتا، اس حجت کے ساتھ کہ اس نے کفر کیا یا بغاوت اختیار کر لی ہے:

شھرستانی کہتے ہیں:
[جس کو یہ (خوارج) اپنی رائے کے ذریعے انتخاب کرتے ہیں، اور جو لوگوں کے درمیان وہ عدل قائم کرتا ہے جس کو یہ (خوارج)عدل سمجھتے ہیں، اور اُس چیز سے روکتا ہےجسے یہ (خوارج) ظلم سمجھتے ہیں، وہ ان کا امام بن جاتا ہے، اور جو کوئی بھی اس امام کے خلاف خروج کرتا ہے، تو اُس کے خلاف قتال کرنا واجب ہوجاتا ہے]

ان کی یہ صفت روافض سے مشابہت رکھتی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ امامت دین کا ایک رکن ہے، اسی لیے وہ امامت کو واجب قرار دیتے ہیں چاہے وہ تمکین یا مسلمانوں کے مشورے کے بغیر ہی کیوں نہ ہو۔

اور اس صفت کی تطبیق جماعت الدولۃ پر بھی ہوتی ہے کیونکہ ان کا نام امامت کے معاملہ میں غلو کی طرف نشاندہی کرتا ہے جس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ صرف ان کی جماعت میں ہی شامل ہوا جانا چاہیے۔ انہوں نے اپنی اس دولت(ریاست) کا اعلان کیا جبکہ اس وقت یہ فقط ایک وہمی، الیکٹرونک دولت تھی اور ان کا امیر اُس وقت اَن دیکھا، ضعف میں اور چھپا ہوا تھا، اور انہوں نے اس کی بیعت کرنے کو دورِ حاضر کا واجب جانا اور ان سب کے خون کو بہانا حلال جانا جو اُس کی بیعت نہ کرے، اور کہا کہ ایسے افراد کو دماغ میں گولیوں مار کرسر کو کھول دیا جائے، جیسا کہ ان کے ترجمان نے بیان میں کہا، اور انہوں نے اپنی دولت کو ’باقیہ‘(باقی رہنے والی) سے متصف کیا جبکہ باقی رہنے والی ذات صرف اللہ تعالیٰ کی ہے، بلکہ اس جملے (باقیہ) کو اپنے شعار کے طور پر لیا ہے، اور اِن کی طرف کسی بھی شخص کی فقط بیعت کر لینے سے اس کے باقی سابقہ گناہوں کی تلافی ہو جاتی ہے، چاہیے وہ کوئی شبیحہ(کٹر نصیری فوجی) ہو، کوئی مجرم ہو یا کوئی نشہ آور آدمی ہی کیوں نہ ہو، انہی وجوہات کی بنیاد پر ان کے کثیر امراء بعثی ، راہزن، مجرم یا خفیہ کارندے ہیں جن کو پناہ اورجائے امن ان کے گروہ میں ہی ملا ہے، پھر اس کے بعد ان کا معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے جس سے یہ خلافت کا اعلان تمام مسلمانوں پر کرتے ہیں اور جو خلافت دنیا میں جاری باقی تمام جماعتوں کے جہاد کو باطل قرار دے دیتا ہے۔

(۲) علمائے امت اور قیادتِ امت کے اوپر طعن و تشنیع کرنا:
ان خوارج کے جدِ امجد ذوالخویصرہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کیا اور انہیں ناانصافی اور ظلم سے متصف کیا، اور یہی اِن کا طریقہ سابقہ بھی تھا اور حالیہ بھی یہی ہے، انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور باقی صحابہؓ کی تکفیر کی، اور آج یہ علمائے امت اور ائمہ جہاد کی قیادت اور ان کے موقف پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں، جیسا کہ شیخ الظواہری پر ان کے بےوقوف شام کے زوابری (جماعت المقاتلہ الجزار کے خوارج کے امیر کا نام)کے بیان سے واضح ہے، اور اسی طرح انہوں نے کثیر مشائخ پر طعن کیا جیسا کہ شیخ ابو محمد المقدسی، شیخ ابوقتادۃ فلسطینی، شیخ ھانی السباعی اور دیگر اہل علم کے خلاف بھی یہی کام کیا، حتی کہ لوگوں کے سامنے کوئی قیادت نہ بچی سوائے ان کے اپنے جہلاء اور کم عمر بےوقوفوں کے، اور یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ علماء اور اہل فضل پر طعن کرنا یہ روافض کا منہج ہے جس کے ذریعے وہ امت کا سقوط کرتے ہیں؛ امت کے پاس اپنے علماء کے بعد باقی ہی کیا بچتا ہے؟ پھر ہمارے لیے یہ کیسے ممکن ہو پائے گا کہ ہم اپنے دین کو وضاحت کے ساتھ ان علم اٹھانے والوں کےبغیر سمجھ سکیں جنہوں نے غالیوں کی تحریف کو واضح کیا،شریعت کا انکار کرنے والوں کا رد کیا اور جہلاء کی تاویلات کا جواب دیا؟

(۳) تکفیر میں غلو:
تکفیر(کسی کلمہ گو کو کافر قرار دینا) ایک خطرناک شرعی حکم ہے، جو کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹتا ہے، اس لیے تکفیر معین کرنا تب تک جائز نہیں جب تک کہ ان لوگوں کی طرف سے جو اس تکفیر کے معاملہ میں قابلیت و مہارت رکھتے ہیں، وہ تکفیر کی شروط اور موانع کی تحقیق نہ کر لیں۔ ایک ہزار کافروں کو چھوڑ دینے کی غلطی اس خطا کی نسبت بہت ہلکی ہے جو ایک مسلمان(جس کا خون حرام ہے) کے خون بہانے میں واقع ہو جائے۔ خوارج تکفیر کے معاملہ میں بہت شدت پسند تھے یہاں تکہ وہ اسی صفت کی وجہ سے مشہور بھی ہو گئے کہ انہوں نے سیدنا علیؓ اور صحابہؓ کی پہلے تکفیر کی، پھر اس کے بعد امت کی تکفیر کی، سوائے ان لوگوں کے جو اُن کی جماعت میں شامل ہو گئے، ان کا یہ غلو فقط کبیرہ گناہ کے مرتکب تک ہی محیط نہ تھا بلکہ ان کا مذہب اِس سے بھی آگے بڑھا، اور وہ ایسے امور کچھ خاص معین صورتوں کے ذریعے اعتقاد کے طور پرلائے، اور پھر ان اعتقادات کو ایمان کی اصل بنا دیا، اور جس کسی نے ان کی ان معاملات میں مخالفت کی اسے کافر مرتد قرار جانا۔

ابن تیمیہؒ بیان کرتے ہیں:
[خوارج وہ پہلا فرقہ ہے جس نے مسلمانوں کی تکفیر ان کے گناہوں کی وجہ سے کی، اور جس کسی نے ان کی بدعت کی مخالفت کی ان کو بھی کافر جانا اور ان کے خون (کو بہانا) اور مال(کو لوٹنا) حلال قرار دیا، اور یہی حال اہل بدعت کا ہوتا ہے، وہ بدعت کی ابتداء کرتے ہیں، اور جو کوئی اس بدعت کی مخالفت کرے اس کی تکفیر کرتے ہیں]

انہیں وجوہات کی بنا پر وہ ظن ،تنائج اور احتمالات کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں، جس میں وہ چستی اور جرأت دکھاتے ہیں ، جس میں نہ ہی معاملہ ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی وضاحت ہوتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسا کہ انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تکفیر مسئلہ تحکیم کی وجہ سے کی تھی، اور اسی طرح جماعت الدولۃ کی جانب سے بہت صراحت سے تکفیر میں غلو کو نشر ہوتے ہوئے دیکھا گیا ہے، انہوں نے عمومی طور پر جماعتوں کی تکفیر کی ہے، جس میں جبھۃ النصرہ بھی شامل ہے، اور انہیں صحوات(مرتدین) کے نام سے متصف کیا ہے، جس میں بیان کی گئی حجت مکڑی کے جالے کے گھر سے بھی زیادہ کمزور ہیں، اور یہ شیخ الظواہری کی تکفیر تک اس حجت کے ساتھ کر گئے ہیں کہ انہوں نے منہج سےانحراف اختیار کر لیا ہے، انہوں نے ایمان کے ساتھ بہت ہی عجیب شروط کو لگا دیا ہے۔

انہوں نے مشرکین کی اعانت کرنے اور ان کے ساتھ جائز معاملات کرنے کے معاملہ کو خلط ملط کیا، حتی کہ ان کے نزدیک تکفیر کرنے کا معاملہ پانی بہانے سے بھی آسان ہو گیا، انہوں نے شام کے مشرقی علاقہ میں جملۂ امور میں مسلمانوں کی تکفیر کی اور انہوں نے یہ اعتقاد رکھاکہ ان اہل علاقہ کی اصل کفر ہے اور انہوں نے وہاں اوراق نشر کیے جس کو انہوں نے ’توبہ کی دعوت‘ کا نام دیا، جو لوگوں پر لازم کرتی ہے کہ وہ اپنی ذات پر اس بات کی شہادت دیں کہ وہ کفر اور ارتداد پر تھے، واللہ المستعان۔

(۴) جماعت المسلمین کے خلاف خروج کرنا اور انکے جان و مال کو جائز قرار دینا:
تکفیر میں غلو کا حتمی نتیجہ جماعت المسلمین کے خلاف خروج اور ان کے جان و مال کو جائز قرار دینے کی طرف لے جاتا ہے،جب بھی کوئی قوم بدعت کی ابتداء کرتی ہے تو ضرور ساتھ تلوار اٹھانے کو بھی جائز قرار دیتی ہے، اور تاریخ میں کوئی بھی ایسی تلوار نہیں ہے جو امت پر خوارج کی تلواروں سے زیادہ میان سے باہر آئی ہو، انہوں نے دو خلفائے راشد سیدنا عثمان ؓو علیؓ کو قتل کیا اور بہت سے امت کے محترم لوگوں کا خون بھی بہایا۔

امام ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
[کوئی بھی گروہ خوارج کی تلواروں سے زیادہ(قتال و فساد میں) بڑا ہونے میں معرفت نہیں رکھتا]

اور ادھر یہی جماعت الدولۃ ہے جو اہل شام کو تباہ کر رہی ہے بلکہ مجاہدین میں بہترین لوگوں کو قتل کرتی ہے، ان کے اموال، اسلحہ اور مراکز پر قبضہ جماتی ہے اور مجاہدین کے گھروں کو دھماکوں سے اڑاتی ہے۔ نصیری نظام کے اندر بھی وہ استطاعت نہ تھی کہ وہ ان مجاہدین کو قتل کرتے، جن کو جماعت الدولۃ نے قتل کیا، بلکہ یہ تو مردہ لاشوں کے مناظر پر فخر کرنے لگے اور خون پینے پر اترانے لگے، اور ہر کسی کو جو ان کی مخالفت کرے کو وحشت ناک ذبح کے طریقہ سے دھمکانے لگے، ولا حول ولاقوۃ الا باللہ۔

(۵) جہالت، قلتِ علم و تفقہ کا نہ ہونا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (خوارج) کے بارے میں فرمایا:
[کم عمر،بےوقوف لوگ، یہ قرآن کو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا]

ان کی بدعت کی اصل ان کا قرآن و سنت سے لاعلم ہونا ہےبجز اس کے جو اس گروہ کی طرف سے جو ظاہر ہوتا ہے، اُس میں عبادت، نیکی اور دھوکہ دینے والے شعارات شامل ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے ان پر جہالت غالب ہے، نہ ہی فقہ جانتے ہیں نہ ہی علم رکھتے ہیں اور نہ ہی علماء میں سے کوئی ان کو لے کر چل رہا ہے، بلکہ یہ بے وقوف غیر معروف افراد کا مجموعہ ہے، اور یہی حالت دولۃ کی آج ہے، یہی حالت ان کی شرعی عدالتوں کی ہے اور ان کے شرعی طلباء کی ہے، جہل مرکب ہیں، بےوقوف ہیں اور عجیب و غریب فتاوی دیتے ہیں۔ واللہ المستعان۔

(۶) غداری، خیانت اور جھوٹ:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[جو لوگ اللہ تعالیٰ کے مضبوط عہد کو توڑ دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے جوڑنے کا حکم دیا ہے، انہیں کاٹتے اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں، یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ]

مصعب بن سعد بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے اس آیت کریمہ کے معانی سے متعلق استفسار کیا، تو آپ نے جواب دیا: ان سے مراد حروریہ ہیں ؛ یعنی خوارج۔

جو کچھ بھی جماعت الدولۃ سے متعلق معروف ہوا ہے اس میں غداری، عہد شکنی اور میثاق کو توڑنا اور امانت میں خیانت کرناہے۔ اور کتنے ہی ایسے معاہدے ہیں جو انہوں نے مجاہدین کے ساتھ کیے، سوائے اس کے کہ آخر میں اُن کو توڑ دیا گیا، چاہے وہ حلب میں ہوئے یا البادیہ میں یا الشرقیہ میں، اور ان کی یہ خصلت روافض سے مشابہت رکھتی ہے جو کہ غدر اور خیانت میں معروف ہیں۔

(۷) بڑائی، غلاظت اور سوئے اخلاق کا منبع ہونا:
خوارج مسلمان پر اپنی شدت کی وجہ سے معروف ہیں کیونکہ وہ انہیں کفار مرتدین سمجھتے ہیں اور کفارِ اصلی کو اس حجت کے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں کہ مرتدین سے قتال کو باقی جماعتوں سے قتال کی نسبت فوقیت حاصل ہے،جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں اور اہل شرک کو چھوڑ دیتے ہیں‘‘، اور اب یہاں جماعت الدولۃ کے سپاہی بھی ارضِ شام میں فساد پھیلارہے ہیں اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں شدت اور سختی دکھاتے ہیں۔ اللہ کے بندے ان کے جرائم اور رکاوٹوں کے سبب اللہ تعالیٰ سے مدد کی فریاد کر رہے ہیں، اور یہ بہت جلدی اور آسانی سے اپنے مخالف سے برات کا اظہار کرتے ہیں،اور سوئے ظن بھی کثرت سے رکھتے ہیں، ایسے وقت میں نصیری اور روافض ان خوارج سے محفوظ ہیں؛ اے اللہ، سوائے ان امثال کے جو الدولۃ کا جھوٹا دھوکے باز میڈیا لوگوں کے سامنے ظاہر کرتا ہے۔

خوارج کا حکم:
امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب خوارج کی بدعت ظاہر ہو جائے اور وہ مسلمانوں کی جماعت کے خلاف خروج کریں اور ان کی جان اور اموال کو حلال و جائز قرار دیں، تو خوارج کےخلاف قتال کے وجوب کی اجازت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

[مسلمان خوارج، روافض اور ان جیسے دیگر گروہوں کے خلاف قتال کے وجوب پر جمع ہیں، جبکہ وہ جماعتِ مسلمین سے نکل جائیں،جیسا کہ سیدنا علیؓ نے اُن (خوارج) کے خلاف قتال کیا تھا، اور عمر بن عبدالعزیزؓ سے روایت ہے: انہوں نے خوارج کے متعلق حکم دیا کہ ان کے خلاف قتال سے باز رہا جائے جب تک کہ وہ ناحق خون نہ بہائیں یا ناحق مال کو نہ لوٹیں، پس اگر وہ ایسا کریں، تو اِن (خوارج) سے قتال کیا جائے،اگرچہ وہ میرا بیٹا ہی کیوں نہ ہو]

جماعت الدولۃ کے خلاف قتال کے وجوب میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ انہوں نے یہ تمام کام کیے ہیں، اس بات کی حقیقت کو بھی ساتھ رکھتے ہوئے کہ یہی وہ حملہ آور معتدی ہیں جنہوں نے مجاہدین کے مراکز اور ان کے رباط کے علاقوں پر بھی مستقل حملے کیے ہیں، اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے حملے کے خلاف اپنا دفاع کیا جائے اور ان کے حملے کو پسپا کیا جائے۔ اس معاملہ میں بڑھ کر بات یہ ہے کہ،انہوں نے شریعت کی حاکمیت کا انکار کیا ہے، چاہے وہ غیر جانبدار شرعی عدالت کے ذریعے ہو یا مشترکہ شرعی عدالت کے قیام کے ذریعے ممکن ہو، جو کہ شام اور جہادِ شام کو ایک بہت بڑے فساد کی صورت میں ان کی طرف سے ملا ہے، نصیریوں اور روافض کا ظلم اہل سنت پر کم نہ تھا کہ انہوں نے بھی اُس ظلم پر ظلم کا اضافہ کر دیا، واللہ المستعان۔

ابن حجر ابن ھبیرہ سے روایت کرتے ہیں:
بلاشبہ خوارج کے خلاف قتال مشرکین کے خلاف قتال پر فوقیت رکھتا ہے، اور اس میں حکمت یہ ہے کہ خوارج کے خلاف قتال سے اسلام کے بیت المال کی حفاظت ہو پاتی ہے، جبکہ مشرکین کے خلاف قتال کے ذریعے فائدے کو حاصل کیا جاتا ہے،اور اِس وجہ سے بیت المال کی حفاظت کو فوقیت حاصل ہے؛ ( پس اس کے لیے بشارت ہے جو اِن(خوارج) کو قتل کرے یا اِن خوارج کے ہاتھوں قتل ہو)، جیسا کہ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ارشاد ہوا ہے۔

معاصر اہل علم کا جماعت الدولۃ سے متعلق اقوال:

شیخ ڈاکٹر ایمن الظواہری:
اِن سے اور اِن کی جماعت سے برات کا اظہار کیا اور انہیں ابن ملجم (خارجی) کے جانشین قرار دیا، اور ان سے اختلاف کو منہج اور عقیدے کا اختلاف قرار دیا، نہ کہ اسے کوئی سیاسی اختلاف جانا۔

شیخ ابو قتادۃ فلسطینی:
مجھ پر یہ بات یقینی طور پر واضح ہو چکی ہے، اور اس میں کوئی شک نہیں ہے، کہ یہ گروہ (الدولۃ) اپنی عسکری قیادت اور شرعی لوگوں سمیت، جو کہ ان کے افعال پر فتوی دیتے ہیں، وہ جہنم کے کتے ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کے اندر یہ داخل ہونے کے حقدار ٹھہرتے ہیں:
[یہ اہل اسلام کو قتل کریں گے، اور اہل شرک کو چھوڑ دیں گے، اگر مجھے اِن کا ادراک ہو جائے، تو میں انہیں قومِ عاد کی طرح قتل کروں گا]

شیخ ابو محمد المقدسی:
تنظیم الدولۃ برائے عراق و شام، ایک ایسی تنظیم ہے جو حق کے رستے سے منحرف ہو گئی ہے، جومجاہدین کے خلاف بغاوت کرتی ہے، غلو کی طرف گئی ہے، اورانہوں نے معصوم خون بہانے کے کام میں حصہ ڈالا ہے، اور یہ ان اموال، اموالِ غنیمت اور علاقوں پر قبضہ گیری کر رہی ہے جو مجاہدین نے نصیری نظام سے چھڑائے ہیں، اور یہ جہاد کو مسخ کرنے کا سبب بنے ہیں، اور مجاہدین کی صفوں میں تفریق ڈالی ہے، اور اپنے اسلحے کا رخ مرتدین اور محاربین کی بجائے مجاہدین اور مسلمانوں کے سینوں کی جانب کر دیا ہے۔

اور انہوں نے اس جماعت کے بارے میں یہ بھی کہا کہ:
یہ ایسا گروہ ہے جس کا غالب حصہ غالی منہج پر ہے، اور ایسا منہج رکھتے ہیں جس سے دوسروں کو دور کرتے ہیں اور جو ان کی مخالفت کریں اُن کو قتل کرتے ہیں، اور علمائے امت اور کبارِ امت پر اعتبار نہیں کرتے، یہ تحکیمِ شریعت کی بات امت پر کرتے ہیں، لیکن یہ خود پر شرعی محاکمے (جانبدار یا مشترکہ) کا انکار کر تے ہیں، اُن اختلافات میں بھی جو اموال اور خون بہا اور دیگر معاملات سے متعلق اِن سے سرزد ہوا ہے۔

شیخ ھانی السباعی اورشیخ طارق عبدالحلیم:
اِن(الدولۃ) کو خوارج ، مارقہ،حروریہ،قرامطہ،باطنیہ گروہوں سے متصف کیا۔

اختتاماً:
ہم تمام مسلمانوں اور مجاہدین کو اِن(الدولۃ) سے متعلق تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ اس جماعت کے دھوکہ میں نہ آئیں اور ان کے اندر شمولیت اختیار کرنے سے گریز کریں کیونکہ پھروہ بھی ظالموں کی معاونت کرنے والوں میں سے بن جائیں گے، اور اس سے مسلمانوں کا ناحق خون بہے گا اور اُن کی تکفیر کا سبب بنے گا، اور اللہ تعالیٰ اپنے تمام امر پر غالب ہیں لیکن اکثر لوگ شعور نہیں رکھتے۔

(۱) زوابری:
انتار الزوابری جماعتِ اسلامیہ المقاتلہ الجزائر کا امیر تھا، جس کو اپنے شدت پسند تکفیری نظریات اور مسلمانوں کے قتل کرنے کی وجہ سے خوارج کے فرقے کے ساتھ متصف کیا گیا تھا۔

(۲) مارقہ:
خوارج کے ناموں میں سے ایک نام ہے جو مستعمل ہے، جس کا مطلب وہ جو( دین سے) نکل گئے، جو کہ خوارج سے متعلق حدیث سے اخذ کیا گیا ہے، (وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے ایک تیر کمان سے نکل جاتا ہے)

(۳)حروریہ:
خوارج کے حوالے سے ہی ایک دوسرا نام ہے۔

(۴)قرامطہ:
عباسی خلافت کے دورِ حکومت میں خروج کرنے والے خوارج کے گروہ کا نام ہے۔

متن(عربی):
https://ia902602.us.archive.org/25/items/byanaat/42.pdf

ترجمہ (انگریزی):
http://justpaste.it/RegardingDawlah