اتوار، 28 دسمبر، 2014

جماعت قاعدۃ الجہاد کا جماعت (دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) سےتعلق کی بابت بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت قاعدۃ الجہاد کا
جماعت (دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) سےتعلق کی بابت بیان


تنظیم قاعدۃ الجہاد / قیادتِ عامہ
– بیان کا متن –



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وآله وصحبه ومن والاه،

بعدازاں:

اول:
جماعت قاعدۃ الجہاد اعلان کرتی ہے کہ اُس کا جماعت( الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ ہی اُس کے قیام میں کوئی معاونت کی گئی ہے ، نہ اُس کے قیام کا جماعت قاعدۃ الجہاد نے حکم دیا ہے ، نہ ہی مشورہ،اور نہ جماعت قاعدۃ الجہاد اِس پر راضی ہوئی ہے بلکہ اُسے اِس نام سے کام کرنے سے منع کیا ۔ اس لیے یہ جماعت قاعدۃ الجہاد کی کوئی شاخ (فروع)نہیں ہے، نہ ہی کوئی تنظیمی تعلق اِن دونوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور نہ ہی جماعت اُس کےافعال کی ذمہ دار ہے۔

جماعت کی شاخیں وہ ہیں جن کا اعلان جماعت قاعدۃ الجہاد کی قیادت عامہ کرتی ہے، اور ان کو تسلیم کرتی ہے۔ اس تاکید کے ساتھ ساتھ کہ ہم ہر مجاہد سے دوستی،محبت اور تائید کی یقین دہانی کراتے ہیں اور ہم مسلمانوں اور مجاہدین کے مابین اخوت کے رشتے کے حریص ہیں۔

دوم:
جماعت قاعدۃ الجہاد جہادی عمل سے متعلق بعض اہم کاموں کی تاکید کرتی ہے:

- شوری، اجتماعی عمل اور اہم فیصلوں میں مجاہدین کے مابین اور ان کی قیادت کے اقرار کے بعد حتمی فیصلوں کو کرنے کا حریص ہونا۔

- اس بات کا حریص ہونا کہ مجاہدین کے مابین اختلافات آپس میں مل بیٹھ کر حل ہوں ،نہ کہ انہیں ذرائع ابلاغ کی زینت بنایا جائے۔

- اس بات کو یقینی بنانا کہ ہم امت کا حصہ بننے کی کوشش کریں، اس کے حق پر قابض نہ ہوں، نہ ہی اس پر اپنا تسلط جمائیں، اورامت جس کو بھی حکمران منتخب کرنا چاہے، جس میں حکمران بننے کی شرعی شرائط پائی جائیں، اس سے یہ حق چھین لینے والے نہ بنیں، اور اسی طرح جب تک ہم علمائے جہاد اور قیادتِ جہاد اور مسلمانوں اور مجاہدین سے مشورہ نہ کر لیں، تب تک کسی بھی امارت یا دولت (ریاست) کا اعلان نہ کریں، اور زبردستی لوگوں پر (بغیر مشورے) والی امارت اور دولت کو مسلط نہ کریں، اور جو اس (بغیر مشورے کےامارت یا ریاست) کی مخالفت کرے، اسے(دائرہ اسلام یا مسلمانوں کی صف ) سے خارج کرنے میں جلدی نہ دکھائیں۔

- اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ امت بنیادی مسائل پر جمع ہو، اور یہی شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا منہج بھی تھا، جس کے ذریعے انہوں نے جہادی عمل کو پروان چڑھایا اور اس کی دعوت دی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت سے سرفراز کیا، ہم ان کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں، اور حسیبِ اصلی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی ہے۔اسی منہج کو واضح کرنے اور امت کو جن بنیادی مسائل پر جمع کرنا مطلوب ہے کی وضاحت کرنے کے لیے ہی جماعت قاعدۃ الجہاد نے(وثیقۂ نصرتِ اسلام) جاری کیا۔

- جہادی عمل کو نقصان پہنچانے والے تصرفات اور اختلافات سے نجات حاصل کرنے کا بہت خیال رکھنا، اس مقصد کے لیے جماعت نے (جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات) کی دستاویز کو نشر کیا۔

- ہر اس تصرف سے سے برات کا اعلان کیا جائے جوکسی مجاہد، مسلمان یا کافر پر ظلم سے متصف ہو۔

اور یہاں ہم شا م میں مجاہدین جماعتوں کے درمیان ہونے والے فتنہ سے برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم اس ناحق بہائے گئے خون سےبرات کا اظہار کرتے ہیں، خواہ وہ کسی طرف بھی بہائے گئے ہوں، اورہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ کا تقوی اختیار کریں، اور اپنے اوپر موجود بھاری ذمہ داری کو پہنچانیں، اور اس فتنہ کا تدارک کریں جو یہاں تک پہنچ چکا ہے، اور جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ کےمستقبل اور جہادِ شام پر ایک سنگین آفت آن پڑی ہے۔

ہم ہرخردمند ، دین دار اور جہاد کی حرص رکھنے والے کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اِس فتنے کے خاتمے اور فوری طور پر جنگ بندی کے لیے عملی کوشش کریں، پھر مجاہدین کے مابین تنازعات کا فیصلہ کروانے کے لیےشرعی عدالتوں کا رخ کریں جو مجاہدین کے مابین موجود ہیں ۔

سوم:
ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ہمارے اور باقی تمام (افراد اور جماعتوں) سے متعلق نصیحت کا دروازہ کھلا ہے، اور بلاشبہ ایک مسلم مجاہد پر اخوت، نصرت، ولایت کا حق باقی رہتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے۔

اور ہم خود کو بھی ان تمام (امورِ متعلقہ) سے بھی پاک نہیں گردانتے۔ (ہمیں بھی ان کی ضرورت بہرحال ہے)

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے (۱۲: ۵۳)

إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں (۱۱: ۸۸)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، وصلى الله على سيدنا محمد وآله وصحبه وسلم

جماعت قاعدۃ الجہاد / قیادتِ عامہ
۲۱ ربیع الاول ۱۴۳۵ھ

مصدر:
http://justpaste.it/ea9k


بدھ، 10 دسمبر، 2014

تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق
کاتب /محمد فيزو
ٹویٹر/ @fezoo111


طرفین کو حسبِ معرفت جاننے کے بعد ہم بعض انٹرنیٹ تویٹس کو اس عنوان کے تحت نشر کرتے ہیں
[تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق]

القاعدہ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ امت کا ایک جزو ہے جو کہ امت کے داخلی اور خارجی دشمنوں سے جہاد کرنے پرکھڑی ہے؛
جبکہ دولۃ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ خود امت ہے، اور اسی کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی رکھتی ہے۔
....................
القاعدہ اس چیز کی کوشش کرتی ہے کہ خلافتِ راشدہ کی اقامت شوری کے منہج پر کی جائے،
جبکہ دولۃ اقامتِ خلافت کو تغلب کےاصول پر قائم کرنا چاہتی ہے،
دونوں فریقین نے اپنے مقالات کو اس پسِ منظرمیں عمل کے ذریعے وضاحت کی ہے۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ تمام اسلامی قوتوں کے ساتھ مل کر مشترک ہدف کے حصول کی کوشش کی جائے،
جبکہ دولۃ یہ سمجھتی ہے کہ باقی تمام اسلامی قوتیں ان سے الگ ہیں،
جس کا سبب ان کا کسی تنازع سے متعلق خوف ہے یا کسی بہتر حکومتی منصوبے کا سامنے آنا ہے۔
....................
القاعدہ منہج میں اپنے مخالفین کے ساتھ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت پر قائم ہے،
اور دین کے دشمنوں کے خلاف وہ تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے،
جبکہ دولۃ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت فقط اپنے ماتحت لوگوں تک محدود رکھتی ہے،
اور اپنے مخالفین کے خلاف تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے۔
....................
القاعدہ امت کو جہاد کے ذریعے تحریض دلانے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کے وجوب کو اجتماعی اور منفرد سطح پر واضح کرتی ہے،
دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنی بیعت(جھنڈا اور امام) کی بیعت کے علاوہ درست نہیں جانتی جیسا کہ فرقہ جامیۃ وغیرہ اہل سنت سے مخالفت کرتے ہوئے یہی اسلوب رکھتےہیں۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ امریکہ کے خلاف امت کا دفاع کیا جائے تاکہ وہ اسرائیل اور آلہ کار حکومتوں کی حمایت سے باز آ جائے،
جبکہ دولۃ اس کو جیسا کہ عدنانی نے کہا ویسے دیکھتی ہے کہ اگر تم ہمارے پاس نہیں آؤ گے، تو ہم تمہارے پاس آ جائیں گے، یہ فقط فتوحات کو خود سے منسوب کرتی ہے۔
....................
القاعدہ تب تک کسی کو قائد کے طور پر منتخب نہیں کرتی جب تک وہ طویل جہادی تجربہ سے نہ گزر جائے اور شریعت کا التزام نہ کرتا ہو،
جبکہ دولۃ اپنے قائدین کے انتخاب کو فقط اپنی بیعت کے ساتھ مخصوص کرتی ہے اور شریعت کی پابندی کو اپنی ولایت(بیعت) سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے۔
....................
القاعدہ اپنے مخالفین کو پیغامات کے ذریعے نصیحت کرکے مخاطب کرتی ہے جیسا کہ شیخ اسامہؒ نے اپنے پیغامات میں حماس کو نصیحت کی۔
جبکہ دولۃ اپنے مخالفین پر تکفیر کے ذریعے مخاطب ہوتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے مرسی سے متعلق خطاب میں بیان کیا۔
....................
القاعدہ ہر نیک اورفاجر کے ساتھ جہاد کرتی ہے جیسا کہ افغانستان اور شام میں جہاد ہو رہا ہے،
جبکہ دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنے بیعت کے علاوہ نہیں دیکھتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے(دولۃ کے مخالفین) سے متعلق کہا کہ گولیوں سے ان کے سروں کو خالی کر دو۔
....................
القاعدہ الولاء اورالبراء کے قاعدے کو تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کےمختلف مراتب کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے ملحوظ رکھتی ہے ،
جبکہ دولۃ اسی کے ساتھ ولاء (دوستی)کرتی ہے جو اس کے ساتھ ولاء(بیعت) کرے اور ہر اس کے ساتھ دشمنی رکھتی ہے جو اس سے دشمنی رکھے اگرچہ وہ علمائے امت میں سے کیوں نہ ہوں۔
....................
القاعدہ کے ساتھ بہت سے علماء ہیں جو ان کی تائید کرتے ہیں، وہ کسی عالم پر بھی اس بات کو لازم نہیں ٹھہراتی کہ وہ ان کی تنظیم میں ضم ہوں، اور اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ سب علماء کے ساتھ رابطہ رکھا جائے،
جبکہ دولۃ کسی کو بھی عالم نہیں ٹھہراتی جب تک وہ ان کی تائید نہ کرے، اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کر دے، تو اسے ترک کر دیتی ہے!
....................
القاعدہ اس بات کو کفر کے طور پر دیکھتی ہے کہ مسلمین کے خلاف کفار کی معاونت کی جائے، لیکن وہ بھی تب جب کہ وہ قطعی طور پر برہان اور ثبوت سے ظاہر ہو جائے، جیساکہ اسامہ بن لادنؒ نے بیان فرمایا،
جبکہ دولۃ ظن اور شبہات پر بھی تکفیر کرتی ہے۔
....................
القاعدہ مال کی وصولی کے لیے شریعت کی مطابقت کو ملحوظ رکھتی ہے اگرچہ مالی حاجت ہی کیوں نہ ہو ،
جبکہ دولۃ اپنی تنظیم کی مصلحت کے لیے اس کو جائز سمجھتی ہے، جیسا کہ موصل(عراق کا شہر) کے بینکوں پر غلبہ پا کر مال کی وصولی اور ٹیکسوں کے اجراءوغیرہ کے ذریعے مالی ضروریات کو پوراکیا گیا۔
....................

کاتب /محمد فيزو
مصدر:
http://justpaste.it/hh5f

اتوار، 7 دسمبر، 2014

موانعِ تکفیر(کسی خاص کلمہ گو کو کافرقرار دینے میں احتیاطیں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
موانعِ تکفیر(کسی خاص کلمہ گو کو کافرقرار دینے میں احتیاطیں)
مولاناعاصم عمر حفظہ اللہ
مسؤول عام: جماعت قاعدۃ الجہاد برِ صغیر


موانعِ تکفیر سے مراد وہ رکاوٹیں ہیں جو کسی مرتکبِ کفر شخص کو کافر ہونے سے بچاتی ہیں۔ اگر کوئی کفریہ قول یا فعل کسی مسلمان سے سرزد ہو جائے تو شریعت ان پر ایک دم کافر ہونے کا حکم نہیں لگاتی بلکہ کچھ توقف کرتی ہے، یعنی کسی مسلمان کے کفریہ قول و فعل کے باوجود اس کو ایک دم کافر نہیں کہتی۔ بلکہ اس صورت میں چند باتیں ایسی ہیں جو اس کو کافر ہونے سے بچا سکتی ہیں، جن میں سے اہم موانع کی طرف مختصراً اشارہ یہاں کیے دیتے ہیں:

۱) عذرِ جہل:
جہالت یا لا علمی کا عذر کسی مسلمان سے کفریہ قول یا کفر کا ارتکاب ہونے کے باوجود بہت سی صورتوں میں خود اس مسلمان کو کافر قرار دینے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس بات کو تمام اہل ِ علم نے فتوے کے اصول و آداب میں نقل کیا ہے۔ پھر بالخصوص جمہوریت جیسے مبنی بردجل نظام کی بحث میں جہاں جمہوریت کی حقیقی شکل اور اس کے شرعی حکم سے جاہل ہونے کے بیسیوں اسباب آج موجود ہیں، بہت سے نامور علماء اس کے حق میں فتوی دے چکے ہیں جس کے سبب عوا م مغالطے میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت کی مخالفت کرنے علماء کے بزور گلے گھونٹ کر ان کی آواز عام مسلمان تک پہنچنے سے روکی جا رہی ہے۔

ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو یقیناً کسی فرد کے جمہوریت کو درست سمجھنے یا جمہوری نظام میں شامل ہونے کی بنا پر اسے کافر قرار دینے سے قبل جہالت کے عذر کو سامنے رکھنا مفتی کا اہم ذمہ داری ہے۔ کم از کم جو لوگ اس نظام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے یا اس کاکفر ان پر واضح نہیں ہوا، وہ معذور قرار دئے جائیں گے اور اگرچہ وہ ایک نہایت خطرناک جرم میں مبتلا ہیں لیکن ان پر کفر کا فتوی لگانے سے قبل توقف اختیار کرنا، تحقیق کرنا اور جہل دور کرنا ضروری ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاشباہ والنظائر‘‘ کےفن’الجمع والفرق‘ میں اور ’الیتیمہ‘ مذکور ہے:

’’جس شخص نے اپنی جہالت کی بنا پر یہ گمان کر لیا کہ جو حرام و ممنوع فعل میں نے کیے ہیں وہ میرے لیے حلال و جائز ہیں، تو اگر وہ (افعال و اعمال) ان امور میں سےہیں جو کا دینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا قطعی اور یقینی معلوم ہے(یعنی ضروریاتِ دین میں سے ہیں) تو اس شخص کو کافر کہا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ (اکفارالملحدین: ۱۹۷)

۲)اکراہ (یعنی مجبوری)
کسی کفر کو کرنے کے لیے جان سے مارنے یا جسم کا اساسی عضو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے اور غالب گمان بھی یہ ہو کہ اگر اس نے کلمۂ کفر نہیں کہا تو اسے قتل کر دیا جائے گا یا اس کے جسم کا کوئی اساسی عضو تلف کر دیا جائے گا، اسی صورت میں کلمۂ کفر اس شرط کے ساتھ کہنے کی اجازت ہے کہ اس کا دل ایمان پر جما ہو اور مطمئن ہو۔ ہاں، افضل یہی ہے کہ وہ کلمۂ کفر کی بجائے وہ شہید ہونے کو ترجیح دے۔ ایسے جبر کو شریعت کی اصطلاح میں ’اکراہ‘ کہتے ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ ’’مجبوری‘‘ (اکراہ) کی وجہ سے ہر جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جیسا کہ اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے مسلمان کی جان لینا، اپنا ملک بچانے کے لیے دیگر مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دینا وغیرہ؛ مجبوری کا عذر بنا کر یہ سب شنیع اعمال کرنا درست نہیں ہو گا۔ پش اکراہ بھی کسی کی تکفیر میں مانع ہو سکتا ہے، یہ ایک مفصل بحث ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۳) تاویل کا عذر:
کسی مسلمان میں کفریہ چیز پائی جانے کے باوجود اس کا کافر قرار دئے جانے میں ایک رکاوٹ ’’تاویل‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی کا یہ تاویل کر کے جمہوریت میں اترنا کہ اگرچہ وہ اس نظام کو غلط سمجھتا ہے لیکن چونکہ اس کے خیال میں اسلامی حکومت قائم کرنا کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا اس لیے وہ اس کے ذریعے سے شریعت لانے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ ہمیں اس تاویل سے اختلاف ہے اور اس تاویل کو غلط ثابت کرنے کے لیے درجنوں دلائل دینا ممکن ہے، اور اگرچہ اس تاویل کے ساتھ بھی اس غلیظ کفریہ نظا م میں شریک ہونا ایک سنگین جرم ہے، لیکن یہ تاویل بہت سی صورتوں میں جمہوریت میں شریک شخص کو کافر قرار دئے جانے سے روک دیتی ہے۔ یہی تاویل وہ فرق ہے جو سیکولر دین دشمن جماعتوں اور جمہوریت میں شریک دینی جماعتوں میں فرق کرنے کا باعث ہے۔ اور یہ تفریق کرنا اور سب کو بلا تفریق ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے سے رکنا ضروری بھی ہے۔ الغرض، تاویل میں کسی کو کافر قرار دینے میں مانع ہو سکتی ہے، البتہ شریعت میں اس کی تفصیل بھی موجود ہے کہ کون سے تاویل قابلِ قبول ہے اور کن مواقع پر۔

کسی پر کفر کا حکم لگانا عام آدمی کا کام نہیں:
بعض موانعِ تکفیر کا بیان ہم نے یہاں اختصار سے کر دیا تاکہ قارئیں اس فرق کو اچھی طرح ذہن نشین کرن لیں کہ نظام ِ جمہوریت و دینِ جمہوریت کا فکر بے شک ثابت شدہ ہے، لیکن اس میں شریک متعین افراد یا جماعتوں پر حکم لگانا ہمارا مطمع نظر نہیں۔ نیز جمہوریت کو کفر کہنے سے سیدھا یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں کسی بھی سطح پر اور کسی بھی انداز سے شریک ہونے والے تمام لوگ ہمارے نزدیک بلا تفریق دین سے خارج ہو گئے ہیں۔ یہ نہ تو ہم نے کہا ہے اور نہ ایسی غیر محتاط اور مبنی برغلوآرا اختیار کرنا مجاہدین کا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمہ وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے:

اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہ احدھما۔ (بخاری)
’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کو کافر کہا گیا ہے، اگر اس میں واقعی کفریہ بات ہے تو پھر تو وہ کافر ہے، لیکن اگر اس میں کوئی کفریہ بات نہیں ہے، اور اس نے بغیر تحقیق کے اس کو کافر کہہ دیا، تو پھر اب یہ کہنے والا خود ایک بہت سنگین گناہ کو مرتکب ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یجتمع رجلان فی الجنۃ احدھما قال لاخیہ: یا کافر (مسند اسحاق بن راھویہ؛ الجزء الاول: ص ۴۶۲)
’’وہ دو آدمی جنت میں اکھٹے نہیں ہوں گے جن میں سے ایک نے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر کہا‘‘۔

یعنی جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر کہا(جس کے اندر کوئی کفریہ بات نہیں تھی) تو یہ کہنے والا ایسا عمل کر گیا جو اسے جنت سے محروم کر سکتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص کسی کفر میں مبتلا ہے تو عام آدمی اس کو اس وقت تک کافر نہ کہے جب تک علمائے حق اس کے کافر ہونے کا فتویٰ نہ دیں، البتہ اس کفریہ عمل کو کفر ضرور کہا جائے گا۔

یوں تکفیر کی بحث کے اعتبار سے ہم لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱)عام مسلمان:
کسی بھی عام مسلمان کے لیے (خواہ مجاہد ہی کیوں نہ ہو)، جائز نہیں کہ وہ ان مباحث کو پڑھ کر عام لوگوں پر یا کسی عالم پر کفر کے فتوے لگاتا پھرے۔ ایسا کرنا یقیناً اس کے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذہ غیر عام کو صرف اتنا کرنا ہے کہ خود کو اپنے گھر والوں اور اقارب کو اس کفر(جمہوریت) سے بچانا ہے، نہ کہ دوسروں پر حکم لگانا۔

۲)عالمِ دین:
اہل ِ علم حضرات خود کو اس کفر سے بچائیں اور جمہوریت کا کفر لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ البتہ کسی خاص جماعت،افراد یا کسی عالم پر کفر کا حکم لگانا ہر عالمِ دین کا کام بھی نہیں ہے کیونکہ اس کام میں علم میں گہرائی ورسوخ کی ایک خاص سطح درکار ہے، جو کم کم علماء کو میسر ہوتی ہے۔

۳) محقق علمائے کرام:
کسی کو کافر کہنا، یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں، بلکہ انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ چنانچہ محقق علماء ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ نہ کریں اور قیامت کے دن کتمانِ حق کے جرم میں پکڑ لیے جانے سے ڈریں۔ دلی جذبات، نفسانی خواہشات، ذاتی رغبتوں، سب کو ایک طرف رکھ کر علمی قواعد اور فتوے کے آداب و اصولوں کے مطابق حق کو ہر حال میں بیان کریں، خواہ اہل اقتدار اور خوہی الٰہ ورب بن جانے والوں کو کتنا ہی ناگوارکیوں نہ لگے۔ ایک دن سب کو معبودِ حقیقی کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے،کامیاب وہی ہے جو اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر جائے اور دنیا کی ہر قوت کے خوف سے آزاد ہو جائے۔ آج بھی موت و زندگی وہی بانٹا ہے، ہر چیز پر اسی کی بادشاہت ہے۔ جیلوں میں زہر کے ٹیکے لگانے والے، علمائے حق اور مجاہدین کو شہید کر کے سڑکوں پر پھینک دینے والے کچھ بھی نہیں !

بشکریہ:
نوائے افغان جہاد

کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے
کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی


سوال:
کیا پہلے سے آزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور[شام کے شہروں کے نام]) کو دوبارہ آزاد کروانے کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے، اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ جن مجموعات نے انہیں آزاد کروایا،وہ بعد میں دیگر صف ِ اول اور ساحلی معرکوں میں نصیریوں ،حزب اللات اور جماعت ابو الفضل وغیرہ کے خلاف قتال میں مصروف ہیں، جہاں تک جماعت الدولۃ کا تعلق ہے ،تو انہوں نے خود کو ان آزاد شدہ علاقوں پر چڑھائی کے لیے مشغول رکھا ہوا ہے، کیا یہ جہاد ہے؟


جواب:
الحمدللہ رب العالمین

پہلے سے آزاد شدہ کرہ زمین کو آزاد کروانا،جبکہ مجاہد، محبوب شامی عوام اور بیش قیمت لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ طاغوت نصیری سلطے اور اس کے نظام سے آزادی کے لیے پیش کیے ہوں،تو یہ معاملات نقصان ،ضرر اور غداری سے تعلق رکھتےہیں، وہ بھی بغدادی اور اس کی دولتِ مذمومہ کے لیے!

مجاہدین صفِ اول میں طاغوت کے خلاف مشغول ہیں، جبکہ بغدادی اور حزبِ بغدادی اپنے مذموم ارادوں کے ساتھ مجاہدین کے علاقوں اور مراکز پر شر اور نقصان لے کر پہنچ رہےہیں، یہ وہ قابلِ حقارت عمل ہے جو سب سے پہلا فتنہ ہے، جس کا تجربہ اہل شام ان غالیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔

جہاد اس وقت تک مقبول جہاد قرار نہیں پاتا جب تک اس میں یہ دو شروط نہ پائی جائیں:

۱)نیت کا درست ہونا
۲)عمل کا درست ہونا

جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد ہے، اگر ہمیں اِس(نیت) کا علم نہیں ہوتا،
جہاں تک دوسری شرط کا تعلق ہے جو کہ عمل کے درست ہونے سے متعلق ہے، تو اُن (جماعت الدولۃ) کے درمیان اور اِن (مجاہدین ِ شام) کے درمیان(اعمال کے اعتبار سے) زمین اور آسمان جیسا فاصلہ ہے۔

حدیث میں بیان ہوتا ہے:
[جس نے کسی مومن کو اذیت دی، اس کا کوئی جہاد( قبول) نہیں]

پھران لوگوں کا معاملہ کیسا ہو گا جو اہل شام کے مسلمانوں اور مجاہدین کو اذیت دیتےہیں، اور طاغوت نصیری اور اس کی سپاہ کی تلواروں کے ساتھ ساتھ اپنی تلواروں کو بھی(ان پر حملے کے لیے) جمع کر لیتے ہیں ؟!

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
21.09.2014

مصدر:
http://altartosi.net/ar/?p=4767

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام
شیخ ابو خالد السوریؒ

الحمد لله والصلاۃ والسلام علی من لا رسول بعدہ أما بعد:

ان حالیہ واقعات کے پیش نظر جو جہادِ شام میں رونما ہو رہے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ [الدین النصیحه]، کہ دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے ،( صحابہؓ کہتے ہیں )ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس کے لیے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی  اوراس کے رسول ، اورمسلمانوں کے اماموں اورعام مسلمانوں کے لیے، پس ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق وشام‘ کی قیادت اور افراد کو اللہ سے مدد مانگتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:

اول:
بلاشبہ شیطان اولادِ آدمؑ کے شکار کے لیے ہرجگہ گھات لگائے بیٹھا ہے، اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے اس کا وار اُن کو غلو کی طرف اور مسلمانوں کے خون کو حلال کرنے کی طرف لے کر جانا ہے، اور یہ وہ مسلک ہے جس نے الجزائر کے جہاد اور دیگر ساحاتِ جہادکو تباہ کر دیا، پس اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے اپنا سوت مضبوط کاٹنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کےتوڑ ڈالا ہو، اورجہادِ شام کو اس(غلو)کی طرف پھیرتے ہوئےفساد میں مت بدلو!

دوم:
بلاشبہ احکامِ تکفیر اور ارتداد کا اطلاق اور اسی طرز پر دیگر گروہوں پرملتے جلتے الزامات جیسا کہ یہ صحوات ہیں کی تطبیق کرنا ،جو ان پر ثابت اور واضح نہ ہوئی ہوں کبائر گناہوں میں سے ہے، اور بہت عظیم جرم اور گناہ ہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: [جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، تو یہ (تکفیر) ان میں سے کسی ایک پر لازم لوٹےگی]، پھر اس شخص کا معاملہ کیسا ہو گا جو احکاماتِ ارتداد کا اطلاق مجاہدین کی اُن جماعتوں پر کرے جو تحکیمِ شریعت اور اقامتِ دین چاہتے ہیں، جیسا کہ ان قائدین سے ہم واقفیت کے ذریعے جانتے ہیں اور ان کی طرف سے بیان کی گئی خبر سے بھی یہ امرمعلوم ہے ؟

سوم:
آج جو ہم اِن جرائم اور اعمالِ خاطی کے بارے میں سن رہے ہیں، جن کا ارتکاب جہاد اوراقامتِ دولتِ اسلامیہ کے نام پر کیا جا رہا، اور جن کو منسوب مشائخ الجہاد شیخ اسامہؒ، شیخ ایمن الظواہری( حفظہ اللہ)، شیخ عبداللہ عزامؒ، شیخ ابو مصعب السوری (فک اللہ اسرہ) اور شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ کی طرف کیا جا رہا ہے، جو جہاد فی سبیل اللہ کو بلند کرنے جیسے معماروں میں سے ہیں، تو یہ اعمال ان قائدین کے منہجِ سلیم سے بہت ہی دور ہیں۔میں تمہیں ایک ایسے نصیحت کرنے والے کی حیثیت سے خبر دیتا ہوں، جس نے ان اکابرین کے ساتھ عمر کا ایک حصہ گزارا اور ان کو قریب سے جاننے کی معرفت کا حق بھی ادا کیا ، بلاشبہ یہ اکابرینِ جہاد اِن تمام اعمال سے بری ہیں جو آج ان کی طرف منسوب کیے جا رہے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وہ بھیڑیا حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے (حضرت یوسفؑ) کے خون سے بری تھا، پس تمہیں تلبیس کرنے والوں کی تلبیس دھوکےمیں نہ ڈالے، اور نہ ہی جھوٹی خبریں پہنچانے والے تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔

چہارم:
کفار پر عزت اور اللہ کی زمین پراللہ کے دین کی تمکین جہاد فی سبیل کے ذریعے اس وقت تک کفایت نہیں کرے گی ،جب تک ہم تمام مومنین کے سامنے عاجزی اختیار نہ کر لیں اور ان کو نصیحت نہ کر لیں؛ عامۃ المسلمین اور باقی مجاہدین کے ساتھ غرور وتکبر کا معاملہ اہل تمکین کی اپنائی ہوئی راہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اُس کا راستہ ہے، بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ انکساری اختیار کریں، اور کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، نہ ہی ایک دوسرے پر ظلم کرے، چنانچہ کسی بندے کے دل میں اپنے بھائیوں پر فخر کا پیداہونا ،اسے ان کے خلاف ظلم کی طرف ہی اکساتا ہے، اور بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جو آج ہم ساحاتِ شام میں دیکھ رہے ہیں۔

پنجم:
اس داخلی جنگ و قتال سے سب سے فائدہ اٹھانے والا نظامِ (بشار) اسد ہے؛ ان جماعتوں کا صفِ اول سے پسپائی اختیار کرنا، اور آپس میں جنگ وقتال کا ہونا، اُن پر احکاماتِ ارتداد کا اطلاق کرنااوران کے جان و مال کو حلال کرنا، اس بنیاد پر کہ صرف ہم ہی اکیلے خیار(امت کے بہترین نیکوکار لوگ) میں سے ہیں اور ہمارے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے اورباقی سب کو اس سبب دفع کرنا لازم ہے جیسے فکر وعمل سے ہر اول دستے کمزور ہو جائیں گے اور بشاری نظام پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پہلی حالت پر مستحکم ہو جائے گا، لیکن ساتھ اس کے مجاہدین کے درمیان عداوتیں ہوں گی اور شامی عوام کواِس کا خسارہ اٹھانا پڑے گا، اور یہ اسلامی منصوبے سے عوام کی نفرت کا سبب بنے گا۔

ششم:
یہ خون جو شہداء نے بشاری نظام کو گرانے اور علاقوں کو آزاد کروانے کے لیے پیش کیا ، وہ اس مقصد کے لیے نہیں تھا،وہ صرف اسی لیے پیش کیا گیا تاکہ اقامتِ شریعت اور صفوں کی وحدت ہو سکے، [آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گےاورتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی] ،پس جہاد کی ہواکو اکھیڑنے سےگریز کرو اوراس کا سبب نہ بنو، بلاشبہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

ہفتم:
جماعت ’دولت ِ اسلامیہ عراق و شام‘ کا اِن مجاہدین کےمعاملات پر اصرار کرنا، جنہوں نے ملک کو آزاد کروایا اور اس کے لیے شہداء کو پیش کیا، اور ان(جماعت الدولہ) کا یہ کہناکہ یہ جماعتیں ہیں اور یہ دولت (ریاست) ہے، اصلاً لوگوں کے حقوق کو کم کرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:[ لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو]، اور یہی وہ بات ہے جو نہایت ضروری ہے، اوریوں شام کے میدانِ جہاد میں وہ پیچیدگی داخل ہو گئی جس سے وہ(جہاد) بری ہے، پس اس راہ سے نکلنے اور حل کی طرف جانے کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق کا اعتراف کیا جائے اور قرآن کے حل(اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے) کی طرف جایا جائے۔

اختتاماً:
ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کے قائدین اور مہاجرین و انصار بھائیوں کو جو دولۃ کےسپاہ میں سے ہیں کو کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور اس کے امر اور شریعت کی طرف آئیں، اور ہم آپ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے تنبیہ کرتے ہیں [جو میری امت پر دست درازی کرے کہ اچھے بروں کو قتل کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہے اس کا عہد بھی پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھتا]

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائیں جوبات کو سننے والے ہوں، اس کی بہترین انداز میں پیروی کرنے والے ہوں، اور جو کسی ملامت کرنے والےکی ملامت کا خوف نہ رکھنے والے ہوں۔ (آمین)

شہید فتنہ شیخ ابو خالد السوری (رحمہ اللہ)

مصدر:
https://justpaste.it/khalid0

آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش اور دولتِ دواعش کے نام سے پکارتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش اور دولتِ دواعش
کے نام سے پکارتے ہیں؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی

سوال:
آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش، اور ان کی دولت کو دولتِ دواعش کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔ اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ دولتِ اسلامیہ کا رقبہ تو بعض دیگر مملکتوں سے بھی بڑا ہو چکا ہے؟

جواب:
الحمد لله رب العالمين
ہم جماعت الدولۃ کو خوارج [داعش]، اور ان کی دولتِ خوارج کو[ دواعش] تین اسباب کی وجہ سےکہتے ہیں:

اول:
کیونکہ یہ نام ان کی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے،جس کے یہ شرعی طور پر مستحق ہیں۔

دوم:
کیونکہ کلمہ [داعش] ایک طویل اِسم کا اختصار بھی ہے،اور اس کلمہ کے ساتھ نہ ہی کوئی حمد نہ ہی ہتک منسوب ہے!

سوم:
یہ ضروری ہے،کیونکہ امریکہ اور مغرب، اور منافق عرب ذرائع ابلاغ اِن کو ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ سے پکارتا ہے،اور بعض اوقات انہیں دولتِ خلافت کے نام سے بھی پکاراجاتا ہے،اور یہ ان ذرائع ابلاغ کی جانب سے انصاف اور ان کی توصیف پر مبنی برحق بات نہیں ہے،نہیں بالکل نہیں،یہ ان کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے لیےاس کو مخصوص کر کے معمول بنا لینا ان کی طرف سے انصاف نہیں ہے، اس معمول کے استعمال کے پیچھے یہ اپنی عوام اور دیگر اقوامِ عالم میں بسنے والوں کویہ بتانا چاہتےہیں، کہ دیکھو یہ ہے وہ [دولتِ اسلامیہ] یا [خلافۃ الاسلامیہ] جس (خلافت) کی دعوت یہ مسلمان ۱۰۰ سال سے دےرہے ہیں،اور اسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں،اور اسی کے لیے جہاد کر رہے ہیں، یہ ہے ان کی صفات و خصائل،اخلاقیات و اصول، اب محاسبہ کرو اِن مسلمانوں کی اس دولت کا جس کی یہ پکار لگا رہے تھے ، پھر ان سلوک، اخلاقیات، غلو، غدر، جرائم اور دولتِ بغدادی کی حقیقت دیکھ لو، چنانچہ جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ کے قیام کی بات کر رہا ہے، وہ تو اس دولت کا قیام دولتِ بغدادی کے طریقہ پر ہی کرنا چاہے گا!

یہ(ذرائع ابلاغ) ان ناموں کے استعمال سے چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کی ایک سیاہ مسخ شدہ صورت سامنے لے کر آئیں، اور لوگوں کو دکھائیں کہ یہ وہ دولت ہے جس کے لیے اسلام سعی کرنے کا کہتا ہے، لہٰذہ ان اسماء کی مخالفت کرنا واجب ہے، اور اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ دولت‘ اسلام کی مثال نہیں ہے، نہ ہی یہ (دولتِ بغدادی)اس لقب اور صفت کی مستحق ہے کہ اسے دولتِ اسلامیہ کہا جائے، علاوہ ازیں کہ اسے خلافتِ اسلامیہ کے نام سے پکارا جائے، بلاشبہ اس کا نام دولتِ داعش یا دولتِ خوارج دواعش ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں!

اور یہ قول کہ”دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘‘ یا ’’دولتِ خلافت ِاسلامیہ‘‘ کے نام کے استعمال سے اللہ کے دشمن صلیبی اور مرتدین غضب ناک ہوتے ہیں، تو یہ مرکزی حقائق اور اس کے برعکس بات ہے، نہ ہی اس بات پر فہم راضی ہے اور نہ ہی حقیقت کے علم سے متعلق اس کا معاملہ ہے، بلکہ اس نام کے استعمال اور اس کی غلط توصیف سے بہت سے اصول، قدر اور اخلاقِ اسلام کوعظیم ضرر پہنچتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس عادل راشد دولتِ اسلامیہ کو بھی نقصان پہنچے گا، جس کے لیے سب مسلمان کوشش کر رہے ہیں۔

اس بات پر غوروفکر کرو کہ کتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کوپہنچے گا،جب آپ ڈاکو، راہزن،قاتل، غدار،مجرم کوجو نہ ہی عہد کا پاس رکھتا ہے نہ ہی اسے نبھاتا ہے،او ر غداری اور رہزنی کے ذریعے حقوق اور حرمات کو جائز قرار دیتا ہے، یہ مسلمانوں کا امام اور یہی خلیفہ(بغدادی) مطلوب ہےاور یہی گروہ جو اِس کے ہمراہ ہے، یہی دولتِ اسلامیہ ہے،اور یہی وہ خلافتِ اسلامیہ ہے جس کے لیے تمام مسلمان ۱۰۰ سال سے زائد عرصے سے کوشش کر رہے ہیں!؟

امید کرتا ہوں کہ جو صورت (اسلام)سامنے آئے گی وہ بہت متعصب ہی ہو گی،جس سے بند پتھرنما عقلیں مرجھا جائیں گی،اور ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ جواب سائل تک پہنچ جائے گا، اور ان تک بھی جو اس سےملتا جلتا سوال ذہن میں رکھتے ہیں!


عبدالمنعم مصطفی حلیمۃ
ابو بصیر الطرطوسی
27/9/2014
http://altartosi.net/ar/?p=4904

کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟
هيئة الشام الإسلامية کا فتوی

سوال:
ہم اکثر سنتے ہیں کہ کفار کی عدم تکفیر کرنا یا ان کے کفر میں شک کرنا، نواقص اسلام میں سے ہے ، اور یہ کہ جو مرتدین کی تکفیر نہیں کرتا وہ کافر ہے، اس عبارت کی صحت کیسی ہے؟ اور کیا یہ عبارت کسی اہل علم نےبیان کی ہے؟ ہمیں فتوی دیجیے اور اجر پائیں۔

جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسولِ الله، وعلى آله وصحبه، وبعد:

بلاشبہ تکفیر کا باب بہت خطرناک ہے، قدم ڈگمگا جاتے ہیں، فہم گمراہی کی طرف چلے جاتےہیں، اسی لیے علماء نے اس مسئلہ کو صراحت سے واضح کرنے کا اہتمام کیا اور اس مسئلہ تکفیر کو مستحکم انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اسی قاعدے میں سے ایک قاعدہ یہ ہے[جو کسی کافر کو کافر نہ کہےوہ خودکافر ہے]، تو یہ قاعدہ اپنی اصل میں تو درست ہے جو شرعی نصوص کے اندر موجود ہے اور اس کی تکذیب کرنے والےکے احکامات بھی درج ہیں ، یہ قاعدہ بعض مسلمانوں کے کفر پر ہونے کی وجہ سے نہیں اخذ کیا گیا، جیسا کہ ہم آگے بیان کر رہے ہیں:

اول:
یہ قاعدہ [جو کفار کی تکفیر نہ کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو درست قرار دے، تو وہ خود کافر ہے]، یہ قاعدہ درست ہے، اس پر علمائے متقدمین و متاخرین کا اجماع ہے ؛ کیونکہ جو کفار کی تکفیرنہیں کرتا، جن کی تکفیر قطعی طور پرقرآن و اجماع کی نص سے ثابت ہے، تو وہ قرآن و سنت کی تکذیب کرتا ہے۔

قاضی عیاضؒ اپنی کتاب [الشفا] میں کہتے ہیں:
]اس سبب ہم اُن کی تکفیر کرتے ہیں جو اِن (کفار) کی تکفیر نہیں کرتا، جن کا تعلق مسلمانوں کے دین کے علاوہ دیگر مذاہب سے ہے یا ان کے معاملہ میں توقف کرے، یا اس میں شک کرے، یا ان کے مذہب کو صحیح جانے۔۔اگرچہ وہ اس بیان کردہ سابقہ اعتقاد کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کرے اور اسلام کا اعتقادبھی رکھے، اور اسلام کے علاوہ باقی سب مذاہب کو بھی باطل جانتا ہے۔۔تب بھی وہ اپنے اس اظہار(میں مسلمان ہوں) کی وجہ سے جو اس نے (اسلام کے) خلاف میں ظاہر کیا کے سبب کافر ہی ہے[

پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے قول کی وضاحت کی:
چونکہ کفار کے کافر ہونے پر نص اور اجماع موجود ہے،جو اس معاملہ میں توقف اختیار کرے، وہ اس نص کا انکار کرتا ہے۔

امام نوویؒ [روضۃ الطالبین] میں کہتے ہیں:
]جو اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب مثلاً نصاری کو کافر نہ جانے یا ان کی تکفیر میں شک کرےیا ان کے مذاہب کو درست جانے، تو وہ کافر ہے، اگرچہ وہ اس اعتقاد کے ساتھ اپنےاسلام کو بھی ظاہر کرے اور اس پر اعتقاد بھی رکھے[

البھوتیؒ [کشاف القناع] میں کہتے ہیں:
وہ کافر ہے، کیونکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اس قول کا انکار کرتا ہے:
[جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور طریقہ(دین) اختیار کرنا چاہے، اس کا وہ طریقہ قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں ناکام ونامراد ہوگا ](۳: ۸۵)

یہ وہ وقواعدِ تکفیر ہیں جن سے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں، اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا حکم بیان کرتی ہے ، نہ کہ اس کا تعلق بعض مسلمانوں کے کفرپر ہونےسے ہےیا ان لوگوں سے متعلق ہے جو نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کر لیں؛ لہٰذا اِس قاعدہ کی تطبیق اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس سے متعلق مبینہ خبرکو متفقہ طور پردرست نہ مان لیاجائے، اور اسی طرح اس فعل کے مرتکب شخص کی تکفیر ترک کی جائے ، اس بنیاد پر کہ شاید اس سے منسلک خبر جھوٹی ہو۔

دوم:
اس قاعدے کے اندر تین امور شامل ہیں:

اول:
اس بات سے متعلق قطعی نصوص موجود ہیں کہ جو دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب مثلاً یہود، نصاری، مشرکین کی ملت اورانکے شعار کی مخالفت کرتی ہیں اوران کی تکفیر کولازم کرتی ہیں ؛ پس ان کے کفر پرکتاب و سنت میں عام وخاص نصوص دلالت کرتی ہیں۔

عام نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
] بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے] (آل عمران: 19)

نیز فرمایا:
[جو کوئی اسلام کےعلاوہ کسی دین کی پیروی کرے گا،وہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا] (آل عمران: 85(

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
[اللہ کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جو کوئی میری امت میں سے، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، وہ میرے بارے میں سن لے، اور جس چیز کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اوراس پر ایمان نہ لائے، اور اسی حالت میں موت اس کو آ لے، تو وہ فقط جہنم کے لوگوں میں سے ہو گا] (رواہ مسلم)

اور خاص نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
[ یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکرین کی یہ بھی نقل کرنے لگے،اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں ] (التوبہ: 30(

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا ئےاللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا] (المائدہ: 73(

جو کوئی ان مذاہب کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، یا ان کے عقائد اور دین کو صحیح قرار دے، وہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بلاشبہ جھوٹ باندھنے والاہے، اور اُن دونوں کے حکم کو رَد کرنے والا بن جائے گا۔

اس لیےقاضی عیاض اپنی کتاب [الشفا] میں اس اجماع کو نقل کرتے ہیں:
]جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ یہودونصاری اوردیگر مذاہب کی تکفیر نہیں کرتا، یا ان کے تکفیر میں توقف کرتا ہے، یا اس میں شک کرتا ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں[

اس قاعدے میں شامل دوم امریہ ہے:
ان ارتدادی گروہوں و مذاہب کے کفر کا قطعی ہونا جن کے ارتداد اور کفر پر سب جمع ہیں، جیسا کہ باطنی فرقوں میں سے قرامطی، اسماعیلی،نصیری،دروزی، بابی، بہائی اور قادیانی شامل ہیں۔ اہل علم نے ان گرہوں پر کفر اور ارتداد کا حکم لگایا ہے؛ جس کی وجہ ان فرقوں کا تمام جہتوں سے اصولِ اسلام کےمنافی اعتقاد رکھنا ہے، جو کوئی ان فرقوں کی حقیقتِ حال کے علم کے بعد بھی ان کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ ان کے مذہب اور کفریہ عقائد کو بھی درست ماننے والا قرار پائے گا، اور دین اسلام پر طعن کرنے والا بنے گا، اور یہ بھی انہیں کی طرح کافر ہو گا۔

ابن تیمیہؒ اپنے [فتاوی] میں دروزیوں سے متعلق رقمطراز ہیں:
[ان کے کفر سے متعلق مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے؛ بلکہ جو انکے کفر میں شک کرے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے]

اس قاعدے میں شامل سوم امر یہ ہے:
جو کوئی نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کرے، جن کو اہل علم نے جمع فرمایا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا، یا اُن کی توہین کرنا یا اس چیز کا انکارکرنا جو اسلام میں ضرورتِ دین سےمعلوم ہے۔

جو کوئی ان نواقص کی اقسام کے مرتکب کی تکفیر نہیں کرتا، ایسے اقوال وافعال کے کفر سے انکار کرتا ہے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے۔

ابن تیمیہؒ اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو صحابہؓ کی توہین کے جواز کا اعتقاد رکھتا ہے یا جو کفری اعتقادات کو صحیح جانتا ہے:
]تاہم جو اس طریقہ پر یہ دعوی کرتے ہوئے (دوسرے صحابہؓ پر) طعن و تشنیع کرے کہ علیؓ معبود ہیں یا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہیں اور جبریلؑ اپنا پیغام پہنچانے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، ایسے شخص کے کفر میں تو کوئی شک نہیں ہے، بلکہ جو کوئی ایسے شخص کی تکفیر پر توقف کرے اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے[

سوم:
اِس قاعدے(جوکافر کو کافر نہ کہےوہ خود کافر ہے) میں یہ امور شامل نہیں ہیں:

- جن مکفرات میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، مثلاً نماز کوسستی کےسبب چھوڑنے والا، ان میں سے متعدد علماء نے اس کفر پر دائرہ اسلام سے خارج کیا ہے، اور دیگر نے اسے اس درجہ تک نہیں جانا ہے، اسی لیے جو کوئی سستی کے سبب نماز کو چھوڑنے والے کی تکفیر نہیں کرتا، اس کوکافر نہیں کہا جائے گا۔

- نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کے ارتکاب کرنے والے معین مسلمان کی تکفیر سے احتراز کرنے والے شخص کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا؛کیونکہ کسی معین شخص پر کفر کے حکم کا اطلاق کرنا اس پر قطعی دلیل نہیں ہے، اس کی تکفیر کرنا اور اس پر ارتداد کا حکم لگانا صحیح اور غلط بھی ہو سکتا ہے، اس شخص کی تکفیر پر توقف کرنا موانع تکفیر کی موجودگی یا شروط ِ تکفیر نہ ہونے کے سبب ممکن ہے یا قیام حجت کی غیر موجودگی اور دیگر ملتے جلتے اسباب بھی شامل ہیں۔

اس قاعدے میں یہ بھی شامل نہیں ہے:

جو کوئی متفق احکام ِ کفر کا اطلاق بعض معین افراد پر نہ کرے،مثلاً طاغوت کے احکام کا اطلاق کرنا یا اللہ کی شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے گروہوں کے قائدین یا افراد کو تکفیر کے لیے معین کرنا ؛ کیونکہ کفر بالطاغوت کی اصل اسلام میں اس طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا]

جبکہ کسی معین فرد پر طاغوت کے حکم کا اطلاق کرنا ایک اجتہادی اور نظری بحث ہے۔ اس موقع پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ:
[جو کوئی فلاں مرتکبِ نواقص شخص کی تکفیر نہیں کرے گا، وہ خود کافر ہے]
کیونکہ اس کی وجہ اس معاملہ میں اجتہاد اور اختلاف کا ہونا ہے۔

چہارم:
اس قاعدے کا اطلاق ان قائد ین پر کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں ہے جب تک تکفیر کی شروط کی تحقیق نہ کر لی جائے، اور اس کے موانع کو زائل نہ کر لیا جائے۔

تکفیر مطلق جیسا کہ یہ قول (جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) لوگوں پر معین تکفیر جیسا کہ یہ قول (فلاں شخص کافر کی تکفیر نہیں کرتا یہ بھی کافر ہے)سے مختلف ہوتی ہے۔

معین افراد اپنے اوپر قیامِ حجت کے حساب سے مختلف درجہ پر ہوتے ہیں، اپنے اجتہاد اور تاویل پر مختلف درجہ رکھتے ہیں اور کثر اہل غلو جہالت کے سبب ان مختلف مراتب میں تفریق نہیں کرتے ہیں۔

ابن ابی العز الحنفی [شرح الطحاوية] میں کہتےہیں:
[کسی معین شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ مجتہد ہو جس کے سبب وہ اپنی خطا پر معاف کیا جائے، ممکن ہے کہ ان نصوص میں بہت سے باتیں جو اس کے علاوہ ہیں، اسے آگاہی حاصل نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ایمان عظیم ہو اور ایسی نیکیاں ہوں جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت ناگزیر ہو جائے]

کوئی شخص کفارِ اصلی، یا مرتدین جن کے ارتداد پر سب متفق ہیں کی عدم تکفیر پر اپنے علم کے قصور یا کسی شبہ کو دیکھنے یا دیگر موانع تکفیر(جیسا کہ جہالت،خطا،اکراہ اور تاویل) کے سبب توقف کر سکتا ہے، اس لیے معین تکفیر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ تمام موانع اس سے زائل ہو چکے ہوں۔

ابن حجرؒ [فتح الباری] میں امام شافعی ؒکے قول کو نقل کرتے ہیں:
[جو شخص اقامتِ حجت کے بعد مخالفت کرے اس نے کفر کیا،تاہم قیامِ حجت سے قبل اسے جہالت کا عذر دیا جائے گا]

ابن تیمیہؒ [فتاوی] میں عقیدہ وحدت الوجود کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور اسے نصارٰی کے قول کی طرف اشارہ دیتےہوئے لکھتے ہیں:
[یہ تمام عقیدہ اپنے باطن وظاہر پر تمام مسلمانوں کے اجماع کے سبب کفر ہے، اور جو کوئی ان کے قول سے متعلق وضاحت دینے اور دین اسلام کی معرفت کو ظاہر کر دینے کے باوجود ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ بھی اسی طرح کافر ہے جو یہودو نصارٰی اور مشرکین کے کفر میں شک کرتا ہے]

اس لیے جو کسی کافر کی تکفیر نہ کرے اس پر اقامتِ حجت ضروری ہے، جو اس کی تعلیم اور اس معاملہ کی وضاحت سے ممکن ہو گی۔

پنجم:
اس قاعدے کے سبب دو فریق گمراہی کا شکار ہوئے ہیں، فریقِ تفریط جو ادنی درجہ پر آیا، اور فریقِ افراط جو غلو کا شکار ہوا۔

- جہاں تک غفلت برتنے والوں کا تعلق ہے: انہوں سے اس قاعدے میں سے کچھ نہ لیا، اور اس کا انکار کیا، ان کے نزدیک کفار کی تکفیران حدودو ضوابط کے پورا ہونے کے بعد بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے بعض یہ زعم بھی رکھتے ہیں کہ کفار کی تکفیر کرناآزادی رائے کے خلاف ہے، ان میں وہ بھی ہیں جو وحدتِ ادیان کی دعوت دیتے ہیں یا ان میں بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، اور یہ اقوال اللہ اور اس کی رسول صل اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے مترادف ہیں اور اجماع امت کا انکار ہے۔

- جہاں تک غلو کرنے والوں کا تعلق ہے: انہوں نے اس قاعدے کو بڑھا دیا، حتیٰ کہ اس میں مسلمانوں کو داخل کر دیا اور اِن پر کفر اور ارتداد کا حکم لگا دیا، اور پھر باقی لوگوں پر اس تکفیر کو لازم قرار دے دیا۔پھر اگر آپ اس قاعدے کے متعلق (ان کے بتلائے ہوئے طریقہ پر)عملاً تکفیر نہیں کرتے، پھر یہ دعوی کرتے ہیں۔۔۔۔(کہ آپ بھی کافر ہیں)!!

بالآخر:
بلاشبہ تکفیر اور ارتداد کا حکم ایک خطرناک معاملہ ہے، اس (حکم) کے اندر وہ آثار ہیں جو زوجین کے درمیان تفریق پیدا کر دیتے ہیں، اور مرتد اور اس کی وراثت سے متعلق احکاماتِ وراثت منقطع ہو جاتے ہیں، اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہوتاہے،اسی طرح اس کی نماز نہ پڑھنے اور دیگر امور اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔اس لیے ایک مسلمان کو اس معاملہ میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے، بلکہ یہ امر تو سوائےان راسخ العلم حضرات کے لیے ہیں جن کے ہاتھ میں قضاء اور احکامات ہیں۔

ابو حامد الغزالیؒ [الاقتصاد في الاعتقاد] میں لکھتے ہیں:
]جب تکفیر کی راہ سے نکلنا ممکن ہو تو اس سے ضرور احتراز برتنا چاہیے،کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کو جو کہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتےہوں، کے خون و اموال کو مباح (جائز) قرار دینا غلطی ہے۔ زندگی میں ہزار کفار کے قتل کو ترک کر نے کی غلطی بنسبت ایک مسلمان کے خون کی (المِحْجِمة) جتنی مقدار کو غلطی کے سبب بہا دینے سے ہلکی بات ہے [ اور (المِحْجِمة): حجامہ کا آلہ ہے، اس آلہ ججامہ کے اندر خون کی وہ کم سے کم مقدار جو آسانی سے آ سکے۔

امام شوکانیؒ[السيل الجرار] میں لکھتے ہیں:
]یہ بات جان لو کہ کسی بھی مسلمان شخص پر دینِ اسلام سے خروج کر کے کفر میں داخل ہونے کا حکم لگانا؛ مسلمان جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے، اس کا ذمہ اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک وہ اس معاملے میں چمکتے سورج کی مانند واضح دلائل نہ دیکھ لے،اس واسطے کہ صحیح احادیث میں صحابہؓ کی جماعت سے مستند طور پر یہ حدیث مروی ہے کہ:’’ جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، پس یہ (تکفیر) اُ ن میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹے گی‘‘]

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس علم کی طرف لے جائیں جس سے ہمیں فائدہ ہو، اور ہمیں امتِ وسط بنائیں جو غلو اور تضاد سے پاک ہو، اور ہمیں اپنے مجرم دشمنوں پر فتح یاب فرمائیں۔

والحمد لله رب العالمين

مصدر:
http://islamicsham.org/fatawa/1904


جمعہ، 21 نومبر، 2014

اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے
تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

ادارۂ السحاب کو دیا گیا شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم العالیہ کا انٹرویو


پوری دنیا میں بسنے والے ہمارے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ادارہ السحاب آپ کی خدمت میں اس وقت شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم کے ساتھ ساتواں انٹرویو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسے ہم سب کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین

سب سے پہلے ہم شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اھلاًوسھلاً

سوال:
صلیبی صہیونی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف مجاہدین کی جنگ شروع ہوئے تیرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔جب کہ ابھی تک جنگ پورے زوروشور سے جاری ہے۔آپ کے خیال میں جیت کا پلڑا کس کے حق میں رہا؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیت کا پلڑا اسی کے حق میں ہے جو میدانِ جنگ سے بھاگا نہیں ! عراق سے کون بھاگا اور کون نہیں؟اورافغانستان سے کون بھاگنے کی تیاری میں ہے اور کون ثابت قدم ہے؟

سوال:
لیکن اوباما نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے القاعدہ کو شکست دے دی ہے اور اس نے اس بات کا اعادہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین کے حالیہ خطاب میں بھی کیا ہے۔

شیخ دامت برکاتہم:
اوباما کے ان دعووں سے مجھے متنبی کا وہ شعر یاد آرہا ہے جس میں وہ کہتا ہے:

زندگی اس شخص کے لیے مشکلات سے پاک ہے
جو ماضی سے بے خبر اور توقعات سے غافل ہو
جو حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے خود کو دھوکے میں رکھے
اور طلبِ محال میں جُتا رہے

دراصل اوباما اپنے سننے والوں کی عقل پر ذرہ بھر رحم نہیں کھاتا،اسی خطاب میں وہ یہ بھی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ القاعدہ ‘عراق،شام،یمن،صومالیہ،الجزائر اور مالی میں پھیلتی جارہی ہے جب کہ اس کے باوجود کانگریس کے اراکین اس کے لیے تالیں بجاتے رہے، کیونکہ اس وقت ان کا اصل غم افغانستان سے کم از کم خسائر کے ساتھ بھاگنا ہے۔ اوباما کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر آنے والا دن مختلف علاقوں میں القاعدہ کے پھیلاؤمیں اضافہ کررہاہے۔

پھر اس سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم یا جماعت ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اوراس معنی میں یہ عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ضعیف طبقات میں اور بھی زیادہ پھیل رہی ہے۔

محترم بھائی!یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ ایک ایسی استعماری قوت ہے جو مسلسل روبہ زوال ہے ،یہ دو بڑی جنگوں میں ہارچکی، مالیاتی بحران نے الگ سے اس کا گلا گھونٹ رکھا ہے اور بے پناہ دفاعی اخراجات مسلسل اسے کھوکھلا کررہے ہیں۔پھر جلتی پہ تیل کا کام نیویارک،واشنگٹن اور پنسلوانیا پر گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں نے کردیا۔

یہاں سے امام ِ مجددشیخ اسامہ بن لان رحمہ اللہ کی عبقری سوچ واضح ہوتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ آج ہم اسلامی دنیا کے نقشے کو بدلنے میں مصروف ہیں جس پر مستقبل میں خلافت کے سائے تلے صرف ایک ہی اسلامی ریاست ہوگی۔

سوال:
لیکن شیخ اسامہ کوتو وہ شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مجاہدین کے دیگر بہت سے قائدین کو بھی۔پھر آپ کیسے کہتےہیں کہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل نہیں کیے؟

شیخ دامت برکاتہم:
اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے نوجوانی کی عمر سے خود کو دین پر فدا کررکھا تھا اور بالآخر وہ جہاد کے اعلیٰ ترین مرتبے یعنی مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ اُن کی شہادت نے انہیں روشنی کا ایسا میناربنادیا ہے جو امت کو ہمیشہ فداکاری اورقربانی پر ابھارتا رہے گا۔یہ حقیقت ہے کہ اپنے پیاروں کی جدائی بڑی سخت ہوتی ہے لیکن مجاہد امت ان باتوں سے شکست نہیں کھایا کرتی۔امریکیوں نے اس سے پہلے ویت نام،صومالیہ، عراق اور افغانستان میں بھی بے حساب خون کی ہولی کھیلی،لیکن ان سب جگہوں پر آخر کار شکست ہی اس کا مقدر بنی۔

سوال:
بغیرپائلٹ کے ڈرون طیاروں کے حملے مسلسل جاری ہیں اور اب تو ان کا دائرہ کار صومالیہ،یمن ،ایک دفعہ پھر سے عراق اور شاید آنے والے دنوں میں شام تک پھیلتا جارہا ہے۔کیا آپ اسے مجاہدین کے خلاف ایک کامیاب اور فعال حربے کے طور پر نہیں دیکھتے؟

شیخ دامت برکاتہم:
ڈرون حملے جاری رہیں گے اور شاید مزید بڑھ جائیں لیکن جہاں تک ان کی فعالیت کا تعلق ہے تو اس کا جواب قطعاًنفی میں ہے۔امریکہ پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے کررہا ہے لیکن پھر بھی مات کھارہا ہے۔ اس سے قبل عراق میں کیے اور پھر بھی شکست سے دوچار ہوا۔

یہ بھی جان لیں کہ اگر امریکہ ان جاسوسی طیاروں سے بم باری نہ کرتا تو پھر لازماً بڑے جہازوں سے کرتا۔جب کہ آزادی کی جنگوں میں قابض قوت جتنی چاہے قساوت کا مظاہرہ کرلے بالآخر اسے شکست کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ تیرہ سال میں ہم نے اس غاصب کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔مجاہدین نے فتح کی قیمت اپنے اور اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اور اپنے اسیروں پر صبرو ثبات سے ادا کی ہے،اسی لیے آج ان بم باریوں کے باوجود فتح ان کے قدم چوم رہی ہے اور ہزیمت امریکیوں کا مقدر بن چکی ہے۔اور پھر آپ کیسے ان جاسوس طیاروں کو کارگر کہہ سکتے ہیں جب کہ اوباما خود حقیقت کا معترف ہے کہ القاعدہ مزید پھیلتی چلی جارہی ہے۔

سوال:
جاسوسی طیاروں کے اس نظام کے پیچھے خود زمینی جاسوسی اوراس مقصد کے لیے جواسیس کی بھرتی کا بھی ایک پورا نظام ہے۔آپ اس ناپاک جنگ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
آپ نے درست کہا،یہ واقعی ایک ناپاک جنگ ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہی اور اس کامقابلہ مختلف درجات پر کرتے ہیں جن میں امنیاتی اقدامات،دعوت اورقضاء سب شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِن تَکُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّہِ مَالاَ یَرْجُونَ(النساء:۱۰۳)
’’اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اُنہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جب کہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے جو امید ہے وہ اُنہیں نہیں‘‘۔

اس جنگ میں وہ ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور ہم اُنہیں۔اللہ کے شیر ابودجانہ خراسانی رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا اسے کون بھلا سکتا ہے!ان شاء اللہ ایک دن آئے گا کہ حقائق سے پردہ اٹھے کا اور اس جنگ میں کفار کی جانب سے شریک ہوکر امت اور مجاہدین کی پیٹھ میں نشتر گھونپنے کی پاکستان نے جو خیانت کی ہے وہ سب کے سامنے منکشف ہوگی۔

چنانچہ جو کوئی بھی اس ناپاک جنگ کا حصہ ہے میں اسے پورے اخلاص کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہوں کہ وہ وقت ختم ہونے سے پہلے توبہ کرلے۔یہ بات اسے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم مجاہدین اللہ تعالیٰ کی توفیق ونصرت سے اپنے شہداءکا بدلہ نہیں چھوڑیں گے اور آخری سانس تک مجرمین کا پیچھا کریں گے۔یہ لوگ مجھے اچھی طرح سن سکتے ہیں اورمجاہدین کی سنجیدگی سے وہ خود بھی واقف ہیں۔یہ کمزور اوردربدر مجاہدین جنہوں نے امریکہ کے تجارتی اور عسکری مراکز کو عین ان کے گھر میں جاکرضرب لگائی ،ان کی اپنے رب سے یہ التجا ہے کہ وہ انہیں ہراُس جاسوس اور خائن پر قدرت عطا فرمائے جو اعلانیہ توبہ نہیں کرتا اور اپنی توبہ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے خود کو اس کام پر لگانے والے اور اس کام میں تعاون کرنے والے کی معلومات نہیں دیتا۔

میری تمام مجاہدین اور ہر غیور مسلمان سے بھی یہ استدعا ہے کہ وہ مجاہدین کے شہدا کا بدلہ ان جواسیس اور خائنین سے لینا ہرگز نہ بھولیں اور اس بدلے کو نسل بعد نسل آنے والے لوگوں تک منتقل کریں۔کیا ان لوگوں کو واضح پیغام پہنچ گیا؟اے اللہ میں نے اپنی جانب سے پیغام پہنچا دیا۔اے اللہ تو بھی گواہ رہنا۔متنبی کہتا ہے:

میرے ہنسنے نے جاہل کو جہالت میں اوربڑھادیا
یہاں تک کہ اسے آہنی ہاتھ اور جبڑے نے جکڑ لیا
اگر تم شیر کے دانت نکلے ہوئے دیکھو
تو ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ شیر مسکرا رہا ہے

سوال:
چلئے اب شام کا رخ کرتے ہیں۔آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت اہم ترین معرکہ ارض شام میں جاری ہے لیکن انہی دنوں میں ہم وہاں مجاہدین کی اپنی صفوں میں آپس کی جنگ کی خبریں سن رہے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ حالات اس نہج تک آپہنچے کہ بات جہادی رفقا کی باہمی قتل وقتال تک جاپہنچی؟

شیخ دامت برکاتہم:
خواہشات نفس کے غلبے،جہالت اور ایک دوسرے پر ظلم نے حالات کے دھارے کو اس جانب موڑا ہے۔ایک بات ہم سب کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدہر گناہ سے معصوم نہیں ہوتا۔وہ صغیرہ وکبیرہ دونوں طرح کے گناہ کرسکتا ہے۔ بلکہ ایسے اعمال بھی اس سے سرزد ہوسکتے ہیں جو اس کے سارے جہاد ہی کو ضائع کرکے رکھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکو دنیا اور اس کی شہوت کے حصول کی جنگ میں بدل دیں۔قرآن حکیم نے وضاحت کے ساتھ ان حقائق کو بیان کیا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُم مُّصِیْبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَیْْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَـذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(ال عمران: ۱۶۵)
’’کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ تم تو اس سے دو چند تکلیف پہنچا چکے ہو تو کہتے ہویہ کہاں سے آئی،کہہ دو یہ تکلیف تمہیں تمہاری اپنی طرف سے پہنچی ہے بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُم بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ مِنکُم مَّن یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنکُم مَّن یُرِیدُ الآخِرَۃَ(ال عمران:۱۵۲)
’’اور اللہ تعالیٰ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کرچکا تھا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے،بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے‘‘۔

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیْکُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَۃً نُّعَاسًا یَغْشَی طَآئِفَۃً مِّنکُمْ وَطَآئِفَۃٌ قَدْ أَہَمَّتْہُمْ أَنفُسُہُمْ یَظُنُّونَ بِاللّہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ یَقُولُونَ ہَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَیْء ٍ قُلْ إِنَّ الأَمْرَ کُلَّہُ لِلَِّہ(ال عمران:۱۵۴)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین یعنی اونگھ بھیجی اس نے بعضوں کو تم میں سے ڈھانک لیا اور بعضوں کو اپنی جان کا فکر لڑرہا تھااللہ تعالیٰ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کررہے تھے کہتے تھے ہمارے ہاتھ میں کچھ کام ہے کہہ دو کہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

اورفرمایا:
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْاْ مِنکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّہُ عَنْہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌ(ال عمران:۱۵۵)
’’بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا تھا اور اللہ نے ان کو معاف کردیا بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا،تحمل والاہے‘‘۔

اور میں اس امکان کو بعید از قیاس نہیں سمجھتا کہ خود مجاہدین کی اپنی صفوں میں ایسے عناصر موجود ہوں جو جہاد کے لیے نقصان کا باعث ہوں۔ضروری نہیں کہ یہ گھس بیٹھے جواسیس یا استخبارات کے ایجنٹ ہوں،بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنا بن کر دھوکہ دے رہے ہوں،جیسے غلط مشوروں کے ذریعے یا مجاہدین کے مابین اختلاف کوہوا دینے کے ذریعے یا پھرمالی معاونت کے ذریعے تاکہ جہادی سفر کو غلط خطوط پر چلنے پر مجبور کردیا جائے۔

سوال:
اس باہمی جنگ وجدل کے حوالے سے آپ کا موقف کیا ہے؟اور اسے روکنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم شدت سے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جہاد شام پر پڑنے والی ایک آفت ہے۔یہاں یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ حکومت کی جانب سے مجاہدین کی صفوںمیں افتراق پیدا کیا گیا ہو تاکہ مجاہدین ایک دوسرے کو مامارکرہی مرجائیں اورحکومت کے لیے اپنے ہاتھوں ان اہداف کا حصول ممکن کردیں جو خوداس کے لیے ممکن نہ تھے۔

اس حوالے سے میں نے ایک فوری بیان بھی جاری کیا تھا جس میں مَیں نے آپس میں جنگ بند کرنے اور شرعی محکمے کی طرف معاملہ لوٹانے کی اپیل کی تھی۔ہم تمام مجاہدین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اختلاف کو شرعی محکمے کی جانب لوٹائیں اور سب کواس کے احکامات کی پاس داری کا پابند کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ادارہ خودمختار اورغیر جانبدارہو۔اور شام اور شام سے باہر کے تمام مجاہدین اورجہاد کی نصرت کرنے والوں سے ہماری درخواست ہے کہ جو کوئی بھی اس شرعی محکمے کو معطل کرنے کی کوشش کرے یا اس دعوت کو قبول نہ کرے یا اس کے احکامات پر عمل نہ کرے،وہ اس کے خلاف امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے تحت سخت موقف اختیار کریں۔اور جس کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے تو کوئی بھی اس کی مادی یا معنوی مدد نہ کرے،نہ اس کے ساتھ الحاق کرے اورنہ ہی اپنے بھائیوں کے مقابلے پر اس کی مدد کرے،بلکہ عالم اسلام میں اس کے خلاف رائے ہموار کرے اور اس کے افعال سے برأت کرے۔

جو کوئی بھی ایسے عناصر کی مادی یا معنوی مددکررہا ہے اسے اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ وہ اس طریقے سے مجاہدین کے قتل اور جہاد کی بربادی میں تعاون کررہا ہے اور اسے اپنے رب کی جانب سے دنیا وآخرت میں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

شرعی حیثیت کا ختم ہونا اور اعتماد کا اٹھ جانا ایک انتہائی ہولناک امر ہے۔ الجزائر میں جب مسلح اسلامی جماعت (الجیا) نے اپنی یہ حیثیت کھوئی تو وہ ختم ہوگئی۔ افغانستان میں روسی انخلاکے بعد جب مختلف گروہوں نے آپس میں جنگ سے اپنی حیثیت کھو دی تو وہ ختم ہوگئے،لیکن اس کے مقابلے پر جب امت نے طالبان کو وہ حیثیت دی تو کامیابی نے ان کے قدم چومے۔میری اس گفتگو کا مخاطب کوئی خاص تنظیم یا جماعت نہیں ہے،بلکہ میرا مخاطب بغیر کسی تقسیم و تفریق کے تمام مسلمان اور مجاہدین ہیں۔

یہاں میں ہر اس مجاہد کو جو اپنے مجاہد بھائیوں کے خلاف قتال میں یا ان کے اموال اور حرمتوں کی پامالی میں شریک ہے یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ جان رکھو کہ محض تمہارے امیر کا حکم تمہاری جان بخشی کے لیے کافی نہیں ہے۔نہ ظواہری، نہ جولانی، نہ حموی، نہ بغدادی،کوئی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا سے نہیں بچا سکے گا ،اگر تم نے اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کی۔یہ سب لوگ قیامت کے دن بالکل عاجز اوراس بات کے محتاج ہوں گے کہ کوئی انہیں اللہ رب العزت کے سامنے جواب دہی سے بچاسکے۔سو اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے، تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو،بلکہ اس سے کہو کہ وہ تمہیں اگلے محاذوں اورمورچوں پر بھیجے جہاں تم بعثی مجرم ٹولے اور اس کے صفوی حلیفوں کے خلاف جنگ کرسکو۔

اورخبردار!ہرگز خود کواپنے بھائیوں کے درمیان یا ان کے مراکز پر مت اڑانا۔ جان رکھو!تم نے اکیلے مرنا ہے،اکیلے دفن ہونا ہے،اکیلے اٹھایا جانا ہے،اکیلے اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے اور اکیلے ہی ان سب اعمال کا حساب دینا ہے۔ان سب مراحل میں تمہاراامیر تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔سو تمہیں چاہیے کہ اُس عظیم دن کے لیے ابھی سے جواب تیار کرلو۔

اے مجاہد!جان رکھوکہ تم شام کے جہاد کے لیے اس لیے نکلے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ سربلند ہوجائے اور کافروں کا کلمہ سرنگوں ،سو اپنا راستہ گم مت کربیٹھو اور اپنا رخ مت پھیرو۔بچواس چیز سے کہ کچھ قائدین اپنے اقتدار،القاب،مناصب اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے تمہیں استعمال کرجائیں۔چنانچہ اگر میں بھی تمہیں اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کا کہوں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا۔اور اگر میں تمہیں کہوں کہ خود کو اپنے بھائیوں کے مابین اڑا دو تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا بلکہ میری بات کو ٹھکرا دینا،کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔

اسی طرح شام میں اپنے بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ سیکولر قوتوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ انصار اورمہاجرین کے درمیان فتنہ پیدا کرسکیں او رنہ ہی کسی کو کسی مہاجر پراس دلیل کی بناپرکوئی زیادتی کرنے دیں کہ ہم شامی ہیں اور یہ شامی نہیں ہے۔یہ اندھا تعصب ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ہم سب مسلمان ہیں اور آپ میں سے کوئی کسی مہاجر کے اہل وعیال ،اس کے مال،اس کی عزت اور اس کی حرمت پر حملے کا سبب نہ بنے۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھیں ،جس میں اُس نے فرمایا: 


وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر:۹)
’’اورجنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں)گھر اور ایمان حاصل کررکھا ہے جو ان کے پاس وطن چھوٹ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔

سوال:
حال ہی میں قیادت عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا عراق وشام میں دولت الاسلامیہ نامی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،اس فیصلے کے پیچھے کیا اسباب کارفرما ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس کے پیچھے دو بنیادی اسباب ہیں:
پہلا سبب بنیادی منہج کا اختلاف ہے۔ہمارا منہج یہ ہے کہ اپنی قوتوں کو عصرِ حاضر کے صنم اکبر امریکہ ،اس کے حلیفوں اور ان کے خائن آلہ کاروں پر مرکوز رکھا جائے اوراس مقصد کی خاطر ان کی فوج،سیکورٹی اداروں اور محارب گروہوں کو نشانہ بنایا جائے اور امت کو ان کے خلاف جہاد پر اکٹھا کیاجائے جب کہ جانبی معرکوں سے بچا جائے۔

ہمارا منہج خون مسلم کے معاملے میں احتیاط سے کام لینا اوربازاروں،مساجد، بستیوں اور مجاہدین کی جماعتوں کے مابین دھماکے کرنے سے گریز کرنا ہے جہاں ناحق خون بہنے کا اندیشہ بھی ہو۔اس حوالے سے شیخ اسامہ،شیخ مصطفی ابوالیزید، شیخ عطیۃ اللہ اور شیخ ابویحییٰ رحمھم اللہ کے متعدد بیانات جاری ہوچکے ہیں اور خود میں بھی اس موضوع پر بارہا بات کرچکا ہوں۔اسی مقصد کی خاطر ہم نے تمام بھائیوں سے مشاورت کے بعد ’’جہادی عمل کے لیے عمومی ہدایات‘‘ نامی دستاویز بھی جاری کیا۔

اس دستاویز کو جاری کرنے کا مقصد اس ساری صورت حال سے بچنا تھا جو اب پیش آچکی ہے۔اور اب جب کہ اس فتنے کی آگ بھڑک چکی ہے تو شاید اب سب کو اس بات کا ادراک ہواہوگا کہ وہ کیا خطرات تھے جن سے بچنے کے لیے اس دستاویز کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔

اسی طرح ہمارا منہج یہ ہے کہ امتِ توحید کو کلمۂ توحید کی بنیاد پر اکٹھا کرنا اور ایسی خلافت راشدہ کے قیام کی کوشش کرنا جو شوریٰ اور مسلمانوں کی رضا سے قائم ہو۔

اسی مقصد کے لیے ہم نے وثیقۂ نصرت اسلام جاری کیا تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے سب لوگوں کو ایک بنیاد پر اکٹھا کیا جاسکے۔ ہم کبھی بھی امت کو اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اُن کے ذہنوں میں ہماری تصویرجبراًمسلط ہوجانے ،ان کے حقوق غصب کرنے والے یا ان پر دھونس جمانے اور زبردستی کرنے والے کی سی ہو۔

جہاں تک دوسرے سبب کا تعلق ہے تو وہ اجتماعیت کے اصولوں کی پاس داری نہ کرنا ہے۔

سوال:
مثال کے طور پر؟

شیخ دامت برکاتہم:
مثال کے طور پر بغیر اجازت بلکہ بغیر اطلاع کے پوری پوری ریاستوں کا اعلان کردینا،حالانکہ قیادت عامہ کی ہدایت یہ تھی کہ ہم نے شام میں القاعدہ کے کسی وجود کا اعلان نہیں کرنا اور اس بات پر سب کا اتفاق تھا اورخود عراقی بھائیوں کا بھی،لیکن یک دم ہمیں اس اعلان نے حیران کردیا جس نے شامی حکومت اور امریکہ وہ وہ موقعہ فراہم کردیا جس کی اُنہیں تمنا تھی۔

اس کے بعد شامی عوا م یہ پوچھنے میں حق بجانب تھے کہ اس القاعدہ کوکیا ہواکہ کھینچ کھینچ کرہم پر مصائب لارہی ہے۔کیا ہمارے لیے بشار کا ظلم کافی نہ تھا کہ اب یہ امریکہ کو بھی ہم پر مسلط کررہے ہیں۔اسی طرح قیادت کی جانب سے صلاحیتوں کی تقسیم اور فتنے کی جنگ کو روکنے جیسے احکامات کی پابندی نہ کرنا۔

شام کے مسئلہ کے حوالے سے اس معروف فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی سبب اس خونی فتنے کی آندھی سے بچنا تھا جو اب تک ہزاروں مجاہدین کا خون اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔اب سب کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل درآمد کرلیا جاتا تو آج ہزاروں جانیں بچ چکی ہوتیں اور تمام قوت اور وسائل مسلمانوں کا خون بہانے کی بجائے مسلمانوں کے دشمنوں پر صرف ہوتے۔

ایک اور انتہائی اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے۔اور شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور جماعۃ القاعدۃ الجہاد میں ان کے ساتھیوں نے اس پیغام کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ادارہ السحاب شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے اپنے بھائیوں کے نام کچھ مراسلات نشر کرسکیں۔

الغرض ،القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اور اگر ہم نے اس پیغام ہی کو مسخ کردیا تو ہم ناکام ہوگئے،چاہے تنظیمی اور مادی اعتبار سے ہم کتنے ہی پھیل جائیں،کیونکہ ہم اپنی اساسی ذمہ داری کی ادائیگی میں ہی ناکام ہوگئے جو امت کو شریعت کی حاکمیت اور احیائے خلافت کے لیے اس کے دشمن کے خلاف جہاد پر ابھارنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم امت کے سامنے قول و فعل کے تضاد سے پاک ایک صالح نمونہ اور صاف ستھرا پیغام پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں چاہے ہم دس لوگ ہی کیوں نہ ہوں،یہ اس سے بہتر ہے کہ ہم دسیوں ہزارہوں لیکن امت ہم سے اور ہمارے اعمال سے متنفر ہو۔

لہٰذا جب امت یہ دیکھے گی کہ ہم لوگ تمکین اور غلبے سے پہلے ہی غنائم پر ایک دوسرے کی گردیں مارنے لگے ہیں،اس کے اہلِ فضل کو ان کا مقام دینے پر تیار نہیں ہیں، حکومت اور شوریٰ میں امت کا حق تسلیم نہیں کرتے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم ایک ایسے فتنے کی جنگ لڑنے میں مگن ہیں جس میں مجاہدین کی جان،مال اورحرمت کوپامال کیا جاتا ہے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم جہاد کے ثمر کو پکنے سے پہلے ہی بے سوچے سمجھے اقدامات اور انفرادی سطح پر جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں سے ضائع کررہے ہیں تو ایسے میں امت کس طرح ہم پر اعتماد کرے گی؟کس طرح ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی؟بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہم اپنے دشمن کو امت کے سامنے ہماری حیثیت کوبگاڑکرپیش کرنے کاسنہری موقع دیتی ہیں اور امت کو خود سے دور کرنے کا بہترین موقع فراہم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں سیکولر قوتیں اور امریکہ کے دم چھلے عوام سے کہیں گے کہ دیکھو یہ مجاہدین آج ایک دوسرے کے ساتھ یہ کچھ کررہے ہیں تو کل کو تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟

غالباًآپ نے حسن نصراللہ کا بیان سنا ہوگا جس میں اس نے شام کی مجرم حکومت کے ساتھ مل کر جنگ کو اس بنیاد پر درست قرار دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر اہلِ شام کو تکفیریوں کے جرائم سے نجات دلا رہا ہے۔حالانکہ یہ وہ حکومت ہے جو چالیس سال سے مسلمانوں کی حرمتیں پامال کررہی ہے۔

سوال:
لیکن پہلے آپ دولتِ اسلامی عراق کی مدح اور تعریف کیوں کرتے تھے؟

شیخ دامت برکاتہم:
میں اور میرے بھائی ان میں موجود خیر کی بنیاد پران کی تعریف کرتے تھے۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم بقدرِ استطاعت نصیحت،رہ نمائی اور احکامات کے ذریعے اصلاح کی کوشش بھی کرتے تھے۔

سوال:
پہلے آپ کے بارے میں ایک تاثریہ پایا جاتا تھا کہ آپ طبیعت کے لحاظ سے متشدد ہیں اور آپ کا شمار القاعدہ کے شہبازوں میں کیا جاتا تھا جب کہ اب آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اپنا منہج بدل لیا ہے بلکہ بعض تو آپ پر مرجئہ ہونے کا الزام تک لگاتے ہیں۔ تو کیا واقعی آپ کی سوچ اور فکر میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
لوگوں کو راضی کرناناممکن ہے اوربڑے بڑے فیصلے ہمیشہ مشورے اور اتفاق سے کیے جاتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اپنی سوچ اور فکر بدلی ہے۔

سوال:
آپ ہمیشہ اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ امت کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور تب تک کسی قسم کی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے جب تک امت مجاہدین کی صفوں میں نہ ہو،لیکن عملی طور پر ایسا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے جب کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف ایک نظری کلام ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

شیخ دامت برکاتہم:
افغانستان میں طالبان کا اٹھنا اور جنگی کمان دانوں کے خلاف ان کے لیے عوام کی بھرپور تائید اس کی واضح مثال ہے۔اسی طرح شام میں بھی بیش تر مجاہدین کا عوام کے ساتھ تعلق اس کا بہترین نمونہ ہے۔

سوال:
اسی طرح آپ اکثر امت کو مشاورتی عمل اور خاص طورپر اپنے حاکم کے انتخاب میں مشاورت میں شامل کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن بعض لوگ اس پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ امت اس ذمہ داری کی ادائیگی کی اہلیت نہیں رکھتی اور یہ مجاہدین میں سے کچھ چنیدہ لوگوں کا کام ہے،آپ اس اعتراض کا کیسے جواب دیتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
امت خود پر حکومت اور اپنی نمائندگی کے لیے ایسے افرادکا انتخاب کرتی ہے جو شرعی اہلیت رکھتے ہوں،ناکہ فاسق وفاجر کو جس کے دین میں کلام ہو۔لہٰذا مسئلہ چاہے نیابت کا ہو یاامارت کا یا امامت کا ،امت ایسے لوگوں کا ہی انتخاب کرتی ہے جو اس منصب کے لیے ضروری شروط پرپورا اترتے ہوں۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب انصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کی تو آپ ؓ نے اس کی یہ دلیل دی کہ ’’خلافت کا یہ معاملہ قریش کے اس گروہ کے سوا کسی اور کے لیے قبول نہیں ہوگا‘‘۔

اسی طرح مصنّف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے ’’لیکن تم لوگ یہ جانتے ہوکہ عرب میں قریش کی جو منزلت اورمقام ہے اس میں ان کا کوئی اور شریک نہیں اور عرب کسی ایسے شخص پر متفق نہیں ہوں گے جو ان میں سے نہ ہو‘‘۔

پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اما بعد!اے علی میں نے لوگوں کی امارت کے مسئلے پر جب غور کیا تو اس ذمہ داری کے لیے عثمان سے بہتر کسی کو نہیں پایا ،سو تم اپنے نفس کو آڑے نہ آنے دو‘‘۔ پھر اُنہوں نے فرمایا:’’میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی سنت ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر اور ان کے بعد دونوں خلفاکی سنت پر‘‘…چنانچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب بیعت کی تو اس کے بعد مہاجرین و انصار،فوج کے سپہ سالاروں اور عام مسلمانوں نے بھی بیعت کی۔

سوال:
شام میں ایران کے عراقی اور لبنانی حلیفوں کے نصیری حکومت کے ساتھ مجاہدین کے خلاف تعاون کے پیچھے کیا راز ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
حال کو سمجھنے کے لیے آپ اس قوم کی اور اس کے اسلاف کی تاریخ پڑھ لیں!انہیں کبھی یہ گوارا نہیں ہوسکتا کہ اہلِ اسلام کے پاس کوئی خطہ اور ریاست ہو۔خلافت کا دوبارہ قیام اور اس کے لیے کوشش ان کے نزدیک ایک جرم ہے۔شام میں نصیری حکومت کے سقوط سے ایران اپنے اُن حلیفوں کی نصف قوت سے محروم ہوجائے گا جو افغانستان سے لے کر جنوبی لبنان تک اپنی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جہادی تحریکات اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن اس کے باجود یہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ بشار الاسد کی حکومت کے دفاع میں مشغول ہیں جو چالیس سال سے زائد عرصے سے اسرائیل کی حدود کی حفاظت کی ذامہ داری ادا کرہی ہے اور اس کے باوجود حسبِ عادت ایران صاف جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس حکومت کو مدافعت اور مزاحمت کارکہنے پر مُصر ہے۔حقائق کو ان کی اصل صورت میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ایران پوری قوت اور ڈھٹائی کے ساتھ جنوبی لبنان تک صفوی ریاست کے قیام اور جہاد فی سبیل اللہ کے وصف سے مزین اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔

سوال:
اہل شام کو ان مظالم اور جرائم سے نجات دلانے کا کیا رستہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
راستہ اسد کی مجرم حکومت کے خلاف جہاد ہے۔امت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس جہاد کی ہر ممکن طریقے سے نصرت اور مدد کرے اور مجاہدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمۂ توحید کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں،کیونکہ ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف یہی ان کی مضبوط پناہ گاہ ہے۔یہ کسی طور معقول بات نہیں کہ شیعہ تو متحد ہوں جب کہ اہل سنت آپس میں ہی برسرِ پیکار ہوں اور ان کی صفیں اتحاد سے خالی ہوں۔چنانچہ سب کو چاہیے کہ وہ تنظیمی اور گروہی مصلحتوں سے بالاہوکر امت کی مصلحت کو سامنے رکھیں چاہے اس مقصد کے لیے انہیں اپنے بھائیوں کے حق میں ایسے امور سے دست بردار بھی ہونا پڑے جنہیں وہ درست سمجھتے ہیں۔

اسی طرح ہم امت کے اہل خیر تاجروں اور اصحابِ ثروت سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اہل شام کی امداد کے لیے آگے بڑھیں اور انہیں حکومت کے مسلط کردہ فاقوں اورمحاصرے کے بیچ میں نہ چھوڑیں کہ وہ خیموں کی زندگی کی تلخیاں ہی برداشت کرتے رہیں۔ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ان کی تصویریں سب کے سامنے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

میری ایسے تمام اہلِ خیر سے بھی التماس ہے چاہے وہ میدان میں بھی مہارت رکھتے ہوں کہ وہ اہلِ شام کی امداد اور نصرت کے لیے کھڑے ہوں بالخصوص طب کے میدان میں۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اگر میری استطاعت ہوتی تو میں خود ان کی صفوں میں شامل ہوکر ان کی خدمت کرتاکہ شاید میں اپنے بھائیوں کے مصائب میں کچھ کمی کا سبب بن سکوں۔اسی طرح ایسے تمام ماہرین جو کسی بھی میدان میں مہارت رکھتے ہوں اور معیشت اور تعلیم جیسے میدانوں میں اہلِ شام کی نصرت کرسکتے ہوں ان کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا واجب ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فتح آجائے۔

سوال:
کیا لبنان میں موجود شیعہ جماعت حزب اللہ کے ساتھ محاذ کھولنا درست ہے؟ اس حوالے سے آپ کی کیا ہدایات ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
واللہ اعلم !اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ حزب اللہ نامی اس جماعت کی حیثیت اس وقت مسلمانوں کی جان،مال او رعزت پر حملہ آور کی ہے جو کہ سب سے بڑی مجرم حکومت کی حلیف ہے۔لہٰذا یہ ایک ایسا حملہ آور دشمن ہے جس سے ہر ممکن شرعی ذرائع سے دفاع کرکرنا واجب ہے۔شام میں جاری جہاد کی برکت کا مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے حزب اللہ اور اس کے سربراہ حسن نصراللہ کا اصل چہرہ واضح کردیا ہے۔

سوال:
سعودیہ مصر میں اخوان کے خلاف کھڑا ہے جب کہ یمن میں وہ انہی کی حمایت اورمدد میں مشغول ہے جب کہ شام اور عراق میں بھی وہ کسی حد تک ان کی امداد کررہا ہے۔اس تضاد کی آپ کیاوجہ سمجھتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
سعودیہ کی حیثیت امریکی سیاست کے لیے استعمال ہونے والے ایک آلے سے زیادہ نہیں جسے امریکہ جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔مصر میں امریکہ کی سیاست یہ ہے کہ حکومت کی زمامِ کار فوج یا فوجی پس منظر رکھنے والوں کے پاس ہوجو اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکوں کو کچلنے کا کام بھی کرسکیں۔جب کہ شام اور عراق میں اس کی سیاست ایک جانب ایران کو کمزور کرنا اور ساتھ ساتھ اسلامی تحریکات سے منسوب لوگوں کو حکومت تک پہنچنے سے روکنا ہے۔اس نظر سے دیکھیں تو سعودیہ کی سیاست میں کوئی تناقض اورتضاد نظر نہیں آتا۔

سوال:
سعودیہ ایک جانب شام اور عراق میں اہل سنت کی امدد اور حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب شاہ عبداللہ کا کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والا یہ حکم بھی ہمارے سامنے ہے جس میں اس نے ہر اس شخص پر بیس سال کی سزا کااعلان کردیا جو جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلے۔اس کی کیا وجہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ سعودیہ کی سیاست کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ وہ امریکہ کی ایک آلۂ کار حکومت ہے۔یہ سیاست ان کے باپ عبدالعزیز نے جاری کی جب اس نے جنگ عظیم دوم سے کچھ عرصہ قبل امریکی صدر روز ویلٹ کے ساتھ ملاقات میں اپنی وفاداری برطانیہ سے ہٹا کر امریکہ کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال:
اس فیصلے کے بعد جزیرۃ العرب کے مخلص علما او رداعی حضرات پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
علمائے کرام اور داعی حضرات کی ذمہ داری وہی ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کی ہے اور سنت نبوی میں اس کی وضاحت موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 


وَإِذْ أَخَذَ اللّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ(ال عمران:۱۸۷)
’’اورجب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے ضرور بیان کروگے اورچھپاؤگے نہیں‘‘۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شہداکے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص جو کسی جابر سلطان کے سامنے کھڑا ہوپھر اسے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس کے نتیجے میں وہ سلطان اسے قتل کردے‘‘۔

اسی طرح حق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جہادورباط کے میدانوں کی جانب ہجرت کرنی چاہیے تاکہ وہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور اپنے قول کی تصدیق اپنے عمل سے کریں۔

بشکریہ: نوائے افغان جہاد
 

بدھ، 19 نومبر، 2014

ہر نئے اعلان کے بعد مزید ناحق خون بہتا ہے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر نئے اعلان کے بعد مزید ناحق خون بہتا ہے!
جماعت الدولۃ کے اعلانِ خلافت پر شیخ ابو بصیر الطرطوسی کا بیان

جب جماعت الدولۃ خود کو جماعت اور تنظیم سے متعارف کرواتی تھی، اس وقت بھی ناحق خون اس بات پر بہایا جاتا تھا کہ یہ تو بانی جماعت ہے، جو بڑی (افضل)ہے اورتمام (جماعتوں) پر مقدم ہے، پھر جب اس کو یہ (مقدس) حیثیت نہ ملی، تب بھی خود کو ان(القاب) سے لبریزکیےرکھا، اور جو کہ اِن کی اصلی حیثیت نہ تھی، پھر انہوں نےیہ زعم رکھا کہ یہ عراق میں دولت (ریاست) ہیں، پھر مزید اس زعم میں ناحق خون کو بہایا گیا، پھر اس کے بعد انہوں نے زعم رکھا کہ یہ عراق وشام میں دولت (ریاست) بن گئے ہیں، پھر ناحق خون بہنا دگنا ہو گیا،اسی اعتبار کے ساتھ کہ یہ ایک ریاست(عراق و شام) ہیں، اور جو کوئی بھی اس دولت(ریاست) سے خارج ہے، اورجو اس دولت کی طرف اطاعت و فرمانبرداری کا ہاتھ نہیں بڑھاتا ہے، اس (مسلمان)کا خون بہانا جائز ہے۔

اور آج بھی حالت ایسی ہی ہے، ان کی یہ پیاس ابھی تک نہیں بھجی ہے ، ناحق خون کے لیے اسی طرح پیاسے ہیں، انہیں مزعومہ القابات و عنوانات کی بدولت، انہیں نے اب یہ زعم رکھ لیا ہے کہ یہ ’خلافت‘ ہیں، اور ان کا امیر ’خلیفہ‘ ہے، انہی کے پاس کامل خلیفہ کے حقوق ہیں، جو اس کی مخالفت کرے یا اس کی بیعت میں داخل نہ ہو، اُن کو قتل کردیتاہے۔

اے دشمنانِ اسلام کے لیے فرحت کا باعث بننے والو۔ یہ سب ان سفہاء، کمِ سن، خوارج العصر کے سبب ہےجنہوں نے مسلمانوں کی گردنوں پر اپنی تلواریں کھینچ لیں ہیں، یہ انہیں القابات و عنواناتِ مزعومہ کے زعم اور وہم کے ذریعے نصرت دیے گئے ہیں، جو انہی کے کچھ عدد مریضوں کو لاحق ہوا، جو شدت پسند، نا عاقبت اندیش ہیں اور جن کواب سب جانتے ہیں!

ان خوارج العصر شدت پسند غالیوں کے ہر نئے اعلان کے سبب، مسلمانوں کے غم و الم میں اضافہ ہوتا ہے؛ اِن کے علم میں ہے کہ یہ وہمی القابات اور اسماء اپنے لیےمخصوص کرلینا ان کے معاملات کا حصہ ہے، تاکہ یہ اس کی بنیاد پرقتل و خونریزی کرسکیں، اور تفرقہ کو مزید بڑھائیں، اور اپنے دشمنوں۔۔۔ جن کو یہ خوارج شدت پسند اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔۔۔ کی شوکت کو کمزور کریں، اور ان کا خون بہا سکیں۔ ان کے ہر نئے اعلان کے بعد، چیخ وپکار اور دھمکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور دشمن اس حقیقت کو جانتے ہیں، پس وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ یہ اُن علاقوں میں ایک حد تک پھیلاؤ کریں، اور اِن کو برداشت کیا جاتا ہے، اور حسبِ موقع ان کو قوت کی رسی تھما کر بعض پر حاوی بھی کر دیتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا جب انہوں نے اِن (خوارج) کی یہ وصف بیان کی:
[ یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں، اور مشرکین کو چھوڑ دیتے ہیں]

مصدر:
http://tinyurl.com/nu23f6b
 

عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے
عدنانی نے اپنے مارقہ بیان ’’معذرت امیرالقاعدہ‘‘سے مخاطب ہوا اور خوارج کے ساتھ
بہت سےامور میں موافقت کی
کاتب:
@ahmad_3393


۱)ہم منہج اسامہؒ کی طرف واپس ہو رہے ہیں؟
عدنانی نے کہا:
اور ہم یہاں ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو آپ کی طرف بڑھاتے ہیں، تا کہ آپ اپنے بہترین پیشرو(شیخ اسامہؒ) کے بہترین جانشین بن جائیں، شیخ اسامہؒ نے مجاہدین کو ایک کلمہ پر متحد کیا۔

ہم اس سے کہتے ہیں:
اس بات سے تم اپنے اجداد خوارج کی پیروی کرنے لگے، وہ انحرافِ سیدنا علیؓ کی دعوت دیتے تھے اور سیدنا ابوبکرعمرؓ کے معاملے میں رحم سے کام لیتے تھے؟

۲) شریعت کی تحکیم سے انکار ؟
عدنانی نے کہا:
اور جہاں تک معاملہ ہے غیرجانبدار شرعی محاکمہ کی بابت، جس پر آپ نے زور دیا ہے، تو ہم آپ سے کہتے ہیں: یہ امر تو ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ تو ناممکن ہے، اور اس کا سوال کرنا تو بڑی تصوارتی خیالی بات ہے، کیوں؟ کیونکہ آپ نے مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈال کر ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس میں کوئی بھی تیسرا گروہ باقی نہیں ہے۔ ایک گروہ دولۃ اور انصارانِ دولۃ کا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو غیر جانبدار شرعی محاکمہ کا مطالبہ کرنے والا ہے، پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدارجمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوجائیں۔

ہم کہتےہیں:
غیرجانبدار تحکیم کا انکار سابقہ خوارج نے بھی کیا تھا جب انہوں نے سیدنا علیؓ سے کہا: ( ان الحکم الا للہ، حُکم تو صرف اللہ کا ہی ہے)،پس یہ بھی اس کا انکار کر رہے اور کہہ رہے: [ ممکن نہیں، بلکہ ناممکن، بلکہ یہ تو فقط تخیلاتی بات ہے] ، تو کیا اسے صرف یہ اعلانِ خلافت ( کی اجازت دینے)کی شرط پر قبول کریں گے؟

عدنانی نے کہا:
پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدار جمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوں۔

ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
[کسی بھی خوارج گروہ کی گمراہی کی اصل ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ہدایت یافتہ ائمہ اور جماعت المسلمین اب یہ عدل وانصاف سے دور ہو چکے ہیں(یعنی شریعت کے معاملہ میں عدل نہیں کر رہے)، اور انہوں نے گمراہی اختیار کر لی ہے]

اسی لیے دولتِ بغدادی نے شیخ سلیمان العلوان کی قید سے قبل ان کی احرار الشام کی تحکیم سے انکار کیا اور شیخ ربیش کے معاملہ میں شیخ محیسني کے شرعی محاکمہ کے منصوبہ سے انکار کیا، بلکہ انہوں نے کسی بھی غیر جانبدار شرعی محکمہ قضاء کا انکار کیا، اور یہاں تک کہ مشترکہ شرعی محاکمہ قضاء کا بھی انکار کیا۔

۳) عمومی اصول و قواعد و احکامات کو ذکر کر کے تدلیس سے کام لینااور اس کو کسی پر معین حُکم لگانے کی منزل تک پہنچانا
عدنانی نے کہا:
شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ منہج جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کے بارے میں کہتے ہیں:
"پس یہ اور ان جیسی دوسری وجوہات کی بنا پر ہم نے اس خبیث منھج کے خلاف ایک سخت جنگ کا اعلان کیا ہے اور ہم نے اِس باطل عقیدہ اور ناکامی کے راستے پر چلنے والے افراد کے حکم کو بھی واضح انداز سے بیان کیا ہے۔ پس جو کوئی حمایت اور نصرت کے ذریعے سے اس منہج کو قائم کرنے کی سعی کرتا ہے، تو وہ دینِ جمہوریت اور اس کے پیروکار لوگوں کا نگرانِ حال مانا جائے گا۔ اور اس کا حکم اُن لوگوں کے حکم کی طرح ہے جو اس دینِ جمہوریت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں۔

انتخابی امیدوار ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرنے والے ہیں، جبکہ ان کے لیے ووٹ کا استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو اللہ کے ساتھ رب اور شریک ٹھہرایا۔ اور اللہ کے دین میں ان سب کا حکم کفر اور اسلام سے ارتداد کا ہے۔

اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اےاللہ! آپ گواہ رہیے گا"۔ (کلام ختم ہوا)

یہاں پر عدنانی نے تدلیس(حق بات چھپانا) کی ہے:
وہ عام قواعد اور مطلق احکامات کو دلیل کے طور پر سامنے لایا ، اور اس کو حکمِ معین کی منزل تک پہنچا کر ، اس کا اطلاق سب پر کر دیا ہے ۔

اس نے مشائخ القاعدہ سے انہیں تقاریر کا انتخاب کیا جس میں تکفیر اور ارتداد کا ذکر ہے، گویا کہ جیسے القاعدہ (کی فکر) میں تکفیر اور ارتداد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے؟ یہ کس قسم کی خطا اور تلبیس ہے جو اس دماغ میں پائی جاتی ہے؟

اس قابلِ کراہت باطل کا رد ہم شیخ عطیۃ اللہؒ کے اقوال سے کرتے ہیں،
شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جن کو انتخاب کے لیے چنا جاتا ہے:
جہاں تک سوال کےپہلے حصہ کا تعلق ہے جو کہ انتخابی امیدواروں سےہے، جو پارلیمینٹ کے انتخابات میں حصہ لیتےہیں یا دیگر حکام وغیرہ، تو اس میں بھی (فقہ) واقعہ کی تفصیل میں جانا لازم ہے، اس میں جو کوئی اللہ کے دین کے علاوہ قانون سازی کرے، اور اللہ کی شریعت کےعلاوہ قانون سازی میں مصروف ہو جائے، تو ایسا شخص کافر ہے، اور یہ حکمِ نظری ہے (جس کی تطبیق کسی معین پرنہیں کی گئی بلکہ مطلقاً حکم بیان کیا گیا ہے)، اور اسی طرح جو کوئی کسی مرتد حکمران کا انتخاب کرے تاکہ مسلمانوں کے اور دیگر مسلمان ممالک کے فیصلے کرے، تو وہ بھی اسی طرح کافر ہے، لیکن جب ہم فقہ الواقعہ میں جاتے ہیں، تو مسئلہ بالکل اسی طرح سیدھا سادھانہیں ہے، کیونکہ عام لوگ ان افعال کا ارتکاب اس لیے نہیں کرتے کہ یہ اللہ کی شریعت کے علاوہ قانون سازی کریں گےیا مرتد حاکم کا انتخاب کریں گے، مقصود بتانے کا یہ ہے کہ تفصیل میں جانا ضروری ہے، ہم لوگوں کی عمومی تکفیراس قاعدے کے ساتھ نہیں کرتے اور جو کوئی ایسے ( عمومی تکفیر) کرے، بے شک وہ بڑی واضح گمراہی میں جا پڑا ہے اور اصولِ علم وفقہ سے خارج ہو گیا ہے، اور وہ عامۃ المسلمین پر اس حالِ کفر کا اطلاق کر دے گا، جس کا اطلاق اُن پر نہیں ہوتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔

شیخ عطیۃ اللہ ؒنے حماس اور ان کی حکومت کے بارے میں کہا:
جو خطا حماس حکومت سے سرزد ہوئی ہم ان کو معذور، متاول (تاویل کرنے والے) سمجھتے ہیں، اور اس بنیاد پر کہ کچھ فتاوی انہوں نے اخذ اُن اہل علم سے کیے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہے، بلکہ وہ ہمارے نزدیک مسلمان ہیں جو خطاکار ہیں، اور ہم انہیں نصیحت کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور جس طرح ہم باقی تمام مسلمانوں کو ہدایت کی طرف لانے کا کام کرتے ہیں وہی معاملہ ادھر رکھتے ہیں، اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو منکر ہیں، اور ان کی اخطاء کو صراحت سے بیان کرتے ہیں جو ان سے وقوع پذیر ہوں، ہم نہ ہی انہیں دھوکہ دیتےہیں اور نہ ہی امتِ مسلمہ کو۔

پھر شیخ عطیہ اللہؒ نے فرمایا:
لیکن ہم حماس کا جمہوریت اور مجلسِ قانون سازی میں داخلے کو، اور اسی طرح دوسری اشیاء کی طرف جانے کو جو دین کے مخالف ہیں، اس اضافہ کے ساتھ جو کہ دیگر مجموعات سے سرزد ہوئیں جن میں وہ افکار، قولی اور فعلی ضابطے شامل ہیں جو کہ شریعت کے مخالف ہیں، ان کو ہم منکر، باطل اور فسادِ عظیم سمجھتے ہیں، ہم اللہ کے سامنے ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کا انکار کرتے ہیں، اور اپنے بھائیوں کو نصیحت کرتےہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کریں، اس سے اجتناب کریں،اپنی اصلاح کریں اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیں۔

جب شیخ عطیہ اللہؒ سے سوال ہوا:
کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ حماس کو ارتداد کے اوصاف سے متصف کیا جائے؟

پھر شیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
نہیں بالکل نہیں، یہ بات جائز نہیں کہ ہم انہیں ارتداد کی صفت سے متصف کریں یا ان پر کفر کا حکم لگائیں۔۔۔بلکہ یہ غلطی ہے جس کی طرف توجہ ہم نے تمام جگہوں پر بسنے والے نوجوانانِ ملت کو دلائی ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کریں، اور جہاں پر ان مسائل کا سامنا ہو وہاں پر کسی ایک پر کفر کا حکم لگانے میں جلدی نہ کریں، ایسے مسائل جن میں خطا اور تاویل سامنے آ جائے، اور یہاں تک کہ اگر غلطی بڑی بھی ہے، اور اس طرف معاملہ(تکفیر) کرنا پڑے،تو یہ (تکفیر)ناقابل واپسی نہ ہو، اور کوئی عذر بھی انکے ساتھ باقی نہ رہنے پائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

مزیدشیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
ہم یہ نہیں کہتے کہ حرکتِ حماس یا یہاں تک کہ حکومتِ حماس طاغوت بن گئی ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں جو خیر کی طرف تاویل کا شکار ہوئے ہیں، اور غلطی کر لی ہے، طاغوت تو ہر وہ شے ہے، جو بندگی سے تجاوز کرتے ہوئے خود کو معبود بنا لے یا اس سےبھی بڑھ جائے یا پھر اللہ سے بھی خود کو بڑھا لے، تو پھر کیا اے محبوب بھائی، کیا اس کی تطبیق حماس پر ہو سکتی ہے؟ نہیں! اس کی تطبیق نہیں ہوتی ہے۔

۴)تکفیر میں غلو:
جس طرح یہ سابقہ نقاط بیان کیے گئے ہیں، اس کی تائید کرتے ہوئے عدنانی نے عمومی طور پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے، جس میں انتخابات کے اندر شرکت کو بطور دلیل، بغیرتفصیل میں جائےبنایا گیا ہے، جس طرح کہ شیخ عطیہ اللہؒ نے اس موضوع پر صراحت کے ساتھ وضاحت کر دی ہے۔

وصلى الله وبارك على نبينا محمد . مصدر:
http://justpaste.it/fnv9 
 

منگل، 18 نومبر، 2014

القاعدہ فی البلاد المغرب کی دولۃ الاسلامیہ فی العراق کے نام ہماری نصیحت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
القاعدہ فی البلاد المغرب کی دولۃ الاسلامیہ فی العراق کے نام ہماری نصیحت
القاعدہ فی مغرب اسلامی کا دولۃ الاسلامیہ العراق والشام کے اعلانِ خلافت کے بعد اعلامیہ

دولت الاسلامیہ کے نام ہماری نصیحت
یا إخواننا فی الدولۃ الإسلامیۃ، أین أنتم من قیادۃ طالبان وأمیرہا الملا عمر مجاہد حفظہ اللہ الذی ضحی بدولۃ کاملۃ من أجل ثلۃ من المہاجرین من بینہم مؤسس الدولۃ الإسلامیۃ فی العراق الشیخ أبو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ، أین أنتم من الشیخ أیمن الظواہری، الذی لم یکد یخلوخطاب لہ من الإشادۃ ببطولاتکم فی العراق، وإن اختلفتم معہ فی الفترۃ الأخیرۃ، أین أنتم من إمارۃ القوقاز الإسلامیۃ، وأین أنتم من قیادات فروع القاعدۃ فی سائر الأقالیم، وغیرہم من المجاہدین

ہمارے الدولہ کے بھائیو! تم طالبان کی قیادت سے اور ان کے امیر ملاعمر مجاہد حفظہ اللہ سے کیوں دور ہو!جنہوں نے اپنی پوری سلطنت چند مہاجرین کی حفاظت کے اوپر نچھاور کردی وہ مہاجرین جس میں الدولہ کے بانی شیخ ابومعصب الزرقاوی رحمہ اللہ بھی شامل تھے!!اور آپ شیخ الظواہری حفظہ اللہ سے کیوں دور ہو جو کہ عراق میں تمہاری بہادریوں کی داستان بیان کرتے ہوئے ساکت رہ جاتے تھے…اگرچہ تم نے بعد میں ان سے غیر متفق ہونے کا اظہار کیا …تم چیچنیا کی اسلامی امارت سے کیوں دور ہو اور تم القاعدہ کی قیادت اور اس کی مختلف خطوں میں پائی جانے والی شاخوں سے کیوں دور ہو ؟

علمائے حق کو نظر انداز نہ کرو!
ہذا ناہیک عن العلماء والدعاۃ أہل الصدق الذین ثبت لہم قدم صدق راسخ فی الإسلام وفی الدعوۃ إلی إقامۃ الخلافۃ، ولم یرکنوا إلی الطواغیت المحکمین للقوانین الوضعیۃ الموالین لأعداء الأمۃ، ونخص بالذکر أسد التوحید الشیخ أبا محمد المقدسی والشیخ أبا قتادۃ الفلسطینی والشیخ المجاہد أبا الولید الغزی والشیخ المحدث سلیمان العلوان الذی تجرع السجن سنین طوالا بسبب نصرتہ للجہاد فی العراق، فالأمر أوسع من أن تحدہ خلافات فقہیۃ أو سیاسیۃ، إنہا الخلافۃ التی یتفیأ ظلہا کل المسلمین

ان علمائے کرام اور داعی حضرات کو نظر انداز نہ کرو جو اہل حق میں سے ہیں او جو دین اسلام اور خلافت کے قیام کی دعوت میں ثابت قدم ہیں اور جنہوں نے ان طواغیت سے ہاتھ نہ ملایا جو انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور امت کے دشمنوں کے وفادار ہیں۔ان (علما )میں سب سے خاص اسد التوحید ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ ، ابو قتادہ الفلسطینی حفظہ اللہ، مجاھد ابو ولید غازی حفظہ اللہ اور شیخ المحدث سلیمان العلوان حفظہ اللہ ہیں جنہوں نے جہادِ عراق کی حمایت میں کئی سال اسیر کاٹی… یہ (خلافت کا)مسئلہ کسی فقہی اور سیاسی اختلاف سے بالاتر ہے…بے شک خلافت تو مسلمانوں کے لیے رحمت کا سایہ ہے۔

جبھتہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے درمیان اختلافات کا حل
أمام الواقع الجدید، ندعو أولی الأمر، علماء وأمراء ، ونخص بالذکر المشایخ الفضلاء الشیخ أبا محمد المقدسی والشیخ أبا الو لید الغزی والشیخ أبا بکر البغدادی والملا محمد عمر والشیخ أیمن الظواہری والشیخ ناصر الوحیشی والشیخ أبا الزبیر والشیخ أبا محمد الجولانی وغیرہم من العلماء العاملین وقادۃ المجاہدین، للاجتماع علی کلمۃ سوائ،وإصلاح الخلل داخل البیت الواحد بعیدا عن وسائل الإعلام، من أجل حفظ بیضۃ الإسلام والحفاظ علی وحدۃ المسلمین وحقن دمائہم

اس نئے مسئلے پر ہم سب سے پہلے تمام علما اور امراکو خصوصا محترم علماابو محمد المقدسی،شیخ ابو ولید غازی، شیخ ابو بکر البغدادی، ملا محمد عمر، شیخ ایمن الظواہری، شیخ ناصر الوحیشی، شیخ ابو زبیر اور شیخ ابو محمد جولانی حفظہم اللہ اور دیگر علما اور مجاہدین کے امرا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ایک بات پر جمع ہو جائیں اور ان اختلافات کو میڈیا سے ہٹ کر اپنے گھر میں حل کر لیں تاکہ اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی وحدانیت کی حفاظت رہے اور خون مسلم کی حرمت برقرار رہے۔

(نام نہاد)خلافت کا انکار اور شیخ ایمن الظواھری حفظہ اللہ کی بیعت کی تجدید
ؤکد أننا لا زلنا علی بیعتنا لشیخنا وأمیرنا أیمن الظواہری، فہی بیعۃ شرعیۃ ثبتت فی أعناقنا، ولم نر ما یوجب علینا نقضہا، وہی بیعۃ علی الجہاد من أجل تحریر بلاد المسلمین وتحکیم الشریعۃ الإسلامیۃ فیہا، واسترجاع الخلافۃ الراشدۃ علی منہاج النبوۃ

ہم اس بات کو زور دے کر کہتے ہیں کہ ہم ابھی تک شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی بیعت میں ہیں اور یہ بالکل شرعی بیعت ہے جس کا طوق ہماری گردنوں میں ہے اور ہمیں اس بیعت کی تجدید کی بھی ضرورت نہیں ہے اور یہ بیعت جہاد کے لیے ہے اور اس امر کے لیے ہے کہ مسلم سرزمینوں کو آزاد کروایا جائے گا اور ان پر شریعت کا نفاذ کیا جائے گا اور خلافت کو علیٰ منہج النبوۃ دوبارہ قائم کیا جائے گا۔


ہر کسی کے موقف اور بیانات کی تحقیق کی جائے!
نذکر المنابر الإعلامیۃ الجہادیۃ، أن أی إعلان أو موقف لا یصدر عن مؤسسۃ الأندلس الإعلامیۃ، فہو لا یمثل تنظیم القاعدۃ ببلاد المغرب الإسلامی، کما ننبہ علی ضرورۃ التثبت وتحری المصداقیۃ فی النقل

ہم تمام جہادی فورمز کو یہ بات یاد کروانا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی بیان جو مؤسسۃ الاندلس (الاندلس میڈیا)پر نشر نہ ہو وہ القاعدہ فی اسلامی مغرب کی نمائندگی نہیں کرتا اور ہم اس پر بھی زور دیتے ہیں کہ ہر خبر کی حقیقت کی تحقیق کی جائے۔ 


بشکریہ: مجلہ نوائے افغان جہاد