جمعرات، 13 اگست، 2015

جدید خوارج کی قدیم صفت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جدید خوارج کی قدیم صفت
شیخ ابو بصیر الطرطوسی


جدید خوارج کی قدیم صفت؛ اور وہ یہ ہے کہ وہ تب تک قتال کرتے ہیں جب تک قتل نہیں کر دیے جاتے، وہ تب تک نہیں پلٹتے جب تک قتل نہ کر دیے جائیں۔۔۔ان کا شر تب تک باقی رہتا جب تک شدت کے ساتھ کچلا نہ جائے اور اُن کو واضح شکست نہ دے دی جائے۔

امام غزالی اپنی کتاب "منھاج العابدین" میں کہتے ہیں:
[ہوائے نفس ایک خارجی کی مثل ہے، جو قتال کو دین سمجھ کر کرتا ہے، جو مشکل سے ہی لوٹتا ہے حتی کہ قتل نہ ہو جائے۔۔۔]

اللہ المستعان۔

ابو بصیر الطرطوسی
31.07.2015

مصدر:
http://altartosi.net/ar/?p=6160

کفارکی اعانت کرنے اوراُن سے استعانت لینے میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کفارکی اعانت کرنے اوراُن سے استعانت لینے میں فرق
#حتی_کہ_تمہارے_قدم_مسئلہ_تکفیر_پر_نہ_لڑکھڑائیں
شیخ ڈاکٹر عبداللہ محیسنی


جو مسئلہ میں آپ کے سامنے آج رات کو بیان کرنے جا رہا ہوں،
وہ مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، پس اپنے کانوں کو میری طرف متوجہ کیجیے، اس مسئلہ میں خصوصی طور پر مجاہدین بھائیوں کی توجہ چاہوں گا،

#حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں
یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر کثرت سے قیل وقال (یہ کہا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں) کا معاملہ اختیار کیا جاتا ہے،
اگر ہم قرآنِ مجید سے ہدایت لیں تو ہم اللہ کے اس فرمان کی پیروی کریں: [ حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں]

اے بھائیو!
اس مسئلہ میں بہت سے بھائیوں کی جہالت ہی اُن کے قدم لڑکھڑانے کا سبب ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے استقامت کا سوال کرتے ہیں،
پس ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے بیان کرتے ہیں،

اے فیض یاب، #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں، اُس تکفیر پر جو ناحق ہو اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں داخل ہو جاؤ، [جس کسی نے بھی اپنے بھائی کو کہا: اے کافر! تو وہ تکفیر اُن میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹتی ہے]

#حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ، اُس تکفیر پر جو کسی مسلمان پر ناحق کی جائے، میں عجلت میں آپ سے کسی مسلمان کے خلاف کفار کی اعانت (مدد ) کرنےکے مسئلہ پر اہل علم کی طرف سے مختصراً بیان کرتا ہوں،

اس سے قبل کہ ہم مسئلہ اعانت پر بیان کریں،
یہ ضروری ہے کہ ہم آج میدانِ جہاد کے حالات کی وضاحت بھی کریں کہ یہ مسئلہ کیوں اتناسنجیدہ ہے،
ایک بھائی میرے پاس آئے اور کہا:
اے شیخ فلاں جماعت نے اللہ کے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے؟
میں نےسوال کیا:
کیوں؟
اُس نے جواب دیا:
انہوں نےکفار سے بغاۃ (شدت پسند باغیوں) کے خلاف اعانت لی ہے۔اس کا اشارہ جماعتِ بغدادی کی طرف تھا، میں نے اس سے کہا:
کیا یہ نواقض اسلام (وہ اعمال جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے ہیں) کےکسی نواقض میں سے ہے؟ تو اس نے حیرت سے جواب دیا:
کیا اس مسئلہ میں اختلاف ہے؟
پھر میں نے اس کو علماء کے اقوال سے آگاہی دی اور اس سے متعلق دلائل پیش کیے، تو وہ حیرت زدہ رہ گیا، اور مجھ سے گزارش کی میں اس مسئلہ کو اپنے بیانات کے سلسلے کا حصہ بناؤں۔

پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے میں بیان کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سےسوال کرتا ہوں کہ میری ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائیں،

یہ وہ مقام نہیں ہے کہ جہاں پر ہم اس مسئلہ سے متعلق درست ترین موقف کے بارے میں فیصلہ کریں، بلکہ اس کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ اہل علم (علماء وفقہاء) کے ہاں پائے جانے والے موقف کی وضاحت ہو سکے، #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ، اور تم مجاہدین کی تکفیرنا حق نہ کر دو اور اپنے جہاد کو تباہ کر بیٹھو،

پس اے فیض یاب، یہ جان لو: #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں
اہل علم کے اجماع کے مطابق مشرکین کی اعانت اور اُن کی جنگ میں نصرت مسلمانوں یا مسلمانوں کی جماعت کے خلاف کرنا حرام ہے۔

یہ جان لو کہ مشرکین کی اعانت مسلمانوں کے خلاف کرنا نواقض اسلام (وہ اعمال جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں) میں سے ہے، اوراللہ کے دین سے کھلا ارتداد ہے، جیسا کہ نیٹو (NATO)کی اعانت مجاہدین کے مقابلے میں کرنا۔

شیخ ابن بازؒ نےاپنے فتاوی میں کہا ہے: علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو کوئی بھی مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مددکرے، چاہے وہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو، وہ انہی کی مثل کافر ہے۔

شیخ احمد شاکرؒ کہتے ہیں: انگریزوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی معاونت مسلمانوں کے خلاف قتال میں کرنا، چاہے اس معاونت کا تعلق کسی بھی قسم سے ہو، چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ،یہ شدیدترین ارتداد ہے۔ اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں یہ جان لو کہ
کفار کی اعانت(کفار کی مدد کرنا) کرنے کا حکم استعانت (کفار سے مددلینے) جیسا نہیں ہے،
ان حالات میں کفار کی اعانت کرنا جبکہ وہی اِس جنگ کے لیے تیاری کا حکم دیں، اوروہی کفار اُن لوگوں کو دعوت دیں، جو اسلام کے دعویدار ہیں کہ وہ اِس (کفار کی) جنگ میں اُن کے ساتھ مل جائیں،تو یہ کفر ہے

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ضروری ہے کہ علماء کے اس متفقہ مسئلہ کو بھی بیان کیا جائے: مسلمانوں کا کفار کے مقابلے میں کفار سے مدد لینا سرے سےعلماء کے نزدیک تکفیر کی بحث میں شامل ہی نہیں ہے اور نہ ہی سلف میں سے کسی نے ایسے فاعل کی تکفیر کی ہے۔

اور جس چیز پر فقہاء متفق ہیں وہ یہ کہ وہ کسی اُس مسلمان کی تکفیر نہیں کرتے، جوکسی ظالم باغی مسلمان کے خلاف کسی کافر سے مدد لے، بشرطیکہ مدد طلب کرنے والے مسلمان کا حکم (اقتدار) کفار پر غالب رہے اور مسلمانوں کا جھنڈا ہی بلند رہے۔

اور مسلمانوں کی مصلحت دوسروں کے مقابلہ میں (مدد طلب کرتے ہوئے) غالب رہے، ہماری اس عدم تکفیر کا مطلب ہرگزاس (کفار سے استعانت لینے کے)فعل کو جائز قرار دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصود اس فاعل کی تکفیر کرنے کی نفی ہے۔

اور اپنےاس مسئلہ کی تفصیل یوں ہے، یعنی:
کفار سے استعانت کسی مسلمان باغی کے خلاف لینا جبکہ قوت و غلبہ مسلمانوں کا ہی باقی رہے*
اس مسئلہ میں سب سےصحیح بات وہی ہے جو جمہورفقہاء نے اختیار کی ہے: اس کوناجائز (حرام)قرار دینا اور ہر حالت میں اِس کو جرم سمجھنا، اور یہ قول مالکی، حنبلی اور شافعی میں مشترک ہے جبکہ حنفی اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں اس بات پر توجہ دو کہ جنہوں نے اس کو حرام قرار دیا اور اس کی مذمت کی، جبکہ وہ کثرتِ رائے رکھتے ہیں،اُن میں سے کسی نے بھی استعانت لینے کو جائز سمجھنے والےکی تکفیر نہیں کی، اس لیے تکفیر(کسی پر کفر کا فتوی لگانا) اور تحریم (کسی چیز کو حرام قرار دینا) میں یہاں فرق ہے، اور اِس کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ اس مسئلہ کو ہلکا سمجھا جائے۔

اوراگر وہ باغی ظالم ہیں اورکفار کا حکم (اقتدار)غالب آتا ہے، تو پھر ایسی صورت میں کفر کا جھنڈا سربلند ہو جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اس بہت خطرناک نازک مسئلے میں تساہل سے کام نہ لیا جائے۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ہوشیاراور خبردار رہو، اللہ آپ پر رحم فرمائیں کہ کہیں اجتہادی مسائل جس میں علماء کا بھی اختلاف ہے، وہ کفر اور ارتداد کا مسئلہ نہ بن جائیں۔

اور یہاں پر ہم جہادی جماعتوں کی قیادت کو متعدد بار تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ تابع کفار سے استعانت کسی باغی مسلمان کے خلاف لینے (جبکہ غلبہ مسلمانوں کا رہے) اور کفار سے استعانت لینے جبکہ کفار کا غلبہ ہو کے مسئلہ میں عظیم فرق کو سمجھیں۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں آپ کو خبردار کرتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی کافر سے استعانت لیتا ہے، جس کو آپ کافر سمجھتے ہیں، جبکہ وہ اسے کافر نہیں سمجھتا، تو اس میں اجتہادی رائے ایک قابلِ قبول معاملہ ہے، پس اس لیے یہ اختلافِ رائے جائز ہے، اور اس پر جو ہم نےاوپر بیان کیا، اُس کا اطلاق نہیں کیا جائے گا۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں خبرردار رہو، اللہ آپ پر رحم فرمائیں، کہ اگر باغی جماعت کے خلاف کافر اور مسلمان بیک وقت قتال بغیر کسی متفقہ سمجھوتے کے شروع کر دیں ،تو اس کو استعانت میں شمار نہیں کیا جاتا، اور یہ معاملہ سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میں ان بیانات کو بہت ضروری اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں، پس اِس پر غوروفکر کریں اور اسے نشر کیجیے، اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائیں، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ثابت قدم رکھیں اور ہمیں غلطیوں سے محفوظ رکھیں۔

از:
ڈاکٹر عبداللہ بن محمد المحیسنی


عربی متن:
http://justpaste.it/Takfeer

انگیریزی ترجمہ:
http://tinyurl.com/pd78qye

جمعرات، 14 مئی، 2015

مسئلہ تکفیر میں غلو کرنے والوں کے نام آخری انتباہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجلسِ شوری مجاہدین (درنہ اور اس کے مضافاتی علاقاجات)
مسئلہ تکفیر میں غلو کرنے والوں کے نام آخری انتباہ
(مجلسِ شوری مجاہدین درنہ کی جانب سے داعش کو قطعی فیصلہ کن پیغام)


تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے سچ کو جھوٹ پر غلبہ عطا فرمایا ،جس سے باطل تباہ ہو کر نیست و نابود ہو گیا اوردرودو سلام ہو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجو گمراہوں اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیےبھیجے گئے،بعدازاں:

پچھلے جمعہ کو بےوقوفوں میں سے ایک بےوقوف درنہ (لیبیا) کی مسجد فاطمۃ الزھراء کے منبر پہ جا بیٹھا اور اُس نے اُن مجاہدین کے خلاف زہرافشانی شروع کی جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے صفِ اول کے معرکوں میں دشمنوں کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ(جو مجاہدین کے خلاف زہرافشانی کرتے ہیں) وہی معاملہ کریں جس کےوہ مستحق ہیں، اس شخص نے دعوی کیا کہ صرف وہی( داعش؍جماعت الدولۃ) حدود اللہ کی حفاظت کر رہے ہیں جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام جماعتیں صرف طاغوت کی حمایتی ہیں، یہ شخص اپنی جماعت (داعش) کی تعریفیں کرتا رہا اور باقی مجاہدین کی تحقیر کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ یہودیوں کےاس کلمہ کے مصادق بن گیا، جو کہتے ہیں (ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے محبوب ہیں)، اور یہی طریقہ اِن(جماعت الدولۃ) کا تمام ساحاتِ جہاد میں کارفرما ہے (کہ وہ خود کو باقی مجاہدین پرجھوٹی فوقیت دینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ یہود خود کو باقی قوموں پر جھوٹی فوقیت دینے کی کوشش کرتےہیں)۔

ہم نے اس خطیب کے معاملے میں صحابہؓ کے اُس طریقے کو اپنایا، جو طریقہ انہوں نے اہل بدعت اور اہل ہوائے نفس کے معاملے میں اختیار کیا تھا،ہم نے اس خطیب کے الفاظ کواِن ( داعش؍جماعت الدولۃ) کے اعلیٰ عہدےدار پر پیش کیا، تو اس نےخطیب کے الفاظ سے برات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ خطیب اُن کی نمائندگی نہیں کرتا،پھریہ کس طرح عامۃ المسلمین پرتو ولایت کا دعوی کرتے ہیں، لیکن اپنےاُس خطیب پر حکم لگانے سے عاجز ہیں، جو منبر پر چڑھ کر مسلمان عوام سے مخاطب ہوتا ہے ؟! اور اگر اِن (داعش )کا یہ بڑا(اعلی عہدے دار) اپنے صغیر(خطیب) کے الفاظ سے برات کا اظہار نہ کرتا ،تو ہمارے اور اُن کےدرمیان معاملہ مختلف ہوتا۔

اِس گمراہ مارقہ خطیب کو جان لینا چاہیے کہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کا اُن کا دعوی باطل پر مبنی ہے، بلکہ یہ اپنے دعوے میں عرب طواغیت سے مماثلت رکھتا ہے جو بعض شعارِ اسلام کا استعمال کرنے کی وجہ سے برباد ہو گئے،تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی اہانت کر سکیں، کیونکہ کسی بھی خلافت (یا حکومت) کا دعوی جومسلمانوں کے مشورے کے بغیر کیا جائے، وہ انہی طواغیت حکومتوں کی مثل جیسا ہی ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں روایت ہے[اگر کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے، تو ایسے شخص کے لیے کوئی بیعت نہ دی جائے] ایک دوسری روایت میں ہے[جو کوئی بغیر صلاح و مشورےبیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے] (رواہ البخاری)، اس کے علاوہ تمہاری (نام نہاد) خلافت کے باطل ہونےسے متعلق تمام شرعی دلائل علمائے امت کی کتب میں درج ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ تمہاری( نام نہاد) خلافت سے متعلق تمام عالم کے علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت کا یہ دعوی باطل اور بےبنیاد ہے۔

ان مزارات کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جس کی حمایت اور حفاظت کی گئی جو تمہاری مزعومہ خلافت کے اندر موجود ہیں؟ اور اس شخص کا حکم کیا ہے جو اس پر راضی ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے؟

تمہارے اس خطیب سے متعلق اللہ کا حکم کہاں ہے، جو تمہاری خلافتِ مزعومہ کے اندر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت صریح کفریہ کلمات کہتا ہے، اور دعوی کرتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے تووہ تمہارے(داعش) امام کی اتباع کرتے(نعوذ باللہ)؟ تمہارا اُس کے اوپر اللہ کا حکم کہاں ہے؟ تمہارا اُس شخص سے توبہ کرنے کا مطالبہ کہاں ہے؟ یا پھر یہ کہ تم نے فقط اساتذہ اور مجاہدین سے ہی توبہ کروانے میں خصوصی مہارت حاصل کر رکھی ہے؟

ایسا کیوں ہے کہ تمہارے مشائخ تبھی آوازیں بلند کرتے ہیں جب اُنہوں نے اُن مجاہدین کی تکفیر کرنی ہوتی ہے، جو تم سے اختلاف کریں اور یہ اُن کی بھی تکفیر کرتے ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا اور ثابت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایک غیر مسلم کو پناہ دینے کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے اگر اس بات کی اُمید ہو کہ وہ اسلام قبول کر لے گا اور ایسے شخص کو قتل کرنے سے دوسرے مسلمانوں کے مصیبت میں پڑنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے؟

ان نماز چھوڑنے والوں اور نشہ کرنے والوں کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جنہیں تم اپنی صفوں میں تعداد بڑھانے کی غرض سے شامل کرتے ہو؟

برقہ دھماکوں کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جس کی ذمہ داری تمہاری ولایت کے ماتحت ولایت برقہ نے قبول کی، جس کا تنیجہ سوائے مسلمانوں کے زیرِ استعمال سڑکوں میں بم دھماکے والی گاڑیوں کی تنصیب کے کچھ نہ نکلا اور جس میں سینکڑوں معصوم مسلمان جاں بحق ہوئے؟

اللہ کا حکم مسلمانوں کے خون سے متعلق کہاں ہے، جن میں آل الحریر کا خاندان شامل ہے، جن کا گھر تم نے نا حق مسمار کر دیا ؟ اور ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں، جوتمہارے حملے کے وقت اپنے گھر کے دفاع کے لیے سامنے آ گئیں، اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں دم توڑ گئیں، اور تم نے ان کا قتل اس بنیاد پر کیا یہ ’طائفۃ ممتنعہ‘ہیں ) ہر وہ گروہ جو اسلام کے ظاہری اور متواتر احکام و قوانین میں سے کسی بھی حکم کو قائم کرنے سے اجتناب برتے اورجس کے خلاف قتال کیے بغیر اس پر قدرت پانا ممکن نہ ہو)!!! کہاں ہے تمہارا دین، تمہاری فیاضی، تمہاری مردانگی جب تم دو خواتین کو ایسی حالت میں قتل کرتے ہو؟!! اور کہاں ہے تمہاری قوت و طاقت جس کے ذریعےتم اِن دو خواتین کو جوایسی حالت میں ہیں، اُن کی نسبت تم’طائفہ ممتنعہ‘ کی طرف کرتے ہو؟!! اگر یہ دعوی کرنے والا کہ یہ خواتین ’طائفۃ ممتنعہ‘ ہیں کوئی چھوٹا بچہ ہوتا، تو کوئی مناسب بات لگتی (کہ وہ تو ناپختہ ذہن کا مالک ہے)، مگر یہ دعوی تو اُن بھاری اسلحہ بردار (داعش کے)افراد کی جانب سے کیا جا رہاتھا، پس ایسے لوگوں کے لیے زمین کی مٹی میں ہونا اولیٰ ہے بہ نسبت زمین کی پشت پر ہونے سے!

اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لیے، اے بے وقوف مارقہ شخص ،ہم اللہ کے فضل سے کھڑے ہوئے، اور طاغوت کے حکم کو اکھاڑ دیا، خوفزدہ کو امن فراہم کیا،اور بھوکوں کو کھانا کھلایا اور صفِ اول کے محاذوں پر ثابت قدم ہوئے، اگر ہم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی، تو تمہیں بھی اس شہر میں قدم رکھنے کی جگہ میسر نہ آتی۔

اللہ کا حکم، اے بےوقوف گمراہ مارقہ شخص، جس کو تم نےدرنہ شہر کے منبر پر بیان کیا، اس کو تمہارے بڑے مرتوبہ (شہر) کےمنبروں میں سے کسی منبر پر بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو کہ درنہ کی حدود میں ایک چھوٹا سا شہر ہے، یہ بھی اس وقت جب اُن (بڑوں) نے اپنے لیے ولایتِ برقہ کا دعوی کیا جو کہ(تمہاری نام نہاد ولایت میں) لیبیا کے ایک تہائی حصہ کا احاطہ کرتی ہے، یہ کس قسم کا فریب ہے جس کے ذریعے تم امت کو دھوکےمیں ڈال رہے، اور یہ کیسا جھوٹ اور افتراء ہے جو کہ تم ہم پر گڑھ رہے ہو؟!!

اللہ کےحکم کو قائم کرنے کے لیے، اے بے وقوف گمراہ مارقہ شخص، یہ کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ایندھن فراہم کیا جائے، نہ کہ اپنی حماقتوں کے سبب اُس کو منقطع کر دیا جائے، اللہ کے فضل سے جب مجاہدین کو تمکین حاصل ہوئی، تو وہ اس ایندھن کوحکمت اور بہترین نصیحت کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچانے کا وسیلہ بن گئے، تو تم نے اپنی حسبہ (جماعت الدولۃ کی خودساختہ پولیس) گاڑیاں ان ایندھن والی گاڑیوں کے پیچھے لگا دیں ، پھر اپنے لیے کچھ تصاویر لیں، اور پھر امت کے سامنے جھوٹ بولا کہ تم لوگ مسلمانوں کو ایندھن فراہم کر رہے ہو، اور تم نے اِن ایندھن والی گاڑیوں کو زبردستی مرتدین سے لے کر یہ کام سرانجام دیا!! پھر تم ایندھن کے گوداموں کے مالکان کے پاس گئے، اور پھر اس ایندھن کی تقسیم زبردستی اور اُن کی ناخوشی کے باوجود کر دی، تاہم پھر بھی تم اللہ کےحقوق مسلمانوں کی صفوں میں تقسیم کر کے پورے نہیں کر پائے، کیونکہ تم خود کو مسلمان عوام سے زیادہ ترجیح دیتے ہو۔

جہاں تک تمہاری مجاہدین کی بابت تکفیر کا مسئلہ ہے، اے بےوقوف گمراہ مارقہ شخص،جن کےجہاد کو تم نے سبوتاژ کیا ہے، اور جن سے تم نے اُس شہر کو چھین لیا جب انہوں نے وہاں سے طاغوت کے حکم کوختم کر دیا تھا،بلاشبہ ہم نے اس سے متعلق اپنے پیغام (کتیبہ شہداء ابو سلیم کی بابت شبہات کا ازالہ) اور اسی طرح اپنے رسالہ(مجلسِ شوری مجاہدین کی بابت باضابطہ مارقین کو رد) نشر کیے، ان بیانات کے بعد مجاہدین کی تکفیر کرنے کی بابت کوئی عذر باقی نہیں، ان پیغامات سے اقامتِ حجت ہوتی ہے، اور مسلمانوں کی ناحق تکفیر پر اب سزا قائم ہوتی ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے صحیح بخاری میں حدیثِ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ میں بیان ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا
[جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر اُن میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا]

اور حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا
[جو شخص اپنے (مسلمان ) بھائی کو کافر کہے، تو ان دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا]

اور حدیثِ ثابت بن الضحاکؓ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَلَعْنُ المُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ
[مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کے مانند ہے، اور جو جس نے مومن پر کفر کا الزام لگایا، تو گویا اُس نے اسے قتل کر دیا]

اور حافظ ابو یعلی حذیفہ بن الیمان ؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إن مما أتخوف عليكم رجل قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته عليه ، وكان رداؤه الإسلام اعتراه إلى ما شاء الله ، انسلخ منه ونبذه وراء ظهره ، وسعى على جاره بالسيف ورماه بالشرك ، قال : قلت : يا نبي الله ، أيهما أولى بالشرك المرمي أم الرامي ؟ قال : بل الرامي
[بلا شبہ میں تم پر ایسے آدمی سے خوف زدہ ہوں جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ جب اس پر اس کی رونق نظر آنے لگی اور وہ اسلام کا مددگار تھا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرف چاہا اس کوپھیر دیا، پس وہ اس سے نکل گیا اور اس نے اُس کو پس پشت پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار سے حملہ کردیا اور اس پر شرک کی تہمت لگا دی، تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ لائق کون ہے جس پر تہمت لگائی گئی یا کہ تہمت لگانے والا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تہمت لگانے والا(کفر کے زیادہ لائق ہے)]

حافظ ابن کثیرؒ نےاِس روایت کو اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کی تفسیر میں بیان کیا ہے:

واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا فانسلخ منها فأتبعه الشيطان فكان من الغاوين(۷: ۱۷۵)
[اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وه ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وه گمراه لوگوں میں شامل ہوگیا]

اور کہا کہ اس(حدیث) کی اسناد عمدہ ہیں۔

امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں بیان کیا:

بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ
[خوارج اورملحدین پر اقامتِ حجت قائم ہو جانے کے بعد قتل کرنے کا باب]

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ (التوبة: ۱۱۵)
[اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کر کے بعد میں گمراه کر دے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلادے جن سے وه بچیں بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے ]

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے :

إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ
[یہ (خوارج) وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان مومنین پر کرتے ہیں]

ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:

(وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله) الخ وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بكير بن عبد الله بن الأشج أنه سأل نافعا كيف كان رأي بن عمر في الحرورية قال كان يراهم شرار خلق الله انطلقوا إلى آيات الكفار فجعلوها في المؤمنين قلت وسنده صحيح وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر في وصف الخوارج هم شرار الخلق والخليقة وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعا مثله وعند البزار من طريق الشعبي عن مسروق عن عائشة قالت ذكر رسول الله صلى الله عليه و سلم الخوارج فقال هم شرار أمتي يقتلهم خيار أمتي وسنده حسن وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا هم شر الخلق والخليقة يقتلهم خير الخلق والخليقة وفي حديث أبي سعيد عند أحمد هم شر البرية وفي رواية عبيد الله بن أبي رافع عن علي عند مسلم من أبغض خلق الله إليه وفي حديث عبد الله بن خباب يعنى عن أبيه عند الطبراني شر قتلى أظلتهم السماء وأقلتهم الأرض وفي حديث أبي أمامة نحوه وعند أحمد وبن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعا في ذكر الخوارج شر الخلق والخليقة يقولها ثلاثا وعند بن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عن أبي هريرة هم شر الخلق وهذا مما يؤيد قول من قال بكفرهم. أهـ
[ابن عمرؓ ان (خوارج) کو بدترین مخلوق سمجھتے تھے] الخ امام طبری مسند علی میں بیان کرتے ہیں جس کا سلسلہ تہذیب الاثار میں بکیر بن عبداللہ بن الاشج سے ہے، انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبداللہ بن عمرؓ کی حروریہ (خوارج) کے متعلق کیا رائے تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابن عمرؓ ان کو اللہ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کیونکہ وہ (خوارج) کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مومنین پرکرتے تھے، امام ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، امام مسلم سے بھی صحیح مرفوع حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے جس میں وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے خوارج کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بدترین مخلوق ہیں، امام احمد نے بھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی مرفوع حدیث عمدہ سند سے روایت کی ہے، امام البزار نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے متعلق ذکر کرتے ہوئےارشاد فرمایا [وہ (خوارج) میری امت کے بدترین لوگ ہیں اور اُن کو میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے]، اور اس کی سند حسن ہے، امام طبرانی نے بھی اسی طرز پر مرفوع حدیث کے سلسلے میں اس طرزکے ساتھ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا [خوارج تمام مخلوقات میں بدترین ہیں اور جوخلقِ خدا میں اِن( خوارج )کو قتل کریں گے، وہ تمام مخلوقات میں بہترین ہوں گے]، اور ابی سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث جو امام احمد سے روایت کی گئی ہے میں بیان ہوا ہے[یہ (خوارج) بدترین مخلوق ہیں] اور صحیح مسلم میں عبیداللہ بن ابی رافع سے سیدنا علیؓ سے روایت ہے [اللہ کی تمام مخلوقات میں سے قابلِ نفرت(خوارج) ہیں] اور طبرانی میں عبداللہ بن خباب ؓ سے حدیث بیان ہوئی ہے[ یہ (خوارج) بدترین مخلوق ہیں جنہیں آسمان کا سایہ میسر آیا اور جن کا بوجھ زمین نے اٹھایا]، اور حدیثِ ابو امامہؓ میں بھی ایسے بیان ہوا، اور ابو برزۃ کی مرفوع حدیث میں امام احمداور ابی شیبۃ سے بھی خوارج کے متعلق ذکر کیا گیا [یہ خلق و مخلوق میں بدترین ہیں]، ایسا انہوں نے تین بار کہا، اور اسی طرح ابی شیبۃ کے جانب سے عمیر بن اسحاق سے ابو ھریرہؓ نے بیان کیا کہ [وہ بدترین مخلوق ہیں]، اور یہ ان (علماء وفقہاء) کے قول کی تائید کرتا ہے جو ان (خوارج) کی تکفیر کی رائے رکھتے ہیں۔

اس سب کو بیان کرنے کے بعد ہم اس بے وقوف گمراہ مارقہ شخص اور اس کی امثال جیسے افراد سے کہتے ہیں کہ وہ قدرت حاصل ہونے سے قبل، مجاہدین کی تکفیر کرنے پر اللہ سے توبہ و معافی کے طلبگار ہوں، اور یہ لوگ اس بات سے دھوکہ نہ کھا بیٹھیں کہ مجاہدین طغاۃ(جابر ظالم طاغوت) کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں(اور یہ اس سے فائدہ اٹھا لیں گے) ،کیونکہ بغاۃ(شدت پسند تکفیری باغیوں) کے خلاف رد بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ طغاۃ (جابر ظالم طاغوت) کےخلاف اس کی اہمیت ہے، اور ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان دو میں سے ایک کا اعزاز بخش دیں ۔

مجلسِ شوری مجاہدین (درنة اور اس کے مضافاتی علاقاجات)
بدھ 17 رجب 1436 هـ موافق لـ 06/05/2015





اتوار، 10 مئی، 2015

ہمیں چاہیے کہ شہد کی مکھی کی طرح بن جائیں…!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فلنكن كالنحلة
ہمیں چاہیے کہ شہد کی مکھی کی طرح بن جائیں…!
استاد احمد فاروق

میادینِ جہاد میں فتنو ں اور آزمائشوں کی بابت؛
مجاہد بھائیوں کی خدمت میں اپنےدل کی بات …

الحمد اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد،

جہاد اور سرحد کی کشادہ وادیوں پر ثابت قدمی دکھانے والے، شدتوں ، تنگیوں اور لڑائیوں میں دلجمعی سے رہنے والے،اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے مجاہد بھائیو!السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

پیارے نبی ﷺ کی حسن درجہ کی مبارک حدیث میں آیا ہے کہ

مثل المؤمن مثل النحلة إن أكلت أكلت طيبا و إن وضعت وضعت طيبا و إن وقعت على عود نخر لم تكسره
مؤمن کی مثال شہد کی مکھیوں جیسی ہے کہ اگر کچھ کھائے تو پاکیزہ عمدہ (پھولوں کا رس ) ہی کھاتی ہے اور اگر ہضم کرے تو بھی پاکیزہ اور عمدہ (شہد) دیتی ہے ۔ اور اگر بودی اور بوسیدہ لکڑی تک پہنچ جائے توبھی اسے نہیں توڑتی۔
(رواہ البیہقی)

ہمارے محبوب اور ہمارے نبی حضرت محمدﷺ پر ہزاروں رحمتیں اور درودو سلام ہو… اس مختصر مگر جامع حدیث میں مؤمنین کے کچھ اہم اوصاف ہمیں بتلائے گئے ہیں۔ سب سے اہم اوصاف جس کی طرف یہ حدیث ہمیں تنبیہ کر رہی ہے وہ یہ کہ مؤمن کا مل وہی ہے جو اپنے اندر اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کرے ، خیر اور صلاح کا حریص ہو، (مخلوق کو) کثیر نفع اور کم اذیت دینے والا ہو، اس کے ظاہروباطن سے پاکیزہ حرکات وسکنات اور نیک کام ہی سرزد ہوں اور اس کا وجود اس دنیا پر رحمت اور تمام مخلوق کےلیے نفع مند ہو۔

مؤمن چند وجوہ کی بنا پر شہد کی مکھی کےمشابہ ہے :

مؤمن رذیل اخلاق اور گرے ہوئے کاموں سے ایسے دور رہتاہے جیسے شہد کی مکھی گندیوں سے دور رہتی ہے ۔

مؤمن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسکے اعضاء وجوارح سے وہی کام سرزد ہوں جو خلق خدا کےلیے نفع مند ہوں۔ جیسے شہد کی مکھی سے نفع مند مشروب ہی نکلتاہے ، جو مختلف رنگوںاور لوگوں کے لیے شفاءہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب مؤمن اپنے اندر یہ احساس اجاگر کرے کہ وہ ایک ایسی بہترین امت کا فرد ہے ، جس کو انسانیت کی نفع رسانی کے لیے میدان میں لایا گیا یعنی مؤمن کا مقصد لوگوں کی نفع مند امور اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر رحمن کی منور شریعت کی طرف رہنمائی کرنا ہے ۔

مؤمن عاجزی و انکساری اور دوسروں کو اذیت نہ دینے میں شہد کی مکھی کی طرح ہے (اگر وہ بوسیدہ لکڑی پر بیٹھے تو اسے نہیں توڑتی) اسی طرح مؤمن بھی… اپنے دیگر بھائیوں کےلیے تروتازہ و نرم خواور ہمدر د ہوتا ہے،ان کوکسی بھی طرح کی تکلیف نہیں پہنچاتا ، ان کےلیے باعثِ رحمت ہوتا ہے، اور ان کو ایسی نصیحت کرتا ہے ، جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں!

محبوب بھائیو! ہم بھی شہد کی مکھی کی طرح ہوجائیں ، اور اگر ہم ایسے بھی نہ بن سکیں تو کم ازکم کھجور کے درخت ہی کی طرح ہوجائیں … کھجور کے درخت کا حال عجیب ہے! صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ، جس میں رسول پاک ﷺنے مؤمن کے حال کی وضاحت ایک دوسری مثال …جس کی لطافت پہلی مثال سے کم نہیں…میں بیان فرمائی کہ’’مؤمن کی مثال کھجور کے درخت کے مثل ہے کہ اس سے جو بھی چیز لیں وہ آپ کو نفع دے‘‘۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی)

کھجور کا درخت دوسرے درختوں سے ممتاز ہوتاہے کہ اسکا پھل کھایا جاتا ہے۔ اور تمام مراحل میں یعنی شاخ کے کونپل نکلنے سے لےکر خشک ہونے تک نفع مند اور کا ر آمد ہوتاہے ۔ اور اسکی لکڑی ،پتے، ٹہنیاں اورگٹھلی کسی نہ کسی شکل میں نفع مند ہوتے ہیں ، پھراس کے پتے اور پھل کا حسن وجمال اور پر سکون سایہ ، یہ اسکا مزید نفع ہے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مؤمن حضور ﷺ کے اس فرمان کی زندہ مثال اور حقیقی مصداق ہو؛

’’اللہ کے نزدیک پسندیدہ انسان وہ ہے جو لوگوں کےلیے سب سے زیادہ نفع مند ہو۔ اور اللہ جل جلالہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال مؤمن کو خوشی پہنچانا، اس سے مصیبت دور کرنا،اسکا قرض اُتارنااور اس کی بھوک دور کرنا ہے ۔ اورکسی (مؤمن) کی حاجت کے لیے اس کے ساتھ چلنا مجھے اس مسجد (یعنی مسجدِ نبوی)میں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اور جس نے اپنے غصے پر قابو پالیا تواللہ تعالٰی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اور جس شخص نے غصہ کو قابو میں رکھا حالانکہ اگر چاہتا تو اسے نافذ کر سکتا تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل کا پورا پورا امید وار ہوگا۔ اور جو شخص کسی ضرورت کے سلسلے میں اپنے بھائی کےساتھ گیا یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کردی تو اللہ تعالیٰ اس دن ثابت قدمی عطا فرمائیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔اور یقیناًبد خلقی عمل کو ایسے خراب کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر ڈالتا ہے۔‘‘
(سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی)

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ایسی بلند عادات اور اخلاق کریمہ سے نوازدے۔ آمین !
میرے پیارے بھائیو!ان اخلاق کریمانہ کو اپنانے والے مجاہدین سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کلمہ ءتوحید کو بلند کرنےکےلیے سر گرم ہیں کہ اسی مقصد کےلیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور رسولوں کو بھیج کر کتابیں اُتاریں ۔ یہی لوگ ہیں جو دنیا کے بڑے اور قیمتی سے قیمتی ذخائر کے محاقط ہیں اور دین حنیف (اسلام )اورتمام آسمانی ادیان کے محافظ ہیں ۔ اور وہ ایک ایسی عبادت پر قائم ہیں جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بیشک یہ (اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے )……پس ضروری ہے کہ مجاہدین اس بھاری ذمہ داری ، اس کے مقام کی ہولناکیوں اور اس کے عالی مرتبت ہونے کا استحضار پیدا کریں۔ اورمجاہدین اس بلند عبادت کے مطابق اپنے اخلاق میں ترقی کریں……چنانچہ مجاہدین اس عظیم الشان نبوی مہمات پر قائم ہیں… یعنی مخلوق کو حق کی دعوت دینے کی مہم… اور ان کو اچھے کاموں کا حکم اور برے کاموں سے رو کنا… لہذا اس اہم فریضے کو صحیح طورپر ادا ءکرنا اسی طرح ممکن ہے کہ اسوہءنبی ﷺ کی پیروی کریں، جس کی تعریف اللہ رب العزت نے ان مبارک الفاظ سے فرمائی:(بلا شبہ آپ اخلاق کے بہت بڑے مرتبےپر ہیں )… اور اللہ کا اپنے قول میں آپ ﷺ کے اوصاف بتلانا:(ایک عظیم الشان رسول خود تم ہی میں سے، جن پر بڑا گراں ہے تمہارا مشقت میں پڑنا، جو بڑے حریص ہیں تمہاری فلاح کے ، انتہائی شفیق ، اور ایمان والوں پر بڑے مہربان ہیں)… اور آپ ﷺ کا مخلوق کے حالات پر کڑنا اور ان کو راہ ِ راست پر لانے کےلیے حریص ہونا، اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :(شاید آپ اپنی جان ہی گنوا بیٹھیں گے (اس غم و اندوہ میں) کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے)۔ لہذا مجاہدین کو ان اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے … شہد کی مکھی یا کھجور کے درخت کی طرح … جو خلق خداکی بہبود وفلاح کے لیے حریص ہوں… ان کے اعضاءوجوارح سے خیر ہی کے افعال سرزد ہوں …اور کافروں سے قتال کرتے وقت یہ عظیم حدیث ان کا نصب العین ہو، جس میں آپ ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائی بہادروں کے سردار حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو خیبرمیں یہود سے قتال کےلیے روانہ کرتے وقت وصیت فرمائی:(اللہ کی قسم !تیری وجہ سے ایک آدمی راہِ راست پہ آجائے تو تیرے لیے سرخ اونٹوں (عمدہ مال )سے بہتر ہے)…جی ہاں! مجاہدین ایسے ہی ہوں… جن کی زندگی خون، اعضا ء کے بکھرنے،تلواروں کےسائے ، مضبوط پہاڑوں ا ور غاروں میں گزر رہی ہو لیکن ان کی دل انتہائی رقیق اور نرم ہوں ، اپنی زخموں سے چور امت کی وجہ سے بے چین ہوں اوران کے حال پر شفیق ہوں… بلکہ ان کو نفع پہنچانے پر حریص ہوں حتی کہ کافروں کو دین ِ حق کی ہدایت ملنے اورخیر وبھلائی کی رہنمائی کرنے کی فکر اور مجرموں کے طریق پر چلنے سے ڈرانے پر بھی حریص ہوں ۔

میرے مسلمان بھائیو! یہی ہمارا دین ہے جو ہم نے کتاب وسنت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت اور سلف صالحین کی کتابوں سے حاصل کیا۔ اور یہی ہم نے عصر حاضر کی جہادی تحر یکوں کے مشائخ و رہنماؤں اور اہل علم سے سیکھا ۔ اور یہاں خاص طورپر یہ حضرات قابل ذکر ہیں؛ متروک فریضہ کے مجدد (روح رواں اور قائد) شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ، امت کی عزت اور غلبہ کے علامت امیرا لمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد نصرہ اللہ ، شہید امت قاہر امریکہ شیخ اسامہ بن لادنؒ، حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظ اللہ ، عابدوزاہد شیخ مصطفی ابو الیزید، ؒ مجاہدو داعی و مربی شیخ عطیۃ اللہ اللیبی ؒ، عالم ، منفر د قائد شیخ ابو یحیی اللیبی ، ؒعالم مجاہد شیخ ابو اللیث القاسمی ؒ، شیخ الاسیر پہاڑوں جیسے بلند حوصلے اورپائے استقامت مجاہد ابو قتادہ فلسطینی فک اللہ اسرہ(… شیخ بوقتِ تحریر قید میں تھے، اب بحمداللہ آزاد ہیں…[مترجم]) اور حق کو نا فذ کرنے والے پہاڑ کی طرح ڈٹنے والے شیخ ابو محمد مقدسی فک اللہ اسرہ، مجاہد قادر الکلام خطیب ممتاز استاذ محمد یاسر افغانی ؒ اور باخبر نکتہ رس مجاہد اور اعلی صلاحیتوں کے حامل شیخ ابو مصعب سوری فک اللہ اسرہ اور عالم و فقہیہ قاضی شیخ ابوا لولید فلسطینی حفظہ اللہ تعالیٰ اور عالم و عابد شیخ منصورشامی ؒ اورمعروف داعی شیخ انور العولقی ؒ … اوران کے علاوہ کثیر تعداد میں ایسے حضرات کہ انھی میں سے بعض کا جینا ہمارے لیے باعث صدافتخار وعزت ہے اور بعض کے کتابوں اور حالات حاضرہ پر دروس سےہم مستفید ہوئے۔ اور بعض ایسے ہیں ا نھوں نے دوسروں کو اس جہاد کی طرف متوجہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے کہ جنھوں نے ہمارے لیے راستہ صاف کیا ۔ اور ہمیں اپنےچالیس سالہ یا اس سے زیادہ دعوتی اور جہادی سرگرمیوں کے تجربات کے نچوڑ سے نوازا ، جس کی بنیاد پر عالم اسلام کے مختلف اطراف میں جہادی تحریکیں قائم ہوئیں۔ اور ہمیں بار بار ان غلطیوں کے ارتکاب سے خبردار کیا کہ جن کے سنگین نتائج ہم بھگت چکے ہیں۔ اور کامیابی وکامرانی کے اسباب کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی اورناکامی اور نقصان کے اسباب سے آگاہ کیا …اور ان کی زندگیا ں ان کی سنہری باتوں سے بھی بڑھ کر درس دیتی ہیں… اور ہم نے ان کی دعوت و جہادکی سرگرمیوں اوران کی کتب و تصانیف میں اسلام کا صحیح فہم پایا … اور ایسی حقیقی صورت جو اسلامی تعلیمات سے مشرف ہے… اور اسلام پوری قوت و وضاحت اور صلابت سے پایا کہ جس میں اسلام کی آسانی اور اس کا اعتدال اور جمال واضح ہے… ان لوگوں کی صحبت ورفاقت کیا ہی خوب ہے…اللہ تعالیٰ ان حضرات اور دیگر مسلمان شہداءکی شہادت کو قبول فرمائے … اور جو زندہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے… اور ہمارا اور ان کا بھی خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔

لیکن میرے محبوب بھائیو!ہم دھوکہ دہی کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، جس میں انسان کےمحاسن کو عیب داراور عیوب پر تعریف کی جاتی ہے… انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان مجموعی حالات میں ایک قوم کو ہم میں، ہمارے قائدین اورہمارے منہج میں صرف یہی عیب نظر آتے ہیں کہ

۱) ہم اپنی زخموں سے چُور اُمت سے محبت رکھتے ہیں۔ اور ان کےلیے اپنے بازو بچھاتے ہیں۔ اور امت کو خیر و بھلائی پہنچانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کامل اورمکمل دین کی طرف لوٹا نا چاہتے ہیں۔ اور یہ شوق رکھتے ہیں کہ کافروں کے خلاف ہمارے اس جہاد میں…اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد… وہ بھی ہمارے معاون بنیں ۔ اور اسی بنیاد پر ہم ہروہ ذرائع اختیار کرتے ہیں ، جس پر شریعت نے رہنمائی کی ۔لیکن ایک معترض(اللہ اس کو ہدایت دے)کا خیال یہ ہے کہ قاعدۃ الجہاد کے منہج پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس سے منسوب لوگ اپنے قافلہ یعنی قاعدۃ الجہاد کو امت کے اس قافلے سے ملانا چاہتے ہیں جو حالیہ عرصے میں اپنی حکومتوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سبحان اللہ ! بھلا یہ فضیلت کی بات ہے یا پھر بُرائی؟!

۲) ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی پہ کفر کا فتویٰ لگا نا نہایت ہی اہم حکم شرعی ہے کیونکہ اس سے اسلام اور شعائر اسلام کا تحفظ ہے۔ اور اس سے کفر و اسلام میں فرق ہوتا ہے۔ اوریہ اسلام اور کفر کے درمیان معمولی التباس اور اختلاط سے بھی روکتاہے،لیکن اس وقت مسئلہءتکفیر میں غلو کرنا ایک نہایت پُر خطرمعاملہ ہے۔ اور ہم احتیاط کی راہ اپنانے پر زور دیتے ہیں جو اس سلسلے میں ہمارے سلف صالحین سے منقول ہے اور یہ بھی نا ممکن ہے کہ ہم ان احکام کو محض حسابی اصولوں کے سپرد کردیں کہ ہر شخص خواہ وہ علوم شرعیہ کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو غور و فکر کرے یا ان میں ہر ابتدائی طالب علم بھی گفتگو کرے کہ وہ جس پر چاہے جیسے چاہے احکام کو منطبق کرتا چلاجائے۔ اور جن شرعی ضابطوں کی اہل علم نے وضاحت کی ہےان کو کام میں ہی نہ لائے… چنانچہ اسی وجہ سے ہم نے اس (کفر کے فتوی ٰ ) کے سلسلے میں احتیاط کا پہلو اور عمدہ ضابطہ اپنایا تو بعض غالی لوگوں نے ہمیں مرجئہ کا الزام دیا جبکہ مرجئہ ہمیں غلو اور تشدد کا الزام دیتے ہیں…ہم اس الزام تراشی اور جھوٹ کا گلہ اللہ ہی کے حضور پیش کرتے ہیں ۔

۳) ہم علماء امت کی قدر وقیمت سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان سے محبت اور احترام ہی کا معا ملہ کرتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہی اس امت کے حقیقی رہنماہیں۔ اور ہم امت کو انھی کی طرف متوجہ ہونے اوران کے ساتھ رہنے اور ان کا ساتھ دینے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور ہم سب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس امت کی صلاح ورشد اہل علم اور اہل جہاد کے قافلوں کے مابین اتفاق کی بنا پر ہوسکتی ہے نیز ان دونوں جماعتوں کے درمیان حائل دراڑھوں کے بند کرنے میں صلاح مضمر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مطلقا علمائے کرام کی جماعت کے متعلق زبان درازیاں نہیں کرتے ہیں ۔ اور اگرہم کہیں یہ محسوس کریں کہ کسی عالم سوءکی رسوائی کرنا شرعی تقاضا ہے توہم خاص اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کےسامنے اس کی گمراہی واضح کرتےہیں اور امت کو ان کی اتباع سے دورکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔اور ان کی رہنمائی علمائے ربانیین ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ کچھ جہاد کی طرف منسوب لوگ ایسے ہیں کہ جو اپنے افعال واقوال کے ذریعے دونوں جماعتوں کے درمیان تفریق پیداکر رہے ہیں۔اور وہ عصرِ حاضر کے اہم مسائل،علمی باریکیوں اور پُر خطر مسائل میں اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں،اور اپنی علمی کم مائیگی کے باوجودمیدان علم میں رائے زنی کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ محض اپنی مرضی کے خلاف ہونے اور خواہش پرستی کی بنیاد پر علماء ربانی پر طعن وتشنیع کی پروا تک نہیں کرتے حالانکہ علماء ربانی وہ ہیں جن کے صدق اور ثابت قدمی اور انکا حق پر ڈٹ جانا اور لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ماریں کھانا معروف ہے ۔اور وہ اجل علمائے کرام کے حق میں اد ب سے عاری ناز یبا گفتگو کرتے ہیں جو ان کے قلب کے فساد کو واضح کرتی ہے۔اور ان کی تیز دھا ر زبانوں سے دونوں اسیرعظیم بزرگ شیخ ابو قتادہ فلسطینی اور ابو محمد مقدسی اللہ پاک ان کی رہائی آسان فرمائے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور کچھ دیگر معروف علمائے کرام محفوظ ہیں۔

۴) ہم مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کے سلسلے میں بھی انتہائی دردمند اور جذباتی ہیں۔ ان کا جو خون ظلماً بہایا جاتاہے ہمیں ہر قطرے پر دکھ ہوتاہے ۔ اور ہم گھر وں سے صرف مسلمانوں کی حالت زار پر جل بھن کر نکلے ہیں نیز ان کے دین ، عزت و آبرو اوران کے مال کے دفاع کی خاطر! اور ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ مسلمان کے خون کی حرمت قطعی ہے۔ اور یہ قطعیت آفتاب کی طرح روشن و بے غبار دلائل قطعیہ کے ساتھ ہی زائل ہوسکتی ہے۔ اور ہم مسلمانوں کے خون کوبودی دلیلوں کے ذریعے حلال جاننے یا مسئلہ تترس میں معتمداہل علم کی کتابوں(ان کتب میں سے میرے محبوب استاذ کا ایک نہایت قیمتی کتابچہ “مسألۃ التترس فى الجہاد المعاصر” کے نام سے ہے) میں مذکور شرعی اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے وسعت دینے یا بغیر دلیل وبرہان کے ان کے سر الزامات منڈھ دینے سے شدت سے ڈراتے ہیں۔ اور اس بنیاد پر بھی مسلمانوں کومستحق قتال نہیں سمجھتے کہ وہ کسی جہادی جماعت سے الگ ہوکر امت کے باغی ہوگئے ہیں کہ باغی کی سزا شرعاً قتال ہے ۔

۵) ہمارے پیش نظرمحبوب امت کے دگرگوں حالات اور پرآشوب زمانہ کی رعایت کرنا بھی ہے؛جن کاسامنا یہ امت سلطنتِ اسلامیہ کے زوال ، امت پر مرتد نظاموں کے مظالم اور اس کے ہاتھوں اپنے دین سے دور ہونے کی وجہ سےگزشتہ دہائیوں سےمسلسل کر رہی ہے۔ اسکو لوں و کالجوں میں ایسے نصاب متعین کیے گئے کہ آنے والی مسلمان نسل کی تربیت ہی غلط عقائد پر ہو اور ان کی سوچ روشن شریعت کی تعلیمات سے متصادم ہو۔ اور اس امت کو اسلحہ کے زور پر ایسے قوانین کےسامنے پست ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے جو انسانوں کےبنائے ہوئے ہیں اورجسے اللہ کی تائید حاصل نہیں ہے ۔ اور کلمۂ حق پر ثابت قدمی سے باز رکھنے اور احکام شرعیہ اپنی اصلی صورت میں مسلمان عوام تک پہچانے کے جرم میں اس امت کے داعیوں اور اہل علم پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور ان کا گھیرا تنگ کیا جاتاہے…پس ان ظالمانہ اقدامات کا مجموعی نتیجہ ہمارےمعاشرے میں جہالت کا عام ہونا اور مسلمانوں کے اذہان و قلوب سے بہت سارے احکامات شرعیہ کا تصور تک بھی جاتے رہنا ہے …!اس صورتحال کی وجہ سےضروری ہوجاتاہے کہ ہم اپنی اس امت کے ساتھ نرمی اور لطف کا معاملہ مزید بڑھادیں، ہم ان کے اعذ ار قبول کرنے میں وسعت ظرفی سے کا م لیں اور حریص ہوجائیں کہ کسی طرح یہ امت اپنے صحیح دین پر لوٹ آئے اور ہم دعوت الی اللہ کے سلسلے میں اسی امت کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔لیکن آج کچھ ایسے نادان لوگ ہیں جو اسلام کو اور ایمانی رشتہ کے تعلق کو نہایت ہی تنگ دائرے میں محصورکر رہے ہیں اور امت کےساتھ تکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے ہیں بلکہ گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی کوئی غلطی پکڑی جائے کہ ایک ہی وار میں ان کو ملیا میٹ کردیاجائے ۔ اسی طرح ہر اس شخص کو بھی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو مجاہدین کو اس امت کےساتھ رحمت وشفقت کا معاملہ کرنےکی دعوت دیتا ہو۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں جو بڑےحقارت آمیز تعجب سے کہتے ہیں کہ وہ کونسی امت ہے جس کی طرف ہم لوٹیں؟ وہ أمۃالاسلامالسعودی؟یا الإخوانی؟ یا السوري؟ یا حزبالأمة الکویتی؟… افسوس ہےکہ کوئی آپ کو امت کے ساتھ جڑنے کی دعوت دے اور آپ ان سے یہ پوچھیں کہ الإخوان، السلفیۃ، الجامیۃ، الصوفیہ، القاعدۃ… کس امت کی طرف ہم لوٹ جائیں؟ اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور ایسی کج فکری کے خلاف ہمارا خوب کارساز ہے ۔

۶) ہماری کوشش ہے کہ آج امت بنیادی نکات پر اکھٹی ہو ۔ اور ان میں سب سے اہم نکتہ ؛ امریکہ جیسے ناگ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل کا سر کچلنا اور مسلم ممالک اوران کے مقدس مقامات کی آزادی کےلیے جہاد کرنا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محض اللہ پاک کے اذن سے ’امریکی تسلط کا زوال‘ ہی ہمارے خطوں کے مغرب غلام اور شریعت سے روگرداں مرتد نظاموں کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اور یہی امریکی زوال قوموں کی بنیاد پر کی گئی تقسیموں اورمصنوعی سرحدوں سے مسلمانوں کو آزادی دِلانے اور ایک ہی اسلامی حکومت ایک ہی خلافت کے تحت متفق اور متحد ہونے کا نتیجہ بنے گا۔اسی لیے ہم ہر ایسے اقدام سے بچتے ہیں جو مجاہدین کی جماعت کو اِدھر اُدھر کے معرکوں میں دھکیل دے اورمجاہدین کی جدوجہد فروعی اختلافات پر صرف ہونے لگے۔ بلکہ ہمیشہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اسی مرکزی نکتہ پر قائم رہیں جسے قافلہ ء مجاہدین کے قائدین نے متعین کیاجن کے سربراہ شیخ شہید اسامہ بن لادن ؒ تھے۔ انھوں نے اسی مرکزی نکتہ کو طویل تجربوں اوردین کی مصلحتوں کو سمجھتے ہوئے گہری سوچ کی روشنی میں متعین کیا۔چنانچہ ہمیں چاہیےکہ اسی نکتہ پر ہم باہم مربوط ومنظم ہوں …یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ہم اپنا سفر مکمل کرلیں اور مذکورہ اہداف حاصل کرلیں۔

۷) ہماری نظر میں دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ جڑواں بھائیوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے، یہ دونوں عظیم عبادتیں ہیں۔ ہر ایک کےلیے فضائل و احکام اور طے شدہ اصول ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض اور تضاد نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث ہے۔ یہ دونوں دائرہ توحید کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ چنانچہ ہماری دعوت لا الہ الا اللہ کی طرف بلانا اور ہمار ا قتال کرنے سے مقصد لا الہ الا اللہ ہی کا دفاع کرناہے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں داعی بھی ہیں اور مجاہد بھی، اور ہم اسی میں عزت محسوس کرتے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک کوئی بھی تحریک جس کی سعی امت مسلمہ کی گردن پر مسلط جاہلی نظام کے خلاف ہے، ان دونوں عبادتوں کو تھامے بغیر فلاح نہیں پاسکتی بلکہ تمام احکام شرعی کو مضبوطی سے تھامنااور ان میں سے ہر ایک کو اپنے احکام ومراتب کے لحاظ سے حیثیت دینا لازمی ہے، جن کی تفاصیل کتب فقہ میں موجود ہیں۔ اورہم ہرگز بھی شرعی اصولوں کے مطابق دی جانے والی دعوت کی تحقیر کرنے اور ان دو نوں عبادتوں کے درمیان تناقض اور تضاد کے قائل نہیں ہیں۔

۸) ہم مجاہدین کے لیےسیاستِ شرعیہ کے باب کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ہم دیکھتےہیں کہ جہادی تحریکات کو اکثرایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جن میں انھیںمختلف اقوام،مختلف ممالک اور مختلف قبائل کے عوام سے تعامل کرنا پڑتاہے اوربدلتے ہوئے حالات و واقعات کے ساتھ خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مجاہدین اور ان کے امراءوطلبہء علم پر ضروری ہے کہ اپنی استطاعت، مسئولیت اورشعبہ کے مطابق سیاستِ شرعیہ کے احکام کی معرفت کاحصہ خوب مہارت کے ساتھ حاصل کریں اور تمام وہ اصول و ضوابط سیکھیں جن سے ترجیحات او رمصالح و مفاسد کی تعیین ممکن ہوسکے۔ چنانچہ فقہ الجہادکا اکثر حصہ مصلحتوں کی معرفت ہے ،جس کا مدار مفاسد کے دورکرنے اور مصالح کے ملحوظ رکھنے پر ہے۔ کوئی بھی جہادی تحریک اس اہم باب کو اگر اچھے طریقے سے نہیں سیکھے گی اور اسکے احکام سے واقفیت حاصل نہیں کرے گی تو غالب امکان ہے کہ وہ جنگ میں شکست سے دوچار ہوگی اور مقاصدِ جہاد کے حصول میں ناکام رہے گی… چاہے چند معرکوں میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوجائے۔پس جہادی تحریکات اپنی تمام تر کامیابیوں کے ساتھ ولایتِ خاصہ سے ولایتِ عامہ کی طرف ترقی کرتی ہیں ، پس اگر انھوں نے اپنے افراد کی تربیت نہ کی، ان میں وسعتِ نظری پیدا نہ کی اور مختلف پسِ منظر اور استعداد کے لوگوں کو ان کی سطح کے مطابق مخاطب کرنا نہ سکھلایا،اقوام عالم کے سیاسی حربوں سے ان کو آگاہی نہ دی اوریہ نہ سمجھایا کہ دشمن کو کس طرح زِچ کیا جائے؟ اوراپنے ہم خیال دوست کس طرح بڑھائے جائیں ؟ اور ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ اور پیوست نہ کی کہ عمل سیاست میں صرف یہی کافی نہیں کہ اپنے تصرفات میں برحق ہوں بلکہ ان پہ لازم ہے کہ خوب غورو فکرکریں کہ وہ کونسی راجح مصلحت ہے جو ان کے تصرفات کی تائید کرے اور وہ کونسےمفاسد ہیں جو اس پر مرتب ہوسکتے ہیں، پھر ان میں یہ ملکہ پیدا نہ کیاکہ وہ دو خیر کی راہوں میں سب سے زیادہ اچھی راہ کا انتخاب کریں اور دو ضرر رساں پہلوؤں میں سے کم ضرر والے پہلو کا تعین کریں… جب تک مجاہدین کو یہ تربیت اور تیاری حاصل نہ ہو تو وہ فاش سیاسی غلطیوں کے مرتکب ہوں گے،جو ان کی طویل کوششوں کے نتائج تک کو ضائع کردیں گی، یوں دشمن کےلیے تحریک کو اس کے بڑے اہداف اور مقاصد سمیت کچل دینا آسان ہوگا ۔

ٍ لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ دین کی مصلحتوں کی حفاظت کرنے والوں کی شرعی سیاست اور دین کے معاملے میں مداہنت سے کام لینے والوں کے درمیان فرق نہیں سمجھتے، جبکہ بعض دوسرے دین کے اس عظیم الشان باب سے غافل ہونے کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی بات کہیں اور ہر ایسا کام کریں کہ اقوام عالم متحد ہوکر ان پر کود پڑیں ،اور ان کے دشمن کی تعداد میں اضافہ اور ان کے دوستوں اور ہم خیال لوگوں کی تعداد کم ہوجائے۔ ان کے مطابق مجاہدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ لوگوں سے ایسے انداز میں بات کریں جو معاشرے کے محدود لوگ ہی سمجھ پائیں، ایسے اسلوب اختیار کریں جو لوگوں کو مجاہدین سے نفرت دِلائیں اور امت مجاہدین سے الگ ہوجائے… پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ اسلوب ان کے عقیدہ کی پختگی اوران کے صاف ستھرے منہج کی دلیل ہےحالانکہ ان لوگوں کو اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ یہ سب ان کی علمی کم مائیگی ، فہم کی تنگی اور اس دینِ حنیف سے دوری پر دال ہے جس کے ساتھ خاتم النبین ﷺ کی بعثت ہوئی۔ بلکہ ان کا یہ طرزِ عمل پہلی امتوں کے راستے کی پیروی کرنا ہے کہ جنھوں نے خود اپنے اوپرسختیاں کیں اوراز خود اپنے گلوں میں سختیوں کے طوق اوربوجھ لادے ، حالانکہ اللہ تعالی ٰنے ان پر یہ فرض نہیں کیا تھا ۔ پھر انھوں نے اس کالحاظ بھی نہ رکھا تو وہ ہلاکت کے مستحق ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہلک راستے کے شر ور سے پناہ میں رکھے ! آمین

۹) ہم مجاہدین کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ اختلاف کے آداب سے آراستہ ہوں۔ اور اس کی سمجھ بوجھ رکھنے کی ضرورت و حاجت لوگوں سے زیادہ انھی کو ہے کیونکہ لوگوں میں سب سے زیادہ انھی کو اختلاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ سب مخالف برابر نہیں ہوتے بلکہ مخالفین کے بھی مختلف درجات ہیں لہذاان سے معاملہ کرتے وقت اس فرق کو ملحوظ رکھیں، اور مجاہدین کےلیے اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اختلاف کے وقت انصاف کو مت بھولیں۔ اللہ تعالیٰ کےلیے انصاف کے ساتھ گواہی دیں اگرچہ اپنے نفس ، والدین یا قرابت داروں کے خلاف ہی ہو ۔ اور یہ بھی لازمی ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ مومن بلند اخلاق والا ہوتا ہے ، طعنہ زن، لعنت کرنے والا، فحش گوئی اور فضول گوئی کرنے والا نہیں ہوتا ۔ اور وہ لڑائی میں گالم گلوچ نہیں کرتا ہے اگرچہ اسکے مدمقابل کفار اور مرتدین ہی کیوں نہ ہوں۔ اور مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھیں کہ قوت کسی کی ہجو یا شخصی برائی کرنے میں نہیں بلکہ دلیل سے بات کرنے میں ہے۔

۱۰) ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ دوسروں سے زیادہ احکام اسلام کے التزام کی پابندمجاہدین کی جماعت ہے۔ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں ، بڑوں کے مابین برابری کے معاملے میں دوسروں کے لیے نمونہ بنیں اور حکم شرع کے سامنے جھک جانےمیں اعلی مثال پیش کریں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ شریعت کے علمبردار خود پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تطبیق کے معاملے میں تساہل برتتے ہیں یا جب حکم شرعی ان کی خواہشِ نفس کے خلاف ہو تو حکمِ شرع سے بھاگتے ہوئےحیلے بہانےتراشتے ہیں…مجاہد کی یہ شان ہرگز نہیں!لیکن ہم نے انتہائی غم کے ساتھ یہ مشاہدہ کیا کہ ایک محاذ پر موجود کچھ لوگوں کو جب مجاہدین کے ساتھ کیے گئےجھگڑوں کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی باربار دعوت دی گئی تو وہ لوگ مکڑی کے جالے جیسے کمزور دلائل کی بنا پر اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہے۔ ہم اللہ پاک سے ہی سوال کرتے ہیں کہ وہ سب خوش اسلوبی سے حق پر لوٹ آئیں ۔

۱۱) ہمارا اعتقاد ہے کہ شوری کا قیام شریعت کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم اسلامی نظام کی اہم بنیاد ہے ۔ اور ایسے حاکم کا انتخاب کرنا کہ جس میں تمام شرائط موجود ہوں یہ امت کا حق ہے ،بالخصوصاہلِ حل وعقد کا حق ہے کہ اسکا انتخاب کریں۔ اور ہم اس حق کوچھیننے نہیں دیں گے۔ کیونکہ نصوص میں شوریٰ کے قیام پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور آثار میں اس شخص کی بابت سخت مذمت وارد ہوئی جو(مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے)۔ ہمارا جہاد مسلمانوں میں حائل رکاوٹوں کو دور اورایسے حاکموں کو منتخب کرنے کے لیے ہے جوان کی قیادت قرآنِ کریم کی روشنی میں کریں۔ اور ہم اس لیے جہاد نہیں کر رہے کہ تلوار کے زور سے امت پر حکومت کریں بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ شریعت مطہر ہ ہی ہم پر اور ہماری امت پر حاکم ہو۔ اسی لیے مجاہدین کی جماعتوں کو ہم خوب کثیر مشورہ کی نصیحت کرتے ہیں نیز ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیگر جہادی جماعتوں کےساتھ طویل مشاورت بالخصوص سبقت لے جانے، قربانی والے ساتھیوں ، سچے علماء ، مخلص داعیوں اور نیک لوگوں کے با اثر حضرات سے مشورہ کیے بغیر کسی امارت اورملک کے اعلان سے گریز کریں۔ جیسا کہ ہم ا پنے مسلمان بھائیوں کےسامنےعاجزی اختیار کرنے اور صفوں میں اتحاد پیداکرنے کی غرض سے عہدوں کو چھوڑنے کی استعداد پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔

۱۲) مقدور بھر طاقت اور وسائل سے پہلے ملکوں اور امارت کا اعلان کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ پس شریعت محض ناموں اور ظاہری چیزوں پر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ حقائق کا اعتبار کرتی ہے ۔ الغرض غیر متمکن اور کمزور جماعتوں کو ملک و امارت کے ساتھ تعبیر کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔بار بار کے تجربوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مضبوط عالمی جاہلی نظام کی موجودگی میں اگر کسی جماعت کو جزوی شان وشوکت کی بنیاد پر کسی مخصوص خطے میں تمکین حاصل ہو بھی جائے تو وہ حقیقی تمکین نہیں ہوتی،(عالمی جاہلی نظام کی موجودگی میں)ایسی جمات نہ تو اپنی حدود کا تحفظ کرپاتی ہے اورنہ ہی اپنی رعایا کا دفاع۔ نیز ایسی جماعت یاتنظیم اپنے زیرِ سایہ بسنے والےلاکھوں عوام کو ان کی روز مرہ ضروریاتِ زندگی تک فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہےاور ان کی قوت و طاقت کفریہ طاقتوں کے محض متوجہ ہوجانے سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پس ایسی جماعتوں کو’’الدولۃ‘‘ سے تعبیر کرنا مسلمانوں کے مقاصد کو داؤ پر لگا نا، ان میں مایوسی پھیلانا اور اسلامی حکومت کے تصور سے متنفر کرنےکا سبب ہے۔ اس لیے اس مرحلہ میں عموما بہتر یہی ہے کہ مسلسل گوریلہ جنگ کی جائے اور قبل ازوقت علاقوں پر قبضہ پھیلانے کی لالچ نہ کی جائے، او رقتال کا رخ کفار کے ان لشکروں کی طرف رکھا جائے جو مسلم سرزمینوں پر قابض ہیں اور اپنی جد وجہد کو عالمی نظام کے ڈھانےپر مرکوز رکھا جائے۔ اس سلسلے میں زہر یلے سانپ امریکہ کے سر پر مسلسل چوٹیں اور ضربیں لگائی جائیں یہاں تک کہ وہ دھڑام سے گرجائے…اور اس کے ساتھ ہی جہالت کا عالمی نظام بھی گرجائے… اور امریکہ اسلامی ممالک سے ذلیل ورسوا ہوکر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔ امت کو آزادی دِلانے اور اسلام اور اہل اسلام کی حقیقی سیادت لوٹانے کےلیے بس یہی ایک طریقہ ہے،اور مضبوط اورحقیقی تمکین کی حامل خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام اسی راہ سے ممکن ہے۔

۱۳) اگر جہادی لشکروں وجماعتوں میں عصبیت، شخصیات کے ساتھ تعلق میں غلو اور غیر شرعی شعارات در آئیں تو یہ ایک لا علاج بیماری ہے۔ اور یہ مرض کسی جماعت میں پیدا ہوجائے تو اس کا فساد اس کی اصلاح پر غالب آجاتاہے۔ اس لیے اس مہلک بیماریسے ہم اپنے مجاہد بھائیوں کو ڈراتےہیں اور اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ آپس کا تعلق اور ایمانی رشتہ صرف لا الٰہ الا اللہ کی اساس پر قائم رکھیں، حق کا ساتھ دیں خواہ وہ کہیں بھی ہو اوران لوگوں میں شامل نہ ہوں جو اپنی جماعت ، بھائیوں اور امراء کی مدد…حق وباطل کی تفریق کے بغیر… ہر دومیں کرتے ہیں۔ ہم یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے نعروں کو دہرانے میں میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ یہ ان کے پیروکارں کومہلک تعصب کی طرف لے جاتا ہے، بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ان کا نعرہ [باقیۃ] (یعنی ان کی جماعت ہمیشہ باقی رہے گی) ان کے یہاں عقیدہ کا ایک اصول ہی نہ بن جائے جبکہ انھیں اس کا ادراک بھی نہ ہو ۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بقا تو صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے جوعزت و جلال والی ہے، جماعتیں اور ملک جلد یا بدیر ختم ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہم انھی بھائیوں سے اس بات کی بابت بھی ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے امیرکے ساتھ تعلق میں بےجا مبالغہ کریں ۔ اور ان سے ایسے اقوال صادر ہوئے ہیں جو (اپنے امیر کےحوالے سے)مخصوص تصور کی نشاندہی کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں راسخ ہے، اور جس کا انجام کسی طور اچھا نہیں نظر آرہا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں کافی اور خوب کارساز ہے۔

۱۴)ہمارا یقین ہے کہ جہاد ہی واحد عبادت ہے جو امت کے تمام گروہوں اورجماعتوں کو شریعت کے بنیادی مقاصد پر مجتمع کرتی ہےاور پوری امت کوکلمہ توحید کے گرد متحدکرتی ہے، اسے تفرقہ بازی ، فروعی اختلاف اور تمام قسم کے جاہلی تعصبات سے نجات دلا تی ہےاور امت کے تیروں کا رخ حقیقی دشمنوں کی طرف موڑ دیتی ہےجو ہر میدان اور ہر سطح پر … چاہے وہ عسکری ہو، مذہبی ہو، فکری ہو، سیاسی ہویا اجتماعی… امت کے خلاف برسرِ پیکارہیں۔ اسی وجہ سے ہم مجاہدین کوسختی کے ساتھ اس بات سےڈراتے ہیں کہ وہ جہاد کے میدان میں ہرگزان علمی اختلافات کو مت لے کر آئیں جو علمائے اہل سنت کے مابین وقوع پذیر ہوئے،نہ ہی ان میں سے کسی کی طرف دعوت دیں یا اس کی بنیاد پر گروہ بندی کریں اور نہ ہی جہاد کو مخصوص طبقے کے ساتھ مقید کریں۔کیونکہ یہ ساری چیزیں مجاہدین کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے، ان کا شیرازہ بکھیرنے، ان کی توجہ اہم مقصد سے ہٹانے اور ان کومحاذوں سے غافل کردیتی ہیں۔ اور بالآخر ان چیزوں کا نتیجہ مجاہدین کی شوکت ودبدبہ کے خاتمے، کفار و مرتدین کے تسلط،مسلمانوں کی جان، مال، عزت کو حلال قرار دیے جانےاورمسلمانوں کے مدارس و مساجد اوران کے علمی مراکز تک کو گرادینے کی صورت میں نکلتا ہے۔

۱۵) بیشک جائز امور میں امرائے کرام کی سمع و طاعت جہادی عمارت کا ستون ہے۔ اور جہاد بغیر جماعت کے قائم نہیں ہوسکتا اور جماعت کی بنیاد سمع واطاعت ہے۔بلاشبہ نیکی کے کاموں میں امیر کی اطاعت اللہ جل شانہ اوراسکے نبی ﷺکی اطاعت ہے۔ اور یہ بھی ایسی پیاری عبادت ہے جو ہمارے لیے قرب الہٰی کا ذریعہ ہے۔ بلاشبہ وہ لشکر کامیاب نہیں ہوسکتا جو غیروں کے مقابلے میں ایک جان نہ ہو اوردشمن کو زیر نہیں کرسکتا جب تک اس میں وحدت نہ ہو۔ یہ وحدت و اتحاد صرف اور صرف لشکر کے ایک سربراہ کی سربراہی میں یکجا ہونے، خوشحالی و مجبوری، تنگی و آسانی ہر حال میں اپنے امیر کی اطاعت سے ہی مل سکتی ہے ۔ اسی لیے ہم خود کو اور اپنے مجاہد بھائیوں کو امیرکی نافرمانی کی برائی سے ڈراتے ہیں اور اس بات سے ڈراتے ہیں کہ شیطان توامیر کی نافرمانی کو مجاہد کے لیے خوب مزین کرتا ہےاور اسکو یہ خیال دلاتا ہے کہ اس میں بہت سی مصلحت ہے۔ پس ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ مجاہد کے نافرمانی میں اُٹھائے جانے والےقدم میں کسی قسم کی خیر وبھلائی نہیں ہے۔ کیونکہ دین کو گرا کر اس کو قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۱۶) عالی القدر جناب امیر المؤمنین ملامحمد عمر مجاہد(اللہ ان کو حق پر ثابت قدم رکھیں )ہمارے سردار ، ہمارے سروں کے تاج اورہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ہمارے گمان کو سچ کر دکھایا کہ انھوں نے لا الہ الا اللہ کے دفاع اور مہاجر جلاوطن مجاہدین کی حمایت میں اپنے ملک تک کو قربان کردیا۔آپ اور امارت اسلامیہ افغانستان میں موجود آپ کے ساتھیوں نے تاریخ کے بد ترین صلیبی حملےکاڈٹ کر مقابلہ کیا،نہ ہی پیٹھ پھیری اور نہ ہی راستے سے ہٹے بلکہ کفار کو اپنی سرزمین سے نکالنے اور شریعت کی حاکمیت قائم کرنے کے لیےمسلسل جہاد کیا ، یہاں تک کہ آج وہ کامیابی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ لوگ وہ بہترین لوگ ہیں جو اس راستے پر گامزن ہیں …… اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرمائیں، انھیں قوت و تمکین کے ساتھ کابل لوٹنے اور دینِ متین کی نصرت کی خاطر اسے فتح کرنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مجاہد بلکہ ہر مسلمان کی گردن پر امارتِ اسلامیہ کا قرض ہے اور موجودہ دور میں ایسےشرعی،اجتماعی اور تکوینی عوامل پائے جاتے ہیں جو ان کو امت کی سیادت و قیادت کرنے کا اہل بناتے ہیں۔ پس اسی وجہ سے ہم تمام مسلمانوں کو ان کے گرد جمع ، ان سے بیعت کرنے ، ان کی خیر خواہی چاہنے، ان کو مضبوط بنانے اور قول وعمل سے ان کی مدد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور ہم ہر ایسے بندے کے فعل سے برات کا اظہار کرتے ہیں جو امارت اسلامیہ افغانستان کےمنہج کی بابت شکوک وشبہات ڈال کر مسلمانوں کی وحدت کو توڑے یاان کے مقابلے میں نئے امرا ء کا اعلان کرے ۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ یہ لوگ معصوم ہیں بلکہ یہ سب انسان ہیں جو صحیح اور غلط دونوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں، لیکن خطا ہونے کی صورت میں آدابِ نصیحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں نصیحت کی جائے،ان کے بارے میں حسن ظن رکھاجائے اور ان کے اقوال وافعال کو حتی الامکان خیر و بھلائی پر محمول کیاجائے۔ کیونکہ ماضی میں انھوں نے دین کی خاطر عظیم قربانیاں پیش کی ہیں اوران کی سیرتیں خیر کثیر سے لبریز ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں ان کو بلند یاں نصیب فرمائے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں سخت رنج ہوا جب گزشتہ ایام میں ہم نے دیکھا کہ بعض لوگوں کی طرف سےامارت اسلامیہ کے منہج پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی، اور امیر المؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی بیعت توڑنےاور ان کے مقابلے میں نئے امراءکی بیعت کرنے کی دعوت دی گئی،بعض نے تو اشاروں اور کنایات کی صورت میں یہ دعوت دی اور کچھ نے واشگاف الفاظ میں امیر المؤمنین سے بیعت توڑنے کا کہا اور نئے امرا ءکی بیعت کی دعوت دی ، ان اللہ وانا الیہ راجعون !


۱۷) بلاشبہ جہاد کا عمل ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ نفوس کا تزکیہ ، اخلاق کی تہذیب اور دلوں کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں دشمن کے مقابلے کے وقت کثرتِ ذکر کا حکم دیاہے، جس کی مِن جملہ حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ قتال میں مشغول ہونا اورانسانی اعضاء و کھوپڑیوں کے درمیان رہنا قساوتِ قلبی کو پیدا کرتا ہے۔ اور یہ ایک خطرناک مرض ہے جو بے شمار مہلک امراض کو جنم دیتاہے اور انسان کو ہلاکت کی طرف دھکیل دیتاہے۔ہر جہادی تنظیم جو اپنے لشکر کی تربیت اور تزکیۂ نفس نہیں کرتی تو وہ سعادتِ آخرت اورفلاح ِ دنیا کی طرف اپنے سفر کو مکمل کرنے کےلیے درکار بنیادی ایندھن اور لازمی زادِ راہ سے تہی داماں ہوتی ہے۔ دلوں کے امراض کا علاج رجوع الی اللہ ، کثرت سے تلاوت ِ کلامِ پاک ، فرض نمازوں اور نوافل کا اہتمام، اللہ کے راستے میں خرچ کرنا، کثرتِ استغفار اوردُعا ، مساکین کےساتھ میل جول اور ان کی اعانت، پڑوسیوں اور بھائیوں کی خدمت ،مسلمانوں کے دلوں کو خوش کرنا اور والدین کی فرمانبرداری اورانکو راحت دینا ، اصلاح اور احوال آخرت والی کتب کامطالعہ، جنت کی ترغیب(اللہ ہمیں جنت والا بنادے)اور دوزخ سے ترہیب والی کتب کا مطالعہ کرنا ہے( اللہ ہمارے اور دوزخ کے درمیان اتنی دوری پیدا کردے ، جتنی مشرق ومغرب میں دوری ہے،آمین)۔

میرے مجاہد بھائیو !ہمارے پیغام کے یہ بعض درخشاں پہلو ہیں جنھیں ہم نے مشائخ ِجہاد اور قائدینِ جہاد سے سیکھا، سمجھا اور قبول کیا ہے، جن کا خلاصہ میں نکتہ در نکتہ آخر میں پیش کرتاہوں ؛

۱) امتِ مسلمہ کے ساتھ عجز و انکساری سے پیش آنا، تمام مسلمانوں کے ساتھ باہم ایک ہوجانا اور …اللہ تعالیٰ کی تائید کے بعد… ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
۲) مسائل تکفیر میں غلواورتفریط سے پرہیزکرنا۔
۳) علمائے کرام کی قدر کرنا اور اہلِ علم اور اہلِ جہاد کے درمیانموجود فاصلوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔
۴) مسلمانوں کے خون کی حرمت کا شدت سے خیال رکھنااور بودی دلائل کی بنیاد پر اس معاملہ میں گفتگو کرنے سے ڈرنا۔
۵) امت کے موجودہ دگرگوں حالات کی رعایت کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنا اور انھیں دعوت دینے میں تدریج اختیار کرنا۔
۶) امت کو اہم اور بنیادی نکات پر مجتمع کرنا ، جس میں سرِفہرست امریکیوں اور یہودیوں سے قتال کرنا ہے۔
۷) دعوت کے عمل کی اہمیت کو سمجھنا اور عملِ جہاد کے ساتھ اس کے ناگزیر تعلق کو جاننا۔
۸) مجاہدین کے حق میں سیاستِ شرعیہ کی سمجھ بوجھ کی اہمیت۔
۹) آداب الخلاف (اختلاف کرنے کے آداب) سے آراستہ ہونا۔
۱۰) اپنی اندرونی صفوں میں احکام شرعیہ کے التزام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی تطبیق اور نفاذ کی کوشش کرنا۔
۱۱) حاکم… جس میں تمام شرائط موجود ہوں…کے انتخاب میں شوریٰ(مشورے)کو لازم پکڑنا اوراس معاملے میں امت کے حق کو سبوتاژ نہ کرنا۔
۱۲) مقدور بھر وسائل اور بقدر کفایت تمکین اور شوکت حاصل ہونے سے پہلے امارت و ملک کے اعلان میں جلدی نہ کرنا۔
۱۳) جماعتی تعصب اور شخصیات سے تعلق میں غلو اختیار کرنے سے بچنا۔
۱۴) علمائے اہلِ سنت کے درمیان وقوع پذیرعلمی اختلافات کو میادینِ جہاد میں زیرِ بحث لانے سے گریز کرنا۔
۱۵) نیکی کے کاموں میں امرا ءکی اطاعت کرنا۔
۱۶) امارت اسلامیہ افغانستان کے گرد جمع ہونا اوراس کی قول وعمل سے تائید ونصرت کرنا۔
۱۷) تزکیہ نفس اور اصلاح قلب کا اہتمام کرنا۔

یہ ہمارے منہج کےبعض اہم پہلوہیں۔ لہذا کوئی بھی کسی نئے منحرف منہج کو لے کر ہم پہ ہرگز نہ چڑھ دوڑے، کہ اس کی باتوں میں آکر ہم اپنے صاف ستھرے منہج کو چھوڑ دیں، اور کوئی ہماری عقلوں کو ہلکا نہ سمجھے اور یہ نہ کہے کہ ہمارے مشائخ کا منہج تغیر و تبدل کا شکار ہوگیا ہے… نہیں اللہ کی قسم ! یہی ہمارا منہج (پہلے بھی) تھا جو کبھی تبدیلی کا شکار نہیں ہوا…اور ہم اسی پر اللہ سے ثابت قدم رہنے کا سوال کرتے ہیں… جی ہاں! ہمیں اپنےعجز اورنفس کی کوتاہی کا اعتراف ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکم ِ شرع اور واقعاتی دنیا میں اس کی تطبیق کرنے کی صورت میں ہمارے فہم اور سمجھ میں غلطی کا احتمال موجود ہے ، جبکہ بلاشبہ شریعت اپنی ذات میں کامل و مکمل اور نقائص سے مبرا ہے۔ چنانچہ نصیحت کا باب کھلا ہے اور جو شخص ہماری کوتاہیوں پر شرعی دلیل کے ساتھ متنبہ کرے گا تو ہم اس کے شکر گزار ہوں گے۔

آخر میں، میں اپنے تمام مجاہد بھائیوں کوبالخصوص ان بھائیوں کو جو قاعدۃ الجہادسے منسلک ہیں اوران مجاہد بھائیوں کو جورباط والے ملک شام میں موجود ہیں، اس حدیث میں غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جس کوحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ’’اللہ سے بڑھ کر تکلیفوں پر صبر کرنے والا کوئی نہیں کہ لوگ اللہ کا شریک ثابت کرتے ہیں ، اللہ پھر بھی ان کو عافیت،مصائب سے دور اور رزق و دیگر نعمتیں عطا کرتاہے‘‘۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی)

میرےمحبوب بھائیو! یقیناً ماضی قریب میں سب و شتم ،باطل تہمتیں اور بڑوں پر زبان درازیوں جیسی تکلیف دہ باتیں زبان زدِ عام ہوئیں، جو دلوں کو زخمی کرنے اور رُلادینے والی ہیں۔لیکن میں آپ کو اللہ پاک کے خلق کو اپنانے اور بردباری اور وقار اپنانے کی ترغیب دیتاہوں۔ اور اس بات کی ترغیب دیتا ہوں کہ بُرائی کا بدلہ اچھائی سے اور ظلم کاسامنا انصاف سے کریں۔ اور فتنوں سے محفوظ رہنے کو کسی دوسری چیز کے برابر نہ سمجھیں اور حق پر ڈٹے رہیں…باقی رہی جھاگ تو وہ یونہیجاتا رہتا ہے!

اور میں خود کو اور آپ سب کو شہد کی مکھی یا کھجور کے درخت کی طرح بن جانے کی دعوت دیتاہوں … کہ ہماری چھاؤں ٹھنڈی ہو… ہمارے پھل میٹھے ہوں … ہمار ا منظر خوبصورت ہو… ہمارا وجود سراسر نفع و خیر ہو … اللہ مجھے اور آپ سب کو توفیق دیں کہ ہم اس طرح بن جائیں۔ آمین!

اگر اللہ نے زندگی دی اور توفیق عطا فرمائی تو مذکورہ بالا تمام نکتوں میں سے ہر نکتے پر آئندہ مقالات میں تفصیل سے لکھیں گے، ان شاء اللہ!

وصلی اللہ علی نبینا محمدوعلیٰ وصحبہ وسلم

عربی متن پڑھنے کےلیے اس لنک پر جائیں
https://ia601405.us.archive.org/25/items/pakistanFaroq/falnknlalnahla.pdf

اردو متن کا پی ڈی ایف
http://bit.ly/1491uOH

اردو ترجمہ بشکریہ:
الملحمہ میڈیا
http://malhamahblog.blogspot.com





پیر، 20 اپریل، 2015

شیخ عبدالعزیز الطریفی کے خوارج سے متعلق اقوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم



شیخ عبدالعزیز الطریفی کے خوارج سے متعلق اقوال
شیخ عبدالعزیز الطریفی
#شیخ_عبدالعزیز_الطریفی ، #خوارج

• خوارج اپنے فساد میں امت پر کفار کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں، نہ کہ اپنی ضلالت پر، جب بھی یہ کسی عہد میں ظاہر ہوتے ہیں، تو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور اُن سے قتال کرتے ہیں کیونکہ مرتدین سے قتال کفارِاصلی کی نسبت اولیٰ ہے۔

• جو شام میں مجاہدین کو قتل کرتے ہیں اور اُن کی تکفیر کرتے ہیں، وہ باقی مسلمانوں کی حرمت کی تعظیم بھی نہیں کریں گے۔آج جہاد اُس دشمن کے خلاف بھی ہو رہا، جو اسلام کو ہی نہیں چاہتا، اور اُ ن سے بھی کیا جا رہا، جواسلام چاہتا تو ہے، لیکن اُس کی تطبیق میں ناکامی کا شکار ہے۔

• درست صفتِ خوارج جس پردلائل جمع ہیں ، وہ مسلمانوں کی تکفیر ایسی چیز کی بنیاد پر ہے جس سےکفر لازم نہیں آتا اور پھر وہ اُن کےخون بہانے کو حلا ل سمجھتے ہیں، اور یہ (خوارج) ابن عباسؓ کے عہد میں کفار کے ساتھ قتال کرتے تھے، اور شرعی حدود کا نفاذ بھی کرتے تھے،اِن سب کو کرنے کےباوجود بھی انہیں خوارج کہا جاتا۔

• نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کا ربط دجال کے ساتھ کیا کیونکہ اِن کی طرف سے دیے گئے بیانات کی وجہ سے ہمددری پیدا ہوتی ہے،حدیث میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ ان(خوارج) کی طرف سے جو بھی (شرکا) سینگ نکلے گا، وہ کاٹ دیاجائے گا،یہاں تک کہ اِن کے باقی ماندہ گروہ میں دجال ظاہر ہو گا]

• اللہ پر جھوٹ بولنے کا ایک سبب غلو ہے،کیونکہ غالی جب دلیل اور تاویل سے عاجز ہو جاتا ہے تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تاکہ اپنی ہوائے نفس کی مطابقت ہو جائے[ اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو]

• خوارج کے اکثر گروہ اپنی ضلالت میں بھی اخلاص پر تھے، اور یہاں پر ایسے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں تو بہت آگے ہیں لیکن اُن میں ایک بھی اِس گمراہی میں اخلاص پر نہیں ہے۔

• میں سوائے روافض اور خوارج کے کوئی ایسے گروہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں، جو بچوں کے قتل کو عبادت کا ذریعہ سمجھتا ہو،کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اِن بچوں پر بھی اِن کے والدین کا حکم ہے، اور ایک دشمن سے سوائے دشمن کے اورکوئی چیز پرورش نہیں پاتی۔

• ایک دولتِ مرجئہ قائم ہو سکتی ہے،لیکن دولتِ خوارج (ابدی)قائم نہیں ہو سکتی، کیونکہ اللہ تعالی ریاست کو عدل کی بنیاد پر قائم فرماتے ہیں، نہ کہ ظلم کی بنیاد پر اورمرجئہ کا اکثر ظلم دین کے معاملہ میں ہے، اور خوارج کا ظلم دین و دنیا دونوں میں ہے۔

مصدر:
https://justpaste.it/khawarij3

بدھ، 15 اپریل، 2015

اے متردد! خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!

بسم اللہ الرحمن الرحیم



اے متردد!
خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!
ابو ماریہ القحطانی
- حفظہ اللہ -


الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:

جو بھی آج اہلِ شام کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ دیکھے گاکہ اللہ عزوجل کی جانب سے اُن پر مشکلات اور آزمائشیں آ رہی ہیں، اور یہ سب کچھ ایک عظیم مصلحت اور حکمتِ بالغہ کے سبب ہی ہورہاہے، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو فیصلہ فرماتےہیں اور اُس کو مقدر کردیتے ہیں۔ نصیری اور روافض اس بات کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو قتل کریں اور اُن کے ملکوں کو تباہ وبرباد کردیں، اور اِس کے لیے یہ تمام تر وسائل کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ اقوامِ عالم اِس کو دیکھ اور سن رہے ہیں،اورگویا یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خون بہانے اور انہیں نقصان پہنچانے میں جیسے کوئی حرج نہیں۔

پھر اس کے بعد ایک ماہ قبل، اہل شام پر ایک ایسے بھیانک چہرے کا ظہور ہوا اورایک نئے زہریلے خنجر کو آزاد کیا گیا ،جس کا خبث اور ضرر بہت جلدی سے آگے پھیل گیا ہے؛ اور وہ چہرہ خوارج العصر تنظیم ’جماعت الدولۃ‘ کا ہے، جنہوں نے جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لیتے ہوئے خود کو تنظیم قاعدۃ الجہاد کی پوشاک کے نیچے چھپائے رکھا، انہوں نے مجاہدین کی تکفیر کی،اُن کے خون ، مال اور مراکز کو حلال قرار دیا، اور انہوں نے مجاہدین اور اُن کی قیادت کو قتل کیا، جن کو قتل کرنے کی استطاعت نصیری اور روافض بھی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے مجاہدین کےحمص اور دیگر علاقوں میں امدادی اوررسد کے رستے منقطع کیے، اور مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرتے ہوئے علاقوں کو نصیری نظام کے سپرد کرنا شروع کر دیا اور یوں اُن کی حلب کے محاصرہ کرنے میں مدد کی،اسی طرح اِن سے متعلق اور دیگر چیزیں بھی ظاہر اور واضح ہوتی گئیں اورمجرم نصیری نظام اِن سے اور اِن کے اعمال کے سبب خوب استفادہ کرنے لگا۔

بہت سی تجاویز ان کو پیش کی گئیں اور ان کے لیے بہت سے ابتدائی ثالثی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوششیں کی گئی، اور ان میں سب سے آخری کاوش ہمارے امیر شیخ الجہاد شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی تھی، تاکہ اِن کو دوسروں سے دور رکھا جائے اور اِن کی اپنی گمراہی سے بیدار کیا جائے، اور ہم نے اُن کے احکامات کی پیروی کی اوراُن کی کاوشوں کی حمایت کی، اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ واپس ہدایت کی طرف پلٹ آئیں اور اپنے گناہوں سے تائب ہو جائیں، لیکن انہوں نے اس سب کو نظر انداز کیا، اور ہمارے قتال سے رکنے کے باوجود ہم پر ضربیں لگائیں اور دھوکے سے کام لیا۔

پس اس لیے کہ ہم جہادِ شام کی اس پیش قدمی کی تکمیل کر سکیں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس خبیث مرض کا خاتمہ کریں اور ساحاتِ شام کو اس سے پاک کر دیں، اور جب ہم شریعتِ الہی میں نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں سوائے سیفِ علیؓ کے علاوہ اِن کا اور کوئی علاج نہیں ملتا ہے،جس تلوار کو انہوں نےعصرِ حاضر کے خوارج کے اجداد کے خلاف نہروان کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نکالی، اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی کہ وہ اِن کی قمر توڑ دیں اور ان کی جڑیں کاٹ دیں، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کی کہ اِن کے خلاف قتال کیا جائے اور اِن کو قتل کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کے مطابق اجر کی بھی امید رکھی جائے،جس کا انہوں نے وعدہ کیا جب انہوں نے فرمایا:

(طوبى لمن قتلهم وقتلوه)
[اس کے لیے طوبیٰ(جنت کا درخت؛ بشارت) ہے، جو ان(خوارج) کو قتل کریں یا ان(خوارج) کے ہاتھوں قتل ہوں]

ارضِ شام میں مجاہدین لوگوں کو اس بات کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اس عظیم استحقاق کے سامنے شریعتِ الٰہی کے حکم کی طرف آئیں، جس میں وہ شریعت کے اس حکم کے تابع ہو جائیں اور خوارج سے قتال کریں ،جن کا معاملہ اب واضح ہو چکا ہے اور اُن کے عقائد نظر آنے لگے ہیں، اور یہ اپنے ظلم میں مزید بڑھے جب انہوں نے تمام ثالثی اقدامات کا بھی انکار کر دیا، اورانہوں نے اُن ثالثی اقدامات کا استعمال فقط کچھ مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کیا، اور اپنے تکبر اور فجور میں مزید بڑھ گئے:

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

(وكذلك من كَفَرَ المسلمين أو استحل دمائهم وأموالهم ببدعة ابتدعها ليست في كتاب الله ولا سنة رسوله فإنه يجب نهيه عن ذلك، وعقوبته بما يزجره ولو بالقتل أو القتال، فإنه إذا عُوقِب المعتدون من جميع الطوائف وأكرم المتقون من جميع الطوائف كان ذلك من أعظم الأسباب التي ترضي الله ورسوله ويصلح أمر المسلمين) ا.هـ من الفتاوى.
[اسی طرح جو کوئی مسلمانوں کی تکفیر کرے اور ان کے خون اور اموال کو بدعت کی بنیاد پرحلال کرے، وہ ایسی بدعت ہے جو نہ ہی کتاب اللہ میں موجود ہے اور نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، اس کو اس بدعت سے باز رکھنا واجب ہے،اس کو سزا دینی چاہیے جس کا وہ حقدار ہے،چاہے وہ اس کے قتل یا اس کے خلاف قتال سے کیوں نہ ہو، اور جب تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے معتدین کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے متقی لوگوں کا اکرام کیا جائے، تو یہ وہ بڑے اسباب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے معاملات درست ہوتے ہیں]

وقت آ گیا ہے کہ اہل حق اُس سر کو کھول دیں جو دینِ ذوالخویصرہ(خارجی) کا قائل ہے، اور اس چیز سے راضی ہے جس پر ذوالثدیہ (خارجی)قائم تھا، اوراُس پر اِس چیز کا غلبہ ہو گیا ہے،جس کا غلبہ ابن ملجم(خارجی) کو ہوا تھا، کیونکہ اب ساحاتِ شام مزید اِن کے خبث اور ضرر کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

اللہ کی قسم، اہل حق کے لیے یہ وقت آ گیا ہے کہ وہ ان گناہگار ہاتھوں کو کاٹ دیں، جو مسلمانوں کے خون کو ناحق بہاتے ہیں اور اِس سبب روافض اور نصیریوں کی اعانت کرتے ہیں، اُ ن کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور اُن کے دلوں کو خوش کرتے ہیں۔

اللہ کی قسم! اہلِ حق کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ ان زبانوں کو خاموش کر دیں جنہوں نے شریعتِ حنیف پر زبان درازی کی اور اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کی، اور لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا اور مبارک وحی کی باطل تاویلات کیں۔

اے سچے مجاہدین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلقِ عظیم کے مالک تھے اور مومنین کے لیے رؤف ورحیم تھے،اور اگر وہ دو (جائز) معاملہ کے متعلق فیصلہ فرماتے، تو ہمیشہ اُن میں سب سے آسان کا انتخاب کرتے، پس اللہ کی قسم! وہ خوارج کو جنہوں نے اہل اسلام کی تکفیر کی اور اُن کا ناحق خون بہایا کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتے،اگر اس کے علاوہ خوارج کا اور کوئی مؤثر علاج ہوتا؛ تو پھر بعض مجاہدین کے ساتھ یہ معاملہ کیسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کی تنفیذ کرنے پر عمل نہیں کرتے؟

کیا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہو اور یہ بھی علم رکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب میں افضل ہیں، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اور اللہ کی قسم! علی رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سب سے بہترین تھے، اور شریعت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور انہوں نے اُن (خوارج) کے خلاف قتال میں کسی بھی قسم کا تردد نہ کیا ، جب اُن(خوارج) نے ناحق خون بہایا اور مسلمانوں پر گرجنے لگے، اور اللہ کی قسم! صحابہ رضوان اللہ علیہم اُن لوگوں میں سے نہ تھے جو اُن مارقہ (خوارج) کے ہاتھوں اللہ کے دین کی تشریح کو چھوڑ دیتے، اور اُن (خوارج) کی تلواروں سے پھر ناحق مسلمانوں کا خون بہتا رہتا،اور نبی کی سنت کا نفاذ اِن کے بیٹھ رہنے سے ساکت رہتا اور وہ اُن کے خلاف قتال سے رک جاتے!

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا آپ نہیں جانتے کہ سب سے بڑا جرم اللہ کے رستے سے روکنا ہے، اوردین کا غلط تصور پیش کرنا ہے،اور لوگوں کو شریعت کی حاکمیت سے متعلق دور بھگانا ہے، جس سے شرک اور باطل کی تزین وآسائش ہو گی، بےشک،آپ لاشعوری طور پر ایسے ہو جاؤ گے جب آپ اپنے بھائیوں کو ،جو اِس خبیث غالی درخت کے کاٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس نے سابقہ بیان کیے گئے عظیم مفاسد کو جمع کر لیا ہے، کی معاونت کرنے کو ترک کر دو گے۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ آپ مجرم نصیری نظام کی طوالت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہو، جو پھر مزید ناحق خون بہائے گا، اورخوارج العصرکی اِس معاونت سے استفادہ کرتے ہوئے مزید حرمات کی پامالی کرے گا،کیونکہ وہ نصیری انہیں کے وجہ سے مزید پھیلے ہیں بلکہ انہیں (خوارج) کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیاآپ نہیں جانتے کہ اِن کے خاتمہ کا فائدہ اور مصلحت نہ صرف شام کے مسلمانوں کو ہو گی، بلکہ اس کا فائدہ اہل عراق کے مسلمانوں کو بھی ہوگا،جنہوں نے اِن کی لگائی گئی آگ سے مدتوں نقصان برداشت کیا ہے، پس اپنے اِن بھائیوں کے لیے اُن کی طرف سے لگائے گئے فتنہ کی آگ کو بجھانے کے لیے حق والے صاف پانی کی مثل بن جاؤ۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ ناحق خون بہنے کا تسلسل ،جس کی ابتداء خوارج نے خیارمجاہدین اور ان کی قیادت کو ہدف بنانے سے کی ہے، یہیں پر نہ رکے گا ، بلکہ یہ تمام علاقوں تک جائیں گے جہاں تک جانے کی یہ قدرت رکھتے ہوں گے، اور ہم نے اِن کو اجتماعی قتلِ عام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے،جس کے لیے انہوں نے حجت یہ بیان کی کہ یہ مرتدین کے گھر والے ہیں،اُن کی اولاد ہیں اور صحوات ہیں!

اے اہلِ شام، ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے اپنے مجاہدین بھائیوں کو دیکھا کہ وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نصیریوں اور روافض کے مقابلے میں دکھائی دیے، آپ اُن کو اِن (خوارج العصر)عناصرکے خلاف بھی دیکھیں گے، جو آپ کی تکفیر کرتے ہیں اور آپ کے خون اور اموال کو حلال کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ کی گردنیں دراصل ہماری گردنیں ہیں، اور آپ کا خون ہمارا خون ہے، اور کوئی بھی آپ پر شر کو نہ لا سکے گے سوائے جب کہ ہم کسی ماضی کا حصہ بن چکے ہوں یا ہمارے جسموں کے ٹکڑےٹکڑےکیے جا چکے ہوں!

اے ارضِ شام کی مبارک سرزمین پر ہمارے مجاہد بھائیو، ظلم وعدوان کے ایک سال بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے، اور اس جماعت مارقہ[(شریعت سے )نکلی ہوئی جماعت)] کی جانب سے ناحق تکفیر سے بھی یہ وضاحت ہوچکی کہ مجرم نصیری نظام کے سقوط اور جہادِ شام کی کامیابیوں کوتب تک حاصل نہیں کیا جا سکتا، جب تک ساحاتِ شام کو خوارج جماعت الدولۃ کے وجودسے پاک نہ کر لیا جائے، اور اس معاملہ میں تاخیر کرنا ایک شرعی واجب کی تکمیل کرنے میں نقص ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس شرعی واجب کی ادائیگی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کریں،کیونکہ ہمیں نصیریوں اور روافض کے ساتھ بہت زورآور معرکے لڑنے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری نصرت ان حاقدین کے خلاف کریں گے،جب وہ(نصیری) دیکھ لیں گے کہ جہادِ شام کے اندروہ ایک اہم عوامل (جماعت الدولۃ) سے محروم ہو گئے ہیں، جو کہ ان کی فتح میں تاخیر کا سبب بنا ہوا ہے۔

پس اے ادلب وحماۃکے شیرو، اے حلب و حمص کے شہسوارو! اے ساحل ودمشق کے ابطال، اپنے رب کے لیے اٹھو، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تکمیل کرو، اور اپنے شرقیہ (مشرقی شام) میں بھائیوں کی مدد کرو،جو کہ اس ملاحم کو جماعت الدولۃ المارقہ کے خلاف رقم کر رہے ہیں ،جو مرابطین صفِ اول کی خندقیں سنبھالے ہوئے ہیں، اور جماعت الدولۃ نے ان کا محاصرہ پیچھے سے کر رکھا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء اور ذخائر کی ناقع بندی اُن پر کر رکھی ہے، نصیری اُن کے آگے ہیں اور یہ مارقہ(خوارج) ان کے پیچھےایسا حقیر پن دکھا رہےہیں کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا، اور ہم ایک بار پھر حمص میں ہونے والے ظلم کو دہرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پس اٹھو اور خود کو عزم وایمان اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے لیس کرو،کیونکہ کوئی بھی فتحِ مبین اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں، اِن لوگوں سے قتال کرو جن سے قتال کرنےکا حکم تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دیا،جنہوں نے ہمیں خبر دی کہ اگر وہ ان(خوارج) کا ادراک کر لیں، تو وہ انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیں، پس اگر تم ایسا کرو گے، تو آپ کا رب اپنے وعدے کے مطابق آپ کی نصرت فرمائیں گے:

(ولينصرن الله من ينصره)
[جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا]

اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، ہمارے اور فتح کے درمیان سوائے تمام سچے مجاہدین گروہوں کےجمع ہو جانے کےعلاوہ کوئی چیز حائل نہیں،جو کہ اللہ کی رضا اور اطاعت چاہتے ہوں،اور اکیلے اس سے مدد مانگتے ہوں، اور اپنی تمام خواہشوں اور فیصلوں کو اللہ کے تابع کر لیں، اور اللہ کی حفاظت میں جانے کے لیے سچے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جانے میں ابتدائی قدم خود اٹھائیں، پھر ان کو نصرت کی خوشخبری دی جائے گی اور فتح قریب آن لگے گی، ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ یہ بات بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو چھوڑ دیں گے جن کی حالت اوپر بیان کی گئی ہے، وہی اللہ عزوجل ہمارا دفاع کرنے والےہیں، اور بہترین حفاظت فرمانے والے ہیں اور بہترین مددگار ہیں۔

میں جماعت المارقہ(جماعت الدولۃ) کےابن ملجم(خارجی) کے جانشین، مارقہ رسمی ترجمان ’’زوابری الشام‘‘(شام کے خارجی) سے وہی کہتا ہوں جو بلند مرتبت پہاڑ کی مانند علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا:

(فمن أضل ممن هذه سيرته واختياره ولكن حق لمن كان أحدًا يمينه ذو خويصرة الذي بلغه ضعف عقله وقلة دينه إلى تجويره رسول الله ﷺ في حكمه والاستدراك ورأى نفسه أورع من رسول الله ﷺ هذا وهو يقر أنه رسول الله ﷺ إليه وبه اهتدى وبه عرف الدين ولولاه لكان حمارًا أو أضل ونعوذ بالله من الخذلان)
[اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جواس(خوارج) کی سیرت کو اپنائے اور اس کو اختیار کرے، لیکن جو کوئی بھی ذوالخویصرہ کی طرف رغبت دکھائے وہ اسی کا مستحق ہے، جس کی چھوٹی عقل اور قلتِ دین اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پراُن کو غلط کہنے کی طرف لے گیا،اور اس نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ وفاشعار سمجھنا شروع کیا،جبکہ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور انہیں کے ذریعے اسے ہدایت ملی، اور انہی سے دین کی معرفت حاصل کی ہے، اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو وہ گدھے کی مانند ہوتا یا اس سے بھی زیادہ گمراہ ہوتا، اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑ دیے جانےسے اُس کی پناہ مانگتے ہیں]

تم نے قیادتِ جہاد کے سامنے جرأت دکھائی، اور اپنی حدود سے تجاوز کیا،اور ان لوگوں کے ساتھ حد سے بڑھے جنہوں نے تمہیں عزت بخشی، اور تم اُن کے ساتھ منسوب ہونے کو فخر سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اسی کی بنیاد پر تم نے کم سن ناپختہ ذہن لوگوں کی اپنی طرف متوجہ بھی کیا، جس کے لیے تم نے سحرانگیز شعارات اور فریب کن عنوانات کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے تمہارا بازو مضبوط ہوا اور تمہاری چھڑی بھی مضبوط ہوئی، اور تمہارے اوپر شاعر کی یہ بات صادق آ گئی:

أُعَلِّمُه الرمايَة كُلَّ يَومٍ *** فَلَمّا اشتدَّ ساعِدهُ رَماني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي *** فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني

میں اسے ہر روزنشانہ بازی سکھاتا *** اور جب اس کابازو مضبوط ہوا، اس نے مجھے ہی نشانہ بنا ڈالا
اور کتنی ہی میں نے اس کو نظمیں سکھائیں *** پھر جب وہ نظم کہنے کے قابل ہوا، تو میری ہی تضحیک کر ڈالی

علامہ المناوی ’فیض القدیر‘ میں کہتے ہیں:

(كلاب أهل النار هم قوم ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعًا، وذلك لأنهم دأبوا ونصبوا في العبادة وفي قلوبهم زيغ، فمرقوا من الدين بإغواء شيطانهم حتى كفروا الموحدين بذنب واحد، وتأولوا التنزيل على غير وجهه، فخُذلوا بعدما أيدوا حتى صاروا كلاب النار فالمؤمن يستر ويرحم ويرجو المغفرة والرحمة، والمفتون الخارجي يهتك ويعير ويقنط وهذه أخلاق الكلاب وأفعالهم، فلما كلبوا على عباد الله ونظروا لهم بعين النقص والعداوة ودخلوا النار صاروا في هيئة أعمالهم كلابًا كما كانوا على أهل السنة في الدنيا كلابًا بالمعنى المذكور)
[’جہنم کے کتے‘ (یعنی خوارج) ایسی قوم ہے جن کی کاوش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی، جبکہ وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ نیک اعمال کر رہے ہیں،اور یہ اس سبب ہوا کہ وہ عبادت میں تو ریاضت کر رہے تھے لیکن دل میں گمراہی تھی،وہ اپنے شیاطین کے دھوکے میں آ کر (دین کی تشریح سے) نکل گئے،حتی کہ انہوں نے موحدین کی تکفیر صرف ایک گناہ کی بنیاد پر کرڈالی، اور اللہ کی وحی کو ایک غلط جہت میں پیش کر دیا، پس انہیں مدد دیے جانے کےبعد چھوڑ دیا گیا اور وہ جہنم کے کتے بن گئے، ایک مومن چھپاتا ہے، رحم کرتا ہے اور مغفرت اور رحمت کی امید رکھتا ہے، اور سحرذدہ خارجی منکشف کرتا ہے، ذلیل کرتا اور رسوائی دیتا ہے، اور یہ تمام کلاب(کتوں) کےاسلوب اور افعال ہیں، اور جب انہوں نے اللہ کے بندوں کی طرف شدت دکھائی،اور اُن کی طرف نقص والی آنکھ سے دیکھا اور اُن سے دشمنی کی، تو جہنم میں اپنے اعمال کی وجہ سے داخل کر دیے گئے، بالکل ویسے ہی جیسےکہ یہ اہل سنت پر دنیا میں کلاب(کتوں)والااسلوب رکھتے تھے، جیسا کہ مذکورہ بالا بیان کیا گیا ہے]

آپ رحمہ اللہ نے مزید بیان فرمایا:
(كلاب أهل النار أي: يتعاوون فيها كعواء الكلاب أو هم أخس أهلها وأحقرهم كما أن الكلب أخس الحيوانات )
[’جہنم کے کتے‘ کا مطلب ہے: کہ جہنم میں کتوں کی طرح بھونکیں گے یا وہ جہنم کے لوگوں میں ذلیل ترین اور حقیر ترین ہوں گے جیسا کہ کتا حیوانات میں سب سے ذلیل ترین جانور ہے]

ہم عراقی اہل سنت کو کہتے ہیں،جوعراق میں زخموں سے چور ہیں، اےمعزز قبائل اور مجاہدین جماعتوں کے شیرو! اللہ تعالیٰ آپ میں اور آپ کے جہاد اور مبارک انقلاب میں برکت عطا فرمائیں، جو اس ظلم اورعدوان کے سامنے سینہ سپر ہیں، ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ اپنی کوششوں کو ظالمین اور شدت پسندوں کے ہاتھوں چوری ہونے سے بچائیں، اور اپنا یہ ہدف بنائیں کہ اپنے مسلمانوں سے ظلم کو دورکریں گے،اور اس جہادی سفر کو واپس درست سمت کی طرف لے آئیں، اورعر اق کو اپنی صاف سنی شخصیت واپس دلوائیں، جو کہ افراط و تفریط سے پاک ہو۔

پھر میری نصیحت شام میں اور دیگر علاقوں میں مجاہدین جماعتوں کی قیادت سے ہے: خود کو ناموں کی بنیاد پرحزبیت اورمزموم تعصب سے بچائیں،جن کو آپ نے ہی وضع کیا ہے، اور اپنی اصل شناخت اور مصدر کی طرف آئیں جو دنیا اور آخرت میں فخر دلانے کا باعث ہے، وہی نام جو اللہ تعالیٰ نےآپ کے لیے منتخب کیا ہے، اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:

(وجاهدوا في الله حق جهاده هو اجتباكم وما جعل عليكم في الدين من حرج ملة أبيكم إبراهيم هو سماكم المسلمين من قبل)
[اور اللہ کی راه میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیده بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے]

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

(وكيف يجوز التفريق بين الأمة بأسماء مبتدعة، لا أصل لها في كتاب الله ولا سنة رسوله ﷺ ؟ وهذا التفريق الذي حصل من الأمة علمائها ومشايخها وأمرائها وكبرائها، هو الذي أوجب تسلط الأعداء عليها)
[بدعتی ناموں کے ذریعے کس طرح امت میں تفریق پیدا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جبکہ اس کی کوئی اصل نہ کتاب اللہ میں موجود ہے، نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں؟ امت کے اندر پائی جانے والی یہی تفریق جو ان کے علماء و مشائخ اور امراء وکبار میں پیدا ہوئی کے سبب ہی امت پردشمنوں کا تسلط ہوا]

أبي الإسلامُ لا أبَ لي سواهُ *** إذا افتخروا بقيسٍ أو تميمِ.
جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس کے علاوہ میرا کوئی اور والد نہیں ہے *** اگرچہ باقی قیس اورتمیم(قبیلے) پر فخرہی کیوں نہ کریں

اس بات سے متنبہ رہیں کہ آپ ریاست کے عہدوں کو اپنا محور نہ بنائیں، اور آزاد شدہ علاقوں پر تسلط حاصل کرنے کے لیے تنازعات اورجھگڑےپیدا نہ کریں،کیونکہ اگرآپ اس نااتفاقی پر رہو گے، تو آپ کوئی بھی دوست نہ بنا سکو گے اور نہ ہی کسی دشمن کو اداس کر سکو گے، پس اس لیے دل کے امراض اور دنیا اورعز ت کی چاہت سے خبردار رہیے، کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے راضی ہوئے اور اس سے متعلق سبب بھی بیان فرمایا: ( فعلم ما في قلوبهم فأنزل السكينة عليهم وأثابهم فتحا قريبا ‏) [ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی] (۴۸: ۱۸) اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ اُن کے دل میں ایمان اور اخلاص میں کیا موجود ہے، اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہ کامیاب ہوئے کہ اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور اللہ کی طرف سے جلد فتح مل گئی۔

اے اللہ، ہمیں جمع فرما دیجیے، ہماری دراڑوں کو بھر دیجیے،ہمارے ضعف کو طاقت میں بدل دیجیے، ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما دیجیے، اورظالموں اوردشمنوں کے خلاف ہماری نصرت کیجیے۔


سبحان ربك رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، والحمد لله رب العالمين

ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=Vy38mPB5ZWU



ساگر کے نام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساگر کے نام
شیخ ابراہیم الربیش
- رحمہ اللہ -





اے ساگر، مجھے اپنےپیارے عزیزوں کی خبرتو دو

اگر میں اِن بے ایمان لوگوں کی زنجیروں سے نہ بندھا ہوتا، تو میں تجھ میں غوطہ زن ہو جاتا
اور اپنے محبوب اہل وعیال تک جا پہنچتا، یا تیری باہوں میں ہی فنا ہو جاتا

تمہارا ساحل اداسی،قید،تکلیف اور ناانصافی سے عبارت ہے
تمہاری کڑواہٹ میرے صبر کو کھا تی جاتی ہے

تمہارا ٹھہراؤ موت ہے، تمہاری بہتی لہریں عجیب ہیں
تمہاری جانب سے بلند ہونے والی خاموشی ،اپنے اندرفریب رکھتی ہے

تمہارا سکوت ناخدا کو مار دےگا ، اگر وہ ثابت قدمی دکھائے
اور جہاز راں بھی تمہاری لہروں میں ڈوب جائے گا

نرم، بہرے، خاموش،نظرانداز طریقےسے تم غصے کے عالم میں طوفان ہو
اپنے اندر لحدیں(قبریں) اٹھائے ہوئے ہو

اگرہواتمہیں مشتعل کرتی ہے، تمہارے اوپر ظلم واضح ہے
اگرہوا تمہیں خاموش کرتی ہے، تو پھرافراط وتفریط پر موجوں کا بہاؤ ہی ہے

اے ساگر، کیا ہماری زنجیریں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟
ہم تو روزانہ حالتِ جبر میں ہی آتے اور جاتے ہیں

کیا تم ہمارے گناہوں کو جانتے ہو؟
کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اِس ظلمت میں پھینک دیا گیاہے؟

اے ساگر، تم ہماری قید پر ہمیں طنز کرتے ہو
تم نے ہمارے دشمنوں کے ساتھ سازباز کر لی ہے، اور تم بھی بے رحمی سے ہماری نگہبانی کرتے ہو

کیا یہ چٹانیں تمہیں اِن کے درمیان کیے گئے جرائم کا پتہ نہیں دیتیں؟
کیا مغلوب کیوبا(گوانتامو) اپنی کہانیوں کی ترجمانی تم سے نہیں کرتا؟

تم ہمارے ساتھ تین سال سے ہو، اور تم نے کیا حاصل کر لیا ہے؟
ساگر پر شاعری کی کشتیاں؛ ایک جلے ہوئے دل میں مدفون شعلہ

شاعر کے الفاظ ہماری طاقت کا سرچشمہ و منبع ہیں
اس کے شعر ہمارے دکھی دلوں کا مرہم ہیں



انگریزی متن:
http://www.andyworthington.co.uk/2007/10/03/a-poem-from-guantanamo-ode-to-the-sea-by-ibrahim-al-rubaish/


جمعہ، 10 اپریل، 2015

’انقلابی جھنڈے ‘ سے متعلق کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
’انقلابی جھنڈے ‘ سے متعلق کیا حکم ہے؟
شیخ ڈاکٹر عبداللہ محیسنی
#حكم_علم_الثورة



وہ سوال جوکثرت سے بہت سے لوگوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے!


‏سوال:
آپ کی’انقلابی جھنڈے ‘کے بارے میں کیا رائےہے؟

جواب:
کسی کے لیے شرعی طور پر یہ جائز نہیں کہ وہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہے،وہ اسے حلال کرے یا وہ چیزجو اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہے اسے بغیر کسی دلیل یا برہان کے حرام قرار دے ، یہ’’انقلابی جھنڈے کا حکم‘‘ [#حكم_علم_الثورة] اُس سے لی گئی مراد پر مبنی ہے، اگر وہ جھنڈے کو بلند کرتے ہوئے یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ سقوطِ نظام کاایک شعار ہے اور یہ اس مبارک انقلاب کی علامت ہے جس کی وجہ سے طاغوت کےکل پرزے غیرمستحکم ہوں گے، تو پھرایسا کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے، اور جو اس جھنڈے کو بلند کرتے ہیں اُن کے بارے میں یہ بات علم میں ہے کہ اس سے کوئی لادینی سیکولر ریاست مراد نہیں لیتے بلکہ وہ اس جھنڈے کو نظام کے سقوط کے شعار اور علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ اس طریقے پرایک مشروع معاملہ ہے اور اللہ کے دین سے متعلق جہالت کی وجہ ہےیہ بیان ہوتا ہے کہ (جھنڈے کا کپڑا)

چاہے کالا ہو یا سبز یاسفید اس پر معتقد ین اس کی بنیاد پر ’الولاء والبراء‘ (دوستی اور دشمنی)کو قائم کرتے ہیں،
اس میں بھائیوں کے لیے عبرت ہے کہ قتال کے مقصدکو دیکھا جاتا ہے نہ کہ جھنڈے کا رنگ اس میں اہمیت رکھتا ہے۔

جو کوئی بھی نظام کے سقوط کے لیے قتال کر رہا، تو وہ ظلم کے خلاف بدلہ لے رہا اور اگر وہ اسی حالت پر فوت ہو جاتا ہے، تو باذن اللہ، وہ شہید ہے، جبکہ جو کوئی اس لیے قتال کر رہا کہ اس کے ذریعے لادینی (بشار)اسدی مشروع کو بدل کر کوئی دوسرا لادینی مشروع لے آئے، تو وہ شہید نہیں ہے، اور جو کوئی بھی اس لیے قتال کر رہا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بغیر کوئی حاکمیت قائم ہو، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس معاملہ سے متعلق فیصلہ دے دیا ہے:

ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون
[جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں، وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں]

بلکہ مزید اس پر یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ یہ بات جہالت پر مبنی ہے کہ جھنڈوں کو دیکھا جائے، اور اگر وہاں پر لکھا ہوا ہے،
[لا الہ الا اللہ] ، تو اُس کواٹھانے والا مسلمان ہے!
وگرنہ لادینی سیکولر!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈوں پر کوئی مہر نہ ہوتی تھی اور نہ کچھ لکھا ہوتا تھا البتہ کچھ کلمہ ہوتا تھا جو کچھ رنگوں سے رنگا ہوتا تھا۔۔۔عادات پر اتنا عمل نہ کرو کہ اسے عقیدہ سمجھنے لگو!

شاید اس باب میں غلطی اس بنیاد پر ہوئی ہے کہ ’اسلامی جھنڈے‘ کے معنی میں لوگ جہالت کا شکار ہوئے ہیں،
اور انہوں نے گمان کیا کہ اس سے مراد کوئی ’کپڑا‘ ہے!
جبکہ اس سے مراد قتال کا مقصد اوراُس قتال کا ہدف ہے

شیخ ڈاکٹر عبداللہ المحیسنی
#حكم_علم_الثورة

مصدر:
https://justpaste.it/mhisne