اتوار، 10 مئی، 2015

ہمیں چاہیے کہ شہد کی مکھی کی طرح بن جائیں…!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

فلنكن كالنحلة
ہمیں چاہیے کہ شہد کی مکھی کی طرح بن جائیں…!
استاد احمد فاروق

میادینِ جہاد میں فتنو ں اور آزمائشوں کی بابت؛
مجاہد بھائیوں کی خدمت میں اپنےدل کی بات …

الحمد اللہ والصلوۃ والسلام علی رسول اللہ وبعد،

جہاد اور سرحد کی کشادہ وادیوں پر ثابت قدمی دکھانے والے، شدتوں ، تنگیوں اور لڑائیوں میں دلجمعی سے رہنے والے،اللہ کی راہ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے والے مجاہد بھائیو!السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

پیارے نبی ﷺ کی حسن درجہ کی مبارک حدیث میں آیا ہے کہ

مثل المؤمن مثل النحلة إن أكلت أكلت طيبا و إن وضعت وضعت طيبا و إن وقعت على عود نخر لم تكسره
مؤمن کی مثال شہد کی مکھیوں جیسی ہے کہ اگر کچھ کھائے تو پاکیزہ عمدہ (پھولوں کا رس ) ہی کھاتی ہے اور اگر ہضم کرے تو بھی پاکیزہ اور عمدہ (شہد) دیتی ہے ۔ اور اگر بودی اور بوسیدہ لکڑی تک پہنچ جائے توبھی اسے نہیں توڑتی۔
(رواہ البیہقی)

ہمارے محبوب اور ہمارے نبی حضرت محمدﷺ پر ہزاروں رحمتیں اور درودو سلام ہو… اس مختصر مگر جامع حدیث میں مؤمنین کے کچھ اہم اوصاف ہمیں بتلائے گئے ہیں۔ سب سے اہم اوصاف جس کی طرف یہ حدیث ہمیں تنبیہ کر رہی ہے وہ یہ کہ مؤمن کا مل وہی ہے جو اپنے اندر اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کرے ، خیر اور صلاح کا حریص ہو، (مخلوق کو) کثیر نفع اور کم اذیت دینے والا ہو، اس کے ظاہروباطن سے پاکیزہ حرکات وسکنات اور نیک کام ہی سرزد ہوں اور اس کا وجود اس دنیا پر رحمت اور تمام مخلوق کےلیے نفع مند ہو۔

مؤمن چند وجوہ کی بنا پر شہد کی مکھی کےمشابہ ہے :

مؤمن رذیل اخلاق اور گرے ہوئے کاموں سے ایسے دور رہتاہے جیسے شہد کی مکھی گندیوں سے دور رہتی ہے ۔

مؤمن کی ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ اسکے اعضاء وجوارح سے وہی کام سرزد ہوں جو خلق خدا کےلیے نفع مند ہوں۔ جیسے شہد کی مکھی سے نفع مند مشروب ہی نکلتاہے ، جو مختلف رنگوںاور لوگوں کے لیے شفاءہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب مؤمن اپنے اندر یہ احساس اجاگر کرے کہ وہ ایک ایسی بہترین امت کا فرد ہے ، جس کو انسانیت کی نفع رسانی کے لیے میدان میں لایا گیا یعنی مؤمن کا مقصد لوگوں کی نفع مند امور اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر رحمن کی منور شریعت کی طرف رہنمائی کرنا ہے ۔

مؤمن عاجزی و انکساری اور دوسروں کو اذیت نہ دینے میں شہد کی مکھی کی طرح ہے (اگر وہ بوسیدہ لکڑی پر بیٹھے تو اسے نہیں توڑتی) اسی طرح مؤمن بھی… اپنے دیگر بھائیوں کےلیے تروتازہ و نرم خواور ہمدر د ہوتا ہے،ان کوکسی بھی طرح کی تکلیف نہیں پہنچاتا ، ان کےلیے باعثِ رحمت ہوتا ہے، اور ان کو ایسی نصیحت کرتا ہے ، جس میں کسی قسم کی ملاوٹ نہیں!

محبوب بھائیو! ہم بھی شہد کی مکھی کی طرح ہوجائیں ، اور اگر ہم ایسے بھی نہ بن سکیں تو کم ازکم کھجور کے درخت ہی کی طرح ہوجائیں … کھجور کے درخت کا حال عجیب ہے! صحیح حدیث میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ، جس میں رسول پاک ﷺنے مؤمن کے حال کی وضاحت ایک دوسری مثال …جس کی لطافت پہلی مثال سے کم نہیں…میں بیان فرمائی کہ’’مؤمن کی مثال کھجور کے درخت کے مثل ہے کہ اس سے جو بھی چیز لیں وہ آپ کو نفع دے‘‘۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی)

کھجور کا درخت دوسرے درختوں سے ممتاز ہوتاہے کہ اسکا پھل کھایا جاتا ہے۔ اور تمام مراحل میں یعنی شاخ کے کونپل نکلنے سے لےکر خشک ہونے تک نفع مند اور کا ر آمد ہوتاہے ۔ اور اسکی لکڑی ،پتے، ٹہنیاں اورگٹھلی کسی نہ کسی شکل میں نفع مند ہوتے ہیں ، پھراس کے پتے اور پھل کا حسن وجمال اور پر سکون سایہ ، یہ اسکا مزید نفع ہے۔ اسی طرح ضروری ہے کہ مؤمن حضور ﷺ کے اس فرمان کی زندہ مثال اور حقیقی مصداق ہو؛

’’اللہ کے نزدیک پسندیدہ انسان وہ ہے جو لوگوں کےلیے سب سے زیادہ نفع مند ہو۔ اور اللہ جل جلالہ کے نزدیک پسندیدہ اعمال مؤمن کو خوشی پہنچانا، اس سے مصیبت دور کرنا،اسکا قرض اُتارنااور اس کی بھوک دور کرنا ہے ۔ اورکسی (مؤمن) کی حاجت کے لیے اس کے ساتھ چلنا مجھے اس مسجد (یعنی مسجدِ نبوی)میں ایک ماہ اعتکاف کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔ اور جس نے اپنے غصے پر قابو پالیا تواللہ تعالٰی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اور جس شخص نے غصہ کو قابو میں رکھا حالانکہ اگر چاہتا تو اسے نافذ کر سکتا تھا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے فضل کا پورا پورا امید وار ہوگا۔ اور جو شخص کسی ضرورت کے سلسلے میں اپنے بھائی کےساتھ گیا یہاں تک کہ اس کی ضرورت پوری کردی تو اللہ تعالیٰ اس دن ثابت قدمی عطا فرمائیں گے جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔اور یقیناًبد خلقی عمل کو ایسے خراب کر دیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر ڈالتا ہے۔‘‘
(سلسلۃ الاحادیث الصحیۃ للالبانی)

اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ایسی بلند عادات اور اخلاق کریمہ سے نوازدے۔ آمین !
میرے پیارے بھائیو!ان اخلاق کریمانہ کو اپنانے والے مجاہدین سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کلمہ ءتوحید کو بلند کرنےکےلیے سر گرم ہیں کہ اسی مقصد کےلیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا اور رسولوں کو بھیج کر کتابیں اُتاریں ۔ یہی لوگ ہیں جو دنیا کے بڑے اور قیمتی سے قیمتی ذخائر کے محاقط ہیں اور دین حنیف (اسلام )اورتمام آسمانی ادیان کے محافظ ہیں ۔ اور وہ ایک ایسی عبادت پر قائم ہیں جس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بیشک یہ (اسلام کی بلند ترین چوٹی ہے )……پس ضروری ہے کہ مجاہدین اس بھاری ذمہ داری ، اس کے مقام کی ہولناکیوں اور اس کے عالی مرتبت ہونے کا استحضار پیدا کریں۔ اورمجاہدین اس بلند عبادت کے مطابق اپنے اخلاق میں ترقی کریں……چنانچہ مجاہدین اس عظیم الشان نبوی مہمات پر قائم ہیں… یعنی مخلوق کو حق کی دعوت دینے کی مہم… اور ان کو اچھے کاموں کا حکم اور برے کاموں سے رو کنا… لہذا اس اہم فریضے کو صحیح طورپر ادا ءکرنا اسی طرح ممکن ہے کہ اسوہءنبی ﷺ کی پیروی کریں، جس کی تعریف اللہ رب العزت نے ان مبارک الفاظ سے فرمائی:(بلا شبہ آپ اخلاق کے بہت بڑے مرتبےپر ہیں )… اور اللہ کا اپنے قول میں آپ ﷺ کے اوصاف بتلانا:(ایک عظیم الشان رسول خود تم ہی میں سے، جن پر بڑا گراں ہے تمہارا مشقت میں پڑنا، جو بڑے حریص ہیں تمہاری فلاح کے ، انتہائی شفیق ، اور ایمان والوں پر بڑے مہربان ہیں)… اور آپ ﷺ کا مخلوق کے حالات پر کڑنا اور ان کو راہ ِ راست پر لانے کےلیے حریص ہونا، اللہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا :(شاید آپ اپنی جان ہی گنوا بیٹھیں گے (اس غم و اندوہ میں) کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے)۔ لہذا مجاہدین کو ان اخلاق کا حامل ہونا ضروری ہے … شہد کی مکھی یا کھجور کے درخت کی طرح … جو خلق خداکی بہبود وفلاح کے لیے حریص ہوں… ان کے اعضاءوجوارح سے خیر ہی کے افعال سرزد ہوں …اور کافروں سے قتال کرتے وقت یہ عظیم حدیث ان کا نصب العین ہو، جس میں آپ ﷺ نے اپنے چچا زاد بھائی بہادروں کے سردار حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو خیبرمیں یہود سے قتال کےلیے روانہ کرتے وقت وصیت فرمائی:(اللہ کی قسم !تیری وجہ سے ایک آدمی راہِ راست پہ آجائے تو تیرے لیے سرخ اونٹوں (عمدہ مال )سے بہتر ہے)…جی ہاں! مجاہدین ایسے ہی ہوں… جن کی زندگی خون، اعضا ء کے بکھرنے،تلواروں کےسائے ، مضبوط پہاڑوں ا ور غاروں میں گزر رہی ہو لیکن ان کی دل انتہائی رقیق اور نرم ہوں ، اپنی زخموں سے چور امت کی وجہ سے بے چین ہوں اوران کے حال پر شفیق ہوں… بلکہ ان کو نفع پہنچانے پر حریص ہوں حتی کہ کافروں کو دین ِ حق کی ہدایت ملنے اورخیر وبھلائی کی رہنمائی کرنے کی فکر اور مجرموں کے طریق پر چلنے سے ڈرانے پر بھی حریص ہوں ۔

میرے مسلمان بھائیو! یہی ہمارا دین ہے جو ہم نے کتاب وسنت ، صحابہ رضی اللہ عنہم کی سیرت اور سلف صالحین کی کتابوں سے حاصل کیا۔ اور یہی ہم نے عصر حاضر کی جہادی تحر یکوں کے مشائخ و رہنماؤں اور اہل علم سے سیکھا ۔ اور یہاں خاص طورپر یہ حضرات قابل ذکر ہیں؛ متروک فریضہ کے مجدد (روح رواں اور قائد) شیخ عبداللہ عزام شہید رحمہ اللہ، امت کی عزت اور غلبہ کے علامت امیرا لمؤمنین ملامحمد عمر مجاہد نصرہ اللہ ، شہید امت قاہر امریکہ شیخ اسامہ بن لادنؒ، حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظ اللہ ، عابدوزاہد شیخ مصطفی ابو الیزید، ؒ مجاہدو داعی و مربی شیخ عطیۃ اللہ اللیبی ؒ، عالم ، منفر د قائد شیخ ابو یحیی اللیبی ، ؒعالم مجاہد شیخ ابو اللیث القاسمی ؒ، شیخ الاسیر پہاڑوں جیسے بلند حوصلے اورپائے استقامت مجاہد ابو قتادہ فلسطینی فک اللہ اسرہ(… شیخ بوقتِ تحریر قید میں تھے، اب بحمداللہ آزاد ہیں…[مترجم]) اور حق کو نا فذ کرنے والے پہاڑ کی طرح ڈٹنے والے شیخ ابو محمد مقدسی فک اللہ اسرہ، مجاہد قادر الکلام خطیب ممتاز استاذ محمد یاسر افغانی ؒ اور باخبر نکتہ رس مجاہد اور اعلی صلاحیتوں کے حامل شیخ ابو مصعب سوری فک اللہ اسرہ اور عالم و فقہیہ قاضی شیخ ابوا لولید فلسطینی حفظہ اللہ تعالیٰ اور عالم و عابد شیخ منصورشامی ؒ اورمعروف داعی شیخ انور العولقی ؒ … اوران کے علاوہ کثیر تعداد میں ایسے حضرات کہ انھی میں سے بعض کا جینا ہمارے لیے باعث صدافتخار وعزت ہے اور بعض کے کتابوں اور حالات حاضرہ پر دروس سےہم مستفید ہوئے۔ اور بعض ایسے ہیں ا نھوں نے دوسروں کو اس جہاد کی طرف متوجہ کیا ۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہماری اور تمام مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطاء فرمائے کہ جنھوں نے ہمارے لیے راستہ صاف کیا ۔ اور ہمیں اپنےچالیس سالہ یا اس سے زیادہ دعوتی اور جہادی سرگرمیوں کے تجربات کے نچوڑ سے نوازا ، جس کی بنیاد پر عالم اسلام کے مختلف اطراف میں جہادی تحریکیں قائم ہوئیں۔ اور ہمیں بار بار ان غلطیوں کے ارتکاب سے خبردار کیا کہ جن کے سنگین نتائج ہم بھگت چکے ہیں۔ اور کامیابی وکامرانی کے اسباب کی طرف ہماری رہنمائی فرمائی اورناکامی اور نقصان کے اسباب سے آگاہ کیا …اور ان کی زندگیا ں ان کی سنہری باتوں سے بھی بڑھ کر درس دیتی ہیں… اور ہم نے ان کی دعوت و جہادکی سرگرمیوں اوران کی کتب و تصانیف میں اسلام کا صحیح فہم پایا … اور ایسی حقیقی صورت جو اسلامی تعلیمات سے مشرف ہے… اور اسلام پوری قوت و وضاحت اور صلابت سے پایا کہ جس میں اسلام کی آسانی اور اس کا اعتدال اور جمال واضح ہے… ان لوگوں کی صحبت ورفاقت کیا ہی خوب ہے…اللہ تعالیٰ ان حضرات اور دیگر مسلمان شہداءکی شہادت کو قبول فرمائے … اور جو زندہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کو ثابت قدم رکھے… اور ہمارا اور ان کا بھی خاتمہ ایمان پر فرمائے ۔

لیکن میرے محبوب بھائیو!ہم دھوکہ دہی کے زمانہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، جس میں انسان کےمحاسن کو عیب داراور عیوب پر تعریف کی جاتی ہے… انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ان مجموعی حالات میں ایک قوم کو ہم میں، ہمارے قائدین اورہمارے منہج میں صرف یہی عیب نظر آتے ہیں کہ

۱) ہم اپنی زخموں سے چُور اُمت سے محبت رکھتے ہیں۔ اور ان کےلیے اپنے بازو بچھاتے ہیں۔ اور امت کو خیر و بھلائی پہنچانا چاہتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ کے کامل اورمکمل دین کی طرف لوٹا نا چاہتے ہیں۔ اور یہ شوق رکھتے ہیں کہ کافروں کے خلاف ہمارے اس جہاد میں…اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد… وہ بھی ہمارے معاون بنیں ۔ اور اسی بنیاد پر ہم ہروہ ذرائع اختیار کرتے ہیں ، جس پر شریعت نے رہنمائی کی ۔لیکن ایک معترض(اللہ اس کو ہدایت دے)کا خیال یہ ہے کہ قاعدۃ الجہاد کے منہج پر بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس سے منسوب لوگ اپنے قافلہ یعنی قاعدۃ الجہاد کو امت کے اس قافلے سے ملانا چاہتے ہیں جو حالیہ عرصے میں اپنی حکومتوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سبحان اللہ ! بھلا یہ فضیلت کی بات ہے یا پھر بُرائی؟!

۲) ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی پہ کفر کا فتویٰ لگا نا نہایت ہی اہم حکم شرعی ہے کیونکہ اس سے اسلام اور شعائر اسلام کا تحفظ ہے۔ اور اس سے کفر و اسلام میں فرق ہوتا ہے۔ اوریہ اسلام اور کفر کے درمیان معمولی التباس اور اختلاط سے بھی روکتاہے،لیکن اس وقت مسئلہءتکفیر میں غلو کرنا ایک نہایت پُر خطرمعاملہ ہے۔ اور ہم احتیاط کی راہ اپنانے پر زور دیتے ہیں جو اس سلسلے میں ہمارے سلف صالحین سے منقول ہے اور یہ بھی نا ممکن ہے کہ ہم ان احکام کو محض حسابی اصولوں کے سپرد کردیں کہ ہر شخص خواہ وہ علوم شرعیہ کی ابجد سے بھی واقف نہ ہو غور و فکر کرے یا ان میں ہر ابتدائی طالب علم بھی گفتگو کرے کہ وہ جس پر چاہے جیسے چاہے احکام کو منطبق کرتا چلاجائے۔ اور جن شرعی ضابطوں کی اہل علم نے وضاحت کی ہےان کو کام میں ہی نہ لائے… چنانچہ اسی وجہ سے ہم نے اس (کفر کے فتوی ٰ ) کے سلسلے میں احتیاط کا پہلو اور عمدہ ضابطہ اپنایا تو بعض غالی لوگوں نے ہمیں مرجئہ کا الزام دیا جبکہ مرجئہ ہمیں غلو اور تشدد کا الزام دیتے ہیں…ہم اس الزام تراشی اور جھوٹ کا گلہ اللہ ہی کے حضور پیش کرتے ہیں ۔

۳) ہم علماء امت کی قدر وقیمت سے بخوبی آگاہ ہیں اور ان سے محبت اور احترام ہی کا معا ملہ کرتے ہیں۔ اور ہم سمجھتے ہیں کہ وہی اس امت کے حقیقی رہنماہیں۔ اور ہم امت کو انھی کی طرف متوجہ ہونے اوران کے ساتھ رہنے اور ان کا ساتھ دینے کی دعوت دیتے ہیں ۔ اور ہم سب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس امت کی صلاح ورشد اہل علم اور اہل جہاد کے قافلوں کے مابین اتفاق کی بنا پر ہوسکتی ہے نیز ان دونوں جماعتوں کے درمیان حائل دراڑھوں کے بند کرنے میں صلاح مضمر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مطلقا علمائے کرام کی جماعت کے متعلق زبان درازیاں نہیں کرتے ہیں ۔ اور اگرہم کہیں یہ محسوس کریں کہ کسی عالم سوءکی رسوائی کرنا شرعی تقاضا ہے توہم خاص اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں ۔ اور لوگوں کےسامنے اس کی گمراہی واضح کرتےہیں اور امت کو ان کی اتباع سے دورکھنے کی سعی کرتے ہیں ۔اور ان کی رہنمائی علمائے ربانیین ہی کی طرف کرتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ کچھ جہاد کی طرف منسوب لوگ ایسے ہیں کہ جو اپنے افعال واقوال کے ذریعے دونوں جماعتوں کے درمیان تفریق پیداکر رہے ہیں۔اور وہ عصرِ حاضر کے اہم مسائل،علمی باریکیوں اور پُر خطر مسائل میں اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہیں،اور اپنی علمی کم مائیگی کے باوجودمیدان علم میں رائے زنی کرتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ محض اپنی مرضی کے خلاف ہونے اور خواہش پرستی کی بنیاد پر علماء ربانی پر طعن وتشنیع کی پروا تک نہیں کرتے حالانکہ علماء ربانی وہ ہیں جن کے صدق اور ثابت قدمی اور انکا حق پر ڈٹ جانا اور لا الہ الا اللہ کی وجہ سے ماریں کھانا معروف ہے ۔اور وہ اجل علمائے کرام کے حق میں اد ب سے عاری ناز یبا گفتگو کرتے ہیں جو ان کے قلب کے فساد کو واضح کرتی ہے۔اور ان کی تیز دھا ر زبانوں سے دونوں اسیرعظیم بزرگ شیخ ابو قتادہ فلسطینی اور ابو محمد مقدسی اللہ پاک ان کی رہائی آسان فرمائے بھی محفوظ نہیں ہیں ۔ اور نہ ہی حکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ اور کچھ دیگر معروف علمائے کرام محفوظ ہیں۔

۴) ہم مسلمانوں کے خون کے ایک ایک قطرے کے سلسلے میں بھی انتہائی دردمند اور جذباتی ہیں۔ ان کا جو خون ظلماً بہایا جاتاہے ہمیں ہر قطرے پر دکھ ہوتاہے ۔ اور ہم گھر وں سے صرف مسلمانوں کی حالت زار پر جل بھن کر نکلے ہیں نیز ان کے دین ، عزت و آبرو اوران کے مال کے دفاع کی خاطر! اور ہمارا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ مسلمان کے خون کی حرمت قطعی ہے۔ اور یہ قطعیت آفتاب کی طرح روشن و بے غبار دلائل قطعیہ کے ساتھ ہی زائل ہوسکتی ہے۔ اور ہم مسلمانوں کے خون کوبودی دلیلوں کے ذریعے حلال جاننے یا مسئلہ تترس میں معتمداہل علم کی کتابوں(ان کتب میں سے میرے محبوب استاذ کا ایک نہایت قیمتی کتابچہ “مسألۃ التترس فى الجہاد المعاصر” کے نام سے ہے) میں مذکور شرعی اصولوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے وسعت دینے یا بغیر دلیل وبرہان کے ان کے سر الزامات منڈھ دینے سے شدت سے ڈراتے ہیں۔ اور اس بنیاد پر بھی مسلمانوں کومستحق قتال نہیں سمجھتے کہ وہ کسی جہادی جماعت سے الگ ہوکر امت کے باغی ہوگئے ہیں کہ باغی کی سزا شرعاً قتال ہے ۔

۵) ہمارے پیش نظرمحبوب امت کے دگرگوں حالات اور پرآشوب زمانہ کی رعایت کرنا بھی ہے؛جن کاسامنا یہ امت سلطنتِ اسلامیہ کے زوال ، امت پر مرتد نظاموں کے مظالم اور اس کے ہاتھوں اپنے دین سے دور ہونے کی وجہ سےگزشتہ دہائیوں سےمسلسل کر رہی ہے۔ اسکو لوں و کالجوں میں ایسے نصاب متعین کیے گئے کہ آنے والی مسلمان نسل کی تربیت ہی غلط عقائد پر ہو اور ان کی سوچ روشن شریعت کی تعلیمات سے متصادم ہو۔ اور اس امت کو اسلحہ کے زور پر ایسے قوانین کےسامنے پست ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے جو انسانوں کےبنائے ہوئے ہیں اورجسے اللہ کی تائید حاصل نہیں ہے ۔ اور کلمۂ حق پر ثابت قدمی سے باز رکھنے اور احکام شرعیہ اپنی اصلی صورت میں مسلمان عوام تک پہچانے کے جرم میں اس امت کے داعیوں اور اہل علم پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور ان کا گھیرا تنگ کیا جاتاہے…پس ان ظالمانہ اقدامات کا مجموعی نتیجہ ہمارےمعاشرے میں جہالت کا عام ہونا اور مسلمانوں کے اذہان و قلوب سے بہت سارے احکامات شرعیہ کا تصور تک بھی جاتے رہنا ہے …!اس صورتحال کی وجہ سےضروری ہوجاتاہے کہ ہم اپنی اس امت کے ساتھ نرمی اور لطف کا معاملہ مزید بڑھادیں، ہم ان کے اعذ ار قبول کرنے میں وسعت ظرفی سے کا م لیں اور حریص ہوجائیں کہ کسی طرح یہ امت اپنے صحیح دین پر لوٹ آئے اور ہم دعوت الی اللہ کے سلسلے میں اسی امت کے ساتھ شامل ہو جائیں ۔لیکن آج کچھ ایسے نادان لوگ ہیں جو اسلام کو اور ایمانی رشتہ کے تعلق کو نہایت ہی تنگ دائرے میں محصورکر رہے ہیں اور امت کےساتھ تکبرانہ رویہ اختیار کرتے ہیں اور اسکو حقیر سمجھتے ہیں بلکہ گھات لگائے بیٹھے رہتے ہیں کہ امت مسلمہ کی کوئی غلطی پکڑی جائے کہ ایک ہی وار میں ان کو ملیا میٹ کردیاجائے ۔ اسی طرح ہر اس شخص کو بھی طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے جو مجاہدین کو اس امت کےساتھ رحمت وشفقت کا معاملہ کرنےکی دعوت دیتا ہو۔ ہم ایسے لوگوں کو بھی دیکھتے ہیں جو بڑےحقارت آمیز تعجب سے کہتے ہیں کہ وہ کونسی امت ہے جس کی طرف ہم لوٹیں؟ وہ أمۃالاسلامالسعودی؟یا الإخوانی؟ یا السوري؟ یا حزبالأمة الکویتی؟… افسوس ہےکہ کوئی آپ کو امت کے ساتھ جڑنے کی دعوت دے اور آپ ان سے یہ پوچھیں کہ الإخوان، السلفیۃ، الجامیۃ، الصوفیہ، القاعدۃ… کس امت کی طرف ہم لوٹ جائیں؟ اللہ ہی ہمیں کافی ہے اور ایسی کج فکری کے خلاف ہمارا خوب کارساز ہے ۔

۶) ہماری کوشش ہے کہ آج امت بنیادی نکات پر اکھٹی ہو ۔ اور ان میں سب سے اہم نکتہ ؛ امریکہ جیسے ناگ اور اس کا بغل بچہ اسرائیل کا سر کچلنا اور مسلم ممالک اوران کے مقدس مقامات کی آزادی کےلیے جہاد کرنا ہے۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ محض اللہ پاک کے اذن سے ’امریکی تسلط کا زوال‘ ہی ہمارے خطوں کے مغرب غلام اور شریعت سے روگرداں مرتد نظاموں کے زوال کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ اور یہی امریکی زوال قوموں کی بنیاد پر کی گئی تقسیموں اورمصنوعی سرحدوں سے مسلمانوں کو آزادی دِلانے اور ایک ہی اسلامی حکومت ایک ہی خلافت کے تحت متفق اور متحد ہونے کا نتیجہ بنے گا۔اسی لیے ہم ہر ایسے اقدام سے بچتے ہیں جو مجاہدین کی جماعت کو اِدھر اُدھر کے معرکوں میں دھکیل دے اورمجاہدین کی جدوجہد فروعی اختلافات پر صرف ہونے لگے۔ بلکہ ہمیشہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ ہم اسی مرکزی نکتہ پر قائم رہیں جسے قافلہ ء مجاہدین کے قائدین نے متعین کیاجن کے سربراہ شیخ شہید اسامہ بن لادن ؒ تھے۔ انھوں نے اسی مرکزی نکتہ کو طویل تجربوں اوردین کی مصلحتوں کو سمجھتے ہوئے گہری سوچ کی روشنی میں متعین کیا۔چنانچہ ہمیں چاہیےکہ اسی نکتہ پر ہم باہم مربوط ومنظم ہوں …یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق اور مدد سے ہم اپنا سفر مکمل کرلیں اور مذکورہ اہداف حاصل کرلیں۔

۷) ہماری نظر میں دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ جڑواں بھائیوں کی مانند ہیں جو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں ہو سکتے، یہ دونوں عظیم عبادتیں ہیں۔ ہر ایک کےلیے فضائل و احکام اور طے شدہ اصول ہیں۔ ان دونوں کے درمیان کوئی تعارض اور تضاد نہیں بلکہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کی تکمیل کا باعث ہے۔ یہ دونوں دائرہ توحید کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ چنانچہ ہماری دعوت لا الہ الا اللہ کی طرف بلانا اور ہمار ا قتال کرنے سے مقصد لا الہ الا اللہ ہی کا دفاع کرناہے۔ ہمیں یہ یقین ہے کہ ہم ایک ہی وقت میں داعی بھی ہیں اور مجاہد بھی، اور ہم اسی میں عزت محسوس کرتے ہیں۔ اور ہمارے نزدیک کوئی بھی تحریک جس کی سعی امت مسلمہ کی گردن پر مسلط جاہلی نظام کے خلاف ہے، ان دونوں عبادتوں کو تھامے بغیر فلاح نہیں پاسکتی بلکہ تمام احکام شرعی کو مضبوطی سے تھامنااور ان میں سے ہر ایک کو اپنے احکام ومراتب کے لحاظ سے حیثیت دینا لازمی ہے، جن کی تفاصیل کتب فقہ میں موجود ہیں۔ اورہم ہرگز بھی شرعی اصولوں کے مطابق دی جانے والی دعوت کی تحقیر کرنے اور ان دو نوں عبادتوں کے درمیان تناقض اور تضاد کے قائل نہیں ہیں۔

۸) ہم مجاہدین کے لیےسیاستِ شرعیہ کے باب کو بہت اہم سمجھتے ہیں۔ہم دیکھتےہیں کہ جہادی تحریکات کو اکثرایسے حالات کا سامنا رہتا ہے جن میں انھیںمختلف اقوام،مختلف ممالک اور مختلف قبائل کے عوام سے تعامل کرنا پڑتاہے اوربدلتے ہوئے حالات و واقعات کے ساتھ خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ اسی لیے ہم سمجھتے ہیں کہ مجاہدین اور ان کے امراءوطلبہء علم پر ضروری ہے کہ اپنی استطاعت، مسئولیت اورشعبہ کے مطابق سیاستِ شرعیہ کے احکام کی معرفت کاحصہ خوب مہارت کے ساتھ حاصل کریں اور تمام وہ اصول و ضوابط سیکھیں جن سے ترجیحات او رمصالح و مفاسد کی تعیین ممکن ہوسکے۔ چنانچہ فقہ الجہادکا اکثر حصہ مصلحتوں کی معرفت ہے ،جس کا مدار مفاسد کے دورکرنے اور مصالح کے ملحوظ رکھنے پر ہے۔ کوئی بھی جہادی تحریک اس اہم باب کو اگر اچھے طریقے سے نہیں سیکھے گی اور اسکے احکام سے واقفیت حاصل نہیں کرے گی تو غالب امکان ہے کہ وہ جنگ میں شکست سے دوچار ہوگی اور مقاصدِ جہاد کے حصول میں ناکام رہے گی… چاہے چند معرکوں میں اسے کامیابی بھی حاصل ہوجائے۔پس جہادی تحریکات اپنی تمام تر کامیابیوں کے ساتھ ولایتِ خاصہ سے ولایتِ عامہ کی طرف ترقی کرتی ہیں ، پس اگر انھوں نے اپنے افراد کی تربیت نہ کی، ان میں وسعتِ نظری پیدا نہ کی اور مختلف پسِ منظر اور استعداد کے لوگوں کو ان کی سطح کے مطابق مخاطب کرنا نہ سکھلایا،اقوام عالم کے سیاسی حربوں سے ان کو آگاہی نہ دی اوریہ نہ سمجھایا کہ دشمن کو کس طرح زِچ کیا جائے؟ اوراپنے ہم خیال دوست کس طرح بڑھائے جائیں ؟ اور ان کے ذہنوں میں یہ بات راسخ اور پیوست نہ کی کہ عمل سیاست میں صرف یہی کافی نہیں کہ اپنے تصرفات میں برحق ہوں بلکہ ان پہ لازم ہے کہ خوب غورو فکرکریں کہ وہ کونسی راجح مصلحت ہے جو ان کے تصرفات کی تائید کرے اور وہ کونسےمفاسد ہیں جو اس پر مرتب ہوسکتے ہیں، پھر ان میں یہ ملکہ پیدا نہ کیاکہ وہ دو خیر کی راہوں میں سب سے زیادہ اچھی راہ کا انتخاب کریں اور دو ضرر رساں پہلوؤں میں سے کم ضرر والے پہلو کا تعین کریں… جب تک مجاہدین کو یہ تربیت اور تیاری حاصل نہ ہو تو وہ فاش سیاسی غلطیوں کے مرتکب ہوں گے،جو ان کی طویل کوششوں کے نتائج تک کو ضائع کردیں گی، یوں دشمن کےلیے تحریک کو اس کے بڑے اہداف اور مقاصد سمیت کچل دینا آسان ہوگا ۔

ٍ لیکن افسوس ہے کہ بعض لوگ دین کی مصلحتوں کی حفاظت کرنے والوں کی شرعی سیاست اور دین کے معاملے میں مداہنت سے کام لینے والوں کے درمیان فرق نہیں سمجھتے، جبکہ بعض دوسرے دین کے اس عظیم الشان باب سے غافل ہونے کی بنا پر یہ سمجھتے ہیں کہ مجاہدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہر ایسی بات کہیں اور ہر ایسا کام کریں کہ اقوام عالم متحد ہوکر ان پر کود پڑیں ،اور ان کے دشمن کی تعداد میں اضافہ اور ان کے دوستوں اور ہم خیال لوگوں کی تعداد کم ہوجائے۔ ان کے مطابق مجاہدین کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ لوگوں سے ایسے انداز میں بات کریں جو معاشرے کے محدود لوگ ہی سمجھ پائیں، ایسے اسلوب اختیار کریں جو لوگوں کو مجاہدین سے نفرت دِلائیں اور امت مجاہدین سے الگ ہوجائے… پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ اسلوب ان کے عقیدہ کی پختگی اوران کے صاف ستھرے منہج کی دلیل ہےحالانکہ ان لوگوں کو اس چیز کا ادراک ہی نہیں کہ یہ سب ان کی علمی کم مائیگی ، فہم کی تنگی اور اس دینِ حنیف سے دوری پر دال ہے جس کے ساتھ خاتم النبین ﷺ کی بعثت ہوئی۔ بلکہ ان کا یہ طرزِ عمل پہلی امتوں کے راستے کی پیروی کرنا ہے کہ جنھوں نے خود اپنے اوپرسختیاں کیں اوراز خود اپنے گلوں میں سختیوں کے طوق اوربوجھ لادے ، حالانکہ اللہ تعالی ٰنے ان پر یہ فرض نہیں کیا تھا ۔ پھر انھوں نے اس کالحاظ بھی نہ رکھا تو وہ ہلاکت کے مستحق ٹھہرے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مہلک راستے کے شر ور سے پناہ میں رکھے ! آمین

۹) ہم مجاہدین کو تاکید کرتے ہیں کہ وہ اختلاف کے آداب سے آراستہ ہوں۔ اور اس کی سمجھ بوجھ رکھنے کی ضرورت و حاجت لوگوں سے زیادہ انھی کو ہے کیونکہ لوگوں میں سب سے زیادہ انھی کو اختلاف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ وہ اس بات کو سمجھیں کہ سب مخالف برابر نہیں ہوتے بلکہ مخالفین کے بھی مختلف درجات ہیں لہذاان سے معاملہ کرتے وقت اس فرق کو ملحوظ رکھیں، اور مجاہدین کےلیے اس بات کا جاننا بھی ضروری ہے کہ ایک مومن کی شان یہ ہے کہ اختلاف کے وقت انصاف کو مت بھولیں۔ اللہ تعالیٰ کےلیے انصاف کے ساتھ گواہی دیں اگرچہ اپنے نفس ، والدین یا قرابت داروں کے خلاف ہی ہو ۔ اور یہ بھی لازمی ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ مومن بلند اخلاق والا ہوتا ہے ، طعنہ زن، لعنت کرنے والا، فحش گوئی اور فضول گوئی کرنے والا نہیں ہوتا ۔ اور وہ لڑائی میں گالم گلوچ نہیں کرتا ہے اگرچہ اسکے مدمقابل کفار اور مرتدین ہی کیوں نہ ہوں۔ اور مجاہدین پر لازم ہے کہ وہ اس بات پر یقین رکھیں کہ قوت کسی کی ہجو یا شخصی برائی کرنے میں نہیں بلکہ دلیل سے بات کرنے میں ہے۔

۱۰) ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ دوسروں سے زیادہ احکام اسلام کے التزام کی پابندمجاہدین کی جماعت ہے۔ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ چھوٹوں ، بڑوں کے مابین برابری کے معاملے میں دوسروں کے لیے نمونہ بنیں اور حکم شرع کے سامنے جھک جانےمیں اعلی مثال پیش کریں تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ شریعت کے علمبردار خود پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی تطبیق کے معاملے میں تساہل برتتے ہیں یا جب حکم شرعی ان کی خواہشِ نفس کے خلاف ہو تو حکمِ شرع سے بھاگتے ہوئےحیلے بہانےتراشتے ہیں…مجاہد کی یہ شان ہرگز نہیں!لیکن ہم نے انتہائی غم کے ساتھ یہ مشاہدہ کیا کہ ایک محاذ پر موجود کچھ لوگوں کو جب مجاہدین کے ساتھ کیے گئےجھگڑوں کو شریعت کی روشنی میں حل کرنے کی باربار دعوت دی گئی تو وہ لوگ مکڑی کے جالے جیسے کمزور دلائل کی بنا پر اپنی ہٹ دھرمی پر اڑے رہے۔ ہم اللہ پاک سے ہی سوال کرتے ہیں کہ وہ سب خوش اسلوبی سے حق پر لوٹ آئیں ۔

۱۱) ہمارا اعتقاد ہے کہ شوری کا قیام شریعت کی حاکمیت کی بنیاد پر قائم اسلامی نظام کی اہم بنیاد ہے ۔ اور ایسے حاکم کا انتخاب کرنا کہ جس میں تمام شرائط موجود ہوں یہ امت کا حق ہے ،بالخصوصاہلِ حل وعقد کا حق ہے کہ اسکا انتخاب کریں۔ اور ہم اس حق کوچھیننے نہیں دیں گے۔ کیونکہ نصوص میں شوریٰ کے قیام پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے۔ اور آثار میں اس شخص کی بابت سخت مذمت وارد ہوئی جو(مسلمانوں سے مشورہ کیے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے)۔ ہمارا جہاد مسلمانوں میں حائل رکاوٹوں کو دور اورایسے حاکموں کو منتخب کرنے کے لیے ہے جوان کی قیادت قرآنِ کریم کی روشنی میں کریں۔ اور ہم اس لیے جہاد نہیں کر رہے کہ تلوار کے زور سے امت پر حکومت کریں بلکہ اس لیے کر رہے ہیں کہ شریعت مطہر ہ ہی ہم پر اور ہماری امت پر حاکم ہو۔ اسی لیے مجاہدین کی جماعتوں کو ہم خوب کثیر مشورہ کی نصیحت کرتے ہیں نیز ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیگر جہادی جماعتوں کےساتھ طویل مشاورت بالخصوص سبقت لے جانے، قربانی والے ساتھیوں ، سچے علماء ، مخلص داعیوں اور نیک لوگوں کے با اثر حضرات سے مشورہ کیے بغیر کسی امارت اورملک کے اعلان سے گریز کریں۔ جیسا کہ ہم ا پنے مسلمان بھائیوں کےسامنےعاجزی اختیار کرنے اور صفوں میں اتحاد پیداکرنے کی غرض سے عہدوں کو چھوڑنے کی استعداد پیدا کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔

۱۲) مقدور بھر طاقت اور وسائل سے پہلے ملکوں اور امارت کا اعلان کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔ پس شریعت محض ناموں اور ظاہری چیزوں پر فیصلہ نہیں کرتی بلکہ حقائق کا اعتبار کرتی ہے ۔ الغرض غیر متمکن اور کمزور جماعتوں کو ملک و امارت کے ساتھ تعبیر کرنے میں جلدی نہ کی جائے۔بار بار کے تجربوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مضبوط عالمی جاہلی نظام کی موجودگی میں اگر کسی جماعت کو جزوی شان وشوکت کی بنیاد پر کسی مخصوص خطے میں تمکین حاصل ہو بھی جائے تو وہ حقیقی تمکین نہیں ہوتی،(عالمی جاہلی نظام کی موجودگی میں)ایسی جمات نہ تو اپنی حدود کا تحفظ کرپاتی ہے اورنہ ہی اپنی رعایا کا دفاع۔ نیز ایسی جماعت یاتنظیم اپنے زیرِ سایہ بسنے والےلاکھوں عوام کو ان کی روز مرہ ضروریاتِ زندگی تک فراہم کرنے سے قاصر رہتی ہےاور ان کی قوت و طاقت کفریہ طاقتوں کے محض متوجہ ہوجانے سے ہی ختم ہوجاتی ہے۔ پس ایسی جماعتوں کو’’الدولۃ‘‘ سے تعبیر کرنا مسلمانوں کے مقاصد کو داؤ پر لگا نا، ان میں مایوسی پھیلانا اور اسلامی حکومت کے تصور سے متنفر کرنےکا سبب ہے۔ اس لیے اس مرحلہ میں عموما بہتر یہی ہے کہ مسلسل گوریلہ جنگ کی جائے اور قبل ازوقت علاقوں پر قبضہ پھیلانے کی لالچ نہ کی جائے، او رقتال کا رخ کفار کے ان لشکروں کی طرف رکھا جائے جو مسلم سرزمینوں پر قابض ہیں اور اپنی جد وجہد کو عالمی نظام کے ڈھانےپر مرکوز رکھا جائے۔ اس سلسلے میں زہر یلے سانپ امریکہ کے سر پر مسلسل چوٹیں اور ضربیں لگائی جائیں یہاں تک کہ وہ دھڑام سے گرجائے…اور اس کے ساتھ ہی جہالت کا عالمی نظام بھی گرجائے… اور امریکہ اسلامی ممالک سے ذلیل ورسوا ہوکر نکلنے پر مجبور ہو جائے۔ امت کو آزادی دِلانے اور اسلام اور اہل اسلام کی حقیقی سیادت لوٹانے کےلیے بس یہی ایک طریقہ ہے،اور مضبوط اورحقیقی تمکین کی حامل خلافت علی منہاج النبوۃ کا قیام اسی راہ سے ممکن ہے۔

۱۳) اگر جہادی لشکروں وجماعتوں میں عصبیت، شخصیات کے ساتھ تعلق میں غلو اور غیر شرعی شعارات در آئیں تو یہ ایک لا علاج بیماری ہے۔ اور یہ مرض کسی جماعت میں پیدا ہوجائے تو اس کا فساد اس کی اصلاح پر غالب آجاتاہے۔ اس لیے اس مہلک بیماریسے ہم اپنے مجاہد بھائیوں کو ڈراتےہیں اور اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ آپس کا تعلق اور ایمانی رشتہ صرف لا الٰہ الا اللہ کی اساس پر قائم رکھیں، حق کا ساتھ دیں خواہ وہ کہیں بھی ہو اوران لوگوں میں شامل نہ ہوں جو اپنی جماعت ، بھائیوں اور امراء کی مدد…حق وباطل کی تفریق کے بغیر… ہر دومیں کرتے ہیں۔ ہم یہ دیکھ کر بہت رنجیدہ ہوتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے نعروں کو دہرانے میں میں اس قدر مبالغہ کرتے ہیں کہ یہ ان کے پیروکارں کومہلک تعصب کی طرف لے جاتا ہے، بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ کہیں ان کا نعرہ [باقیۃ] (یعنی ان کی جماعت ہمیشہ باقی رہے گی) ان کے یہاں عقیدہ کا ایک اصول ہی نہ بن جائے جبکہ انھیں اس کا ادراک بھی نہ ہو ۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ بقا تو صرف اللہ رب العزت کی ذات کو ہے جوعزت و جلال والی ہے، جماعتیں اور ملک جلد یا بدیر ختم ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہم انھی بھائیوں سے اس بات کی بابت بھی ڈرتے ہیں کہ وہ اپنے امیرکے ساتھ تعلق میں بےجا مبالغہ کریں ۔ اور ان سے ایسے اقوال صادر ہوئے ہیں جو (اپنے امیر کےحوالے سے)مخصوص تصور کی نشاندہی کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں راسخ ہے، اور جس کا انجام کسی طور اچھا نہیں نظر آرہا۔ بہر حال اللہ تعالیٰ ہمیں کافی اور خوب کارساز ہے۔

۱۴)ہمارا یقین ہے کہ جہاد ہی واحد عبادت ہے جو امت کے تمام گروہوں اورجماعتوں کو شریعت کے بنیادی مقاصد پر مجتمع کرتی ہےاور پوری امت کوکلمہ توحید کے گرد متحدکرتی ہے، اسے تفرقہ بازی ، فروعی اختلاف اور تمام قسم کے جاہلی تعصبات سے نجات دلا تی ہےاور امت کے تیروں کا رخ حقیقی دشمنوں کی طرف موڑ دیتی ہےجو ہر میدان اور ہر سطح پر … چاہے وہ عسکری ہو، مذہبی ہو، فکری ہو، سیاسی ہویا اجتماعی… امت کے خلاف برسرِ پیکارہیں۔ اسی وجہ سے ہم مجاہدین کوسختی کے ساتھ اس بات سےڈراتے ہیں کہ وہ جہاد کے میدان میں ہرگزان علمی اختلافات کو مت لے کر آئیں جو علمائے اہل سنت کے مابین وقوع پذیر ہوئے،نہ ہی ان میں سے کسی کی طرف دعوت دیں یا اس کی بنیاد پر گروہ بندی کریں اور نہ ہی جہاد کو مخصوص طبقے کے ساتھ مقید کریں۔کیونکہ یہ ساری چیزیں مجاہدین کی صفوں میں پھوٹ ڈالنے، ان کا شیرازہ بکھیرنے، ان کی توجہ اہم مقصد سے ہٹانے اور ان کومحاذوں سے غافل کردیتی ہیں۔ اور بالآخر ان چیزوں کا نتیجہ مجاہدین کی شوکت ودبدبہ کے خاتمے، کفار و مرتدین کے تسلط،مسلمانوں کی جان، مال، عزت کو حلال قرار دیے جانےاورمسلمانوں کے مدارس و مساجد اوران کے علمی مراکز تک کو گرادینے کی صورت میں نکلتا ہے۔

۱۵) بیشک جائز امور میں امرائے کرام کی سمع و طاعت جہادی عمارت کا ستون ہے۔ اور جہاد بغیر جماعت کے قائم نہیں ہوسکتا اور جماعت کی بنیاد سمع واطاعت ہے۔بلاشبہ نیکی کے کاموں میں امیر کی اطاعت اللہ جل شانہ اوراسکے نبی ﷺکی اطاعت ہے۔ اور یہ بھی ایسی پیاری عبادت ہے جو ہمارے لیے قرب الہٰی کا ذریعہ ہے۔ بلاشبہ وہ لشکر کامیاب نہیں ہوسکتا جو غیروں کے مقابلے میں ایک جان نہ ہو اوردشمن کو زیر نہیں کرسکتا جب تک اس میں وحدت نہ ہو۔ یہ وحدت و اتحاد صرف اور صرف لشکر کے ایک سربراہ کی سربراہی میں یکجا ہونے، خوشحالی و مجبوری، تنگی و آسانی ہر حال میں اپنے امیر کی اطاعت سے ہی مل سکتی ہے ۔ اسی لیے ہم خود کو اور اپنے مجاہد بھائیوں کو امیرکی نافرمانی کی برائی سے ڈراتے ہیں اور اس بات سے ڈراتے ہیں کہ شیطان توامیر کی نافرمانی کو مجاہد کے لیے خوب مزین کرتا ہےاور اسکو یہ خیال دلاتا ہے کہ اس میں بہت سی مصلحت ہے۔ پس ہمیں خوب جان لینا چاہیے کہ مجاہد کے نافرمانی میں اُٹھائے جانے والےقدم میں کسی قسم کی خیر وبھلائی نہیں ہے۔ کیونکہ دین کو گرا کر اس کو قائم نہیں کیا جاسکتا ہے۔

۱۶) عالی القدر جناب امیر المؤمنین ملامحمد عمر مجاہد(اللہ ان کو حق پر ثابت قدم رکھیں )ہمارے سردار ، ہمارے سروں کے تاج اورہماری آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ اللہ رب العزت نے ان کے بارے میں ہمارے گمان کو سچ کر دکھایا کہ انھوں نے لا الہ الا اللہ کے دفاع اور مہاجر جلاوطن مجاہدین کی حمایت میں اپنے ملک تک کو قربان کردیا۔آپ اور امارت اسلامیہ افغانستان میں موجود آپ کے ساتھیوں نے تاریخ کے بد ترین صلیبی حملےکاڈٹ کر مقابلہ کیا،نہ ہی پیٹھ پھیری اور نہ ہی راستے سے ہٹے بلکہ کفار کو اپنی سرزمین سے نکالنے اور شریعت کی حاکمیت قائم کرنے کے لیےمسلسل جہاد کیا ، یہاں تک کہ آج وہ کامیابی کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ یہ لوگ وہ بہترین لوگ ہیں جو اس راستے پر گامزن ہیں …… اللہ تعالیٰ ان کی نصرت فرمائیں، انھیں قوت و تمکین کے ساتھ کابل لوٹنے اور دینِ متین کی نصرت کی خاطر اسے فتح کرنے کی توفیق عطا فرمائیں (آمین)۔ہم سمجھتے ہیں کہ ہر مجاہد بلکہ ہر مسلمان کی گردن پر امارتِ اسلامیہ کا قرض ہے اور موجودہ دور میں ایسےشرعی،اجتماعی اور تکوینی عوامل پائے جاتے ہیں جو ان کو امت کی سیادت و قیادت کرنے کا اہل بناتے ہیں۔ پس اسی وجہ سے ہم تمام مسلمانوں کو ان کے گرد جمع ، ان سے بیعت کرنے ، ان کی خیر خواہی چاہنے، ان کو مضبوط بنانے اور قول وعمل سے ان کی مدد کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اور ہم ہر ایسے بندے کے فعل سے برات کا اظہار کرتے ہیں جو امارت اسلامیہ افغانستان کےمنہج کی بابت شکوک وشبہات ڈال کر مسلمانوں کی وحدت کو توڑے یاان کے مقابلے میں نئے امرا ء کا اعلان کرے ۔ ہم یہ دعوی نہیں کرتے کہ یہ لوگ معصوم ہیں بلکہ یہ سب انسان ہیں جو صحیح اور غلط دونوں کے مرتکب ہوسکتے ہیں، لیکن خطا ہونے کی صورت میں آدابِ نصیحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے انھیں نصیحت کی جائے،ان کے بارے میں حسن ظن رکھاجائے اور ان کے اقوال وافعال کو حتی الامکان خیر و بھلائی پر محمول کیاجائے۔ کیونکہ ماضی میں انھوں نے دین کی خاطر عظیم قربانیاں پیش کی ہیں اوران کی سیرتیں خیر کثیر سے لبریز ہیں، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں ان کو بلند یاں نصیب فرمائے۔یہی وجہ ہے کہ ہمیں سخت رنج ہوا جب گزشتہ ایام میں ہم نے دیکھا کہ بعض لوگوں کی طرف سےامارت اسلامیہ کے منہج پر اعتراضات کی بوچھاڑ ہوئی، اور امیر المؤمنین ملامحمد عمر مجاہد حفظہ اللہ کی بیعت توڑنےاور ان کے مقابلے میں نئے امراءکی بیعت کرنے کی دعوت دی گئی،بعض نے تو اشاروں اور کنایات کی صورت میں یہ دعوت دی اور کچھ نے واشگاف الفاظ میں امیر المؤمنین سے بیعت توڑنے کا کہا اور نئے امرا ءکی بیعت کی دعوت دی ، ان اللہ وانا الیہ راجعون !


۱۷) بلاشبہ جہاد کا عمل ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ نفوس کا تزکیہ ، اخلاق کی تہذیب اور دلوں کی اصلاح بھی ضروری ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی کتاب میں دشمن کے مقابلے کے وقت کثرتِ ذکر کا حکم دیاہے، جس کی مِن جملہ حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ قتال میں مشغول ہونا اورانسانی اعضاء و کھوپڑیوں کے درمیان رہنا قساوتِ قلبی کو پیدا کرتا ہے۔ اور یہ ایک خطرناک مرض ہے جو بے شمار مہلک امراض کو جنم دیتاہے اور انسان کو ہلاکت کی طرف دھکیل دیتاہے۔ہر جہادی تنظیم جو اپنے لشکر کی تربیت اور تزکیۂ نفس نہیں کرتی تو وہ سعادتِ آخرت اورفلاح ِ دنیا کی طرف اپنے سفر کو مکمل کرنے کےلیے درکار بنیادی ایندھن اور لازمی زادِ راہ سے تہی داماں ہوتی ہے۔ دلوں کے امراض کا علاج رجوع الی اللہ ، کثرت سے تلاوت ِ کلامِ پاک ، فرض نمازوں اور نوافل کا اہتمام، اللہ کے راستے میں خرچ کرنا، کثرتِ استغفار اوردُعا ، مساکین کےساتھ میل جول اور ان کی اعانت، پڑوسیوں اور بھائیوں کی خدمت ،مسلمانوں کے دلوں کو خوش کرنا اور والدین کی فرمانبرداری اورانکو راحت دینا ، اصلاح اور احوال آخرت والی کتب کامطالعہ، جنت کی ترغیب(اللہ ہمیں جنت والا بنادے)اور دوزخ سے ترہیب والی کتب کا مطالعہ کرنا ہے( اللہ ہمارے اور دوزخ کے درمیان اتنی دوری پیدا کردے ، جتنی مشرق ومغرب میں دوری ہے،آمین)۔

میرے مجاہد بھائیو !ہمارے پیغام کے یہ بعض درخشاں پہلو ہیں جنھیں ہم نے مشائخ ِجہاد اور قائدینِ جہاد سے سیکھا، سمجھا اور قبول کیا ہے، جن کا خلاصہ میں نکتہ در نکتہ آخر میں پیش کرتاہوں ؛

۱) امتِ مسلمہ کے ساتھ عجز و انکساری سے پیش آنا، تمام مسلمانوں کے ساتھ باہم ایک ہوجانا اور …اللہ تعالیٰ کی تائید کے بعد… ان کی تائید حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔
۲) مسائل تکفیر میں غلواورتفریط سے پرہیزکرنا۔
۳) علمائے کرام کی قدر کرنا اور اہلِ علم اور اہلِ جہاد کے درمیانموجود فاصلوں کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔
۴) مسلمانوں کے خون کی حرمت کا شدت سے خیال رکھنااور بودی دلائل کی بنیاد پر اس معاملہ میں گفتگو کرنے سے ڈرنا۔
۵) امت کے موجودہ دگرگوں حالات کی رعایت کرتے ہوئے عام مسلمانوں کے ساتھ نرمی کرنا اور انھیں دعوت دینے میں تدریج اختیار کرنا۔
۶) امت کو اہم اور بنیادی نکات پر مجتمع کرنا ، جس میں سرِفہرست امریکیوں اور یہودیوں سے قتال کرنا ہے۔
۷) دعوت کے عمل کی اہمیت کو سمجھنا اور عملِ جہاد کے ساتھ اس کے ناگزیر تعلق کو جاننا۔
۸) مجاہدین کے حق میں سیاستِ شرعیہ کی سمجھ بوجھ کی اہمیت۔
۹) آداب الخلاف (اختلاف کرنے کے آداب) سے آراستہ ہونا۔
۱۰) اپنی اندرونی صفوں میں احکام شرعیہ کے التزام کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی تطبیق اور نفاذ کی کوشش کرنا۔
۱۱) حاکم… جس میں تمام شرائط موجود ہوں…کے انتخاب میں شوریٰ(مشورے)کو لازم پکڑنا اوراس معاملے میں امت کے حق کو سبوتاژ نہ کرنا۔
۱۲) مقدور بھر وسائل اور بقدر کفایت تمکین اور شوکت حاصل ہونے سے پہلے امارت و ملک کے اعلان میں جلدی نہ کرنا۔
۱۳) جماعتی تعصب اور شخصیات سے تعلق میں غلو اختیار کرنے سے بچنا۔
۱۴) علمائے اہلِ سنت کے درمیان وقوع پذیرعلمی اختلافات کو میادینِ جہاد میں زیرِ بحث لانے سے گریز کرنا۔
۱۵) نیکی کے کاموں میں امرا ءکی اطاعت کرنا۔
۱۶) امارت اسلامیہ افغانستان کے گرد جمع ہونا اوراس کی قول وعمل سے تائید ونصرت کرنا۔
۱۷) تزکیہ نفس اور اصلاح قلب کا اہتمام کرنا۔

یہ ہمارے منہج کےبعض اہم پہلوہیں۔ لہذا کوئی بھی کسی نئے منحرف منہج کو لے کر ہم پہ ہرگز نہ چڑھ دوڑے، کہ اس کی باتوں میں آکر ہم اپنے صاف ستھرے منہج کو چھوڑ دیں، اور کوئی ہماری عقلوں کو ہلکا نہ سمجھے اور یہ نہ کہے کہ ہمارے مشائخ کا منہج تغیر و تبدل کا شکار ہوگیا ہے… نہیں اللہ کی قسم ! یہی ہمارا منہج (پہلے بھی) تھا جو کبھی تبدیلی کا شکار نہیں ہوا…اور ہم اسی پر اللہ سے ثابت قدم رہنے کا سوال کرتے ہیں… جی ہاں! ہمیں اپنےعجز اورنفس کی کوتاہی کا اعتراف ہے اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکم ِ شرع اور واقعاتی دنیا میں اس کی تطبیق کرنے کی صورت میں ہمارے فہم اور سمجھ میں غلطی کا احتمال موجود ہے ، جبکہ بلاشبہ شریعت اپنی ذات میں کامل و مکمل اور نقائص سے مبرا ہے۔ چنانچہ نصیحت کا باب کھلا ہے اور جو شخص ہماری کوتاہیوں پر شرعی دلیل کے ساتھ متنبہ کرے گا تو ہم اس کے شکر گزار ہوں گے۔

آخر میں، میں اپنے تمام مجاہد بھائیوں کوبالخصوص ان بھائیوں کو جو قاعدۃ الجہادسے منسلک ہیں اوران مجاہد بھائیوں کو جورباط والے ملک شام میں موجود ہیں، اس حدیث میں غور کرنے کی دعوت دیتا ہوں جس کوحضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ’’اللہ سے بڑھ کر تکلیفوں پر صبر کرنے والا کوئی نہیں کہ لوگ اللہ کا شریک ثابت کرتے ہیں ، اللہ پھر بھی ان کو عافیت،مصائب سے دور اور رزق و دیگر نعمتیں عطا کرتاہے‘‘۔
(سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ للالبانی)

میرےمحبوب بھائیو! یقیناً ماضی قریب میں سب و شتم ،باطل تہمتیں اور بڑوں پر زبان درازیوں جیسی تکلیف دہ باتیں زبان زدِ عام ہوئیں، جو دلوں کو زخمی کرنے اور رُلادینے والی ہیں۔لیکن میں آپ کو اللہ پاک کے خلق کو اپنانے اور بردباری اور وقار اپنانے کی ترغیب دیتاہوں۔ اور اس بات کی ترغیب دیتا ہوں کہ بُرائی کا بدلہ اچھائی سے اور ظلم کاسامنا انصاف سے کریں۔ اور فتنوں سے محفوظ رہنے کو کسی دوسری چیز کے برابر نہ سمجھیں اور حق پر ڈٹے رہیں…باقی رہی جھاگ تو وہ یونہیجاتا رہتا ہے!

اور میں خود کو اور آپ سب کو شہد کی مکھی یا کھجور کے درخت کی طرح بن جانے کی دعوت دیتاہوں … کہ ہماری چھاؤں ٹھنڈی ہو… ہمارے پھل میٹھے ہوں … ہمار ا منظر خوبصورت ہو… ہمارا وجود سراسر نفع و خیر ہو … اللہ مجھے اور آپ سب کو توفیق دیں کہ ہم اس طرح بن جائیں۔ آمین!

اگر اللہ نے زندگی دی اور توفیق عطا فرمائی تو مذکورہ بالا تمام نکتوں میں سے ہر نکتے پر آئندہ مقالات میں تفصیل سے لکھیں گے، ان شاء اللہ!

وصلی اللہ علی نبینا محمدوعلیٰ وصحبہ وسلم

عربی متن پڑھنے کےلیے اس لنک پر جائیں
https://ia601405.us.archive.org/25/items/pakistanFaroq/falnknlalnahla.pdf

اردو متن کا پی ڈی ایف
http://bit.ly/1491uOH

اردو ترجمہ بشکریہ:
الملحمہ میڈیا
http://malhamahblog.blogspot.com





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں