جمعرات، 13 اگست، 2015

جدید خوارج کی قدیم صفت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جدید خوارج کی قدیم صفت
شیخ ابو بصیر الطرطوسی


جدید خوارج کی قدیم صفت؛ اور وہ یہ ہے کہ وہ تب تک قتال کرتے ہیں جب تک قتل نہیں کر دیے جاتے، وہ تب تک نہیں پلٹتے جب تک قتل نہ کر دیے جائیں۔۔۔ان کا شر تب تک باقی رہتا جب تک شدت کے ساتھ کچلا نہ جائے اور اُن کو واضح شکست نہ دے دی جائے۔

امام غزالی اپنی کتاب "منھاج العابدین" میں کہتے ہیں:
[ہوائے نفس ایک خارجی کی مثل ہے، جو قتال کو دین سمجھ کر کرتا ہے، جو مشکل سے ہی لوٹتا ہے حتی کہ قتل نہ ہو جائے۔۔۔]

اللہ المستعان۔

ابو بصیر الطرطوسی
31.07.2015

مصدر:
http://altartosi.net/ar/?p=6160

کفارکی اعانت کرنے اوراُن سے استعانت لینے میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کفارکی اعانت کرنے اوراُن سے استعانت لینے میں فرق
#حتی_کہ_تمہارے_قدم_مسئلہ_تکفیر_پر_نہ_لڑکھڑائیں
شیخ ڈاکٹر عبداللہ محیسنی


جو مسئلہ میں آپ کے سامنے آج رات کو بیان کرنے جا رہا ہوں،
وہ مسئلہ بہت اہمیت کا حامل ہے، پس اپنے کانوں کو میری طرف متوجہ کیجیے، اس مسئلہ میں خصوصی طور پر مجاہدین بھائیوں کی توجہ چاہوں گا،

#حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں
یہ ایسا مسئلہ ہے جس پر کثرت سے قیل وقال (یہ کہا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں) کا معاملہ اختیار کیا جاتا ہے،
اگر ہم قرآنِ مجید سے ہدایت لیں تو ہم اللہ کے اس فرمان کی پیروی کریں: [ حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں]

اے بھائیو!
اس مسئلہ میں بہت سے بھائیوں کی جہالت ہی اُن کے قدم لڑکھڑانے کا سبب ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے استقامت کا سوال کرتے ہیں،
پس ہم اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے بیان کرتے ہیں،

اے فیض یاب، #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں، اُس تکفیر پر جو ناحق ہو اور تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں داخل ہو جاؤ، [جس کسی نے بھی اپنے بھائی کو کہا: اے کافر! تو وہ تکفیر اُن میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹتی ہے]

#حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ، اُس تکفیر پر جو کسی مسلمان پر ناحق کی جائے، میں عجلت میں آپ سے کسی مسلمان کے خلاف کفار کی اعانت (مدد ) کرنےکے مسئلہ پر اہل علم کی طرف سے مختصراً بیان کرتا ہوں،

اس سے قبل کہ ہم مسئلہ اعانت پر بیان کریں،
یہ ضروری ہے کہ ہم آج میدانِ جہاد کے حالات کی وضاحت بھی کریں کہ یہ مسئلہ کیوں اتناسنجیدہ ہے،
ایک بھائی میرے پاس آئے اور کہا:
اے شیخ فلاں جماعت نے اللہ کے دین سے ارتداد اختیار کر لیا ہے؟
میں نےسوال کیا:
کیوں؟
اُس نے جواب دیا:
انہوں نےکفار سے بغاۃ (شدت پسند باغیوں) کے خلاف اعانت لی ہے۔اس کا اشارہ جماعتِ بغدادی کی طرف تھا، میں نے اس سے کہا:
کیا یہ نواقض اسلام (وہ اعمال جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کردیتے ہیں) کےکسی نواقض میں سے ہے؟ تو اس نے حیرت سے جواب دیا:
کیا اس مسئلہ میں اختلاف ہے؟
پھر میں نے اس کو علماء کے اقوال سے آگاہی دی اور اس سے متعلق دلائل پیش کیے، تو وہ حیرت زدہ رہ گیا، اور مجھ سے گزارش کی میں اس مسئلہ کو اپنے بیانات کے سلسلے کا حصہ بناؤں۔

پس اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے میں بیان کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سےسوال کرتا ہوں کہ میری ہدایت کی طرف رہنمائی فرمائیں،

یہ وہ مقام نہیں ہے کہ جہاں پر ہم اس مسئلہ سے متعلق درست ترین موقف کے بارے میں فیصلہ کریں، بلکہ اس کو بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ اہل علم (علماء وفقہاء) کے ہاں پائے جانے والے موقف کی وضاحت ہو سکے، #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ، اور تم مجاہدین کی تکفیرنا حق نہ کر دو اور اپنے جہاد کو تباہ کر بیٹھو،

پس اے فیض یاب، یہ جان لو: #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں
اہل علم کے اجماع کے مطابق مشرکین کی اعانت اور اُن کی جنگ میں نصرت مسلمانوں یا مسلمانوں کی جماعت کے خلاف کرنا حرام ہے۔

یہ جان لو کہ مشرکین کی اعانت مسلمانوں کے خلاف کرنا نواقض اسلام (وہ اعمال جو مسلمان کو دائرہ اسلام سے خارج کر دیتے ہیں) میں سے ہے، اوراللہ کے دین سے کھلا ارتداد ہے، جیسا کہ نیٹو (NATO)کی اعانت مجاہدین کے مقابلے میں کرنا۔

شیخ ابن بازؒ نےاپنے فتاوی میں کہا ہے: علمائے اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو کوئی بھی مسلمانوں کے مقابلے میں کفار کی مددکرے، چاہے وہ اعانت کسی بھی نوعیت کی ہو، وہ انہی کی مثل کافر ہے۔

شیخ احمد شاکرؒ کہتے ہیں: انگریزوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی معاونت مسلمانوں کے خلاف قتال میں کرنا، چاہے اس معاونت کا تعلق کسی بھی قسم سے ہو، چاہے تھوڑی ہو یا زیادہ،یہ شدیدترین ارتداد ہے۔ اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں یہ جان لو کہ
کفار کی اعانت(کفار کی مدد کرنا) کرنے کا حکم استعانت (کفار سے مددلینے) جیسا نہیں ہے،
ان حالات میں کفار کی اعانت کرنا جبکہ وہی اِس جنگ کے لیے تیاری کا حکم دیں، اوروہی کفار اُن لوگوں کو دعوت دیں، جو اسلام کے دعویدار ہیں کہ وہ اِس (کفار کی) جنگ میں اُن کے ساتھ مل جائیں،تو یہ کفر ہے

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ضروری ہے کہ علماء کے اس متفقہ مسئلہ کو بھی بیان کیا جائے: مسلمانوں کا کفار کے مقابلے میں کفار سے مدد لینا سرے سےعلماء کے نزدیک تکفیر کی بحث میں شامل ہی نہیں ہے اور نہ ہی سلف میں سے کسی نے ایسے فاعل کی تکفیر کی ہے۔

اور جس چیز پر فقہاء متفق ہیں وہ یہ کہ وہ کسی اُس مسلمان کی تکفیر نہیں کرتے، جوکسی ظالم باغی مسلمان کے خلاف کسی کافر سے مدد لے، بشرطیکہ مدد طلب کرنے والے مسلمان کا حکم (اقتدار) کفار پر غالب رہے اور مسلمانوں کا جھنڈا ہی بلند رہے۔

اور مسلمانوں کی مصلحت دوسروں کے مقابلہ میں (مدد طلب کرتے ہوئے) غالب رہے، ہماری اس عدم تکفیر کا مطلب ہرگزاس (کفار سے استعانت لینے کے)فعل کو جائز قرار دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مقصود اس فاعل کی تکفیر کرنے کی نفی ہے۔

اور اپنےاس مسئلہ کی تفصیل یوں ہے، یعنی:
کفار سے استعانت کسی مسلمان باغی کے خلاف لینا جبکہ قوت و غلبہ مسلمانوں کا ہی باقی رہے*
اس مسئلہ میں سب سےصحیح بات وہی ہے جو جمہورفقہاء نے اختیار کی ہے: اس کوناجائز (حرام)قرار دینا اور ہر حالت میں اِس کو جرم سمجھنا، اور یہ قول مالکی، حنبلی اور شافعی میں مشترک ہے جبکہ حنفی اختلافِ رائے رکھتے ہیں۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں اس بات پر توجہ دو کہ جنہوں نے اس کو حرام قرار دیا اور اس کی مذمت کی، جبکہ وہ کثرتِ رائے رکھتے ہیں،اُن میں سے کسی نے بھی استعانت لینے کو جائز سمجھنے والےکی تکفیر نہیں کی، اس لیے تکفیر(کسی پر کفر کا فتوی لگانا) اور تحریم (کسی چیز کو حرام قرار دینا) میں یہاں فرق ہے، اور اِس کو بیان کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ اس مسئلہ کو ہلکا سمجھا جائے۔

اوراگر وہ باغی ظالم ہیں اورکفار کا حکم (اقتدار)غالب آتا ہے، تو پھر ایسی صورت میں کفر کا جھنڈا سربلند ہو جائے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اس بہت خطرناک نازک مسئلے میں تساہل سے کام نہ لیا جائے۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں ہوشیاراور خبردار رہو، اللہ آپ پر رحم فرمائیں کہ کہیں اجتہادی مسائل جس میں علماء کا بھی اختلاف ہے، وہ کفر اور ارتداد کا مسئلہ نہ بن جائیں۔

اور یہاں پر ہم جہادی جماعتوں کی قیادت کو متعدد بار تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ تابع کفار سے استعانت کسی باغی مسلمان کے خلاف لینے (جبکہ غلبہ مسلمانوں کا رہے) اور کفار سے استعانت لینے جبکہ کفار کا غلبہ ہو کے مسئلہ میں عظیم فرق کو سمجھیں۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں آپ کو خبردار کرتے ہیں: اگر کوئی شخص کسی کافر سے استعانت لیتا ہے، جس کو آپ کافر سمجھتے ہیں، جبکہ وہ اسے کافر نہیں سمجھتا، تو اس میں اجتہادی رائے ایک قابلِ قبول معاملہ ہے، پس اس لیے یہ اختلافِ رائے جائز ہے، اور اس پر جو ہم نےاوپر بیان کیا، اُس کا اطلاق نہیں کیا جائے گا۔

اور #حتی_کہ_تمہارے_قدم_ نہ_لڑکھڑائیں خبرردار رہو، اللہ آپ پر رحم فرمائیں، کہ اگر باغی جماعت کے خلاف کافر اور مسلمان بیک وقت قتال بغیر کسی متفقہ سمجھوتے کے شروع کر دیں ،تو اس کو استعانت میں شمار نہیں کیا جاتا، اور یہ معاملہ سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔

میں ان بیانات کو بہت ضروری اہمیت کا حامل سمجھتا ہوں، پس اِس پر غوروفکر کریں اور اسے نشر کیجیے، اللہ تعالیٰ آپ کے درجات کو بلند فرمائیں، اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو ثابت قدم رکھیں اور ہمیں غلطیوں سے محفوظ رکھیں۔

از:
ڈاکٹر عبداللہ بن محمد المحیسنی


عربی متن:
http://justpaste.it/Takfeer

انگیریزی ترجمہ:
http://tinyurl.com/pd78qye