جمعرات، 14 مئی، 2015

مسئلہ تکفیر میں غلو کرنے والوں کے نام آخری انتباہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
مجلسِ شوری مجاہدین (درنہ اور اس کے مضافاتی علاقاجات)
مسئلہ تکفیر میں غلو کرنے والوں کے نام آخری انتباہ
(مجلسِ شوری مجاہدین درنہ کی جانب سے داعش کو قطعی فیصلہ کن پیغام)


تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے سچ کو جھوٹ پر غلبہ عطا فرمایا ،جس سے باطل تباہ ہو کر نیست و نابود ہو گیا اوردرودو سلام ہو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم پرجو گمراہوں اور بھٹکے ہوئے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لیےبھیجے گئے،بعدازاں:

پچھلے جمعہ کو بےوقوفوں میں سے ایک بےوقوف درنہ (لیبیا) کی مسجد فاطمۃ الزھراء کے منبر پہ جا بیٹھا اور اُس نے اُن مجاہدین کے خلاف زہرافشانی شروع کی جو کہ اللہ کے فضل و کرم سے صفِ اول کے معرکوں میں دشمنوں کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں،اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے ساتھ(جو مجاہدین کے خلاف زہرافشانی کرتے ہیں) وہی معاملہ کریں جس کےوہ مستحق ہیں، اس شخص نے دعوی کیا کہ صرف وہی( داعش؍جماعت الدولۃ) حدود اللہ کی حفاظت کر رہے ہیں جبکہ ان کے علاوہ باقی تمام جماعتیں صرف طاغوت کی حمایتی ہیں، یہ شخص اپنی جماعت (داعش) کی تعریفیں کرتا رہا اور باقی مجاہدین کی تحقیر کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ یہودیوں کےاس کلمہ کے مصادق بن گیا، جو کہتے ہیں (ہم اللہ کے بیٹے ہیں اور اُس کے محبوب ہیں)، اور یہی طریقہ اِن(جماعت الدولۃ) کا تمام ساحاتِ جہاد میں کارفرما ہے (کہ وہ خود کو باقی مجاہدین پرجھوٹی فوقیت دینے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ یہود خود کو باقی قوموں پر جھوٹی فوقیت دینے کی کوشش کرتےہیں)۔

ہم نے اس خطیب کے معاملے میں صحابہؓ کے اُس طریقے کو اپنایا، جو طریقہ انہوں نے اہل بدعت اور اہل ہوائے نفس کے معاملے میں اختیار کیا تھا،ہم نے اس خطیب کے الفاظ کواِن ( داعش؍جماعت الدولۃ) کے اعلیٰ عہدےدار پر پیش کیا، تو اس نےخطیب کے الفاظ سے برات کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ خطیب اُن کی نمائندگی نہیں کرتا،پھریہ کس طرح عامۃ المسلمین پرتو ولایت کا دعوی کرتے ہیں، لیکن اپنےاُس خطیب پر حکم لگانے سے عاجز ہیں، جو منبر پر چڑھ کر مسلمان عوام سے مخاطب ہوتا ہے ؟! اور اگر اِن (داعش )کا یہ بڑا(اعلی عہدے دار) اپنے صغیر(خطیب) کے الفاظ سے برات کا اظہار نہ کرتا ،تو ہمارے اور اُن کےدرمیان معاملہ مختلف ہوتا۔

اِس گمراہ مارقہ خطیب کو جان لینا چاہیے کہ اللہ کے حکم کو قائم کرنے کا اُن کا دعوی باطل پر مبنی ہے، بلکہ یہ اپنے دعوے میں عرب طواغیت سے مماثلت رکھتا ہے جو بعض شعارِ اسلام کا استعمال کرنے کی وجہ سے برباد ہو گئے،تاکہ اس کے ذریعے لوگوں کی اہانت کر سکیں، کیونکہ کسی بھی خلافت (یا حکومت) کا دعوی جومسلمانوں کے مشورے کے بغیر کیا جائے، وہ انہی طواغیت حکومتوں کی مثل جیسا ہی ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں روایت ہے[اگر کوئی مسلمانوں کے مشورے کے بغیر کسی شخص کی بیعت کرے، تو ایسے شخص کے لیے کوئی بیعت نہ دی جائے] ایک دوسری روایت میں ہے[جو کوئی بغیر صلاح و مشورےبیعت کر لے تو دوسرے لوگ بیعت کرنے والے کی پیروی نہ کریں، نہ اس کی جس سے بیعت کی گئی ہے کیونکہ وہ دونوں اپنی جان گنوائیں گے] (رواہ البخاری)، اس کے علاوہ تمہاری (نام نہاد) خلافت کے باطل ہونےسے متعلق تمام شرعی دلائل علمائے امت کی کتب میں درج ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ تمہاری( نام نہاد) خلافت سے متعلق تمام عالم کے علمائے امت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ خلافت کا یہ دعوی باطل اور بےبنیاد ہے۔

ان مزارات کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جس کی حمایت اور حفاظت کی گئی جو تمہاری مزعومہ خلافت کے اندر موجود ہیں؟ اور اس شخص کا حکم کیا ہے جو اس پر راضی ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے؟

تمہارے اس خطیب سے متعلق اللہ کا حکم کہاں ہے، جو تمہاری خلافتِ مزعومہ کے اندر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت صریح کفریہ کلمات کہتا ہے، اور دعوی کرتا ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہوتے تووہ تمہارے(داعش) امام کی اتباع کرتے(نعوذ باللہ)؟ تمہارا اُس کے اوپر اللہ کا حکم کہاں ہے؟ تمہارا اُس شخص سے توبہ کرنے کا مطالبہ کہاں ہے؟ یا پھر یہ کہ تم نے فقط اساتذہ اور مجاہدین سے ہی توبہ کروانے میں خصوصی مہارت حاصل کر رکھی ہے؟

ایسا کیوں ہے کہ تمہارے مشائخ تبھی آوازیں بلند کرتے ہیں جب اُنہوں نے اُن مجاہدین کی تکفیر کرنی ہوتی ہے، جو تم سے اختلاف کریں اور یہ اُن کی بھی تکفیر کرتے ہیں جنہوں نے اجتہاد کیا اور ثابت کرتے ہوئے واضح کیا کہ ایک غیر مسلم کو پناہ دینے کا معاہدہ کیا جا سکتا ہے اگر اس بات کی اُمید ہو کہ وہ اسلام قبول کر لے گا اور ایسے شخص کو قتل کرنے سے دوسرے مسلمانوں کے مصیبت میں پڑنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے؟

ان نماز چھوڑنے والوں اور نشہ کرنے والوں کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جنہیں تم اپنی صفوں میں تعداد بڑھانے کی غرض سے شامل کرتے ہو؟

برقہ دھماکوں کی بابت اللہ کا حکم کہاں ہے، جس کی ذمہ داری تمہاری ولایت کے ماتحت ولایت برقہ نے قبول کی، جس کا تنیجہ سوائے مسلمانوں کے زیرِ استعمال سڑکوں میں بم دھماکے والی گاڑیوں کی تنصیب کے کچھ نہ نکلا اور جس میں سینکڑوں معصوم مسلمان جاں بحق ہوئے؟

اللہ کا حکم مسلمانوں کے خون سے متعلق کہاں ہے، جن میں آل الحریر کا خاندان شامل ہے، جن کا گھر تم نے نا حق مسمار کر دیا ؟ اور ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں، جوتمہارے حملے کے وقت اپنے گھر کے دفاع کے لیے سامنے آ گئیں، اور پھر زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہسپتال میں دم توڑ گئیں، اور تم نے ان کا قتل اس بنیاد پر کیا یہ ’طائفۃ ممتنعہ‘ہیں ) ہر وہ گروہ جو اسلام کے ظاہری اور متواتر احکام و قوانین میں سے کسی بھی حکم کو قائم کرنے سے اجتناب برتے اورجس کے خلاف قتال کیے بغیر اس پر قدرت پانا ممکن نہ ہو)!!! کہاں ہے تمہارا دین، تمہاری فیاضی، تمہاری مردانگی جب تم دو خواتین کو ایسی حالت میں قتل کرتے ہو؟!! اور کہاں ہے تمہاری قوت و طاقت جس کے ذریعےتم اِن دو خواتین کو جوایسی حالت میں ہیں، اُن کی نسبت تم’طائفہ ممتنعہ‘ کی طرف کرتے ہو؟!! اگر یہ دعوی کرنے والا کہ یہ خواتین ’طائفۃ ممتنعہ‘ ہیں کوئی چھوٹا بچہ ہوتا، تو کوئی مناسب بات لگتی (کہ وہ تو ناپختہ ذہن کا مالک ہے)، مگر یہ دعوی تو اُن بھاری اسلحہ بردار (داعش کے)افراد کی جانب سے کیا جا رہاتھا، پس ایسے لوگوں کے لیے زمین کی مٹی میں ہونا اولیٰ ہے بہ نسبت زمین کی پشت پر ہونے سے!

اللہ کے حکم کو قائم کرنے کے لیے، اے بے وقوف مارقہ شخص ،ہم اللہ کے فضل سے کھڑے ہوئے، اور طاغوت کے حکم کو اکھاڑ دیا، خوفزدہ کو امن فراہم کیا،اور بھوکوں کو کھانا کھلایا اور صفِ اول کے محاذوں پر ثابت قدم ہوئے، اگر ہم پر اللہ کا فضل نہ ہوتا اور اس کی مدد شاملِ حال نہ ہوتی، تو تمہیں بھی اس شہر میں قدم رکھنے کی جگہ میسر نہ آتی۔

اللہ کا حکم، اے بےوقوف گمراہ مارقہ شخص، جس کو تم نےدرنہ شہر کے منبر پر بیان کیا، اس کو تمہارے بڑے مرتوبہ (شہر) کےمنبروں میں سے کسی منبر پر بیان کرنے سے بھی قاصر ہیں، جو کہ درنہ کی حدود میں ایک چھوٹا سا شہر ہے، یہ بھی اس وقت جب اُن (بڑوں) نے اپنے لیے ولایتِ برقہ کا دعوی کیا جو کہ(تمہاری نام نہاد ولایت میں) لیبیا کے ایک تہائی حصہ کا احاطہ کرتی ہے، یہ کس قسم کا فریب ہے جس کے ذریعے تم امت کو دھوکےمیں ڈال رہے، اور یہ کیسا جھوٹ اور افتراء ہے جو کہ تم ہم پر گڑھ رہے ہو؟!!

اللہ کےحکم کو قائم کرنے کے لیے، اے بے وقوف گمراہ مارقہ شخص، یہ کوشش ہوتی ہے کہ مسلمانوں کو ایندھن فراہم کیا جائے، نہ کہ اپنی حماقتوں کے سبب اُس کو منقطع کر دیا جائے، اللہ کے فضل سے جب مجاہدین کو تمکین حاصل ہوئی، تو وہ اس ایندھن کوحکمت اور بہترین نصیحت کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچانے کا وسیلہ بن گئے، تو تم نے اپنی حسبہ (جماعت الدولۃ کی خودساختہ پولیس) گاڑیاں ان ایندھن والی گاڑیوں کے پیچھے لگا دیں ، پھر اپنے لیے کچھ تصاویر لیں، اور پھر امت کے سامنے جھوٹ بولا کہ تم لوگ مسلمانوں کو ایندھن فراہم کر رہے ہو، اور تم نے اِن ایندھن والی گاڑیوں کو زبردستی مرتدین سے لے کر یہ کام سرانجام دیا!! پھر تم ایندھن کے گوداموں کے مالکان کے پاس گئے، اور پھر اس ایندھن کی تقسیم زبردستی اور اُن کی ناخوشی کے باوجود کر دی، تاہم پھر بھی تم اللہ کےحقوق مسلمانوں کی صفوں میں تقسیم کر کے پورے نہیں کر پائے، کیونکہ تم خود کو مسلمان عوام سے زیادہ ترجیح دیتے ہو۔

جہاں تک تمہاری مجاہدین کی بابت تکفیر کا مسئلہ ہے، اے بےوقوف گمراہ مارقہ شخص،جن کےجہاد کو تم نے سبوتاژ کیا ہے، اور جن سے تم نے اُس شہر کو چھین لیا جب انہوں نے وہاں سے طاغوت کے حکم کوختم کر دیا تھا،بلاشبہ ہم نے اس سے متعلق اپنے پیغام (کتیبہ شہداء ابو سلیم کی بابت شبہات کا ازالہ) اور اسی طرح اپنے رسالہ(مجلسِ شوری مجاہدین کی بابت باضابطہ مارقین کو رد) نشر کیے، ان بیانات کے بعد مجاہدین کی تکفیر کرنے کی بابت کوئی عذر باقی نہیں، ان پیغامات سے اقامتِ حجت ہوتی ہے، اور مسلمانوں کی ناحق تکفیر پر اب سزا قائم ہوتی ہے، جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ سے صحیح بخاری میں حدیثِ ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ میں بیان ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُهُمَا
[جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر اُن میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا]

اور حدیثِ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

أَيُّمَا رَجُلٍ قَالَ لِأَخِيهِ يَا كَافِرُ، فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُهُمَا
[جو شخص اپنے (مسلمان ) بھائی کو کافر کہے، تو ان دونوں میں سے ایک کفر کے ساتھ لوٹے گا]

اور حدیثِ ثابت بن الضحاکؓ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

وَلَعْنُ المُؤْمِنِ كَقَتْلِهِ، وَمَنْ رَمَى مُؤْمِنًا بِكُفْرٍ فَهُوَ كَقَتْلِهِ
[مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کے مانند ہے، اور جو جس نے مومن پر کفر کا الزام لگایا، تو گویا اُس نے اسے قتل کر دیا]

اور حافظ ابو یعلی حذیفہ بن الیمان ؓسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

إن مما أتخوف عليكم رجل قرأ القرآن حتى إذا رؤيت بهجته عليه ، وكان رداؤه الإسلام اعتراه إلى ما شاء الله ، انسلخ منه ونبذه وراء ظهره ، وسعى على جاره بالسيف ورماه بالشرك ، قال : قلت : يا نبي الله ، أيهما أولى بالشرك المرمي أم الرامي ؟ قال : بل الرامي
[بلا شبہ میں تم پر ایسے آدمی سے خوف زدہ ہوں جس نے قرآن پڑھا، یہاں تک کہ جب اس پر اس کی رونق نظر آنے لگی اور وہ اسلام کا مددگار تھا تو اللہ تعالیٰ نے جس طرف چاہا اس کوپھیر دیا، پس وہ اس سے نکل گیا اور اس نے اُس کو پس پشت پھینک دیا اور اپنے پڑوسی پر تلوار سے حملہ کردیا اور اس پر شرک کی تہمت لگا دی، تو میں نے پوچھا کہ اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!ان دونوں میں سے شرک کے زیادہ لائق کون ہے جس پر تہمت لگائی گئی یا کہ تہمت لگانے والا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ تہمت لگانے والا(کفر کے زیادہ لائق ہے)]

حافظ ابن کثیرؒ نےاِس روایت کو اللہ تعالیٰ کےاس فرمان کی تفسیر میں بیان کیا ہے:

واتل عليهم نبأ الذي آتيناه آياتنا فانسلخ منها فأتبعه الشيطان فكان من الغاوين(۷: ۱۷۵)
[اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنائیے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وه ان سے بالکل ہی نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وه گمراه لوگوں میں شامل ہوگیا]

اور کہا کہ اس(حدیث) کی اسناد عمدہ ہیں۔

امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں بیان کیا:

بَابُ قَتْلِ الخَوَارِجِ وَالمُلْحِدِينَ بَعْدَ إِقَامَةِ الحُجَّةِ عَلَيْهِمْ
[خوارج اورملحدین پر اقامتِ حجت قائم ہو جانے کے بعد قتل کرنے کا باب]

اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان:
وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّى يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُونَ (التوبة: ۱۱۵)
[اور اللہ ایسا نہیں کرتا کہ کسی قوم کو ہدایت کر کے بعد میں گمراه کر دے جب تک کہ ان چیزوں کو صاف صاف نہ بتلادے جن سے وه بچیں بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے ]

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما انہیں بدترین مخلوق سمجھتے تھے اور فرماتے تھے :

إِنَّهُمُ انْطَلَقُوا إِلَى آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الكُفَّارِ، فَجَعَلُوهَا عَلَى المُؤْمِنِينَ
[یہ (خوارج) وہ لوگ ہیں جو کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق اہلِ ایمان مومنین پر کرتے ہیں]

ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری میں کہتے ہیں:

(وكان ابن عمر يراهم شرار خلق الله) الخ وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بكير بن عبد الله بن الأشج أنه سأل نافعا كيف كان رأي بن عمر في الحرورية قال كان يراهم شرار خلق الله انطلقوا إلى آيات الكفار فجعلوها في المؤمنين قلت وسنده صحيح وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذر في وصف الخوارج هم شرار الخلق والخليقة وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعا مثله وعند البزار من طريق الشعبي عن مسروق عن عائشة قالت ذكر رسول الله صلى الله عليه و سلم الخوارج فقال هم شرار أمتي يقتلهم خيار أمتي وسنده حسن وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا هم شر الخلق والخليقة يقتلهم خير الخلق والخليقة وفي حديث أبي سعيد عند أحمد هم شر البرية وفي رواية عبيد الله بن أبي رافع عن علي عند مسلم من أبغض خلق الله إليه وفي حديث عبد الله بن خباب يعنى عن أبيه عند الطبراني شر قتلى أظلتهم السماء وأقلتهم الأرض وفي حديث أبي أمامة نحوه وعند أحمد وبن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعا في ذكر الخوارج شر الخلق والخليقة يقولها ثلاثا وعند بن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عن أبي هريرة هم شر الخلق وهذا مما يؤيد قول من قال بكفرهم. أهـ
[ابن عمرؓ ان (خوارج) کو بدترین مخلوق سمجھتے تھے] الخ امام طبری مسند علی میں بیان کرتے ہیں جس کا سلسلہ تہذیب الاثار میں بکیر بن عبداللہ بن الاشج سے ہے، انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبداللہ بن عمرؓ کی حروریہ (خوارج) کے متعلق کیا رائے تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ ابن عمرؓ ان کو اللہ کی بدترین مخلوق سمجھتے تھے کیونکہ وہ (خوارج) کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مومنین پرکرتے تھے، امام ابن حجر العسقلانی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، امام مسلم سے بھی صحیح مرفوع حدیث سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے جس میں وہ ابوذر رضی اللہ عنہ سے خوارج کی صفت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ بدترین مخلوق ہیں، امام احمد نے بھی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی طرح کی مرفوع حدیث عمدہ سند سے روایت کی ہے، امام البزار نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج سے متعلق ذکر کرتے ہوئےارشاد فرمایا [وہ (خوارج) میری امت کے بدترین لوگ ہیں اور اُن کو میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے]، اور اس کی سند حسن ہے، امام طبرانی نے بھی اسی طرز پر مرفوع حدیث کے سلسلے میں اس طرزکے ساتھ بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا [خوارج تمام مخلوقات میں بدترین ہیں اور جوخلقِ خدا میں اِن( خوارج )کو قتل کریں گے، وہ تمام مخلوقات میں بہترین ہوں گے]، اور ابی سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث جو امام احمد سے روایت کی گئی ہے میں بیان ہوا ہے[یہ (خوارج) بدترین مخلوق ہیں] اور صحیح مسلم میں عبیداللہ بن ابی رافع سے سیدنا علیؓ سے روایت ہے [اللہ کی تمام مخلوقات میں سے قابلِ نفرت(خوارج) ہیں] اور طبرانی میں عبداللہ بن خباب ؓ سے حدیث بیان ہوئی ہے[ یہ (خوارج) بدترین مخلوق ہیں جنہیں آسمان کا سایہ میسر آیا اور جن کا بوجھ زمین نے اٹھایا]، اور حدیثِ ابو امامہؓ میں بھی ایسے بیان ہوا، اور ابو برزۃ کی مرفوع حدیث میں امام احمداور ابی شیبۃ سے بھی خوارج کے متعلق ذکر کیا گیا [یہ خلق و مخلوق میں بدترین ہیں]، ایسا انہوں نے تین بار کہا، اور اسی طرح ابی شیبۃ کے جانب سے عمیر بن اسحاق سے ابو ھریرہؓ نے بیان کیا کہ [وہ بدترین مخلوق ہیں]، اور یہ ان (علماء وفقہاء) کے قول کی تائید کرتا ہے جو ان (خوارج) کی تکفیر کی رائے رکھتے ہیں۔

اس سب کو بیان کرنے کے بعد ہم اس بے وقوف گمراہ مارقہ شخص اور اس کی امثال جیسے افراد سے کہتے ہیں کہ وہ قدرت حاصل ہونے سے قبل، مجاہدین کی تکفیر کرنے پر اللہ سے توبہ و معافی کے طلبگار ہوں، اور یہ لوگ اس بات سے دھوکہ نہ کھا بیٹھیں کہ مجاہدین طغاۃ(جابر ظالم طاغوت) کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں(اور یہ اس سے فائدہ اٹھا لیں گے) ،کیونکہ بغاۃ(شدت پسند تکفیری باغیوں) کے خلاف رد بھی اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ طغاۃ (جابر ظالم طاغوت) کےخلاف اس کی اہمیت ہے، اور ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان دو میں سے ایک کا اعزاز بخش دیں ۔

مجلسِ شوری مجاہدین (درنة اور اس کے مضافاتی علاقاجات)
بدھ 17 رجب 1436 هـ موافق لـ 06/05/2015





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں