جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ
جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے رکے توڑ ڈالا!

تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود وسلامتی ہو،
اس کے بعد،

اہل اسلام کے نزدیک خلافت اور امامت بہت اہم منصب اور عظیم درجہ کے حامل معاملات  ہیں، جن کے لیے مخلص اہلِ اسلام اس عظیم امر کو بحال اور قائم کرنے کے لیے کوشش جاری رکھتے ہیں، اور ان کے قبل از وقت اندازے نے انہیں  اکثر متاثر کیا یہاں تک کہ ایک گروہ نے خلافت کو قائم کرنے میں جلدی کی اور خلیفہ   منتخب کر لیا۔ انہوں نے ایسے شخص کو اہل ِاسلام کے اوپر منصب پر فائز کیا جس کے پاس نہ سلطہ تھا نہ حکومت، جو لندن میں جا کر پناہ گزین بنا، اور اس نے لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف دعوت دی اور جن لوگوں نے اس کی بیعت نہ کی ان کو گناہ گار ٹھہرایا، اور باقی اسی قسم کے افراد نے اس مسئلہ کو اتنا تنگ کر دیا کہ مہدی ہونے کا دعوی بھی کرنے لگے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ  یہ تمام امور اس بات کی طرف نشاندہی کر ر ہے ہیں کہ سب ایک ہدایت یافتہ خلیفہ کی تلاش میں ہیں جس کی امامت کو سب تسلیم کر لیں۔

اسی قسم کی دیگر مختلف کوششیں صرف اور صرف ایک ہی شخص کی خدمت میں صَرف ہوتی ہیں، اور حقیقت میں مسلمانوں کے درمیان ایسے شخص کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے، ایسے شخص کو یہ منصب اور عہدہ اپنے ہی گروہ  کے منتخب کرنےسے مل جاتا ہے، اور وہ اصل معنوں میں ان لوگوں کا انتخاب نہیں ہوتا جن کو امت منتخب کرے، جن پر  اہل حل و عقد میں سے علماء ربانین جمع ہوں، جو اگر مسلمانوں کو کوئی پریشانی پہنچے تو  ہمیشہ مدہم پڑ جا ئیں یامسلمانوں کے سینوں میں اس منصب کو مسخ ہوتا دیکھیں تو پیچھے ہٹ جائیں ۔

لیکن ایک گروہ کا ظہور ہوتاہے جو بنیادی طور پر شدت پسند فن ِخطابت میں مہارت رکھتا ہے، جو مخالفین سے اخراجی  اصولوں کے تحت تعامل کرتا ہے، جو کہ علماء  امت اور کبار علماء پر عدم اعتماد کا سرخیل ہے اورامت پر شریعت کی تحکیم کی خواہشات کا اظہار بھی کرتاہےجبکہ وہ  بذاتِ خود مسلمانوں کے خون اور اموال کے معاملات میں کسی بھی قسم کی تحکیم کا انکاری ہے! پھریہ مسلمانوں کی سرزمین میں سے کچھ پر  غلبہ پاتا ہے، اور اس سے قبل کہ وہ وہاں کے معاملات پر مکمل گرفت کر لے، اور وہاں کے مسلمان اور علماء صادقین اس معاملہ پر راضی ہو جائیں، وہ اپنے خلیفہ کی بیعت کو  دنیا میں بسنے والے تمام مسلمانوں پر لازم قرار دے دیتا ہے اوراس خلیفہ کی طرف ہجرت کو لازمی قرار دیتا ہے، اور جو کوئی ایسا نہیں کرتا، اسے گناہ گار سمجھا جاتا ہے، معاملہ یہاں تک پہنچتا ہے کہ ہمیں امام مالکؒ کی طرزپر جبری  طلاق اور بیعت پر فتوی دینا پڑ جاتا ہے۔

مجھے خواتین کی طرف سے سوال موصول ہوئے  ہیں جن میں ان کے خاوند کی طرف سے طلاق یا بیعت(بغدادی) میں سے ایک کو چننے کا کہا گیا ہے۔ تو میں نے انہیں جواب دیا ہے’اگر تم طلاق کوناپسند کرتی ہو تو بیعت  کو دے دو‘۔ یہ  جبری بیعت کہلائے گی جو کہ لازم بیعت نہیں ہے۔ اگر اس کا خاوند اسے طلاق کی دھمکی دے اور طلاق طلب کرے، تو اس ضمن میں امام احمد بن حنبلؒ کے الفاظ جبری طلاق کے  حوالے سےمعروف و معلوم ہیں۔ میں اس قسم کے سوالات اور فتاوی کوکسی  انتہا پسند سخت مزاج کٹر کی طرف سے مسلمانوں کے اوپر متواتر جارحیت کے زمرے میں رکھتا ہوں جو انہیں تلوار کے ذریعے دھمکی دیتے ہیں اور پھر انہیں گناہ گار یا کافر قرار دیتے ہیں، جو اس حد سے اتنا تجاوز کرتے ہیں کہ خواتین کو بھی طلاق کی دھمکیاں دے ڈالتے ہیں۔

اس سے بھی زیادہ سنگین مسئلہ جس نے مجھے ان الفاظ کو لکھنے کی طرف دعوت دی وہ طلاق کے وہ اسباب ہیں جس کو مجاہدین اور ان کی جماعتوں اور امراء میں عام کیا گیا، جس کے ذریعے صفوں میں افراتفری کو پھیلایا گیا اور ساخت کو غیر مستحکم کیا گیا، جب اس کے مرکزی ترجمان نے کہا:

[روئے زمین پر موجود تمام گروہوں اور جماعتوں کے لیے جو  اسلامی نعروں کو بلند کرنے والے ہیں اور اسی طرح اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے کوشش کرنے والے ان  تمام مجاہدین، قائدین اور امراء کے لیے یہ پیغام ہے کہ: اللہ سے اپنے بارے میں ڈرو! اللہ سے اپنے جہاد کے بارے میں ڈرو!۔۔۔۔۔ اللہ کی قسم ! ہم تمہارے لیے اس ریاست (دولت) کی مدد سے پیچھے رہنے کے لیے کوئی شرعی عذر نہیں پاتے ہیں]

اور پھر اُس نے یہ بھی کہا:
[اے گروہوں اور تنظیموں کے سپاہیو، جہاں تک تمہارا تعلق ہے، یہ جان لو کہ زمین پر غلبہ اور قیامِ خلافت کے بعد، تمہارے گروہوں اور تنظیموں کی شرعی حیثیت کالعدم ہو چکی ہے، اور تم میں سے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں، جو کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے کہ وہ خلیفہ کو بیعت دیے بغیر سو جائے]

پس آپ اس چیز پر غور و فکر کیجیے کہ انہوں نے کس طریقہ سے مجاہدین کے جہاد کو کالعدم قرار دے دیا اور لوگوں کو اپنی پیروی کی تحریض دلائی جبکہ یہ خود پہلے ا نہی (امراء) کے پیروکار تھے، اور طالب علم کو عالم پر ترجیح دی! یہ کس قسم کی سازش ہے جس کے ذریعے مجاہدین کی صفوں کو توڑ کر تقسیم کیا جا رہا اور ان کی ساخت کو کمزور کرنے کی  سعی کی جارہی ہے؟

ہم دنیا بھر میں اپنے داعیانِ دین اور مجاہدین بھائیوں سے کہتے ہیں: آپ اللہ تعالیٰ کے اس کلام اور نصیحت کو   سنیے، اور جو چیز بھی اِس کے خلاف ہو، اسے دیوار پر دے ماریے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول  کا کہا مانو اور اپنے اعمال کو غارت نہ کرو ۔[٤٧:٣٣]

مزید فرماتے ہیں:
وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا
اور اس عورت کی طرح نہ ہو جاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا۔[۹۲:۱۶]

پس اپنی قیادت، امراء اور  کبار قائدین کے گرد خود کو اکٹھا کر لیجیے اور ان لوگوں کی صداؤں سے کمزور مت ہوں جو مسلمانوں کی صفوں کو تقسیم کررہے ہیں، جو اس طرح دیکھتے ہیں کہ سوائے ان کے کسی کے پاس بھی حق نہیں ہے، اور جو کوئی بھی ان کے ساتھ نہیں ہے، وہ ان کا دشمن ہے۔

پس انہوں نے پہلے بھی استعمال کیا اور اب بھی استعمال کر رہے ہیں؛ مجھے نہیں علم کہ یہ دانستہ ہے یا مغالطہ کی وجہ سے ہے یا  لغویات کی وجہ سے، جب کہ یہ ایک نفرت انگیز قسم کی سازش اس بابرکت جماعت کے خلاف کر رہے ہیں اور اسی طرح عمومی طور پر  اہلِ اسلام کے خلاف ان کی یہ سازش جاری ہے۔۔۔جس کو انہوں نے ایک ‘حقیقی اسلامی منصوبہ’ کا لباس پہنا رکھا ہے! پس اس کے ذریعے انہوں نے امت کے بیٹوں کو گمراہی  پر ڈالا، اور میں ان کے زیادہ تر کے اخلاص پر بالکل بھی شک نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان   کی اسلامی حمیت کے بارے میں شک میں ہوں، لیکن میں ان کی عقلوں کی دانشمندی اورعلم و فہم کے درست ہونے پر سوال ضرور اٹھاؤں گا۔۔۔یہ بات ان کے  پیروکاروں اور معتقدین سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ  اس تنظیم کے امراء کی متواتر جارحیت ، سطحی علم، عجلت پسندی، مختصر اندیشی، اور ان کا علماء کی طرف سے حق بیان کیےجانے کے بعد روگردانی کا مظاہرہ ہوا۔۔۔ وہ بھی انہی علماء  کی تحاریر سے جنہیں پڑھ کر یہ بڑے ہوئے اور آج بھی پڑھ رہے ہیں،شاید ان کی صفوف میں کچھ گمراہ شدت پسند اور دیگر عوامل کے داخل ہونے  کی وجہ سے،  اس تمام سازش کوعملی جامہ پہنایا گیا، جو اب بھی اس بابرکت  (جہادی) تحریک کے خلاف جاری ہے، جن میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں۔

1. ان تمام سابقہ تجربہ کار مجاہدین کو اپنے رستےسے ہٹانا جن کے اوپر شام  کے لوگ جہاد کے ثمرات کو حاصل کرنے  کےلیے اعتماد کرتے ہیں تاکہ جو لوگ صرف میدانِ عمل میں باقی پچیں وہ یا تو جاہل ہوں یا متکبر یا بے وقوف یا پاگل!
تمہارے لیے تو مطلع صاف ہے چاہے تو سفید کرو یا پیلا  *** اور جو چیز بھی چاہو اسے اپنی مرضی کے مطابق تباہ کر لو

2. جہادی فکر کے اُن استعار علماء کا سقوط کرنا کیونکہ وہ اس تنظیم کی من پسند باتوں  سےراضی نہ ہوئے اور اس تنظیم کی شدت پسندی، جارحیت اور گمراہی کی حمایت نہ کی۔

3. جہادی تحریک میں بدعنوانی کوپھیلانا، طواغیت کے ساتھ تنازعہ  کے دائرے کو منتشر کرنا، اور امت کے دشمنوں سے اسلحہ کو ہٹا کر اس کا رخ مخلص مجاہدین یا مسلم عوام کے بیٹوں کی طرف کرنا، اوراس کے لیے مختلف حیلے بہانے سے کام لینا اور ایسی عمومی باتوں کا اطلاق اُن پر کرنا جن کو کرنے کی اِن کو قطعاً اجازت نہیں ہے۔

4. لوگوں کو پریشان کر کے ان کی توجہ اسلامی تحریک سے  موڑنا اور کسی بھی قسم کی ممکنہ مقبول عوامی حمایت پر آگ برسانا اور اپنے برے اعمال  کے سبب کسی بھی قسم کی امت کی حمایت جو اُس تحریک کی طرف ہو اس کو روکنے کی سعی کرنا اور اس کا  عملی اطلاق میدان میں کرنا، اور لوگوں سے ان کے مختلف   طبقاتِ فکر اور مذہبی وابستگی کی بنیاد پر بدسلوکی کے ذریعہ معاملہ کرنا۔

5. اپنی بداعمالیوں، جارحیت، شدت پسندی اور خونریزی  کے ذریعےلوگوں کے سینوں میں خلافتِ اسلامیہ اورامارتِ اسلامیہ کے منصوبوں کو مسخ کرنا۔ یہ بداعمالیاں لوگوں کو اس منصوبہ پر کام کرنے سے روکنے  کاباعث بن سکتی  ہیں جب لوگ اس قسم کے ناکام تجربہ سے گزریں گے جو عیوب،جارحیت اور خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا  ہو گا۔

6. انہوں نے یہ تمام تجاوزات مندرجہ بالا اعلانات  (خلافت) سے کیے،یہ  ان مجاہدینِ امت کے خلاف ان کی صفوں کو توڑنے کے لیے کام کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کے لیے کوشش کر رہے ہیں، اور ساتھ ان   مجموعوں کے خلاف بھی  تخریب کاری کرتے ہیں، جو دین کی نصرت میں لگے ہوئے اور اپنے معتقدین کو ان امراء کے خلاف بھڑکاتے ہیں، اور طلباء کو اپنے  مشائخ سے بدظن کرتے ہیں۔

کیا تم نے کبھی اس طرح کے منحوس ثمرات کسی بھی جہادی تحریک اوران کے ابطال کے لیے دیکھے ہیں بہ نسبت اس دعو ی قیامِ خلافت کرنے والوں کے؟ کیا خلافت کا کسی حصہ پر قائم کرنا اس چیز کا متقاضی بن  گیا ہے کہ  جو دعوت وجہاد باقی علاقوں میں جاری  ہے،وہاں موجود تمام جہادی جماعتوں کو بکھیرنے اور منتشر  کرنےکا کام کیا جائے اور وہاں پر ان کو اپنے ہی مشائخ کے خلاف مختلف میدانِ جنگ میں ابھارا جائے؟

یہ ایک اور سازش ہے جو مبارک جہادی تحریک اور اس کی مخلص  جماعتوں کے خلاف کی جار ہی ہے۔ خلاصہ بیان یہ کہ: تم ہمارے ساتھ ہو جاؤ، ورنہ تماری صفوں میں تفریق پیدا کر دیں گے اور اس کو منتشر کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ وہ طریقہ کار ہے جو فوضوی (انتشاری پسندگروہ) کے پیروکار اپنے ملکوں میں استعمال کرتے ہیں جب وہ دوسروں پر آمر بن جاتے ہیں، اور کھیل کے دوران آپ کو ان سے یہ بات سننے کو ملے گی، ‘ یا تو میں کھیلوں گا یا میں  تمہارے کھیل کو برباد کر دوں گا’ مطلب، یا تو وہ خود کو دوسروں پر مسلط کریں گے اور مرکزی کھلاڑی کا عہدہ قبول کریں گے یا  پھر وہ تمام کھیل  میں شر انگیزی اور انتشار پھیلائیں گے۔یہ وہ اخلاقیات ہیں جو سڑکوں کے بچے اپناتے ہیں، اور یہ معاملات دعوت اور جہاد کے داعیان کے  شایانِ شان نہیں ہے۔۔۔پھر آپ  کے پاس انتخاب کرنے کے لیے بچتا ہی کیا ہےجب یہ لوگ خود کو آپ پر مسلط کر لیں، یا تو وہ کھیل کی صدارت کریں گے اور اسے اپنی خواہشات، جہالت، متواتر جارحیت کے ذریعے  چلائیں گے یا اس میں فساد اور تخریب کاری کریں گے! یا پھر دوسرے الفاظ میں:  یا وہ یا سیلاب!

حقیقت یہ ہے کہ ان کا حالیہ اعلان بہت ہی خطرناک ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا، مجھے اس بات سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا ہے کہ اگر اپنی خلافت کا اعلان شام میں کریں یا عراق میں یا پھر لند ن میں!

ہم خلافت کے دشمن نہیں ہیں بلکہ ہم اس منصوبہ کی طرف دعوت دینے والے بہترین انصاران اور داعیان ہیں  اور ان  لوگوں کی حمایت کرتے ہیں جو ان کو قائم کر لےیا اس کی کوشش کرے۔تاہم، خلافت کا منصوبہ مسلمانوں کی ذاتی اقدار  کا لحاظ رکھنے والا ہوتا ہے اور ان کے تمام حصوں کو جمع کرنے والا ہوتا ہے، نہ کہ ان حصوں میں موجود صفوں کو  منقسم کرنے کا!
اور یہی امام کی خاصیت ہے جیسا کہ نبی آخر الزمان (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خبر دی گئی :
[اس (امام) کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے امان دی جاتی ہے’]  (رواہ مسلم)

یہ مسلمانوں کے لیے تمام قسم کے شر سے حفاظت کی ڈھال ہے، نہ کہ ایسی چیز ہے جو خودشر کی دعوت دے۔خلافت کو ہر مسلمان کےلیے محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہیے۔۔۔نہ کہ کوئی دھمکی  آمیز چیز  جو  ڈراتا ہو اور لوگوں کے اذہان میں پریشانی کو لے کر آئے۔ انہوں نے ہی اپنی پہلی بیعت کو حذف کیا جو کہ ان کی امراء کے ساتھ موجود تھی اور انہی امراء کے خلاف بغاوت کر دی، اور انہوں نے اپنے کبارامراء کے خلاف تب  بھی ظلم کیا جب انہوں نے پہلی بار ریاست کا اعلان کیا (دولتِ عراق)، اور پھر جب دوسری بار اعلان کیا (دولتِ شام)  تو بھی انہوں نے ناحق خون بہایا اور شریعت کو حَکم ماننے سے انکار کر دیا۔ اس لیے ہمارا یہ حق بنتا ہے کہ ہم پوچھیں: ‘اب اس اعلانِ خلافت کے بعد یہ کیا کریں گے؟’

ابھی تک سب سے خطرناک کام جو انہوں نے کیا وہ مسلمانوں کی وحدت کو توڑنا،  دعوت اور جہادی مجموعات کی صفوں میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرنا،اور اس سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے مسلمانوں کی تقسیم ایسے عموم  پر کی جس میں یا تو  آپ ان کے حمایتی ہو یا ان کے  مخالف ہو۔ انہوں نے اپنے سے کمزوروں کو بالکل بھی رحم کے قابل نہ جانا اور اپنے علاوہ دوسرے شامی مجموعات میں جانے کے لیےان لوگوں کو کوئی عذر نہ دیا؛ بلکہ یہ معاملہ تو یہاں تک پہنچا کہ  جس نے بھی ان کی مخالفت کی وہ غدار بن گیا۔۔۔ جس نے ان کے بیعت کی تردید کی وہ سلولی ،سروری، صحواتی(مرتدین) ،  حمایتی ٔ صحوات یا محب ِصحوات کہلایا گیا، یاصحوات کے ساتھ اسے چلتے پھرتے دیکھا  جانے لگا  اور اسی قسم کی لغویات۔۔۔۔اور یہ اُن لوگوں کو قتل کرنے لگے جو بیعت نہیں دے رہے تھےاور انہی کے اوپر یہ الزام آنے لگا کہ جو کوئی ان کی مخا لفت کرے گا تو اُن کی بیویوں کو اغوا کرنے کی دھمکی ان کی طرف سےدی جانے لگی! البتہ  یہ ہم پر ابھی تک ثابت نہیں کیا گیا ہے لیکن اگر یہ سچ ہے تو پھر ہمارا ان کے ساتھ بہت بڑا مسئلہ سامنے آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمام مسلم خواتین کو ہر  جارح اور ظالم کے شر سے محفوظ رکھیں۔ (آمین)

آج ہم  یہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب انہوں نے تمام جہادی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے کی دعوت دی تاکہ وہ ان کی بیعت کریں تو ان کے اندر ایسے لوگ موجودہیں،جوسطحی قسم کا علم رکھنے والے ہیں اور زیادہ ترجو اِن  افراد کو سنتے ہیں اُن کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے یا پھر جو ان کو سنتے ہیں ان لوگوں کا تعلق شدت پسند  اہل غلو سے ہے۔۔اور ایسے لوگ جن کے جذبات اور شدت پسند رحجانات اِن کی حکمت، غورو فکر پر حاوی ہو جاتے ہیں اور جن کی جہالت اُن کے علم سے بڑھی ہوئی ہے ۔ ایسے افراد اپنی امیدیں بڑھاتے ہیں  اور جنگوں کو ایندھن  صرف اسی وجہ سے دے رہے ہیں کیونکہ علماء، اہل علم اور اہل دانش ان سے علیحدہ ہو چکے ہیں۔

پھر یہ ایک حقیقت ہے کہ انہوں نے حالیہ جہادی فکری مجموعات کو اپنی حالیہ بیعت کو توڑنے کی دعوت دی ہے تاکہ ان گروہوں کو منتشر کیا جائے، ان کی صفوں کو توڑ پھوڑ کا شکار کیا جائے۔ یہ ہمیں اس چیز کی طرف سوچنے کے دعوت دیتا ہے کہ آخر ان چہروں کے پیچھے کیا چھپا ہے اور ہمیں مجبور کر رہا ہے کہ ہم اس بچگانہ اور عوامی سطحی قسم کے بیانات  میں بتلائے گئے راستہ کو اختیار نہ کریں۔۔۔اگر خلافت کے اعلان سے پہلے ہی  یہی صورتِ حال تھی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھی ہیں یا دشمن ہیں، تو پھر اس خلافت کے اعلان کا بعد کیا فرق پڑ رہا ہے۔۔۔؟

یہ  خلافت ہر مسلمان کا خواب ہے جس کو حاصل کرنے کی وہ سعی کررہا ہے، پس اس  حسین خواب کو اپنی ان گولیوں سے جو ہر مخالف کے سر کو کھول کر اندر موجود اجزاء  کوباہر نکال دے   جیسے اعمال  سے اپاہج مت بناؤ۔ بلکہ، اگر تم اسے حاصل کرنا چاہتے ہو تو اسے مسلمانوں پر مہربانی اور مظلوموں کی مدد کے ذریعے قائم کرو۔ تم فانی ہو بالکل اسی طرح جس طرح باقی فانی ہیں، اس لیے اچھی سوچ رکھو اور اس کو مسخ مت کرو،اس کی تعمیر میں ایسے حصہ ڈالو کہ یہ  خلافت علی منہاج النبوہ کے ستون بن جائیں، نہ کہ انتہاپسندی،ظلم اور ناانصافی پر اس کو قائم کرو۔ اہل اسلام اور ان  کی جماعتوں کو آپس میں متحد کرنے کے معاملہ میں حصہ ڈالو نہ کہ ان کو توڑنے میں۔مظلوموں کی نصرت کرنے اور ان کے اوپر مصائب و آلام کو دور کرنے میں حصہ ڈالو نہ کہ انہیں بڑھانے میں،مسلمانوں کے خون کو محفوظ کرنے میں اپنا حصہ ڈالو نہ کہ اسے بہانے میں!

ابو ہریرہؓ سے امام حمد، مسلم اور نسائی روایت نقل کرتے ہیں:
‘جو کوئی بھی میری امت پر حملہ آور ہو اور اس کے  اچھے اور برے لوگوں کو قتل کرے، اور نہ ہی ان کو چھوڑے جو کہ ایمان  پر سختی سے قائم ہوں اور نہ ہی ان لوگوں سے اپنا وعدہ نبھائے جنہیں عہدِ امان حاصل ہو،  تو اس کا مجھ سے کوئی واسطہ نہیں اور نہ ہی میرا اس سے کوئی  تعلق ہے۔’


خلیفہ سلیمان بن عبدالمالک نے اپنے  زاہد  تابعی سلمۃ بن دینار المدنی سے کہا: اے ابو حازم! تم اس بارے میں کیا کہتے ہو جس میں ہم  مبتلا ہیں؟ سلمۃ نے جواب دیا:‘ اے امیر المومنین! کیا آپ مجھے اس سوال سے معاف کر سکتے ہیں؟’ خلیفہ نے کہا: ‘ مجھے صرف ایک نصیحت کے طور پر یہ بات بیان کر دو۔’ سلمۃ نے جواب دیا: ‘آپ کے آباؤ اجداد نے لوگوں پر بغیر مشورے  اور بغیر ملاقات کے، طاقت کے بل بوتے پر غلبہ حاصل کیا، جس کے ذریعے انہوں نے سنگین خونریزی کی، پھر وہ چلے گئے، تو اگر آپ اس چیز کو محسوس کر سکتے ہیں جو انہوں نے کہا اور جو ان کو کہا گیا’۔ پس ایک شخص جو مجلس میں موجود تھا وہ بولا: ‘کیا ہی برا ہے جو تم نے ابھی ابھی بیان کیا ہے۔’ ابوحازم نے اسے جوب دیا: ‘تم نے جھوٹ کہا،اللہ تعالیٰ نے علماء سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ کھول کر بیان کریں گے’ ۔

ہاں! اللہ کی قسم! وہ واپس چلے گئے، پس اگر تم بھی اسی چیز کو محسوس کرو جو انہوں نے کہا اور اس کے جواب میں جو ان کو کہا گیا!

اشعار
پس اگر اللہ تعالیٰ نے چیونٹیوں کو پر دیے ہوتے، تو وہ ضرور ان پروں کے ذریعے پسپائی اختیار کرتیں
ہر شخص  کے لیے کچھ حدود متعین ہیں اور اس کا خاتمہ تب ہو جاتا ہے جب وہ ان حدود کو پامال کردیتا ہے

ابو ہریرہؓ سے حدیث روایت کی گئی ہے کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے  ارشاد فرمایا:
‘امام ڈھال ہے، اس کے پیچھے سے لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے امان دی جاتی ہے۔’

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ صرف مسلمانوں کے امام ہیں بلکہ دوجہاں کے امام ہیں، اور ان کی امامت کبھی بھی مسلمانوں میں تفریق ڈالنے اور ان کو ٹکڑے  کرنے والی نہ تھی، بلکہ ان کو وحدت میں سمونے کے لیے تھی۔ یہ امامت معصوم لوگوں کے سروں کو گولیوں سے  چھلنی کرنے والی نہ تھی اور نہ ہی تلوار کے ذریعہ ان کے دماغوں پر ضرب لگا کر سب کچھ  باہر نکالنے والی تھی، بلکہ وہ تو ان  کے سروں اور جو کچھ اس میں موجود ہے کی حفاظت کے لیے تھی،  ان کی نشونما اور ارتقاء اعلی کی طرف فائز کرنے کےلیے قائم تھی نہ کہ انہیں  ان معمولی انتخابات کی طرف لے کر جانے والی تھی۔یہاں تک کہ وہ قتا لی جماعتیں جو کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو بیعت نہ دے سکیں اور نہ ہی ان کی سیاسی ولایت کے اندر داخل ہو سکیں جیسا کہ ابو بصیر کا صلح حدیبیہ کے وقت  دوسری جگہ اکٹھا ہونا تھا اوراسی طرح جو  لوگ الاسود العنسی کی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خلاف بغاوت کو یمن میں کچلنے کی کوشش کر رہے تھے، انہوں نے ان میں سے کسی کے جہاد کو بھی باطل نہیں کہا اور نہ ہی ان کی ہجرت کو واجب قرار دیا  کہ وہ میدانِ عمل اور جہاد کو چھوڑ کر آ جائیں، نہ ہی انہیں گناہگار قرار دیا ، نہ ہی دھمکایا گیا، نہ جلا وطن کیا گیا، نہ ہی ان کی جماعت کو تحلیل  کیا گیا؛ اس کے برعکس ان کو میدانِ عمل میں چھوڑ دیا گیا یہاں تک کہ وہ نصرت ِ کامل حاصل کر لیں اور دارالاسلام کی طرف  ان سے واپس جا ملیں۔

یہ واقعات اس وقت کے ہیں جب خلافت قائم تھی۔ خلافت کبھی بھی ایسا عہدہ نہیں رہا کہ جس کے ذریعے مجاہدین کے جہاد کو کالعدم قرار دیا گیا ہو  یا اس کے ذریعے ان کو ٹکڑے کرنے کی سعی کی جائے یا ان کو دعوت دی جائے کہ  وہ   اس خلافت سے باہر یا چھوڑ  دینے والوں کو  اپنے امراء،  مشائخ  اور علماء کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرنے کا کہیں۔ بلکہ ان علماء کی مثال تو   ایسی ہونی چاہیے تھی   کہ وہ اس نہج پر استقامت  کی دعوت دیتے اور لوگوں کو اس خلافت کی طرف بلاتے۔ ان علماء کی امداد  و نصرت کرتے، نہ کہ انہیں اپنی جماعتوں کو تحلیل کرنے اور جہادی  میدانِ عمل کو چھوڑنے کی دعوت دیتے، اور جنہوں سے یہ کام نہ ہو پاتا انہیں گناہگار قرار نہ دیا جاتا۔ تاریخ نے بہت سے ایسے اہل اسلام اور ان کے امراء اور علماء کی تاریخ کو محفوظ کیا ہے اور انہیں عزیمت  بھی بخشی جن جماعتوں نے استقامت دکھائی اور خلافت  کی بیعت   اورعلاقہ کی حکمرانی سے باہر نکلے، اور عبیدی ،  تاتاریوں اور صلیبیوں   کی حکمرانی والے علاقوں میں داخل ہو گئے۔

اس وجہ سے ہم عوام الناس کو تنبیہ کرتے ہیں اور خصوصی طور پر ان افراد کو جنہوں نے  مجاہدین کی صفوں  کو توڑنے،ٹکڑے کرنے اور مجاہدین کو منتشر کرنے کی دعوت پر لبیک کہا ہے کہ  وہ  اس دعوت پر کسی بھی قسم کی نفسیاتی، معنوی ، فکری، اور جسمانی خوف  میں مبتلا نہ ہوں اوراسے خود سے دور کر لیں ، جن کی دعوت یہ صفوں کو پارہ پارہ کرنے والے وکلاء دے رہے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ  وہ اپنے امراء کے گرد، حق پر ثبات کے ساتھ  اور اپنے عہد پر استقامت کے ساتھ قائم رہیں، اور جو ان کی مخالفت کریں ان سے بالکل کوئی بھی ضرر محسوس نہ کریں اور نہ ہی کسی قسم کی مایوسی کا شکار ہوں یہاں تک کہ اللہ کا امر آ جائے


میں اس کا اختتام  مندجہ ذیل تنبیہ سے کرتا ہوں:

امام الحرمین اپنی کتاب ‘غياث الأمم في التياث الظلم’ میں لکھتے ہیں:  ‘اگر کوئی زمانہ امام کے بغیر ہو، اور کسی بھی عقلمند، دانشمند اور طاقتور سلطان سے محروم ہو، تو پھر یہ معاملہ علماء کے ہاتھ پر منتقل ہو جاتا ہے، بجز اس کے کہ مخلوق میں اختلافات پائے جاتے ہیں ان پر لازم ہے کہ وہ علماء کی طرف رجوع کریں اور اپنے تمام معاملات اور خدشات ان کے پاس لے کر جائیں، اگر وہ ایسا کر لیں گے، تو ہدایت پا جائیں گے۔ پھر یہ علماء ان لوگوں کے  اوپر نگران بن جائیں گے، اگر وہ کسی خاص شخص پر متفق نہیں ہوتے، تو پھر ہر علاقہ کے لوگوں کو اپنے علماء کی اتباع کرنی چاہیے، اور اگر کسی علاقہ میں علماء کی تعداد کثیر ہے، تو پھر ان میں سب سے زیادہ  علم رکھنے والے شخص کی اتباع کی جائے گی’۔یہ سب سے ضعیف نکتہ ہے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے خلافت کا اعلان کیا ہے۔ علماء ربانین میں کسی ایک عالم نے بھی ان کی حمایت نہیں کی یا  نہ ہی ان پر اعتماد کیا یا ان کے ساتھ ہوا، وہی علماء جو ان کے منہج، فکر اورعقیدہ کے ساتھ بھی منسلک  مانے جاتے ہیں۔۔۔ چاہیے کہ لوگ اس پر سوچیں، اور معقول شخص کو تو اس پر ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وجہ ہے کہ ان لوگوں  نے علماء کا اعتماد کھو  دیاجبکہ انہی علماء کے رسائل اور کتب یہ پڑھتے اور  سیکھتے ہیں، یہاں تک کہ سبھی نے ان کو چھوڑ دیا اور کسی نے بھی ان کی حمایت نہ کی؟ یہ تو وہی علماء ہیں نہ جو اللہ سےڈرتے ہیں اور جو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پراہ نہیں کرتے  ۔۔۔اس کا کوئی جواب تو ضرور ہے۔

خلافت دعوی کرنے اور نام رکھنے سے حاصل نہیں کی جاتی، نہ ہی نیت اور چاہت  رکھنے سے حاصل ہو جاتی ہے بلکہ اس کا تعلق تو  اس تطبیق سے ہے جو اس زمین پر ممکن ہو پائے۔  جب حضرت عمرؓ نے حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی تھی تو وہ اسی وقت صرف اس اعلان کی وجہ خلیفہ نہیں بن گئے تھے، وہ اس وقت تک اصل خلیفہ نہ بن پائے تھے جب  تک تمام کے تمام صحابہ نے ان کی بیعت نہ کرلی اور ان کے عہدہ  پر کسی نے اعتراض نہ کیا اور وہ مضبوط ہو گیا۔۔۔ہر  وہ امیر جس کو جماعت المسلمین   بیعت نہ دے اور نہ ہی علماء ربانین میں اہل علم کی ایک خاص جماعت، تو وہ فقط اس جماعت کا امیر ہے یا اس امارت کا امیر ہے، نہ کہ وہ امیر المومنین  عمومی طور پر تمام مسلمانوں کے  لیے کہلا یا جائے  گا  اور اسی طرح نہ ہی اسے تمام مسلمانوں کا خلیفۃ المسلمین کہا جا سکتا ہے ، اور یہ بات  درست نہیں کہ جو اس جماعت  کی بیعت نہ کرے یا ان کی طرف ہجرت نہ کرے انہیں گناہگار ٹھہرایا جائے ۔ یہ حقیقت ہے کہ علماء ربانین کی خاص جماعت نے  ان کی تائید نہیں کی ہے اور نہ ہی ان کے ہاتھ پر بیعت کی ہے، یہ اس  بات کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ جماعت   جس نے خلافت کا اعلان کیا ہے ان علماء کے نزدیک درجۂ  ثقہ  پر نہیں ہے ، جس کے اوپر  علماء دین اور دنیا کے معاملہ پر اعتبار کر سکیں۔

اس بات کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ اگر اس جماعت کے علاوہ کوئی دوسری جماعت جہاد کے عملی میدان میں موجود نہ ہو،  پھر ان علماء کا علم لازماً ان لوگوں کو مجبور کرتا  ہےکہ وہ اُس جماعت کے امیر کی حمایت کریں کیونکہ اس چیز  کی  اشد ضرورت ہے کہ بہترین امیر اس  محاذ کی رہنمائی کرے۔ پھر اس میں کوئی شک نہیں ہو گا کہ یہ جماعت پھر بھی کم از کم ان  طواغیت اور مرتد حکمرانوں سے بہتر ہو گی۔ تاہم چونکہ محاذ اس  وقت بھی مختلف قتالی جماعتوں اور گروہوں سے  بھرا پڑا ہے جو کہ مخالف کے طور پر ایک ہی قسم کی طاقت اور قوت رکھتے ہیں اور قدم جمائے ہوئے  ہیں، اور ان(جماعت الخلافۃ) سےنہج اور قیادت میں بھی افضل  ہیں، تو پھر یہ  درست نہیں کہ مفضول کو فاضل پر ترجیح دی جائے۔

آخر میں یہ  ہم اپنے لیے پسند نہیں کرتے کہ ہم ان لوگوں میں سے بن جائیں جو سوائے جماعت الدولۃ کے ساتھ الفاظ کے تبادلوں کے علاوہ کچھ نہ کریں اور ہم یہ بھی نہیں چاہتے کہ ہمارے دشمن خوش ہوں جب ہم  کوئی بات  بیان کریں یا دشمن یہ گمان کریں کہ ہم اِن کے ساتھ ہیں اور اس گمان کی وجہ سے وہ (جماعت الدولۃ) یہ سمجھیں کہ ہم جماعت الدولۃ کے خلاف ہیں، بلکہ اس  دولتِ اسلامیہ اور خلافت اسلامیہ کے منصوبہ کو خراب کرنے کے خلاف ہم لکھتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ جو چیز ہم لکھتے ہیں اس سے یہ دشمن خوش ہوں کیونکہ ہمارا لکھنا ان کو راضی کرنے کے لیے نہیں ہوتا، اور ہم اس چیز سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں کہ ہمارے اور ان دشمنوں کے درمیان کسی بھی قسم کی ہم آہنگی پائی جائے، جو چیز ہم لکھتے اور  بیان کرتے ہیں اس کا تعلق اس دعوت اور علم (اسلام)پر بھروسہ سے ہے، جس کے ذریعے ہم حق بات کو بیان کرتے ہیں اور حق  اور اہل حق کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کسی چیز کی  پراوہ نہیں کرتے ہیں کہ کون اس کو پڑھ کر راضی ہو جائے اور کون اس سے غضب ناک ٹھہرے، کون اس پر خوشی دکھائے اور کس کا گلا  دب جائے، ہم اس کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں۔  اگر ہم لوگوں کی رضامندی چاہتے اور شہرت وعظمت  اپنے لکھنے کے ذریعے تلاش کرتے، تو ہم جماعت الدولۃ کی لہروں کی نذر خود کو کر دیتے اور اس کے ذریعے وہ ہمیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھاتے یا پھر آسمان سے بھی اوپر چڑھا دیتے، لیکن ہم نے حق کی لہروں پر سوار ہونے کا تہیہ کیا چاہے اس کے لیے کتنی ہی تکلیف برداشت کرنی پڑے۔ہم اس سے پیچھے  نہیں ہٹیں گے اور نہ ہی اسے چھوڑیں گے، حتی کہ اگر یہ ہمیں زمین میں بھی گا ڑ دیں یا پھر  ہمارے سروں میں گولیوں کو اتار کر اسے خالی ہی کیوں نہ کر دیں!

المیہ یہ ہے کہ جماعت الدولۃ اور اس کے امراء اور ترجمان روزانہ کی بنیاد پر حملہ آور ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ہم جواب دینے پر مجبور کر دیے جاتے ہیں، حالانکہ اگر یہ معاملہ نہ ہو، تو ہم فقط اپنے آپ کو بیانات اور اس کی تصدیق تک محدود کرلیں، کیونکہ کم از کم میری طرف سے جماعت الدولۃ پر جنگ مسلط نہیں کی گئی۔  بلکہ حق وہ چیز ہے جس کی میں حمایت کرتا ہوں اور جب ضرورت ہو تو اس کو بیان کرتا ہوں، اور یہ بات جائز نہیں کہ جب کسی بیان کی ضرورت  پیش آئے تو اس میں دیر کی جائے۔ جماعت الدولۃ ہی ہمیں اس پر ہر  دفعہ مجبور کرتی ہے اور ہم اب اس معاملہ میں خاموش نہیں رہ سکتے۔

اے اللہ، ہم آپ سے ہدایت، پاکبازی، ثبات اور حسنِ خاتمہ کا سوال کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ درود و سلام بھیجیں ہمارے نبی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ، ان کی  آل   اور ان کے  تمام اصحابؓ پر۔ ( آمین)

ابو محمد المقدسی
۱۳ رمضان، ۱۴۳۵ ھ

مصدر: (عربی)
http://www.tawhed.ws/r?i=12071401
حوالہ: (انگریزی)
http://www.kavkazcenter.com/eng/content/2014/07/20/19483.shtml

نوٹ:
اس بیان کو انگریزی ترجمہ سے اردو  لغت میں  لانے کی کاوش کی گئی ہے جبکہ اصل مصدر عربی  زبان  میں ہے۔ کسی بھی قسم کی کمی  بیشی  کے پیش نظر اصل مصدر کی طرف رجوع کیجیے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں