میری شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) سے پہلی ملاقات ، جو مجاہد عالم دین ہیں اورتنظیم القاعدۃ الجہاد کی مرکزی لجنہ شرعیہ کے رکن بھی ہیں، 2005 میں خراسان میں ہوئی۔ میں ایٍک تدریبی مرکز میں کورس میں حصہ لے رہا تھا جب وہ حصہ لینے والے ساتھیوں کے ساتھ ایک دن گزارنے کے لیے تشریف لائے۔ اپنی بات کے نکتہ پر آنے سے پہلے میں ایک چیز پہلے بیان کرنا چاہوں گا جو کہ اس ملاقات کے اندر پیش آیا جو میرے اندر یہ تاثر چھوڑ گیا اور مجھے مزید اس بات کی تصدیق ہوئی کہ القاعدہ کا پیغام اور اسکے امراء کا مذہبی فہم کتنا پختہ ہے۔ اس ملاقات میں القاعدہ کے عسکری مسوؤل، شیخ خالد حبیب بھی شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) کے ہمراہ تھے۔ عصر کی نماز کے بعد شیخ منصورؒنے ایک چھوٹا سا درس دیا اور بھائیوں کو اس بات کی طرف ابھارا کہ وہ اپنے اعمال کی درستگی کریں۔ اس کے بعد ایک غیررسمی سوال و جواب کی نشست شروع ہوئی۔ اس مباحثہ میں ایک سوال تکفیر کے اوپر سامنے آیا۔ شیخ خالد حبیب نے تبصرہ کے طور پر کہا ’دو ایسے لفظ ہیں جو مجھے نہایت ہی مشتعل کرتے ہیں: تکفیر اور طلاق‘۔ اس بات کو سننے کے بعد، شیخ منصور الشامی ؒنے قطع کلامی کی اور کہا: ’ جو آپ نے کہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ یہ دونوں اصطلاحات ہی ہمیں شریعت نے دی ہیں۔ اگر ان کا استعمال صحیح جگہ صحیح انداز میں کیا جائے، تو اس سے متعلق ناپسندیدگی کا اظہار درست نہیں ہو گا۔ اس لیے آپ کو اس ناپسندیدگی کا اظہار عمومی الفاظ کےطور پر نہیں کرنا چاہیے۔‘
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کرے شیخ خالد حبیب پر، میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے خاموشی سے سن رہے تھے، اور اپنے سر کو جھکا کر اطاعت گزاری کا مظہر بنے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی بھی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ تھا، حالانکہ وہ شیخ منصورؒ سے عسکری قیادت، تجربہ، اور جہاد میں وقت لگانے کے اعتبار سے بڑے تھے۔ علماء اور علمِ شریعت کا اسقدر احترام مرکزی عسکری امیر کی جانب سے اور ایک عالم کے سامنے اسقدر انکساری ایک ایسا عملی سبق تھا جو کہ طویل کتب کے مطالعےسے بھی آپ حاصل نہ کر سکتے تھے۔ دوسری طرف شیخ منصور الشامیؒ کا کردار اور ان کا حوصلہ جس کے ذریعے انہوں نے حدود اللہ کی حفاظت کو ممکن بنایا ایک قابلِ ستائش نمونہ تھا۔
شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) اپنے علم میں گہرائی،اعتدال،تقوی اورعبادت و زہد کی وجہ سے معروف تھے۔بہت سالوں تک وہ مختلف جہادی جماعتوں کی مذہبی تربیت کرنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے ترکی سے آنے والے مجاہدین کی فکری نشونما کے لیے بہت جہدِ مسلسل کیا۔ انہوں نے ان کے علم اور عمل کو نکھارا، یہاں تک کہ انہیں ’شیخ الترک‘(ترکوں کےعالم شیخ) کا لقب حاصل ہو گیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی علمی کاوش جاری رکھی۔ انہوں نے ایک خوبصورت کتاب کی تالیف کی جس میں انہوں نے غزوۂ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے حاصل ہونے والے عملی اسباق پر روشنی ڈالی۔ اس کتاب کو نشر کیا جا چکا ہے۔ آخر میں ایک طویل اور نمایاں جہادی سفر کے بعد وہ وقت آن پہنچا جس نے ان کی شہادت کی خواہش کو پورا کرنے کا سبب بننا تھا۔
شہادت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اُن کی اِس خواب کی تاویل تھی کہ ان کی شہادت کا وقت قریب آن لگا ہے۔ انہوں نے اس چیز کا ارادہ کیا کہ اپنے اہل و عیال کو دور بھیج دیں، اپنی کچھ ذاتی چیزیں اپنے دوستوں میں تقسیم کرد یں اور باقی چیزوں کو بیچ دیا۔ انہوں نے اپنے گھر کو اپنے تمام مال و اسباب سے خالی کر لیا، ایک چٹائی کو زمین پر بچھایا، اور نیند نے ان کو آ لیا۔ کچھ منٹ بعد ہی، امریکی ڈرون نے میزائل سے حملہ کیا جس سے ان کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے۔ پس ان کی دیرینہ خواہشِ شہادت کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اس مطمٔن روح کو شرفِ قبولیت سے نوازیں، ان کے مقام کو بلند کریں اور انہیں مجاہد، شہید، عالم کی نیکیوں سے روزِ قیامت نواز دیں، آمین۔
ایک مطمٔن روح کی کہانی
ماخوز: مجلہ انبعاث (Resurgence)
اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کرے شیخ خالد حبیب پر، میں دیکھ رہا تھا کہ وہ اسے خاموشی سے سن رہے تھے، اور اپنے سر کو جھکا کر اطاعت گزاری کا مظہر بنے ہوئے تھے۔ ان کے چہرے پر کسی بھی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہ تھا، حالانکہ وہ شیخ منصورؒ سے عسکری قیادت، تجربہ، اور جہاد میں وقت لگانے کے اعتبار سے بڑے تھے۔ علماء اور علمِ شریعت کا اسقدر احترام مرکزی عسکری امیر کی جانب سے اور ایک عالم کے سامنے اسقدر انکساری ایک ایسا عملی سبق تھا جو کہ طویل کتب کے مطالعےسے بھی آپ حاصل نہ کر سکتے تھے۔ دوسری طرف شیخ منصور الشامیؒ کا کردار اور ان کا حوصلہ جس کے ذریعے انہوں نے حدود اللہ کی حفاظت کو ممکن بنایا ایک قابلِ ستائش نمونہ تھا۔
شیخ منصور الشامی (رحمہ اللہ) اپنے علم میں گہرائی،اعتدال،تقوی اورعبادت و زہد کی وجہ سے معروف تھے۔بہت سالوں تک وہ مختلف جہادی جماعتوں کی مذہبی تربیت کرنے میں مشغول رہے۔ انہوں نے ترکی سے آنے والے مجاہدین کی فکری نشونما کے لیے بہت جہدِ مسلسل کیا۔ انہوں نے ان کے علم اور عمل کو نکھارا، یہاں تک کہ انہیں ’شیخ الترک‘(ترکوں کےعالم شیخ) کا لقب حاصل ہو گیا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اپنی علمی کاوش جاری رکھی۔ انہوں نے ایک خوبصورت کتاب کی تالیف کی جس میں انہوں نے غزوۂ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) سے حاصل ہونے والے عملی اسباق پر روشنی ڈالی۔ اس کتاب کو نشر کیا جا چکا ہے۔ آخر میں ایک طویل اور نمایاں جہادی سفر کے بعد وہ وقت آن پہنچا جس نے ان کی شہادت کی خواہش کو پورا کرنے کا سبب بننا تھا۔
شہادت سے کچھ عرصہ قبل انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ اُن کی اِس خواب کی تاویل تھی کہ ان کی شہادت کا وقت قریب آن لگا ہے۔ انہوں نے اس چیز کا ارادہ کیا کہ اپنے اہل و عیال کو دور بھیج دیں، اپنی کچھ ذاتی چیزیں اپنے دوستوں میں تقسیم کرد یں اور باقی چیزوں کو بیچ دیا۔ انہوں نے اپنے گھر کو اپنے تمام مال و اسباب سے خالی کر لیا، ایک چٹائی کو زمین پر بچھایا، اور نیند نے ان کو آ لیا۔ کچھ منٹ بعد ہی، امریکی ڈرون نے میزائل سے حملہ کیا جس سے ان کے جسم کے ٹکڑے ہوگئے۔ پس ان کی دیرینہ خواہشِ شہادت کی تکمیل ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ اس مطمٔن روح کو شرفِ قبولیت سے نوازیں، ان کے مقام کو بلند کریں اور انہیں مجاہد، شہید، عالم کی نیکیوں سے روزِ قیامت نواز دیں، آمین۔
ایک مطمٔن روح کی کہانی
ماخوز: مجلہ انبعاث (Resurgence)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں