پیر، 13 اکتوبر، 2014

شیخ مصطفی ابو الیزیدؒ کا ’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ کے نام سے متعلق موقف

صحافی:
اگر ہم اب عراق کے موضوع کی طرف آئیں کیونکہ شیخ اسامہؒ نےکہا ہے کہ فلسطین اور بیت المقدس کی طرف پیش قدمی عراق سےہو گی۔ہم کس طریقہ سے اس حقیقت کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کر سکیں گے کہ یہاں پر دو ‘امیر المومنین’ ہیں، ایک امیر المومنین عراق ہیں اور ایک امیر المومنین افغانستان ہیں؟اور آپ کس طرح دولۃ العراق الاسلامیہ کی طرف سے کیے گئے برتاؤ کو دیکھتے ہیں جب کہ کافی اعتراضات دوسرے جہادی جماعتوں کو جو عراق میں ہی موجود ہیں ان کے بارے میں موجود ہیں؟

شیخ:
جہاں تک عراق کا تعلق ہے، الحمدللہ، تووہاں پر جہاد کے بہت سے اہداف حاصل ہوئے ہیں۔ امریکی دشمن ۶ سال بعدعراق سے ہزیمت اٹھانے کے بعد پسپائی اختیار کر گیا۔جہاں تک معاملہ دو امیر المومنین کا ہے،ایک افغانستان اور ایک عراق میں، توپہلی بات یہ کہ ان میں سے ہر ایک اپنے علاقہ میں مسلمانوں کے امیر ہیں۔ پس اس طرح کہا جا تا ہے کہ یہ امیر المومنین عراق کے ہیں، اور دوسرے امیر المومنین افغانستان کے ہیں۔ اصل میں مسلمانوں کا ایک ہی امیر (امام) ہوتا ہے، اور یہ بھی تب ہوتا ہے جب خلافت اسلامیہ قائم ہو جائے۔پس ایسی صورتِ حال میں ایک ہی امیر ہونا چاہیے جوکہ ایک خلیفہ ہو جو تمام مسلمانوں کے لیےہولیکن علماء نے اس مسئلہ میں تفصیل بیان کی ہےکہ جب حسبِ دستور حالات نہ ہوں کہ جس میں لوگوں کو ایک امام کے اوپر جمع نہ کیا جا سکتا ہو تو اس معاملہ میں اِن حالات میں اجازت موجود ہے، جو کہ استثنی حالت ہی کہلائے گی،کہ جس میں ایک سے زیادہ امیر مسلمانوں کےلیے مقرر کیے جا سکتے ہیں، لیکن پھر بھی یہ مسلمانوں پر واجب رہے گا کہ وہ مسلسل کاوشوں کے ذریعے ایک امیر (خلیفہ) کو منتخب کرنے کی سعی کریں۔ یہی اس معاملہ کی اصل ہے۔


جہاں تک دولۃ العراق الاسلامیہ کا تعلق ہے تو ہم نے اس کی پہلے بھی حمایت کی تھی اور اب بھی کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کو اس جگہ موجود ہونا چاہیے، لیکن جہاں تک اس کےاصول اور بنیاد کا تعلق ہے، اور جہاں تک اس کے نام (دولۃ الاسلامیہ العراق) کا تعلق ہے، تو اس کو تبدیل کیا جا سکتا ہے اگر یہاں پر کوئی بہت بڑا مفسدہ نہیں ہے۔ ہم ناموں کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔ وہ اپنا نام تبدیل کر سکتے ہیں لیکن ہم اس معاملہ کو عراق کے بھائیوں کے طرف لوٹاتے ہیں، جنہوں نے اس پر فیصلہ کرنا ہے۔جہاں تک بات ہے اعتراضات اور تنقید کی جو کہ دولۃ الاسلامیہ العراق کے خلاف اٹھائے گئے ہیں، ان میں زیادہ تر باتیں ان لوگوں کی طرف سے بیان ہوتی ہیں جوصادق نہیں ہیں۔ وہ ایسی چیزوں کا دعوی دولۃ الاسلامیہ العراق سے متعلق کرتے ہیں جن میں سچائی نہیں پائی جاتی۔ کچھ غلطیاں اس جہادی عمل سے گزرتے وقت ممکنات میں سے ضرورہو سکتی ہیں، لیکن یہ معاملہ اکثر ہو جاتا ہے،یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دور میں بھی ہوا۔ کچھ صحابہؓ سے غلطیاں ہوئیں، جیسا کہ حضرت خالد بن ولیدؓ اور اسامہ بن زیدؓ سے، پس غلطیاں ہوتی ہیں، لیکن یہ ان کا عمومی طریقہ کار نہیں ہوتا نہ ہی ان کا منہج ہوتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دولۃ العراق الاسلامیہ خیر اور درست منہج اور عقائدکی حامل ہیں۔

صحافی:

کیا آپ عراق میں موجود دوسری جماعتوںکو متحد کرنےکاارادہ رکھتے ہیں جس میں دولۃ العراق الاسلامیہ اور دیگر شامل ہو جائیں یاآپ کی یہ خواہش ہے کہ تمام قتالی جماعتیں دولۃ العراق الاسلامیہ کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں؟


شیخ:
ہم پہلے بھی اور ہمارے امراء اور داعیان بھی جن میں شیخ اسامہؒ شامل ہیں اس معاملہ میں بہت واضح ہیں۔ انہوں نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ یہ ایک اسلامی فریضہ ہے کہ تمام گروہوں کوایک وحدت کی طرف جمع ہونا چاہیے۔ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دولۃ العراق الاسلامیہ چونکہ پہلے سے قائم ہو چکی ہے اور بہت سی جہادی جماعتیں اس میں شامل بھی ہو چکی ہیں، تو یہ اولیٰ بات ہے کہ باقی جماعتیں بھی جو اس وقت میدان میں موجود ہیں وہ اس میں داخل ہو جائیں، لیکن اگر اس نام (دولۃ العراق الاسلامیہ) کا استعمال ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے،تو ہم سمجھتے ہیں کہ نام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے تاکہ تمام عراقی مجاہدین متحد ہو جائیں۔

شیخ مصطفی ابواليزيدؒ کا’دولۃ العراق الاسلامیہ‘ کے نام سے متعلق موقف
(القاعدۃ الجہاد کے سابقہ مسوؤل)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں