(جماعت )الدولۃ سے کچھ بھائیوں نے مجھے سوال بھیجا اور اس میں پوچھا ہے کہ کیا ان کے اوپر کوئی گناہ ہے اگر وہ (جماعت) الدولۃ کو چھوڑ دیں اور ان کے گردنوں پر بیعت بھی موجود ہو، اس پر میں کہتا ہوں:
اے سوال کرنے والی بھائی،
میری رائے اس معاملہ پر وہی ہے جو ہمارے شیخ علامہ سلیمان العلوان (فک اللہ اسرہ) کی ہے، جب ان سے بیعتِ بغدادی سے متعلق سوال کیا گیا:
[جس بیعت کاانعقاد اصلاً ہوا ہی نہ ہو وہ (بیعت) باطل ہے اور اسے منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے]
مزید ارشاد فرمایا:
[اور کام میں ان سے مشورہ لیا کریں]
اللہ تعالیٰ نے مشاورت کا حکم دیا، جبکہ اُس وقت وحی کا نزول بھی جاری تھا،یہ امر معلوم ہوا کہ لوگوں کے آپس کے معاملات بغیر باہمی مشورےکے صلح کے طریقے پرطےنہیں ہوتے، مسلمان اس بات پر جمع ہیں کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد امت کے بہترین شخص ابو بکر صدیقؓ ہیں، اس امر کے باجود صحابہؓ نے اس امر میں مشاورت کی حتیٰ کے تمام اس پر جمع ہو گئے اور لوگ بھی ان کی امامت پر راضی ہوگئے۔
ابن تیمیہؒ ابو بکر صدیقؓ کی بیعت سے متعلق فرماتے ہیں:
[اگر صرف سیدنا عمرؓ اور انکے اصحاب سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت کرتے اور باقی صحابہؓ سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت نہ کرتے، تو پھر امامت قائم نہ ہوتی، بلاشبہ سیدنا ابو بکرؓ کی امامت تبھی قائم ہوئی جب جمہور صحابہؓ ، جو اہل قدرت اور اہل شوکت تھے،نے اُن کی بیعت کر لی]
ابن تیمیہؒ خلافتِ عمرؓ سے متعلق بیان کرتے ہیں جن کو ابو بکر صدیقؓ (مشاورت کے بعد)منتخب کر گئے تھے:
[ اسی طرح سیدنا عمرؓ کا انتخاب جو سیدنا ابو بکرؓ نے کیا تھا، صرف اس انتخاب کی وجہ سے امامت قائم نہ ہوئی، بلکہ وہ امامت اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیعت اور اطاعت کے بعد ہی قائم ہوئی، اگر فرض کریں کہ اصحابِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سیدنا ابو بکرؓ کے انتخاب ِ سیدنا عمر ؓ کا عملی نفاذ نہ کرتے اور نہ ہی سیدنا عمرؓ کی بیعت کرتے، تو پھر امامت قائم نہ ہوتی]
اے بھائی،
اس وقت شام میں۲۳ملین لوگ آباد ہیں، ان میں جنگجوؤں کی تعداد ۱۵۰ہزارسے تجاوز کرتی ہے، ان میں ایسے مجاہدین موجود ہیں ، جوتعداد اور شوکت میں اِن (جماعت الدولۃ )سے زیادہ ہیں، بلاشبہ جب کوئی بیعت وامامت (بغدادی) ان اہل شوکت (مجاہدینِ شام) سے ہی تجاوز کر کے قائم ہو گی، تو ایسی بیعت درست نہیں ہے۔
اسی بنیاد پر سیدنا عمرؓ نے کہا تھا:
[پس اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے]
اے بھائیو! آپ لوگ شام اس لیے نہیں آئے تھے کہ آپ اہلِ شام کے مشورے کے بغیر ہی ان پر حاکم بن جائیں، ہم ان کے پاس اس لیےآئے تاکہ اپنے قتل کے بدلے اِن کو قتل عام سے بچا نے کے لیے اپنے نفس کو کھپا دیں، ان کے خون کی جگہ اپنا خون پیش کر دیں، ان کی عزتوں کی حفاظت کے لیے خود کو شام لائے، تاکہ شام میں شریعت کی حاکمیت قائم ہو جائے اور ہم شام میں اہل شوکت کو یہ اختیار دیں کہ جب تک اللہ کی شریعت کے قوانین کی حاکمیت قائم رہتی ہے، وہ جس شخص سے متعلق بھی شروطِ امامت کو پورا ہوتے دیکھیں ، اس کا انتخاب کر لیں ۔
اس سے پہلے جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس کے سیاق میں اپنے بھائیوں سے یہ بات کہتا ہوں:
مسئلہ بیعت:
یہ بیعت(بغدادی) باطل ہے، جس کا انعقاد نہیں ہوا، اور جو بھی چیز باطل پر کھڑی ہے، وہ خود بھی باطل ہوتی ہے، اس لیے اس میں کوئی گناہ نہیں کہ آپ (جماعت) الدولۃ کو چھوڑ دیں، اور یہی فتوی دورِ حاضر کے کبار علمائے اسلام نے بھی دیا ہے۔
جہاں تو اس مسئلہ کا تعلق ہے:
الفاظ حدیث:
[جو شخص اس حالت میں مر جائےکہ اس کی گردن پر بیعت نہ ہو،تو اس کی موت جاہلیت پر ہوئی]
یہ حدیث کسی شخص کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ اس باطل بیعت کے لیے اور خود کو جاہلیت کی موت سے بچانے کے زعم میں اس کا استعمال کرے اور خود ایک جاہلیت سے دوسری جاہلیت کی طرف چلا جائے، اس حدیث کےان الفاظ (کہ جس کی گردن پر بیعت نہیں) سے مراد وہ بیعت ہے جس کا انعقاد صحیح طریقہ پر ہوا ہو، بلاشبہ صحابہؓ نے بغیر بیعت کے حبشہ میں زندگی گزاری اور اسی طرز پر ابو بصیرؓ اور ابو جندلؓ کا معاملہ رہا جو ارضِ بیعت سے دور رہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان سے بیعت نہ لی کیونکہ وہ ان کی زمین (سلطہ) میں نہ تھے، بلکہ وہ ان دوسری زمینوں پر اپنے دین کی وجہ سے داخل ہوئے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں اپنی بیعت کرنے کا امرنہ دیا، بیعتِ ولایت اوربیعت سلطان نہ رہی کیونکہ وہ اُن کی زمین پر موجود نہ تھے۔
شیخ د۔ عبداللہ المحیسنی
بیعتِ بغدادی کی صحت سے متعلق شرعی رائے
ڈاکٹر عبداللہ بن محمد المحیسنی
عربی متن:
http://mhesne.com/index.php?option=com_content&view=article&id=184
اے سوال کرنے والی بھائی،
میری رائے اس معاملہ پر وہی ہے جو ہمارے شیخ علامہ سلیمان العلوان (فک اللہ اسرہ) کی ہے، جب ان سے بیعتِ بغدادی سے متعلق سوال کیا گیا:
[جس بیعت کاانعقاد اصلاً ہوا ہی نہ ہو وہ (بیعت) باطل ہے اور اسے منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے]
مزید ارشاد فرمایا:
[اور کام میں ان سے مشورہ لیا کریں]
اللہ تعالیٰ نے مشاورت کا حکم دیا، جبکہ اُس وقت وحی کا نزول بھی جاری تھا،یہ امر معلوم ہوا کہ لوگوں کے آپس کے معاملات بغیر باہمی مشورےکے صلح کے طریقے پرطےنہیں ہوتے، مسلمان اس بات پر جمع ہیں کہ نبی کریم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بعد امت کے بہترین شخص ابو بکر صدیقؓ ہیں، اس امر کے باجود صحابہؓ نے اس امر میں مشاورت کی حتیٰ کے تمام اس پر جمع ہو گئے اور لوگ بھی ان کی امامت پر راضی ہوگئے۔
ابن تیمیہؒ ابو بکر صدیقؓ کی بیعت سے متعلق فرماتے ہیں:
[اگر صرف سیدنا عمرؓ اور انکے اصحاب سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت کرتے اور باقی صحابہؓ سیدنا ابو بکرؓ کی بیعت نہ کرتے، تو پھر امامت قائم نہ ہوتی، بلاشبہ سیدنا ابو بکرؓ کی امامت تبھی قائم ہوئی جب جمہور صحابہؓ ، جو اہل قدرت اور اہل شوکت تھے،نے اُن کی بیعت کر لی]
ابن تیمیہؒ خلافتِ عمرؓ سے متعلق بیان کرتے ہیں جن کو ابو بکر صدیقؓ (مشاورت کے بعد)منتخب کر گئے تھے:
[ اسی طرح سیدنا عمرؓ کا انتخاب جو سیدنا ابو بکرؓ نے کیا تھا، صرف اس انتخاب کی وجہ سے امامت قائم نہ ہوئی، بلکہ وہ امامت اصحابِ رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بیعت اور اطاعت کے بعد ہی قائم ہوئی، اگر فرض کریں کہ اصحابِ رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) سیدنا ابو بکرؓ کے انتخاب ِ سیدنا عمر ؓ کا عملی نفاذ نہ کرتے اور نہ ہی سیدنا عمرؓ کی بیعت کرتے، تو پھر امامت قائم نہ ہوتی]
اے بھائی،
اس وقت شام میں۲۳ملین لوگ آباد ہیں، ان میں جنگجوؤں کی تعداد ۱۵۰ہزارسے تجاوز کرتی ہے، ان میں ایسے مجاہدین موجود ہیں ، جوتعداد اور شوکت میں اِن (جماعت الدولۃ )سے زیادہ ہیں، بلاشبہ جب کوئی بیعت وامامت (بغدادی) ان اہل شوکت (مجاہدینِ شام) سے ہی تجاوز کر کے قائم ہو گی، تو ایسی بیعت درست نہیں ہے۔
اسی بنیاد پر سیدنا عمرؓ نے کہا تھا:
[پس اب جس کسی نے مسلمانوں سے مشورے کے بغیر کسی کی بیعت کی، تو بیعت کرنے والا اور جس کی بیعت کی گئی ہو دونوں اپنی جانیں گنوا بیٹھیں گے]
اے بھائیو! آپ لوگ شام اس لیے نہیں آئے تھے کہ آپ اہلِ شام کے مشورے کے بغیر ہی ان پر حاکم بن جائیں، ہم ان کے پاس اس لیےآئے تاکہ اپنے قتل کے بدلے اِن کو قتل عام سے بچا نے کے لیے اپنے نفس کو کھپا دیں، ان کے خون کی جگہ اپنا خون پیش کر دیں، ان کی عزتوں کی حفاظت کے لیے خود کو شام لائے، تاکہ شام میں شریعت کی حاکمیت قائم ہو جائے اور ہم شام میں اہل شوکت کو یہ اختیار دیں کہ جب تک اللہ کی شریعت کے قوانین کی حاکمیت قائم رہتی ہے، وہ جس شخص سے متعلق بھی شروطِ امامت کو پورا ہوتے دیکھیں ، اس کا انتخاب کر لیں ۔
اس سے پہلے جو کچھ بیان کیا گیا ہے، اس کے سیاق میں اپنے بھائیوں سے یہ بات کہتا ہوں:
مسئلہ بیعت:
یہ بیعت(بغدادی) باطل ہے، جس کا انعقاد نہیں ہوا، اور جو بھی چیز باطل پر کھڑی ہے، وہ خود بھی باطل ہوتی ہے، اس لیے اس میں کوئی گناہ نہیں کہ آپ (جماعت) الدولۃ کو چھوڑ دیں، اور یہی فتوی دورِ حاضر کے کبار علمائے اسلام نے بھی دیا ہے۔
جہاں تو اس مسئلہ کا تعلق ہے:
الفاظ حدیث:
[جو شخص اس حالت میں مر جائےکہ اس کی گردن پر بیعت نہ ہو،تو اس کی موت جاہلیت پر ہوئی]
یہ حدیث کسی شخص کو یہ جواز فراہم نہیں کرتی کہ وہ اس باطل بیعت کے لیے اور خود کو جاہلیت کی موت سے بچانے کے زعم میں اس کا استعمال کرے اور خود ایک جاہلیت سے دوسری جاہلیت کی طرف چلا جائے، اس حدیث کےان الفاظ (کہ جس کی گردن پر بیعت نہیں) سے مراد وہ بیعت ہے جس کا انعقاد صحیح طریقہ پر ہوا ہو، بلاشبہ صحابہؓ نے بغیر بیعت کے حبشہ میں زندگی گزاری اور اسی طرز پر ابو بصیرؓ اور ابو جندلؓ کا معاملہ رہا جو ارضِ بیعت سے دور رہے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان سے بیعت نہ لی کیونکہ وہ ان کی زمین (سلطہ) میں نہ تھے، بلکہ وہ ان دوسری زمینوں پر اپنے دین کی وجہ سے داخل ہوئے، اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انہیں اپنی بیعت کرنے کا امرنہ دیا، بیعتِ ولایت اوربیعت سلطان نہ رہی کیونکہ وہ اُن کی زمین پر موجود نہ تھے۔
شیخ د۔ عبداللہ المحیسنی
بیعتِ بغدادی کی صحت سے متعلق شرعی رائے
ڈاکٹر عبداللہ بن محمد المحیسنی
عربی متن:
http://mhesne.com/index.php?option=com_content&view=article&id=184
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں