بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد،
شام میں حالیہ ہی ہجرت کرنے والے ایک بھائی نے شام سے محبت کا اظہار مجھ سے ان الفاظ کے ساتھ کیا:
[مجھے شام سے بہت قریبی محبت ہو چکی ہےاور میں اس چیز کو پسند کرتا ہوں کہ اپنی بقیہ زندگی بھی ادھر ہی گزار دوں]
میں نے اس سے کہا:
[تم مجھے ایک چیز کی ضمانت دے دو، میں تمہیں باذن اللہ اس چیز کی ضمانت دے دوں گا جو تمہیں محبوب ہے]
اس نے جواب دیا:
[میں دس چیزوں کی ضمانت دینے کے لیے بھی تیار ہوں!]
میں نے پھر اُس سے کہا:
[نہیں، بلکہ صرف ایک ہی چیز کی ضمانت کافی ہے؛ اور وہ یہ ہے کہ تم جو اپنے ہتھیاروں کا رخ اہلِ شام کے چہروں کی جانب نہیں کرو گے۔۔۔اہلِ شام سے نہیں لڑو گے۔۔۔، ان کے اہل و عیال، مسلمانوں اور جن لوگوں کا تم دفاع کرنے کی غرض سے شام آئے ہو، انکے خلاف نہیں لڑوگے]
اس نے جواب دیا:
[کیا ایسا ممکن ہو سکتا ہے؟ یہ تو ناممکن بات ہے]
میں نےاُ س سے کہا:
[ہاں، بالکل ایسا ممکن ہے؛ ہم نے یہ پہلے بھی بقیہ علاقوں میں ہوتے دیکھا ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ شام کو اس معاملہ میں استثنا حاصل ہو۔اب اِن گزرتے ایام نے ہمارے اس خدشے کو واضح کر دیا ہے جس سے متعلق ہم ڈر رہے تھے، اور مسلسل تنبیہ کر رہے تھے ، اس امید کے ساتھ کہ اس سے بچا جا سکے گا، تاہم بدقسمتی سے اس کی توقع ضرور تھی۔ اب یہ معاملات مسلسل اور بڑے پیمانے پر ہونے لگےہیں ، یہاں تک کہ ان پر قابو پانا بھی اب مشکل ہوتا جا رہا ہے، اندرونِ خانہ مختلف وجوہات اور اسباب کی بنا پرلوگ قتل ہو رہے ہیں، جن میں اکثریت کا قتل ہونا بے بنیاد ہے، اور جن کا معاملہ درست ہے وہ بھی غلط اہداف کو پورا کرنےکے لیے استعمال میں لائے جا رہے ہیں]
میرے پیارے مہاجرین بھائیو، جو شام اور اہل شام کے دفاع کے لیے یہاں پر آئے ہو، اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ جب تک تمہارے اسلحے کا رخ طاغوت بشار الاسد اور اس کے مجرم حمایتیوں کی جانب ہے، تو پھر اہل شام تم سے اور تمہارے جہاد سے سب سے زیادہ خوشی محسوس کرنے والے ہیں ، وہ آپ کو سراہیں گے اور آپ کی قربانیوں کو بہت تحسین کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ تاہم اگر تمہارے اسلحے کا رخ اہل شام کے سینوں کی جانب ہو گیا، چاہے وہ دعوی کسی بھی قسم کا ہو، اور تم نے طاغوت اور اسکے شریر رافضہ اتحادیوں کی تلواروں کے ساتھ ساتھ اپنی تلواروں کا رخ بھی اہل شام کے سینوں کی جانب کر لیا ؛ اور اہل شام پر تمہارا ظلم اور طاغوت کا ظلم جمع ہو گیا، تو بلاشبہ اہل شام تمہارے یہاں آنے پر بہت ہی بدنصیب سمجھیں جائیں گے۔ ہم اس چیز کو سخت نا پسند کرتے ہیں کہ آپ اپنے اعمالِ خیر کو اعمالِ بد میں بدڈالیں یا پھر آپ اپنے اچھے اعمال کے اوپر بد اعمال کی مہر ثبت کر لیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
[اور جو کوئی کسی مسلمان کو جان کر قتل کرے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر الله کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور الله نے اس کےلیے بڑا عذاب تیا رکیا ہے] (النساء: ۹۳)
مزید براں، صحیح مسلم میں رسول اللہ ﷺسے ثابت روایت میں بیان ہوتا ہے:
[ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان پر سب کچھ حرام ہے، اس کا مال،عزت اورجان، اس شخص کے اندر وافر شر موجود ہے جو اپنے مسلمان بھائی کو رسوا کرے] (صحیح مسلم)
رسول اللہﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
[میرے بعد دوبارہ کافر نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو] (متفق عليه)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں، مہاجر وہ ہے جو اللہ کی طرف سے حرام کی ہوئی چیزوں سے اجتناب برتے](صحیح بخاری)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[ مسلمان کو گالی دینا فسوق (نافرمانی) ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے] (متفق عليه)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[ مومن اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں سے محضوض ہوتا رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرلیتا] (صحیح بخاری)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جو کوئی کسی مومن کو نقصان پہنچائے گا،اس کا کوئی جہاد قبول نہیں کیا جائے گا] (صحیح الجامع: ۶۳۷۸)
یہ تو اس شخص کی حالت کا بیان ہے جو کسی مومن کو ’نقصان‘ پہنچائے گا، پھر اس شخص کا معاملہ کیا ہو گا جو اپنا اسلحہ بھی اپنے مومن بھائی کی طرف کرے اور اسے قتل بھی کر دے۔۔۔؟
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا ] (السلسلة الصحيحة: ۳۹۷۳)
بنابریں، رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے کعبہ کی طرف ایک مرتبہ دیکھا اور یہ ارشاد فرمایا:
[اے کعبہ! تجھ پر سلامتی ہو، تو کتنا عمدہ ہے ، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے،بلاشبہ مومن کی حرمت اﷲکے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے،اللہ تعالیٰ نے تیری ایک چیز کی حرمت کو بیان فرمایا ہے اور ایک مومن کی حرمت سے متعلق تین چیزوں کا لحاظ رکھا ہے،اس کی جان،مال اور اس کی عزت سے متعلق سوئے ظن سے کام لینا] (السلسلة الصحيحة: ۳۴۲۰)
میرے پیارے مہاجر بھائیو، تمہیں ایک فتنہ کی لڑائی کی دعوت دی جائے گی جو کہ مجاہدین اور انقلابیوں کےمابین ہو گی۔ اس جنگ کا حصہ نہ بننا۔ اس چیز کا انکار کر دینا جس سے تم اور تمہارا دین داغ دار ہو۔ اپنے سفید پاکیزہ ہاتھوں کو اس سے مت رنگنا،بلکہ اس سے فرار اختیار کرنا بلکل اسی طرح جس طرح ایک صحت مند شخص ایک کھجلی والے بیمار شخص سے دور بھاگ جاتا ہے۔تم اس لیے یہاں نہیں آئے ہو، نہ ہی یہ وہ چیز ہے جس کے لیے تم جدوجہد اور قتال کر رہے ہو۔ اگرچہ تمہیں اپنے ہتھیاروں کو توڑنا پڑے، اپنے گھروں میں پسپائی اختیار کرنی پڑے اور تمہیں اپنے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں ہی کیوں نہ لینی پڑیں، پس اگر کر سکو تو ضرور کر لینا۔ مزیدبراں، اگر تم سمجھو کہ اس فتنہ سے بچنا بغیر اپنے ملکوں کی طرف واپس ہجرت کیے بغیرممکن نہیں، تو پھر ضرور یہ کام کر لو، یہ تمہارے لیے اور تمہارے دین کے لیے زیادہ بہتر اور قابلِ عزت ہےچہ جائیکہ کہ تم مسلمانون کے مابین فتنہ کی لڑائی کا حصہ بن جاؤ، اور اپنے پاکیزہ ہاتھوں کو جو وضو سے پاک ہوتے ہیں کو بے گناہ لوگوں اور ناحق خون سے رنگ لو۔ اگر تمہیں اس کے برعکس امر کیا جائے، جو کہ تمہیں ضرور کیا جائے گا، تو اپنے امیر کی اطاعت مت کرنا، چاہے وہ کوئی بھی ہو اور اس کو کوئی بھی مقدس دعوی ہو اور اس بات کو اچھی طرح جان لو کہ اللہ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز امر نہیں ہے۔
یہی وہ موقف ہے جو رسول اللہ ﷺ نے ہر مسلمان کو اپنانے کی ترغیب دلائی ہے۔ رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[اگر مسلمانوں کے مابین فتنہ کھڑا ہو جائے، تو اپنے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں تھام لو] (صحیح الجامع: ۷۶۰)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[بلاشہ فرقہ واریت اور اختلاف ہو گا ، اگر ایسا ہو جائے تو اپنی تلواروں کو توڑ دینا، ایک لکڑی کی تلوار لینا اور اپنے گھروں میں بیٹھ رہنا حتیٰ کہ تم کسی حادثہ میں جاں بحق ہو جاؤ یا تمہیں موت اس حالت میں آ لے] (صحیح الجامع: ۲۳۹۲)
عديسة بنت أهبان الغفاري سے روایت ہے، جب حضرت علیؓ بن طالب بصرہ میں تشریف لائے، تو وہ میرے والد صاحب کے ہاں تشریف لائے اور کہا: ’ابو مسلم، کیا تم میری حمایت ان لوگوں کے خلاف نہ کرو گے( اس سے ان کا قصد اہل شام، معاویہؓ اور ان کے اصحاب سے جنگ تھی)؟‘ انہوں نے جواب دیا: ’ جی کیوں نہیں! اور اپنی باندی کو آواز دی اور کہا: ’اے باندی، مجھے میری تلوار دے دو‘، غلام عورت نے وہ تلوار ان کے حوالے کر دی، اور پھر انہوں نے اس تلوار کو نیام سے اتنا نکال لیا کہ یہ واضح ہو گیا کہ تلوار لکڑی کی ہے۔ پھر انہوں نے کہا: ’میرے محبوب اور آپ کے چچازاد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مجھے یہ نصیحت فرمائی تھی: ’ اگر مسلمانوں کے مابین فتنہ ظاہر ہو جائے تو لکڑی کی تلوار تھام لینا‘، اگر تم مجھ سے مدد لینے کا ارادہ رکھتے ہو، تو میں اس کے ساتھ ہی تمہارے ساتھ چلنے کو تیار ہوں‘، سیدنا علیؓ نے جواب دیا:’ مجھے تمہاری اور تمہاری تلوار کی کوئی حاجت نہیں ہے‘۔
(صحیح سنن ابن ماجہ:۳۲۱۴)
اپنی محبت اور مخلصی کے ساتھ تمام دیانتداری کے ساتھ یہ بات میں آپ سے بیان کرتا ہوں، مجھے یہ بات کہنا پڑے گی کہ میں نے آپ کے معاملہ میں تکفیر میں غلو کو دیکھ رہا ہوں، جس کے اندر دوسرے افراد کی تکفیر کی سعی ہوئی ہے اور دوسرے اللہ کے بندوں سے متعلق سوئے ظن رکھنے کی عجلت بھی شامل ہے۔ یہ بہت بڑے شر کا معاملہ ہے جس سے متعلق میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کیونکہ اس کے نتائج بہت ہی بھیانک ہیں۔ چونکہ دوسروں پر تکفیر میں شدت پسند رحجانات دکھانے کا پیش خیمہ عام طور پر دھماکے، قتل و غارت اوربغیر حق کے حقوق کا غصب ہونا ہی بنتے ہیں، روزِ حساب میں ملنے والی سزا اس کے علاوہ ہے، یہ بات رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ثابت ہے جب انہوں نے فرمایا:
[جس کسی نے اپنے مسلمان بھائی کو کہا: اے کافر، پس یہ اسے قتل کرنے کے مترادف ہے، اور مومن پر لعنت کرنا اس کو قتل کرنے کی مانند ہے] (صحیح بخاری)
رسول اللہﷺ نے یہ ارشاد فرمایا:
[جس کسی نے دوسرے مسلمان کواے کافر یا ’اللہ کے دشمن‘ کہا، اور وہ شخص ایسا نہ تھا، تویہ بات اس شخص پر جس نے بیان کی ہے واپس لوٹ جائے گی] (صحیح مسلم) (صحیح مسلم)
یہی وہ بات ہے جس کو بیان کرنے کا میں ارادہ رکھتا تھا اور اسی سےمتعلق نصیحت بھی مطلوب تھی۔
[میں یہ نہیں چاہتا کہ جس کام سے تجھے منع کروں میں اس کے خلاف کروں میں تو اپنی طاقت کے مطابق اصلاح ہی چاہتا ہوں اور مجھے تو صرف الله ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ] (ھود: ۸۸)
عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
13.07.2013
www.abubaseer.bizland.com
http://www.altartosi.net
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں