خراسان، یمن، اسلامی مغرب، سیناء، صومالیہ اور قوقاز کے مجاہد بھائیوں اور قیادت کی طرف، ( اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائیں اور ان کو اپنے دین کی نصرت کے لیے استعمال فرمائیں)
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
اس کے بعد جو بیان ہوتا ہے؛
میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور درودوسلامتی ہو اس ذاتی گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) پرجن کو قیامت تک تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیاتاکہ صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
اے بھائیو! آپ اس معاملے کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں کہ جو کچھ سامنے ہوا ہے اور مسلسل شام کے میدان میں وقوع پذیر ہو رہاہےاختلافات باقی ہیں اور مجاہدین حالتِ جنگ میں ہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کو شدید دلی طور پر دکھ پہنچا ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے معاملے میں غیرت مندہیں۔ یہ کیفیت ان کی فکرمندی کی وجہ سے ابھی بھی جاگ رہی ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے متعلق معاملات میں تشویش رکھتے ہیں اور اس معاملہ نے دشمنوں کو بہت خوشی بھی دلائی ہے۔
شاید آپ لوگوں کے علم میں ہو کہ ہم نے ثالثی کردار ادا کرنے میں اپنی تمام تر قوتوں کو صَرف کر ڈالا ہے، جیسا کہ ایسا ہی بقایا تمام عزت مآب لوگوں، علماء اور مجاہدین نے کیا ہے۔ آپ کے علم میں یہ بھی ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے رابطہ میں رہے ہیں جو اس تنازعہ اور اندرونی جنگ کا حصہ ہیں، اوراس میں البغدادی بھی شامل ہے۔ میں نے اسے خفیہ بھی نصیحت کی اور جماعت الدولۃ کو اعلاناً بھی مشورہ دیتا رہا۔ میں نے جماعت کے مرکزی ترجمان، العدنانی، کے تجاوزات کاجہاں تک مجھ سے جیل میں ممکن ہو سکا جواب کے ذریعے رد کیا، اس کے باوجود کہ اس کے تجاوزات اورغفلت سے پھرپور گفتگو اس چیز کی بھی متقاضی نہ تھی کہ اس کا جواب دیا جاتا۔
میں نے اپنے محبوب بھائی، امیر، مجاہد، شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کو بھی لکھا، اور میں نے انہیں جماعت الدولۃ اور جبھۃ النصرہ کے درمیان اپنی ثالثی کوششوں سے بھی آگاہ کیا اور ان کے علم میں اس مفاہمتی عمل اور ثالثی کرادر کا نقشہ سامنے لایا۔ میں نے یہ بھی معلومات ان کو فراہم کیں کہ میں نے اپنے سب سے قریبی اوراعتماد والے طالب علموں کو، جو جماعت الدولۃ کی طرف سے لگائی گئی شرائط پر بھی پورا اترتے ہیں، اس میں اجازت سے شریک ہونے کا بھی کہا ہے؛ جب انہوں نے پرانی شرائط پر شدت دکھائی، اور انہوں نے سابقہ مفاہمتی عمل اور تحکیم سے ہی انکار کرڈالا تھا۔
یہی وہ معاملہ ہے جس سے متعلق البغدادی کو میں نے آگاہی دی، اور اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ اس کا ان مفاہمتی عمل کا اب انکار تمام مجاہدین کے سامنے اس کے اپنے کاندھوں پر ہی ہو گا، اور ان اپنے اعمال کے سنجیدہ نتا ئج کے ذمہ دار وہ خود ہی ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں جماعت الدولۃ کے اندر موجود بہت سے دینی علمی شخصیات سے بھی رابطہ میں رہا ہوں، اور میں نے ان کے ساتھ خط و کتابت کو محفوظ بھی کیا ہے، جس سے ان کی دھوکہ بازی ظاہر ہوتی ہے، ان کا بات کو بار بار ایک ہی جگہ پھیرنا نمایاں ہوتا ہے اور امراء جہاد سے متعلق معاملات میں جھوٹ کا سہارا لینا بھی عیاں ہوتا ہے؛ اس کے علاوہ بھی بہت سے خصائل ہیں، جو کہ مجاہدین کے اوپر کم از کم صادق نہیں آتے، جو کہ اصولاً سب سے زیادہ اس چیز کے مستحق بننے والے افراد میں سے ہیں جو عدل کو قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہی سچی شہادت دیں، اگرچہ وہ ان کے خلاف ہی جاتی ہو!
آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ نے ناحق خون کو بہایا ہے، اور یہ تصدیق شدہ ہے۔ انہوں نے اپنے مجاہدین امراء اور مشائخ کا حکم ماننے سے بھی انکار کیا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی مفاہمتی عمل اور نصیحت کو نہ کرنے پر بضد رہے ہیں۔ یہ ان کے بارے میں معروف ہو چکا ہے، اس کو محفوظ بھی کیا جا چکا ہے، اور اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ آپ اس چیز کا بھی علم رکھتے ہیں کہ غلو نے ان کی صفوں میں کچھ لوگوں کو بری طرح متاثرکر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے دینی علوم سے وابستہ افراد بھی اس کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کی صفوف میں خوارج موجود ہیں۔
آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ اس قسم کی مماثلت رکھنے والے افراد شامی مسلمانوں کے اوپر زبردستی قابض ہو رہے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار اعلاناً کر رہے ہیں، جہاد اور مجاہدین کی طرف نسبت کر کے باتیں بیان کی جارہی ہیں، جبکہ خود کو انہوں نے ‘اسلامی ریاست’ کے لبادے میں چھپا رکھا ہے، اور اس سے منسلک اصطلاحات کے استعمال سے جہاد، مجاہدین اور مطلوب اسلامی ریاست کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا۔
ان معاملات کی وجہ سے مختلف دوسری قومی قوتیں مجاہدین کی نصرت کرنے والی عوام کے خلاف آپس میں اتحاد کریں گی،اور پھر اس کے پیش نظر صحوات (حکومتی بیداری ملیشیاء) پیدا کی جائیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہنمائی سے انحرف کے نتیجے میں غلو پیدا ہو جاتا ہے ، اور چیزوں کو اس طرح بیان کیا جانے لگتا ہے جو کہ ن کا حق نہیں۔ ظلم اور قتلِ ناحق یقیناً ایسے ثمرات کو سامنے لائے گا جو جو بالکل ایک شیطانی درخت جیسے ہوں گے۔
آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ، اس کے مرکزی ترجمان، اور ان کے مذہبی اشخاص ہمارے علماء اور امراء کے خلاف اپنی تمام حدود سے تجاوز کر چکےہیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر ہمارے محبوب بھائی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کے لیے بالکل درست ہے۔
جب انہوں نے ان کے حکم سے انکار کر کے ان کی نافرمانی تک کی، اور مجاہدین نے ان کے خلاف شہادت دی جس میں ان کا دعوی تھا کہ ان کی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) سے بیعت ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنے گناہ پر جواز پیش کرنے کی سعی کی اور مجاہدین کے خلاف اپنے ظلم کی بھی وکالت کرنا شروع کر دی، اور ساتھ انہوں نے اپنے امراء کے خلاف بھی بغاوت کر ڈالی اور ان کی نصیحتوں سے بھی انکار کر دیا؛ اور یہ تمام کام انہوں نے اس لبادہ میں کرنے کی کوشش کی کہ القاعدہ نے منہجِ جہاد سے انحراف کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے امراء جہاد کے بیانات سے سیاق و سباق سے ہٹ کر اقتسابات نکالے اور اپنے لیے جواز وضع کیے؛ جبکہ حقیقت میں وہ کلام تو کسی بھی اسلامی خطا سے پاک تھا۔
ان کی قیادت کے بیانات کی روشنی میں جس میں انہوں نے تنقید اور تعصب کا مظاہرا کیا ، یہ ان کے جھوٹے اہداف اور نا اہل سمجھ کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گناہوں کے جواز پیش کرنے، باطل ردود کرنے اور مجاہدین کی صفوں کو بانٹنے کے لیے انجام دیا۔ ان کے اس طرح سے جواز فراہم کرنا ، ان کے سطحی علم، ناپختہ سوچ اور کم فہم فقہ پر دلالت کرتا ہے؛ اس کے ساتھ ان کا غلو کے معاملے میں تساہل پسند ہونا اور معاملات کو غلو کی طرف لے کر جانا تاکہ اس میں باطل وزن لایا جا سکے جیسی کوتاہی بھی اس میں شامل ہے۔
میں نے العدنانی کا سب سے حالیہ بیان سنا ہے، جو کہ مذکور بالا سطور کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے اندر بہت سی اور خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں،جن کو آپ ان کی دوسرے بیانات کے ساتھ جمع کر کے دیکھ پاتےہیں، جس کے اندر یہ واضح طور پر اس حکم کا انکار کرتے ہیں جو کہ ان کو امیر شیخ الظواہری (حفظہ اللہ) نے دیے ہیں۔
اس معاملے کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کی ابتداء کرنا اس مسئلے کا بنیادی حصہ تھا جس کے بارے میں شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کو لکھا گیا تھا اور اس کی آگاہی جماعت الدولۃ کو بھی دی گئی تھی۔ ان کا تحکیم سے واضح انکار کرنا جس کو دنیا کے ہر فرد نے سناہے، وہ تمام دروازے ہی بند کر دیتا ہے جس کے ذریعے کوئی مفاہمتی عمل پر پہنچا جا سکے اور مسئلہ کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کا حقِ انتخاب بھی ختم ہو گیا؛ جس سے اس معاملہ پر کسی کے بھی بولنے کی حاجت ہی نہ رہی ہے۔
پس اس معاملہ میں کوئی فائدہ ہی نہیں ہے کہ اس کے لیے تاخیر کی جائے یا اس کے لیے انتظار کیا جائے۔ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ ہمیں نہی عن المنکرکے فریضے پر خاموش رہنا پڑے گا اور جھوٹ کو عدم منسوخ کرنا پڑے گا۔ پس اس کے بعد یہ ہم پر اور دنیا بھر میں تمام علماء جہاد اور امراء جہاد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ حق بات کو بیان کریں، حق بات کہنے والوں کی صفوف میں یگانگت پیدا کریں اور اس گروہ کی نشاندہی کریں جس نے تحکیم کا انکار کیا، وہ گروہ جس نے اپنے امراء اور شیوخ الجہاد کے امر کی بھی نافرمانی کر ڈالی۔
اس بنیاد پر، میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تنظیم الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام ایک گمراہ جماعت ہے جو حق سے دور ہے، یہ مجاہدین کے خلاف ظالموں میں سے ہیں۔ یہ غلو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ناحق خون بہانے میں خود کو الجھاتے ہیں، ان کے اموال کو غصب کرتے ہیں، ان کو مالِ غنیمت سمجھتےہیں، اور ان علاقوں پر جو انہوں نے بشاری نظام سے لیے ہیں اس کے اندر قبصہ گیری بھی کرتے ہیں۔ اس گروہ نے جہاد اور عظیم مجاہدین کے نام کو بدنام کیاہے۔ انہوں نے مرتدین اور محاربین سے لڑنے کی بجائے اپنے ہتھیاروں کا رخ مجاہدین اور مسلمین کی طرف پھیر دیا ہے اور جو ان کی دوسری محفوظ شدہ انحرافات ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔
میں تمام مجاہدین کو پکاروں گا کہ وہ بھی میرے اس بیان کو رسمی بیان کے طور پراختیار کریں، اور اعلانیا اس کا اظہار کریں تاکہ حق اور حق والوں کی نصرت ہو سکے۔ میں جماعت الدولۃ کے تمام افراد سے کہوں گا کہ وہ خود کو جبھتہ النصرہ کی صفوف میں شامل کر لیں، اور ان کے امراء کی بیعت کریں۔ یہ ہمارا ان کے لیے فتوی ہے اور اسی چیزکی طرف میں ان کو تحریض دلاتا ہوں اور اسی کا انتخاب ان کے لیے کرتا ہوں۔ میں تمام جہادی اعلامی ویب سائیٹ اور دیگر منسلک افراد سے جو مسلمانوں اور جہاد کے معاملات کے متعلق تشویش رکھتے ہیں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بیان کو نشر کریں اور اس کی نصرت کریں اور جماعت الدولۃ کےکسی بھی قسم کے اعلامی مواد کو نشر کرنے سے گریز کریں۔
یہ بیان بالکل اایسا ہے جیسے کہ کسی باغی جماعت کے متعلق اسلامی حکم کو واضح کر کے اس سے اس دینی وابستگی کو لے لیا جائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ان کے شدت پسند منہج کا انکار کیا جائے اوراس سے برات کا بھی اظہار کیا جائےجس کا باطل منہج اس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے کہ ناحق خون کو بہایا جائے؛ جبکہ اس کی وجہ سے جہاد اور مجاہدین کے نام بدنام بھی ہونے لگ گئے ہوں۔ پس ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رستے سے انحراف کرتے ہوئے گمراہی اختیار کی گئی، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا گیا اور اس کے خلاف بغاوت تک کر دی گئی۔
ان کے انحراف کی وجہ چونکہ تحکیم سے کنارہ کشی تھا اور ہر قسم کے مفاہمتی عمل سے انکار تھا، پس میں نے اس موقف کو اس وقت اختیار کیا ہے جب کہ تمام قسم کی نصیحت (البغدادی) کو پہنچا دی گئی اور اس کی قیادت کے امراء اور مذہبی علمی شخصیات سے خفیہ اور اعلانیا رابطہ نہ کر لیا گیا تھا۔
یہ موقف بھی تبھی اپنایا گیا جب کہ امراء، علماء جہاد کے تمام قسم کے بیانات کا مکمل طور پر ہی لحاظ نہ رکھا گیا، اور تحکیم کے مسئلہ پر بھی واضح انکارکر دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ الممتنعة عن التحکیم (شریعت کی تحکیم کا انکار کرنے والا) قرار پایا اور اُس نے لوگوں کے حقوق واپس کرنے سے انکار کر دیا، بالکل اسی طرح جس طرح اس نے اپنے امراء جہاد کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ پس یہ ہم پر لازم ہو گیا کہ ہم حق کو بیان کر دیں جبکہ تمام قسم کی کاوش اس پر صَرف نہ کر لی گئی اوراسی مرحلے میں ہر قسم کے طریقہ ٔکار کو اپنانے کی بھی سعی کی کہ اُس کو واپس حق کی طرف بلا لیا جائے، لیکن اُس نے انکار کیا اور یہاں تک کے اُس کے قیادت اور مذہبی شخصیتوں نے بھی اس انحراف پر اپنا اصرار جاری رکھا۔
پس یہ بھی اب اہل جہاد پر فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف تنبیہ کریں اور مجاہدین کو کہیں کہ وہ ان کے ساتھ برات کا اظہار کر دیں اور ان اہل حق اور اہل جہاد کی صفوف میں شامل ہو جائیں، جو متقی اور صادق ہیں۔ یہ جہاد کے متعلق معاملہ کے لیے ایک ضروری امر ہے کہ اکٹھی واپسی کی جائے تاکہ مجاہدین کی صفوف کو اکٹھا کر لیا جائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں جو ان کے راہ میں ایک صف ہو کر لڑیں جیسے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ اہلِ جہاد اپنی صفوف کو منتشر کریں اور بکھر جائیں ،جس سے نہ صرف ان کی طاقت ضائع ہو گی بلکہ جہاد کمزور ہو جائے گا اور دشمنانِ اسلام کو یہ موقع فراہم کردے گا کہ وہ یک جان ہو کرمجاہدین پر حملہ کر دیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سےسوال کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کی صفوف میں وحدت ، ان میں موجود سب سے متقی شخص کے ذریعے پیدا فرمائیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ توحید کے جھنڈے کو سربلند فرما دیں اور شرک اور باطل کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔
درود اور سلامتی ہو! اور اللہ تعالیٰ کے مبعوث نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر
رجب، ۱۴۳۵ھ کے درمیانی ایام میں لکھا گیا
بمطابق مئی، ۲۰۱۴ء
ابو محمد المقدسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پکار
امت مسلمہ اور مجاہدین کے نام
از
شیخ ابو محمد المقدسی
(اللہ تعالیٰ ان کو رہائی عطا فرمائیں)
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
اس کے بعد جو بیان ہوتا ہے؛
میں اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اور درودوسلامتی ہو اس ذاتی گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) پرجن کو قیامت تک تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیاتاکہ صرف اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔
اے بھائیو! آپ اس معاملے کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں کہ جو کچھ سامنے ہوا ہے اور مسلسل شام کے میدان میں وقوع پذیر ہو رہاہےاختلافات باقی ہیں اور مجاہدین حالتِ جنگ میں ہیں، جس کی وجہ سے ان لوگوں کو شدید دلی طور پر دکھ پہنچا ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے معاملے میں غیرت مندہیں۔ یہ کیفیت ان کی فکرمندی کی وجہ سے ابھی بھی جاگ رہی ہے، جو جہاد اور مجاہدین کے متعلق معاملات میں تشویش رکھتے ہیں اور اس معاملہ نے دشمنوں کو بہت خوشی بھی دلائی ہے۔
شاید آپ لوگوں کے علم میں ہو کہ ہم نے ثالثی کردار ادا کرنے میں اپنی تمام تر قوتوں کو صَرف کر ڈالا ہے، جیسا کہ ایسا ہی بقایا تمام عزت مآب لوگوں، علماء اور مجاہدین نے کیا ہے۔ آپ کے علم میں یہ بھی ہو گا کہ ہم ان لوگوں سے رابطہ میں رہے ہیں جو اس تنازعہ اور اندرونی جنگ کا حصہ ہیں، اوراس میں البغدادی بھی شامل ہے۔ میں نے اسے خفیہ بھی نصیحت کی اور جماعت الدولۃ کو اعلاناً بھی مشورہ دیتا رہا۔ میں نے جماعت کے مرکزی ترجمان، العدنانی، کے تجاوزات کاجہاں تک مجھ سے جیل میں ممکن ہو سکا جواب کے ذریعے رد کیا، اس کے باوجود کہ اس کے تجاوزات اورغفلت سے پھرپور گفتگو اس چیز کی بھی متقاضی نہ تھی کہ اس کا جواب دیا جاتا۔
میں نے اپنے محبوب بھائی، امیر، مجاہد، شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کو بھی لکھا، اور میں نے انہیں جماعت الدولۃ اور جبھۃ النصرہ کے درمیان اپنی ثالثی کوششوں سے بھی آگاہ کیا اور ان کے علم میں اس مفاہمتی عمل اور ثالثی کرادر کا نقشہ سامنے لایا۔ میں نے یہ بھی معلومات ان کو فراہم کیں کہ میں نے اپنے سب سے قریبی اوراعتماد والے طالب علموں کو، جو جماعت الدولۃ کی طرف سے لگائی گئی شرائط پر بھی پورا اترتے ہیں، اس میں اجازت سے شریک ہونے کا بھی کہا ہے؛ جب انہوں نے پرانی شرائط پر شدت دکھائی، اور انہوں نے سابقہ مفاہمتی عمل اور تحکیم سے ہی انکار کرڈالا تھا۔
یہی وہ معاملہ ہے جس سے متعلق البغدادی کو میں نے آگاہی دی، اور اس کی توجہ اس طرف دلائی کہ اس کا ان مفاہمتی عمل کا اب انکار تمام مجاہدین کے سامنے اس کے اپنے کاندھوں پر ہی ہو گا، اور ان اپنے اعمال کے سنجیدہ نتا ئج کے ذمہ دار وہ خود ہی ہوں گے۔
اس کے ساتھ ساتھ میں جماعت الدولۃ کے اندر موجود بہت سے دینی علمی شخصیات سے بھی رابطہ میں رہا ہوں، اور میں نے ان کے ساتھ خط و کتابت کو محفوظ بھی کیا ہے، جس سے ان کی دھوکہ بازی ظاہر ہوتی ہے، ان کا بات کو بار بار ایک ہی جگہ پھیرنا نمایاں ہوتا ہے اور امراء جہاد سے متعلق معاملات میں جھوٹ کا سہارا لینا بھی عیاں ہوتا ہے؛ اس کے علاوہ بھی بہت سے خصائل ہیں، جو کہ مجاہدین کے اوپر کم از کم صادق نہیں آتے، جو کہ اصولاً سب سے زیادہ اس چیز کے مستحق بننے والے افراد میں سے ہیں جو عدل کو قائم کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ہی سچی شہادت دیں، اگرچہ وہ ان کے خلاف ہی جاتی ہو!
آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ نے ناحق خون کو بہایا ہے، اور یہ تصدیق شدہ ہے۔ انہوں نے اپنے مجاہدین امراء اور مشائخ کا حکم ماننے سے بھی انکار کیا ہے؛ اس کے ساتھ ساتھ کسی بھی مفاہمتی عمل اور نصیحت کو نہ کرنے پر بضد رہے ہیں۔ یہ ان کے بارے میں معروف ہو چکا ہے، اس کو محفوظ بھی کیا جا چکا ہے، اور اس کی تصدیق بھی ہو چکی ہے۔ آپ اس چیز کا بھی علم رکھتے ہیں کہ غلو نے ان کی صفوں میں کچھ لوگوں کو بری طرح متاثرکر دیا ہے، یہاں تک کہ ان کے دینی علوم سے وابستہ افراد بھی اس کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے کہ ان کی صفوف میں خوارج موجود ہیں۔
آپ کے علم میں یہ بات ہے کہ اس قسم کی مماثلت رکھنے والے افراد شامی مسلمانوں کے اوپر زبردستی قابض ہو رہے ہیں، اپنے خیالات کا اظہار اعلاناً کر رہے ہیں، جہاد اور مجاہدین کی طرف نسبت کر کے باتیں بیان کی جارہی ہیں، جبکہ خود کو انہوں نے ‘اسلامی ریاست’ کے لبادے میں چھپا رکھا ہے، اور اس سے منسلک اصطلاحات کے استعمال سے جہاد، مجاہدین اور مطلوب اسلامی ریاست کو نقصان پہنچا ہے اور پہنچتا رہے گا۔
ان معاملات کی وجہ سے مختلف دوسری قومی قوتیں مجاہدین کی نصرت کرنے والی عوام کے خلاف آپس میں اتحاد کریں گی،اور پھر اس کے پیش نظر صحوات (حکومتی بیداری ملیشیاء) پیدا کی جائیں گی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ شریعت اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رہنمائی سے انحرف کے نتیجے میں غلو پیدا ہو جاتا ہے ، اور چیزوں کو اس طرح بیان کیا جانے لگتا ہے جو کہ ن کا حق نہیں۔ ظلم اور قتلِ ناحق یقیناً ایسے ثمرات کو سامنے لائے گا جو جو بالکل ایک شیطانی درخت جیسے ہوں گے۔
آپ کے علم میں ہے کہ جماعت الدولۃ، اس کے مرکزی ترجمان، اور ان کے مذہبی اشخاص ہمارے علماء اور امراء کے خلاف اپنی تمام حدود سے تجاوز کر چکےہیں۔ یہ حقیقت خاص طور پر ہمارے محبوب بھائی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کے لیے بالکل درست ہے۔
جب انہوں نے ان کے حکم سے انکار کر کے ان کی نافرمانی تک کی، اور مجاہدین نے ان کے خلاف شہادت دی جس میں ان کا دعوی تھا کہ ان کی شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) سے بیعت ہی نہیں ہے، انہوں نے اپنے گناہ پر جواز پیش کرنے کی سعی کی اور مجاہدین کے خلاف اپنے ظلم کی بھی وکالت کرنا شروع کر دی، اور ساتھ انہوں نے اپنے امراء کے خلاف بھی بغاوت کر ڈالی اور ان کی نصیحتوں سے بھی انکار کر دیا؛ اور یہ تمام کام انہوں نے اس لبادہ میں کرنے کی کوشش کی کہ القاعدہ نے منہجِ جہاد سے انحراف کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے دعوی کو سچ ثابت کرنے کے لیے امراء جہاد کے بیانات سے سیاق و سباق سے ہٹ کر اقتسابات نکالے اور اپنے لیے جواز وضع کیے؛ جبکہ حقیقت میں وہ کلام تو کسی بھی اسلامی خطا سے پاک تھا۔
ان کی قیادت کے بیانات کی روشنی میں جس میں انہوں نے تنقید اور تعصب کا مظاہرا کیا ، یہ ان کے جھوٹے اہداف اور نا اہل سمجھ کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے گناہوں کے جواز پیش کرنے، باطل ردود کرنے اور مجاہدین کی صفوں کو بانٹنے کے لیے انجام دیا۔ ان کے اس طرح سے جواز فراہم کرنا ، ان کے سطحی علم، ناپختہ سوچ اور کم فہم فقہ پر دلالت کرتا ہے؛ اس کے ساتھ ان کا غلو کے معاملے میں تساہل پسند ہونا اور معاملات کو غلو کی طرف لے کر جانا تاکہ اس میں باطل وزن لایا جا سکے جیسی کوتاہی بھی اس میں شامل ہے۔
میں نے العدنانی کا سب سے حالیہ بیان سنا ہے، جو کہ مذکور بالا سطور کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس کے اندر بہت سی اور خصلتیں بھی پائی جاتی ہیں،جن کو آپ ان کی دوسرے بیانات کے ساتھ جمع کر کے دیکھ پاتےہیں، جس کے اندر یہ واضح طور پر اس حکم کا انکار کرتے ہیں جو کہ ان کو امیر شیخ الظواہری (حفظہ اللہ) نے دیے ہیں۔
اس معاملے کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کی ابتداء کرنا اس مسئلے کا بنیادی حصہ تھا جس کے بارے میں شیخ ایمن الظواہری (حفظہ اللہ) کو لکھا گیا تھا اور اس کی آگاہی جماعت الدولۃ کو بھی دی گئی تھی۔ ان کا تحکیم سے واضح انکار کرنا جس کو دنیا کے ہر فرد نے سناہے، وہ تمام دروازے ہی بند کر دیتا ہے جس کے ذریعے کوئی مفاہمتی عمل پر پہنچا جا سکے اور مسئلہ کو تحکیم کے ذریعے حل کرنے کا حقِ انتخاب بھی ختم ہو گیا؛ جس سے اس معاملہ پر کسی کے بھی بولنے کی حاجت ہی نہ رہی ہے۔
پس اس معاملہ میں کوئی فائدہ ہی نہیں ہے کہ اس کے لیے تاخیر کی جائے یا اس کے لیے انتظار کیا جائے۔ اگر اس میں تاخیر کی گئی تو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ ہمیں نہی عن المنکرکے فریضے پر خاموش رہنا پڑے گا اور جھوٹ کو عدم منسوخ کرنا پڑے گا۔ پس اس کے بعد یہ ہم پر اور دنیا بھر میں تمام علماء جہاد اور امراء جہاد پر فرض ہو جاتا ہے کہ وہ حق بات کو بیان کریں، حق بات کہنے والوں کی صفوف میں یگانگت پیدا کریں اور اس گروہ کی نشاندہی کریں جس نے تحکیم کا انکار کیا، وہ گروہ جس نے اپنے امراء اور شیوخ الجہاد کے امر کی بھی نافرمانی کر ڈالی۔
اس بنیاد پر، میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ تنظیم الدولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام ایک گمراہ جماعت ہے جو حق سے دور ہے، یہ مجاہدین کے خلاف ظالموں میں سے ہیں۔ یہ غلو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں۔ یہ ناحق خون بہانے میں خود کو الجھاتے ہیں، ان کے اموال کو غصب کرتے ہیں، ان کو مالِ غنیمت سمجھتےہیں، اور ان علاقوں پر جو انہوں نے بشاری نظام سے لیے ہیں اس کے اندر قبصہ گیری بھی کرتے ہیں۔ اس گروہ نے جہاد اور عظیم مجاہدین کے نام کو بدنام کیاہے۔ انہوں نے مرتدین اور محاربین سے لڑنے کی بجائے اپنے ہتھیاروں کا رخ مجاہدین اور مسلمین کی طرف پھیر دیا ہے اور جو ان کی دوسری محفوظ شدہ انحرافات ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔
میں تمام مجاہدین کو پکاروں گا کہ وہ بھی میرے اس بیان کو رسمی بیان کے طور پراختیار کریں، اور اعلانیا اس کا اظہار کریں تاکہ حق اور حق والوں کی نصرت ہو سکے۔ میں جماعت الدولۃ کے تمام افراد سے کہوں گا کہ وہ خود کو جبھتہ النصرہ کی صفوف میں شامل کر لیں، اور ان کے امراء کی بیعت کریں۔ یہ ہمارا ان کے لیے فتوی ہے اور اسی چیزکی طرف میں ان کو تحریض دلاتا ہوں اور اسی کا انتخاب ان کے لیے کرتا ہوں۔ میں تمام جہادی اعلامی ویب سائیٹ اور دیگر منسلک افراد سے جو مسلمانوں اور جہاد کے معاملات کے متعلق تشویش رکھتے ہیں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس بیان کو نشر کریں اور اس کی نصرت کریں اور جماعت الدولۃ کےکسی بھی قسم کے اعلامی مواد کو نشر کرنے سے گریز کریں۔
یہ بیان بالکل اایسا ہے جیسے کہ کسی باغی جماعت کے متعلق اسلامی حکم کو واضح کر کے اس سے اس دینی وابستگی کو لے لیا جائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہ ان کے شدت پسند منہج کا انکار کیا جائے اوراس سے برات کا بھی اظہار کیا جائےجس کا باطل منہج اس چیز کی طرف دعوت دیتا ہے کہ ناحق خون کو بہایا جائے؛ جبکہ اس کی وجہ سے جہاد اور مجاہدین کے نام بدنام بھی ہونے لگ گئے ہوں۔ پس ایسا اس لیے ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ کے رستے سے انحراف کرتے ہوئے گمراہی اختیار کی گئی، اور اللہ تعالیٰ کے حکم کا انکار کیا گیا اور اس کے خلاف بغاوت تک کر دی گئی۔
ان کے انحراف کی وجہ چونکہ تحکیم سے کنارہ کشی تھا اور ہر قسم کے مفاہمتی عمل سے انکار تھا، پس میں نے اس موقف کو اس وقت اختیار کیا ہے جب کہ تمام قسم کی نصیحت (البغدادی) کو پہنچا دی گئی اور اس کی قیادت کے امراء اور مذہبی علمی شخصیات سے خفیہ اور اعلانیا رابطہ نہ کر لیا گیا تھا۔
یہ موقف بھی تبھی اپنایا گیا جب کہ امراء، علماء جہاد کے تمام قسم کے بیانات کا مکمل طور پر ہی لحاظ نہ رکھا گیا، اور تحکیم کے مسئلہ پر بھی واضح انکارکر دیا گیا۔ جس کے نتیجہ میں وہ الممتنعة عن التحکیم (شریعت کی تحکیم کا انکار کرنے والا) قرار پایا اور اُس نے لوگوں کے حقوق واپس کرنے سے انکار کر دیا، بالکل اسی طرح جس طرح اس نے اپنے امراء جہاد کا حکم ماننے سے انکار کیا۔ پس یہ ہم پر لازم ہو گیا کہ ہم حق کو بیان کر دیں جبکہ تمام قسم کی کاوش اس پر صَرف نہ کر لی گئی اوراسی مرحلے میں ہر قسم کے طریقہ ٔکار کو اپنانے کی بھی سعی کی کہ اُس کو واپس حق کی طرف بلا لیا جائے، لیکن اُس نے انکار کیا اور یہاں تک کے اُس کے قیادت اور مذہبی شخصیتوں نے بھی اس انحراف پر اپنا اصرار جاری رکھا۔
پس یہ بھی اب اہل جہاد پر فرض ہے کہ وہ اس کے خلاف تنبیہ کریں اور مجاہدین کو کہیں کہ وہ ان کے ساتھ برات کا اظہار کر دیں اور ان اہل حق اور اہل جہاد کی صفوف میں شامل ہو جائیں، جو متقی اور صادق ہیں۔ یہ جہاد کے متعلق معاملہ کے لیے ایک ضروری امر ہے کہ اکٹھی واپسی کی جائے تاکہ مجاہدین کی صفوف کو اکٹھا کر لیا جائے۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند کرتے ہیں جو ان کے راہ میں ایک صف ہو کر لڑیں جیسے کہ وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہتے کہ اہلِ جہاد اپنی صفوف کو منتشر کریں اور بکھر جائیں ،جس سے نہ صرف ان کی طاقت ضائع ہو گی بلکہ جہاد کمزور ہو جائے گا اور دشمنانِ اسلام کو یہ موقع فراہم کردے گا کہ وہ یک جان ہو کرمجاہدین پر حملہ کر دیں۔
ہم اللہ تعالیٰ سےسوال کرتے ہیں کہ وہ مجاہدین کی صفوف میں وحدت ، ان میں موجود سب سے متقی شخص کے ذریعے پیدا فرمائیں اور یہ کہ اللہ تعالیٰ توحید کے جھنڈے کو سربلند فرما دیں اور شرک اور باطل کا جھنڈا سرنگوں ہو جائے۔
درود اور سلامتی ہو! اور اللہ تعالیٰ کے مبعوث نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) پر
رجب، ۱۴۳۵ھ کے درمیانی ایام میں لکھا گیا
بمطابق مئی، ۲۰۱۴ء
ابو محمد المقدسی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک پکار
امت مسلمہ اور مجاہدین کے نام
از
شیخ ابو محمد المقدسی
(اللہ تعالیٰ ان کو رہائی عطا فرمائیں)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں