جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

یہ ہے ہمارا پیغام! شیخ ابو دجانہ الپاشا

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد لله رب العالمین والصلاة والسلام على اشرف الانبیاء والمرسلین وعلی آله وصحبه ومن تبعهم بإحسان إلى یوم الدین
بعدازاں:

یہ  معاملہ کسی سے  بھی مخفی نہیں ہے کہ کس طرح مسلم ممالک پر ملت ِکفر اور مرتدین کے گروہ ہر چہار جانب سے جمع ہو رہے اور ان مسلم آبادیوں پر ظلم و جبر کر رہے اور انہیں سوء عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔زمین میں فساد پھیلا رہے اور اللہ کے بندوں کو دین میں آزمارہے، حرمتوں کو پامال کر رہے اور مردوں، عورتوں اور بچوں کو قتل کر رہے، اور دیارِ مسلمین میں ان کے رہنے والوں کے خلاف وہ جرائم سرزد کر رہے ہیں جن کو بیان نہیں کیا جا سکتااور قلم  بھی ان کو بیان کرنے سے عاجز ہیں،  اور ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ  نے اپنی امت کے مقدرمیں مجاہدین کو لکھ دیا، جو کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ  نہیں کرتے، جو کہ امت کی بیماری کا علم بھی رکھتے ہیں اور اس کی دوا کو بھی جانتے ہیں، اور وہ اس چیز کا ادراک بہت اچھی طرح رکھتے ہیں کہ ان تلخ حالات سے  جس سے امت دوچار ہے باہرنکلنے کا سبب صرف اور صرف اللہ اور دین کی طرف رجوع ہے، اور اس کی طرف پہنچنے کا راستہ سوائے دعوت اور جہاد کے کوئی دوسرا نہیں ہے۔ پس انہوں نے امت کے دشمنوں کو پچھاڑا اور اس امت کا دفاع کیا اور اپنی طرف سےمزید اس کا دفاع  میں لگ گئے اور اس کی نصرت  ایسے وقت میں کی جب اس امت کی مدد کرنے والے  بھی قلیل تھے اورایک کثیرتعداد ان کی مخالفت کر رہی تھی،  انہیں دھوکہ دے رہی تھی اور انہیں اس رستے سے روکنے کی  بھرپورکوشش بھی کر رہی تھی ، اور یہ معاملہ اسی  طریقہ  پرگامزن  تھا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

[لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين على الحق لا يضرهم من خذلهم حتى يأتي أمر الله وهم كذلك]
’’میری امت میں سے ایک گروہ ایسا ہو گا جو کہ اللہ تعالی کے احکام پر عمل کرتا رہے گا جو بھی انہیں  چھوڑے گا وہ انہیں کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا حتی کہ اللہ تعالی کا حکم ( قیامت ) آ جائےگا اور وہ لوگ اس پر قائم ہوں گے‘‘

پس نہ ہی  کوئی قوت ہےاور  نہ عزت سوائے  اس کے کہ یہ امت اللہ کے دین کو مضبوطی سے نہ تھام لے، اور اسلام کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ تعالیٰ پر اٹھ کھڑی  نہ ہو جائے، اور جب بھی امت اپنے دین سے دور رہے گی اور جہاد فی سبیل اللہ  کا راستہ اختیار کیے بغیر،امت کی اقامت اور نصرت کی راہ اپنائے گی ،تو وہ  سوائے ضعف،ذلت اور بےچارگی کے کچھ نہ پائے گی اوریہ ان شرعی احکامات کو  چھوڑنے  کے بقدر  ہی ان پر مسلط  کر دی جائے گی۔

اے میر ی محبوب امت،
اللہ تعالیٰ کےر ستے میں دعوت و جہاد ہی وہ عنوان ہے ہمارے پیغام کا  جز ہے جس کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں اور جس کے لیے قربانیاں دینے کی تحریض دلاتے ہیں، اور ہم اس رستے پر گزرتے ہوئے ان نقصانات، مصائب و آلام پر صبر کرتےہیں، ہم لوگوں کو اللہ کی توحید کی طرف بلاتےہیں، اور اللہ عزوجل کو عبادات، حکم،قانون سازی میں یکتا  ماننے کی دعوت دیتے ہیں؛  کفر بالطاغوت، شرک اور اہل شرک سے برات ،  ناپید  شریعتِ اسلامی کی تحکیم ، دین کو قائم کرنے کی طرف بلانا ہی ہماری دعوت ہے جو کہ آج بھی ویسا ہی اجنبی ہے جیسا  اسلام اپنی ابتداء میں تھا۔ ہم منہجِ نبوت پر خلافت راشدہ کے قیام کی دعوت دیتے ہیں، نہ کہ ہماری دعوت  نہجِ انحراف ، جھوٹ، عہد شکنی اور بیعت شکنی پر ہے،ایسی خلافت جو   مشاورت (شورٰی)، عدل، الفت ، اتحاد، اور اجتماع کے اوپر قائم ہو، نہ کہ  ایسی  خلافت جس کی بنیاد ظلم، تکفیر المسلمین، قتلِ موحدین اور مجاہدین کی صفوں میں تفریق پر رکھی جائے۔ ہم تمام مسلمانوں کو کلمۂ توحید پر اکٹھا کرنے کی  طرف بلاتے ہیں، اور ایسے پرچم تلے جمع ہونے کی دعوت دیتے ہیں جو انحراف کےداغوں سے پاک ہو، جو افراط و تفریط سے آزاد ہو۔ ہم تمام مسلمانوں کودشمنانِ دین کے خلاف جہاد کے فرض کی ادائیگی کی طرف بلاتے ہیں، جن  اعداء اللہ میں دیارِاسلام  پر قبضہ جمانے والے صلیبی، یہودی، مشرکین بھی شامل ہیں اور ان کے معاونین بھی ہیں جو مرتدحکمرانوں کی شکل میں ہیں جنہوں نےاللہ کی شریعت کو بدل ڈالا ہے۔ ہم   عامۃ الناس کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ  اہل شام اور اہل عراق کی نصرت کریں، ان حملہ آور دشمنوں کو پچھاڑیں جو  کہ ان کے دین اور حرمات پر حملہ آور ہے جن میں  نصیری ،روافض اور دیگر دشمنانِ ملتِ اسلام و دین شامل ہیں۔ ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں جہاد ہر مسلمان پر فرضِ عین کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیےیہ کسی خاص گروہ یا جماعت کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ واجب ہے کہ یہ جہاد ِامت ہو ، نہ کہ ایسا جہاد جو مخصوص چیدہ اشخاص کا ہو جو امت سے کٹ گئے ہوں۔ ہم انہیں دعوت دیتے ہیں کہ وہ ان منحرف راستوں سے بچنے کی کوشش کریں جو دین میں شامل نہیں، جیسا کہ جمہوریت اور اسی طرح دوسری گمراہیاں جس کی شریعت نے نشاندہی کی ہے اورجن کا حقیقت نے بھی کذب کھول کر رکھ دیا ہے، ہم ابنائے امت کے درمیان الولاء والبراء کے عقیدہ کو راسخ کرنے کی دعوت دیتے ہیں، پس اس لیے اتحاد تو فقط  مومنین کے ساتھ ہی ہو گا اگرچہ اس کی قومیت ، رنگ اور زبان کچھ بھی ہو، اور اسی طرح کفار سے دشمنی اور عداوت  رکھی جائے گی۔ پس ہمارے دین میں تقوی اورعمل صالح کے علاوہ کوئی فوقیت کسی شخص کو دوسرے پر حاصل نہیں ہے ۔

ہم  مسلمانوں کے ساتھ نرمی رکھنے کی دعوت دیتے ہیں اور انہیں اس دعوت کو بتدریج ترتیب وار طریقہ پر سمجھانے کی سعی کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے دین کو درست کر لیں، اور ان پر حق کو نرمی، بردباری، رحمت اور حکمت سے  واضح کرتے ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ ان پر ہر چہار جانب سے جنگ مسلط ہے اور شدید سازش کے ذریعے ان کو  اپنے دین، عقیدے ،اخلاق سے دور رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ ہم  دعوت دیتے ہیں کہ  مظلوم لوگوں کی نصرت اور مدد  تمام بقعۂ ارض میں کی جائے، ہم ہر اس چیز کی دعوت دیتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کرنے کا حکم دیا ہے جو کتاب اللہ وسنتِ نبوی ﷺ میں موجود ہے، تاکہ سیاستِ شرعیہ کے اصولوں کا تحفظ یقینی بھی بنایا  جائے، اور اس معاملہ میں  نہ کوئی نقصان ہو، نہ ظلم ، نہ افراط  اور نہ ہی تفریط!

اے امت ِ مسلمہ،
ان دو متشدد گروہوں سے محتاط اور خبردار رہیے جو افراط اور تفریط میں پڑ چکے ہیں، اس سے قبل بھی ہمیں ان چیزوں میں آزمایا جا چکا ہے، جب لوگ امتِ مسلمہ  کو اس شرکیہ جمہوریت کی طرف لے گئے اوردین و شریعت کے اصولوں پرسمجھوتا کیا، اور وہ ابھی تک مسلمانوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں اگرچہ  اس پر بہت تلخ اور ناکام تجربے بھی ہو چکے ہیں۔ اگروہ بندگانِ خداکے  معاملہ میں اللہ سے ڈرتے، تو انہیں ضرور ربِ رحمان کی  شریعت اور توحیدِ باری تعالیٰ کی طرف دعوت دیتے، اور وہ اللہ کی حاکمیت میں کسی کو شریک نہ ٹھہراتے ،بالکل اسی طرح جس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی عبادات میں کسی کو شریک نہیں کرتے ہیں۔ پس یہ  رحجان بعض مسلم  ممالک کے لیے تباہی کا سامان لایا اور ایک ایسا ہتھیار بن گیا  ہےجس کے ذریعے مخلص ابنائے امت کو دبایا  جا نےلگا جو کہ شریعت کی حاکمیت قائم کرنے کی سعی کر رہے ، جس طرح کہ ہم آج  غزہ، تیونس اور دوسرے مسلم ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح اس امت کو اہل غلو  اور اہل جہل اور اہل افراط نے بھی آزمائش میں مبتلا کیا، پس انہوں نے اللہ کی بندوں کی تکفیر کی،  موحدین کو قتل کیا ، جہاد کو فساد میں بدلا، مجاہدین کے پیغام کو مسخ کیا، اپنے سیدھے رستے کوالجھا دیا، اور ہم اللہ تعالیٰ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں۔ اے اللہ! آپ گواہ ہو جائیں ہم ان دونوں مناہج سے برات کا اظہار کرتے ہیں اور ان دونوں کے ہی رستوں سے لاتعلق ہوتے ہیں۔اے اللہ! ان دونوں  فریقین کے لیے ہم  آپ سے ہدایت  کا سوال کرتے ہیں۔


اے ہماری امتِ مسلمہ،
تمہارے بیٹوں کی طرف سےیہی ہمارا  پیغام ہے، جس کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ ہم اس پیغام کو آپ کے سامنے صاف اور واضح انداز میں پیش کر رہے ہیں جو ارجاء کے نقص  اور غلو کے فساد سے پاک ہو۔ پس اے بہترین امت جو انسانیت کی طرف بھیجی گئی ہو، ہر جگہ اپنے ان مجاہد بیٹوں کے ساتھ ہو جاؤ۔

اس کے بعد میں اپنا پیغام دیارِ اسلام  میں موجود امت کے مجاہد بھائیوں کی طرف بھیجتا ہوں جو کہ ہمیں اس اہم مرحلے  میں اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی سازشوں سے گزرتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ اس کے بعدبھی بدقسمتی سے اسے کچھ لوگوں کی غفلت اور کوتاہی کی وجہ سے سہارا دیا گیا، جنہوں نے اس فتنہ کی چنگاری کو بھڑکایا اور صفوں میں تفریق پیدا کی اور مجاہدین کے درمیان قتال کو سرگرم کیا ، اس معاملہ میں اب سب کچھ ہی  ظاہر ہو چکا ہے اور کچھ بھی مخفی نہیں رہا ہے، اور ہم  اللہ تعالیٰ سے مدد کے طلبگار ہیں۔

اے مجاہد بھائیو!
آپ کو  اس قوم کی  سب سے عظیم امانت سپرد کی گئی ہے اور آپ اس  بہترین امت جوانسانیت کے لیے بھیجی گئی ہےکے دفاع کا حصار ہو۔آپ ادھر دیکھتے ہیں کہ ہم شام میں کس طرح کے مصائب سے دو چار ہوئے ہیں جس میں اختلاف ، قتال اور بعض کی بعض پر تکفیر ہوئی ۔اللہ تعالیٰ کی ایسے حالات میں سنت رہی ہے کہ اس سے شکست کا خوف  پیدا ہوتا ہے  اور طاقت بکھر جاتی ہے، اور یہ چیز اس بات کو مزید واجب کرتی ہے کہ آپ اس  شگاف کو بھریں  جس سے جہاد کو  نقصان پہنچا ہے ، اور امت کے مستقبل پر چوٹ پڑی ہے، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ اس خرابی  کی اصلاح کی کوشش کریں، اور مجاہدین کو واپس وحدت  اور اتحاد کی طرف لانے کی سعی کریں، اور ہر قسم کے بگاڑ اور انحراف کو پسپا کریں، اور ہر قسم کی مکروہ تدبیر کا رد کریں جو اختلاف اور فرقہ کو ہوا دے۔

اے میرے بھائیو جو میدان  ِ کارزار میں موجود ہو!
میں خصوصی طور پر اہل علم، اہل تجربہ اور جو آپ میں موجود  اختصاصی علم میں مہارت رکھنے والے ہیں،جنہوں نے دیکھ ہی  لیا ہے کہ کس طرح جہاد  انحراف کا شکار ہو رہا ہے اور کس طریقہ سے اس  جہاد کے ثمرات کو کھویا جا رہا ہے، اورکیسے بغیر کردار والے لوگ مجاہدین کی صفوں میں سرایت کر رہے ہیں  جو چاہتے  ہیں کہ ان کی رہنمائی ناکامی اور زوال پر کر دی جائے ، ان کو تمام دوسرے احباب سمیت  دعوت دیتا ہوں کہ وہ جہاد کے معاملہ میں اللہ کا تقوی اختیار کریں اور  اس کے تدارک کی کوشش کریں اور امتِ مسلمہ اور مجاہدین پر  درست رستے کو واضح کر دیں اور تمام  متنازعہ مسائل میں حق کو ظاہر کر دیں،اور یہ ایک ایسی امانت ہے جس کے بارے میں سب سے سوال کیا جائے گا۔ اور یہ بات جان لو میرے بھائیو  کہ آپ کے خراسان میں مجاہدین بھائی ، باذن اللہ، کفار  اور اعدائے دین کے حلق کا کانٹا بنے رہیں گے، اور وہ اللہ کی مدد و نصرت سے اپنے دین پر ثابت قدم ہیں۔ وہ نہ ہی تبدیل ہوئے ہیں اور نہ ہی پلٹ گئے ہیں وللہ الحمد ؛  وہ صبر کر رہے ہیں اور ہلاکتوں کی تعداد میں  اضافہ، حالات کی تنگی ، آزمائشوں کی شدت، افتراء، طعن و تشنیع،  غلط بیانی  اور جھوٹ پر مبنی ظلم،ان کے حوصلہ کو کمزور نہیں  کر رہا ہے؛  وہ جانتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں اس رستے  میں سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ باذن اللہ، وہ  یہ بات بھی  جانتے ہیں کہ آزمائشوں کا بڑھنا فتح کی قربت،نجات،  تمکین پر ایک  دلیل ہے۔ 

اور اب میں اپنا کلام اور نصیحت  ارضِ شام میں موجود بھائیوں  کی طرف کرتا ہوں، جنہیں القابات اور عنوانات کے ذریعے دھوکہ دیا گیا، اور وہ  نصیحت یہ ہے کہ  وہ اپنے عقل و شعور کو استعمال کریں، بصیرت سے کام لیں، اور تمام امورکا انصاف اور غیرجانبدار طریقہ سے موازنہ کریں، اور خود کو تعصب اور ہوائے نفس سے بچائیں، کیونکہ یہ کسی بھی شخص کی دنیا اور آخرت کی بربادی کا سامان ہے۔ بے شک یہ تو ایک ہی نفس ہے، جس کے علاوہ آپ  کے پاس دوسرا کوئی نفس موجود نہیں ہے۔ اس  سفینۂ جہاد کو بچاؤ، اور اس چیز کا ادراک اس رستے سے  انحراف  اور اہل ھواء  کے طریقہ پر پہنچنے سے قبل ہی  کر لو۔ اس  فتنہ کی آگ کو بجھانے کی سعی کرو اور مجاہدین کے آپس کے تعلقات کو  بحال کرنے کی کوشش کرو اور میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ آپ شیطان کو  اپنے اور مجاہدین بھائیوں کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے سے دور رکھیں، خونِ مسلم کے بارے میں احتیاط آپ  پر لازم ہے اور مجاہدین کے ساتھ قتال یہ شکست ہے،قوت وطاقت کے دنیا  میں  ٹوٹنے کا سبب اور آخرت میں عذاب اور خسارے کا سودا ہے۔میں آپ کو، خود کو عالم باور کروانے والے جہلاء کی پیروی پر شدید تنبیہ کرتا ہوں۔

 یہ لوگ بالکل ایسے ہی ہیں جیسا کہ نبی ﷺنے ارشاد فرمایا:
’’یہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور کثرت سے گمراہ بھی کرتے ہیں‘‘

پس اہل علم سے ہی سوال کرنا چاہیے۔ اہل تجربہ اور اہل بصیرت کے اقوال سے خود کو روشناس کروائیں، اور نہ ہی کسی بھی قسم کے عنوانات، القابات اور نام تمہیں گمراہ کر پائیں، یہ توایسی  خوش فہمیاں ہیں جو گمراہ کرتی ہیں اور یہ ایک  ایسا سراب ہے  جس کے سبب تم تباہ کر دیے جاؤ گے ، یہ امت میں فرقے کا سبب بنے گا جس میں تمہارا حصہ شامل ہو جائے گا اور تم بھی ان لوگوں میں شمار ہونے لگ جاؤ گے جو مجاہدین کی صفوں میں تفریق پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں ۔
 اے میرے بھائیو!

میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ شریعت پر عمل پیرا ہوں اور خود کو خواہشاتِ نفس سے دور کر لیں اورآپ پر علمائے صادقین کی پیروی لازم ہے۔ ان کے  بلند مرتبہ سے واقف ہو جائیں، اور ان ہی سے ان مسائل کے بارے میں پوچھیں جس کا علم آپ نہیں رکھتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح جان  لیں کہ جو علم میں راسخ علماء کی مخالفت کرے اور اعلی درجہ کے جہلاء یا خود کو عالم باور کروانے والوں کی پیروی کرے، تو وہ عظیم خطرے اور واضح گمراہی میں پڑ جائے گا ۔

اے میرے بھائیو!
یہ بھی جان لو کہ حق، لوگوں (عام و خواص)  میں فرق نہیں کرتا ہےاور اہلِ حق کے درمیان فرق کرنے والی چیز ہوائے نفس ہے اور سوائے فرقہ اور اختلاف کے ان کی گردنیں کوئی بھی چیز نہیں توڑ سکتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے جو نہ ہی تبدیل ہوتی ہے اور نہ بدلتی ہے۔

 اس کے بعد میں علمائے صادقین کو  دعوت دیتا ہوں کہ وہ ان  تصورات کی درستگی کے لیے اپنے  فرض کی ادائیگی کریں لیکن اس دفعہ یہ معاملہ عام مسلمانوں کے درمیان بیان کرنے کے لیے  فقط نہیں ہے، بلکہ ہمارے مجاہد بھائیوں کےد رمیان اس کو بیان کیا جانا چاہیے تاکہ  ہوائے نفس کہیں دین  اور منہج نہ بن جائے، اور انحراف اور غلو  کہیں استقامت اور ثابت قدمی نہ قرار پائیں، دین کے اصولوں میں تفریط کہیں حکمت  اور راست بازی نہ بن جائے، اور جہاد کی راہ کہیں شدت پسند جہلاء  کی موجودگی اور علم اور اہل علم کی غیر موجودگی  کے سبب انحراف کے رستے پر گامزن نہ ہو جائے؛  اورحالیہ ہی جو  چیز سب سے زیادہ عام ہوئی ہے وہ  مجہول(نامعلوم)،  خود کو عالم باور کروانے والے اور جہلاء کی طرف سے کثرتِ فتاوی اور توجیہات ہیں، جس کی وجہ سے ایسے لوگوں نے بھی بیانا ت دینا شروع کر دیے ہیں جن کا علم سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے؛ خصوصی طور پر ایسے موضوعات پر جوکہ تمام دین کے ابواب میں سب سے عظیم  ہیں اور وہ ہے ’اسماء اور احکام کا باب ‘؛ پس انہوں نے مسلمانوں کی تکفیر کی بلکہ بہترین مجاہدین کی تکفیر کی ہے۔ ان کے خون کو بہانا جائز قرار دیا اور یہ امور اگر ہم نے انہیں نظر انداز کر دیا تو یہ بڑھیں گے اور مزید پھیل جائیں گے۔ انہوں نے  ہی جہاد کو نقصان پہنچایا اور جہاد کرنے والوں کی تصویر کو آلودہ کیا، اور تنبیہاً  یہ اس امت کے حاضر اور مستقبل کے لیے ایک  شدید خطرہ ہے۔  ہمیں اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ جو ہم آج دیکھ رہے ہیں اس کا مقصود جہاد  کو مسخ کرنا اور لوگوں کو اس سے دور بھگانا ہےاور یہ معاملہ فقط جہلاء اور مجہول افراد کے سامنے آنے اور کثرتِ فتاوی اور توجیہات  دینے تک محدود نہ رہا بلکہ یہ حالات لوگوں کو صادقین اہل علم سے دور ان کی حوصلہ شکنی تک لے گئے ہیں۔  علم کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے  علماء کو امانت دار ٹھہرایا،  پس اس معاملہ میں ان سے عدم رجوع کیا گیا ہے۔ پس  یہ تمام حالات تو ان  اہل علم پر اس بات کو واجب کرتے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں آستین چڑھا کر اپنے بھائیوں کو علم اور توجیہات سے روشناس کروائیں تاکہ احکامِ شریعت مجاہدین کے درمیان اجنبی نہ بن جائیں اور جو ان احکامات کو بیا ن کرے، انہیں منحرف ہونے اور منہج تبدیل کرنے کے الزامات  سے بچایا جا سکے۔ اس معاملہ کو شجاعت سے بیان کیا جانا چاہیے۔ ہم خود کو خطا اورکوتاہی سے مبرا نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم  سےجب غلطیاں سر زد ہوتی ہیں، تو ہم ان کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کی درستگی اور اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور ہم اللہ کے رستے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے ہیں۔

اور آخر میں ایک اہم  امر کی وضاحت کرنا چاہوں گا۔ بہت سے لوگ جو ہم سے محبت رکھتے ہیں انہوں نے ہم پر  یہ گمان رکھ لیا تھاکہ ہم نے اپنے شیخ، امیر  ،حکیمِ امت، قائد  المجاہدین، عالی مرتبت شیخ ایمن الظواہری( اللہ ان کی حفاظت فرمائیں اور انہیں ظالمین کے حلق کا کانٹا بنائے رکھیں) کو چھوڑ دیا ہے اور ہم نے ان کی عزت اور حرمت کی خاطررد میں جواب نہیں دیا ہے ۔ پس میں کہتا ہوں؛ ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ ہم اس غفلت کا شکار ہو جائیں۔

بےشک رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو کوئی اپنے بھائی کی عزت و حرمت کا دفاع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم کی آگ سے روزِ قیامت بچا لیں گے‘‘

لیکن ہمارے پاس  بھی کوئی اختیار نہ تھا۔ شیخ نے اپنے بھائیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ خاموش رہیں اور ان کی عزت و حرمت کے دفاع میں جواب نہ دیں اور وہ  اس  مشکل حالت میں فقط امت کی مصلحت کے حریص ہونے کے  پیش نظر رہے اور اس چیز کی امید رکھی کہ اللہ تعالیٰ ہی اس  معاملہ کو درست فرما دیں گے اور فتنہ ختم ہو جائے گا۔ پس اللہ تعالیٰ نے قدر میں ان  کی حسنِ نیت کے پیش نظرہی خود ان کی حفاظت  اور مدد فرمائی اور انہیں قوت بخشی۔ پس شیخ کی حالت وہی تھی جیسا کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:

[وما زاد الله عبدا بعفو إلا عزا]
’’بندے کے معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت بڑھا دیتے ہیں‘‘

اے اللہ! امت کی سمت کو درست فرما دیجیے جس  میں تیرے اطاعت گزار بندوں کوعزیمت نصیب ہواور تیری نافرمانی کرنے والے ہزیمت سے دور چار ہوں۔
اے اللہ! تمام قیدی بھائیوں کو رہائی عطا فرمائیں اور انہیں حق پر ثابت قدم رکھیں۔ یا اکرم الاکرمین!
اے اللہ! اپنے مجاہد بندوں کی ہر جگہ نصرت فرمائیں۔
اے اللہ! ان کی نصرت شام، صومالیہ، یمن، مصر، اسلامی مغرب اور اسی طرح عراق، افغانستان، چیچنیا، برما، کشمیر ، ترکستان اور دیگر بلادِ اسلام میں فرما دیجیے۔

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين


یہ ہے ہمارا پیغام!
بیان: شیخ ابو دجانہ  الپاشا حفظہ اللہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں