جمعہ، 21 نومبر، 2014

اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے
تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

ادارۂ السحاب کو دیا گیا شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم العالیہ کا انٹرویو


پوری دنیا میں بسنے والے ہمارے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ادارہ السحاب آپ کی خدمت میں اس وقت شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم کے ساتھ ساتواں انٹرویو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسے ہم سب کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین

سب سے پہلے ہم شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اھلاًوسھلاً

سوال:
صلیبی صہیونی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف مجاہدین کی جنگ شروع ہوئے تیرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔جب کہ ابھی تک جنگ پورے زوروشور سے جاری ہے۔آپ کے خیال میں جیت کا پلڑا کس کے حق میں رہا؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیت کا پلڑا اسی کے حق میں ہے جو میدانِ جنگ سے بھاگا نہیں ! عراق سے کون بھاگا اور کون نہیں؟اورافغانستان سے کون بھاگنے کی تیاری میں ہے اور کون ثابت قدم ہے؟

سوال:
لیکن اوباما نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے القاعدہ کو شکست دے دی ہے اور اس نے اس بات کا اعادہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین کے حالیہ خطاب میں بھی کیا ہے۔

شیخ دامت برکاتہم:
اوباما کے ان دعووں سے مجھے متنبی کا وہ شعر یاد آرہا ہے جس میں وہ کہتا ہے:

زندگی اس شخص کے لیے مشکلات سے پاک ہے
جو ماضی سے بے خبر اور توقعات سے غافل ہو
جو حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے خود کو دھوکے میں رکھے
اور طلبِ محال میں جُتا رہے

دراصل اوباما اپنے سننے والوں کی عقل پر ذرہ بھر رحم نہیں کھاتا،اسی خطاب میں وہ یہ بھی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ القاعدہ ‘عراق،شام،یمن،صومالیہ،الجزائر اور مالی میں پھیلتی جارہی ہے جب کہ اس کے باوجود کانگریس کے اراکین اس کے لیے تالیں بجاتے رہے، کیونکہ اس وقت ان کا اصل غم افغانستان سے کم از کم خسائر کے ساتھ بھاگنا ہے۔ اوباما کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر آنے والا دن مختلف علاقوں میں القاعدہ کے پھیلاؤمیں اضافہ کررہاہے۔

پھر اس سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم یا جماعت ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اوراس معنی میں یہ عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ضعیف طبقات میں اور بھی زیادہ پھیل رہی ہے۔

محترم بھائی!یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ ایک ایسی استعماری قوت ہے جو مسلسل روبہ زوال ہے ،یہ دو بڑی جنگوں میں ہارچکی، مالیاتی بحران نے الگ سے اس کا گلا گھونٹ رکھا ہے اور بے پناہ دفاعی اخراجات مسلسل اسے کھوکھلا کررہے ہیں۔پھر جلتی پہ تیل کا کام نیویارک،واشنگٹن اور پنسلوانیا پر گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں نے کردیا۔

یہاں سے امام ِ مجددشیخ اسامہ بن لان رحمہ اللہ کی عبقری سوچ واضح ہوتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ آج ہم اسلامی دنیا کے نقشے کو بدلنے میں مصروف ہیں جس پر مستقبل میں خلافت کے سائے تلے صرف ایک ہی اسلامی ریاست ہوگی۔

سوال:
لیکن شیخ اسامہ کوتو وہ شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مجاہدین کے دیگر بہت سے قائدین کو بھی۔پھر آپ کیسے کہتےہیں کہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل نہیں کیے؟

شیخ دامت برکاتہم:
اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے نوجوانی کی عمر سے خود کو دین پر فدا کررکھا تھا اور بالآخر وہ جہاد کے اعلیٰ ترین مرتبے یعنی مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ اُن کی شہادت نے انہیں روشنی کا ایسا میناربنادیا ہے جو امت کو ہمیشہ فداکاری اورقربانی پر ابھارتا رہے گا۔یہ حقیقت ہے کہ اپنے پیاروں کی جدائی بڑی سخت ہوتی ہے لیکن مجاہد امت ان باتوں سے شکست نہیں کھایا کرتی۔امریکیوں نے اس سے پہلے ویت نام،صومالیہ، عراق اور افغانستان میں بھی بے حساب خون کی ہولی کھیلی،لیکن ان سب جگہوں پر آخر کار شکست ہی اس کا مقدر بنی۔

سوال:
بغیرپائلٹ کے ڈرون طیاروں کے حملے مسلسل جاری ہیں اور اب تو ان کا دائرہ کار صومالیہ،یمن ،ایک دفعہ پھر سے عراق اور شاید آنے والے دنوں میں شام تک پھیلتا جارہا ہے۔کیا آپ اسے مجاہدین کے خلاف ایک کامیاب اور فعال حربے کے طور پر نہیں دیکھتے؟

شیخ دامت برکاتہم:
ڈرون حملے جاری رہیں گے اور شاید مزید بڑھ جائیں لیکن جہاں تک ان کی فعالیت کا تعلق ہے تو اس کا جواب قطعاًنفی میں ہے۔امریکہ پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے کررہا ہے لیکن پھر بھی مات کھارہا ہے۔ اس سے قبل عراق میں کیے اور پھر بھی شکست سے دوچار ہوا۔

یہ بھی جان لیں کہ اگر امریکہ ان جاسوسی طیاروں سے بم باری نہ کرتا تو پھر لازماً بڑے جہازوں سے کرتا۔جب کہ آزادی کی جنگوں میں قابض قوت جتنی چاہے قساوت کا مظاہرہ کرلے بالآخر اسے شکست کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ تیرہ سال میں ہم نے اس غاصب کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔مجاہدین نے فتح کی قیمت اپنے اور اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اور اپنے اسیروں پر صبرو ثبات سے ادا کی ہے،اسی لیے آج ان بم باریوں کے باوجود فتح ان کے قدم چوم رہی ہے اور ہزیمت امریکیوں کا مقدر بن چکی ہے۔اور پھر آپ کیسے ان جاسوس طیاروں کو کارگر کہہ سکتے ہیں جب کہ اوباما خود حقیقت کا معترف ہے کہ القاعدہ مزید پھیلتی چلی جارہی ہے۔

سوال:
جاسوسی طیاروں کے اس نظام کے پیچھے خود زمینی جاسوسی اوراس مقصد کے لیے جواسیس کی بھرتی کا بھی ایک پورا نظام ہے۔آپ اس ناپاک جنگ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
آپ نے درست کہا،یہ واقعی ایک ناپاک جنگ ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہی اور اس کامقابلہ مختلف درجات پر کرتے ہیں جن میں امنیاتی اقدامات،دعوت اورقضاء سب شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِن تَکُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّہِ مَالاَ یَرْجُونَ(النساء:۱۰۳)
’’اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اُنہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جب کہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے جو امید ہے وہ اُنہیں نہیں‘‘۔

اس جنگ میں وہ ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور ہم اُنہیں۔اللہ کے شیر ابودجانہ خراسانی رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا اسے کون بھلا سکتا ہے!ان شاء اللہ ایک دن آئے گا کہ حقائق سے پردہ اٹھے کا اور اس جنگ میں کفار کی جانب سے شریک ہوکر امت اور مجاہدین کی پیٹھ میں نشتر گھونپنے کی پاکستان نے جو خیانت کی ہے وہ سب کے سامنے منکشف ہوگی۔

چنانچہ جو کوئی بھی اس ناپاک جنگ کا حصہ ہے میں اسے پورے اخلاص کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہوں کہ وہ وقت ختم ہونے سے پہلے توبہ کرلے۔یہ بات اسے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم مجاہدین اللہ تعالیٰ کی توفیق ونصرت سے اپنے شہداءکا بدلہ نہیں چھوڑیں گے اور آخری سانس تک مجرمین کا پیچھا کریں گے۔یہ لوگ مجھے اچھی طرح سن سکتے ہیں اورمجاہدین کی سنجیدگی سے وہ خود بھی واقف ہیں۔یہ کمزور اوردربدر مجاہدین جنہوں نے امریکہ کے تجارتی اور عسکری مراکز کو عین ان کے گھر میں جاکرضرب لگائی ،ان کی اپنے رب سے یہ التجا ہے کہ وہ انہیں ہراُس جاسوس اور خائن پر قدرت عطا فرمائے جو اعلانیہ توبہ نہیں کرتا اور اپنی توبہ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے خود کو اس کام پر لگانے والے اور اس کام میں تعاون کرنے والے کی معلومات نہیں دیتا۔

میری تمام مجاہدین اور ہر غیور مسلمان سے بھی یہ استدعا ہے کہ وہ مجاہدین کے شہدا کا بدلہ ان جواسیس اور خائنین سے لینا ہرگز نہ بھولیں اور اس بدلے کو نسل بعد نسل آنے والے لوگوں تک منتقل کریں۔کیا ان لوگوں کو واضح پیغام پہنچ گیا؟اے اللہ میں نے اپنی جانب سے پیغام پہنچا دیا۔اے اللہ تو بھی گواہ رہنا۔متنبی کہتا ہے:

میرے ہنسنے نے جاہل کو جہالت میں اوربڑھادیا
یہاں تک کہ اسے آہنی ہاتھ اور جبڑے نے جکڑ لیا
اگر تم شیر کے دانت نکلے ہوئے دیکھو
تو ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ شیر مسکرا رہا ہے

سوال:
چلئے اب شام کا رخ کرتے ہیں۔آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت اہم ترین معرکہ ارض شام میں جاری ہے لیکن انہی دنوں میں ہم وہاں مجاہدین کی اپنی صفوں میں آپس کی جنگ کی خبریں سن رہے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ حالات اس نہج تک آپہنچے کہ بات جہادی رفقا کی باہمی قتل وقتال تک جاپہنچی؟

شیخ دامت برکاتہم:
خواہشات نفس کے غلبے،جہالت اور ایک دوسرے پر ظلم نے حالات کے دھارے کو اس جانب موڑا ہے۔ایک بات ہم سب کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدہر گناہ سے معصوم نہیں ہوتا۔وہ صغیرہ وکبیرہ دونوں طرح کے گناہ کرسکتا ہے۔ بلکہ ایسے اعمال بھی اس سے سرزد ہوسکتے ہیں جو اس کے سارے جہاد ہی کو ضائع کرکے رکھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکو دنیا اور اس کی شہوت کے حصول کی جنگ میں بدل دیں۔قرآن حکیم نے وضاحت کے ساتھ ان حقائق کو بیان کیا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُم مُّصِیْبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَیْْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَـذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(ال عمران: ۱۶۵)
’’کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ تم تو اس سے دو چند تکلیف پہنچا چکے ہو تو کہتے ہویہ کہاں سے آئی،کہہ دو یہ تکلیف تمہیں تمہاری اپنی طرف سے پہنچی ہے بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُم بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ مِنکُم مَّن یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنکُم مَّن یُرِیدُ الآخِرَۃَ(ال عمران:۱۵۲)
’’اور اللہ تعالیٰ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کرچکا تھا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے،بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے‘‘۔

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیْکُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَۃً نُّعَاسًا یَغْشَی طَآئِفَۃً مِّنکُمْ وَطَآئِفَۃٌ قَدْ أَہَمَّتْہُمْ أَنفُسُہُمْ یَظُنُّونَ بِاللّہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ یَقُولُونَ ہَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَیْء ٍ قُلْ إِنَّ الأَمْرَ کُلَّہُ لِلَِّہ(ال عمران:۱۵۴)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین یعنی اونگھ بھیجی اس نے بعضوں کو تم میں سے ڈھانک لیا اور بعضوں کو اپنی جان کا فکر لڑرہا تھااللہ تعالیٰ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کررہے تھے کہتے تھے ہمارے ہاتھ میں کچھ کام ہے کہہ دو کہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

اورفرمایا:
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْاْ مِنکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّہُ عَنْہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌ(ال عمران:۱۵۵)
’’بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا تھا اور اللہ نے ان کو معاف کردیا بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا،تحمل والاہے‘‘۔

اور میں اس امکان کو بعید از قیاس نہیں سمجھتا کہ خود مجاہدین کی اپنی صفوں میں ایسے عناصر موجود ہوں جو جہاد کے لیے نقصان کا باعث ہوں۔ضروری نہیں کہ یہ گھس بیٹھے جواسیس یا استخبارات کے ایجنٹ ہوں،بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنا بن کر دھوکہ دے رہے ہوں،جیسے غلط مشوروں کے ذریعے یا مجاہدین کے مابین اختلاف کوہوا دینے کے ذریعے یا پھرمالی معاونت کے ذریعے تاکہ جہادی سفر کو غلط خطوط پر چلنے پر مجبور کردیا جائے۔

سوال:
اس باہمی جنگ وجدل کے حوالے سے آپ کا موقف کیا ہے؟اور اسے روکنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم شدت سے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جہاد شام پر پڑنے والی ایک آفت ہے۔یہاں یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ حکومت کی جانب سے مجاہدین کی صفوںمیں افتراق پیدا کیا گیا ہو تاکہ مجاہدین ایک دوسرے کو مامارکرہی مرجائیں اورحکومت کے لیے اپنے ہاتھوں ان اہداف کا حصول ممکن کردیں جو خوداس کے لیے ممکن نہ تھے۔

اس حوالے سے میں نے ایک فوری بیان بھی جاری کیا تھا جس میں مَیں نے آپس میں جنگ بند کرنے اور شرعی محکمے کی طرف معاملہ لوٹانے کی اپیل کی تھی۔ہم تمام مجاہدین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اختلاف کو شرعی محکمے کی جانب لوٹائیں اور سب کواس کے احکامات کی پاس داری کا پابند کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ادارہ خودمختار اورغیر جانبدارہو۔اور شام اور شام سے باہر کے تمام مجاہدین اورجہاد کی نصرت کرنے والوں سے ہماری درخواست ہے کہ جو کوئی بھی اس شرعی محکمے کو معطل کرنے کی کوشش کرے یا اس دعوت کو قبول نہ کرے یا اس کے احکامات پر عمل نہ کرے،وہ اس کے خلاف امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے تحت سخت موقف اختیار کریں۔اور جس کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے تو کوئی بھی اس کی مادی یا معنوی مدد نہ کرے،نہ اس کے ساتھ الحاق کرے اورنہ ہی اپنے بھائیوں کے مقابلے پر اس کی مدد کرے،بلکہ عالم اسلام میں اس کے خلاف رائے ہموار کرے اور اس کے افعال سے برأت کرے۔

جو کوئی بھی ایسے عناصر کی مادی یا معنوی مددکررہا ہے اسے اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ وہ اس طریقے سے مجاہدین کے قتل اور جہاد کی بربادی میں تعاون کررہا ہے اور اسے اپنے رب کی جانب سے دنیا وآخرت میں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

شرعی حیثیت کا ختم ہونا اور اعتماد کا اٹھ جانا ایک انتہائی ہولناک امر ہے۔ الجزائر میں جب مسلح اسلامی جماعت (الجیا) نے اپنی یہ حیثیت کھوئی تو وہ ختم ہوگئی۔ افغانستان میں روسی انخلاکے بعد جب مختلف گروہوں نے آپس میں جنگ سے اپنی حیثیت کھو دی تو وہ ختم ہوگئے،لیکن اس کے مقابلے پر جب امت نے طالبان کو وہ حیثیت دی تو کامیابی نے ان کے قدم چومے۔میری اس گفتگو کا مخاطب کوئی خاص تنظیم یا جماعت نہیں ہے،بلکہ میرا مخاطب بغیر کسی تقسیم و تفریق کے تمام مسلمان اور مجاہدین ہیں۔

یہاں میں ہر اس مجاہد کو جو اپنے مجاہد بھائیوں کے خلاف قتال میں یا ان کے اموال اور حرمتوں کی پامالی میں شریک ہے یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ جان رکھو کہ محض تمہارے امیر کا حکم تمہاری جان بخشی کے لیے کافی نہیں ہے۔نہ ظواہری، نہ جولانی، نہ حموی، نہ بغدادی،کوئی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا سے نہیں بچا سکے گا ،اگر تم نے اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کی۔یہ سب لوگ قیامت کے دن بالکل عاجز اوراس بات کے محتاج ہوں گے کہ کوئی انہیں اللہ رب العزت کے سامنے جواب دہی سے بچاسکے۔سو اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے، تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو،بلکہ اس سے کہو کہ وہ تمہیں اگلے محاذوں اورمورچوں پر بھیجے جہاں تم بعثی مجرم ٹولے اور اس کے صفوی حلیفوں کے خلاف جنگ کرسکو۔

اورخبردار!ہرگز خود کواپنے بھائیوں کے درمیان یا ان کے مراکز پر مت اڑانا۔ جان رکھو!تم نے اکیلے مرنا ہے،اکیلے دفن ہونا ہے،اکیلے اٹھایا جانا ہے،اکیلے اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے اور اکیلے ہی ان سب اعمال کا حساب دینا ہے۔ان سب مراحل میں تمہاراامیر تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔سو تمہیں چاہیے کہ اُس عظیم دن کے لیے ابھی سے جواب تیار کرلو۔

اے مجاہد!جان رکھوکہ تم شام کے جہاد کے لیے اس لیے نکلے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ سربلند ہوجائے اور کافروں کا کلمہ سرنگوں ،سو اپنا راستہ گم مت کربیٹھو اور اپنا رخ مت پھیرو۔بچواس چیز سے کہ کچھ قائدین اپنے اقتدار،القاب،مناصب اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے تمہیں استعمال کرجائیں۔چنانچہ اگر میں بھی تمہیں اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کا کہوں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا۔اور اگر میں تمہیں کہوں کہ خود کو اپنے بھائیوں کے مابین اڑا دو تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا بلکہ میری بات کو ٹھکرا دینا،کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔

اسی طرح شام میں اپنے بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ سیکولر قوتوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ انصار اورمہاجرین کے درمیان فتنہ پیدا کرسکیں او رنہ ہی کسی کو کسی مہاجر پراس دلیل کی بناپرکوئی زیادتی کرنے دیں کہ ہم شامی ہیں اور یہ شامی نہیں ہے۔یہ اندھا تعصب ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ہم سب مسلمان ہیں اور آپ میں سے کوئی کسی مہاجر کے اہل وعیال ،اس کے مال،اس کی عزت اور اس کی حرمت پر حملے کا سبب نہ بنے۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھیں ،جس میں اُس نے فرمایا: 


وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر:۹)
’’اورجنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں)گھر اور ایمان حاصل کررکھا ہے جو ان کے پاس وطن چھوٹ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔

سوال:
حال ہی میں قیادت عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا عراق وشام میں دولت الاسلامیہ نامی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،اس فیصلے کے پیچھے کیا اسباب کارفرما ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس کے پیچھے دو بنیادی اسباب ہیں:
پہلا سبب بنیادی منہج کا اختلاف ہے۔ہمارا منہج یہ ہے کہ اپنی قوتوں کو عصرِ حاضر کے صنم اکبر امریکہ ،اس کے حلیفوں اور ان کے خائن آلہ کاروں پر مرکوز رکھا جائے اوراس مقصد کی خاطر ان کی فوج،سیکورٹی اداروں اور محارب گروہوں کو نشانہ بنایا جائے اور امت کو ان کے خلاف جہاد پر اکٹھا کیاجائے جب کہ جانبی معرکوں سے بچا جائے۔

ہمارا منہج خون مسلم کے معاملے میں احتیاط سے کام لینا اوربازاروں،مساجد، بستیوں اور مجاہدین کی جماعتوں کے مابین دھماکے کرنے سے گریز کرنا ہے جہاں ناحق خون بہنے کا اندیشہ بھی ہو۔اس حوالے سے شیخ اسامہ،شیخ مصطفی ابوالیزید، شیخ عطیۃ اللہ اور شیخ ابویحییٰ رحمھم اللہ کے متعدد بیانات جاری ہوچکے ہیں اور خود میں بھی اس موضوع پر بارہا بات کرچکا ہوں۔اسی مقصد کی خاطر ہم نے تمام بھائیوں سے مشاورت کے بعد ’’جہادی عمل کے لیے عمومی ہدایات‘‘ نامی دستاویز بھی جاری کیا۔

اس دستاویز کو جاری کرنے کا مقصد اس ساری صورت حال سے بچنا تھا جو اب پیش آچکی ہے۔اور اب جب کہ اس فتنے کی آگ بھڑک چکی ہے تو شاید اب سب کو اس بات کا ادراک ہواہوگا کہ وہ کیا خطرات تھے جن سے بچنے کے لیے اس دستاویز کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔

اسی طرح ہمارا منہج یہ ہے کہ امتِ توحید کو کلمۂ توحید کی بنیاد پر اکٹھا کرنا اور ایسی خلافت راشدہ کے قیام کی کوشش کرنا جو شوریٰ اور مسلمانوں کی رضا سے قائم ہو۔

اسی مقصد کے لیے ہم نے وثیقۂ نصرت اسلام جاری کیا تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے سب لوگوں کو ایک بنیاد پر اکٹھا کیا جاسکے۔ ہم کبھی بھی امت کو اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اُن کے ذہنوں میں ہماری تصویرجبراًمسلط ہوجانے ،ان کے حقوق غصب کرنے والے یا ان پر دھونس جمانے اور زبردستی کرنے والے کی سی ہو۔

جہاں تک دوسرے سبب کا تعلق ہے تو وہ اجتماعیت کے اصولوں کی پاس داری نہ کرنا ہے۔

سوال:
مثال کے طور پر؟

شیخ دامت برکاتہم:
مثال کے طور پر بغیر اجازت بلکہ بغیر اطلاع کے پوری پوری ریاستوں کا اعلان کردینا،حالانکہ قیادت عامہ کی ہدایت یہ تھی کہ ہم نے شام میں القاعدہ کے کسی وجود کا اعلان نہیں کرنا اور اس بات پر سب کا اتفاق تھا اورخود عراقی بھائیوں کا بھی،لیکن یک دم ہمیں اس اعلان نے حیران کردیا جس نے شامی حکومت اور امریکہ وہ وہ موقعہ فراہم کردیا جس کی اُنہیں تمنا تھی۔

اس کے بعد شامی عوا م یہ پوچھنے میں حق بجانب تھے کہ اس القاعدہ کوکیا ہواکہ کھینچ کھینچ کرہم پر مصائب لارہی ہے۔کیا ہمارے لیے بشار کا ظلم کافی نہ تھا کہ اب یہ امریکہ کو بھی ہم پر مسلط کررہے ہیں۔اسی طرح قیادت کی جانب سے صلاحیتوں کی تقسیم اور فتنے کی جنگ کو روکنے جیسے احکامات کی پابندی نہ کرنا۔

شام کے مسئلہ کے حوالے سے اس معروف فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی سبب اس خونی فتنے کی آندھی سے بچنا تھا جو اب تک ہزاروں مجاہدین کا خون اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔اب سب کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل درآمد کرلیا جاتا تو آج ہزاروں جانیں بچ چکی ہوتیں اور تمام قوت اور وسائل مسلمانوں کا خون بہانے کی بجائے مسلمانوں کے دشمنوں پر صرف ہوتے۔

ایک اور انتہائی اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے۔اور شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور جماعۃ القاعدۃ الجہاد میں ان کے ساتھیوں نے اس پیغام کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ادارہ السحاب شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے اپنے بھائیوں کے نام کچھ مراسلات نشر کرسکیں۔

الغرض ،القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اور اگر ہم نے اس پیغام ہی کو مسخ کردیا تو ہم ناکام ہوگئے،چاہے تنظیمی اور مادی اعتبار سے ہم کتنے ہی پھیل جائیں،کیونکہ ہم اپنی اساسی ذمہ داری کی ادائیگی میں ہی ناکام ہوگئے جو امت کو شریعت کی حاکمیت اور احیائے خلافت کے لیے اس کے دشمن کے خلاف جہاد پر ابھارنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم امت کے سامنے قول و فعل کے تضاد سے پاک ایک صالح نمونہ اور صاف ستھرا پیغام پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں چاہے ہم دس لوگ ہی کیوں نہ ہوں،یہ اس سے بہتر ہے کہ ہم دسیوں ہزارہوں لیکن امت ہم سے اور ہمارے اعمال سے متنفر ہو۔

لہٰذا جب امت یہ دیکھے گی کہ ہم لوگ تمکین اور غلبے سے پہلے ہی غنائم پر ایک دوسرے کی گردیں مارنے لگے ہیں،اس کے اہلِ فضل کو ان کا مقام دینے پر تیار نہیں ہیں، حکومت اور شوریٰ میں امت کا حق تسلیم نہیں کرتے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم ایک ایسے فتنے کی جنگ لڑنے میں مگن ہیں جس میں مجاہدین کی جان،مال اورحرمت کوپامال کیا جاتا ہے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم جہاد کے ثمر کو پکنے سے پہلے ہی بے سوچے سمجھے اقدامات اور انفرادی سطح پر جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں سے ضائع کررہے ہیں تو ایسے میں امت کس طرح ہم پر اعتماد کرے گی؟کس طرح ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی؟بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہم اپنے دشمن کو امت کے سامنے ہماری حیثیت کوبگاڑکرپیش کرنے کاسنہری موقع دیتی ہیں اور امت کو خود سے دور کرنے کا بہترین موقع فراہم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں سیکولر قوتیں اور امریکہ کے دم چھلے عوام سے کہیں گے کہ دیکھو یہ مجاہدین آج ایک دوسرے کے ساتھ یہ کچھ کررہے ہیں تو کل کو تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟

غالباًآپ نے حسن نصراللہ کا بیان سنا ہوگا جس میں اس نے شام کی مجرم حکومت کے ساتھ مل کر جنگ کو اس بنیاد پر درست قرار دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر اہلِ شام کو تکفیریوں کے جرائم سے نجات دلا رہا ہے۔حالانکہ یہ وہ حکومت ہے جو چالیس سال سے مسلمانوں کی حرمتیں پامال کررہی ہے۔

سوال:
لیکن پہلے آپ دولتِ اسلامی عراق کی مدح اور تعریف کیوں کرتے تھے؟

شیخ دامت برکاتہم:
میں اور میرے بھائی ان میں موجود خیر کی بنیاد پران کی تعریف کرتے تھے۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم بقدرِ استطاعت نصیحت،رہ نمائی اور احکامات کے ذریعے اصلاح کی کوشش بھی کرتے تھے۔

سوال:
پہلے آپ کے بارے میں ایک تاثریہ پایا جاتا تھا کہ آپ طبیعت کے لحاظ سے متشدد ہیں اور آپ کا شمار القاعدہ کے شہبازوں میں کیا جاتا تھا جب کہ اب آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اپنا منہج بدل لیا ہے بلکہ بعض تو آپ پر مرجئہ ہونے کا الزام تک لگاتے ہیں۔ تو کیا واقعی آپ کی سوچ اور فکر میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
لوگوں کو راضی کرناناممکن ہے اوربڑے بڑے فیصلے ہمیشہ مشورے اور اتفاق سے کیے جاتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اپنی سوچ اور فکر بدلی ہے۔

سوال:
آپ ہمیشہ اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ امت کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور تب تک کسی قسم کی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے جب تک امت مجاہدین کی صفوں میں نہ ہو،لیکن عملی طور پر ایسا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے جب کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف ایک نظری کلام ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

شیخ دامت برکاتہم:
افغانستان میں طالبان کا اٹھنا اور جنگی کمان دانوں کے خلاف ان کے لیے عوام کی بھرپور تائید اس کی واضح مثال ہے۔اسی طرح شام میں بھی بیش تر مجاہدین کا عوام کے ساتھ تعلق اس کا بہترین نمونہ ہے۔

سوال:
اسی طرح آپ اکثر امت کو مشاورتی عمل اور خاص طورپر اپنے حاکم کے انتخاب میں مشاورت میں شامل کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن بعض لوگ اس پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ امت اس ذمہ داری کی ادائیگی کی اہلیت نہیں رکھتی اور یہ مجاہدین میں سے کچھ چنیدہ لوگوں کا کام ہے،آپ اس اعتراض کا کیسے جواب دیتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
امت خود پر حکومت اور اپنی نمائندگی کے لیے ایسے افرادکا انتخاب کرتی ہے جو شرعی اہلیت رکھتے ہوں،ناکہ فاسق وفاجر کو جس کے دین میں کلام ہو۔لہٰذا مسئلہ چاہے نیابت کا ہو یاامارت کا یا امامت کا ،امت ایسے لوگوں کا ہی انتخاب کرتی ہے جو اس منصب کے لیے ضروری شروط پرپورا اترتے ہوں۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب انصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کی تو آپ ؓ نے اس کی یہ دلیل دی کہ ’’خلافت کا یہ معاملہ قریش کے اس گروہ کے سوا کسی اور کے لیے قبول نہیں ہوگا‘‘۔

اسی طرح مصنّف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے ’’لیکن تم لوگ یہ جانتے ہوکہ عرب میں قریش کی جو منزلت اورمقام ہے اس میں ان کا کوئی اور شریک نہیں اور عرب کسی ایسے شخص پر متفق نہیں ہوں گے جو ان میں سے نہ ہو‘‘۔

پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اما بعد!اے علی میں نے لوگوں کی امارت کے مسئلے پر جب غور کیا تو اس ذمہ داری کے لیے عثمان سے بہتر کسی کو نہیں پایا ،سو تم اپنے نفس کو آڑے نہ آنے دو‘‘۔ پھر اُنہوں نے فرمایا:’’میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی سنت ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر اور ان کے بعد دونوں خلفاکی سنت پر‘‘…چنانچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب بیعت کی تو اس کے بعد مہاجرین و انصار،فوج کے سپہ سالاروں اور عام مسلمانوں نے بھی بیعت کی۔

سوال:
شام میں ایران کے عراقی اور لبنانی حلیفوں کے نصیری حکومت کے ساتھ مجاہدین کے خلاف تعاون کے پیچھے کیا راز ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
حال کو سمجھنے کے لیے آپ اس قوم کی اور اس کے اسلاف کی تاریخ پڑھ لیں!انہیں کبھی یہ گوارا نہیں ہوسکتا کہ اہلِ اسلام کے پاس کوئی خطہ اور ریاست ہو۔خلافت کا دوبارہ قیام اور اس کے لیے کوشش ان کے نزدیک ایک جرم ہے۔شام میں نصیری حکومت کے سقوط سے ایران اپنے اُن حلیفوں کی نصف قوت سے محروم ہوجائے گا جو افغانستان سے لے کر جنوبی لبنان تک اپنی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جہادی تحریکات اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن اس کے باجود یہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ بشار الاسد کی حکومت کے دفاع میں مشغول ہیں جو چالیس سال سے زائد عرصے سے اسرائیل کی حدود کی حفاظت کی ذامہ داری ادا کرہی ہے اور اس کے باوجود حسبِ عادت ایران صاف جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس حکومت کو مدافعت اور مزاحمت کارکہنے پر مُصر ہے۔حقائق کو ان کی اصل صورت میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ایران پوری قوت اور ڈھٹائی کے ساتھ جنوبی لبنان تک صفوی ریاست کے قیام اور جہاد فی سبیل اللہ کے وصف سے مزین اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔

سوال:
اہل شام کو ان مظالم اور جرائم سے نجات دلانے کا کیا رستہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
راستہ اسد کی مجرم حکومت کے خلاف جہاد ہے۔امت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس جہاد کی ہر ممکن طریقے سے نصرت اور مدد کرے اور مجاہدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمۂ توحید کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں،کیونکہ ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف یہی ان کی مضبوط پناہ گاہ ہے۔یہ کسی طور معقول بات نہیں کہ شیعہ تو متحد ہوں جب کہ اہل سنت آپس میں ہی برسرِ پیکار ہوں اور ان کی صفیں اتحاد سے خالی ہوں۔چنانچہ سب کو چاہیے کہ وہ تنظیمی اور گروہی مصلحتوں سے بالاہوکر امت کی مصلحت کو سامنے رکھیں چاہے اس مقصد کے لیے انہیں اپنے بھائیوں کے حق میں ایسے امور سے دست بردار بھی ہونا پڑے جنہیں وہ درست سمجھتے ہیں۔

اسی طرح ہم امت کے اہل خیر تاجروں اور اصحابِ ثروت سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اہل شام کی امداد کے لیے آگے بڑھیں اور انہیں حکومت کے مسلط کردہ فاقوں اورمحاصرے کے بیچ میں نہ چھوڑیں کہ وہ خیموں کی زندگی کی تلخیاں ہی برداشت کرتے رہیں۔ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ان کی تصویریں سب کے سامنے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

میری ایسے تمام اہلِ خیر سے بھی التماس ہے چاہے وہ میدان میں بھی مہارت رکھتے ہوں کہ وہ اہلِ شام کی امداد اور نصرت کے لیے کھڑے ہوں بالخصوص طب کے میدان میں۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اگر میری استطاعت ہوتی تو میں خود ان کی صفوں میں شامل ہوکر ان کی خدمت کرتاکہ شاید میں اپنے بھائیوں کے مصائب میں کچھ کمی کا سبب بن سکوں۔اسی طرح ایسے تمام ماہرین جو کسی بھی میدان میں مہارت رکھتے ہوں اور معیشت اور تعلیم جیسے میدانوں میں اہلِ شام کی نصرت کرسکتے ہوں ان کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا واجب ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فتح آجائے۔

سوال:
کیا لبنان میں موجود شیعہ جماعت حزب اللہ کے ساتھ محاذ کھولنا درست ہے؟ اس حوالے سے آپ کی کیا ہدایات ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
واللہ اعلم !اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ حزب اللہ نامی اس جماعت کی حیثیت اس وقت مسلمانوں کی جان،مال او رعزت پر حملہ آور کی ہے جو کہ سب سے بڑی مجرم حکومت کی حلیف ہے۔لہٰذا یہ ایک ایسا حملہ آور دشمن ہے جس سے ہر ممکن شرعی ذرائع سے دفاع کرکرنا واجب ہے۔شام میں جاری جہاد کی برکت کا مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے حزب اللہ اور اس کے سربراہ حسن نصراللہ کا اصل چہرہ واضح کردیا ہے۔

سوال:
سعودیہ مصر میں اخوان کے خلاف کھڑا ہے جب کہ یمن میں وہ انہی کی حمایت اورمدد میں مشغول ہے جب کہ شام اور عراق میں بھی وہ کسی حد تک ان کی امداد کررہا ہے۔اس تضاد کی آپ کیاوجہ سمجھتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
سعودیہ کی حیثیت امریکی سیاست کے لیے استعمال ہونے والے ایک آلے سے زیادہ نہیں جسے امریکہ جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔مصر میں امریکہ کی سیاست یہ ہے کہ حکومت کی زمامِ کار فوج یا فوجی پس منظر رکھنے والوں کے پاس ہوجو اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکوں کو کچلنے کا کام بھی کرسکیں۔جب کہ شام اور عراق میں اس کی سیاست ایک جانب ایران کو کمزور کرنا اور ساتھ ساتھ اسلامی تحریکات سے منسوب لوگوں کو حکومت تک پہنچنے سے روکنا ہے۔اس نظر سے دیکھیں تو سعودیہ کی سیاست میں کوئی تناقض اورتضاد نظر نہیں آتا۔

سوال:
سعودیہ ایک جانب شام اور عراق میں اہل سنت کی امدد اور حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب شاہ عبداللہ کا کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والا یہ حکم بھی ہمارے سامنے ہے جس میں اس نے ہر اس شخص پر بیس سال کی سزا کااعلان کردیا جو جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلے۔اس کی کیا وجہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ سعودیہ کی سیاست کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ وہ امریکہ کی ایک آلۂ کار حکومت ہے۔یہ سیاست ان کے باپ عبدالعزیز نے جاری کی جب اس نے جنگ عظیم دوم سے کچھ عرصہ قبل امریکی صدر روز ویلٹ کے ساتھ ملاقات میں اپنی وفاداری برطانیہ سے ہٹا کر امریکہ کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال:
اس فیصلے کے بعد جزیرۃ العرب کے مخلص علما او رداعی حضرات پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
علمائے کرام اور داعی حضرات کی ذمہ داری وہی ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کی ہے اور سنت نبوی میں اس کی وضاحت موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 


وَإِذْ أَخَذَ اللّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ(ال عمران:۱۸۷)
’’اورجب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے ضرور بیان کروگے اورچھپاؤگے نہیں‘‘۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شہداکے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص جو کسی جابر سلطان کے سامنے کھڑا ہوپھر اسے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس کے نتیجے میں وہ سلطان اسے قتل کردے‘‘۔

اسی طرح حق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جہادورباط کے میدانوں کی جانب ہجرت کرنی چاہیے تاکہ وہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور اپنے قول کی تصدیق اپنے عمل سے کریں۔

بشکریہ: نوائے افغان جہاد
 

بدھ، 19 نومبر، 2014

ہر نئے اعلان کے بعد مزید ناحق خون بہتا ہے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہر نئے اعلان کے بعد مزید ناحق خون بہتا ہے!
جماعت الدولۃ کے اعلانِ خلافت پر شیخ ابو بصیر الطرطوسی کا بیان

جب جماعت الدولۃ خود کو جماعت اور تنظیم سے متعارف کرواتی تھی، اس وقت بھی ناحق خون اس بات پر بہایا جاتا تھا کہ یہ تو بانی جماعت ہے، جو بڑی (افضل)ہے اورتمام (جماعتوں) پر مقدم ہے، پھر جب اس کو یہ (مقدس) حیثیت نہ ملی، تب بھی خود کو ان(القاب) سے لبریزکیےرکھا، اور جو کہ اِن کی اصلی حیثیت نہ تھی، پھر انہوں نےیہ زعم رکھا کہ یہ عراق میں دولت (ریاست) ہیں، پھر مزید اس زعم میں ناحق خون کو بہایا گیا، پھر اس کے بعد انہوں نے زعم رکھا کہ یہ عراق وشام میں دولت (ریاست) بن گئے ہیں، پھر ناحق خون بہنا دگنا ہو گیا،اسی اعتبار کے ساتھ کہ یہ ایک ریاست(عراق و شام) ہیں، اور جو کوئی بھی اس دولت(ریاست) سے خارج ہے، اورجو اس دولت کی طرف اطاعت و فرمانبرداری کا ہاتھ نہیں بڑھاتا ہے، اس (مسلمان)کا خون بہانا جائز ہے۔

اور آج بھی حالت ایسی ہی ہے، ان کی یہ پیاس ابھی تک نہیں بھجی ہے ، ناحق خون کے لیے اسی طرح پیاسے ہیں، انہیں مزعومہ القابات و عنوانات کی بدولت، انہیں نے اب یہ زعم رکھ لیا ہے کہ یہ ’خلافت‘ ہیں، اور ان کا امیر ’خلیفہ‘ ہے، انہی کے پاس کامل خلیفہ کے حقوق ہیں، جو اس کی مخالفت کرے یا اس کی بیعت میں داخل نہ ہو، اُن کو قتل کردیتاہے۔

اے دشمنانِ اسلام کے لیے فرحت کا باعث بننے والو۔ یہ سب ان سفہاء، کمِ سن، خوارج العصر کے سبب ہےجنہوں نے مسلمانوں کی گردنوں پر اپنی تلواریں کھینچ لیں ہیں، یہ انہیں القابات و عنواناتِ مزعومہ کے زعم اور وہم کے ذریعے نصرت دیے گئے ہیں، جو انہی کے کچھ عدد مریضوں کو لاحق ہوا، جو شدت پسند، نا عاقبت اندیش ہیں اور جن کواب سب جانتے ہیں!

ان خوارج العصر شدت پسند غالیوں کے ہر نئے اعلان کے سبب، مسلمانوں کے غم و الم میں اضافہ ہوتا ہے؛ اِن کے علم میں ہے کہ یہ وہمی القابات اور اسماء اپنے لیےمخصوص کرلینا ان کے معاملات کا حصہ ہے، تاکہ یہ اس کی بنیاد پرقتل و خونریزی کرسکیں، اور تفرقہ کو مزید بڑھائیں، اور اپنے دشمنوں۔۔۔ جن کو یہ خوارج شدت پسند اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔۔۔ کی شوکت کو کمزور کریں، اور ان کا خون بہا سکیں۔ ان کے ہر نئے اعلان کے بعد، چیخ وپکار اور دھمکیوں میں اضافہ ہوتا ہے، اور دشمن اس حقیقت کو جانتے ہیں، پس وہ انہیں چھوڑ دیتے ہیں تاکہ یہ اُن علاقوں میں ایک حد تک پھیلاؤ کریں، اور اِن کو برداشت کیا جاتا ہے، اور حسبِ موقع ان کو قوت کی رسی تھما کر بعض پر حاوی بھی کر دیتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا جب انہوں نے اِن (خوارج) کی یہ وصف بیان کی:
[ یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں، اور مشرکین کو چھوڑ دیتے ہیں]

مصدر:
http://tinyurl.com/nu23f6b
 

عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عدنانی منہجِ خوارج سے موافقت کرتے ہوئے
عدنانی نے اپنے مارقہ بیان ’’معذرت امیرالقاعدہ‘‘سے مخاطب ہوا اور خوارج کے ساتھ
بہت سےامور میں موافقت کی
کاتب:
@ahmad_3393


۱)ہم منہج اسامہؒ کی طرف واپس ہو رہے ہیں؟
عدنانی نے کہا:
اور ہم یہاں ایک بار پھر اپنے ہاتھ کو آپ کی طرف بڑھاتے ہیں، تا کہ آپ اپنے بہترین پیشرو(شیخ اسامہؒ) کے بہترین جانشین بن جائیں، شیخ اسامہؒ نے مجاہدین کو ایک کلمہ پر متحد کیا۔

ہم اس سے کہتے ہیں:
اس بات سے تم اپنے اجداد خوارج کی پیروی کرنے لگے، وہ انحرافِ سیدنا علیؓ کی دعوت دیتے تھے اور سیدنا ابوبکرعمرؓ کے معاملے میں رحم سے کام لیتے تھے؟

۲) شریعت کی تحکیم سے انکار ؟
عدنانی نے کہا:
اور جہاں تک معاملہ ہے غیرجانبدار شرعی محاکمہ کی بابت، جس پر آپ نے زور دیا ہے، تو ہم آپ سے کہتے ہیں: یہ امر تو ممکن نہیں ہے، بلکہ یہ تو ناممکن ہے، اور اس کا سوال کرنا تو بڑی تصوارتی خیالی بات ہے، کیوں؟ کیونکہ آپ نے مسلمانوں کے درمیان تفریق ڈال کر ان کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے، جس میں کوئی بھی تیسرا گروہ باقی نہیں ہے۔ ایک گروہ دولۃ اور انصارانِ دولۃ کا ہے اور دوسرا گروہ وہ ہے جو غیر جانبدار شرعی محاکمہ کا مطالبہ کرنے والا ہے، پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدارجمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوجائیں۔

ہم کہتےہیں:
غیرجانبدار تحکیم کا انکار سابقہ خوارج نے بھی کیا تھا جب انہوں نے سیدنا علیؓ سے کہا: ( ان الحکم الا للہ، حُکم تو صرف اللہ کا ہی ہے)،پس یہ بھی اس کا انکار کر رہے اور کہہ رہے: [ ممکن نہیں، بلکہ ناممکن، بلکہ یہ تو فقط تخیلاتی بات ہے] ، تو کیا اسے صرف یہ اعلانِ خلافت ( کی اجازت دینے)کی شرط پر قبول کریں گے؟

عدنانی نے کہا:
پس اب روئے زمین پر کوئی بھی غیرجانبدار جمیعت موجود نہیں ہے، جس پر دونوں گروہ متفق ہوں۔

ابن تیمیہؒ کہتے ہیں:
[کسی بھی خوارج گروہ کی گمراہی کی اصل ان کا یہ اعتقاد ہے کہ ہدایت یافتہ ائمہ اور جماعت المسلمین اب یہ عدل وانصاف سے دور ہو چکے ہیں(یعنی شریعت کے معاملہ میں عدل نہیں کر رہے)، اور انہوں نے گمراہی اختیار کر لی ہے]

اسی لیے دولتِ بغدادی نے شیخ سلیمان العلوان کی قید سے قبل ان کی احرار الشام کی تحکیم سے انکار کیا اور شیخ ربیش کے معاملہ میں شیخ محیسني کے شرعی محاکمہ کے منصوبہ سے انکار کیا، بلکہ انہوں نے کسی بھی غیر جانبدار شرعی محکمہ قضاء کا انکار کیا، اور یہاں تک کہ مشترکہ شرعی محاکمہ قضاء کا بھی انکار کیا۔

۳) عمومی اصول و قواعد و احکامات کو ذکر کر کے تدلیس سے کام لینااور اس کو کسی پر معین حُکم لگانے کی منزل تک پہنچانا
عدنانی نے کہا:
شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ منہج جمہوریت اور جمہوریت پسندوں کے بارے میں کہتے ہیں:
"پس یہ اور ان جیسی دوسری وجوہات کی بنا پر ہم نے اس خبیث منھج کے خلاف ایک سخت جنگ کا اعلان کیا ہے اور ہم نے اِس باطل عقیدہ اور ناکامی کے راستے پر چلنے والے افراد کے حکم کو بھی واضح انداز سے بیان کیا ہے۔ پس جو کوئی حمایت اور نصرت کے ذریعے سے اس منہج کو قائم کرنے کی سعی کرتا ہے، تو وہ دینِ جمہوریت اور اس کے پیروکار لوگوں کا نگرانِ حال مانا جائے گا۔ اور اس کا حکم اُن لوگوں کے حکم کی طرح ہے جو اس دینِ جمہوریت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں۔

انتخابی امیدوار ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرنے والے ہیں، جبکہ ان کے لیے ووٹ کا استعمال کرنے والے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان کو اللہ کے ساتھ رب اور شریک ٹھہرایا۔ اور اللہ کے دین میں ان سب کا حکم کفر اور اسلام سے ارتداد کا ہے۔

اے اللہ ! کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اےاللہ! آپ گواہ رہیے گا"۔ (کلام ختم ہوا)

یہاں پر عدنانی نے تدلیس(حق بات چھپانا) کی ہے:
وہ عام قواعد اور مطلق احکامات کو دلیل کے طور پر سامنے لایا ، اور اس کو حکمِ معین کی منزل تک پہنچا کر ، اس کا اطلاق سب پر کر دیا ہے ۔

اس نے مشائخ القاعدہ سے انہیں تقاریر کا انتخاب کیا جس میں تکفیر اور ارتداد کا ذکر ہے، گویا کہ جیسے القاعدہ (کی فکر) میں تکفیر اور ارتداد کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے؟ یہ کس قسم کی خطا اور تلبیس ہے جو اس دماغ میں پائی جاتی ہے؟

اس قابلِ کراہت باطل کا رد ہم شیخ عطیۃ اللہؒ کے اقوال سے کرتے ہیں،
شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ نے ان لوگوں کے بارے میں فرمایا جن کو انتخاب کے لیے چنا جاتا ہے:
جہاں تک سوال کےپہلے حصہ کا تعلق ہے جو کہ انتخابی امیدواروں سےہے، جو پارلیمینٹ کے انتخابات میں حصہ لیتےہیں یا دیگر حکام وغیرہ، تو اس میں بھی (فقہ) واقعہ کی تفصیل میں جانا لازم ہے، اس میں جو کوئی اللہ کے دین کے علاوہ قانون سازی کرے، اور اللہ کی شریعت کےعلاوہ قانون سازی میں مصروف ہو جائے، تو ایسا شخص کافر ہے، اور یہ حکمِ نظری ہے (جس کی تطبیق کسی معین پرنہیں کی گئی بلکہ مطلقاً حکم بیان کیا گیا ہے)، اور اسی طرح جو کوئی کسی مرتد حکمران کا انتخاب کرے تاکہ مسلمانوں کے اور دیگر مسلمان ممالک کے فیصلے کرے، تو وہ بھی اسی طرح کافر ہے، لیکن جب ہم فقہ الواقعہ میں جاتے ہیں، تو مسئلہ بالکل اسی طرح سیدھا سادھانہیں ہے، کیونکہ عام لوگ ان افعال کا ارتکاب اس لیے نہیں کرتے کہ یہ اللہ کی شریعت کے علاوہ قانون سازی کریں گےیا مرتد حاکم کا انتخاب کریں گے، مقصود بتانے کا یہ ہے کہ تفصیل میں جانا ضروری ہے، ہم لوگوں کی عمومی تکفیراس قاعدے کے ساتھ نہیں کرتے اور جو کوئی ایسے ( عمومی تکفیر) کرے، بے شک وہ بڑی واضح گمراہی میں جا پڑا ہے اور اصولِ علم وفقہ سے خارج ہو گیا ہے، اور وہ عامۃ المسلمین پر اس حالِ کفر کا اطلاق کر دے گا، جس کا اطلاق اُن پر نہیں ہوتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں اور عافیت کا سوال کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔

شیخ عطیۃ اللہ ؒنے حماس اور ان کی حکومت کے بارے میں کہا:
جو خطا حماس حکومت سے سرزد ہوئی ہم ان کو معذور، متاول (تاویل کرنے والے) سمجھتے ہیں، اور اس بنیاد پر کہ کچھ فتاوی انہوں نے اخذ اُن اہل علم سے کیے ہیں جن پر انہیں اعتماد ہے، بلکہ وہ ہمارے نزدیک مسلمان ہیں جو خطاکار ہیں، اور ہم انہیں نصیحت کرنے کی سعی کرتے ہیں، اور جس طرح ہم باقی تمام مسلمانوں کو ہدایت کی طرف لانے کا کام کرتے ہیں وہی معاملہ ادھر رکھتے ہیں، اس چیز کا انکار کرتے ہیں جو منکر ہیں، اور ان کی اخطاء کو صراحت سے بیان کرتے ہیں جو ان سے وقوع پذیر ہوں، ہم نہ ہی انہیں دھوکہ دیتےہیں اور نہ ہی امتِ مسلمہ کو۔

پھر شیخ عطیہ اللہؒ نے فرمایا:
لیکن ہم حماس کا جمہوریت اور مجلسِ قانون سازی میں داخلے کو، اور اسی طرح دوسری اشیاء کی طرف جانے کو جو دین کے مخالف ہیں، اس اضافہ کے ساتھ جو کہ دیگر مجموعات سے سرزد ہوئیں جن میں وہ افکار، قولی اور فعلی ضابطے شامل ہیں جو کہ شریعت کے مخالف ہیں، ان کو ہم منکر، باطل اور فسادِ عظیم سمجھتے ہیں، ہم اللہ کے سامنے ان سے برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ان کا انکار کرتے ہیں، اور اپنے بھائیوں کو نصیحت کرتےہیں کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر کے توبہ کریں، اس سے اجتناب کریں،اپنی اصلاح کریں اور اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لیں۔

جب شیخ عطیہ اللہؒ سے سوال ہوا:
کیا شرعی طور پر یہ جائز ہے کہ حماس کو ارتداد کے اوصاف سے متصف کیا جائے؟

پھر شیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
نہیں بالکل نہیں، یہ بات جائز نہیں کہ ہم انہیں ارتداد کی صفت سے متصف کریں یا ان پر کفر کا حکم لگائیں۔۔۔بلکہ یہ غلطی ہے جس کی طرف توجہ ہم نے تمام جگہوں پر بسنے والے نوجوانانِ ملت کو دلائی ہے کہ وہ اس چیز سے اجتناب کریں، اور جہاں پر ان مسائل کا سامنا ہو وہاں پر کسی ایک پر کفر کا حکم لگانے میں جلدی نہ کریں، ایسے مسائل جن میں خطا اور تاویل سامنے آ جائے، اور یہاں تک کہ اگر غلطی بڑی بھی ہے، اور اس طرف معاملہ(تکفیر) کرنا پڑے،تو یہ (تکفیر)ناقابل واپسی نہ ہو، اور کوئی عذر بھی انکے ساتھ باقی نہ رہنے پائے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو، اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی اور عافیت کا سوال کرتے ہیں۔

مزیدشیخ عطیہ اللہؒ کہتے ہیں:
ہم یہ نہیں کہتے کہ حرکتِ حماس یا یہاں تک کہ حکومتِ حماس طاغوت بن گئی ہے، کیونکہ وہ مسلمان ہیں جو خیر کی طرف تاویل کا شکار ہوئے ہیں، اور غلطی کر لی ہے، طاغوت تو ہر وہ شے ہے، جو بندگی سے تجاوز کرتے ہوئے خود کو معبود بنا لے یا اس سےبھی بڑھ جائے یا پھر اللہ سے بھی خود کو بڑھا لے، تو پھر کیا اے محبوب بھائی، کیا اس کی تطبیق حماس پر ہو سکتی ہے؟ نہیں! اس کی تطبیق نہیں ہوتی ہے۔

۴)تکفیر میں غلو:
جس طرح یہ سابقہ نقاط بیان کیے گئے ہیں، اس کی تائید کرتے ہوئے عدنانی نے عمومی طور پر مسلمانوں کی تکفیر کی ہے، جس میں انتخابات کے اندر شرکت کو بطور دلیل، بغیرتفصیل میں جائےبنایا گیا ہے، جس طرح کہ شیخ عطیہ اللہؒ نے اس موضوع پر صراحت کے ساتھ وضاحت کر دی ہے۔

وصلى الله وبارك على نبينا محمد . مصدر:
http://justpaste.it/fnv9 
 

منگل، 18 نومبر، 2014

القاعدہ فی البلاد المغرب کی دولۃ الاسلامیہ فی العراق کے نام ہماری نصیحت

بسم اللہ الرحمن الرحیم
القاعدہ فی البلاد المغرب کی دولۃ الاسلامیہ فی العراق کے نام ہماری نصیحت
القاعدہ فی مغرب اسلامی کا دولۃ الاسلامیہ العراق والشام کے اعلانِ خلافت کے بعد اعلامیہ

دولت الاسلامیہ کے نام ہماری نصیحت
یا إخواننا فی الدولۃ الإسلامیۃ، أین أنتم من قیادۃ طالبان وأمیرہا الملا عمر مجاہد حفظہ اللہ الذی ضحی بدولۃ کاملۃ من أجل ثلۃ من المہاجرین من بینہم مؤسس الدولۃ الإسلامیۃ فی العراق الشیخ أبو مصعب الزرقاوی رحمہ اللہ، أین أنتم من الشیخ أیمن الظواہری، الذی لم یکد یخلوخطاب لہ من الإشادۃ ببطولاتکم فی العراق، وإن اختلفتم معہ فی الفترۃ الأخیرۃ، أین أنتم من إمارۃ القوقاز الإسلامیۃ، وأین أنتم من قیادات فروع القاعدۃ فی سائر الأقالیم، وغیرہم من المجاہدین

ہمارے الدولہ کے بھائیو! تم طالبان کی قیادت سے اور ان کے امیر ملاعمر مجاہد حفظہ اللہ سے کیوں دور ہو!جنہوں نے اپنی پوری سلطنت چند مہاجرین کی حفاظت کے اوپر نچھاور کردی وہ مہاجرین جس میں الدولہ کے بانی شیخ ابومعصب الزرقاوی رحمہ اللہ بھی شامل تھے!!اور آپ شیخ الظواہری حفظہ اللہ سے کیوں دور ہو جو کہ عراق میں تمہاری بہادریوں کی داستان بیان کرتے ہوئے ساکت رہ جاتے تھے…اگرچہ تم نے بعد میں ان سے غیر متفق ہونے کا اظہار کیا …تم چیچنیا کی اسلامی امارت سے کیوں دور ہو اور تم القاعدہ کی قیادت اور اس کی مختلف خطوں میں پائی جانے والی شاخوں سے کیوں دور ہو ؟

علمائے حق کو نظر انداز نہ کرو!
ہذا ناہیک عن العلماء والدعاۃ أہل الصدق الذین ثبت لہم قدم صدق راسخ فی الإسلام وفی الدعوۃ إلی إقامۃ الخلافۃ، ولم یرکنوا إلی الطواغیت المحکمین للقوانین الوضعیۃ الموالین لأعداء الأمۃ، ونخص بالذکر أسد التوحید الشیخ أبا محمد المقدسی والشیخ أبا قتادۃ الفلسطینی والشیخ المجاہد أبا الولید الغزی والشیخ المحدث سلیمان العلوان الذی تجرع السجن سنین طوالا بسبب نصرتہ للجہاد فی العراق، فالأمر أوسع من أن تحدہ خلافات فقہیۃ أو سیاسیۃ، إنہا الخلافۃ التی یتفیأ ظلہا کل المسلمین

ان علمائے کرام اور داعی حضرات کو نظر انداز نہ کرو جو اہل حق میں سے ہیں او جو دین اسلام اور خلافت کے قیام کی دعوت میں ثابت قدم ہیں اور جنہوں نے ان طواغیت سے ہاتھ نہ ملایا جو انسان کے بنائے ہوئے قوانین کے مطابق فیصلہ کرتے ہیں اور امت کے دشمنوں کے وفادار ہیں۔ان (علما )میں سب سے خاص اسد التوحید ابو محمد المقدسی حفظہ اللہ ، ابو قتادہ الفلسطینی حفظہ اللہ، مجاھد ابو ولید غازی حفظہ اللہ اور شیخ المحدث سلیمان العلوان حفظہ اللہ ہیں جنہوں نے جہادِ عراق کی حمایت میں کئی سال اسیر کاٹی… یہ (خلافت کا)مسئلہ کسی فقہی اور سیاسی اختلاف سے بالاتر ہے…بے شک خلافت تو مسلمانوں کے لیے رحمت کا سایہ ہے۔

جبھتہ النصرہ اور دولت اسلامیہ کے درمیان اختلافات کا حل
أمام الواقع الجدید، ندعو أولی الأمر، علماء وأمراء ، ونخص بالذکر المشایخ الفضلاء الشیخ أبا محمد المقدسی والشیخ أبا الو لید الغزی والشیخ أبا بکر البغدادی والملا محمد عمر والشیخ أیمن الظواہری والشیخ ناصر الوحیشی والشیخ أبا الزبیر والشیخ أبا محمد الجولانی وغیرہم من العلماء العاملین وقادۃ المجاہدین، للاجتماع علی کلمۃ سوائ،وإصلاح الخلل داخل البیت الواحد بعیدا عن وسائل الإعلام، من أجل حفظ بیضۃ الإسلام والحفاظ علی وحدۃ المسلمین وحقن دمائہم

اس نئے مسئلے پر ہم سب سے پہلے تمام علما اور امراکو خصوصا محترم علماابو محمد المقدسی،شیخ ابو ولید غازی، شیخ ابو بکر البغدادی، ملا محمد عمر، شیخ ایمن الظواہری، شیخ ناصر الوحیشی، شیخ ابو زبیر اور شیخ ابو محمد جولانی حفظہم اللہ اور دیگر علما اور مجاہدین کے امرا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ایک بات پر جمع ہو جائیں اور ان اختلافات کو میڈیا سے ہٹ کر اپنے گھر میں حل کر لیں تاکہ اسلام کی عظمت اور مسلمانوں کی وحدانیت کی حفاظت رہے اور خون مسلم کی حرمت برقرار رہے۔

(نام نہاد)خلافت کا انکار اور شیخ ایمن الظواھری حفظہ اللہ کی بیعت کی تجدید
ؤکد أننا لا زلنا علی بیعتنا لشیخنا وأمیرنا أیمن الظواہری، فہی بیعۃ شرعیۃ ثبتت فی أعناقنا، ولم نر ما یوجب علینا نقضہا، وہی بیعۃ علی الجہاد من أجل تحریر بلاد المسلمین وتحکیم الشریعۃ الإسلامیۃ فیہا، واسترجاع الخلافۃ الراشدۃ علی منہاج النبوۃ

ہم اس بات کو زور دے کر کہتے ہیں کہ ہم ابھی تک شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی بیعت میں ہیں اور یہ بالکل شرعی بیعت ہے جس کا طوق ہماری گردنوں میں ہے اور ہمیں اس بیعت کی تجدید کی بھی ضرورت نہیں ہے اور یہ بیعت جہاد کے لیے ہے اور اس امر کے لیے ہے کہ مسلم سرزمینوں کو آزاد کروایا جائے گا اور ان پر شریعت کا نفاذ کیا جائے گا اور خلافت کو علیٰ منہج النبوۃ دوبارہ قائم کیا جائے گا۔


ہر کسی کے موقف اور بیانات کی تحقیق کی جائے!
نذکر المنابر الإعلامیۃ الجہادیۃ، أن أی إعلان أو موقف لا یصدر عن مؤسسۃ الأندلس الإعلامیۃ، فہو لا یمثل تنظیم القاعدۃ ببلاد المغرب الإسلامی، کما ننبہ علی ضرورۃ التثبت وتحری المصداقیۃ فی النقل

ہم تمام جہادی فورمز کو یہ بات یاد کروانا چاہتے ہیں کہ کوئی بھی بیان جو مؤسسۃ الاندلس (الاندلس میڈیا)پر نشر نہ ہو وہ القاعدہ فی اسلامی مغرب کی نمائندگی نہیں کرتا اور ہم اس پر بھی زور دیتے ہیں کہ ہر خبر کی حقیقت کی تحقیق کی جائے۔ 


بشکریہ: مجلہ نوائے افغان جہاد

پیر، 17 نومبر، 2014

جماعت جیش المہاجرین والانصار کے امیر صلاح الدین الشیشانی کا بیان

جماعت جیش المہاجرین والانصار کے امیر صلاح الدین الشیشانی  کا بیان
جمعرات 13 محرم 1436 ھ ـ  موافق 6 نومبر 2014 ء

اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، (یاد رکھو) سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دو بھائیوں میں ملاپ کرا دیا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے (سورۃ الحجرات:10-9)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على رسول اللہ، اما بعد،

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے ہمیں جہاد کی نعمت سے نوازا، الحمدللہ، آج ہم اللہ کے إذن سے ’لیرامون‘ کے علاقے میں ہیں۔

جیسا کہ آپ دیکھ سکتےہیں کہ ادھر فتنہ موجود نہیں ہے، الحمدللہ، اور جہاد جاری ہے، ہمارے اور ہمارے جہاد کے درمیان اس وقت تک کوئی فتنہ نہیں ہے۔

میں چاہتا ہوں کہ دو دن پہلے شہر رقہ میں ہونے والےواقعات سے متعلق وضاحت کروں، ہم ادھر اس لیے گئے تاکہ کتائب ِاسلامیہ کے درمیان صلح کروا سکیں، اور ان کے درمیان بہتے خون کو روکا جا سکے، کیونکہ جبھۃ النصرہ  اور جبھۃ الاسلامیہ نے مجھ سے التماس کی کہ میں ان کے  اورتنظیم دولۃ الاسلامیہ کے درمیان واسطہ بنوں تاکہ ان کے درمیان صلح کروائی جا سکے۔الحمدللہ، ہم  ادھر گئے، اور اپنے اسباب پر بھی بھروسہ رکھا، جیسا کہ وہاں پر مستقل ایسے حالات بھی ہیں، اور وہاں پر ان سے متعلقہ افراد سے ملاقات کی، ان جماعتوں (جبھۃ النصرہ اور جبھۃ الاسلامیہ) نے تجاویز پیش کیں تاکہ ان کے درمیان بہتے خون اور قتال کو روکا جا سکے اور حملہ آور دشمن سے فقط لڑا جائے، جس کا تنظیم دولۃ نے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ تنظیمیں (جبھۃ النصرہ اور جبھۃ الاسلامیہ)  ’کفار‘ ہیں، اور ان کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا۔

جہاں تک میرے متعلق بات ہے کہ صلاح الدین نے تنظیم دولۃ کی بیعت کر لی ہے، تو یہ معاملہ نہیں ہوا، میری بیعت دوکوعمروف ابو عثمان ؒ (سابقہ امیر امارتِ قوقاز)کے ساتھ تھی، پھر اس کے بعد میں نے اس کی تجدید امیر امارتِ قوقاز ابو محمد (حفظہ اللہ) سے کی، اور یہ قائم ہے، ان شاء اللہ، ہم اپنی بیعت سے وفا کریں گے، اللہ اکبر!

مصدر:

امت کی جانب سے حکیم الامت کے نام پیغام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
امت کی جانب سے حکیم الامت کے نام پیغام
منجانب :محترم ومکرم علمائے کرام

الحمد لله ربّ العالمين والصلاة والسلام على نبينا محمد وعلى آله صحبه أجمعين، وبعد:

بلاشبہ جہاد فی سبیل اللہ ان امانتوں میں سے ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مکلف کیا کہ وہ اس کو اٹھائیں اور اس کو قائم کریں، اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:

[ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اسے اٹھا لیا، وه بڑا ہی ظالم جاہل ہے ] (۳۳: ۷۲)

اس امانت کودورِ حاضر کے اہل ایمان کی ایک جماعت نے اٹھایا، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے چنا، پس انہوں نے اللہ کی راہ میں ہجرت اختیار کی،اپنے اہل وعیال اور ہم وطنوں کو چھوڑا یہاں تک کہ انہوں نے اللہ کی راہ میں جہاد کو قائم کر لیا، بہت سے جماعتیں مختلف ممالک میں سے اٹھیں اور ارضِ شام کی طرف ہجرت کی اور امت کو اس خیر پر خوشخبری دی، جس سے وہ ارضِ شام میں جمع ہوئے، ابنائے اسلام میں سے بھی کثیر تعداد نے ان کی طرف ہجرت کی، ان صادقین گروہوں کے ساتھ اکٹھے ہوئے تاکہ حملہ آور دشمن کو پچھاڑا جائے اور رب العالمین کی حاکمیت کو شریعت کے نفاذ سے قائم کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے نصرت اور فتوحات کے ذریعے اپنے بندوں کے درمیان مدد فرمائی اور اقوام عالم اس ملک میں پائی جانی والی ان فتوحات کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے، اور یہ جہاد اور مجاہدین کی قبولیت عام تھی حتی کہ جہادِ شام جہادِ امت بن گیا، اور کسی خاص گروہ یا جماعت تک محدود نہ رہا ۔

مجاہدین کی یہ حالت اسطرح باقی رہی یہاں تک کہ میدانِ جہاد میں اختلاف اور تفرقہ پیدا ہوا، مجاہدین کے درمیان قتل و غارت شروع ہو گئی، جس کی وجہ منحرف افکار کا ظہور تھا ، جیساکہ اہل غلو کی فکر جس کا بیان وضاحت سے بہت سے اہل علم مثلاً شیخ المقدسی اورشیخ ابو قتادہ وغیرھم نے ظاہر کیا۔

یہ اختلاف اور قتل وغارت جس نے جہادِ امت کو خوفزدہ کیا اور درست سمت سے انحراف کی طرف ڈالا جس کےتنائج کے بارے میں تنبیہ کی گئی،یہ جہاد اور مجاہدین کو مزید ضرر پہنچائے گا اگر یہ معاملہ اسی طرح اختلاف اور خونریزی سے چلتا رہا۔

اس مبارک جہاد سےحرص کے پیش نظر اور اس امانت کو اس ذات باری تعالیٰ کےمبارک چہرے کی طرف ایسے لوٹانے کہ وہ ذات اس سے محبت کرے اور اس سے راضی ہو جائے، ہم اپنے شخ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ

وہ حالیہ واقعات پر کلام کریں جس سے جہاد اور مجاہدین کی خیر ہو، اور خاص طور اپنے تعلق کی وضاحت شام میں اعلانِ دولت سے قبل اور بعد جماعت ’الدولۃ الاسلامیہ فی العراق‘ سے کریں، بیعت کے مسئلہ پر وضاحت دیں، اور اس متنازع مسئلہ تحاکم جوفریقین کے درمیان ہے، اس کو واضح کردیں۔

حالیہ واقعات اس چیز کے متحمل نہیں کہ اس میں تاخیر کی جا سکے، جیسا کہ یہ ہر ارضِ شام پر نظر رکھنے والے ہر شخص پر واضح بھی ہے، ہمیں اس بات کی التماس اپنے سےرب کے اس فرمان پر عمل کی وجہ سے ہے:

[جہاں انہیں کوئی خبر امن کی یا خوف کی ملی انہوں نے اسے مشہور کرنا شروع کر دیا، حالانکہ اگر یہ لوگ اسے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اور اپنے میں سے ایسی باتوں کی تہہ تک پہنچنے والوں کے حوالے کر دیتے، تو اس کی حقیقت وه لوگ معلوم کر لیتے جو نتیجہ اخذ کرتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تم پر نہ ہوتی تو معدودے چند کے علاوه تم سب شیطان کے پیروکار بن جاتے ] (۴: ۸۳)

ہم اپنے شیخ (حفظہ اللہ) سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمیں تفصیلی بیان سے آگاہی دیں اور اس امر سے متعلق توجیہات کو جاری کریں اور باتوں کو منکشف کریں تاکہ اس نصیحت کے ذریعہ اصلاح ممکن ہو سکے اور حالیہ واقعات پر رہنمائی لی جا سکے۔

اور اللہ آپ کے اس ارادے کا ساتھ دیں!

اولین نام جن سے رابطہ کرنے کی سعی کی جا سکی اور جو اس مراسلے سے موافقت رکھتے ہیں:



  د. طارق عبد الحليم -حفظه الله-
د . هاني السباعي -حفظه الله-
د. إياد قنيبي -حفظه الله-
د. عبد الله المحيسني -حفظه الله-
الشيخ محمد الحصم -حفظه الله-
د.سامي العريدي -حفظه الله-

ہم علماء وطلباء ، مہاجرین وانصار،اور مسلمین کو دعوت دیتے ہیں کہ جو اس مراسلے سے موافقت رکھتا ہے وہ اس میں اپنا نام درج کریں اور اس کو اجتماعی طور پر فارمز اور یگرجگہوں پر نشر کریں، ہم اس کی پیروی کریں گے، اور اس میں موجود ناموں کا اندراج اس میں کر دیں گے، باذن اللہ رب العالمین




اختتام



اتوار، 16 نومبر، 2014

سنتِ نبوی میں خوارج کی صفات

سنتِ نبوی میں خوارج کی صفات
مصنف: شیخ عمار الصیاصنۃ
اتوار 16 ربيع الآخر 1435 ھ ـ  موافق 16 فروری 2014 ء

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله،

’’خوارج‘‘ ان کلمات میں سے ہے جو حالیہ ایام میں بہت کثرت سے دہرائے جا رہے ہیں، اور اس لفظ کا اطلاق بعض جماعتوں اور تنظیموں پر حق اور باطل دونوں طریقے پر کیا جا رہا ہے، جس  کے پیش نظر اب یہ ضروری ہو چکا ہے کہ اس پر کچھ دیر توقف کرتے ہوئے، خوارج کی صفات کو واضح انداز میں بالکل ویسے ہی بیان کیا جائے جیسے           سنتِ نبویﷺ میں بیان ہوئی ہیں ،حتی کہ لوگ خود پران صفات کی قربت کےاعتباروحساب سے متوازن انداز سے اِطلاق کرنے لگیں اور پھر ان صفات سے احتراز برتنے کی جدوجہد کریں۔

سنتِ  نبوی ﷺ میں امت کے فرقوں میں سے خوارج  کے فرقے سے زیادہ کسی  اور کی تنبیہ نہیں کی گئی ہے، ان کے متعلق صحیح اور حسن سند کے ساتھ ۲۰ سے زائد احادیث وارد ہوئی ہیں، اور یہ امت کے اوپر ان کےشدید نقصان ، لوگوں پر اپنے معاملہ کی تلبیس اور دھوکے کی وجہ سے ہے؛ کیونکہ ان کا ظاہر خیروتقوی پر ہے،لیکن ان کا مذہب فقط آراء اور افکار تک ہی محدود نہیں، بلکہ یہ خونریزی کی طرف تجاوز کرتا ہے۔

سنتِ  نبوی میں ان کی ثابت شدہ صفات:

۱)کم سِن: 
ان کی کثرت کم سِن نوجوان ہوتے ہیں، ان کے اندر اہل خبر اور اہل تجربہ شیوخ اور کبار کی قلت ہوتی ہے، ان کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:  (حُدَثَاءُ الْأَسْنَانِ)، حافظ ابن حجرؒ الفتح الباری (12/287) میں لکھتے ہیں:  ’ الْحَدَثُ ‘ کا مطلب ہے ’کم عمر،کم سِن‘۔

۲)طیش اور بے قوفی:
عمومی طور پر خوارج اورجو انکے فکری پیروکار ہیں، ان کا تعلق اس (کم عمر) نوجوان طبقے سے ہوتا ہے جن کی طبیعت میں بےقراری، عجلت پسندی، جوش کا غلبہ ہوتا ہے، قلتِ نظر اور فہم وفراست کی کمی ہوتی، تنگ نظراور بصیرت سے محروم ہوتے، جس طرح (متفق علیہ) حدیث میں بیان ہوتا ہے:  [آخری زمانے میں ایک قوم  ظاہرہو گی جو کم عمر کم سِن ہوں گے،بےوقوف کم عقل ہوں گے] اور ’ والأحلام‘ :دانش مندی اور عقلمندی ہے، اور ’ السَّفه‘:  ناپختگی اور ناعاقبت اندیشی کا نام ہے۔

۳)غروروتکبر: 
خوارج کا گروہ اللہ کے بندوں کے بارے میں غرور و تکبر کرنے  اور اپنے نفس اور اعمال کے بارے میں تعجب کرنے کے طور پر معروف ہے، اسی لیے  یہ تکبر میں اپنے ہاتھوں سے کمائے ہوئے اعمال اور افعال  کے سبب بہت  آگےبڑھ جاتے ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا: 
[ان میں  ایک قوم ظاہر ہو گی جو عبادت میں بہت ریاضت کرنے والی ہوگی حتی کہ لوگ ان کو دیکھ کر تعجب کریں گے، اور یہ اپنے نفس پر بھی (خودپسندی کی وجہ سے) تعجب کریں گے اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے]
(مسند احمد میں صحیح سند سے روایت ہے)

ان کا غرور انہیں علم کے دعوی کی طرف لے جائے گا، اور یہ علماء کی تحقیر کریں گے، اورکسی  عظیم سانحہ کے سامنے بھی بلا تجربہ اور بلا تفکر کھڑے ہوں گے، اور اہل فقہ اور اہل رائے سے رجوع ہرگز نہیں کریں گے۔

۴)عبادت میں انتھک مشقت:
 یہ نماز و روزہ، ذکرو اذکار،قربانی و ایثار میں اہل عبادت میں سے ہوتے ہیں، اور یہی وہ چیز ہے جو ان سے متعلق  دوسروں کو دھوکے میں ڈالتی ہے، اسی لیے نبی اکرم(صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیان میں واضح طور پر اسی صفت سے متعلق تنبیہ فرمائی گئی ہے:

[وہ ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت  نہ ہوگی ،نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی، نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہو گی] (صحیح مسلم)

اور فرمایا:
[ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانوگےاور انکےروزوں کے مقابلے میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے] (متفق علیہ)

جب صحابہؓ کی نمازیں انکی نمازوں کے مقابلے میں حقیرہیں، تو پھر اُن کا معاملہ کیسا ہو گا جو صحابی نہیں ہیں؟!
جب عبداللہ بن عباسؓ کی ان ملاقات ہوئی تو بیان فرمایا:

[میں ایسی قوم میں گیا جن سے زیادہ میں نے کسی کو عبادت میں ریاضت کرتے نہ دیکھا تھا، ان کے ہاتھ ایسے تھے گویا اونٹ کے پاؤں  اور ان کے چہروں پر سجدوں کے  نشانات نمایاں تھے] (مصنف عبدالرزاق)

۵) قرآن سے متعلق سوء فہم  رکھنا: 
 ان کی کثرت قرآن کو پڑھنے والی اور اس سے استدلال کرنے والی ہے، لیکن بغیر فقہ وعلم کے، بلکہ یہ قرآنی ایات کو موضوع سے ہٹ کر بیان کرتے ہیں، اسی لیے ان کی احادیث میں یہ صفت بیان ہوئی:

[وہ قرآن پڑھیں گے اور یہ گمان کریں گے یہ ان کے حق میں ہے، اور یہ انہی کے اوپر دلیل ہے]، [یہ کتاب اللہ کی تلاوت سے اپنی زبانیں تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق کے نیچے نہیں اترے گا]،[یہ قرآن کو پڑھیں گے، لیکن ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا]

امام نووی صحیح مسلم کی شرح میں لکھتے ہیں:
[ان کو قرآن کی تلاوت سے فقط اپنی زبانوں کو تر  رکھنے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا، اور یہ ان کے حلق سے نیچے ان کے دل میں نہیں اتر سکےگا،قرآن کی تلاوت سے زبان کو تر رکھنا قرآن کا  اصل مطلوب نہیں ہے، بلکہ مطلوب تو اس کو دل میں اتار کر اس پر غورو فکر  کرناہے]

شیخ اسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
[سب سے پہلی بدعت وہ خوارج کی بدعت کے مثل تھی جس میں قرآن سے متعلق سوء فہم رکھا گیا، انہوں نے قرآن سے تعارض کا قصد نہ کیا تھا، لیکن   ان کا قرآن سے فہم کی مراد باطل تھی]

اسی لیے عبداللہ بن عمرؓ نے ان خوارج کے بارے میں فرمایا:
[یہ قرآن کی اُن آیات کی طرف گئے جو کفار کے لیے نازل ہوئیں، اور اس کا اِطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا]
(امام بخاری نے اسے تعلیق کے طور پر بیان کیا ہے)

فتح البار ی میں حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’ ان کو [قراء، پڑھنے والے] اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی تلاوت اور عبادات میں بہت ریاضت کرتے تھے حالانکہ وہ قرآن مجید(احکاماتِ شریعہ) کی تاویل کر کے  وہ باطل بات مراد لیتے تھے، جو اس میں مذکور نہ ہوتی تھی، اپنی مستبدانہ (جابرانہ، متشدد) رائے کو اختیار کرتے تھے، زہدو خشوع میں جزویات کا حد سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے اور اسی طرح  کے دیگر امورِ شریعہ میں یہ رویہ اپناتے تھے ‘‘

۶) بہترین خوبصورت کلام پیش کریں گے:
 ان کا بیان بہت ہی بہترین ہوتا ہے، اس کے بیان کی حلاوت اور بلاغت کے بارے میں کوئی بھی اختلاف نہیں کر سکتا!!، یہ تو اصحاب ِمنطق اور اصحاب ِمناظرہ  ہیں، یہ شریعت کی تحکیم کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ حکم صرف اللہ کے لیے ہو جائے، اور اہل کفروارتدار سے قتال کرتے ہیں،لیکن ان کے افعال ان تمام بہترین باتوں کی مخالفت پر ہوتے ہیں!!

جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:
 [بہترین بات کہنے والے اور بدترین افعال کرنے والےہیں]،[کلمۂ حق کے بارے میں کلام کرنے والے ہیں]،[لوگوں  کے سامنے (دھوکہ دہی کے لیےنیک ترین) لوگوں کی بہترین بات بیان کرنے والےہیں]

السندی[ حاشيته على سنن النسائي ] میں کہتے ہیں:
[ہر وہ (خوارج ہے) جو خیارِ امت(امت کے نیک ترین لوگ) کے بعض ظاہری اقوال پر کلام کرتا ہے ، مثلاً إن الحكم إلا لله (حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے)، اُن (اقوال) کی نقل کرے،اُن کی طرز پر لوگوں کو کتاب اللہ کی طرف دعوت دے]

۷)تکفیر کرنا اور خون کو مباح قرار دینا: 
یہ ان کی وہ صفت ہے جو دیگر(فرقوں) سے ان کا فرق کرتی ہے، بغیر حق کے تکفیر کرنا اور اپنے مخالفین کے خون  کو بہانا مباح(جائز) قرار دینا، جیسا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا:

[اہل اسلام کو قتل کر یں گے اور مشرکین کو چھوڑ دیں گے] (متفق علیہ)
[اور یہ  (سب سے بڑی (بری) صفت ہے جس کو نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) نے خوارج سے متعلق بیان کیا ہے] (مجموع الفتاوی)

ان  اہل اسلام کو قتل کرنے کا سبب ان کی تکفیر ہے، قرطبیؒ  [المفهم] میں کہتے ہیں:
[پس یہ اس لیے کہ جب یہ ان پر کفر کا حکم لگاتے ہیں جو مسلمانوں میں سے ان  کے خلاف خروج کرتا ہے، تو یہ ان کے خون کو حلال جانتے ہیں]

ابن تیمیہؒ  [مجموع الفتاوی] میں کہتے ہیں: 
[یہ اہل قبلہ کے خون کو حلال  اس اعتقاد کے ساتھ کرتےہیں کہ یہ مرتدین ہیں اور یہ (اصلی) کفار( جو مرتدین نہیں ہیں )کے مقابلے میں اِن  (اہل قبلہ) کے خون کو زیادہ حلال جانتے ہیں]

اور فرمایا:
[جو ان کی بدعت کی مخالفت کرے اس کی تکفیرکرتے ہیں، اور اس کےجان و مال کو حلال جانتے ہیں، اور یہی حال اہل بدعت کا ہوتا ہے کہ وہ بدعت کا آغاز کرتے ہیں اور جو انکی مخالفت کرتا ہے اس کی تکفیر کرتے ہیں] (مجموع الفتاوی)

خوارج کے نزدیک اس تکفیر کرنے کی بہت ساری صورتیں ہو سکتی ہیں:

جیسا کہ کبائر گناہ کے مرتکب کی تکفیر یا مطلقاً کسی گناہ کی بنیاد پر تکفیر،یاایسے گناہ پر تکفیر جو اصلاً گناہ ہی نہیں ہے، یا ظن اور شبہات پر تکفیر یا امورِ احتمال (امکانات) ہونے کی بنیاد پر تکفیر یا ایسے امور پر تکفیر جن میں اختلافِ رائے اور اجتہاد جائز ہوتا ہے، یا شروط(تکفیر) کی تحقیق کے بغیر تکفیر اور موانع (تکفیر) میں کوتاہی کی بنیاد پر تکفیر ، جہالت وتاویل پر عذر نہیں دیتے، کچھ مخصوص اقوال پر تکفیر کو لازم کرنا،بغیر کسی محکمے، فیصلے، توبہ کے ان لوگوں کے خون کو مباح قرار دیتے جو ان کی تکفیر کر دیتے۔

اسی لیے رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان خوارج  کے بارے میں فرمایا:
[یہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے]
[ان کے دین سے نکل جانے کی مشابہت اس تیر  سے دی گئی جو اپنی قوت اور تیزی کے سبب شکار کے اندر داخل ہو کر اس شدت  سےدوسری طرف سے خروج کرتا ہے کہ شکار کے جسم پر کسی بھی قسم کا کوئی آثار(نشان) نہیں چھوڑتا ہے] (عمدة القاري)

صحیح مسلم میں ہے: [ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں]، مسند احمد میں جید سند کے ساتھ روایت ہے: [ان لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان (خوارج) کوقتل کریں اور جو ان  (خوارج)کے ہاتھوں قتل ہوں]، ابن حجر ؒکہتے ہیں: [بلاشبہ  خوارج امتِ محمدیہ (صلی اللہ علیہ وسلم) میں شریر ترین بدعتی فرقہ ہے]

۸) ایسے شعار اخذ کرنا جو ان کو باقی لوگوں سے ممتاز کرتےہیں: 
ہر  عہد اوردور میں ان کے کچھ مخصوص شعارہوتے ہیں جن سے یہ دوسروں سے ممتاز ہوتے تھے، یہ شعار جھنڈوں، لباس کے رنگ، شکل و صورت یا دیگر متعلقہ چیزوں پر مشتمل ہوتے  ہیں۔

دورِ علی ؓ بن ابی طالب میں ان کا شعار بالوں کو منڈوانا تھا، جیسا کہ اس کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے اس قول سے خبر دی تھی: 
[ان کی نشانی سروں کو منڈوانا ہے] (صحیح بخاری)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ مجموع الفتاوی (28/ 497) میں کہتے ہیں:
[یہ نشانی (سروں کو منڈوانا)  اولین خوارج کی تھی جو چوڑے سینوں والے تھے، البتہ خوارج کے لیے یہ صفت لازم نہیں ہے]

امام قرطبیؒ  [المفهم] میں کہتے ہیں:
[ ( ان کی نشانی سر منڈوانا تھا) یعنی:انہوں نے اپنے لیے یہ علامت اس لیےخاص کی کیونکہ وہ دنیا کی زینت کو ترک  کر چکے تھے، اور یہ شعار اس لیے بنایا تاکہ اس کے ذریعے ان کی پہچان ہو سکے]

والحمد لله رب العالمين 

مصدر:
http://islamicsham.org/article/1554

جمعرات، 13 نومبر، 2014

کیا تنظیم (دولۃ الاسلامیہ) خوارج ہیں؟

کیا تنظیم (دولۃ الاسلامیہ) خوارج ہیں؟
هيئة الشام الإسلامية

سوال:
کیا تنظیم (دولۃ) کو خوارج کے ساتھ متصف کرنا درست ہے، جبکہ خوارج تو وہ تھے جو کبائر گناہوں پرتکفیر کرتے تھے اور تنظیم (دولۃ) کبائر گناہوں پر تکفیر کرنےکی رائے نہیں رکھتی ہے، اور خوارج تو وہ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے امام کے خلاف خروج کیا، اور شام یا عراق میں مسلمانوں کا کوئی امام نہیں ہے، بلکہ یہاں کے حکام تو اہل سنت کے ساتھ مخالفانہ رویہ  رکھتے ہیں؟

پھر وہ کس طرح خوارج ہو سکتے ہیں جبکہ انہوں نے شریعت کو تھام رکھاہے، عراق اور شام میں جہاد کر رہے ہیں، اور شریعت کی حاکمیت کا مطالبہ کرتے ہیں؟

جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وبعد:

خوارج امتِ اسلامیہ پر ایک خطرناک اور شرانگیزگروہ ہے، اس لیے سنتِ نبویﷺ کے اندران کی مکمل صفات کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے؛ تاکہ یہ لوگوں پر اپنے معاملہ پر تلبیس نہ کر سکیں، اور ان صفات کا اطلاق تنظیم (دولۃ) پرشدید تر اندازسےہوتا ہے۔ شرعی نصوص میں اس کی دلیل نہیں ہے کہ خوارج کا مسلمانوں کے امام کے خلاف خروج کرنا شرط ہے، یا کبائر گناہوں پر تکفیر کرناکوئی لازم امر ہے،یہ اصول اور تعریفات جن کا ذکر اہل علم کی جانب سے خوارج کے لیے کیا گیا ہے یہ فقط ان کے قریب ترین ضوابط کو بیان کرتے ہیں، یہ (فرقہ) خوارج کی صفات کے تناظر میں علمی اعتبار سے بیان ہوئے ہیں، اور اس میں مندرجہ ذیل قابل ذکر ہیں: 

اول:
 سب سے پہلا معتبرضابطہ اورقطعی بات خوارج کی تعریف کے حوالے سےجوکسی گروہ کو اس صفت سے متصف کرتی ہے، وہ شرعی نصوص میں ان گمراہ فرقوں میں سے ایک فرقے یا  دیگر گروہوں سے متعلق وارد دلائل ہیں، سنتِ نبوی میں خوارج کی صفات کا تذکرہ موجود ہے، اور ایسا تفصیلی تذکرہ کسی دیگر فرقے کے بارے میں نہیں ملتا ہے،اس کی وجہ ان کاعظیم خطرہ اور امت کودھوکے میں جلد مبتلاکرنا ہے، اور ان میں سب سے اہم صفات یہ ہیں: تکفیر (ناحق) کرنا،  ناحق خون کو حلال جاننا، قرآن وسنت کی نصوص سے متعلق سوء فہم رکھنا، طیش و افراط کا شکار ہونا، کم عمر اور ساتھ غرور وتکبر میں مبتلا ہونا ہے۔

دوم:
کثیر اہل علم نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ مذہبِ خوارج (کبائر کے مرتکب کی تکفیر کرنا) کی یہ صفت تمام ’خوارج‘ کے لیے جامع صفت نہیں ہے، نہ ہی یہ خروج کرنے کی واحد شرط ہے، بلکہ خوارج کے اندر وہ تمام شامل ہیں جو مسلمانوں کی ناحق تکفیر کرتے ہیں اور انکےخون کو حلال کرتے ہیں اگرچہ وہ کبائر کے مرتکب کے کفر کا عقیدہ نہ بھی رکھتے ہوں۔

اس لیے نبیﷺ نے ان کی صفت کے متعلق آگاہی دی کہ (یہ اہل اسلام کو قتل کرتے ہیں)، اور اہل علم نے اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ ان کے مسلمانوں کو قتل کرنے کا سبب: اپنے مخالفین پر کفر اور ارتداد کا حکم ہے۔

قرطبیؒ  [المفھم] میں کہتے ہیں:
’’پس یہ اس لیے کہ جب یہ ان پر کفر کا حکم لگاتے ہیں جو مسلمانوں میں سے ان  کے خلاف خروج کرتا ہے، تو یہ ان کے خون کو حلال جانتے ہیں ‘‘

ابن تیمیہؒ  [الفتاوی] میں کہتے ہیں: 
’’خوارج کا’عظیم دین‘ تو مسلمانوں کی جماعت سے ٹوٹنا اور ان کے مال و جان کو حلال جاننا ہے! ‘‘

اور فرمایا: 
’’یہ اہل قبلہ کے خون کو حلال  اس اعتقاد کے ساتھ کرتےہیں کہ یہ مرتدین ہیں اور یہ (اصلی) کفار( جو مرتدین نہیں ہیں )کے مقابلے میں اِن  (اہل قبلہ) کے خون کو زیادہ حلال جانتے ہیں ‘‘

ابن عبدالبر [الاستذکار] میں کہتے  ہیں:
’’یہ وہ قوم ہے جوکتاب اللہ سے تاویل کی بنیاد پر چیزوں کو حلال کرتی ہے:  مسلمانوں کے خون کو حلال جانتی ہے، ان کی گناہوں پر تکفیر کرتی، اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھاتی ہے ‘‘

وہ خوارج جو امیر المومنین سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور دیگر صحابہ ؓ کے خلاف نکلے وہ ان لوگوں میں سے نہ تھے ،جو کبائر گناہوں مثلاً زنا، چوری، شراب نوشی پر تکفیر کرنے کا عقیدہ رکھتے تھے، بلکہ انہوں نے صحابہؓ کی تکفیر تحکیم کے مسئلہ پر کی تھی، اور ان (صحابہؓ)کے ساتھ کوئی اصلاً گناہ کی بنیادپرتکفیرنہ تھی، پس انہوں نے سیدنا علیؓ اورسیدنا معاویہؓ اور اس (صلح) میں تحکیم کرنے والوں اور اس تحکیم پر راضی ہونے والوں کی تکفیر کی، ان کے خون کا حلال کیا،پھر اس کے بعد صحابہ ؓ نے ان کے اوپر خوارج ہونے کا حکم لگایا ، جن کے متعلق انہوں نے نبی اکرم ﷺسے ان کے افعال کے متعلق خبر سن رکھی تھی، پھر اس کے بعد صحابہؓ نے ان کے باقی  مذہبی عقائد سے متعلق اِن  خوارج سے استفسار نہیں کیا کہ آیا وہ (کبائر) گناہوں پر تکفیر کرتے ہیں کہ نہیں!

بلکہ [النجدات]جو بالاتفاق تمام اہل علم کے نزدیک  خوارج  کےبڑوں میں سے ہیں، وہ کبیرہ گناہوں کے مرتکب کی تکفیر نہیں کرتے تھے، ابو الحسن الاشعری  [مقالات الاسلامیین] میں کہتے ہیں:  خوارج کے عقیدے سے متعلق یہ  واضح ہے :

’’یہ خوارج  (کےدیگر گروہ) سوائے  النجدات کےاس بات پر جمع ہوئے کہ تمام کبیرہ گناہوں کا مرتکب کفر پر ہے، جبکہ النجدات یہ رائے نہیں رکھتے تھے ‘‘ 

خوارج کے عقیدے سے متصف جامع صفت ’’ ناحق مسلمانوں کی تکفیر اور انکے خون کو جائز کرنا ہے‘‘، اور اس تکفیر (ناحق)کرنے کی بہت ساری صورتیں ہو سکتی ہیں:

 جیسا کہ کبائر گناہ کے مرتکب کی تکفیر یا مطلقاً کسی گناہ کی بنیاد پر تکفیر،یاایسے گناہ پر تکفیر جو اصلاً گناہ ہی نہیں ہے، یا ظن اور شبہات پر تکفیر یا امورِ احتمال (امکانات) ہونے کی بنیاد پر تکفیر یا ایسے امور پر تکفیر جن میں اختلافِ رائے اور اجتہاد جائز ہوتا ہے، یا شروط(تکفیر) کی تحقیق کے بغیر تکفیر اور موانع (تکفیر) میں کوتاہی کی بنیاد پر تکفیر قابلِ ذکر ہیں۔

جب علماء اُن پر خوارج ہونے کا حکم لگاتے ہیں جو کہ کبائر گناہوں کے مرتکب کی تکفیر کرتے ہیں،تو پھر اس  شخص یا گروہ کا کیا معاملہ ہو گا جو صغائر پر تکفیر کرے اور اجتہادی امور کی بنیاد پر تکفیر کرے یا ان چیزوں پر تکفیر کرے جو جائز ہیں جیسا کہ مثلاً کفار کے ساتھ بیٹھنا یا ان سے پیغام رسانی کرنا۔

سوم:
 اس لیے شرعی نصوص میں یہ شرط نہیں ہے کہ (مسلم امام کے خلاف خروج) خوارج کی جامع صفت ہے، بلکہ وہ تمام جو یہ عقائد رکھتے ہیں اور انکے منہج پر ہیں وہ  سب کے سب خوارج ہیں، چاہے وہ امام کے خلاف خروج کریں یانہ کریں، اور (ائمہ کے خلاف خروج) خوارج کے نزدیک ناحق تکفیر  اور مسلمانوں کے خون کو حلال جاننے کے نتیجہ کے طور پر ہوتا ہے، پس اگر خوارج کو امام مل جائے تو وہ اس کے خلاف خروج کرتے ہیں اور انکے خون اور اموال کو حلال جانتےہیں، اور اگر امام میسر نہ ہو تو وہ عامۃ المسلمین اوراولیٰ نیک سیرت مجاہدین اور علماء اور داعیان کے خلاف خروج کرتے ہیں۔

ان کو  ’’خوارج‘‘ کی اصطلاح سے اس لیے پکارا جاتا ہے کیونکہ یہ احکامِ دین سے خروج کرتے اور جماعت المسلمین سے علیحدگی اختیار کر تے ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
 [آخری زمانے میں ایک قوم پیدا ہو گی جو کم سِن ہوں گےاور وہ بے وقوف کم عقل ہوں گے، وہ اپنے بیان کے اعتبار سےبہترین کلام پیش کریں گے، وہ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن یہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا،  یہ دین سے ایسے نکلے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، اگر تمہارا ان سے سامنا ہو جائے تو ان سے قتال کرو، کیونکہ ان کو قتل کرنے پراللہ کے ہاں قیامت کے دن اجر دیا جائے گا]

اور جب لوگوں نے تاتاریوں کے حکم سے متعلق اختلاف کیا تو ابن تیمیہؒ نے انہیں خوارج کی اقسام  میں سے قرار دیا حالانکہ انہوں نے امام کے خلاف خروج نہیں کیا تھا۔

حافظ ابن کثیر [البداية والنهاية] میں  کہتے ہیں: 
’’ لوگوں نے تاتاریوں سے متعلق  قتال کی نوعیت سے متعلق کلام کیا کہ ان کو کس ضمرے میں رکھا جائے، کیونکہ یہ اسلام کا اظہار کرتے ہیں، اور انہوں نے امام کے خلاف خروج بھی نہیں کیا ہے،کیونکہ یہ تاتاری تواس   وقت امام کی اطاعت میں ہی نہ تھے  یا پھر اس  کے بعدامام کی مخالفت کی ہو!‘‘

شیخ تقی الدین (ابن تیمیہؒ) کہتے ہیں:
’’ یہ تاتاری خوارج کی اُن اقسام میں سے ہیں ،جنہوں نے سیدنا علی اور سیدنا معاویہؓ کے خلاف خروج کیا تھا، میں دیکھتا ہوں یہ اس حکم(خوارج) کے زیادہ مستحق ہیں، یہ لوگ اس بات کا زعم رکھتے ہیں کہ یہ مسلمانوں میں سے سب سے زیادہ اس بات کے حقدار ہیں کہ وہ  اقامتِ حق کریں‘‘

اگر خوارج اپنی ریاست بھی قائم کر لیں، تو بھی یہ ان کی صفتِ خروج(عامۃالمسلمین اور خیار امت کے خلاف خروج) کو ختم نہیں کرتی، خوارج نے تو کئی بار تاریخ کے مختلف ادوار میں ریاستوں اور امارات کو قائم کیا ہے، بلکہ ان میں تو وہ فرقے بھی موجود رہے ہیں جنہوں نے خلافت کی دعوت دی، ان سب (ریاست، خلافت اور امارات کو موجودگی)کے باوجود ان کی صفتِ خروج (ائمہ یا عامۃ الناس یا خیار امت) پر واپس نہ لی گئی اور نہ ہی انہیں اس وقت تک  خوارج کے حکم سے رخصت ملی جب تک کہ وہ اہل اسلام کی(ناحق) تکفیر کرتے رہے اور ان کے خون کو حلال جانتے رہے۔

چہارم:
  اطاعت  میں جاں فشانی کی دعوت اور نفس کی قربانی، شریعت کی تطبیق کی دعوت یا طواغیت سے قتال، اس بات کو لازم نہیں کرتے کہ اس فکری  انحراف( مذہب ِخوارج) سے سلامتی مل چکی ہے، بلکہ یہ مذکورہ بالا اقوال تو خوارج کی طویل ترین تاریخ سے ایک معلوم بات ہے۔

رسول اللہﷺ نے خوارج کی عبادات کے اندر جاں فشانی سے متعلق ہمیں خبر دی یہاں تک کہ ہمیں خود دھوکہ ہونے کا شائبہ ہوا، انہوں نے فرمایا: 
’’ تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور انکےروزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا ‘‘ (متفق علیہ)

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
’’ ان کو [قراء، پڑھنے والے] اس لیے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنی تلاوت اور عبادات میں بہت ریاضت کرتے تھے حالانکہ وہ قرآن مجید(احکاماتِ شریعہ) کی تاویل کر کے  وہ باطل بات مراد لیتے تھے، جو اس میں مذکور نہ ہوتی تھی، اپنی مستبدانہ (جابرانہ، متشدد) رائے کو اختیار کرتے تھے، زہدو خشوع میں جزویات کا حد سے زیادہ خیال رکھنے والے تھے اور اسی طرح  کے دیگر امورِ شریعہ میں یہ رویہ اپناتے تھے ‘‘

السندی[ حاشيته على سنن النسائي ] میں کہتے ہیں:
’’ہر وہ جو خیارِ امت(امت کے نیک ترین لوگ) کے بعض ظاہری اقوال پر کلام کرتا ہے ، مثلاً إن الحكم إلا لله (حکم تو صرف اللہ ہی کا ہے)، اُن (اقوال کی)کی نقل کرے، اوراُس کو کتاب اللہ کی طرف دعوت سے منسوب کرے‘‘

خوارج کے بڑے عہدِ علیؓ بن ابی طالب کے دور میں جمع ہوئے، اور قرآن کو حکم بنانے کا عہد لیا، حق کو طلب کرنے کی بات کی اور ظلم سے انکار کیا، ظالموں سے جہاد کرنے اور دنیا سے بےرغبتی پر یکجا ہوئے، نیکی کی دعوت اور برائی سےبچنے کی نصیحت کی، پھر اس کے بعد صحابہؓ کے خلاف قتال پر نکل کھڑے ہوئے۔

پنجم:
 بلاشبہ تنظیم (الدولۃ) سے متعدد(شرعی) خلاف ورزیاں سرزد ہوئی ہیں، یہ ان کے اقوال سے بھی نشر ہو کر ہم تک پہنچی ہیں اور ان کے متواتر افعال  بھی اس پر گواہ ہیں، جو ہم سے اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ہم ان کے اوپریہ حکم لگائیں کہ یہ خوارج ہیں اور منہج نبوت سے انحراف پر ہیں، اور وہ وجوہات درجہ ذیل ہیں:

۱)مسلمانوں کے ملکوں پر اِن کا یہ حکم لگانا کہ یہ کفر اور ارتداد کے ممالک ہیں، اور مسلمانوں کے اوپراپنی (تنظیم) کے اختیار اور اثرورسوخ والے علاقوں  پر ہجرت کو واجب قرار دینا۔

۲)جو ان کی مخالفت کرے ان پر کفر اور ارتداد کا حکم لگانا، ان کو صحوات(مرتدین) سے متصف کرنا، ان پر خیانت کرنے اور کفار کے آلہ کار ہونے الزام لگانا، صرف شبہ اور جو چیزاصلاً کفر نہیں ، کی بنیاد پرتکفیر کرنا ، جیسا کہ حکومتوں اورباقی نظم کے ساتھ تعامل کرنا اور ان کے مسوؤلین سے ملاقات کرنا۔

۳)ان (دولۃ)کے منہج کی مخالفت کرنے والوں سے قتال کو حلال جاننا یا اپنی فرضی دولت (ریاست یا خلافت) کی بنیاد پر (غیر جانبدار شرعی عدالتوں میں)تسلیم ہونے سے انکار کرنا، مسلمانوں کے ساتھ جبر، غدر،قید،قتل، تعذیب والے معاملات کرنا اور مجاہدین کے مراکز پر دھماکہ خیر گاڑیاں بھیجنا، شامی انقلاب کے قائد مجاہدین، داعیان، اعلامی شہسواروں کو قتل کرنا،ان لوگوں کے خلاف جو عراق وشام میں ان کےنظم کے تابع نہ ہوں  انکے خلاف عملی طور پر برسرپیکار ہونا، ان مسلمانوں کو قتل کرنا جن کو دشمن بھی قتل نہ کر سکا، ان سب جملۂ معاملات سے ان پر رسولﷺ کا یہ قول صادق آتا ہے: ’’یہ اہل اسلام  کو قتل کریں گے اور مشرکین کو چھوڑ دیں گے‘‘ (متفق علیہ)

۴)مسلمانوں کے مال کو اس حجت سے حلال کر کے لوٹنا  کہ وہ منحرف جماعتوں سے لڑ رہے ہیں، بغیر حق کے ان کی ملکیت کو ضبط کرنا، عوامی وسائل مثلاً  تیل کے کنوؤں وغیرہ سے حاصل ہونے والی  آمدن سے متعلق اجارہ داری سے کام لینا، اور ان  میں متمکن حاکم کی طرز پر اصراف سے کام لینا شامل ہے۔

۵) جماعت المسلمین کے خلاف خروج کرنا، اور حق(اسلام) کو اپنے منہج میں محصور کر لینا، ان تمام پر جو اِن کی فکر اور منصوبےسے اختلاف کرے، اس پر دین کے دشمنوں کا حکم لگا دینا، اور آخر میں ان سب کو(نام نہاد خودساختہ) ’خلافت‘ کی دعوت دینا، اور تمام مسلمانوں پر اپنی بیعت کو لازم کرنا ہے۔

۶) ان کے پاس کوئی بھی معروف علماء نہیں  ہیں جو مسلمانوں کے نزدیک مشہور ہوں،  جس طرح ابن عباس ؓ نے انکے جدِ امجدخوارج سے کہا تھا:
’’ میں تمہارے پاس  مہاجرین اور انصار صحابہؓ کی جانب سے آیا ہوں۔۔۔ان کے دور میں قرآن نازل ہوا، تمہاری جماعت میں ان میں سےکوئی بھی نہیں ہے‘‘

ان کی غالب اکثریت ان کم سِن افراد کی ہے جن پربےقراری ، عجلت پسندی،جوش کا غلبہ ہے اور ساتھ یہ قلتِ نظر اور فہم وادراک  سے بھی عاری ہیں، تنگ نظر ہیں اور بصیرت سے محروم ہیں، یہ بالکل ایسےہی ہیں جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: (کمِ سن وکم عقل بےوقوف)

۷) یہ سب محرکات انہیں غرور اور مسلمانوں کے معاملہ میں تکبر کی طرف لے گئے ہیں، یہ اپنے بارے میں گمان رکھتے ہیں کہ یہ ہی فقط مجاہدین فی سبیل اللہ ہیں، اور یہی  جہاد میں اللہ کی سنت سے متعلق اصل علم والے ہیں،پس اسی سبب یہ اپنے اعمال اور خودکو آگے بڑھانے سے کثرت سے فخر کرنے لگے ہیں۔

یہی وہ غرور ہے جو انہیں اہل علم اور اہل حکمت کے خلاف لے کر گیا ہے، انہوں نے انکےکلام کو چھوڑ دیا ہے، اپنے اوپر علم اور فہم کا تمام دعوی کر دیا ہے، ان تمام بڑے حادثات کا سامنا ان کی ناتجربہ کاری اور عدم غوروفکر کی وجہ سے اہلِ شام کو کرنا پڑا ہے،  اپنے اور دیگر جماعتوں کے مابین غیرجانبدار تحکیم کا انکارکیا ہے۔

اسطرح انہوں نے غاصب نظام(بشار الاسد) کی نصرت مجاہدین کے خلاف قتال اور حصار سے کی، ظالم نظام کے سامنے مجاہدین میں توڑ پھوڑ ڈالنے پر مسرت کا اظہار کیا، ان کے مراکز پر قبضہ کیا، حتی کہ یہ اب بھی بعید از قیاس  بات نہ رہی ہے کہ ان کی صفوں میں اسلام دشمن عناصر اور بعض ملکوں کے خفیہ اداروں نے بھی ان کے اندر ڈیرہ جما لیا ہے، اس کے ذریعے یہ مجاہدینِ شام پر ضرب لگاتے ہیں اور ان  اعمال(بد) کو سرانجام دیتے ہیں جس پر دشمن براہ راست جنگ کے سبب بھی عاجز آ چکا تھا۔ تنظیم (الدولۃ) میں وہ شر جمع ہوا جو اس سے قبل کسی بھی خوارج کے گروہ میں جمع نہ ہوا تھا، جس میں باطل پر اکٹھا ہونا، حق سے منع کرنا اور غیرجانبدار تحکیم کا انکار رکرنا، جھوٹ، غدر، خیانت، عہدتوڑنا، اسلام دشمنوں کی (اپنے اعمال کی وجہ سے) مدد کرنا، حتی کہ یہ مسلمانوں اور مجاہدین  پر نصیری  نظام کے مقابلہ میں سب سے بڑھ کر خطرہ بن گئے ہیں اور اولین خوارج سے شر،بدبختی اور انحراف میں سبقت لے گئے ہیں۔

ہم تنظیم (الدولۃ) پر یہ حکم لگاتے ہیں کہ یہ خوارج ہیں، یہ بات اس چیز کو لازم نہیں کرتی کہ ہم  تمام افراد پر جو اس جماعت میں موجود ہیں ان پر (معین) حکم لگائیں؛ اگران کے اندر ایسےافراد موجود ہیں جو ان کے اقوال و احوال یا ان کے دھوکہ سے لاعلم  ہیں، تو بھی یہ حکم(خوارج) کا اطلاق جماعت پر ہے، جس کی ضرورت فقط ان سے ساتھ تعامل کرنے کے مقصد سے بیان ہو رہی ہے، ہمارے اوپر واجب ہے کہ اہم ان کے شر کو رفع کریں اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے گمراہوں کو ہدایت دیں، انکے ظالمین کوبکھیر دیں، اور مسلمانوں کے اوپر ان کے شر کے لیے کافی ہو جائیں۔(آمین)

والحمد لله رب العالمين

مصدر:
http://islamicsham.org/fatawa/1945