جمعہ، 21 نومبر، 2014

اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے
تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو

ادارۂ السحاب کو دیا گیا شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم العالیہ کا انٹرویو


پوری دنیا میں بسنے والے ہمارے مسلمان بھائیو!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ادارہ السحاب آپ کی خدمت میں اس وقت شیخ ایمن الظواہری دامت برکاتہم کے ساتھ ساتواں انٹرویو پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہاہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اسے ہم سب کے لیے نفع بخش بنائے۔آمین

سب سے پہلے ہم شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اھلاًوسھلاً

سوال:
صلیبی صہیونی قوتوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف مجاہدین کی جنگ شروع ہوئے تیرہ سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے۔جب کہ ابھی تک جنگ پورے زوروشور سے جاری ہے۔آپ کے خیال میں جیت کا پلڑا کس کے حق میں رہا؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیت کا پلڑا اسی کے حق میں ہے جو میدانِ جنگ سے بھاگا نہیں ! عراق سے کون بھاگا اور کون نہیں؟اورافغانستان سے کون بھاگنے کی تیاری میں ہے اور کون ثابت قدم ہے؟

سوال:
لیکن اوباما نے بارہا یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے القاعدہ کو شکست دے دی ہے اور اس نے اس بات کا اعادہ اپنے سٹیٹ آف دی یونین کے حالیہ خطاب میں بھی کیا ہے۔

شیخ دامت برکاتہم:
اوباما کے ان دعووں سے مجھے متنبی کا وہ شعر یاد آرہا ہے جس میں وہ کہتا ہے:

زندگی اس شخص کے لیے مشکلات سے پاک ہے
جو ماضی سے بے خبر اور توقعات سے غافل ہو
جو حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے خود کو دھوکے میں رکھے
اور طلبِ محال میں جُتا رہے

دراصل اوباما اپنے سننے والوں کی عقل پر ذرہ بھر رحم نہیں کھاتا،اسی خطاب میں وہ یہ بھی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ القاعدہ ‘عراق،شام،یمن،صومالیہ،الجزائر اور مالی میں پھیلتی جارہی ہے جب کہ اس کے باوجود کانگریس کے اراکین اس کے لیے تالیں بجاتے رہے، کیونکہ اس وقت ان کا اصل غم افغانستان سے کم از کم خسائر کے ساتھ بھاگنا ہے۔ اوباما کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ ہر آنے والا دن مختلف علاقوں میں القاعدہ کے پھیلاؤمیں اضافہ کررہاہے۔

پھر اس سے اہم ترین بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم یا جماعت ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اوراس معنی میں یہ عالم اسلام اور دنیا کے دیگر ضعیف طبقات میں اور بھی زیادہ پھیل رہی ہے۔

محترم بھائی!یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امریکہ ایک ایسی استعماری قوت ہے جو مسلسل روبہ زوال ہے ،یہ دو بڑی جنگوں میں ہارچکی، مالیاتی بحران نے الگ سے اس کا گلا گھونٹ رکھا ہے اور بے پناہ دفاعی اخراجات مسلسل اسے کھوکھلا کررہے ہیں۔پھر جلتی پہ تیل کا کام نیویارک،واشنگٹن اور پنسلوانیا پر گیارہ ستمبر کی مبارک کارروائیوں نے کردیا۔

یہاں سے امام ِ مجددشیخ اسامہ بن لان رحمہ اللہ کی عبقری سوچ واضح ہوتی ہے جب انہوں نے کہا تھا کہ آج ہم اسلامی دنیا کے نقشے کو بدلنے میں مصروف ہیں جس پر مستقبل میں خلافت کے سائے تلے صرف ایک ہی اسلامی ریاست ہوگی۔

سوال:
لیکن شیخ اسامہ کوتو وہ شہید کرنے میں کامیاب ہوگئے اور مجاہدین کے دیگر بہت سے قائدین کو بھی۔پھر آپ کیسے کہتےہیں کہ انہوں نے اپنے اہداف حاصل نہیں کیے؟

شیخ دامت برکاتہم:
اسامہ بن لادن رحمہ اللہ نے نوجوانی کی عمر سے خود کو دین پر فدا کررکھا تھا اور بالآخر وہ جہاد کے اعلیٰ ترین مرتبے یعنی مرتبۂ شہادت پر فائز ہوئے۔ اُن کی شہادت نے انہیں روشنی کا ایسا میناربنادیا ہے جو امت کو ہمیشہ فداکاری اورقربانی پر ابھارتا رہے گا۔یہ حقیقت ہے کہ اپنے پیاروں کی جدائی بڑی سخت ہوتی ہے لیکن مجاہد امت ان باتوں سے شکست نہیں کھایا کرتی۔امریکیوں نے اس سے پہلے ویت نام،صومالیہ، عراق اور افغانستان میں بھی بے حساب خون کی ہولی کھیلی،لیکن ان سب جگہوں پر آخر کار شکست ہی اس کا مقدر بنی۔

سوال:
بغیرپائلٹ کے ڈرون طیاروں کے حملے مسلسل جاری ہیں اور اب تو ان کا دائرہ کار صومالیہ،یمن ،ایک دفعہ پھر سے عراق اور شاید آنے والے دنوں میں شام تک پھیلتا جارہا ہے۔کیا آپ اسے مجاہدین کے خلاف ایک کامیاب اور فعال حربے کے طور پر نہیں دیکھتے؟

شیخ دامت برکاتہم:
ڈرون حملے جاری رہیں گے اور شاید مزید بڑھ جائیں لیکن جہاں تک ان کی فعالیت کا تعلق ہے تو اس کا جواب قطعاًنفی میں ہے۔امریکہ پاکستان اور افغانستان میں ڈرون حملے کررہا ہے لیکن پھر بھی مات کھارہا ہے۔ اس سے قبل عراق میں کیے اور پھر بھی شکست سے دوچار ہوا۔

یہ بھی جان لیں کہ اگر امریکہ ان جاسوسی طیاروں سے بم باری نہ کرتا تو پھر لازماً بڑے جہازوں سے کرتا۔جب کہ آزادی کی جنگوں میں قابض قوت جتنی چاہے قساوت کا مظاہرہ کرلے بالآخر اسے شکست کا سامنا ہی کرنا پڑتا ہے۔

گزشتہ تیرہ سال میں ہم نے اس غاصب کو اچھی طرح پہچان لیا ہے۔مجاہدین نے فتح کی قیمت اپنے اور اپنے پیاروں کی جانوں کے نذرانے پیش کرکے اور اپنے اسیروں پر صبرو ثبات سے ادا کی ہے،اسی لیے آج ان بم باریوں کے باوجود فتح ان کے قدم چوم رہی ہے اور ہزیمت امریکیوں کا مقدر بن چکی ہے۔اور پھر آپ کیسے ان جاسوس طیاروں کو کارگر کہہ سکتے ہیں جب کہ اوباما خود حقیقت کا معترف ہے کہ القاعدہ مزید پھیلتی چلی جارہی ہے۔

سوال:
جاسوسی طیاروں کے اس نظام کے پیچھے خود زمینی جاسوسی اوراس مقصد کے لیے جواسیس کی بھرتی کا بھی ایک پورا نظام ہے۔آپ اس ناپاک جنگ کا مقابلہ کیسے کرتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
آپ نے درست کہا،یہ واقعی ایک ناپاک جنگ ہے۔ہم اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہی اور اس کامقابلہ مختلف درجات پر کرتے ہیں جن میں امنیاتی اقدامات،دعوت اورقضاء سب شامل ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

إِن تَکُونُواْ تَأْلَمُونَ فَإِنَّہُمْ یَأْلَمُونَ کَمَا تَأْلَمونَ وَتَرْجُونَ مِنَ اللّہِ مَالاَ یَرْجُونَ(النساء:۱۰۳)
’’اگر تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اُنہیں بھی تکلیف پہنچتی ہے جب کہ تمہیں اللہ تعالیٰ سے جو امید ہے وہ اُنہیں نہیں‘‘۔

اس جنگ میں وہ ہمیں نقصان پہنچاتے ہیں اور ہم اُنہیں۔اللہ کے شیر ابودجانہ خراسانی رحمہ اللہ نے ان کے ساتھ جو کچھ کیا اسے کون بھلا سکتا ہے!ان شاء اللہ ایک دن آئے گا کہ حقائق سے پردہ اٹھے کا اور اس جنگ میں کفار کی جانب سے شریک ہوکر امت اور مجاہدین کی پیٹھ میں نشتر گھونپنے کی پاکستان نے جو خیانت کی ہے وہ سب کے سامنے منکشف ہوگی۔

چنانچہ جو کوئی بھی اس ناپاک جنگ کا حصہ ہے میں اسے پورے اخلاص کے ساتھ یہ دعوت دیتا ہوں کہ وہ وقت ختم ہونے سے پہلے توبہ کرلے۔یہ بات اسے اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ہم مجاہدین اللہ تعالیٰ کی توفیق ونصرت سے اپنے شہداءکا بدلہ نہیں چھوڑیں گے اور آخری سانس تک مجرمین کا پیچھا کریں گے۔یہ لوگ مجھے اچھی طرح سن سکتے ہیں اورمجاہدین کی سنجیدگی سے وہ خود بھی واقف ہیں۔یہ کمزور اوردربدر مجاہدین جنہوں نے امریکہ کے تجارتی اور عسکری مراکز کو عین ان کے گھر میں جاکرضرب لگائی ،ان کی اپنے رب سے یہ التجا ہے کہ وہ انہیں ہراُس جاسوس اور خائن پر قدرت عطا فرمائے جو اعلانیہ توبہ نہیں کرتا اور اپنی توبہ کی سچائی ثابت کرنے کے لیے خود کو اس کام پر لگانے والے اور اس کام میں تعاون کرنے والے کی معلومات نہیں دیتا۔

میری تمام مجاہدین اور ہر غیور مسلمان سے بھی یہ استدعا ہے کہ وہ مجاہدین کے شہدا کا بدلہ ان جواسیس اور خائنین سے لینا ہرگز نہ بھولیں اور اس بدلے کو نسل بعد نسل آنے والے لوگوں تک منتقل کریں۔کیا ان لوگوں کو واضح پیغام پہنچ گیا؟اے اللہ میں نے اپنی جانب سے پیغام پہنچا دیا۔اے اللہ تو بھی گواہ رہنا۔متنبی کہتا ہے:

میرے ہنسنے نے جاہل کو جہالت میں اوربڑھادیا
یہاں تک کہ اسے آہنی ہاتھ اور جبڑے نے جکڑ لیا
اگر تم شیر کے دانت نکلے ہوئے دیکھو
تو ہرگز یہ گمان نہ کرو کہ شیر مسکرا رہا ہے

سوال:
چلئے اب شام کا رخ کرتے ہیں۔آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ اس وقت اہم ترین معرکہ ارض شام میں جاری ہے لیکن انہی دنوں میں ہم وہاں مجاہدین کی اپنی صفوں میں آپس کی جنگ کی خبریں سن رہے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ حالات اس نہج تک آپہنچے کہ بات جہادی رفقا کی باہمی قتل وقتال تک جاپہنچی؟

شیخ دامت برکاتہم:
خواہشات نفس کے غلبے،جہالت اور ایک دوسرے پر ظلم نے حالات کے دھارے کو اس جانب موڑا ہے۔ایک بات ہم سب کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مجاہدہر گناہ سے معصوم نہیں ہوتا۔وہ صغیرہ وکبیرہ دونوں طرح کے گناہ کرسکتا ہے۔ بلکہ ایسے اعمال بھی اس سے سرزد ہوسکتے ہیں جو اس کے سارے جہاد ہی کو ضائع کرکے رکھ دیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکو دنیا اور اس کی شہوت کے حصول کی جنگ میں بدل دیں۔قرآن حکیم نے وضاحت کے ساتھ ان حقائق کو بیان کیا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا:

أَوَلَمَّا أَصَابَتْکُم مُّصِیْبَۃٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَیْْہَا قُلْتُمْ أَنَّی ہَـذَا قُلْ ہُوَ مِنْ عِندِ أَنْفُسِکُمْ إِنَّ اللّہَ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْرٌ(ال عمران: ۱۶۵)
’’کیا جب تمہیں ایک تکلیف پہنچتی ہے حالانکہ تم تو اس سے دو چند تکلیف پہنچا چکے ہو تو کہتے ہویہ کہاں سے آئی،کہہ دو یہ تکلیف تمہیں تمہاری اپنی طرف سے پہنچی ہے بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔

وَلَقَدْ صَدَقَکُمُ اللّہُ وَعْدَہُ إِذْ تَحُسُّونَہُم بِإِذْنِہِ حَتَّی إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِی الأَمْرِ وَعَصَیْتُم مِّن بَعْدِ مَا أَرَاکُم مَّا تُحِبُّونَ مِنکُم مَّن یُرِیدُ الدُّنْیَا وَمِنکُم مَّن یُرِیدُ الآخِرَۃَ(ال عمران:۱۵۲)
’’اور اللہ تعالیٰ تو اپنا وعدہ تم سے سچا کرچکا تھا جب تم اس کے حکم سے انہیں قتل کرنے لگے یہاں تک کہ جب تم نے نامردی کی اور کام میں جھگڑا ڈالا اور نافرمانی کی بعد اس کے کہ تم کو دکھا دی وہ چیز جسے تم پسند کرتے تھے،بعض تم میں سے دنیا چاہتے تھے اور بعض تم میں سے آخرت کے طالب تھے‘‘۔

ثُمَّ أَنزَلَ عَلَیْکُم مِّن بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَۃً نُّعَاسًا یَغْشَی طَآئِفَۃً مِّنکُمْ وَطَآئِفَۃٌ قَدْ أَہَمَّتْہُمْ أَنفُسُہُمْ یَظُنُّونَ بِاللّہِ غَیْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاہِلِیَّۃِ یَقُولُونَ ہَل لَّنَا مِنَ الأَمْرِ مِن شَیْء ٍ قُلْ إِنَّ الأَمْرَ کُلَّہُ لِلَِّہ(ال عمران:۱۵۴)
’’پھر اللہ تعالیٰ نے اس غم کے بعد تم پر چین یعنی اونگھ بھیجی اس نے بعضوں کو تم میں سے ڈھانک لیا اور بعضوں کو اپنی جان کا فکر لڑرہا تھااللہ تعالیٰ پر جھوٹے خیال جاہلوں جیسے کررہے تھے کہتے تھے ہمارے ہاتھ میں کچھ کام ہے کہہ دو کہ سب کام اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘‘۔

اورفرمایا:
إِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْاْ مِنکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْْطَانُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُواْ وَلَقَدْ عَفَا اللّہُ عَنْہُمْ إِنَّ اللّہَ غَفُورٌ حَلِیْمٌ(ال عمران:۱۵۵)
’’بے شک وہ لوگ جو تم میں پیٹھ پھیر گئے جس دن دونوں فوجیں ملیں سو شیطان نے ان کے گناہ کے سبب سے انہیں بہکا دیا تھا اور اللہ نے ان کو معاف کردیا بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا،تحمل والاہے‘‘۔

اور میں اس امکان کو بعید از قیاس نہیں سمجھتا کہ خود مجاہدین کی اپنی صفوں میں ایسے عناصر موجود ہوں جو جہاد کے لیے نقصان کا باعث ہوں۔ضروری نہیں کہ یہ گھس بیٹھے جواسیس یا استخبارات کے ایجنٹ ہوں،بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اپنا بن کر دھوکہ دے رہے ہوں،جیسے غلط مشوروں کے ذریعے یا مجاہدین کے مابین اختلاف کوہوا دینے کے ذریعے یا پھرمالی معاونت کے ذریعے تاکہ جہادی سفر کو غلط خطوط پر چلنے پر مجبور کردیا جائے۔

سوال:
اس باہمی جنگ وجدل کے حوالے سے آپ کا موقف کیا ہے؟اور اسے روکنے کے لیے آپ نے کیا کیا؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس حوالے سے ہمارا موقف واضح ہے کہ ہم شدت سے اس سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور یہ جہاد شام پر پڑنے والی ایک آفت ہے۔یہاں یہ بات بھی بعید از قیاس نہیں کہ حکومت کی جانب سے مجاہدین کی صفوںمیں افتراق پیدا کیا گیا ہو تاکہ مجاہدین ایک دوسرے کو مامارکرہی مرجائیں اورحکومت کے لیے اپنے ہاتھوں ان اہداف کا حصول ممکن کردیں جو خوداس کے لیے ممکن نہ تھے۔

اس حوالے سے میں نے ایک فوری بیان بھی جاری کیا تھا جس میں مَیں نے آپس میں جنگ بند کرنے اور شرعی محکمے کی طرف معاملہ لوٹانے کی اپیل کی تھی۔ہم تمام مجاہدین سے یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس اختلاف کو شرعی محکمے کی جانب لوٹائیں اور سب کواس کے احکامات کی پاس داری کا پابند کریں۔

یہ بھی ضروری ہے کہ یہ ادارہ خودمختار اورغیر جانبدارہو۔اور شام اور شام سے باہر کے تمام مجاہدین اورجہاد کی نصرت کرنے والوں سے ہماری درخواست ہے کہ جو کوئی بھی اس شرعی محکمے کو معطل کرنے کی کوشش کرے یا اس دعوت کو قبول نہ کرے یا اس کے احکامات پر عمل نہ کرے،وہ اس کے خلاف امربالمعروف اورنہی عن المنکر کے تحت سخت موقف اختیار کریں۔اور جس کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے تو کوئی بھی اس کی مادی یا معنوی مدد نہ کرے،نہ اس کے ساتھ الحاق کرے اورنہ ہی اپنے بھائیوں کے مقابلے پر اس کی مدد کرے،بلکہ عالم اسلام میں اس کے خلاف رائے ہموار کرے اور اس کے افعال سے برأت کرے۔

جو کوئی بھی ایسے عناصر کی مادی یا معنوی مددکررہا ہے اسے اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ وہ اس طریقے سے مجاہدین کے قتل اور جہاد کی بربادی میں تعاون کررہا ہے اور اسے اپنے رب کی جانب سے دنیا وآخرت میں اس کا خمیازہ بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔

شرعی حیثیت کا ختم ہونا اور اعتماد کا اٹھ جانا ایک انتہائی ہولناک امر ہے۔ الجزائر میں جب مسلح اسلامی جماعت (الجیا) نے اپنی یہ حیثیت کھوئی تو وہ ختم ہوگئی۔ افغانستان میں روسی انخلاکے بعد جب مختلف گروہوں نے آپس میں جنگ سے اپنی حیثیت کھو دی تو وہ ختم ہوگئے،لیکن اس کے مقابلے پر جب امت نے طالبان کو وہ حیثیت دی تو کامیابی نے ان کے قدم چومے۔میری اس گفتگو کا مخاطب کوئی خاص تنظیم یا جماعت نہیں ہے،بلکہ میرا مخاطب بغیر کسی تقسیم و تفریق کے تمام مسلمان اور مجاہدین ہیں۔

یہاں میں ہر اس مجاہد کو جو اپنے مجاہد بھائیوں کے خلاف قتال میں یا ان کے اموال اور حرمتوں کی پامالی میں شریک ہے یہ پیغام دینا چاہتاہوں کہ جان رکھو کہ محض تمہارے امیر کا حکم تمہاری جان بخشی کے لیے کافی نہیں ہے۔نہ ظواہری، نہ جولانی، نہ حموی، نہ بغدادی،کوئی تمہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سزا سے نہیں بچا سکے گا ،اگر تم نے اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کی۔یہ سب لوگ قیامت کے دن بالکل عاجز اوراس بات کے محتاج ہوں گے کہ کوئی انہیں اللہ رب العزت کے سامنے جواب دہی سے بچاسکے۔سو اگر تمہارا امیر تمہیں مجاہدین پر زیادتی کا حکم دے، تو ہرگز اس کی اطاعت نہ کرو،بلکہ اس سے کہو کہ وہ تمہیں اگلے محاذوں اورمورچوں پر بھیجے جہاں تم بعثی مجرم ٹولے اور اس کے صفوی حلیفوں کے خلاف جنگ کرسکو۔

اورخبردار!ہرگز خود کواپنے بھائیوں کے درمیان یا ان کے مراکز پر مت اڑانا۔ جان رکھو!تم نے اکیلے مرنا ہے،اکیلے دفن ہونا ہے،اکیلے اٹھایا جانا ہے،اکیلے اپنے رب کے سامنے پیش ہونا ہے اور اکیلے ہی ان سب اعمال کا حساب دینا ہے۔ان سب مراحل میں تمہاراامیر تمہارے ساتھ نہیں ہوگا۔سو تمہیں چاہیے کہ اُس عظیم دن کے لیے ابھی سے جواب تیار کرلو۔

اے مجاہد!جان رکھوکہ تم شام کے جہاد کے لیے اس لیے نکلے تاکہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ سربلند ہوجائے اور کافروں کا کلمہ سرنگوں ،سو اپنا راستہ گم مت کربیٹھو اور اپنا رخ مت پھیرو۔بچواس چیز سے کہ کچھ قائدین اپنے اقتدار،القاب،مناصب اور ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے تمہیں استعمال کرجائیں۔چنانچہ اگر میں بھی تمہیں اپنے مجاہد بھائیوں پر زیادتی کا کہوں تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا۔اور اگر میں تمہیں کہوں کہ خود کو اپنے بھائیوں کے مابین اڑا دو تو ہرگز میری اطاعت نہ کرنا بلکہ میری بات کو ٹھکرا دینا،کیونکہ میں قیامت کے دن تمہارے کسی کام نہ آسکوں گا۔

اسی طرح شام میں اپنے بھائیوں سے میری درخواست ہے کہ وہ سیکولر قوتوں کو اس بات کا موقع نہ دیں کہ وہ انصار اورمہاجرین کے درمیان فتنہ پیدا کرسکیں او رنہ ہی کسی کو کسی مہاجر پراس دلیل کی بناپرکوئی زیادتی کرنے دیں کہ ہم شامی ہیں اور یہ شامی نہیں ہے۔یہ اندھا تعصب ہے جس سے اسلام نے سختی سے منع کیا ہے۔ہم سب مسلمان ہیں اور آپ میں سے کوئی کسی مہاجر کے اہل وعیال ،اس کے مال،اس کی عزت اور اس کی حرمت پر حملے کا سبب نہ بنے۔اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو یاد رکھیں ،جس میں اُس نے فرمایا: 


وَالَّذِینَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر:۹)
’’اورجنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں)گھر اور ایمان حاصل کررکھا ہے جو ان کے پاس وطن چھوٹ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں‘‘۔

سوال:
حال ہی میں قیادت عامہ کی جانب سے ایک بیان جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ان کا عراق وشام میں دولت الاسلامیہ نامی جماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں،اس فیصلے کے پیچھے کیا اسباب کارفرما ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
اس کے پیچھے دو بنیادی اسباب ہیں:
پہلا سبب بنیادی منہج کا اختلاف ہے۔ہمارا منہج یہ ہے کہ اپنی قوتوں کو عصرِ حاضر کے صنم اکبر امریکہ ،اس کے حلیفوں اور ان کے خائن آلہ کاروں پر مرکوز رکھا جائے اوراس مقصد کی خاطر ان کی فوج،سیکورٹی اداروں اور محارب گروہوں کو نشانہ بنایا جائے اور امت کو ان کے خلاف جہاد پر اکٹھا کیاجائے جب کہ جانبی معرکوں سے بچا جائے۔

ہمارا منہج خون مسلم کے معاملے میں احتیاط سے کام لینا اوربازاروں،مساجد، بستیوں اور مجاہدین کی جماعتوں کے مابین دھماکے کرنے سے گریز کرنا ہے جہاں ناحق خون بہنے کا اندیشہ بھی ہو۔اس حوالے سے شیخ اسامہ،شیخ مصطفی ابوالیزید، شیخ عطیۃ اللہ اور شیخ ابویحییٰ رحمھم اللہ کے متعدد بیانات جاری ہوچکے ہیں اور خود میں بھی اس موضوع پر بارہا بات کرچکا ہوں۔اسی مقصد کی خاطر ہم نے تمام بھائیوں سے مشاورت کے بعد ’’جہادی عمل کے لیے عمومی ہدایات‘‘ نامی دستاویز بھی جاری کیا۔

اس دستاویز کو جاری کرنے کا مقصد اس ساری صورت حال سے بچنا تھا جو اب پیش آچکی ہے۔اور اب جب کہ اس فتنے کی آگ بھڑک چکی ہے تو شاید اب سب کو اس بات کا ادراک ہواہوگا کہ وہ کیا خطرات تھے جن سے بچنے کے لیے اس دستاویز کے ذریعے کوشش کی گئی تھی۔

اسی طرح ہمارا منہج یہ ہے کہ امتِ توحید کو کلمۂ توحید کی بنیاد پر اکٹھا کرنا اور ایسی خلافت راشدہ کے قیام کی کوشش کرنا جو شوریٰ اور مسلمانوں کی رضا سے قائم ہو۔

اسی مقصد کے لیے ہم نے وثیقۂ نصرت اسلام جاری کیا تاکہ اسلام کے لیے کام کرنے والے سب لوگوں کو ایک بنیاد پر اکٹھا کیا جاسکے۔ ہم کبھی بھی امت کو اکٹھا کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک اُن کے ذہنوں میں ہماری تصویرجبراًمسلط ہوجانے ،ان کے حقوق غصب کرنے والے یا ان پر دھونس جمانے اور زبردستی کرنے والے کی سی ہو۔

جہاں تک دوسرے سبب کا تعلق ہے تو وہ اجتماعیت کے اصولوں کی پاس داری نہ کرنا ہے۔

سوال:
مثال کے طور پر؟

شیخ دامت برکاتہم:
مثال کے طور پر بغیر اجازت بلکہ بغیر اطلاع کے پوری پوری ریاستوں کا اعلان کردینا،حالانکہ قیادت عامہ کی ہدایت یہ تھی کہ ہم نے شام میں القاعدہ کے کسی وجود کا اعلان نہیں کرنا اور اس بات پر سب کا اتفاق تھا اورخود عراقی بھائیوں کا بھی،لیکن یک دم ہمیں اس اعلان نے حیران کردیا جس نے شامی حکومت اور امریکہ وہ وہ موقعہ فراہم کردیا جس کی اُنہیں تمنا تھی۔

اس کے بعد شامی عوا م یہ پوچھنے میں حق بجانب تھے کہ اس القاعدہ کوکیا ہواکہ کھینچ کھینچ کرہم پر مصائب لارہی ہے۔کیا ہمارے لیے بشار کا ظلم کافی نہ تھا کہ اب یہ امریکہ کو بھی ہم پر مسلط کررہے ہیں۔اسی طرح قیادت کی جانب سے صلاحیتوں کی تقسیم اور فتنے کی جنگ کو روکنے جیسے احکامات کی پابندی نہ کرنا۔

شام کے مسئلہ کے حوالے سے اس معروف فیصلے کے پیچھے بھی بنیادی سبب اس خونی فتنے کی آندھی سے بچنا تھا جو اب تک ہزاروں مجاہدین کا خون اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔اب سب کو اس بات کا اندازہ ہوچکا ہوگا کہ اگر اس وقت اس فیصلے پر عمل درآمد کرلیا جاتا تو آج ہزاروں جانیں بچ چکی ہوتیں اور تمام قوت اور وسائل مسلمانوں کا خون بہانے کی بجائے مسلمانوں کے دشمنوں پر صرف ہوتے۔

ایک اور انتہائی اہمیت کا حامل امر یہ ہے کہ اللہ کے فضل سے القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے۔اور شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ اور جماعۃ القاعدۃ الجہاد میں ان کے ساتھیوں نے اس پیغام کی حفاظت کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔کیا ہی اچھا ہو کہ اگر ادارہ السحاب شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کے اپنے بھائیوں کے نام کچھ مراسلات نشر کرسکیں۔

الغرض ،القاعدہ ایک تنظیم ہونے سے پہلے ایک پیغام ہے اور اگر ہم نے اس پیغام ہی کو مسخ کردیا تو ہم ناکام ہوگئے،چاہے تنظیمی اور مادی اعتبار سے ہم کتنے ہی پھیل جائیں،کیونکہ ہم اپنی اساسی ذمہ داری کی ادائیگی میں ہی ناکام ہوگئے جو امت کو شریعت کی حاکمیت اور احیائے خلافت کے لیے اس کے دشمن کے خلاف جہاد پر ابھارنا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم امت کے سامنے قول و فعل کے تضاد سے پاک ایک صالح نمونہ اور صاف ستھرا پیغام پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں چاہے ہم دس لوگ ہی کیوں نہ ہوں،یہ اس سے بہتر ہے کہ ہم دسیوں ہزارہوں لیکن امت ہم سے اور ہمارے اعمال سے متنفر ہو۔

لہٰذا جب امت یہ دیکھے گی کہ ہم لوگ تمکین اور غلبے سے پہلے ہی غنائم پر ایک دوسرے کی گردیں مارنے لگے ہیں،اس کے اہلِ فضل کو ان کا مقام دینے پر تیار نہیں ہیں، حکومت اور شوریٰ میں امت کا حق تسلیم نہیں کرتے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم ایک ایسے فتنے کی جنگ لڑنے میں مگن ہیں جس میں مجاہدین کی جان،مال اورحرمت کوپامال کیا جاتا ہے۔اور جب امت دیکھے گی کہ ہم جہاد کے ثمر کو پکنے سے پہلے ہی بے سوچے سمجھے اقدامات اور انفرادی سطح پر جلد بازی میں کیے گئے فیصلوں سے ضائع کررہے ہیں تو ایسے میں امت کس طرح ہم پر اعتماد کرے گی؟کس طرح ہمارے شانہ بشانہ کھڑی ہوگی؟بلکہ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ہم اپنے دشمن کو امت کے سامنے ہماری حیثیت کوبگاڑکرپیش کرنے کاسنہری موقع دیتی ہیں اور امت کو خود سے دور کرنے کا بہترین موقع فراہم کیے ہوئے ہیں۔ ایسے حالات میں سیکولر قوتیں اور امریکہ کے دم چھلے عوام سے کہیں گے کہ دیکھو یہ مجاہدین آج ایک دوسرے کے ساتھ یہ کچھ کررہے ہیں تو کل کو تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟

غالباًآپ نے حسن نصراللہ کا بیان سنا ہوگا جس میں اس نے شام کی مجرم حکومت کے ساتھ مل کر جنگ کو اس بنیاد پر درست قرار دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر اہلِ شام کو تکفیریوں کے جرائم سے نجات دلا رہا ہے۔حالانکہ یہ وہ حکومت ہے جو چالیس سال سے مسلمانوں کی حرمتیں پامال کررہی ہے۔

سوال:
لیکن پہلے آپ دولتِ اسلامی عراق کی مدح اور تعریف کیوں کرتے تھے؟

شیخ دامت برکاتہم:
میں اور میرے بھائی ان میں موجود خیر کی بنیاد پران کی تعریف کرتے تھے۔ جب کہ اس کے ساتھ ساتھ ہم بقدرِ استطاعت نصیحت،رہ نمائی اور احکامات کے ذریعے اصلاح کی کوشش بھی کرتے تھے۔

سوال:
پہلے آپ کے بارے میں ایک تاثریہ پایا جاتا تھا کہ آپ طبیعت کے لحاظ سے متشدد ہیں اور آپ کا شمار القاعدہ کے شہبازوں میں کیا جاتا تھا جب کہ اب آپ پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے اپنا منہج بدل لیا ہے بلکہ بعض تو آپ پر مرجئہ ہونے کا الزام تک لگاتے ہیں۔ تو کیا واقعی آپ کی سوچ اور فکر میں کوئی تبدیلی آئی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
لوگوں کو راضی کرناناممکن ہے اوربڑے بڑے فیصلے ہمیشہ مشورے اور اتفاق سے کیے جاتے ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ میں نے اپنی سوچ اور فکر بدلی ہے۔

سوال:
آپ ہمیشہ اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ مجاہدین کو چاہیے کہ وہ امت کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط کریں اور تب تک کسی قسم کی تبدیلی کی امید رکھنا عبث ہے جب تک امت مجاہدین کی صفوں میں نہ ہو،لیکن عملی طور پر ایسا کیونکر ممکن ہوسکتا ہے جب کہ بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ صرف اور صرف ایک نظری کلام ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

شیخ دامت برکاتہم:
افغانستان میں طالبان کا اٹھنا اور جنگی کمان دانوں کے خلاف ان کے لیے عوام کی بھرپور تائید اس کی واضح مثال ہے۔اسی طرح شام میں بھی بیش تر مجاہدین کا عوام کے ساتھ تعلق اس کا بہترین نمونہ ہے۔

سوال:
اسی طرح آپ اکثر امت کو مشاورتی عمل اور خاص طورپر اپنے حاکم کے انتخاب میں مشاورت میں شامل کرنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن بعض لوگ اس پر یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ امت اس ذمہ داری کی ادائیگی کی اہلیت نہیں رکھتی اور یہ مجاہدین میں سے کچھ چنیدہ لوگوں کا کام ہے،آپ اس اعتراض کا کیسے جواب دیتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
امت خود پر حکومت اور اپنی نمائندگی کے لیے ایسے افرادکا انتخاب کرتی ہے جو شرعی اہلیت رکھتے ہوں،ناکہ فاسق وفاجر کو جس کے دین میں کلام ہو۔لہٰذا مسئلہ چاہے نیابت کا ہو یاامارت کا یا امامت کا ،امت ایسے لوگوں کا ہی انتخاب کرتی ہے جو اس منصب کے لیے ضروری شروط پرپورا اترتے ہوں۔صحیح بخاری کی روایت کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب انصار کے ساتھ اس مسئلے پر بات کی تو آپ ؓ نے اس کی یہ دلیل دی کہ ’’خلافت کا یہ معاملہ قریش کے اس گروہ کے سوا کسی اور کے لیے قبول نہیں ہوگا‘‘۔

اسی طرح مصنّف ابن ابی شیبہ میں روایت ہے ’’لیکن تم لوگ یہ جانتے ہوکہ عرب میں قریش کی جو منزلت اورمقام ہے اس میں ان کا کوئی اور شریک نہیں اور عرب کسی ایسے شخص پر متفق نہیں ہوں گے جو ان میں سے نہ ہو‘‘۔

پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی بیعت کے وقت سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’اما بعد!اے علی میں نے لوگوں کی امارت کے مسئلے پر جب غور کیا تو اس ذمہ داری کے لیے عثمان سے بہتر کسی کو نہیں پایا ،سو تم اپنے نفس کو آڑے نہ آنے دو‘‘۔ پھر اُنہوں نے فرمایا:’’میں آپ کی بیعت کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کی سنت ،اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر اور ان کے بعد دونوں خلفاکی سنت پر‘‘…چنانچہ سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ نے جب بیعت کی تو اس کے بعد مہاجرین و انصار،فوج کے سپہ سالاروں اور عام مسلمانوں نے بھی بیعت کی۔

سوال:
شام میں ایران کے عراقی اور لبنانی حلیفوں کے نصیری حکومت کے ساتھ مجاہدین کے خلاف تعاون کے پیچھے کیا راز ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
حال کو سمجھنے کے لیے آپ اس قوم کی اور اس کے اسلاف کی تاریخ پڑھ لیں!انہیں کبھی یہ گوارا نہیں ہوسکتا کہ اہلِ اسلام کے پاس کوئی خطہ اور ریاست ہو۔خلافت کا دوبارہ قیام اور اس کے لیے کوشش ان کے نزدیک ایک جرم ہے۔شام میں نصیری حکومت کے سقوط سے ایران اپنے اُن حلیفوں کی نصف قوت سے محروم ہوجائے گا جو افغانستان سے لے کر جنوبی لبنان تک اپنی ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہیں۔ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ جہادی تحریکات اسرائیل کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں لیکن اس کے باجود یہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ بشار الاسد کی حکومت کے دفاع میں مشغول ہیں جو چالیس سال سے زائد عرصے سے اسرائیل کی حدود کی حفاظت کی ذامہ داری ادا کرہی ہے اور اس کے باوجود حسبِ عادت ایران صاف جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے اس حکومت کو مدافعت اور مزاحمت کارکہنے پر مُصر ہے۔حقائق کو ان کی اصل صورت میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ایران پوری قوت اور ڈھٹائی کے ساتھ جنوبی لبنان تک صفوی ریاست کے قیام اور جہاد فی سبیل اللہ کے وصف سے مزین اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔

سوال:
اہل شام کو ان مظالم اور جرائم سے نجات دلانے کا کیا رستہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
راستہ اسد کی مجرم حکومت کے خلاف جہاد ہے۔امت کے لیے لازم ہے کہ وہ اس جہاد کی ہر ممکن طریقے سے نصرت اور مدد کرے اور مجاہدین کے لیے بھی ضروری ہے کہ وہ کلمۂ توحید کی بنیاد پر اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں،کیونکہ ان کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف یہی ان کی مضبوط پناہ گاہ ہے۔یہ کسی طور معقول بات نہیں کہ شیعہ تو متحد ہوں جب کہ اہل سنت آپس میں ہی برسرِ پیکار ہوں اور ان کی صفیں اتحاد سے خالی ہوں۔چنانچہ سب کو چاہیے کہ وہ تنظیمی اور گروہی مصلحتوں سے بالاہوکر امت کی مصلحت کو سامنے رکھیں چاہے اس مقصد کے لیے انہیں اپنے بھائیوں کے حق میں ایسے امور سے دست بردار بھی ہونا پڑے جنہیں وہ درست سمجھتے ہیں۔

اسی طرح ہم امت کے اہل خیر تاجروں اور اصحابِ ثروت سے بھی یہ اپیل کرتے ہیں کہ وہ اہل شام کی امداد کے لیے آگے بڑھیں اور انہیں حکومت کے مسلط کردہ فاقوں اورمحاصرے کے بیچ میں نہ چھوڑیں کہ وہ خیموں کی زندگی کی تلخیاں ہی برداشت کرتے رہیں۔ذرائع ابلاغ میں نشر ہونے والی ان کی تصویریں سب کے سامنے ہیں جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

میری ایسے تمام اہلِ خیر سے بھی التماس ہے چاہے وہ میدان میں بھی مہارت رکھتے ہوں کہ وہ اہلِ شام کی امداد اور نصرت کے لیے کھڑے ہوں بالخصوص طب کے میدان میں۔اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ اگر میری استطاعت ہوتی تو میں خود ان کی صفوں میں شامل ہوکر ان کی خدمت کرتاکہ شاید میں اپنے بھائیوں کے مصائب میں کچھ کمی کا سبب بن سکوں۔اسی طرح ایسے تمام ماہرین جو کسی بھی میدان میں مہارت رکھتے ہوں اور معیشت اور تعلیم جیسے میدانوں میں اہلِ شام کی نصرت کرسکتے ہوں ان کے لیے اللہ کی راہ میں نکلنا واجب ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فتح آجائے۔

سوال:
کیا لبنان میں موجود شیعہ جماعت حزب اللہ کے ساتھ محاذ کھولنا درست ہے؟ اس حوالے سے آپ کی کیا ہدایات ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
واللہ اعلم !اس حوالے سے میری رائے یہ ہے کہ حزب اللہ نامی اس جماعت کی حیثیت اس وقت مسلمانوں کی جان،مال او رعزت پر حملہ آور کی ہے جو کہ سب سے بڑی مجرم حکومت کی حلیف ہے۔لہٰذا یہ ایک ایسا حملہ آور دشمن ہے جس سے ہر ممکن شرعی ذرائع سے دفاع کرکرنا واجب ہے۔شام میں جاری جہاد کی برکت کا مظہر یہ بھی ہے کہ اس نے حزب اللہ اور اس کے سربراہ حسن نصراللہ کا اصل چہرہ واضح کردیا ہے۔

سوال:
سعودیہ مصر میں اخوان کے خلاف کھڑا ہے جب کہ یمن میں وہ انہی کی حمایت اورمدد میں مشغول ہے جب کہ شام اور عراق میں بھی وہ کسی حد تک ان کی امداد کررہا ہے۔اس تضاد کی آپ کیاوجہ سمجھتے ہیں؟

شیخ دامت برکاتہم:
سعودیہ کی حیثیت امریکی سیاست کے لیے استعمال ہونے والے ایک آلے سے زیادہ نہیں جسے امریکہ جیسے چاہتا ہے استعمال کرتا ہے۔مصر میں امریکہ کی سیاست یہ ہے کہ حکومت کی زمامِ کار فوج یا فوجی پس منظر رکھنے والوں کے پاس ہوجو اسرائیل کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلامی تحریکوں کو کچلنے کا کام بھی کرسکیں۔جب کہ شام اور عراق میں اس کی سیاست ایک جانب ایران کو کمزور کرنا اور ساتھ ساتھ اسلامی تحریکات سے منسوب لوگوں کو حکومت تک پہنچنے سے روکنا ہے۔اس نظر سے دیکھیں تو سعودیہ کی سیاست میں کوئی تناقض اورتضاد نظر نہیں آتا۔

سوال:
سعودیہ ایک جانب شام اور عراق میں اہل سنت کی امدد اور حمایت کا دعویٰ کرتا ہے اور دوسری جانب شاہ عبداللہ کا کچھ عرصہ قبل جاری ہونے والا یہ حکم بھی ہمارے سامنے ہے جس میں اس نے ہر اس شخص پر بیس سال کی سزا کااعلان کردیا جو جہاد فی سبیل اللہ کی غرض سے نکلے۔اس کی کیا وجہ ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
جیسا کہ میں نے آپ سے کہا کہ سعودیہ کی سیاست کو سمجھنے کی کنجی یہ ہے کہ وہ امریکہ کی ایک آلۂ کار حکومت ہے۔یہ سیاست ان کے باپ عبدالعزیز نے جاری کی جب اس نے جنگ عظیم دوم سے کچھ عرصہ قبل امریکی صدر روز ویلٹ کے ساتھ ملاقات میں اپنی وفاداری برطانیہ سے ہٹا کر امریکہ کے ساتھ کرنے کا فیصلہ کیا۔

سوال:
اس فیصلے کے بعد جزیرۃ العرب کے مخلص علما او رداعی حضرات پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے؟

شیخ دامت برکاتہم:
علمائے کرام اور داعی حضرات کی ذمہ داری وہی ہے جو قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے ان پر فرض کی ہے اور سنت نبوی میں اس کی وضاحت موجود ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 


وَإِذْ أَخَذَ اللّہُ مِیثَاقَ الَّذِینَ أُوتُواْ الْکِتَابَ لَتُبَیِّنُنَّہُ لِلنَّاسِ وَلاَ تَکْتُمُونَہُ(ال عمران:۱۸۷)
’’اورجب اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ اسے لوگوں سے ضرور بیان کروگے اورچھپاؤگے نہیں‘‘۔

اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’شہداکے سردار حمزہ بن عبدالمطلب ہیں اور وہ شخص جو کسی جابر سلطان کے سامنے کھڑا ہوپھر اسے نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے اور اس کے نتیجے میں وہ سلطان اسے قتل کردے‘‘۔

اسی طرح حق کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں جہادورباط کے میدانوں کی جانب ہجرت کرنی چاہیے تاکہ وہ اسلام کے داخلی اور خارجی دشمنوں کے خلاف اپنی دعوت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں اور اپنے قول کی تصدیق اپنے عمل سے کریں۔

بشکریہ: نوائے افغان جہاد
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں