بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جس نے اکیلے، اپنے بندے کی مدد کی،اپنے لشکر کو عزت بخشی اور تمام لشکروں کو شکست دی، صلٰوۃ وسلام ہو اس ذاتِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر جن کے بعد کوئی نبی نہیں اور ان کی آل و اصحاب اور دینِ اسلام کا دفاع کرنے والے سپاہیوں پر؛
برادران محترم ڈاکٹر طارق عبدالحلیم، ڈاکٹر ھانی السباعی، ڈاکٹر ایاد قنیبی، ڈاکٹر عبداللہ المحیسنی، شیخ محمد الحصم اور ڈاکٹر سامی العریدی حفظھم اللہ ورعاہم!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ،
میں اللہ تعالیٰ سے آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی خیریت کے لیے دعاگوہوں اور دعا کرتا ہوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمیں اپنی رضا اور چاہت کے مطابق دنیوی فلاح اور اخروی کامیابی پر اکٹھا کرے۔ و بعد!
۱) انٹرنیٹ کے کچھ مواد سے مجھے آپ حضرات کے مجھ بندہ ضعیف کے نام پیغام کی اطلاع ہوئی، تو میں نے ضروری جانا کہ آپ کے قابل احترام موقف کی تعظیم، اس توجہ اور چاہت کے احترام میں جواب عرض کروں کیونکہ مجھے آپ کی امتِ مسلمہ اور مجاہدین کی نصرت، ان کے مابین فتنہ کے خاتمے اور ان کے خون اور عصمت کے دفاع کی چاہت کا یقین ہے۔
۲) جہاں تک جماعت دولۃ اسلامیہ فی العراق و الشام کی بابت اس کے توسیع کے اعلان سے پہلے اور بعد کی صورتِ حال اور بیعات کے بارے میں آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں ‘شام میں مجاہدین کا خون روکنے کے لیے ایک شہادت’ کے عنوان سے اپنے پچھلے بیان میں کافی حد تک اس مسئلے کی وضاحت کر چکا ہوں کہ دولۃ الاسلامیہ فی العراق، جماعت قاعدۃ الجہاد کی ایک تابع شاخ ہے اور اس کے امیر اور سپاہی جماعت قاعدۃ الجہاد اور اس کے امیر شیخ اسامہ بن لادنؒ اور ان کے بعد اس بندہ عاجز کی بیعت میں ہیں اور ان کی طرف سے اس (بیعت) کا تکرار کئی بار ہوا، میں نے اس کی کچھ مثالیں بیان کی تھیں، آپ کے لیے میں ایک اور مثال بیان کر دیتا ہوں۔ یہ شیخ ابو بکر البغدادی الحسینی حفظہ اللہ کے اس خط کے متعلق ہے جو انہوں نے ۷ ذی الحجۃ ۱۴۳۳ ھ کو میرے نام لکھا تھا۔ جس کا آغاز انہوں نےحمد او صلوۃ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بعد ان الفاظ میں کیا ہے:
’ہمارے امیر شیخ ڈاکٹر ابو محمد ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے نام! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ،
پھر اس کے ضمن میں انہوں نے کہا:
ہمار ے محترم شیخ! ہم چاہتے ہیں کہ آپ پر واضح کریں اور اس بات کا اعلان کریں کہ ہم آپ کا حصہ ہیں اور ہم آپ میں سے ہیں اور آپ ہی کے لیے ہیں، ہم اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتے ہیں کہ آپ ہمارے معاملات میں ولی الامر ہیں اور جب تک ہم باقی ہیں ہم پر آپ کی سمع و اطاعت کا حق ہے۔ اسی طرح ہماری بہی خواہی اور ہمیں نصیحت و تذکیر آپ پر ہمار ا حق ہے اور آپ کے امر کی اطاعت ہم پر لازم ہے۔ لیکن اکثر ہمارے محاذ کےکچھ مسائل ایسے ہوتے ہیں جن میں اپنی صورتِ حال کی وضاحت کی ضروری ہوتی ہے۔ لہذا ہمیں امید ہے آپ وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمارے نقطۂ نظر کو سنیں گے، اس کے بعد امر کا اختیار آپ کو ہی ہے اور ہم فقط آپ کے ترکش کے تیروں میں سے ایک ہیں‘۔
۳) پھر میں نے بحیثیت امیر، شیخ ابو بکر الحسینی حفظہ اللہ کے نام، یکم جمادی الثانی ۱۴۳۴ھ کو اپنے خط میں مسئلے کے فیصلے تک دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کاامیر ساقط کرنے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد میں نے ۱۳ رجب، ۱۴۳۴ ھ کو اپنے خط میں اس امر کی دوبارہ تاکید کی کہ دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام کو ختم کر کے دولۃ العراق الاسلامیہ کے طور پر اپنا کام جاری رکھا جائے۔ اس لیے ان تمام بیعات کو جو شیخ ابو بکر الحسینی البغدادی حفظہ اللہ نے جمادی الثانی ۱۴۳۴ ھ میں میرے پہلے خطاب کے بعد دولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام کے لیے ہیں، میں باطل سمجھتا ہوں۔ اس لیے کہ موجودہ امیر کی حیثیت سے میرے حکم کی واضح مخالفت پر ان کی بنیاد ہے۔
۴) جہاں تک اس جھگٹرے کے بارے میں آپ کے سوال کا تعلق ہے:
تو میں کئی دفعہ اس بات کی وضاحت کر چکا ہوں کہ شام میں پیدا شدہ بحران کے حل کے لیے سب سے پہلا قدم فوراً مجاہدین کے مابین قتال کو روکنا ہے۔ میں نے پھلے بیان میں شیخ ابو محمد الجولانی حفظہ اللہ اور جبھۃ النصرہ کے تمام لشکروں کو امر کیا ہے اور شام میں موجود تمام جہادی مجموعات اسےاپیل کی ہے کہ فوراً ایسے ہر قتال سے رک جائیں جس میں ان کے مجاہدبھائیوں یا عامۃ المسلمین کی جانوں اور حرمتوں کا نقصان ہو اور اسلام کے دشموں کے خلاف صف آرائی کریں۔
اس طرح کئی دفعہ پہلے میں اس بات پر زور دے چکا ہوں کہ سب ایک متفقہ اور مستقل شرعی ہئیت کو حَکم بنائیں جو تمام باہمی اختلافات کا فیصلہ کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ آپ معزز بھائیوں اور ان سب اہل علم و فضل کی ذمہ داری ہے جو جہادِ شام کے حامی اور اس (کی حفاظت) کے لیے حرص رکھتے ہیں کہ وہ اس بات کی دعوت دیں اور پھر امت پر یہ بھی واضح کریں کہ کون شرعی تصفیے کو تسلیم کرتا ہے اور کون پہلو تہی کرتا ہے، یہ ایک امانت ہے جو میں آپ کے سپرد کر رہا ہوں کیونکہ آپ مجھ سے زیادہ (اس کے لیے)استطاعت رکھتے ہیں اور آپ میرے حالات کو جانتے ہیں۔
اس کے ساتھ میرا آپ سے اور جہادِ شام کے حامی تمام اہل علم و فضل سے مطالبہ ہے کہ آپ فریق مخالف پر خیانت، تنزل اور کفر جیسے الزامات لگا کر چڑھائی کرنے کے طوفان کا راستہ روکیں۔۔۔ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ہر اہل ِفضل کو اس طوفان کے سامنے کھڑا ہونے کے لیے اٹھائیں۔
۵) میرے معزز بھائیو! میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ میں اور میرے بھائی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل وکرم سے آج بھی آپ سے اپنے عہد کے مطابق اسلام کے خارجی اور داخلی دشمنوں کے خلاف جہاد اور شریعت کی کامل حاکمیت کی دعوت دیتے ہیں۔ جو کوئی اس کے علاوہ کسی دعوت کو ہمارے ساتھ منسوب کرے تو میں اللہ تعالیٰ سے اس کے لیے معافی کا سوال کرتا ہوں اور دعاگوہوں کہ اللہ ہمیں اور اسے اپنی رضا پر اکٹھا کرے۔
۶) اس کے ساتھ مجھے امید ہے کہ شیخ ابو بکر الحسینی البغدادی حفظہ اللہ اور ان کے بھائی سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عراق کے محاذ پر لوٹ جائیں گے جو ان کی گنی چگنی محنتوں کا محتاج ہے تاکہ شام میں مسلمانوں کا بے دریغ بہتا خون روکا جا سکے۔
آخر میں مجھے امید ہے کہ آپ میری طرف سے جواب میں تاخیر پر درگزر کا معاملہ فرمائیں گے کیونہ آپ میری اور میرے بھائیوں کی صورتِ حال سے واقف ہیں، لیکن ہم آپ کو یہ خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ ہم عنقریب اللہ کے اذن سے تاریخِ اسلامی کی ایک عظیم فتح اور نصرِ مجید کا استقبال کرنے والے ہیں۔
استوعکم اللہ الذی لا تضیع و دائعه
والسلام
آپ کا بھائی ایمن الظواہری
(جمعہ ۳ رجب، ۱۴۳۵ ھ)
ادارہ السحاب برائے نشرو اشاعت
بشکریہ مجلہ نوائے افغان جہاد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں