سوال:
تکفیر کے مسائل کے حوالے سے ایک عام مجاہد کا، جو کہ عالمِ دین نہ ہو، طرزِ عمل کیا ہونا چاہیے؟
جواب:
( شیخ عطیۃ اللہ اللیبی رحمہ اللہ):
مسئلہ تکفیر ان حساس شرعی مسائل میں سے ہے جن کی خطرناکی سے ہم ہمیشہ اپنے نوجوانوں کو خبردار کرتے رہے ہیں۔ ہم اپنے مجاہد بھائیوں سے یہی کہتے ہیں کہ یہ حساس مسائل اپنے معتمد علماء کے لیے چھوڑ دیں اور ہر ایرے غیرے کو ان مسائل میں کودنے کی اجازت نہ دیں۔ یہ تو علم کو وہ باب ہے جس کی نزاکت اور خطرناکی کے پیش ِ نظر اکابر علماء اور ائمہ کرام بھی اس کی بہت سی عملی صورتوں پر گفتگو کرنے اور متعین افراد پر حکم لگانے سےگھبراتے (۱) تھے، اور ہمیشہ محفوظ راستہ اختیار کرتے تھے۔ ہمارے اسلاف تو کہا کرتے تھے کہ: ہمیں اپنا دین محفوظ رکھنے سے کوئی شے محبوب نہیں!
پس ایک عامی نوجوان کے لیے اتنا علم بہت ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات پر اجمالی ایمان رکھے اور اسی طرح طاغوت سے اجمالاً انکار کرے۔ رہا ان امور کی تفصیلات میں جانا اور یہ جاننے کی کوشش کرنا کہ فلاں شخص کا حکم کیا بنتا ہے اور فلاں جماعت دین سے خارج ہے کہ نہیں؟۔۔۔ یا ایسی ہی دیگر تفصیلات میں اترنا، تو ان میں اپنے علمی مقام کو سامنے رکھ کر ہی بات کرنی چاہیے، اس لیے یہ مسائل، فتوے اور شرعی قضاء سے تعلق رکھتے ہیں۔ پس جسے ان ابواب کا علم نہ ہو وہ خاموش رہے یا کہہ دے کہ ‘مجھے نہیں معلوم!’، ایسا کہنے سے اس کے ایمان میں، اس کے دین میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی، بلکہ یہی رویہ اختیار کرنا ایمان کا عین تقاضا ہے۔
کسی جاہل کو یہی حق نہیں پہنچتا کہ وہ ان مسائل میں زبان کھولے یا لوگوں پر احکامات منطبق کرے یا کسی شخص کے کافر ہونے کے معاملہ میں اپنی ایک مستقل رائے رکھے، سوائے اس صورت میں جب وہ کسی عالم کی اتباع و تقلید کرتے ہوئے ان کی رائے دہرا رہا ہو۔ دین کا علم نہ رکھنے والے شخص کا کام تو یہی ہے کہ اگر اس سے ایسے مسائل میں رائے مانگی جائے تو صاف کہہ دے کہ: ‘ مجھے نہیں معلوم، جاؤ جا کر علماء سے پوچھو!’ پھر اگر کوئی ثقہ عالم کسی شخص یا جماعت کے بارے میں نام لے کر ان کی تکفیر کر دے تو ان کی اتباع اور تقلید کرتے ہوئے ان کی رائے دہرا دینا اس عامی کے لیے جائز ہے۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ہر بھلائی کی توفیق دینے والے ہیں۔
(لقاء مع الشیخ عطیۃاللہ اللیبی رحمہ اللہ، الحسبۃ (عربی) جہادی فارم)
مصدر : مجلہ حطین ۸
(ا) یہاں یہ نکتہ واضح رہنا ضروری ہے کہ تکفیر کی نظری بحث اور تکفیر کے حکم کی عملی تطبیق دو علیحدہ چیزیں ہیں۔ علماء کی بہت کثیر تعداد تکفیر کی نظری بحث پر بات کرتی رہی ہے اور عوام الناس کو بھی یہ نظر ی بحث پڑھاتی رہی ہے، لیکن تکفیر کے حکم کوعملاً کسی فرد یا جماعت پر چسپاں کرنا وہ کام ہے جو کلیتاً علماء ہی کے سپرد ہوتا ہے، عامی کو کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اس میں دخیل ہو۔ مثلاً اس دور میں اجمالاً یہ بات جاننا تو ایک عامی کے لیے بھی نہایت اہم ہے کہ جمہوریت اسلام سے علیحدہ ایک مستقل دین ہے اور اپنے بنیادی اصولوں کے اعتبار سے صریح کفر ہے۔ لیکن اس نظری حکم کو لے کر جمہوریت میں اترے کسی متعین فرد یا جماعت پر کفر کا فتویٰ چسپاں کر دینا، یہ وہ کام ہے جس سے ایک عامی کو (یعنی ایسے شخص کو جو عالم نہ ہو) کوسوں دور رہنا لازم ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں