بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟
هيئة الشام الإسلامية کا فتوی
کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟
هيئة الشام الإسلامية کا فتوی
سوال:
ہم اکثر سنتے ہیں کہ کفار کی عدم تکفیر کرنا یا ان کے کفر میں شک کرنا، نواقص اسلام میں سے ہے ، اور یہ کہ جو مرتدین کی تکفیر نہیں کرتا وہ کافر ہے، اس عبارت کی صحت کیسی ہے؟ اور کیا یہ عبارت کسی اہل علم نےبیان کی ہے؟ ہمیں فتوی دیجیے اور اجر پائیں۔
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسولِ الله، وعلى آله وصحبه، وبعد:
بلاشبہ تکفیر کا باب بہت خطرناک ہے، قدم ڈگمگا جاتے ہیں، فہم گمراہی کی طرف چلے جاتےہیں، اسی لیے علماء نے اس مسئلہ کو صراحت سے واضح کرنے کا اہتمام کیا اور اس مسئلہ تکفیر کو مستحکم انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اسی قاعدے میں سے ایک قاعدہ یہ ہے[جو کسی کافر کو کافر نہ کہےوہ خودکافر ہے]، تو یہ قاعدہ اپنی اصل میں تو درست ہے جو شرعی نصوص کے اندر موجود ہے اور اس کی تکذیب کرنے والےکے احکامات بھی درج ہیں ، یہ قاعدہ بعض مسلمانوں کے کفر پر ہونے کی وجہ سے نہیں اخذ کیا گیا، جیسا کہ ہم آگے بیان کر رہے ہیں:
اول:
یہ قاعدہ [جو کفار کی تکفیر نہ کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو درست قرار دے، تو وہ خود کافر ہے]، یہ قاعدہ درست ہے، اس پر علمائے متقدمین و متاخرین کا اجماع ہے ؛ کیونکہ جو کفار کی تکفیرنہیں کرتا، جن کی تکفیر قطعی طور پرقرآن و اجماع کی نص سے ثابت ہے، تو وہ قرآن و سنت کی تکذیب کرتا ہے۔
قاضی عیاضؒ اپنی کتاب [الشفا] میں کہتے ہیں:
]اس سبب ہم اُن کی تکفیر کرتے ہیں جو اِن (کفار) کی تکفیر نہیں کرتا، جن کا تعلق مسلمانوں کے دین کے علاوہ دیگر مذاہب سے ہے یا ان کے معاملہ میں توقف کرے، یا اس میں شک کرے، یا ان کے مذہب کو صحیح جانے۔۔اگرچہ وہ اس بیان کردہ سابقہ اعتقاد کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کرے اور اسلام کا اعتقادبھی رکھے، اور اسلام کے علاوہ باقی سب مذاہب کو بھی باطل جانتا ہے۔۔تب بھی وہ اپنے اس اظہار(میں مسلمان ہوں) کی وجہ سے جو اس نے (اسلام کے) خلاف میں ظاہر کیا کے سبب کافر ہی ہے[
پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے قول کی وضاحت کی:
چونکہ کفار کے کافر ہونے پر نص اور اجماع موجود ہے،جو اس معاملہ میں توقف اختیار کرے، وہ اس نص کا انکار کرتا ہے۔
امام نوویؒ [روضۃ الطالبین] میں کہتے ہیں:
]جو اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب مثلاً نصاری کو کافر نہ جانے یا ان کی تکفیر میں شک کرےیا ان کے مذاہب کو درست جانے، تو وہ کافر ہے، اگرچہ وہ اس اعتقاد کے ساتھ اپنےاسلام کو بھی ظاہر کرے اور اس پر اعتقاد بھی رکھے[
البھوتیؒ [کشاف القناع] میں کہتے ہیں:
وہ کافر ہے، کیونکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اس قول کا انکار کرتا ہے:
[جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور طریقہ(دین) اختیار کرنا چاہے، اس کا وہ طریقہ قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں ناکام ونامراد ہوگا ](۳: ۸۵)
یہ وہ وقواعدِ تکفیر ہیں جن سے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں، اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا حکم بیان کرتی ہے ، نہ کہ اس کا تعلق بعض مسلمانوں کے کفرپر ہونےسے ہےیا ان لوگوں سے متعلق ہے جو نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کر لیں؛ لہٰذا اِس قاعدہ کی تطبیق اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس سے متعلق مبینہ خبرکو متفقہ طور پردرست نہ مان لیاجائے، اور اسی طرح اس فعل کے مرتکب شخص کی تکفیر ترک کی جائے ، اس بنیاد پر کہ شاید اس سے منسلک خبر جھوٹی ہو۔
دوم:
اس قاعدے کے اندر تین امور شامل ہیں:
اول:
اس بات سے متعلق قطعی نصوص موجود ہیں کہ جو دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب مثلاً یہود، نصاری، مشرکین کی ملت اورانکے شعار کی مخالفت کرتی ہیں اوران کی تکفیر کولازم کرتی ہیں ؛ پس ان کے کفر پرکتاب و سنت میں عام وخاص نصوص دلالت کرتی ہیں۔
عام نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
] بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے] (آل عمران: 19)
نیز فرمایا:
[جو کوئی اسلام کےعلاوہ کسی دین کی پیروی کرے گا،وہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا] (آل عمران: 85(
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
[اللہ کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جو کوئی میری امت میں سے، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، وہ میرے بارے میں سن لے، اور جس چیز کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اوراس پر ایمان نہ لائے، اور اسی حالت میں موت اس کو آ لے، تو وہ فقط جہنم کے لوگوں میں سے ہو گا] (رواہ مسلم)
اور خاص نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
[ یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکرین کی یہ بھی نقل کرنے لگے،اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں ] (التوبہ: 30(
اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا ئےاللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا] (المائدہ: 73(
جو کوئی ان مذاہب کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، یا ان کے عقائد اور دین کو صحیح قرار دے، وہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بلاشبہ جھوٹ باندھنے والاہے، اور اُن دونوں کے حکم کو رَد کرنے والا بن جائے گا۔
اس لیےقاضی عیاض اپنی کتاب [الشفا] میں اس اجماع کو نقل کرتے ہیں:
]جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ یہودونصاری اوردیگر مذاہب کی تکفیر نہیں کرتا، یا ان کے تکفیر میں توقف کرتا ہے، یا اس میں شک کرتا ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں[
اس قاعدے میں شامل دوم امریہ ہے:
ان ارتدادی گروہوں و مذاہب کے کفر کا قطعی ہونا جن کے ارتداد اور کفر پر سب جمع ہیں، جیسا کہ باطنی فرقوں میں سے قرامطی، اسماعیلی،نصیری،دروزی، بابی، بہائی اور قادیانی شامل ہیں۔ اہل علم نے ان گرہوں پر کفر اور ارتداد کا حکم لگایا ہے؛ جس کی وجہ ان فرقوں کا تمام جہتوں سے اصولِ اسلام کےمنافی اعتقاد رکھنا ہے، جو کوئی ان فرقوں کی حقیقتِ حال کے علم کے بعد بھی ان کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ ان کے مذہب اور کفریہ عقائد کو بھی درست ماننے والا قرار پائے گا، اور دین اسلام پر طعن کرنے والا بنے گا، اور یہ بھی انہیں کی طرح کافر ہو گا۔
ابن تیمیہؒ اپنے [فتاوی] میں دروزیوں سے متعلق رقمطراز ہیں:
[ان کے کفر سے متعلق مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے؛ بلکہ جو انکے کفر میں شک کرے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے]
اس قاعدے میں شامل سوم امر یہ ہے:
جو کوئی نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کرے، جن کو اہل علم نے جمع فرمایا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا، یا اُن کی توہین کرنا یا اس چیز کا انکارکرنا جو اسلام میں ضرورتِ دین سےمعلوم ہے۔
جو کوئی ان نواقص کی اقسام کے مرتکب کی تکفیر نہیں کرتا، ایسے اقوال وافعال کے کفر سے انکار کرتا ہے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے۔
ابن تیمیہؒ اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو صحابہؓ کی توہین کے جواز کا اعتقاد رکھتا ہے یا جو کفری اعتقادات کو صحیح جانتا ہے:
]تاہم جو اس طریقہ پر یہ دعوی کرتے ہوئے (دوسرے صحابہؓ پر) طعن و تشنیع کرے کہ علیؓ معبود ہیں یا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہیں اور جبریلؑ اپنا پیغام پہنچانے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، ایسے شخص کے کفر میں تو کوئی شک نہیں ہے، بلکہ جو کوئی ایسے شخص کی تکفیر پر توقف کرے اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے[
سوم:
اِس قاعدے(جوکافر کو کافر نہ کہےوہ خود کافر ہے) میں یہ امور شامل نہیں ہیں:
- جن مکفرات میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، مثلاً نماز کوسستی کےسبب چھوڑنے والا، ان میں سے متعدد علماء نے اس کفر پر دائرہ اسلام سے خارج کیا ہے، اور دیگر نے اسے اس درجہ تک نہیں جانا ہے، اسی لیے جو کوئی سستی کے سبب نماز کو چھوڑنے والے کی تکفیر نہیں کرتا، اس کوکافر نہیں کہا جائے گا۔
- نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کے ارتکاب کرنے والے معین مسلمان کی تکفیر سے احتراز کرنے والے شخص کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا؛کیونکہ کسی معین شخص پر کفر کے حکم کا اطلاق کرنا اس پر قطعی دلیل نہیں ہے، اس کی تکفیر کرنا اور اس پر ارتداد کا حکم لگانا صحیح اور غلط بھی ہو سکتا ہے، اس شخص کی تکفیر پر توقف کرنا موانع تکفیر کی موجودگی یا شروط ِ تکفیر نہ ہونے کے سبب ممکن ہے یا قیام حجت کی غیر موجودگی اور دیگر ملتے جلتے اسباب بھی شامل ہیں۔
اس قاعدے میں یہ بھی شامل نہیں ہے:
جو کوئی متفق احکام ِ کفر کا اطلاق بعض معین افراد پر نہ کرے،مثلاً طاغوت کے احکام کا اطلاق کرنا یا اللہ کی شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے گروہوں کے قائدین یا افراد کو تکفیر کے لیے معین کرنا ؛ کیونکہ کفر بالطاغوت کی اصل اسلام میں اس طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا]
جبکہ کسی معین فرد پر طاغوت کے حکم کا اطلاق کرنا ایک اجتہادی اور نظری بحث ہے۔ اس موقع پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ:
[جو کوئی فلاں مرتکبِ نواقص شخص کی تکفیر نہیں کرے گا، وہ خود کافر ہے]
کیونکہ اس کی وجہ اس معاملہ میں اجتہاد اور اختلاف کا ہونا ہے۔
چہارم:
اس قاعدے کا اطلاق ان قائد ین پر کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں ہے جب تک تکفیر کی شروط کی تحقیق نہ کر لی جائے، اور اس کے موانع کو زائل نہ کر لیا جائے۔
تکفیر مطلق جیسا کہ یہ قول (جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) لوگوں پر معین تکفیر جیسا کہ یہ قول (فلاں شخص کافر کی تکفیر نہیں کرتا یہ بھی کافر ہے)سے مختلف ہوتی ہے۔
معین افراد اپنے اوپر قیامِ حجت کے حساب سے مختلف درجہ پر ہوتے ہیں، اپنے اجتہاد اور تاویل پر مختلف درجہ رکھتے ہیں اور کثر اہل غلو جہالت کے سبب ان مختلف مراتب میں تفریق نہیں کرتے ہیں۔
ابن ابی العز الحنفی [شرح الطحاوية] میں کہتےہیں:
[کسی معین شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ مجتہد ہو جس کے سبب وہ اپنی خطا پر معاف کیا جائے، ممکن ہے کہ ان نصوص میں بہت سے باتیں جو اس کے علاوہ ہیں، اسے آگاہی حاصل نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ایمان عظیم ہو اور ایسی نیکیاں ہوں جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت ناگزیر ہو جائے]
کوئی شخص کفارِ اصلی، یا مرتدین جن کے ارتداد پر سب متفق ہیں کی عدم تکفیر پر اپنے علم کے قصور یا کسی شبہ کو دیکھنے یا دیگر موانع تکفیر(جیسا کہ جہالت،خطا،اکراہ اور تاویل) کے سبب توقف کر سکتا ہے، اس لیے معین تکفیر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ تمام موانع اس سے زائل ہو چکے ہوں۔
ابن حجرؒ [فتح الباری] میں امام شافعی ؒکے قول کو نقل کرتے ہیں:
[جو شخص اقامتِ حجت کے بعد مخالفت کرے اس نے کفر کیا،تاہم قیامِ حجت سے قبل اسے جہالت کا عذر دیا جائے گا]
ابن تیمیہؒ [فتاوی] میں عقیدہ وحدت الوجود کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور اسے نصارٰی کے قول کی طرف اشارہ دیتےہوئے لکھتے ہیں:
[یہ تمام عقیدہ اپنے باطن وظاہر پر تمام مسلمانوں کے اجماع کے سبب کفر ہے، اور جو کوئی ان کے قول سے متعلق وضاحت دینے اور دین اسلام کی معرفت کو ظاہر کر دینے کے باوجود ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ بھی اسی طرح کافر ہے جو یہودو نصارٰی اور مشرکین کے کفر میں شک کرتا ہے]
اس لیے جو کسی کافر کی تکفیر نہ کرے اس پر اقامتِ حجت ضروری ہے، جو اس کی تعلیم اور اس معاملہ کی وضاحت سے ممکن ہو گی۔
پنجم:
اس قاعدے کے سبب دو فریق گمراہی کا شکار ہوئے ہیں، فریقِ تفریط جو ادنی درجہ پر آیا، اور فریقِ افراط جو غلو کا شکار ہوا۔
- جہاں تک غفلت برتنے والوں کا تعلق ہے: انہوں سے اس قاعدے میں سے کچھ نہ لیا، اور اس کا انکار کیا، ان کے نزدیک کفار کی تکفیران حدودو ضوابط کے پورا ہونے کے بعد بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے بعض یہ زعم بھی رکھتے ہیں کہ کفار کی تکفیر کرناآزادی رائے کے خلاف ہے، ان میں وہ بھی ہیں جو وحدتِ ادیان کی دعوت دیتے ہیں یا ان میں بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، اور یہ اقوال اللہ اور اس کی رسول صل اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے مترادف ہیں اور اجماع امت کا انکار ہے۔
- جہاں تک غلو کرنے والوں کا تعلق ہے: انہوں نے اس قاعدے کو بڑھا دیا، حتیٰ کہ اس میں مسلمانوں کو داخل کر دیا اور اِن پر کفر اور ارتداد کا حکم لگا دیا، اور پھر باقی لوگوں پر اس تکفیر کو لازم قرار دے دیا۔پھر اگر آپ اس قاعدے کے متعلق (ان کے بتلائے ہوئے طریقہ پر)عملاً تکفیر نہیں کرتے، پھر یہ دعوی کرتے ہیں۔۔۔۔(کہ آپ بھی کافر ہیں)!!
بالآخر:
بلاشبہ تکفیر اور ارتداد کا حکم ایک خطرناک معاملہ ہے، اس (حکم) کے اندر وہ آثار ہیں جو زوجین کے درمیان تفریق پیدا کر دیتے ہیں، اور مرتد اور اس کی وراثت سے متعلق احکاماتِ وراثت منقطع ہو جاتے ہیں، اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہوتاہے،اسی طرح اس کی نماز نہ پڑھنے اور دیگر امور اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔اس لیے ایک مسلمان کو اس معاملہ میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے، بلکہ یہ امر تو سوائےان راسخ العلم حضرات کے لیے ہیں جن کے ہاتھ میں قضاء اور احکامات ہیں۔
ابو حامد الغزالیؒ [الاقتصاد في الاعتقاد] میں لکھتے ہیں:
]جب تکفیر کی راہ سے نکلنا ممکن ہو تو اس سے ضرور احتراز برتنا چاہیے،کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کو جو کہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتےہوں، کے خون و اموال کو مباح (جائز) قرار دینا غلطی ہے۔ زندگی میں ہزار کفار کے قتل کو ترک کر نے کی غلطی بنسبت ایک مسلمان کے خون کی (المِحْجِمة) جتنی مقدار کو غلطی کے سبب بہا دینے سے ہلکی بات ہے [ اور (المِحْجِمة): حجامہ کا آلہ ہے، اس آلہ ججامہ کے اندر خون کی وہ کم سے کم مقدار جو آسانی سے آ سکے۔
امام شوکانیؒ[السيل الجرار] میں لکھتے ہیں:
]یہ بات جان لو کہ کسی بھی مسلمان شخص پر دینِ اسلام سے خروج کر کے کفر میں داخل ہونے کا حکم لگانا؛ مسلمان جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے، اس کا ذمہ اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک وہ اس معاملے میں چمکتے سورج کی مانند واضح دلائل نہ دیکھ لے،اس واسطے کہ صحیح احادیث میں صحابہؓ کی جماعت سے مستند طور پر یہ حدیث مروی ہے کہ:’’ جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، پس یہ (تکفیر) اُ ن میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹے گی‘‘]
ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس علم کی طرف لے جائیں جس سے ہمیں فائدہ ہو، اور ہمیں امتِ وسط بنائیں جو غلو اور تضاد سے پاک ہو، اور ہمیں اپنے مجرم دشمنوں پر فتح یاب فرمائیں۔
والحمد لله رب العالمين
مصدر:
http://islamicsham.org/fatawa/1904
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں