اخبار کا جھوٹ اور تدلیس کے ذریعے شیخ ابو قتادہ کو بدنام کرنےکی بابت ایک تیزدھار جواب
ابو محمدفلسطینی (اسماعیل کلام) کا شیخ ابو قتادہ فلسطینی سے مقالمہ
الحمد لله رب العالمين والصلاة والسلام على أشرف الانبياء والمرسلين.
بعدازاں،
علی یونس نامی صحافی نے [The Arab Daily] میں ایک کالم نشر کیا ہے جس کے اندر یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے ایک خصوصی گفتگو شیخ ابوقتادہ کے ساتھ کی ہے۔ کچھ نقات جو اس تحریر میں بیان ہوئے ہیں یقیناً اس سے متعلق جو ہم شیخ ابوقتادہ کو جانتے ہیں یقیناً وہ رائے انہیں کی ہے ۔ جو کوئی بھی شیخ کی کتب کا مطالعہ رکھتا ہے وہ یہ بات جان لے گا کہ شیخ کا نقطۂ نظر وہی ہے؛ تاہم اس کے اندر کچھ دوسرے دعوے بھی موجود ہیں، خاص طور پر شیخ اسامہ بن لادنؒ سے متعلق نقطہ جو شیخ کی رائے کے برعکس ہے، جس میں دعوی ہے کہ وہ شیخ اسامہؒ سے متعلق یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ امت کی رہبری کے لیے نااہل اورنامناسب ہیں، جس میں شریعت اور منہج دونوں اعتبار سےاعتراض کا تزکرہ موجود ہے اور اس کے علاوہ اس بات کا تذکرہ بھی ہے کہ شیخ ابوقتادہ شیخ اسامہؒ کی بیعت نہ کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔
اس تحریر کو کو دیکھنے کے بعد اوراسکی احمقانہ اور اوچھی سنسنی خیزی کے باوجود جو موضوع پر بیان ہوئی ، میں نے یہ دیکھا ہے کہ اس کے اندر کسی درجہ تک حق بات بھی موجود ہے جو شیخ ابو قتادہ کےمنہج سے متعلق ہے۔ یہ تب تک ہے جب تک ہم شیخ اسامہؒ سے متعلق ان کے نظریات اور نقطۂ نظر تک نہیں پہنچ جاتے۔ میں اس بات کوقابل بیان سمجھتا ہوں کہ ایک جوان شخص کی حیثیت سے جب میں نے دین پر عمل کرنا شروع کیا، تو سب سے پہلے جس شخصیت سے میں نے شیخ اسامہؒ کا تذکرہ سنا وہ شیخ ابو قتادہ ہی تھے۔ اس میں انہوں نے شیخ اسامہؒ سے متعلق مدح بیان کی جس سے میری آنکھوں میں آنسو رواں ہو گئے۔
اس چیز کا علم ہونے پر کہ اس تحریر میں تدلیس اور افتراء سے کام لیا گیا ہے، میں نے اس کے جواب میں ایک عاجلانہ تبصرہ تحریر کیا اور اپنے محبوب شیخ ابو قتادہ کے جواب کا انتظارکرنےلگا، جس سے وہ میرے شبہات اور سوالات کا جواب اس نشر کردہ مضمون کے حوالے سے دے سکیں گے۔یہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے ہے کہ میرےشیخ میری تحاریر کو پڑھتے ہیں، اور میری غلطیوں کی اصلاح کرتے ہیں اور میرے اشکالات کی وضاحت کرتے ہیں۔ پس مجھ پر یہ بات واضح ہو گئی شیخ کے الفاظ سےاس صحافی کو بعض دفعہ فہم کا مسئلہ رہا اور بعض دفعہ جھوٹ اور تدلیس سے کام لیا۔
اور اب جو نیچے بیان ہو گا وہ شیخ کے اپنے الفاظ ہیں جس میں انہوں نے اس جھوٹ اور بدنام کرنے کی سازش کے پس ِ منظر میں جواب دیا اور اس بات کی وضاحت کر دی کہ کہ شیخ کا اصل موقف اس معاملہ میں کیاہے۔
ہمارے شیخ ابو قتادہ نے کہا:
میرے محبوب بھائی میں آپ کی اس (اخباری)تحریر میں موجود الفاظ کو سمجھنے اور اس پر جواب دینے پر آپ کا مشکور ہوں۔ وہ واحد چیز جس پر ہمارے اوپر اس صحافی کی طرف سے جھوٹ بولا گیا، وہ ابو عبداللہ(شیخ اسامہ بن لادنؒ) سے متعلق کلام ہے ۔
وہ چیز جو میں نے فقط اس معاملہ پر بیان کی وہ یہ تھی کہ ستمبر (۹۱۱) سے قبل ہم نے بیعت میں داخل نہ ہونے کی نصیحت کی تھی۔جب وہ ستمبر(۹۱۱) کا واقعہ ہوا، تب معاملات تبدیل ہو گئے۔ ستمبر (۹۱۱) سے قبل بہت سے مجموعات مثلاً شیخ الزرقاوی، شیخ ابوعیاض التونسی، جماعت المقاتلہ(الجزائر) نے بھی بیعت اس وقت تک نہ دی تھی جب تک ستمبر (۹۱۱) کے واقعات رونما نہ ہو گئے۔ میں نے یہ بات بھی اس صحافی سے بیان کی تھی کہ یہ الفاظ نشر کرنے کے لیے نہیں ہیں۔
میں نے اسے بیان کیا کہ یہ وہ خیرکا معاملہ ہے جوہمارے دشمنوں کے ہاتھوں ہم پر آن پڑا، جس سے امت میں اتحاد پیدا ہوا۔ امریکہ کے خلاف امت یکجا ہو کر متحد ہو گئی، یہ ایک ایسا امر ہے جسے کوئی بھی جھٹلا نہیں سکتا۔یہ بات اس ضمن کے دلایل کے طور پر بیان ہوئی کہ کیوں بہت سے افراد داعش کے اندر گئے ہیں۔ میں نے اس سے بیان کیا کہ کس طرح فلسطین کے مہاجرین کیمپوں میں لوگوں نے ۹۱۱ کے دن مٹھائیاں بانٹیں حالانکہ اس وقت وہ یہ بات نہ جانتے تھے کہ یہ عمل کس نے کیا ہے۔
میں نے اپنے شیخ سے کہا:
میرے شیخ آپ نے مجھ سے الجزیرۃ چینل پر ایک انٹرویو کے حوالے سے کہا تھا جب کہ وہ آپ کو بہت زیادہ اصرار کر رہے تھے کہ آپ یہ انٹرویو ضرور دیں، آپ نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ دانشمند ی کا نقاضا نہیں ہے کہ اس وقت کسی بھی میڈیا کو کسی بھی قسم کا بیان دیا جائے۔میری بہت خواہش تھی کہ آپ کا پہلا انٹرویو الجزیرہ چینل پر دیا جاتا اور وہ براہ راست نشر ہوتا تاکہ کسی بھی قسم کی قیاس آرائی اورتدوین سے بچا جا سکنا ممکن ہو جاتا۔
انہوں نے جواب دیا ( اللہ ان کی حفاظت فرمائیں):
میری بات کو سنو، میں نے ایسا کوئی بھی انٹرویو نہیں دیا، اس نے اس معاملہ پر جھوٹ بولا کہ یہ انٹرویو تھا بلکہ شیخ ابو محمد المقدسی اسے ایک مجلس میں ساتھ لائے۔ میرا اس سے تبادلۂ خیال ہوا اور دوسری دفعہ ملاقات ایک شادی پر ہوئی، اس وقت میں نے سب کے سامنے بیان دیا، اور اس نے وہ الفاظ ورق پر محفوظ کیے، اس وقت مجھ سے بہت سے سوالات لوگوں کی جانب سے اور اس صحافی کی جانب سے ہوئے۔ جیسا کہ آپ اس تحریر کی بناوٹ سے معلوم ہو جائے گا کہ اس میں کسی بھی قسم کا سوال وجواب والا مقالمہ نہ تھا۔ وہ ایک مضمون کی طرز پر ہے جو اس نے میرے الفاظ سے سمجھا۔
یہ شخص بھی باقی صحافیوں سے بالکل بھی مختلف نہ تھا جن سے میری ملاقات رہی۔ میں جو بھی ان کے سامنے سلف اور جہاد (سلفی جہادی) کے مفہوم میں سے بیان کرتا ہوں یہ اسے سمجھ نہیں پاتے۔ میں نے سلفیہ کو جہاد کےاس رخ کے طور پر اس انداز میں مسترد کیا تھا کہ آج کا جہاد امت کا جہاد ہے، کسی خاص مخصوص جماعت(سلفی جہادی) کے ساتھ متصف کرنا ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے یہ بات بیان نہیں کی تھی کہ اہل جہاد خطا اور غلطی پر ہیں بلکہ میں نے اس نظریہ کی نفی کی تھی جو جہاد کو کسی خواص جماعت سے جوڑنا چاہتے ہیں۔ آج اللہ کے فضل سے ہم خواص کے جہاد سے آگے نکل چکے ہیں، آج جہاد ایک امت کا جہاد بن چکا ہے۔
اس تحریر میں الفاظ بہت واضح ہیں۔ اس شخص نے میرے شیخ اسامہؒ سے متعلق موقف پر جھوٹ باندھا اور اس چیز کا دعوی کیا کہ میں نے یہ بیان کیا کہ جہاد فقط اسلحہ کے استعمال کا نام نہیں۔ پس میں کسی بھی جہاد کو جو قرآن و سنت میں بیان ہوا ہے اسے قتال کے علاوہ نہیں جانتا ہوں۔ تاہم جو چیز میں دیکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جہادی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اردگرد کے فہم میں وسعت لے کر آئیں اور سابقہ فہم پر اس کو مت سمجھیں، کیونکہ اب جن حالات اور حقیقتوں کا وہ سامنا کر رہے ہیں وہ بالکل تبدیل ہو چکی ہیں۔ یہ بالکل بھی جہاد کو شرعی طور پر تبدیل کرنے کی دعوت ہرگز نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق جہاد اور عملیات کی عملی تطبیق سے ہے۔
لیکن میرے محبوب شیخ آپ اس چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مجھ سے نفرت کرنے والے پھر بھی موجود ہی ر ہیں گے اگرچہ میں فقط لا الہ الا اللہ ہی کہوں۔جہاں تک ان جاہل کم عمر افراد کا تعلق ہے جو سوائے طعن و تشنیع کے کچھ نہیں جانتے ہیں، میں ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا ہوں، نہ ہی ان کی طرف کوئی دھیان دیتا ہوں، کیونکہ وہ اتنے اصاغر(چھوٹے) ہیں کہ وہ میری بات کو نہیں سمجھ سکتے ہیں، میں ان سے متعلق یہ امید کھو چکا ہوں کہ وہ اپنے حواس پر واپس آئیں گے یا میرے سے متعلق انصاف سے کام لیں گے۔
جو بات مجھے عجیب لگتی ہے وہ یہ ہے کہ خالد الحایک اس عنوان کے ساتھ سامنے آتا ہے کہ میں نہ ہی سلفی ہوں اور نہ ہی جہادی ، اس چیز کو سمجھے بغیر کہ میں نے اس معاملہ کی وضاحت کس رخ سے کی ہے۔
میں اسے اپنے جسم کے گوشت پر لذت اٹھانے کی مبارکباد دیتا ہوں۔
میں (شاگرد) اس کے جواب میں کہتا ہوں:
خالد الحایک اپنی ساخ اور اپنے بیانات کی صحت سے متعلق مزید سوالات کو اپنے اوپر لائے ہیں۔ جو اس نے بیان کیا وہ شیخ کی ذات پر براہ راست حملہ تھا اور انکے عمل کو نقصان پہنچانے کی کاوش تھی۔ اس سے شیخ کے الفاظ کو بالکل بھی نہ سمجھا تھا۔ میں اس معاملہ کو ان پر چھوڑتا ہوں جو اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں کہ وہ اس کی نیت کے اندر موجود ناقابل فہم معانی کو خود ہی اخذ کرنے کی سعی کرلیں، اور اس بات کو بھی دھیان میں رکھیں کہ جب معاملہ روایت بیان کرنے کا ہو، تو صرف اسی معاملہ میں یہ(خالد الحایک) کسی فہم کے متقاضی بنتے ہیں۔
شیخ ابوقتادہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہیں:
اگر مجھے آپ سے محبت نہ ہوتی تو میں اس معاملہ پر کوئی بھی لفظ کو بیان نہ کرتا۔ میں آپ کے بارے میں بہت گہرہ احساس رکھتا ہوں اور آپ کی پسند کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، شاید کہ آپ کے دن ہمارے سے بہتر ہوں۔ہم اس معاملہ پر کچھ بھی نہیں کر سکتے، یہ ہماری قدر ہے جو لوگوں کے ساتھ منسوب ہو چکی ہے۔ ہمارا جرم صرف اتنا ہے ہم سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور لوگوں سے متعلق بھی یہ خواہش رکھتے ہیں کہ وہ بھی اس بات کو سمجھ لیں۔ بجائے اس کے وہ ہمارے مشکور ہوں، وہ ہم پر طعن و تشنیع لے کر آتے ہیں۔ ان میں سے تو کچھ اس چیز کی خواہش بھی رکھتے ہیں کہ ہم پھر سے کفروارتدار کا ارتکاب کر لیں، صرف اس وجہ سے کہ یہ لوگ اس بات کو بیان کر سکیں کہ دیکھا ! ہم لوگ سچے تھے۔ اللہ کی قسم! میں اس چیز کو محسوس کرتا ہوں کہ یہ اس چیز کے خواہشمند ہیں کہ ہم کفر کا ارتکاب کر لیں۔ اللہ المستعان۔
اگر وہ اس تحریر کو کامل پڑھ لیں، ان کے پاس میرے الفاظ کے سمجھنے کے حوالے سے اور کوئی صورت کا سامنا نہ کرنے پڑے گا سوائے اسکے جس کا سامنا آپ نے کیا۔ اس معاملہ میں فقط یہ بیان کیا جا سکتا ہے کہ یہ اچھا تھا سوائے اُن الفاظ کے جو شیخ اسامہؒ سے متعلق بیان ہوئے۔ یہی بات حقیقت ہو گی۔
میرے محبوب بھائی، میں اس سچ کو بیان کروں گا جس کو سننا لوگ نا پسند کرتے ہیں، چاہے معاملہ کسی سے متعلق بھی ہو۔ چاہے وہ حکومتیں ہوں، تنظمیں ہوں، اہل غلو ہوں، میرے دوست ہوں،میرے گھر والے ہوں یا میرے بھائی ہوں۔
میں نے ابو بکر صدیقؓ سے متعلق سب سے بڑی آزمائش سے متعلق تدبر کیا، تو میں اس معاملہ میں ابو بکر صدیقؓ کے سیدنا فاطمہؓ سے متعلق اختلاف کو سب سے بڑھ کر پاتا ہوں کیونکہ ان کو سیدنا فاطمہؓ سے بھی محبت تھی، ان کے والد گرامی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی محبت تھی، ان کی یہ آزمائش تھی کہ انہوں نے سیدنا فاطمہؓ کو غضب میں صرف اس وجہ سے مبتلا کیا کیونکہ وہ حق کو جانتے تھے۔
یہ وہ بات ہے جو میرے پاس بیان کرنے کے حوالے سے موجود تھی۔ میں نے یہ اس لیے بیان کیا کیونکہ میں آپ کے بارے میں یہی رائے رکھتا ہوں کہ آپ حق بات کی اتباع کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، آپ کی خواہش حق کی اتباع میں میری محبت سے بڑھ کر ہے۔ آپ میرے لیے صرف یہی پسند کرتے ہو کہ میں سچ بات بیان کر دوں اور مجھ سے غلطی سرزد نہ ہو۔اگر مجھ سے غلطی ہو تو میں اس بات کو محبوب رکھتا ہوں کہ حق بات سے رجوع کر لوں۔
والحمد لله رب العالمين.
انتھی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں