امرائے جہاد کے نام
شیخ عطیۃ اللہ اللیبی رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین، والعاقبۃ للمتقین ولا عدوان إلا علی الظالمین، وصلی اللہ وسلم وبارک علی نبینا محمد المبعوث رحمۃ للعالمین وعلی آلہ وصحابتہ أہلِ العزائم الطیبین الطاہرین، ومن تبعہم بإحسانٍ إلی یوم الدین.
آپ کے بھائی عطیۃ اللہ عفااللہ عنہ کی طرف سے میرے معزز بھائیوں ،امرائے مجاہدین کے نام!
معزز بھائی السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ!
میں اللہ تعالیٰ سے امید رکھتا ہوں کہ آپ خیریت سے ہوں گے اور نیکی اور تقویٰ کی توفیق میں ترقی کے لیے کوشاں ہوں گے۔امابعد۔۔۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں!
وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ إِلَّا الَّذِینَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
’’ کہ انسان نقصان میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے‘‘۔
اسی طرح فرمانِ الٰہی ہے :
وَتَعَاوَنُوا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّہَ إِنَّ اللَّہَ شَدِیدُ الْعِقَابِ(المائدۃ:۲)
’’اور (دیکھو)نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور خدا سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب سخت ہے‘‘۔
اور فرمایا:
قُلْ یَا أَہْلَ الْکِتَابِ لَسْتُمْ عَلَی شَیْءٍ حَتَّی تُقِیمُوا التَّوْرَاۃَ وَالْإِنْجِیلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَیْکُمْ مِنْ رَبِّکُم(المائدۃ:۶۸)
’’کہو کہ اے اہل کتاب !جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ان کو قائم نہ رکھو گے کچھ بھی راہ پر نہیں ہوسکتے‘‘۔
میں اپنی ذات کو اور آپ بھائیوں کو اللہ سبحانہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کی تذکیر کرانا چاہتا ہوں کہ اس دور میں جب دنیا اور اس کے فتنوں نے عوام کو گھیر رکھا ہے اور ھوائے نفس اور زندہ و مردہ طواغیت کی عبادت کا غلبہ ہے، اس نے مجھے اور آپ کو اپنی اطاعت نصیب فرمائی اور ہمیں اپنے دین کی نصرت اور اپنے کلمے کی سر بلندی کے لیے اپنے راستے کے مجاہدین میں شامل کیا ۔ہم اس عظیم نعمت کے لیے رب سبحانہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس نعمت کا صحیح معنوں میں شکر ادا کرنے ،اپنے ذکر اور حسنِ عبادت کی توفیق عطا فرمائے ۔
میں آپ کو مزید توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ یہ توفیق اور نعمت اللہ سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی آزمائش اور امانت ہے۔۔۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق خبردار فرمایا ہے ۔یہ ذمہ داری یومِ قیامت بہت بڑی رسوائی اور ندامت کا باعث بن سکتی ہے الاّ یہ کہ ذمہ دار اس کا پوراپورا حق ادا کرے اور اللہ کی قسم انسان اس ذمہ داری کو کماحقہ ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا جب تک کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کی نصرت نہ فرمائے ، اسے توفیق اور رشد و ہدایت عطا کرے ، اسے ظاہر و باطن میں تقویٰ وخشیتِ الٰہی اور یقین و قوت سے نہ نوازے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ کی رحمت سے ہی ایسا ممکن ہے کہ بندے کے لیے یہ رتبہ اور ذمہ داری حق سبحانہ وتعالیٰ کی عبادت اور قربت کا ذریعہ بن جائے ۔یہ توفیق اللہ سبحانہ تعالیٰ کے حقِ بندگی کی ادائیگی میں پوری محنت کرنے سے ہی ملتی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس ذاتِ باری کا محتاج سمجھے ،اس کے سامنے انکساری کے ساتھ جھکا رہے اور حسبِ استطاعت ظاہر و باطن میں تواضع اور انکساری اور جواب دہی کے خوف کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی اطاعت پر ڈٹا رہے ۔جو چیزیں اس کے حصول میں ممد و معاون ہو سکتی ہیں ان میں کثرتِ ذکر و دعا،قیام اللیل،نفلی روزوں کا اہتمام ،صلحا کی صحبت و مجلس اور علما ئے طیبین کا قرب شامل ہیں ۔مزید یہ کہ انسان اہلِ آخرت کو اپنا ساتھی اور رازداں بنائے اور مغرور،ریاکار ،متکبر دنیادار لوگوں کی صحبت سے دور رہے ۔
محترم بھائی !آپ کے لیے یہ سطور تحریرکرنے کا مقصد حق سبحانہ تعالیٰ کی طرف سے صبر وحق بات کی تلقین ،نیکی وتقویٰ میں تعاون ،مسلمانوں اور ان کے امرا کو نصیحت ،امربالمعروف ونہی عن المنکر اور جہاد فی سبیل اللہ کے احکامات کی تکمیل کی کوشش ہے ۔۔۔اور یہ کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے علم و معرفت اور امور کا جوتجربہ عطا کیا ہے اس کا حق ادا ہو جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے مسافر ہیں جیسا کہ صحیح بخاری اور سنن ترمذی میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما سے مروی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مفہوم ہے :
’’اللہ سبحانہ تعالیٰ کی حدود پر قائم لوگوں کی مثال اس گروہ کی مانند ہے جو ایک کشتی میں سوارہے ،کچھ لوگ اس کے اعلیٰ درجے میں سوار ہیں اور کچھ نچلے درجے میں۔اگر نچلے درجے والے اوپر والوں سے لاتعلق ہو کر نچلے حصے میں پانی بھرتے رہیں کہ ہمارے حصے میں پانی بھرنے سے اوپر والوں کو کچھ نہیں ہو گا اور اوپر والے انھیں اسی حال میں چھوڑ دیں تو سب ڈوب جائیں گے جب کہ اگر اوپر والے نیچے والوں کو سمجھا کر روک لیں تو سب بچ جائیں گے‘‘۔
بلاشبہ ہماری امت کا جہادی قافلہ اپنی اصلاح ودرستی کے لیے ہم سے لگاتار کوشش کا متقاضی ہے کیوں کہ انحراف کی راہیں بہت زیادہ ہیں اور کوئی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا ،جب تک مضبوطی سے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ جڑا رہے اور ظاہر وباطن میں اور سری و اعلانی اس کے سہارے کو تھام کر نہ رکھے ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ومَن یعتصم باللہ فقد ہُدِیَ إلی صراطٍ مستقیم
’’اور جس نے اللہ (کی ہدایت کی رسی)کو مضبوط پکڑ لیا وہ سیدھے راستے لگ گیا‘‘۔
چنانچہ اللہ وحدہ لاشریک کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے جو انسان کو فتنوں سے محفوظ رکھ سکے ۔۔۔
لاَ عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللّہِ إِلاَّ مَن رَّحِمَ
’’آج اللہ کے امر سے پناہ دینے والا کوئی نہیں سوائے جس پر اللہ رحم فرمائے‘‘۔
کوئی شخص اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک اللہ سبحانہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ آجائے اورہمیشہ اس کے احکامات اور حقوقِ عبودیت ادا کرتے ہوئے اس کی اور اس کے اولیا کی صف میں شامل رہے ۔یہ وہ شخص ہے جسے حقیقی نصرت و توفیق نصیب ہو ئی ہے ،جو اپنے انجام کے بارے میں مطمئن ہے اور جسے اپنی تجارت میں خسارے کا خدشہ نہیں ہے ۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ الْعَزِیزِ الْحَکِیمِ(آل عمران:۱۲۶)
’’اور مدد ہے صرف اللہ ہی کی طرف سے جو کہ زبردست ہے حکمت والا ‘‘۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ(الأنفال:۱۰)
’’اور مدد نہیں مگر اللہ کی طرف سے بے شک اللہ زور آور ہے حکمت والا‘‘۔
اسی طرح ارشادِ باری ہے:
وَمَا تَوْفِیقِی إِلَّا بِاللَّہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَإِلَیْہِ أُنِیبُ(ہود:۸۸)
’’مجھے تو فیق کاملنا اللہ ہی (کے فضل)سے ہے میں اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں‘‘۔
اور فرمایا :
إِنَّ الَّذِینَ یَتْلُونَ کِتَابَ اللَّہِ وَأَقَامُوا الصَّلَاۃَ وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً یَرْجُونَ تِجَارَۃً لَنْ تَبُورَ لِیُوَفِّیَہُمْ أُجُورَہُمْ وَیَزِیدَہُمْ مِنْ فَضْلِہِ إِنَّہُ غَفُورٌ شَکُورٌ(فاطر:۲۹،۳۰)
’’جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں وہ اس تجارت (کے فائدے) کے امیداوار ہیں جو کبھی تباہ نہیں ہوگی۔کیونکہ اللہ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی دے گا وہ تو بخشنے والا (اور) قدردان ہے ‘‘۔
محترم بھائی !ہمیں ہر وقت اس بات کے بارے میں متفکر رہنا چاہیے ۔۔۔ہمیں اس کا کیا فائدہ ہوگا کہ اگر ہم دشمن کو تباہ کرکے ،اس سے انتقام لے کر ،اس پر غلبہ حاصل کر کے ایک اسلامی ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور اس معرکے اور جنگ میں ہمارا اہم کردار ہو لیکن خدانخواستہ اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمارے ظاہری و باطنی گناہوں کی وجہ سے ہمارے سب اعمال ضائع کردیں اور انجامِ کار ہم جہنم میں داخل کردیے جائیں(العیاذ باللہ)۔
کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ہے :
’’بے شک اللہ سبحانہ تعالیٰ فاجر شخص سے بھی اس دین کی نصرت فرمائے گا‘‘۔
الغرض مختصر،اہم اور دائمی نصیحت اور وصیت یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے اندر، ظاہرو باطن میں ،کھلے اور چھپے ہر حال میں اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دین ،شریعت اور اس کے احکام پر کاربند رہیں ۔اسی طرح اپنے اہل وعیال ،ماتحت اورزیرِ اتباع لوگوں میں بھی اس کا اہتمام کریں ۔ہم صرف اللہ ہی کے لیے دیں اور اس کے لیے ہی روکیں ۔۔۔ہماری دوستی ، محبت و الفت صرف اللہ کے لیے ہو اور ہماری دشمنی ،غضب و عداوت بھی اسی کی وجہ سے ہو۔
محترم بھائی چند اہم امور جنھیں ہمیں اپنے اوپر واجب کر لینا چاہیے:
ہم سب کو اس کام پر بھرپور توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ ہم اپنے ساتھیوں اور افرادِ جماعت کے اندر فقہ ،صحیح علمِ نافع اور ثقافتِ اسلامیہ کی نشر و اشاعت کا اہتمام کریں ۔ اس مقصد کے لیے مدارس قائم کریں ،علومِ شرعیہ کے دورہ جات اور حلقہ جاتِ علم کا انعقاد کریں ۔طلبہ کو علمِ دین کے حصول کے لیے روانہ کریں تاکہ وہ مستقبل میں علما بن سکیں ۔ اسی طرح اپنی مساجد اور مراکز میں دروس کا اہتمام کریں ،کتابیں نشر کریں اور پڑھائی و تحصیلِ علم کا اہتمام کریں تاکہ ہمیں صالح اور مخلص اہلِ علم کا قرب حاصل ہو سکے ۔یہ ایک عمومی کام ہے۔بے شک علمِ نافع اور علما و متعلمین کی کثرت جماعت اور امت کا حفاظتی حصار ہوتے ہیں۔
اس کے بعد ہمارے لیے بالخصوص بحیثیت مجاہدین جس علم کا سیکھنا اور اپنے ساتھیوں اور افرادِ جماعت کو سکھانا انتہائی اہم اور فرض ہے وہ احکامِ جہاد(قتل و قتال ) کے احکام کہ کس کا قتل ہمارے لیے جائز ہے اور کس کا نہیں ،اسی طرح کس کا مال لینا ہمارے لیے جائز ہے اور کس کا نہیں۔۔۔ اسی طرح ہمارے لیے جہاد میں کس قسم کے تصرفات اور تعلقات جائز ہیں۔ہر مجاہد کو مجملاًان اصولوں کا علم ہو نا چاہیے پھر تفاصیل بعد میں علما سے پوچھ لی جائیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ عامۃ المجاہدین کے لیے تمام امور کی مکمل یا اکثر تفصیل حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا۔
بلاشبہ جہادی تحریک جوں جوں طویل ہوتی ہے اس میں ایسے لوگ آنا شروع ہوجاتے ہیں جو مکمل طور پر جہادی سانچے میں ڈھلے ہوئے نہیں ہوتے ۔چنانچہ اصلاح و تذکیر اور محاسبے و مراقبے کی ضرورت بڑھتی جاتی ہے ۔آج ہم جس مرحلے سے گزر رہے ہیں ،ہمیں مجاہدین کی طرف سے خطا اور تجاوزات کی کثرت نظر آتی ہے ،اس کا سبب مجاہدین کی صفوں میں ایسے افراد یا گروہوں کی شرکت ہے جن کی صحیح اسلامی بنیادوں پر تربیت نہیں ہوئی ہے یا ان میں جہالت اور اخلاقی فساد پایا جاتا ہے ۔اہلِ علم انھیں فجار سے تعبیر کرتے ہیں لیکن وہ جہاد کررہے ہیں۔ہمیں سب سے زیادہ اس بات کا خوف اور فکر ہونی چاہیے کہ تحریکِ جہا د انحراف وفساد یا ہلاکت کا شکار نہ ہوجائے ۔ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے سلامتی و عافیت کے خواست گار ہیں۔لیکن ضروری ہے کہ ہم اس معاملے پر خصوصی توجہ دیں اور اس کی تفصیلات پر بات کریں :وہ علم جس کی جزئیات کا سیکھنا اور اسے اپنے مجاہد ساتھیوں میں پھیلانا اور اس کی فقہ ،واضح بصیرت اور کامل التزام کو ان کے مابین یقینی بنانا ہمارے اوپر واجب ہے ،وہ خونِ مسلم کی حرمت و عظمت کا علم اور اس معاملے کی اہمیت و عظمت کو دلوں میں اجاگر کرنا ہے ۔مسلمان نفس کا قتل ‘اکبر الکبائر میں سے ہے اور ادلہ شرعیہ کی روشنی میں غالباً اللہ سبحانہ تعالیٰ کے ساتھ کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔کتاب و سنت میں اس بارے میں سخت ترین وعید وارد ہوئی ہے ۔جیسے اس میں مبتلا ہونے والاکبھی بھی فلاح نہیں پا سکتا ۔۔۔جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مومن اس وقت تک دین کے دائرے سے نہیں نکل سکتا جب تک حرام خون نہ بہائے‘‘۔(بخاری)
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تمام مجاہدین اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔کیوں کہ افغانستان کے قبائل اور اکثر علاقوں میں اسی طرح پاکستان کے قبائلی علاقہ جات میں قتل وانتقام کی ثقافت کا غلبہ ہے ۔۔۔اور دشمنی اور بدلے کے نام پر قتل اور خون بہانے کا رواج عام ہے جب کہ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر چلنے والے اہلِ دیانت اور حقیقی سچی توحید پر عمل کرنے والے لوگ کم ہیں ۔خلاصہ یہ کہ ہم پر لازم ہے کہ ہم نشرِ علم کے تمام وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مجاہدین کی صفوں میں عملی طور پر اس علم (یعنی خونِ مسلم اور مسلمان کے مال وعصمت کے تقدس کا علم )کو نشر کریں ۔اسی طرح بطورِ امیر یا مسؤل ہمارے اوپر واجب ہے کہ اپنے زیرِ دست لوگوں کے ہاتھوں کو روک کر رکھیں اور ان کا محاسبہ کریں ۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کے احکامات کا التزام کرتے ہوئے اس کی اطاعت میں مستقل مزاجی سے اپنے اوپر شریعت کو نافذ کریں اور جو کوئی اس کی مخالفت کرے اسے سزا بھی دیں ۔
اگر ہم نے ایسا نہ کیا اور اپنی اجتماعیت میں غفلت یا تساہل سے کام لیا یا ایک دوسرے کی رعائت کی یا امرانے اپنے مامورین کے محاسبے ،امر بالمعروف نہی عن المنکر اور اپنے متبعین کو اللہ کی شریعت اور اطاعت پر قائم رکھنے میں کمزوری دکھائی تو ہم یقینابری طرح ناکام ہو جائیں گے اور پھر ہمارا نجام ہلاکت ہی ہے (العیاذ باللہ)۔۔۔
اے اللہ ہم آپ سے آپ کی ناراضی سے پناہ میں آتے ہیں ۔میں آپ کو گواہی دیتا ہوں کہ میں ،میری قیادت اور میرے ساتھی ہر شریعت کی مخالفت کرنے والے فرد سے بری ہیں ۔ہم ہر اس اللہ کے ولی سے محبت رکھتے ہیں اور اس کے حمایتی اور قریب ہیں جو اللہ سبحانہ تعالیٰ کا مطیع و فرماں بردار ،ذاکر و شاکر اور اسی کی طرف رجوع کرنے والا ہو اور اسی طرح ہر اس شخص سے بغض اور دوری رکھتے ہیں جو اس کے متضاد ہو۔
اس سے ملتا جلتا دوسرا اہم امر جس پر ہمیں توجہ کی ضرورت ہے وہ استشہادی عملیات کی فقہ ‘جسے فقہا ئے کرام ’قاعدہ تترس ‘سے موسوم کرتے ہیں ‘اس کی حدود و قیود کو واضح کرنا ہے ۔ہم اپنے ساتھیوں کے سامنے اس کی تشریح کریں بالخصوص وہ ذمہ داران جو ان کارروائیوں کی منصوبہ بندی اور تنفیذ کرتے ہیں اور وہ فدائیین جو ‘ان عملیات میں شریک ہو تے ہیں ان پر ان مسائل کا واضح ہونا بہت ضروری ہے ۔بعض اوقات ہم دیکھتے ہیں کہ فدائی مجاہد اس حوالے سے لاپرواہ اور لاعلم ہوتے ہیں اور عوام کی کوئی پرواہ نہیں کرتے ۔بالخصوص ایسے کم سن فدائی جوعلم و معرفت سے نابلد ہوتے ہیں اور ان کی کوئی دینی تربیت نہیں ہوتی اور اس سے بھی بڑھ کر وہ خطرناک ہدایات ہوتی ہیں جو انہیں عین موقع پر دی جاتی ہیں جو العیاذ باللہ دین کے مخالف ہوتی ہیں۔جیسے مجاہدین میں سے بعض لوگ انہیں یہ پڑھا دیتے ہیں کہ ’’بازاروں میں پھرنے والے عوام چونکہ اہلِ حق اور مجاہدین کی نصرت نہیں کرتے اور طاغوت اور مرتدین کے ساتھ رہنے پر راضی ہیں اس لیے منافق ہیں۔چنانچہ ان میں سے جتنے بھی مارے جائیں فدائی پر اس کا کوئی وبال نہیں ہوگا اور نہ ہی ان کے خون کے بارے میں اس سے کوئی پوچھ ہو گی‘‘۔بلاشبہ یہ مطلقاً ایک عظیم خطا ، واضح گمراہی ہے اور ایک بڑے فساد کا پیش خیمہ بن سکتی ہے ۔
بے شک وہ مسلمان ممالک جہاں مرتد جکومتیں قائم ہیں وہاں کی عام آبادی ، ر سڑکوں اور بازاروں میں پھرنے والی عوام بالاصل اور مجموعی طور پر مسلمان ہیں۔پھر ان میں صالحین اور دیگر آپس میں ملے ہوئے ہیں، ان میں کچھ ایسے ہیں جو مرتد کافر ہیں اور ان کا خون حلال ہے ۔لیکن مسلمان ممالک میں بسنے والے عوام مجموعی طور پر مسلمان ہیں جو کتاب و سنت او ر مسلمانوں کے مشہور مذاہبِ اربعہ کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں اور یہ مسئلہ متعدد کتب اور ابحاث سے ثابت ہے ۔جوکوئی اس کے خلاف کہتا ہے تو وہ یقیناًغلو اور گمراہی کا شکار ہے اور اہلِ علم کی متفقہ رائے کا مخالف ہے ۔
مسلمان عوا م کے فسق و فجور،کمی و تقصیر یا جہاد کی نصرت سے پیچھے بیٹھ جانے کے باوجود اگر کوئی اوپر بیان کردہ وجوہات کی بنیاد پرجان بوجھ کر ان پر قتل کاحکم لگاتاہے اور اس زعم میں ہے کہ ان کے خون کے بارے میں اس سے کوئی بازپرس نہیں ہو گی تو وہ صریح گمراہی میں مبتلا ہے اور علم و فقہ کی حدود سے خارج ہے ۔ ایسا شخص حرام کا مرتکب ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ناراضی ،غضب اور پکڑ کو دعوت دے رہا ہے ۔وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ اس کو ناکام کرکے دشمن کو اس پر مسلط فرما دے ۔
محترم بھائی !اگر آپ کو اپنے مامور مجاہدین میں ایسے کسی معاملے سے واسطہ پڑے تو مجھے امید ہے آپ شرعی علمی طریقے سے اسے حل کریں گے۔بلاشبہ یہ ایک ذمہ داری ہے جسے فوراً ادا کرنا چاہیے ۔آپ کو چاہیے کہ فوراً ان کا ہاتھ روکیں ،نہیں تو میں آپ کو اس کے برے انجام اور مضر اثرات سے خبردار کرتا ہوں ۔فوراً اس کی اصلاح کا اہتمام کریں اور اس مسئلے کو اولین ترجیح بنائیں۔۔۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ آپ کے حالات کی اصلاح فرمائے اور آپ کی نصرت کرے ۔
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّہَ یَنصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ أَقْدَامَکُمْ
پھر دینی و دنیوی دونوں اعتبار سے دیکھا جائے تو کسی بھی سیاسی ،عوامی انقلابی تحریک کی کامیابی کیوں کر ممکن ہے کہ اس کی قیادت اور افراد ،عامۃ الناس (عوام، اکثریت اوراپنی قوم )کی ہمدردی اورحمایت حاصل کرنے اور انہیں اپنے ساتھ ملانے کی محنت نہ کریں ۔وہ کیسے اپنی تحریک کی کامیابی کی امید رکھ سکتے ہیں جب کہ لوگ ان سے متنفر ہو اور ہر آنے والے دن کے ساتھ ان سے دور ہوتے جارہے ہوں اور ان کی زبانِ حال کہہ رہی ہو
وجدناہم اخبُرْ تَقْلُہْ۔
کسی بھی فرد کا منصوبہ کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جب کہ لوگوں کی رائے اس کے بارے میں یہ ہو
إن ترید إلا أن تکون جبّاراً فی الأرضِ وما ترید أن تکون من المصلحین
’’تم چاہتے ہو کہ زمین میں ظلم و ستم کرتے پھرواور یہ نہیں چاہتے کہ نیکوکاروں میں ہو‘‘۔
روزبروز اس کے بارے میں یہ تاثر عام ہوتا جائے اور وہ خود بھی اپنے افعال سے اس کی تصدیق کرے اور اس کی غلطیوں کی اصلاح ہوتی ہوئی نظر نہ آئے نہ ہی اس کے اندر ،شفقت رحمت اور احسان کا کوئی مادہ پایا جائے!
جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو کے اکرم الخلق ہیں ،انہیں بھی اللہ سبحانہ تعالیٰ فرمارہے ہیں :
وَلَوْ کُنتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنفَضُّواْ مِنْ حَوْلِکَ
’’اور اگرآپ بدخو اورسخت دل ہوتے تو یہ آپ کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ‘‘۔
بہت ضروری ہے کہ قائدین جہاداپنے مامورین کو یہ سکھائیں ، ان کی اس نہج پرتربیت کریں اور اس سے پہلے اپنے اندر یہ صفت پیدا کریں کہ انہیں عامۃ الناس کے ساتھ مشفقانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ،عوام کے ساتھ رحمت اور آسانی والا معاملہ کرنا چاہیے۔قائدین اپنے ساتھیوں کی تربیت کریں کہ وہ عوام کو سزا دینے ،قتل کرنے یا ان سے انتقام لینے میں جلدی کرنے کی بجائے ان کی خطاؤں ،نقائص اور کوتاہیوں پر صبر کریں اور محبت اور رفق کے ساتھ بتدریج ان کی اصلاح کے لیے کوشاں رہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی کوئی مہم روانہ کرتے یا کسی کو کسی سریہ یا جیش کا امیر مقرر کرتے تو ہمیشہ یہ نصیحت کرتے جو متعدد احادیث میں وارد ہوئی ہے:
یسّروا ولا تعسّروا وبشّروا ولا تنفّروا
’’آسانیاں پیدا کرو،مشکلیں نہ بناو،خوش خبریاں سناواور نفرتیں مت پھیلاو‘‘
کیاکبھی ہم نے اس نصیحت میں تدبر کیا ہے اور اس کا صحیح فہم حاصل کر کے اس پر عمل کی کوشش کی ہے ؟
اگلا اہم معاملہ جو توجہ طلب ہے :ہم پر واجب ہے کہ ہم مجاہدین کی نگرانی کریں کہ ان کے اندر دین کے معاملے میں ہرگز غلو پیدا نہ ہو۔بالخصوص لوگوں پر کفر کاحکم لگانے(یعنی مسئلہ تکفیر)کے بارے میں!بے شک اس مسئلے میں غلو ایک عظیم مصیبت ہے۔یہ ان خبیث ترین امراض میں سے ہے جن میں مجاہدین کے مبتلا ہونے کا خدشہ ہوتا ہے ۔اس سلسلے میں کچھ مجرب باتیں عبرت والوں کے لیے ذکر کرتا ہوں۔غلو بالعموم ہر دین میں ایک مہلک اور خطیر مرض رہا ہے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إیاکم والغلوَّ فی الدین فإنما أہلک من کان قبلکم الغلوُّ فی الدین(رواہ أحمد والنسائی وغیرہما)
’’تم دین کے معاملے میں غلو سے بچو،بے شک تم سے پہلے والوں کو دین میں غلو کرنے ہی نے ہلاک کیا ‘‘۔
اور فرمایا:
’’ہلک المتنطعون‘‘قالہا ثلاثاً.(رواہ مسلم)
’’ہلاک ہو گئے غلو (بے جا شدت )کرنے والے اور اس کو تین دفعہ دہرایا‘‘۔
یہ ارشادات مطلق دین میں غلو کے بارے میں ہیں،جب کہ اگریہ غلو ’’مسلمانوں کی تکفیر‘‘کے مسئلے میں پیدا ہو جائے اور پھر اسے بہت ہلکا معاملہ سمجھ کر بے خطر اپنا لیا جائے تو یہ اس سے بھی کئی گنازیادہ مہلک اور تباہ کن ہوجاتا ہے ۔ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں کہ وہ ہمیں ،آپ کو یا ہمارے کسی بھائی کو اس میں مبتلا کرے ۔
اگر ہمیں پتہ چلے کہ بعض مجاہدین ،دیگر مجاہدین یا عوام کی بے دھڑک تکفیر کرنا شروع ہو گئے ہیں تو لازم ہے کہ ہم اس سے مکمل احتراز کریں اور اپنی پوری قوت سے مجاہدین کی اس مسئلے میں صحیح منہج پر تربیت کی کوشش کریں۔اس سلسلے میں میں نے کئی امور کا تجربہ کیا۔۔۔ ان میں سے ایک آزمودہ طریقہ آپ کے لیے بیان کرتا ہوں جو ان شاء اللہ نفع بخش ہو گا۔ہم اپنے بھائیوں کی تربیت اس انداز میں کریں کہ ان کی توجہ اپنے عیوب پر مرکوز رہے اور وہ اپنے نفس کی اصلاح اور تزکیہ میں اس قدر مشغول ہوں کہ ان کی نظر لوگوں کے عیوب کی طرف اٹھے ہی نہیں ۔ہم بھائیوں کی یوں تربیت کریں کہ وہ ہروقت اپنے دین کی سلامتی اور عافیت کے لیے دعا گو رہیں ،ان کے دلوں میں بغیر علم دینی معاملے میں حکم لگانے کا خطرہ واضح ہو جائے ،اس میں سے اہم ترین یہ کہ بغیر ضروری علم کے کسی مسلمان کی تکفیر کا حکم لگایا جائے ،بھائیوں کو یہ بات سکھائی جائے کہ یہ مسئلہ ایسے اہلِ علم فقہا کے سپرد کرنا چاہیے جن کی دیانت اور ورع معلوم ہو۔غیر عالم عوا م کو ان مسائل میں پڑنے سے مطلقاً روکا جائے ۔امرا کی ذمہ داری ہے کہ اگر وہ عام مجاہدین میں سے کسی کو اپنے اجتہاد سے عوام میں سے فلاں فلاں کی تکفیر پر کلام کرتا ہوا سنیں تو اس کو سختی سے منع کریں ۔اگر ہم ان بنیادوں پر کام کریں تو ان شاء اللہ پھر کامیابی یقینی ہے ۔
مجاہدین کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس حدیث کے معنی سمجھائیں :
طوبی لمن شغلہ عیبُہُ عن عیوب الناس
’’خوش خبری ہے اس شخص کے لیے جس کے اپنے عیوب کی مشغولیت نے اسے دوسروں کے عیب ٹٹولنے سے باز رکھا‘‘۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
المسلمُ من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ(رواہ البخاری و مسلم)
’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں‘‘۔
اسی طرح یہ حدیثِ نبوی:
المجاہد من جاہد نفسہ فی ذات اللہ
’’مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کو اللہ کے لیے فنا کردے‘‘
والمہاجر من ہجر ما نہی اللہ عنہ
اور مہاجر وہ ہے جو اس چیز کو ترک کردے جس سے اللہ سبحانہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہو‘‘۔
اسی طرح حضرت معاذ بن انس الجہنی رضی اللہ عنہ کی روایت جس میں وہ بیان فرماتے ہیں:
غزوتُ مع نبیّ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۃَ کذا وکذا فضیق الناسُ المنازلَ وقطعوا الطریقَ، فبعث نبیُّ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منادیاً ینادی فی الناس أنَّ مَنْ ضیّقَ منزلاً أو قَطَعَ طریقا فلا جہادَ لہ. رواہ أبو داود وأحمد وغیرہما، وورد فی بعض ألفاظ ہذا الحدیث فی بعض المصادر ۔۔۔أو أذی مؤمناً فلا جہادَ لہ
’’میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوے میں گیا(پھر غزوے کی روداد بیان کی اور فرمایا)لوگ غزوے کے دوران لوٹ مار کرتے اور دوسروں کو پریشان کرتے رہے ،تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی بھیجا جس نے لوگوں میں آکر اعلان کیا کہ جس نے لوٹ مار کی یا منزل کو تنگ کیا اس کاکوئی جہاد نہیں،بعض روایات میں یہ الفاظ ہیں ’’یا مومن کو اذیت دی تو اس کا کوئی جہاد نہیں‘‘۔
اسی طرح مجاہدین کے قائدین پر واجب ہے کہ وہ اپنی اور اپنے مامورین کے نفوس کی ان تمام روحانی بیماریوں سے حفاظت کے لیے بھرپور اور انتھک محنت کریں جس میں ان کے مبتلا ہونے کا خدشہ ہے ۔ان بیماریوں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، ان میں سے چند ایک :عُجب ،غرور،کِبر،لوگوں سے خود کو اعلیٰ سمجھتے ہوئے ان پر ظلم کرنا ہیں ۔بے شک یہ تمام امراض ایمان کے لیے مفسد اور انسان کے لیے ہلاکت کا موجب ہیں ۔(العیاذ باللہ)
اس کا سبب یہ ہے کہ اگر مجاہد تزکیہ نفس کے علوم اور معارف نافعہ سے مسلح نہ ہوتو اس راستے کی طوالت اور وحشت ، فتح ،قوت اور غلبہ اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی طرف سے ملنے والے طعنے جو امت کے بیٹو ں کو اس کی معاونت سے پیچھے رکھتے ہیں اور پھر جہاد کے راستے میں پیش آنے واالی لگاتار لڑائیاں اور مزاحمتیں ۔۔۔یہ سب عوامل مجاہد کے ان امراض میں مبتلا ہونے کا خدشہ پیدا کر دیتی ہیں اور مجاہد کی غربت اور وسائل کی کمی کی وجہ سے شیطان کے لیے مجاہد کو ان بیماریوں میں مبتلا کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔یوں مجاہد ایک عظیم شر کا شکار ہو جاتا ہے اور شیطان اس کے جہاد کو فاسد کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبردار فرمایا ہے کہ شیطان ،ابنِ آدم کے لیے اللہ کی راہ میں ہر موڑ پر گھات لگا کر بیٹھتا ہے تاکہ اس کے دین ،ہجرت اور جہاد کو تباہ کرسکے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمانِ مبارک ہے:
’’شیطان ابن آدم کو گمراہ کرنے کے لیے مختلف راستوں میں بیٹھا ہوتا ہے ، پہلے اسلام کے راستے میں بیٹھتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ کیا تواسلام قبول کر کے اپنا اور اپنے آباؤاجداد کا دین ترک کردے گا وہ اس کی نافرمانی کر کے اسلام قبول کر لیتا ہے۔تو شیطان ہجرت کے راستے میں آ کر بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ تو ہجرت کر کے اپنے زمین اور آسمان کو چھوڑ کر چلا جائے گا مہاجر کی مثال تولمبائی میں گھوڑے جیسی ہے وہ پھر اس کی نافرمانی کر کے ہجرت کر جاتا ہے۔پھر شیطان جہاد کے راستے میں بیٹھ جاتا ہے اور اس سے کہتا ہے کہ اس سے جان و مال دونوں کو خطرہ ہے تو لڑائی میں شرکت کرتا ہے اور مارا جائے گا تیری بیوی سے کوئی اور نکاح کر لے گااور تیرے مال کا بٹوارہ ہو جائے گا لیکن وہ اس کی نافرمانی کر کے جہاد کے لیے چلا جاتا ہے‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مزیدفرمایا:
’’جو شخص یہ کام کر کے فوت ہو جائے تو اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے اگروہ شہید ہو جائے یا سمندر میں ڈوب جائے یا جانور سے گر کر فوت ہو جائے تب بھی اللہ کے ذمہ حق ہے کہ اس کو جنت میں داخل کرے‘‘۔(احمد،نسائی)
اس کاسبب جیسے میں نے پہلے بیان کیا تفقہ فی الدین کی قلت ہے ،چنانچہ علاج بھی تفقہ الدین ،صحیح اسلامی علوم کے حصول اور تربیت اور تزکیہ نفس کا اہتمام ہے ، اس کے ساتھ ایسے امین و صالح،اہلِ ورع امرا کاتقرر جو معتدل مزاج و اخلاق کے حامل ہوں،صبر و درگزر اور قربانی کے ایسے پیکر کہ خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے سب کچھ قربان کریں اور کسی اور سے کسی جزایا بدلے کے طلب گار نہ ہوں،اپنے لوگوں کے ساتھ شفقت کا معاملہ رکھنے والے جو مخلوق پر اس لیے رحم کرتے ہیں کہ الرحمن ان پر رحم فرمائے گا۔اللہ سبحانہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِیْنَ آمَنُوا بِاللَّہِ وَرَسُولِہِ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوا وَ جَاہَدُوا بِأَمْوَالِہِمْ وَأَنفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللَّہِ أُوْلَءِکَ ہُمُ الصَّادِقُونOقُلْ أَتُعَلِّمُونَ اللَّہَ بِدِیْنِکُمْ وَاللَّہُ یَعْلَمُ مَا فِیْ السَّمَاوَاتِ وَمَا فِیْ الْأَرْضِ وَاللَّہُ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ O یَمُنُّونَ عَلَیْْکَ أَنْ أَسْلَمُوا قُل لَّا تَمُنُّوا عَلَیَّ إِسْلَامَکُم بَلِ اللَّہُ یَمُنُّ عَلَیْْکُمْ أَنْ ہَدَاکُمْ لِلْإِیْمَانِ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْنَ Oإِنَّ اللَّہَ یَعْلَمُ غَیْْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحجرات:۱۵۔۱۸)
’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑے یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں۔ان سے کہو کیا تم اللہ کو اپنی دین داری جتلاتے ہو؟ اور اللہ تو آسمانوں اور زمین کی سب چیزوں سے واقف ہے اور اللہ ہر شے کو جانتا ہے ۔یہ لوگ تم پر احسان رکھتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے ہیں ،کہہ دو کہ اپنے مسلمان ہونے کا مجھ پر احسان نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کا راستہ دکھایا بشرطیکہ تم سچے (مسلمان)ہو ۔بے شک اللہ آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے دیکھتا ہے ‘‘۔
ان آیاتِ کریمہ میں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے اس صفت کو مختص فرمایا ہے کہ وہ ایمان لا کر اس کے بارے میں کسی شک میں نہیں پڑتے اور اپنے اموال اور جانوں کی قربانی سے اللہ وحدہ لاشریک کے راستے میں جہاد کرتے ہیں۔پھر اعراب کے اس گروہ کو مخاطب کر کے تنبیہ و سرزنش فرمائی ہے جو ایمان کے دعوے دار تھے اور ایمان لا کر جتلا رہے تھے جب کہ مندرجہ بالا ایمانی صفات سے متصف بھی نہیں تھے۔اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان جتلانے پر ان کی سرزنش فرمائی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ انہیں کہیں کہ اپنے اسلام کا احسان نہ جتلائیں اور انہیں خبردار کریں کہ ہدایت کا مل جانا صرف اللہ وحدہ لاشریک کا فضل و احسان ہے ۔سچے اہلِ ایمان کی صفات بیان کرنے کے بعد ایمان کے دعوے اور اس پر گھمنڈ کے عیب پر سرزنش فرمانا، اہلِ ایمان کو اس بیماری کے خطرے سے خبردار کرنا ہے ۔(واللہ اعلم)۔۔۔اسی طرح مجاہدین کی قیادت کو چاہیے کہ وہ قول و فعل کے تمام دستیاب شرعی وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مجاہدین کی صفوں کو مضبوط کرنے اور ان کے مابین محبت و عاطفت کو بڑھانے کے لیے بھرپور محنت کریں ۔مجاہدین کے باہمی تعلق کو ایسا بنا دیں جیسا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’مسلمان آپس میں پیار ومحبت ،رحم وشفقت اور مہربانی برتنے میں ایک جسم کی مثال رکھتے ہیں کہ جسم کا ایک عضو بیمار پڑ جائے تو سارا جسم اضطراب اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے‘‘۔ (بخاری و مسلم)
اسی طرح اللہ سبحانہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِہِ صَفّاً کَأَنَّہُم بُنیَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:۴)
’’اللہ محبت کرتا ہے ان لوگوں کو جو لڑتے ہیں اس کی راہ میں قطار باندھ کر گویا وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘۔
یہ بات اللہ سبحانہ تعالیٰ کو محبوب اور اس کی رضا کا باعث ہے اور اللہ سبحانہ تعالیٰ نے اس کا حکم فرمایا ہے اس لیے ہمیں چاہیے کہ اس کے حصول کے لیے بھرپور کوشش کریں۔ اس کی عملی شکل یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے درمیان محبت کو بڑھانے والے اسباب کی بھرپور ترویج کی جائے اور اس کے برعکس باہم اختلاف،دوری و رنجش یا بغض و عداوت پیدا کرنے والے امور کا تدارک کیا جائے ۔شریعتِ مطہرہ نے بہت تفصیل کے ساتھ باہم محبت کے اسباب ، ان کے فضائل اور آپس میں دوری و رنجش اور بغض و عداوت کے اسباب کے خطرات کو بیان کیا ہے ۔۔۔یہ پاکیزہ ربانی شریعتِ اسلامیہ کے محاسن میں سے ہے ۔اس کی تفصیل بہت طویل ہے ،اس کے لیے سلوک واخلاق اور فضائل پر اہلِ علم کی کتب ، کتبِ احادیث اور ان کی شروحات کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بدگمانی سے اپنے آپ کو بچاؤ کہ بدگمانی بڑی جھوٹی بات ہے اور دوسرے کے عیوب کی تلاش میں نہ رہا کرواور جاسوسی نہ کیا کرواور نہ دوسروں سے بڑھنے چڑھنے کی ہوس کیا کرو۔نہ باہم حسد کیا کرو ، نہ بغض رکھا کرو ، نہ ایک دوسرے سے پیٹھ پھیر کر چلو ، بلکہ سب ایک اللہ کے بندے اور بھائی بھائی بنے رہو جیسا کہ اس نے حکم فرمایا ہے ،ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے ،نہ اس کو بے یارومددگار چھوڑے ، نہ اس کو حقیر سمجھے ۔ پھر سینہ کی طرف اشارہ کرکے فرماتے تھے :تقویٰ اس جگہ ہے ، تقویٰ اس جگہ ہے۔۔۔برائی کے لیے انسان کو اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ،مسلمان کاسب کا سب دوسرے مسلمان پر حرام ہے ،خون ہو یا آبرو یا مال‘‘۔ (مالک ،بخاری ،مسلم ابوداود،ترمذی )۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ یہ ان اہم ترین امور میں سے ایک ہے جس کا مجاہدین کی قیادت کو بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے ۔میرے خیال میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اگر میں یہاں اس حوالے سے مجاہدین میں پائی جانے والی چند خطاوں کا تذکرہ کردوں جن کا میں نے خود مشاہدہ کیا ، تاکہ تنبیہ کا صحیح حق ادا ہوجائے اور ہمارے عمل میں بہتری آجائے کیوں کہ علم تو عمل کی خاطر ہی حاصل کیا جاتا ہے ۔
بعض امرااپنے ماتحتوں یا ساتھیوں کو دوسرے امرایا مجاہدین کا مذاق اڑاتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن انہیں منع نہیں کرتے بلکہ کئی دفعہ دوسرے امیر سے کسی رنجش یا اس سے مسابقت کی خاطر اپنے ساتھیوں کو اور تھپکی دے دیتے ہیں ۔یہ انسان کی ایسی بیماری ہے کہ اس کا علاج اس کا اپنا نفس ہی کر سکتا ہے ۔بڑے امرا کو چاہیے کہ اس معاملے میں اپنے نائبین اور ساتھیوں کی نگرانی کریں اور ان کے علاج و اصلاح اور تادیب کا انتظام کریں ۔امیرکے لیے واجب ہے کہ جب وہ اپنے ساتھیوں میں سے کسی کو دوسرے مجاہدین یا امراکے بارے میں بات کرتے ہوئے سنے تو فوراً اس کو منع کرے ،ساتھیوں کو غیبت ،چغلی یا کسی مسلمان کی آبرو پر انگلی اٹھانے سمیت زبان کی تمام آفات اور ان کے مضرات سے خبردار کرے اور کوئی امیر اس وقت تک یہ کام نہیں کرسکتا جب تک اسے دین میں تفقہ حاصل نہ ہو اور وہ عارف باللہ ،متقی اور مخلص نہ ہو۔
مجاہدین کے مجموعات اور گروپوں میں یہ مرض بہت کثرت سے پایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مجموعے ، امرا اور کارروائیوں کی مدح میں مصروف رہتے ہیں اور اس پر فخر کرتے رہتے ہیں اور دوسرے گروپوں پر یوں طعن کرتے ہیں:وہ تو بالکل فارغ ہیں ،ان کے پاس کوئی کام نہیں ہے اور ہم بہت مصروف ہیں اور ہم نے فلاں فلاں بڑی کارروائیاں کی ہیں۔ یہ رویہ بہت سی قلبی بیماریوں کی گواہی دیتا ہے ۔اللہ سبحانہ تعالیٰ ہمیں سلامتی و عافیت عطا کرے ،ذمہ داران کو چاہیے کہ وہ تواضع ، اخلاص اور سوئے خاتمہ کے خوف جیسے اخلاق کی تعلیم و تذکیر کے ذریعے اپنے ساتھیوں کی اصلاح کی کوشش کریں۔حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
بدگمانی ، آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ یہ مرض مجاہدین کے مابین کس قدر کثرت سے پایا جاتا ہے ۔ایک دوسرے کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانا اور تہمت لگانا ، فلاں یہ کرنا چاہتا ہے ،فلاں نے یہ کام دنیاوی شہرت ،غلبے یا جاہ کے لیے کیا ہے یا کوئی کسی پر الزام لگاتا ہے کہ وہ ایجنسی کا ایجنٹ ہے وغیرہ وغیرہ۔۔۔یہ بہت خطرناک روش ہے ۔ امرا کو چاہیے کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے بارے میں حسنِ ظن رکھنے کے معاملے میں اپنے ساتھیوں کے لیے نمونہ بنیں اور اپنے ماتحت لوگوں کو اس عالی اسلامی اخلاق کی تعلیم دیں۔
ہم اللہ سبحانہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اور آپ کو ایمانِ کامل اور عملِ صالح کی توفیق عطا فرمائے۔ہماری ہجرت و جہاد کی حفاظت فرمائے اور اپنے فضل و کرم اور احسان سے انہیں تکمیل تک پہنچائے ۔بے شک وہ فضل و کرم کرنے والا ولی ہے جس کے سوا کوئی الٰہ اور رب نہیں ہے ۔
والحمد للہ رب العالمین ، وصلی اللہ علی محمدٍ وآلہ وصحبہ أجمعین.
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ذو الحجۃ ۱۴۳۱ھ
*****
اردو ترجمہ بشکریہ نوائے افغان
شمارہ اگست،ستمبر،اکتوبر ۲۰۱۴
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں