جمعہ، 27 فروری، 2015

شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کا شام کے تنازعہ پردولتِ اسلامیہ عراق اور جبھۃ النصرہ کے درمیان فیصلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کا
شام کے تنازعہ پردولتِ اسلامیہ عراق اور جبھۃ النصرہ کے درمیان فیصلہ


الحمدللہ الذی نصرہ عبدہ و اعز جندہ و ھزم الاحزاب وحدہ، والصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ، و آلہ و صحبہ حملۃ الاسلام و جندہ،


محترم بھائی / فضیلۃ الشیخ ابو بکر بغدادی حسینی، اور ان کی شوریٰ دولتِ اسلامیہ عراق کے بھائیو حفظہم اللہ
محترم بھائی / فضیلۃ الشیخ ابو محمدجولانی، اور جبھۃ النصرہ برائےاہلِ شام کی شوریٰ کے بھائیو حفظہم اللہ

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ،

میں امید رکھتا ہوں کہ آپ اور آپکے ساتھی بھائی بہترین حال میں ہوں گے، اوردعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو اس بات پر جمع فرمائیں جو ذاتِ باری تعالیٰ کو محبوب ہو، اور جس سے دنیا کی بھلائی بھی نصیب ہو اور آخرت میں بھی کامیاب ہوں، بعدازاں،

(۱)
تمام اہل ِ جہاد کی(اس وقت) حوصلہ شکنی ہوئی جب تنازعہ (شام میں) وقوع پذیر ہوا اور ذرائعِ ابلاغ پر اس کی نشرواشاعت ہوئی اور جو ہمارے محبوب بھائیوں دولتِ اسلامیہ عراق اور جبھۃ النصرہ برائے اہل شام کے مابین برپا ہوا۔

(۲)
ہمیں نہ ہی اس معاملہ پر آگاہی دی گئی اور نہ ہی ہم سے نصیحت (مشورے)کے لیےپوچھا گیا، اور نہ ہی ہمیں دونوں جماعتوں کے درمیان ہونے والے تنازعہ سے آگاہ کیا گیا۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ ہم نے اس معاملہ کو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سنا۔

(۳)
ابتداً، میں تمام مجاہدین اور مسلمانوں کو یاد دلانا چاہوں گا کہ دولتِ اسلامیہ عراق نے صلیبی حملے کی سازش کو ناکام بنانے میں ایک بہت اہم کردار ادا کیا ہے، جو مسلمانوں کی سرزمین کے قلب میں قابض ہو کر عالمِ اسلام کو تقسیم کرنا چاہتے تھے، او ر جو اس معتدی صفوی رافضی منصوبے کو پھیلا کرعراق، شام اور جزیرۂ عرب تک توسیع دینے کا ارادہ رکھتے تھے۔

اسی طرح ہمیں اپنے دولتِ اسلامیہ عراق کے بھائیوں کےفضل کا بھی اعتراف کرتے ہیں، اور ان میں سب سے اوپر ان کے امیر شیخ ابو بکر بغدادی کا فضل کا اعتراف، جنہوں نے اپنےاموال کے ایثار اور بہترین رجال(مجاہدین) کے ذریعے جہادِ شام کی مدد کی،جب وہ شدت سے اس ظلم کو برداشت کر رہے تھے ، بلکہ ہم نے اس بات کو سراہا جب ہمارے احباب اور جبھۃ النصرہ کے بھائیوں نے شیخ ابو بکر بغدادی کی تعریف کی، اور (ابوبکربغدادی) کے ساتھی بھائیوں نے جبھۃ النصرہ اور انکے امیر شیخ ابو محمد جولانی کی تعریف کی۔

(۴)
میں تمام مجاہدین اور مسلمانوں کو یہ بھی یاد دلاتا ہوں کہ جبھۃ النصرہ میں ہمارے بھائیوں کا بھی اہل شام پر فضل ہے جنہوں نے رباط و جہاد کی سرزمین شام میں فریضہ جہاد کا احیاء کیا اور امت کی اس امید کو زندہ کیا کہ وہ بیتِ المقدس کو آزاد کروائیں گے اورمستقبل قریب میں، باذن اللہ، خلافتِ راشدہ کا قیام کریں گے۔ ہم ان کی بھی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نےلادینی صفوی باطنی رافضی حملے کا محبوب شام کے اسلامی محاذوں سے دفاع کیا۔ہم جبھۃ النصرہ کی طرف سے بھی دولتِ اسلامیہ عراق کے بھائیوں کو دی گئی مدد و نصرت و تائید کے بھی معترف ہیں اور اس کا تذکرہ بھی ضروری سمجھتے ہیں۔

(۵)
جب ان دو مجاہد،مرابط، فاضل گروہوں میں تنازعہ ظاہر ہوا، تو اس مسئلہ کو حل کروانے کے لیے میں نے جمادی الثانی ۱۴۳۴ھ کی پہلی تاریخ کو دونوں فاضل شیوخ ابو بکر بغدادی حسینی اور ابو محمد جولانی کو پیغام بھیجا کہ وہ اس تنازعہ کو واپس اسی جمود کی طرف لے جائیں، جودونوں گروہوں کےتنازعہ سے قبل حالت تھی ۔

(۶)
مجھے دونوں جانب سے خطوط موصول ہوئے اور اس کے علاوہ بھی دوسری اطراف سے بھی پیغامات پہنچے۔ میں نے اس پس منظر میں خراسان میں اپنے بھائیوں اور (خراسان سے) باہر بھائیوں سے مشورہ کیا، اور اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ سے بھی استخارہ کیا، تاکہ وہ مجھے اپنے ضعف کے پیش نظراس فتنہ کی وجہ سے لگی آگ کو بجھانے میں مدد فرمائیں، جو ان شریف محترم گروہوں کی درمیان واقع ہوا، میں اس معاملہ پر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد اس امر(حکم) تک پہنچا ہوں، جو آگے بیان ہو رہا ہے:

(ا)
شیخ ابو بکر بغدادی حسینی نے اعلان دولتِ اسلامیہ عراق و شام کر کے غلطی کی، جس میں انہوں نے نہ ہی ہم سے اجازت لی یا ہم سے مشورہ طلب کیا، بلکہ یہ کام ہمارے علم میں لائے بغیر کیا گیا۔
(ب)
شیخ ابو محمد جولانی نے دولتِ اسلامیہ عراق و شام کےاعلان کو مسترد کرتے ہوئے القاعدہ کے ساتھ اپنے تعلق کا اظہار کرتے ہوئے غلطی کی، جس میں نہ ہی ہم سے اجازت لی گئی یا ہم سے مشورہ طلب کیا گیا، بلکہ یہ کام ہمارے علم میں لائے بغیر کیا گیا۔
(ج)
دولتِ اسلامیہ عراق و شام کو منسوخ کیا جاتا ہے، اور دولتِ اسلامیہ عراق کے نام سے (جہادی) عمل کو جاری رکھنے کی ہدایت کی جاتی ہے۔
(د)
جبھۃ النصرہ برائے اہل شام جماعت القاعدۃ الجہاد کی خودمختار فروع (شاخ) ہے جو قیادتِ عامہ کے تابع ہوگی۔
(ھ)
دولتِ اسلامیہ عراق کے کام کرنے کا علاقہ (ولایت) عراق ہے۔
(و)
جبھۃ النصرہ برائے اہل شام کے کام کرنے کا علاقہ(ولایت) شام ہے۔
(ز)
شیخ ابو بکر بغدادی حسینی کو دولتِ اسلامیہ عراق کے امیر کی حیثیت سے اس فیصلے کی تاریخ کے اجراء کے بعد ایک سال کی مدت تک کے لیے منظور کیا جاتا ہے، جس کے بعد دولتِ اسلامیہ عراق کی مجلسِ شوریٰ جماعت قاعدۃ الجہاد کی قیادتِ عامہ کو جہاد ی عمل سے متعلق باضابطہ بیان بھیجے گی، جس کے بعد قیادتِ عامہ فیصلہ کرےگی کہ ابو بکر بغدادی کی امارت بطور امیر بحال رکھی جائے یا نئے امیر کا انتخاب کیا جائے۔
(ح)
شیخ ابو محمد جولانی کو جبھۃ النصرہ برائے اہل شام کے امیر کی حیثیت سے اس فیصلے کی تاریخ کے اجراء کے بعد ایک سال کی مدت تک کے لیے منظور کیا جاتا ہے، جس کے بعد جبھۃ النصرہ برائے اہل شام جماعت قاعدۃ الجہاد کی قیادتِ عامہ کو جہادی عمل سے متعلق باضابطہ بیان بھیجے گی، جس کے بعد قیادتِ عامہ فیصلہ کرے گی کہ ابو محمد جولانی کی امارت بطور امیر بحال رکھی جائے یا نئے امیر کا انتخاب کیا جائے۔
(ط)
دولتِ اسلامیہ عراق جبھۃ النصرہ برائے اہل شام کو اپنی استطاعت کے بقدر وسائل مہیا کرے گی، جو بھی جبھۃ النصرہ برائے اہل شام نفری، اسلحہ، مال،پناہ گاہوں اور حفاظتی امور سے متعلق طلب کرے گی۔
(ی)
جبھۃ النصرہ برائے اہل شام دولتِ اسلامیہ عراق کو اپنی استطاعت کے بقدر وسائل مہیا کرے گی، جو بھی دولتِ اسلامیہ عراق نفری، اسلحہ، پناہ گاہوں اور حفاظتی امور سے متعلق طلب کرے گی۔
(ک)
دونوں فریق ایک دوسرے پر قول اور فعل کے ذریعے حد سے متجاوز ہونے کو روک دیں گے۔
(ل)
دونوں فریقین اور تمام مجاہدین حرمتِ مسلم سے متعلق ان کی جان، عزت اور اموال کا پاس رکھیں گے، اور کوئی بھی فریق کسی بھی دوسرے مسلمان یا مجاہد پر ظلم نہیں کرے گا، سوائے جبکہ شرعی فیصلہ کے ذریعے اس کا حکم صادر ہو، اور اس کی تفصیل کی وضاحت نیچے ہے۔
(م)
ایک مسلمان (کا خون) دوسرے مسلمان پر حرام ہے،اسی لیے وہ شخص (اسلام سے) خارج نہیں ہوتا جو ایک جہادی جماعت سے دوسری جہادی جماعت یا دیگر جماعت میں چلا جائے، بلکہ اس کی حرمت بطور مسلمان اور مجاہد بحال رہتی ہے، حتی کہ اگر وہ دوسری جماعت میں جا نے پر خطا پر ہی کیوں نہ ہو۔
(ن)
جو کوئی بھی دوسرے مسلمان اور مجاہد بھائیوں کے خون کی حرمت کی پامالی کرے گا، جماعت اس سے متعلق امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے تحت سخت موقف اختیار کرے گی۔
(س)
فضیلۃ الشیخ ابو خالد السوری وہ بہترین شخص ہیں جن کے بارے میں ہم معرفت اور خبر رکھتے ہیں اور وہ مجاہدین کے درمیان رہے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ کے آگے کسی کی بڑائی بیان نہیں کرتے، وہ ہمارے شام میں مندرجہ ذیل امور میں نمائندے ہیں:
اول:
اس حکم نامہ کی تفسیر(تاویل) میں پیدا ہونے والے کسی بھی خلاف کو وہ حل کریں گے۔
دوم:
اگری کوئی فریق دوسرے فریق پر ظلم و زیادتی کرے، تو میں ان کو اس بات کا مکلف کرتا ہوں کہ وہ اُس تنازعے کے حل کے لیے شرعی عدالت کا قیام کریں۔
(ع)
جماعت قاعدۃ الجہاد کے بھائیوں پر لازم ہے اور اسی طرح میں تمام مسلمانوں اور مجاہدین سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اس تنازعہ کے اوپر جھگڑے کو روک لیجیے، اور مجاہدین کے درمیان تفرقہ مت ڈالیں، اور محبت و الفت اور تالیفِ قلب کی کوشش کریں اور مسلمانوں اور مجاہدین کی صفوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کریں۔

اور ان دونوں محترم مجاہدین گروہوں کے قدر وفضل کو جانیں اور ان دونوں کا ذکرخیر کے علاوہ نہ کریں۔

(۷)
اس فیصلے کے نسخہ کو مندرجہ ذیل تک بھیجا جاتا ہے:

(ا) دولتِ اسلامیہ عراق
(۲) جبھۃ النصرہ برائے اہل شام
(۳) فضیلۃ الشیخ ابو خالد السوری

إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ (ھود: ۸۸)
] میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں[

آپ کا بھائی،
ایمن الظواہری
۱۳ رجب، ۱۴۳۴ھ

مصدر:
مرکز الفجر للاعلام

عربی متن:
https://s3.amazonaws.com/s3.documentcloud.org/documents/710586/ayman-zawahiri.pdf

ترجمہ (انگریزی):
http://s3.documentcloud.org/documents/710588/translation-of-ayman-al-zawahiris-letter.pdf

ترکی فوج خلیفہ کی نگہداشت میں!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
ترکی فوج خلیفہ کی نگہداشت میں!


اس واقعہ نے ان لوگوں(دولۃ) کی غلطیوں کو بہت سے لوگوں پر ظاہر کر دیا ہے، سبحان اللہ!

اس واقعہ نے ان کے شرعی حضرات(دینی طالب علم) کے جھوٹ کو سب کے سامنے ظاہر کر دیا ہے۔ وہ کہتے تھے کہ اس مزار میں قبر نہیں ہے، اور یہ کہ بغدادی نے وہاں ایک وفد بھیجا تھا اور انہوں وہاں کسی قبر کو نہ پایا۔ یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ یہ جو تکفیر کر تے ہیں یہ صرف اور صرف ’سیاسی تکفیر‘ ہے یعنی یہ ہر اس کی تکفیر کرتے ہیں جو اِن کی مخالفت کرے تاکہ ان کا خون بہانے کو جائز قرار دیا جائے، نہ کہ اس کی بنیاد دین کی نصرت ہے۔ انہوں نے دیگر جماعتوں اور ان کی افواج پر اس کے کم معاملہ پر تکفیر کا حکم لگایا۔ ان جماعتوں کی تکفیر سے ان کا مقصد ان کے ساتھ جنگ کو جائز کرنا اور اس کے ذریعے حکومت اور غلبہ حاصل کرنا تھا۔



اس واقعہ کے بعد وہ کہتے ہیں کہ دولۃ کےپاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ ترکی فوج سے لڑتے۔ اس معاملہ پر غیر جانبدار رہنا چاہیے اگرچہ اس سے دین اور توحیدپر سمجھوتا ہوتا ہے ۔ اوریہاں پر بھی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ اللہ کے دین کے ساتھ کھیلتے ہیں، اور دین کو اپنی خواہشات کے موافق بناتے ہیں۔

تم نے ترکی سے قوت سے بڑھ کر ممالک کو شام میں داخل ہونے کا سبب فراہم کیا، اور اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی جب مشائخ اور علماء یہ بات کہہ رہے تھے کہ ان ممالک کو غیر جانبدار سمجھا جائے۔ تم نے اس کے جواب میں کہا کہ یہ گمراہ ہیں اور صلیبیوں سےڈرتےہیں۔

کیا تم نے امریکہ کو اس جنگ میں داخل نہ کیا جب تم نے اس کے شہریوں کو ذبح کیا؟
اور یہ تمہاری زمینوں پر کوئی بھی شرک پر مبنی قبر بھی نہیں رکھتے؟
کیا تم نےمصر کےغریب قطبی (عیسائی) شہریوں کو قتل کر کے مصر کو لیبیا کی جنگ میں نہیں کھینچا ؟
تمہارا اس سے مقصود یہ تھا کہ یہ کہا جائے: کہ امریکہ اور اسکے اتحادی تمہاری دولۃ کے خلاف جمع ہو ئے ہیں، اور تم اس پر فخر کر سکو۔ تم نے مسلمانوں کی کسی بھی مصلحت کا نہ سوچا کہ اس سے اس مسلمانوں پر طیارے بمباری کریں گے اور تنازعہ کا دائرہ وسیع ہو جائے گا۔

کل تم کہتے تھے کہ ہم نے سایکس پیکو حدود کو ختم کر دیا ہے، اور یہی وہ حجت تھی جب کے سبب بغدادی نے اپنے امیر شیخ الظواہری کے حکم کا انکار کیا، لیکن آج اسی سایکس پیکو حدود کو عذر بناتے ہوئے تم اس شرک پر مبنی قبر کے معاملہ کی حمایت کر رہے ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری پکڑ کریں!



کیا شیخ ایمن کے سایکس پیکو پر مبنی حکم اس بات کا زیادہ مستحق نہیں تھا کہ اس پر عمل کر لیا جاتا ، اس بات کی نسبت کہ ایک شرک پر مبنی قبر کے معاملہ پر یہی سایکس پیکو حدود کی حمایت کو قبول کیا جا رہا ہے؟

پس غوروفکر کرو، اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائیں!

یہ تمام قسم کا پراپیگنڈہ جو دولۃ کر رہی ہے وہ صرف اور صرف اس لیے کہ اپنی حکومت اور سلطہ کے لیے ذریعے اپنی مصلحت کی خدمت ہو سکے، نہ کہ اس کا مقصد کچھ اور ہے۔



یہ بات دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے کہ یہ کیسے دولۃ کے لیے احکامات کے ساتھ کھیلتے ہیں، اور جہاں چاہتے ہیں اور جیسے چاہتے ہیں، اس کا اطلاق کر دیتے ہیں۔

لیکن تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے لوگوں کے سامنے ان کی حقیقت کو واضح کیا۔

اور جو لوگ کل تک اس بات پر فخر محسوس کرتے تھے وہ تو فقط حق کی پیروی کرتے ہیں نہ کہ لوگوں کی پیروی کرتے ہیں، آج وہ خود عذر اور معذرت پر مبنی مباحثہ کر رہے ہیں،اگرچہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کی تکفیر کرتے ہوئے بھی ہچکچاہت محسوس نہیں کرتے، اُس حجت پر بھی جو ثابت نہیں ہوتیں۔

ایڈیٹر نوٹ:



یہ وہ جگہ ہے جہاں سلمان شاہ کا مزار نام خلافتِ بغدادی کی حفاظت میں قائم رہا اور پھر اس نام نہاد خلافت کی زمین پر نیٹو ترکی فوج کے ناپاک قدم بھی داخل ہوئے لیکن اِن خوارج العصرنے ثابت کر دیا کہ کفار کو چھوڑیں گے اور مسلمانوں کو ماریں گے۔ ایک گولی بھی نہ چلائی گئی۔

آج کس نے ان کی حقیقت کو ظاہر کیا؟
وہی تو اللہ رب العزت غالب حکمت والا!

مصدر (عربی):
http://justpaste.it/jkkf

ترجمہ(انگریزی):
http://justpaste.it/jkxx

ترجمہ(جرمن):
http://justpaste.it/jlg1

ہفتہ، 21 فروری، 2015

عاصی مخطی خطیبِ غالی (داعش)کے قول کے متعلق ابہام کا شکار ہونے والوں کے لیے دوٹوک رد

بسم اللہ الرحمن الرحیم
عاصی مخطی خطیبِ غالی (داعش)کے قول کے متعلق ابہام کا شکار ہونے والوں
کے لیے دوٹوک رد

شیخ ابو قتادہ فلسطینی حفظہ اللہ

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله ومن والاه،

بعدازاں:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿الأنعام: ٢١﴾
[اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ]

مزید فرمایا:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ﴿يونس: ١٧﴾
[پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے]

یہ بات خلقِ خدا پر ظاہر ہوئی ہے جو کہ جماعت دولتِ بغدادی کے خطیب نے بیان کی ہےکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج حیات ہوتے اور (لوگوں کے درمیان) داخل ہوتے، تو وہ ان کی دولتِ باطل کی اتباع کرتے، اور یہ قول ان جہلاء اور ان کے اقوال کے فجور پر تکبر کی ایک بین دلیل ہے۔

اس قول پر صحیح بات یہ ہے کہ اس پر صرف حکمِ شرعی فقط یہ نہیں ہے کہ یہ قول ایک صریح کفری قول ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ اس قول کو بیان کرنے والا تائب ہو۔ اگر ہم ان متشدد غالیوں (داعش)کے طریقہ کار کو لوگوں پر حکم لگانے کے معاملہ میں اپنائیں، تو ہم تمام جماعتِ بغدادی پر یہی حکم لگائیں کہ یہ طائفۃٔ کفر اور ارتداد ہے، بالکل انہی کے اس تکفیر کے طریقہ کار پر جیسا کہ ان (داعش) کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ جبھۃ النصرہ کی تکفیر اسی قسم کے لوازمات اور باطل تاویلات کی بنیاد پر کرتے ہیں لیکن ہمارا دین ہمیں حق کی طرف رہنمائی کا حکم دیتا ہے، ضروری ہے کہ یہ شخص اپنے خبیث قول سے تائب ہو، یہی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے لیے حق پر مبنی بات ہو گی، مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں اس باطل کا رد کریں، اور ادھر اس معاملہ میں بیان کیا جانے والا باطل ایسا امرہے جس پر سب جمع ہیں نہ کہ یہ ظن پر مبنی ہے، اور وہ یہ تصور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کے تابع ہو ں گے، اور یہ ایک واضح کفر ہے جو کوئی بھی عاقل مسلمان بیان نہیں کر سکتا۔ پس اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت عظیم بات ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، اور اپنی دولتِ(باطل) سے متعلق جیسی مرضی بڑائی بیان کرے، لیکن یہ تمام کام ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کر کے نہ ہو اور نہ ہی اس قسم کی باطل مثالوں کےطریقہ پر کارفرما ہو۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿النحل: ٧٤﴾
[پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے]

اور یہ الفاظ کے معانی ہمارے رسول اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کے مترادف ہیں، کوئی بھی الفاظ جو اس قسم کی باطل مثالوں پر مبنی ہو وہ ہمارے دین میں ایک بہت بڑی بات ہے، اور یہ تصور کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جملۂ امور کے معاملات میں کسی اور کے تابع ہوں گے یا کسی اور قیادت کے امر کے تابع ہوں گے، یہ سوائے گمراہ قسم کے کفری قول کے کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ بات تو معلوم ہے جو کوئی بھی اب عمل کرتا ہے وہ ثواب اورخطا کا مرکب ہوتا ہے، اور یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ایسا ہی معاملہ ہے، اور علماء اجتہاد کرتے ہیں اور وہ یہ نہیں کہتے کہ ان کی اختیار کی گئی اجتہادی رائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کردہ ہے ،سوائے تب جب کہ نصوص کسی مسئلہ پرواضح اور صراحت کے ساتھ پائی جائیں، اور ان کی دولتِ باطل سے متعلق کسی بھی قسم کی واضح نصوص موجود نہیں ہیں جیسا کہ اس شخص نے اپنے بیان میں کہا، اور ان(دولۃ) کا یہ عمل بھی اجتہادی نوعیت کا ہی ہے اور کثیر اہل علم نے یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ باطل(مردود) ہے، تو پھر اس (کو سامنے رکھتے ہوئے) کیسے یہ سوء پر مبنی بیان دیا جا سکتا ہے؟ اگر تمام لوگوں کو اس قسم کے قول کو اختیار کرنے اجازت دے دی جائے، جیسا کہ اس شخص نے بیان کی، تو پھر اس سے ہمارے رسول صلی اللہ علی وسلم کی بہت عظیم اہانت ہو جائے گی، اگر ہر کوئی ایسا تصور(خود سے یا جماعت سے متعلق) ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بیان کرنے لگے اور ایسے اقوال کہے اور ان کی تنقیص کرے ،تو یہ ضلات اور کفر ہے، جس پر سب ہی جمع ہیں۔

اس جاہل خطیب کی جانب سے اس قسم کا مقالہ اور وہ بھی اُن کی دولت کے کبار میں سے ایک بڑے کی طرف سے بیان ہون، ان کی جہالت پر ہونے کی دلالت کرتا ہے، اور اگر ہم اس معاملہ کو صحیح نکتہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے خود کو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے،جس کسی نے ان سے دشمنی کی اس نے گویا ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کی اور جس کسی نے ان سے موافقت کی گویا اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کی(والعیاذ باللہ)، اگرچہ وہ اس کو اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے لیکن ان کی حقیقتِ حال اسی پر گواہ ہے۔

اس لیے اس کاتب (یعنی شیخ ابو قتادۃ) کے نزدیک ان کی گمراہی انہی اسباب کی وجہ سے معلوم ہوئی، انہیں کلمات کی وجہ سے جو ان کی طرف سے پائے گئے ، ان کی خصوصیات دوسرے لوگوں کے ذریعے نقل ہوئیں جس میں لوگوں نے ان کے امارت سے متعلق احکامات کو نقل کیا، جس میں انہوں نے بابِ اعتقاد و تکفیر کے متعلق خود کو اس پر حق بجناب جانا، اور یہ ابواب تو کسی بھی طالب علم کے لیے بہت بڑا باب ہے، جس کے ذریعے یہ جانا گیا کہ یہ غالی ہیں، اور اس پر میں یہ استطاعت بھی نہیں رکھ پا رہاکہ ان کے بارے میں کہوں کہ یہ خوارج ہیں، کیونکہ خوارج اہل صدق اور اہل شرافت تھے جبکہ یہ (دولتِ بغدادی) اہل خبث، اہل مکروفریب اور اہل کذب ہیں، اس لیے جب میں نے ان کے جہلاء میں سے ایک جاہل کو سنا جب اس نے کہا:

یہی وہ خلیفہ(ابراہیم عواد) ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف قتال کیجیے جو آپ کی نافرمانی کرتے ہیں]

اور یہ جو بیان ہوا وہ ایک عمومی طریقہ پر بیان ہوا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس کبیر کلام کا اطلاق خود پر کرتے ہیں، اور یہ جاہل یہ نہیں جانتا کہ یہ الفاظ حدیثِ قدسی میں بیان ہوئے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، وہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مقصود اسلام کے اندر داخل ہونا تھا اور اُن کی مخالفت کرنا کفر پر باقی رہنے والی بات تھی، لیکن انہوں نے اس مطلب کو اپنے خلیفہ پر اتار لیا، اور یہی معاملہ اس جھوٹے خطیب نے اپنے قول کے ذریعے کیا، اور یہی ان کے غلو کا سبب ہے اور اسی سبب مجاہدین کے خون کو خصوصی طور پر اپنے لیے حلال جانا ہے، پھر ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ رکھیں گے جو مجاہدین نہیں ہیں جو اہل قبلہ (مسلمان) ہیں، جنہوں نے اِن کےگمراہ کذاب خلیفہ کی بیعت میں داخل ہونے سے انکار کر رکھا ہے؟

یہ معاملہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کے ذریعے اس جاہل کلمہ کہنے والے کی وجہ سے کوئی چھوٹی سی منفعت حاصل کی جائے بلکہ یہ تو ہر عاقل کے لیے اب فرصت ہے جو یہ گمان رکھتا ہے کہ یہ دولتِ خلافت ہے جس کے لیے مسلمان کوشش کر رہے ہیں اور جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو قائم کیا جا رہا ہے بلکہ یہ تو حقیقت میں مسلمانوں کے لیے شر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اور یہی معاملہ اس شخص کا ہو گا جو عقل کے ذریعے اس بات کا ادراک کر لے گا اور وہ شخص یہ جان لے گا کہ اِس دولۃ کی نصرت کرنے والوں کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے، اور امت اپنے ضعف کے سبب دشمنوں کی جانب سے بھی برداشت کر رہی ہے اور پھر اُس کے بارے میں خیال کیسا ہو گا جوان دشمنوں کو مزید شر اور ظلم پھیلانے کا وجوب بھی فراہم کرنے لگے!

یہی دولت(بغدادی) اپنی اصلیت کے اعتبار سے خود کو مقامِ شریعت کی منزل پر فائز کرتی ہے اور خود کی حالت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کے مصادق قرار دیتی ہے جبکہ یہ تو ایسی دولت ہے جو توفیق اور ہدایت سے دور ہو چکی ہے، ہم ان کے چناؤ اور ان کی موافقت کرنے میں اس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے جیسا کہ کتبِ توحید میں ان کی کیفیت سے متعلق اہانت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ان سے کس قسم کے احترام کی توقع کی جائے جبکہ کرامت تو اس صالح شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کسی مریض کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے اور مریض شفاء یاب ہو جائے، جہاں تک تو اس اہانت کا تعلق ہے جیسا کہ یہ مجرم اپنےسطحی طالب علم کے سامنے لا رہا ہے ،اس کی مثال ایسے ہی ہےجیسے کہ سر کے بال (اس بھاری بات کی وجہ سے)گر جائیں، اور یہی حالت اس مبتدی مجرم گمراہ دولت کی ہے، یہ اپنا ہاتھ جس جگہ بھی رکھتے ہیں، سوائے فساد کے کچھ نہیں ہوتا۔

اور جو ان کا رستہ اختیار کرے وہ اپنے مقصد سے پلٹ جاتا ہے اور تباہی اور باطل کی طرف بڑھتا ہے، اور یہ ایک سقوط سے دوسرے سقوط کے طرف جاتے ہیں، ایک بے ادبی سے دوسری بے ادبی کی طرف قدم رکھتے ہیں، اور اگر کسی شخص پر ان غالیوں کی کیفیت اور ان کے چناؤ کا طریقہ کار معلوم ہو جائے، اور وہ اسے لوگوں کے درمیان اس حقیقت کو منکشف کرنے لگے، تو وہ پہلے مرحلے میں سننے والوں کی آنکھوں میں فتورڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ آج کا مرض اب ہر کسی پر واضح ہے سوائے اس کے جو انہی کی مثل مصائب میں مبتلا ہے، اور وہ مرض ہے، باولے کتے کاٹنے کی بیماری جب وہ مریض کے جسم میں داخل ہوتی ہے تو ہر رگ کے اندر گھوم جاتی ہے، اور انہی کی مثل سے متعلق ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اِن کے شر سے ہمارے لیے کافی ہو جائیں۔ آمین۔

ہمارے دین کا طالب علم یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دین میں سب سے بڑا جرم اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہے، اور اس خطیب نے ایسا کہا ہے، اور ان کا اس نوعیت کا فعل جو انہوں نے دین سے منسوب کیا وہ دین کے معاملہ میں بہت بڑا قضیہ ہے، جو کہ ایمان اور کفر (کے فیصلہ کے متعلق) ہے، جیسا کہ انہوں نے اس زمانہ میں خیارِامت کی تکفیر کی ہے اور وہ (خیارِ امت) مجاہدین ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿الأنعام: ٢١﴾
[اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ]

اللہ تعالیٰ نے اللہ پر جھوٹا بہتان باندھنے کے جرم کو اللہ کے قول کی تکذیب کرنے سے پہلے بیان کیا ہے، اسی طرح شر والے کاموں میں سورۃ الاعراف میں اس میں ذکر بھی ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَالْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿الأعراف: ٣٣﴾
[اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے]

میں وہی بات کہتا ہوں جو ہمارے سلف نے بیان کی جب انہوں نے شر والے کاموں کے بارے میں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف اس کو بیان فرمایا، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد جس کو عظیم شر جانا وہ اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کہنا ہے جس کا اُن کے پاس علم نہیں، پھر یہ خطیب بھی اسی جرم کو اپنے اوپر لے کر آیا، اور یہی وہ کام ہے جو اس دولتِ مزعمومہ اپنےعمل سے اپنے مخالفین پر اپنے اختیار اور اپنے احکامات کے نفاذ کے ذریعے کرتی ہے، اور اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو سزا دینے میں جلدی کرتے ہیں،جبکہ اللہ تعالیٰ عذر اور درگزر کرنے کو پسند فرماتے ہیں جیسا کہ بخاری اور مسلم کی صحیح احادیث میں ابو عبدالرحمن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہوتا ہے، جوکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

[اللہ تعالیٰ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیا کاموں کو حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح بیان فرمائی ہے،اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے نبیوں کو مبعوث فرمایا جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں]

اور یہ عذر کو متعطل کر دینے اور اس کے لیے مفسد ہ بنا دینے والا معاملہ ہے، اور یہی وہ بات ہے جو میرے سابقہ قول کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ ’غبارے‘ کی مانند ہیں، اپنے علم اور اپنے اس یقین پر کہ یہ اس مکروہ جرم (اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کو اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔

اس خطیب نے اپنے لیے ایک بہت عظیم عنوان سامنے رکھا ہے، اور اپنے قول کے ذریعے عامۃ الناس کی آنکھیں اِن(داعش) کی گمراہی اور ان کے منہج کی گمراہی پر کھول دی ہیں، جو صرف ایک شخص کے اسقاط سے نہیں جڑی ہوئی، بلکہ حقیقت میں اس کلام کا تعلق ان کے منہج کے ساتھ ہے، جس میں یہ خود کو اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اختیار اور افعال کے ذریعے تصور میں رکھتے ہیں، جو کوئی ان کی موافقت کرے گا وہ مسلمان ہو گا اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہو گا، ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اس افتراء کو منسوب کرنے والوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔

اے اللہ! آپ کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں کہ آپ ہی اپنی مخلوق پر ،ایسے لوگوں کے ذریعے جو آپ پر، آپ کے دین پر، آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر جھوٹ گھڑتے ہیں حجت قائم کرتے ہیں۔

اس فتنہ نےان لوگوں (داعش) کے علم کو منکشف کیا، ان کے دعوے اور جھوٹ بے نقاب ہوئے، اور مسلمانوں کی صفوف ان کے کثیر امراض اور مفسدے سے صاف ہو گئیں، اور اب یہ زوال اورنشیب کی طرف گامزن ہیں، اور یہ خوف کہ ان کے جانے کے بعد اہل اسلام پر مصیبتیں آئیں گی کا حال تو ہر مصیبت کی طرح ہی ہے جو کہ ہر دور ِ انتشار میں ایسی ہی ہوتی ہیں جس میں علم اور معرفت پھیل جاتا ہے۔

اے اللہ، اہلِ اسلام اور فی سبیل اللہ مجاہدین کے لیےکافی ہو جائیں اور ان کو ہر خیروبھلائی عطا فرما دیجیے، والحمدللہ رب العالمین۔

اس (بیان) پر توجہ اور نشر کرنے کے ذمہ دار: ابو عبداللہ قتادۃ

مصدر (عربی):
http://justpaste.it/jh65

حوالہ(انگریزی):
http://justpaste.it/jhbb


ہفتہ، 14 فروری، 2015

جماعت الدولۃ اور ان کا نہ ختم ہونے والا تکفیری سلسلہ!

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت الدولۃ اور ان کا نہ ختم ہونے والا تکفیری سلسلہ!
المعتصم بالله المدنی
[شرعی جیش المہاجرین والانصار]

الحمد لله والصلاۃ والسلام علی من لا رسول بعدہ أما بعد:

مجھے یہ بات ان بھائیوں کی طرف سےپہنچی جو جماعت الدولۃ کے دھوکے کا شکار ہوئے اور یہ گمان کیا کہ وہ میدانِ جہاد میں تمام جماعتوں سے افضل جماعت ہے، اور اسی لیے تمام ملتِ کفر ان کے خلاف جمع ہوئی ہے، گو کہ وہ اس چیز کا علم بھی رکھتے تھے کہ ان کے اندر غلو موجود ہے، لیکن انہوں نے ارادہ کیا کہ وہ اُن صفِ اول کے معرکوں میں جا کر قتال کریں گے جو رافضیوں اور ملحدوں کے خلاف موجود ہیں، اور جیسا کہ مشہور ہے کہ جماعت الدولۃ اپنے افراد کو یہ اختیار دیتی ہےکہ وہ نظام ِنصیری یا ملحدین (PKK) یا جن کو وہ’ صحوات‘ (مرتدین) کا نام دیتے ہیں کے خلاف قتال میں سے محاذ کو چن سکتے ہیں۔

عجیب یہ کہ جب وہ پہلی مرتبہ وہاں پر پہنچے تو اُس کا استقبال مسوؤلِ حدود نے کیا، اور اُس سے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے تمہیں چنا اور تمہیں دیارِ اسلام میں زندہ رکھا (وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو علاقہ جبھۃ النصرہ، جبھۃ الشامیہ، جبھۃ انصار الدین نے آزاد کروائے ہیں وہ دارالکفر ہیں)، پس انہوں نے آپس میں گفتگو کی، اُس مسوؤل نے اُس سے کہا کہ اگر تمہارے سامنے ایک جبھۃ النصرہ اور ایک نظامِ نصیری کا فرد پیش کیا جائے، تو تم کس کو پہلے قتل کرو گے؟

تو انہوں نے بلا شک و شبہ جواب دیا کہ وہ نظامِ نصیری سے تعلق رکھنے والے شخص کو قتل کریں گے، تو اُس مسوؤل نے جواب دیا کہ :

تم نے غلط کہا، یہ لازم ہے کہ تم جبھۃ النصرہ کے فرد کو پہلے قتل کرو کیونکہ وہ مرتدین ہیں اور مرتدین سےقتال کفارِ اصلی سے قتال سے اولیٰ ہے۔

اور اس بات میں اضافہ کرتے ہوئے کہا:
تمہارے عقیدے میں بہت سے اشکال ہیں اور تمہارے لیے شرعی دورہ بہت ضروری ہے، اور اس شرعی دورے کے بعد ہم تمہیں صحوات کے خلاف قتال کے لیے بھیجیں گے، خصوصی طور پر جبھۃ النصرہ کے خلاف!

اُس بھائی نے جواب دیا:
میں چاہتا ہوں کہ میں عراق میں روافض کے خلاف قتال کروں، تو اُس کے مسوؤل نے جواب دیا کہ نہیں! تمہیں عین العرب(کوبانی) میں جا کر لڑنے کی اجازت ہے، مسوؤل نے اس شخص سے کہا کہ تم نے بیعت کی ہے اور ضروری ہے کہ تم سمع و طاعت کے تابع رہو اور تمہیں جہاں بھی کہا جائے، وہیں پر جا کر قتال کرو!

اور پھر اس کے بعد اُس کی ملاقات منبج(شہر) کے شرعی سےہوئے، اور اس کے ساتھ اس ضمن میں مسائل پر گفتگو ہوئی تو اس نے کہا کہ جبھۃ انصار الدین مرتدین ہیں! پس وہ نوجوان اس پر حیران ہوئے اور اُس سےاِس تکفیر کا سبب پوچھا!

تو جواب دیا:
وہ (جبھۃ انصارالدین) مرتدین کو ان محاذوں(علاقوں) میں تقویت دیتے ہیں ، جوہم سے ریف شمالی (حلب) میں لڑ رہے ہیں۔

ہم نے کچھ سوچا اور کچھ اور دیکھا اور یہ قوم (جماعت الدولۃ) اپنے غلو اور تکفیر میں تمام جہادی جماعتوں کے معاملہ میں پھیل رہی ہے۔

حسبنا اللہ و نعم الوکیل
المعتصم بالله المدني
شرعی (جیش المہاجرین والانصار)

مصدر ( عربی):
http://justpaste.it/aldolhda3sh