بسم اللہ الرحمن الرحیم
عاصی مخطی خطیبِ غالی (داعش)کے قول کے متعلق ابہام کا شکار ہونے والوں
کے لیے دوٹوک رد
شیخ ابو قتادہ فلسطینی حفظہ اللہ
عاصی مخطی خطیبِ غالی (داعش)کے قول کے متعلق ابہام کا شکار ہونے والوں
کے لیے دوٹوک رد
شیخ ابو قتادہ فلسطینی حفظہ اللہ
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلى آله ومن والاه،
بعدازاں:
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿الأنعام: ٢١﴾
[اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ]
مزید فرمایا:
فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُونَ ﴿يونس: ١٧﴾
[پھر اُس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہو گا جو ایک جھوٹی بات گھڑ کر اللہ کی طرف منسُوب کرے یا اللہ کی واقعی آیات کو جھُوٹا قرار دے یقیناً مجرم کبھی فلاح نہیں پا سکتے]
یہ بات خلقِ خدا پر ظاہر ہوئی ہے جو کہ جماعت دولتِ بغدادی کے خطیب نے بیان کی ہےکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج حیات ہوتے اور (لوگوں کے درمیان) داخل ہوتے، تو وہ ان کی دولتِ باطل کی اتباع کرتے، اور یہ قول ان جہلاء اور ان کے اقوال کے فجور پر تکبر کی ایک بین دلیل ہے۔
اس قول پر صحیح بات یہ ہے کہ اس پر صرف حکمِ شرعی فقط یہ نہیں ہے کہ یہ قول ایک صریح کفری قول ہے، جس کے لیے ضروری ہے کہ اس قول کو بیان کرنے والا تائب ہو۔ اگر ہم ان متشدد غالیوں (داعش)کے طریقہ کار کو لوگوں پر حکم لگانے کے معاملہ میں اپنائیں، تو ہم تمام جماعتِ بغدادی پر یہی حکم لگائیں کہ یہ طائفۃٔ کفر اور ارتداد ہے، بالکل انہی کے اس تکفیر کے طریقہ کار پر جیسا کہ ان (داعش) کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ جبھۃ النصرہ کی تکفیر اسی قسم کے لوازمات اور باطل تاویلات کی بنیاد پر کرتے ہیں لیکن ہمارا دین ہمیں حق کی طرف رہنمائی کا حکم دیتا ہے، ضروری ہے کہ یہ شخص اپنے خبیث قول سے تائب ہو، یہی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے لیے حق پر مبنی بات ہو گی، مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں اس باطل کا رد کریں، اور ادھر اس معاملہ میں بیان کیا جانے والا باطل ایسا امرہے جس پر سب جمع ہیں نہ کہ یہ ظن پر مبنی ہے، اور وہ یہ تصور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی اور کے تابع ہو ں گے، اور یہ ایک واضح کفر ہے جو کوئی بھی عاقل مسلمان بیان نہیں کر سکتا۔ پس اس لیے ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک بہت عظیم بات ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے، اور اپنی دولتِ(باطل) سے متعلق جیسی مرضی بڑائی بیان کرے، لیکن یہ تمام کام ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر طعن کر کے نہ ہو اور نہ ہی اس قسم کی باطل مثالوں کےطریقہ پر کارفرما ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ﴿النحل: ٧٤﴾
[پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے]
اور یہ الفاظ کے معانی ہمارے رسول اللہ علیہ وسلم کی تحقیر کے مترادف ہیں، کوئی بھی الفاظ جو اس قسم کی باطل مثالوں پر مبنی ہو وہ ہمارے دین میں ایک بہت بڑی بات ہے، اور یہ تصور کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جملۂ امور کے معاملات میں کسی اور کے تابع ہوں گے یا کسی اور قیادت کے امر کے تابع ہوں گے، یہ سوائے گمراہ قسم کے کفری قول کے کچھ بھی نہیں ہے، پھر یہ بات تو معلوم ہے جو کوئی بھی اب عمل کرتا ہے وہ ثواب اورخطا کا مرکب ہوتا ہے، اور یہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سے ایسا ہی معاملہ ہے، اور علماء اجتہاد کرتے ہیں اور وہ یہ نہیں کہتے کہ ان کی اختیار کی گئی اجتہادی رائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اختیار کردہ ہے ،سوائے تب جب کہ نصوص کسی مسئلہ پرواضح اور صراحت کے ساتھ پائی جائیں، اور ان کی دولتِ باطل سے متعلق کسی بھی قسم کی واضح نصوص موجود نہیں ہیں جیسا کہ اس شخص نے اپنے بیان میں کہا، اور ان(دولۃ) کا یہ عمل بھی اجتہادی نوعیت کا ہی ہے اور کثیر اہل علم نے یہ بیان کر دیا ہے کہ یہ باطل(مردود) ہے، تو پھر اس (کو سامنے رکھتے ہوئے) کیسے یہ سوء پر مبنی بیان دیا جا سکتا ہے؟ اگر تمام لوگوں کو اس قسم کے قول کو اختیار کرنے اجازت دے دی جائے، جیسا کہ اس شخص نے بیان کی، تو پھر اس سے ہمارے رسول صلی اللہ علی وسلم کی بہت عظیم اہانت ہو جائے گی، اگر ہر کوئی ایسا تصور(خود سے یا جماعت سے متعلق) ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بیان کرنے لگے اور ایسے اقوال کہے اور ان کی تنقیص کرے ،تو یہ ضلات اور کفر ہے، جس پر سب ہی جمع ہیں۔
اس جاہل خطیب کی جانب سے اس قسم کا مقالہ اور وہ بھی اُن کی دولت کے کبار میں سے ایک بڑے کی طرف سے بیان ہون، ان کی جہالت پر ہونے کی دلالت کرتا ہے، اور اگر ہم اس معاملہ کو صحیح نکتہ نظر سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے خود کو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پر کھڑا کر دیا ہے،جس کسی نے ان سے دشمنی کی اس نے گویا ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کی اور جس کسی نے ان سے موافقت کی گویا اس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی موافقت کی(والعیاذ باللہ)، اگرچہ وہ اس کو اپنی زبان سے ادا نہیں کرتے لیکن ان کی حقیقتِ حال اسی پر گواہ ہے۔
اس لیے اس کاتب (یعنی شیخ ابو قتادۃ) کے نزدیک ان کی گمراہی انہی اسباب کی وجہ سے معلوم ہوئی، انہیں کلمات کی وجہ سے جو ان کی طرف سے پائے گئے ، ان کی خصوصیات دوسرے لوگوں کے ذریعے نقل ہوئیں جس میں لوگوں نے ان کے امارت سے متعلق احکامات کو نقل کیا، جس میں انہوں نے بابِ اعتقاد و تکفیر کے متعلق خود کو اس پر حق بجناب جانا، اور یہ ابواب تو کسی بھی طالب علم کے لیے بہت بڑا باب ہے، جس کے ذریعے یہ جانا گیا کہ یہ غالی ہیں، اور اس پر میں یہ استطاعت بھی نہیں رکھ پا رہاکہ ان کے بارے میں کہوں کہ یہ خوارج ہیں، کیونکہ خوارج اہل صدق اور اہل شرافت تھے جبکہ یہ (دولتِ بغدادی) اہل خبث، اہل مکروفریب اور اہل کذب ہیں، اس لیے جب میں نے ان کے جہلاء میں سے ایک جاہل کو سنا جب اس نے کہا:
یہی وہ خلیفہ(ابراہیم عواد) ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فرمانبرداری کرنے والوں کے ساتھ ان لوگوں کے خلاف قتال کیجیے جو آپ کی نافرمانی کرتے ہیں]
اور یہ جو بیان ہوا وہ ایک عمومی طریقہ پر بیان ہوا جو اس پر دلالت کرتا ہے کہ وہ اس کبیر کلام کا اطلاق خود پر کرتے ہیں، اور یہ جاہل یہ نہیں جانتا کہ یہ الفاظ حدیثِ قدسی میں بیان ہوئے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا، وہ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے مقصود اسلام کے اندر داخل ہونا تھا اور اُن کی مخالفت کرنا کفر پر باقی رہنے والی بات تھی، لیکن انہوں نے اس مطلب کو اپنے خلیفہ پر اتار لیا، اور یہی معاملہ اس جھوٹے خطیب نے اپنے قول کے ذریعے کیا، اور یہی ان کے غلو کا سبب ہے اور اسی سبب مجاہدین کے خون کو خصوصی طور پر اپنے لیے حلال جانا ہے، پھر ان لوگوں کے ساتھ کیا معاملہ رکھیں گے جو مجاہدین نہیں ہیں جو اہل قبلہ (مسلمان) ہیں، جنہوں نے اِن کےگمراہ کذاب خلیفہ کی بیعت میں داخل ہونے سے انکار کر رکھا ہے؟
یہ معاملہ کوئی ایسا نہیں ہے جس کے ذریعے اس جاہل کلمہ کہنے والے کی وجہ سے کوئی چھوٹی سی منفعت حاصل کی جائے بلکہ یہ تو ہر عاقل کے لیے اب فرصت ہے جو یہ گمان رکھتا ہے کہ یہ دولتِ خلافت ہے جس کے لیے مسلمان کوشش کر رہے ہیں اور جس کے اندر اللہ تعالیٰ کی شریعت کو قائم کیا جا رہا ہے بلکہ یہ تو حقیقت میں مسلمانوں کے لیے شر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے، اور یہی معاملہ اس شخص کا ہو گا جو عقل کے ذریعے اس بات کا ادراک کر لے گا اور وہ شخص یہ جان لے گا کہ اِس دولۃ کی نصرت کرنے والوں کی کیفیت بھی کچھ ایسی ہی ہے، اور امت اپنے ضعف کے سبب دشمنوں کی جانب سے بھی برداشت کر رہی ہے اور پھر اُس کے بارے میں خیال کیسا ہو گا جوان دشمنوں کو مزید شر اور ظلم پھیلانے کا وجوب بھی فراہم کرنے لگے!
یہی دولت(بغدادی) اپنی اصلیت کے اعتبار سے خود کو مقامِ شریعت کی منزل پر فائز کرتی ہے اور خود کی حالت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت کے مصادق قرار دیتی ہے جبکہ یہ تو ایسی دولت ہے جو توفیق اور ہدایت سے دور ہو چکی ہے، ہم ان کے چناؤ اور ان کی موافقت کرنے میں اس کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتے جیسا کہ کتبِ توحید میں ان کی کیفیت سے متعلق اہانت کا تذکرہ کیا جاتا ہے، ان سے کس قسم کے احترام کی توقع کی جائے جبکہ کرامت تو اس صالح شخص کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو کسی مریض کے سر پر اپنا ہاتھ رکھے اور مریض شفاء یاب ہو جائے، جہاں تک تو اس اہانت کا تعلق ہے جیسا کہ یہ مجرم اپنےسطحی طالب علم کے سامنے لا رہا ہے ،اس کی مثال ایسے ہی ہےجیسے کہ سر کے بال (اس بھاری بات کی وجہ سے)گر جائیں، اور یہی حالت اس مبتدی مجرم گمراہ دولت کی ہے، یہ اپنا ہاتھ جس جگہ بھی رکھتے ہیں، سوائے فساد کے کچھ نہیں ہوتا۔
اور جو ان کا رستہ اختیار کرے وہ اپنے مقصد سے پلٹ جاتا ہے اور تباہی اور باطل کی طرف بڑھتا ہے، اور یہ ایک سقوط سے دوسرے سقوط کے طرف جاتے ہیں، ایک بے ادبی سے دوسری بے ادبی کی طرف قدم رکھتے ہیں، اور اگر کسی شخص پر ان غالیوں کی کیفیت اور ان کے چناؤ کا طریقہ کار معلوم ہو جائے، اور وہ اسے لوگوں کے درمیان اس حقیقت کو منکشف کرنے لگے، تو وہ پہلے مرحلے میں سننے والوں کی آنکھوں میں فتورڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا یہ آج کا مرض اب ہر کسی پر واضح ہے سوائے اس کے جو انہی کی مثل مصائب میں مبتلا ہے، اور وہ مرض ہے، باولے کتے کاٹنے کی بیماری جب وہ مریض کے جسم میں داخل ہوتی ہے تو ہر رگ کے اندر گھوم جاتی ہے، اور انہی کی مثل سے متعلق ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اِن کے شر سے ہمارے لیے کافی ہو جائیں۔ آمین۔
ہمارے دین کا طالب علم یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ دین میں سب سے بڑا جرم اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہے، اور اس خطیب نے ایسا کہا ہے، اور ان کا اس نوعیت کا فعل جو انہوں نے دین سے منسوب کیا وہ دین کے معاملہ میں بہت بڑا قضیہ ہے، جو کہ ایمان اور کفر (کے فیصلہ کے متعلق) ہے، جیسا کہ انہوں نے اس زمانہ میں خیارِامت کی تکفیر کی ہے اور وہ (خیارِ امت) مجاہدین ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ كَذَّبَ بِآيَاتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ﴿الأنعام: ٢١﴾
[اور اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹا بہتان لگائے، یا اللہ کی نشانیوں کو جھٹلائے؟ یقیناً ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پا سکتے ]
اللہ تعالیٰ نے اللہ پر جھوٹا بہتان باندھنے کے جرم کو اللہ کے قول کی تکذیب کرنے سے پہلے بیان کیا ہے، اسی طرح شر والے کاموں میں سورۃ الاعراف میں اس میں ذکر بھی ہوا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَالْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا وَأَن تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ﴿الأعراف: ٣٣﴾
[اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے]
میں وہی بات کہتا ہوں جو ہمارے سلف نے بیان کی جب انہوں نے شر والے کاموں کے بارے میں ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف اس کو بیان فرمایا، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کے انکار کے بعد جس کو عظیم شر جانا وہ اللہ تعالیٰ پر ایسی بات کہنا ہے جس کا اُن کے پاس علم نہیں، پھر یہ خطیب بھی اسی جرم کو اپنے اوپر لے کر آیا، اور یہی وہ کام ہے جو اس دولتِ مزعمومہ اپنےعمل سے اپنے مخالفین پر اپنے اختیار اور اپنے احکامات کے نفاذ کے ذریعے کرتی ہے، اور اس قسم کے جرم کے ارتکاب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو سزا دینے میں جلدی کرتے ہیں،جبکہ اللہ تعالیٰ عذر اور درگزر کرنے کو پسند فرماتے ہیں جیسا کہ بخاری اور مسلم کی صحیح احادیث میں ابو عبدالرحمن عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہوتا ہے، جوکہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
[اللہ تعالیٰ سے زیادہ اور کوئی غیرت مند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے بےحیا کاموں کو حرام قرار دیا ہے، خواہ وہ ظاہر ہوں خواہ پوشیدہ اور اللہ کو اپنی تعریف سے زیادہ اور کوئی چیز پسند نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی خود مدح بیان فرمائی ہے،اللہ تعالیٰ سے زیادہ عذر کو پسند کرنے والا کوئی نہیں، یہی وجہ ہے کہ اس نے نبیوں کو مبعوث فرمایا جو بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں]
اور یہ عذر کو متعطل کر دینے اور اس کے لیے مفسد ہ بنا دینے والا معاملہ ہے، اور یہی وہ بات ہے جو میرے سابقہ قول کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ ’غبارے‘ کی مانند ہیں، اپنے علم اور اپنے اس یقین پر کہ یہ اس مکروہ جرم (اہانت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کو اٹھانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
اس خطیب نے اپنے لیے ایک بہت عظیم عنوان سامنے رکھا ہے، اور اپنے قول کے ذریعے عامۃ الناس کی آنکھیں اِن(داعش) کی گمراہی اور ان کے منہج کی گمراہی پر کھول دی ہیں، جو صرف ایک شخص کے اسقاط سے نہیں جڑی ہوئی، بلکہ حقیقت میں اس کلام کا تعلق ان کے منہج کے ساتھ ہے، جس میں یہ خود کو اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کو اختیار اور افعال کے ذریعے تصور میں رکھتے ہیں، جو کوئی ان کی موافقت کرے گا وہ مسلمان ہو گا اور جو کوئی ان کی مخالفت کرے گا وہ کافر ہو گا، ہم اللہ تعالیٰ کی طرف اس افتراء کو منسوب کرنے والوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں ۔
اے اللہ! آپ کے لیے ہی تمام تعریفیں ہیں کہ آپ ہی اپنی مخلوق پر ،ایسے لوگوں کے ذریعے جو آپ پر، آپ کے دین پر، آپ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دین پر جھوٹ گھڑتے ہیں حجت قائم کرتے ہیں۔
اس فتنہ نےان لوگوں (داعش) کے علم کو منکشف کیا، ان کے دعوے اور جھوٹ بے نقاب ہوئے، اور مسلمانوں کی صفوف ان کے کثیر امراض اور مفسدے سے صاف ہو گئیں، اور اب یہ زوال اورنشیب کی طرف گامزن ہیں، اور یہ خوف کہ ان کے جانے کے بعد اہل اسلام پر مصیبتیں آئیں گی کا حال تو ہر مصیبت کی طرح ہی ہے جو کہ ہر دور ِ انتشار میں ایسی ہی ہوتی ہیں جس میں علم اور معرفت پھیل جاتا ہے۔
اے اللہ، اہلِ اسلام اور فی سبیل اللہ مجاہدین کے لیےکافی ہو جائیں اور ان کو ہر خیروبھلائی عطا فرما دیجیے، والحمدللہ رب العالمین۔
اس (بیان) پر توجہ اور نشر کرنے کے ذمہ دار: ابو عبداللہ قتادۃ
مصدر (عربی):
http://justpaste.it/jh65
حوالہ(انگریزی):
http://justpaste.it/jhbb
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں