بسم اللہ الرحمن الرحیم
شرانگیز فکرِ حروریہ(خوارج) کی دس خطرناک قسم کی خامیاں
ڈاکڑ طارق عبدالحلیم
شرانگیز فکرِ حروریہ(خوارج) کی دس خطرناک قسم کی خامیاں
ڈاکڑ طارق عبدالحلیم
الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله صلى الله عليه وعلى آله وصحبه وسلم، وبعد
قارئین کے لیے یہ بہت فائدہ مند ہوتا ہے کہ اُن کو فکرِ بدعت کے انحراف اور نقائص سے متعلق آگاہی دی جاتی رہے، تاکہ اس بدعت کی اصلیت ہمیشہ اہل سنت کے سامنے واضح طور پر موجود رہے، خاص طور پر اُن لوگوں کے سامنے ضرور اس کا بیان ہو جو اہل تخصص(جو دینی علم میں مہارت رکھتے ہیں) نہیں ہیں۔ یہی ہم نے تقریباً ۳۵ سال سے زائد عرصہ پر محیط فکرِ ارجاء کے ساتھ عملی طور پر کیا ہے، مثلاً جیسا کہ جماعت اخوان المسلین کی فکر، جو خاص طور پر پچھلے ۳ سال کے عرصے میں میں سامنے آئی جب سے ۲۵ جنوری، ۲۰۱۱ء کا انقلابِ مصر میں شروع ہوا، جس میں ہم روزانہ کی بنیاد پر ایک یا دو مقالے منظر عام پر لاتے رہے، تاکہ اُن کی سیاسی مصلحت اندیشی کے نقائص کو واضح کیا جائے، جو کہ عقیدۂ ارجاء کے خلل کی وجہ سے نسل در نسل وراثت میں ملے ہیں۔
ہم نے اس سے قبل بھی فکرِحروریہ کی خطرناکی سے متعلق متعدد مختلف فارم پر آگاہی دی، تاہم [نصیحت کرتے رہیں یقیناً یہ نصیحت ایمان والوں کو نفع دے گی ] (الذاریات: ۵۵)
(۱)
مسلمانوں کی تکفیر کرنا اور احکاماتِ ارتداد کا اطلاق بغیر شرعی وجوہات کی بنیاد پر کرنا، جس کی معرفت تحقیق اور اِن مسائل کی گہرائی میں جا کر ہی کی جاسکتی ہے جو اہل علم اور اہل عدل ہی صحیح طور پر انجام دے سکتےہیں، نہ کہ اہل جہل اور اہل ظلم!
(۲)
قتل اور ذبح کی اشاعت ایسے احکامات کی بنیاد پر کرنا جو غیر شرعی ہیں، اُن بناوٹی جعلی طلباء، قاضیوں کی جانب سے جو احکامات کی صحیح تنفیذ نہیں کرتے، اگر یہ واقعی جانتے اُس عذاب کے بارے میں جو یہ اپنے اعمال کی وجہ سے کما رہے ہیں، تو یہ خون کے آنسو روتے اور خوشی محسوس نہ کرتے، حتیٰ کہ اب اہل سنت کے منہج پر قائم مجاہدین اِن کی دغابازیوں کے سبب ویسے ہی یا اس سے بھی زیادہ خوف محسوس کرتے ہیں ، جو کہ یہ مجاہدین حکومتی نظام(اسد) کی غداریوں کے سبب کرتے ہیں یایوں کہہ لیں کہ کم از کم اتنا خوف ضرور محسوس کرتے ہیں۔
(۳)
اس ہستی کی تقدیس کرنا جس کی انہوں نے منادی کی ہے، اور اسے ’الدولۃ‘ (ریاست) کا نام دیا ہے، اور اس کو ایک صنم(بت) بنا لیا ہے، اور اس کی عبادت بھی وہ بت کے ہر مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے کرتے ہیں، بلکہ وہ اِس بت (دولۃ) کی عبادت کرنے میں، اہل جمہوریت کی پارلیمنٹ کی عبادت کرنے سے بھی زیادہ آگے نکل گئے ہیں یا پھر اُن کے برابر تو کم از کم ضرور یہ عبادت پہنچ چکی۔
(۴)
علم اور علماء کی تحقیر کرنا، اور جہلاء کو احکاماتِ شریعہ کا اطلاق کرنے کے لیے چھوڑ دینا جو کہ حلال و حرام اور خون کے احکامات کے متعلق فیصلہ کرتے ہیں، تاکہ اُس کے ذریعے وہ دیگر عامی لوگوں کے سامنے مقبولیت حاصل کر سکیں، اور اُن کی قیادت کے اہل ہونے کو مقبولیت دے سکیں۔ بلاشبہ آپ(مجاہدین) ہی میدانِ جہاد میں اُن کے سامنے اکیلےکھڑے ہوئے ہیں، جس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں، اور بلا شبہ آپ اس معاملہ میں ابطالِ حق ہیں!
(۵)
اہل رویبضات(نااہل گھٹیا لوگ جو لوگوں کے اہم معاملات میں گفتگو کرتے ہیں) کو علماء کا قائم مقام ٹھہرانا، جب اُن کو علماء کی طرف سے کسی کی بھی تائید حاصل نہ ہوئی، تو سوائے رویبضہ کے کسی نے اُن کی نصرت نہ کی،جو نہ ہی کوئی علمی ، جہادی یاتدوینِ کتب کے حوالے سے کوئی تاریخ رکھتے ہیں،اِن تمام نے فقط اِس لیے انحراف اختیارکیا کیونکہ یہ اُن کی نصرت و حمایت کرتے ہیں اور ان کے (باطل) طریقوں سے متفق ہیں۔
(۶)
انہوں نے غلاظت، مرعوب کُن اخلاقِ رزیلہ، اوچھے پن کی تائید کے لیے دلائل پیش کیے، جس کو شیطان نے حق کے مقابلہ میں اِن کی آنکھوں پر تکبیر کے سبب مزین کر دیا، یہ تکبر فقط اِن کی بےوقوفی کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور یہ (بےوقوفی) ’ران‘ (زنگ چڑھ جانے) کی مثل ہے۔
(۷)
جھوٹ، خیانت اور غداری سے کام اس وجہ سے لینا کہ کہ یہ مسلمان مرتدین ہیں، اور یہ حروریہ اُن مجاہدین کے ساتھ جنگ میں ہیں، اور اُن سے جنگ کے سبب جھوٹ اور غداری حلال ہے۔
(۸)
سابقہ بعثی نظام کے کارکنان کے ساتھ تعامل اور تعاون اس حجت کے ساتھ کرنا کہ انہوں نے توبہ کر لی ہے، بلکہ اُن ارکان کو مرکزی قیادت میں اہم مناسب دیے تاکہ وہ اپنی مرضی سے تمام گروہ پر اپنی عملی اجارہ داری قائم کر سکیں۔ بعثی گروہ کے لیے یہ چیز اہم نہیں ہے کہ کون سے جھنڈے تلےلڑا جائے جب تک کہ وہ اس گروہ پر عملی اجارہ داری کا مکمل اختیار رکھتے ہوں۔
(۹)
عالمی قوتوں کو موقع فراہم کرنا جن کے پاس کسی بھی اسلامی جماعت کی نسبت اِس وقت حقیقی سلطہ اور قوت موجود ہے۔ یہ حقیقت ہم سےاِس چیز کا تقاضا کرتی ہے کہ ہم اِس (جارحیت) کا جواب ایک واضح حکمتِ عملی کے ذریعے دیں،نہ کہ اس کی بنیاد عاقبت نااندیش طریقے پر ہو، خاص طور پر تب جبکہ اس کی بنیاد شرعی تصرفات پر ہو،جس کے لیے کوئی نص بھی موجود نہیں اور نہ ہی کوئی قاعدہ اِس سلسلے میں اِس عمل کی توثیق کرتا ہو،مثلاً صحافیوں کو ذبح کرنا، بلکہ اس کے برعکس یہ ایک بےوقوفی پر مبنی تصرف ہے، جوکہ عالمی طاقتوں کو حملے کرنے کےلیے حق بجانب ثابت کرنے کے لیے ایک منصوبہ بندی ہو گی، اور اللہ تعالیٰ اُن کے اس منصوبہ بندیوں پر اُن پر کافی ہو جائیں۔(آمین)
(۱۰)
اور آخر میں، جو کہ اِن سے فکری انحراف پر حرفِ آخر نہیں ہے،یہ تمام(باطل) عقائد عامۃ الناس میں پھیلا ئے جا رہے ہیں ، جبکہ اِن لوگوں کے پاس جن تک یہ بات پہنچ رہی ہے(دینی) علم نہیں ہے، جو کہ اُن کے انحراف کو دیکھ سکیں، اور نہ ہی وہ عقل رکھتے ہیں، اور یہ معاملہ حقیقت میں سب سے خطرناک ہے، اور باقی چیزوں کی نسبت فتنہ میں شدید تر ہے۔ امت کے پہلے سے بیمار جسم میں اِس قسم کے خبیث مرض کو داخل کرنا، جس میں مسلمانوں کی(ناحق) تکفیرکرنے کی بیماری ہو ، ناحق خون بہانے کی روش ہو، وہ امت کے لیے بہت ہی ضرر کا باعث ہے،جو کہ عصرِ حاضر اور آنے والی نسلوں کے لیے تباہ کن اثرا ت سامنے لائے گا۔ ہماری امت اپنے جسد پر پہلے سے ہی بہت سی بیماریاں عملی طور پر برداشت کر رہی ہے، جس میں طواغیتِ عرب اور عجمی کفار کی سازشیں شامل ہیں، جو امت کی سانس روکنے کی کوشش میں ہیں، جبکہ یہ لعنت شدہ سرطان(کینسر) اِس کو اس جگہ پر زخم لگا رہا ہے، جس سے متعلق اِس سے قبل کسی نے بھی متنبہ اِس انداز سے نہ کیا تھا، جہاں پر ہمارے علماء اُس کے سامنے حقیقی طور پر بَروقت کھڑے ہونے سے عاجز ہوئے، جو کہ حقیقت میں اصل معالجین میں سے تھے، اور صرف وہی اِس سرطان سے نجات دلا سکتے ہیں۔جب اس کینسر کو چھوڑا گیا اورعلماء کی طرف سے مزاحمت اُس انداز سے نہ دکھائی گئی، تو یہ بدن میں بغیر روک ٹوک کے داخل ہو گیا، جیسا کہ ہم اس قضیہ کو اپنے دوسرے مقالہ میں ظاہر کریں گے۔ ان شاء اللہ!
جو کچھ ہوا، اور جو آج بھی شام میں جاری ہے،یہ فقط اس آفت کا آغاز ہے، جیسا کہ اِس سے قبل بھی امت مصائب سے کافی دفعہ گزاری گئی ہے ، یہ عمل آنے والی نسلوں کے لیے بھیانک انجام لے کر آئے گا،جبکہ ہماری امیدیں اسلام کی واپسی سے جڑی ہوئی ہیں، الا یہ کہ اگر ہمیں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اِس کا تدارک نہ کروایا۔
ڈاکٹر طارق عبدالحلیم
16 ذوالحجۃ 1435 ھ بمطابق 10 اکتوبر، 2014ء
مصدر:
http://tariqabdelhaleem.net/new/Artical-72784
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں