بدھ، 15 اپریل، 2015

ساگر کے نام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساگر کے نام
شیخ ابراہیم الربیش
- رحمہ اللہ -





اے ساگر، مجھے اپنےپیارے عزیزوں کی خبرتو دو

اگر میں اِن بے ایمان لوگوں کی زنجیروں سے نہ بندھا ہوتا، تو میں تجھ میں غوطہ زن ہو جاتا
اور اپنے محبوب اہل وعیال تک جا پہنچتا، یا تیری باہوں میں ہی فنا ہو جاتا

تمہارا ساحل اداسی،قید،تکلیف اور ناانصافی سے عبارت ہے
تمہاری کڑواہٹ میرے صبر کو کھا تی جاتی ہے

تمہارا ٹھہراؤ موت ہے، تمہاری بہتی لہریں عجیب ہیں
تمہاری جانب سے بلند ہونے والی خاموشی ،اپنے اندرفریب رکھتی ہے

تمہارا سکوت ناخدا کو مار دےگا ، اگر وہ ثابت قدمی دکھائے
اور جہاز راں بھی تمہاری لہروں میں ڈوب جائے گا

نرم، بہرے، خاموش،نظرانداز طریقےسے تم غصے کے عالم میں طوفان ہو
اپنے اندر لحدیں(قبریں) اٹھائے ہوئے ہو

اگرہواتمہیں مشتعل کرتی ہے، تمہارے اوپر ظلم واضح ہے
اگرہوا تمہیں خاموش کرتی ہے، تو پھرافراط وتفریط پر موجوں کا بہاؤ ہی ہے

اے ساگر، کیا ہماری زنجیریں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟
ہم تو روزانہ حالتِ جبر میں ہی آتے اور جاتے ہیں

کیا تم ہمارے گناہوں کو جانتے ہو؟
کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اِس ظلمت میں پھینک دیا گیاہے؟

اے ساگر، تم ہماری قید پر ہمیں طنز کرتے ہو
تم نے ہمارے دشمنوں کے ساتھ سازباز کر لی ہے، اور تم بھی بے رحمی سے ہماری نگہبانی کرتے ہو

کیا یہ چٹانیں تمہیں اِن کے درمیان کیے گئے جرائم کا پتہ نہیں دیتیں؟
کیا مغلوب کیوبا(گوانتامو) اپنی کہانیوں کی ترجمانی تم سے نہیں کرتا؟

تم ہمارے ساتھ تین سال سے ہو، اور تم نے کیا حاصل کر لیا ہے؟
ساگر پر شاعری کی کشتیاں؛ ایک جلے ہوئے دل میں مدفون شعلہ

شاعر کے الفاظ ہماری طاقت کا سرچشمہ و منبع ہیں
اس کے شعر ہمارے دکھی دلوں کا مرہم ہیں



انگریزی متن:
http://www.andyworthington.co.uk/2007/10/03/a-poem-from-guantanamo-ode-to-the-sea-by-ibrahim-al-rubaish/


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں