جمعرات، 9 اکتوبر، 2014

شیخ ابوقتادہ فلسطینی کا جماعت الدولۃ کے متعلق موقف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

مجاہدین اور محبان جہاد کے نام ایک پیغام
شیخ ابوقتادہ فلسطینی کی جانب سے

یہ خط میں شدید دکھ کیساتھ لکھ رہا ہوں اور اگر یہ اللہ کیساتھ اس عہد کے مطابق نہ ہوتا جوکے اس نے اپنی مخلوق سے لیا تھا تو میں یہ خط کبھی نہ لکھتا، ۔اللہ گواہ ہیں کہ میں نے اس خط کو جاری نہ کرنے کے لیے اپنے آپ سے کتنی سخت جدوجہد کی ہے لیکن اس بات کے خوف نے کہ کہیں میں وہ سچ تو نہیں چھپا رہا جو کے میں جانتا ہوں میں اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔میں نے خاص حلقہ احباب میں اور عوامی سطح پر ہر ممکن کوشش کی ہے کہ اہل جہاد پر سے کسی بھی نقصان کو ہٹاوں تاہم وہ لوگ جو کے جھوٹ ،شیطان اور گمراہی کا شکار ہوچکے ۔انکا عظیم مقصد صرف جہاد کو تباہ کرنا ہے اور اسکی بھلائی انہیں مقصود نہیں ہے ۔ ان الفاظ کا مخاطب "الدولۃ الاسلامیہ فی العراق کی قیادت اور شام میں انکی شاخ ہے "۔ مجھ اسپر مکمل شرح صدر حاصل ہوچکی جسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ یہ گروہ (الدولۃ الاسلامیہ)بمعہ اسکی عسکری و اسلامی قیادت کے "جہنم کے کتے" ہیں اور انکے اعمال اسپر گواہی دیتے ہیں ،اور وہ رسول اللہ کی اس تعریف پر سب سے زیادہ پورا اترتے ہیں جو کے احادیث میں وارد ہوئی ہے ۔ "وہ مسلمانوں کو ماریں گئیں اور کافروں کو چھوڑ دیں گئیں ۔اللہ کی قسم اگر میں انہیں پاوں تو قوم عاد کی طرح قتل کروں "۔ میں انکے بدترین اعمال کیوجہ سے اس فتوی کو دینے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا ۔ میں نے انہیں سمجھانے کی ہرممکن کوشش کی حتی کے انہوں نے نصحیت ،سچائی و رہنمائی کو ماننے سے انکار کردیا ۔میرا یہ خطاب ان لوگوں کیساتھ ہے جو کے اپنے آپ کو ان سے منسوب کرتے ہیں اور جنکے دلوں میں رتی بھر بھی سنت ، دین یا اللہ کا خوف ہے ،جو مسلمانوں کا خون بہانے سے ڈرتے ہیں کہ یہ ایسے لوگوں کے بارے میں اللہ کے رسول کا فرمان ہے ۔ رسول اللہ کی بیان کردہ تعریف کوئی گنجائش نہیں چھوڑتی کہ ہم ایسے لوگوں کے متعلق (خارجی کے علاوہ)کوئی اور نام تلاش کریں۔

بعض لوگ یہ اعتراض کریں گئیں کہ خوارج کی تعریف ان کے عقیدے پر پورا نہیں اترتی کیونکہ خوارج یہ یقین کرتے تھے کہ جو بھی بندہ کبیرہ گناہ کرتا ہے وہ مرتد ہوتا ہے لیکن رسول اللہ کی حدیث و تعریف ہمیں انکے رویئے کی طرف بھی رہنمائی کرتی ہے بغیر اس بحث میں جائے کہ انکا عقیدہ کیا تھا ۔ انکے بڑوں کا رویہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں بھی ایسا ہی تھا جیسا کے آج انکا ہے ،اسلیے کسی کوبھی رسول اللہ کے فتوی کے علاوہ بات نہیں کرنی چاہیے ۔ان لوگوں کی مثال ایسی ہے ہے جو کے ایمان والوں کیساتھ لڑائی کرتے ہیں جیسے کے جبھۃ النصرہ۔(اللہ انکے کمانداروںوعلماء کی حفاظت فرمائے آمین )۔یہ وہ ہیں جوحکیم الامت شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ جیسے جہاد کے رہنماوں پر پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا منہج بدل لیا ہے ،یہ وہ ہیں جو کے الفاظ سے دھوکہ دیتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ یہ جہاد کے راستے کا کوئی تجربہ نہیں رکھتے نہ ہی یہ اہل جہاد کے عقیدے کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انکی حکمت عملی کو ۔انکا یہ دعوی کتنا عجیب ہے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کاعقیدہ شیخ اسامہ بن لادنؒ کے عقیدے سے ہٹ کر ہے !۔ماسوا انکے جو کے انکے ہی جیسے ہیں ان کی بات کوئی نہیں سنتا جو ان لوگوں (مجاہدین رہنما)کی تاریخ کو نہیں جانتے اور انکے کارناموں کی انہیں کچھ خبر نہیں ہے ۔ یہ دوسروں کو اپنے الفاظ و اصطلاحات سے گمراہ ہونے کا الزام دیتے ہیں حالانکہ یہ خود اس بات کے مستحق ہیں کہ انہیں گمراہ ، جھوٹے و متکبر کہہ کر پکارا جائے !گو کے ان کے الزامات کی اب میرے نزدیک کوئی حثیت نہیں ہے اور یہ مجھے زیادہ متاثر نہیں کرتے لیکن انکے جرائم ہمارے سر پر یہ زمہ داری ڈالتے ہیں کہ ہم ان سے اظہار برآت کریں کیونکہ یہ رسول اللہ کی بتائی گئی خوارج کی تعریف پر پورا اترتے ہیں مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ جاہل بہت ساری باتیں کریں گئیں جن میں سے کم از کم یہ بات ہوگی کہ "یہ بندہ جیل میں ہے اس لیے کچھ نہیں جانتا"۔ میں جوابا کہتا ہوں کہ اللہ گواہ ہیں کہ میں ان سے زیادہ جانتا ہوں ۔مسئلہ ہرگز یہ نہیں ہے کہ مجھے معلومات نہیں مل رہیں بلکہ دراصل یہ ہے کہ میں ان معلومات میں سے بہت کم ہی افشا کرسکتا ہوں ،میں اس مقام پر نہیں ہوں کہ میں ہرروز دوسروں کی طرح ایک نیا بیان جاری کرسکوں اور یہی وجہ ہے کہ میدان ان جیسے جہلاء کے لیے خالی پڑا ہے جو کے الدولۃ کے ساتھ یوں چمٹے ہوئے ہیں جیسے ایک جاہل اپنے قبیلے کیساتھ جہالت کیوجہ سے چمٹا ہوتا ہے ۔میرا یہ خطاب صرف ان لوگوں تک ہی محدود نہیں ہے اگر دین میں کوئی بدعت پھیلتی ہے تو اسکی مثال کتے کی بیماری کی طرح ہے جو کے ہرروز اسے اندر باہر سے کمزور و اندھا بنارہی ہوتی ہے ۔ میں اللہ تعالی کا شکر گزار ہوں کہ معاملات اس حد تک پہنچے اور جہادی صفوف کی صفائی ہوئی اور اہل جہاد و اہل بدعت میں فرق واضح ہوگیا۔ میں مجاہدین شام کے دکھ کو محسوس کرسکتا ہوں جو کے انہیں ان لوگوں کے جرائم کی وجہ سے پہنچا ہے ،جو کبھی انکے ساتھ ملکر غداروں سے لڑرہے تھے لیکن انکے جنون و انتہا پسندی نے انہیں اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ وہ اپنے سابقہ ساتھیوں کا خون بھی حلال کربیٹھے ہیں !۔

میں ان تمام مجاہدین کو جو ان سے محبت رکھتے ہیں دعوت دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ کی حدیث کو غور سے پڑھیں اور سمجھیں (کہ میری امت میں ایک گروہ بقیہ رہے گا)۔ یہ اسلیے کے وہ سمجھیں کہ یہ ایک گروہ (مجاہدین)ہمیشہ رہنے والا ہےجسکو یہ (الدولۃ کے خوارج )جہادی رہنماوں ،انکے کمانداروں اور انکو جنہوں نے جہاد کا پودا اپنے خون سے سینچا ہے اور اپنے خاندانوں و زندگیوں کی اسکے لیے قربانی دی ہے ،مار کر توڑنا چاہتے ہیں!۔اور ایسا کرنے کے بعد یہ خوفناک بیانات جاری کرتے ہیں !۔میں اس لیے جبھۃ النصرہ میں علم سے محبت رکھنے والوں اور اسکے طالبین ،ڈاکٹر سامی العریدی حفظہ اللہ ، ابوماریہ العراقی حفظہ اللہ اور عبداللہ الشامی حفظہ اللہ اور انکے ساتھ ساتھ ڈاکٹر المحسینی کے صبر اور انکی کوششوں کا شکر گزار ہوں جو انہوں نے ان جاہلوں کے پھیلائے ہوئے شبہات کا جواب دینے کے لیے کی ہیں ۔میں یہاں الشام کے سارے اہل علم کا تذکرہ نہیں کرسکتا ۔ شام کا جہاد جہاں بدترین دشمن کے ہاتھوں مصائب کا شکار ہے وہاں ایسے جہلاء کے ہاتھوں بھی مصائب کا شکار ہے جو کے جہاد سے محبت رکھتے ہیں یہ بھی جہاد کو اسی طرح نقصان پہنچا رہے ہیں جیسے کے دشمن پہنچا رہا ہے ۔ایمان دار لوگوں کو انکے جرائم کے مقابلے پر صبر کرنا چاہیے ،اہل علم اور اہل فراست کو اس حدیث پر غور کرنا چاہیے(میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کرتا)۔یہ حدیث نہ خیبر کے یہود سے متعلقہ ہے اور نہ ہی یہ قریش پر منطبق کی جاسکتی ہے حالانکہ وہ رسول اللہ کے سب سے سخت دشمن تھے ،اسکی وجہ یہ ہے کہ ان خوارج کا کتوں کے پاگل پن کی طرح کوئی علاج نہیں کیا جاسکتا اور ان میں سے اگر کوئی ایک بھی زندہ بچ گیا تو وہ امت محمدیہ کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوگا ۔ اس گروہ خوارج کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے ۔

اگر ان میں سے ایک یا دو بھی زندہ بچ جائیں تو یہ اپنی گمراہی صحراوں میں اور ان جگہوں پر تیزی سے پھیلا دیں گئیں جہاں علم کی کمی ہو جسکا نتیجہ انکے دوبارہ ابھرنے کی میں نکل سکتا ہے ،الدولۃ کا گروہ وہی خوارج کا گروہ ہے جو کے ماضی میں پایا جاتا تھا ،ان دونوں میں رتی بھر بھی فرق نہیں ہے ۔ اگر سوال کرنے والا انکے متعلق فتوی پوچھے یا اسکی دلیل طلب کرے تو اسے اہل جہاد کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔یہ بات ورطہ حیرت میں ڈالنے والی ہے کہ یہ ذلت کی اس انتہا پر پہنچ گئے ہیں کہ انہوں نے اہل جہاد کو بھی اپنا دشمن بنا لیا ہے !انہیں مرتدین کہتے ہیں انکے رہنماوں کو قتل کرتے ہیں اور ان کے اموال کو حلال سمجھتے ہیں ! ان امور کے بعد شک و شبہ کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے ؟ یہ میرا انکے متعلق فتوی ہے اور میں اسکے لیے اللہ کے سامنے جوابدہ ہوں اور اگر یہ جہاد کے حق میں نہ ہوتا اور مجھے خاموش رہنے میں حکمت محسوس ہوتی تو میں ضرور ایسا ہی کرتا ۔ اللہ گواہ ہے کہ میرا  ان الفاظ کا مقصد صرف نصیحت کرنا ہے اور سنت پر عملدارمد کرنا اور جہلاء کے شر کو رفع کرنا و جہاد کو ان سے پاک کرنا ہے ۔یہ الفاظ میں ایسی جگہ(جیل خانہ) سے کہہ رہا ہوں جہاں سے میں اس فتوی پر اٹھنے والے سوالات کا جواب یا ان اعتراضات کا جواب نہیں دے پاوں گا جو کے اس فتوی سے متعلق اٹھائیں جائیں گئیں ۔زندگی کی نعمت تھوڑی ہے اور اسمیں اللہ ہی کو خوش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جتنی بھی کوئی کرسکے ۔جو کچھ میں نے اوپر کہا ہے وہی دوسرے علماء کا بھی فرمانا ہے جو کے اسی منہج سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ہر کوئی اپنے طریقہ اور تاویلات رکھتا ہے ۔ اللہ تعالی ہم سب کی صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرے اور اس بات کی جانب جو کے اللہ کو خوش کرتی ہے اور اسے پسند ہے ۔اللہ تعالی جہاد کو اور مجاہدین کو فتح عظیم سے نوازے ۔ آمین

آپکا بھائی
ابوقتادہ
28 اپریل،2014
منقول:(آن لائن بلاگ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں