اتوار، 28 دسمبر، 2014

جماعت قاعدۃ الجہاد کا جماعت (دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) سےتعلق کی بابت بیان

بسم اللہ الرحمن الرحیم
جماعت قاعدۃ الجہاد کا
جماعت (دولۃ الاسلامیہ فی العراق و الشام) سےتعلق کی بابت بیان


تنظیم قاعدۃ الجہاد / قیادتِ عامہ
– بیان کا متن –



الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وآله وصحبه ومن والاه،

بعدازاں:

اول:
جماعت قاعدۃ الجہاد اعلان کرتی ہے کہ اُس کا جماعت( الدولۃ الاسلامیہ فی العراق والشام) سے کوئی تعلق نہیں ہے۔نہ ہی اُس کے قیام میں کوئی معاونت کی گئی ہے ، نہ اُس کے قیام کا جماعت قاعدۃ الجہاد نے حکم دیا ہے ، نہ ہی مشورہ،اور نہ جماعت قاعدۃ الجہاد اِس پر راضی ہوئی ہے بلکہ اُسے اِس نام سے کام کرنے سے منع کیا ۔ اس لیے یہ جماعت قاعدۃ الجہاد کی کوئی شاخ (فروع)نہیں ہے، نہ ہی کوئی تنظیمی تعلق اِن دونوں کو آپس میں جوڑتا ہے اور نہ ہی جماعت اُس کےافعال کی ذمہ دار ہے۔

جماعت کی شاخیں وہ ہیں جن کا اعلان جماعت قاعدۃ الجہاد کی قیادت عامہ کرتی ہے، اور ان کو تسلیم کرتی ہے۔ اس تاکید کے ساتھ ساتھ کہ ہم ہر مجاہد سے دوستی،محبت اور تائید کی یقین دہانی کراتے ہیں اور ہم مسلمانوں اور مجاہدین کے مابین اخوت کے رشتے کے حریص ہیں۔

دوم:
جماعت قاعدۃ الجہاد جہادی عمل سے متعلق بعض اہم کاموں کی تاکید کرتی ہے:

- شوری، اجتماعی عمل اور اہم فیصلوں میں مجاہدین کے مابین اور ان کی قیادت کے اقرار کے بعد حتمی فیصلوں کو کرنے کا حریص ہونا۔

- اس بات کا حریص ہونا کہ مجاہدین کے مابین اختلافات آپس میں مل بیٹھ کر حل ہوں ،نہ کہ انہیں ذرائع ابلاغ کی زینت بنایا جائے۔

- اس بات کو یقینی بنانا کہ ہم امت کا حصہ بننے کی کوشش کریں، اس کے حق پر قابض نہ ہوں، نہ ہی اس پر اپنا تسلط جمائیں، اورامت جس کو بھی حکمران منتخب کرنا چاہے، جس میں حکمران بننے کی شرعی شرائط پائی جائیں، اس سے یہ حق چھین لینے والے نہ بنیں، اور اسی طرح جب تک ہم علمائے جہاد اور قیادتِ جہاد اور مسلمانوں اور مجاہدین سے مشورہ نہ کر لیں، تب تک کسی بھی امارت یا دولت (ریاست) کا اعلان نہ کریں، اور زبردستی لوگوں پر (بغیر مشورے) والی امارت اور دولت کو مسلط نہ کریں، اور جو اس (بغیر مشورے کےامارت یا ریاست) کی مخالفت کرے، اسے(دائرہ اسلام یا مسلمانوں کی صف ) سے خارج کرنے میں جلدی نہ دکھائیں۔

- اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ امت بنیادی مسائل پر جمع ہو، اور یہی شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا منہج بھی تھا، جس کے ذریعے انہوں نے جہادی عمل کو پروان چڑھایا اور اس کی دعوت دی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں شہادت سے سرفراز کیا، ہم ان کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں، اور حسیبِ اصلی اللہ تعالیٰ کی ذاتِ اقدس ہی ہے۔اسی منہج کو واضح کرنے اور امت کو جن بنیادی مسائل پر جمع کرنا مطلوب ہے کی وضاحت کرنے کے لیے ہی جماعت قاعدۃ الجہاد نے(وثیقۂ نصرتِ اسلام) جاری کیا۔

- جہادی عمل کو نقصان پہنچانے والے تصرفات اور اختلافات سے نجات حاصل کرنے کا بہت خیال رکھنا، اس مقصد کے لیے جماعت نے (جہادی عمل سے متعلق عمومی ہدایات) کی دستاویز کو نشر کیا۔

- ہر اس تصرف سے سے برات کا اعلان کیا جائے جوکسی مجاہد، مسلمان یا کافر پر ظلم سے متصف ہو۔

اور یہاں ہم شا م میں مجاہدین جماعتوں کے درمیان ہونے والے فتنہ سے برات کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم اس ناحق بہائے گئے خون سےبرات کا اظہار کرتے ہیں، خواہ وہ کسی طرف بھی بہائے گئے ہوں، اورہم سب کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اللہ کا تقوی اختیار کریں، اور اپنے اوپر موجود بھاری ذمہ داری کو پہنچانیں، اور اس فتنہ کا تدارک کریں جو یہاں تک پہنچ چکا ہے، اور جس کی وجہ سے امتِ مسلمہ کےمستقبل اور جہادِ شام پر ایک سنگین آفت آن پڑی ہے۔

ہم ہرخردمند ، دین دار اور جہاد کی حرص رکھنے والے کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اِس فتنے کے خاتمے اور فوری طور پر جنگ بندی کے لیے عملی کوشش کریں، پھر مجاہدین کے مابین تنازعات کا فیصلہ کروانے کے لیےشرعی عدالتوں کا رخ کریں جو مجاہدین کے مابین موجود ہیں ۔

سوم:
ہم اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ ہمارے اور باقی تمام (افراد اور جماعتوں) سے متعلق نصیحت کا دروازہ کھلا ہے، اور بلاشبہ ایک مسلم مجاہد پر اخوت، نصرت، ولایت کا حق باقی رہتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائے۔

اور ہم خود کو بھی ان تمام (امورِ متعلقہ) سے بھی پاک نہیں گردانتے۔ (ہمیں بھی ان کی ضرورت بہرحال ہے)

وَمَا أُبَرِّئُ نَفْسِي إِنَّ النَّفْسَ لأَمَّارَةٌ بِالسُّوءِ إِلاَّ مَا رَحِمَ رَبِّيَ إِنَّ رَبِّي غَفُورٌ رَّحِيمٌ
میں کچھ اپنے نفس کی براءَت نہیں کر رہا ہوں، نفس تو بدی پر اکساتا ہی ہے الا یہ کہ کسی پر میرے رب کی رحمت ہو، بے شک میرا رب بڑا غفور و رحیم ہے (۱۲: ۵۳)

إِنْ أُرِيدُ إِلاَّ الإِصْلاَحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِيقِي إِلاَّ بِاللّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
میں تو اصلاح کرنا چاہتا ہوں جہاں تک بھی میرا بس چلے اور یہ جو کچھ میں کرنا چاہتا ہوں اس کا سارا انحصار اللہ کی توفیق پر ہے، اُسی پر میں نے بھروسہ کیا اور ہر معاملہ میں اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں (۱۱: ۸۸)

وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين، وصلى الله على سيدنا محمد وآله وصحبه وسلم

جماعت قاعدۃ الجہاد / قیادتِ عامہ
۲۱ ربیع الاول ۱۴۳۵ھ

مصدر:
http://justpaste.it/ea9k


بدھ، 10 دسمبر، 2014

تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق
کاتب /محمد فيزو
ٹویٹر/ @fezoo111


طرفین کو حسبِ معرفت جاننے کے بعد ہم بعض انٹرنیٹ تویٹس کو اس عنوان کے تحت نشر کرتے ہیں
[تنظیم القاعدۃ اور جماعت الدولۃ میں فرق]

القاعدہ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ امت کا ایک جزو ہے جو کہ امت کے داخلی اور خارجی دشمنوں سے جہاد کرنے پرکھڑی ہے؛
جبکہ دولۃ اس بات کو سامنے لاتی ہے کہ وہ خود امت ہے، اور اسی کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی رکھتی ہے۔
....................
القاعدہ اس چیز کی کوشش کرتی ہے کہ خلافتِ راشدہ کی اقامت شوری کے منہج پر کی جائے،
جبکہ دولۃ اقامتِ خلافت کو تغلب کےاصول پر قائم کرنا چاہتی ہے،
دونوں فریقین نے اپنے مقالات کو اس پسِ منظرمیں عمل کے ذریعے وضاحت کی ہے۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ تمام اسلامی قوتوں کے ساتھ مل کر مشترک ہدف کے حصول کی کوشش کی جائے،
جبکہ دولۃ یہ سمجھتی ہے کہ باقی تمام اسلامی قوتیں ان سے الگ ہیں،
جس کا سبب ان کا کسی تنازع سے متعلق خوف ہے یا کسی بہتر حکومتی منصوبے کا سامنے آنا ہے۔
....................
القاعدہ منہج میں اپنے مخالفین کے ساتھ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت پر قائم ہے،
اور دین کے دشمنوں کے خلاف وہ تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے،
جبکہ دولۃ کتاب اللہ کے ذریعے ہدایت فقط اپنے ماتحت لوگوں تک محدود رکھتی ہے،
اور اپنے مخالفین کے خلاف تلوار کے ذریعے نصرت کرنے کی قائل ہے۔
....................
القاعدہ امت کو جہاد کے ذریعے تحریض دلانے کی کوشش کرتی ہے، اور اس کے وجوب کو اجتماعی اور منفرد سطح پر واضح کرتی ہے،
دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنی بیعت(جھنڈا اور امام) کی بیعت کے علاوہ درست نہیں جانتی جیسا کہ فرقہ جامیۃ وغیرہ اہل سنت سے مخالفت کرتے ہوئے یہی اسلوب رکھتےہیں۔
....................
القاعدہ کوشش کرتی ہے کہ امریکہ کے خلاف امت کا دفاع کیا جائے تاکہ وہ اسرائیل اور آلہ کار حکومتوں کی حمایت سے باز آ جائے،
جبکہ دولۃ اس کو جیسا کہ عدنانی نے کہا ویسے دیکھتی ہے کہ اگر تم ہمارے پاس نہیں آؤ گے، تو ہم تمہارے پاس آ جائیں گے، یہ فقط فتوحات کو خود سے منسوب کرتی ہے۔
....................
القاعدہ تب تک کسی کو قائد کے طور پر منتخب نہیں کرتی جب تک وہ طویل جہادی تجربہ سے نہ گزر جائے اور شریعت کا التزام نہ کرتا ہو،
جبکہ دولۃ اپنے قائدین کے انتخاب کو فقط اپنی بیعت کے ساتھ مخصوص کرتی ہے اور شریعت کی پابندی کو اپنی ولایت(بیعت) سے زیادہ اہمیت نہیں دیتی ہے۔
....................
القاعدہ اپنے مخالفین کو پیغامات کے ذریعے نصیحت کرکے مخاطب کرتی ہے جیسا کہ شیخ اسامہؒ نے اپنے پیغامات میں حماس کو نصیحت کی۔
جبکہ دولۃ اپنے مخالفین پر تکفیر کے ذریعے مخاطب ہوتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے مرسی سے متعلق خطاب میں بیان کیا۔
....................
القاعدہ ہر نیک اورفاجر کے ساتھ جہاد کرتی ہے جیسا کہ افغانستان اور شام میں جہاد ہو رہا ہے،
جبکہ دولۃ کسی بھی جہاد کو اپنے بیعت کے علاوہ نہیں دیکھتی ہے، جس طرح کہ عدنانی نے(دولۃ کے مخالفین) سے متعلق کہا کہ گولیوں سے ان کے سروں کو خالی کر دو۔
....................
القاعدہ الولاء اورالبراء کے قاعدے کو تمام مسلمانوں کے ساتھ ان کےمختلف مراتب کو پیش ِنظر رکھتے ہوئے ملحوظ رکھتی ہے ،
جبکہ دولۃ اسی کے ساتھ ولاء (دوستی)کرتی ہے جو اس کے ساتھ ولاء(بیعت) کرے اور ہر اس کے ساتھ دشمنی رکھتی ہے جو اس سے دشمنی رکھے اگرچہ وہ علمائے امت میں سے کیوں نہ ہوں۔
....................
القاعدہ کے ساتھ بہت سے علماء ہیں جو ان کی تائید کرتے ہیں، وہ کسی عالم پر بھی اس بات کو لازم نہیں ٹھہراتی کہ وہ ان کی تنظیم میں ضم ہوں، اور اس بات کی کوشش کرتی ہے کہ سب علماء کے ساتھ رابطہ رکھا جائے،
جبکہ دولۃ کسی کو بھی عالم نہیں ٹھہراتی جب تک وہ ان کی تائید نہ کرے، اور اگر کوئی ان کے خلاف بات کر دے، تو اسے ترک کر دیتی ہے!
....................
القاعدہ اس بات کو کفر کے طور پر دیکھتی ہے کہ مسلمین کے خلاف کفار کی معاونت کی جائے، لیکن وہ بھی تب جب کہ وہ قطعی طور پر برہان اور ثبوت سے ظاہر ہو جائے، جیساکہ اسامہ بن لادنؒ نے بیان فرمایا،
جبکہ دولۃ ظن اور شبہات پر بھی تکفیر کرتی ہے۔
....................
القاعدہ مال کی وصولی کے لیے شریعت کی مطابقت کو ملحوظ رکھتی ہے اگرچہ مالی حاجت ہی کیوں نہ ہو ،
جبکہ دولۃ اپنی تنظیم کی مصلحت کے لیے اس کو جائز سمجھتی ہے، جیسا کہ موصل(عراق کا شہر) کے بینکوں پر غلبہ پا کر مال کی وصولی اور ٹیکسوں کے اجراءوغیرہ کے ذریعے مالی ضروریات کو پوراکیا گیا۔
....................

کاتب /محمد فيزو
مصدر:
http://justpaste.it/hh5f

اتوار، 7 دسمبر، 2014

موانعِ تکفیر(کسی خاص کلمہ گو کو کافرقرار دینے میں احتیاطیں)

بسم اللہ الرحمن الرحیم
موانعِ تکفیر(کسی خاص کلمہ گو کو کافرقرار دینے میں احتیاطیں)
مولاناعاصم عمر حفظہ اللہ
مسؤول عام: جماعت قاعدۃ الجہاد برِ صغیر


موانعِ تکفیر سے مراد وہ رکاوٹیں ہیں جو کسی مرتکبِ کفر شخص کو کافر ہونے سے بچاتی ہیں۔ اگر کوئی کفریہ قول یا فعل کسی مسلمان سے سرزد ہو جائے تو شریعت ان پر ایک دم کافر ہونے کا حکم نہیں لگاتی بلکہ کچھ توقف کرتی ہے، یعنی کسی مسلمان کے کفریہ قول و فعل کے باوجود اس کو ایک دم کافر نہیں کہتی۔ بلکہ اس صورت میں چند باتیں ایسی ہیں جو اس کو کافر ہونے سے بچا سکتی ہیں، جن میں سے اہم موانع کی طرف مختصراً اشارہ یہاں کیے دیتے ہیں:

۱) عذرِ جہل:
جہالت یا لا علمی کا عذر کسی مسلمان سے کفریہ قول یا کفر کا ارتکاب ہونے کے باوجود بہت سی صورتوں میں خود اس مسلمان کو کافر قرار دینے میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ اس بات کو تمام اہل ِ علم نے فتوے کے اصول و آداب میں نقل کیا ہے۔ پھر بالخصوص جمہوریت جیسے مبنی بردجل نظام کی بحث میں جہاں جمہوریت کی حقیقی شکل اور اس کے شرعی حکم سے جاہل ہونے کے بیسیوں اسباب آج موجود ہیں، بہت سے نامور علماء اس کے حق میں فتوی دے چکے ہیں جس کے سبب عوا م مغالطے میں پڑ گئے ہیں، جمہوریت کی مخالفت کرنے علماء کے بزور گلے گھونٹ کر ان کی آواز عام مسلمان تک پہنچنے سے روکی جا رہی ہے۔

ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو یقیناً کسی فرد کے جمہوریت کو درست سمجھنے یا جمہوری نظام میں شامل ہونے کی بنا پر اسے کافر قرار دینے سے قبل جہالت کے عذر کو سامنے رکھنا مفتی کا اہم ذمہ داری ہے۔ کم از کم جو لوگ اس نظام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے یا اس کاکفر ان پر واضح نہیں ہوا، وہ معذور قرار دئے جائیں گے اور اگرچہ وہ ایک نہایت خطرناک جرم میں مبتلا ہیں لیکن ان پر کفر کا فتوی لگانے سے قبل توقف اختیار کرنا، تحقیق کرنا اور جہل دور کرنا ضروری ہے۔ علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’الاشباہ والنظائر‘‘ کےفن’الجمع والفرق‘ میں اور ’الیتیمہ‘ مذکور ہے:

’’جس شخص نے اپنی جہالت کی بنا پر یہ گمان کر لیا کہ جو حرام و ممنوع فعل میں نے کیے ہیں وہ میرے لیے حلال و جائز ہیں، تو اگر وہ (افعال و اعمال) ان امور میں سےہیں جو کا دینِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونا قطعی اور یقینی معلوم ہے(یعنی ضروریاتِ دین میں سے ہیں) تو اس شخص کو کافر کہا جائے گا، ورنہ نہیں‘‘ (اکفارالملحدین: ۱۹۷)

۲)اکراہ (یعنی مجبوری)
کسی کفر کو کرنے کے لیے جان سے مارنے یا جسم کا اساسی عضو تلف کرنے کی دھمکی دی جائے اور غالب گمان بھی یہ ہو کہ اگر اس نے کلمۂ کفر نہیں کہا تو اسے قتل کر دیا جائے گا یا اس کے جسم کا کوئی اساسی عضو تلف کر دیا جائے گا، اسی صورت میں کلمۂ کفر اس شرط کے ساتھ کہنے کی اجازت ہے کہ اس کا دل ایمان پر جما ہو اور مطمئن ہو۔ ہاں، افضل یہی ہے کہ وہ کلمۂ کفر کی بجائے وہ شہید ہونے کو ترجیح دے۔ ایسے جبر کو شریعت کی اصطلاح میں ’اکراہ‘ کہتے ہیں۔ البتہ واضح رہے کہ ’’مجبوری‘‘ (اکراہ) کی وجہ سے ہر جرم کے ارتکاب کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جیسا کہ اپنی جان بچانے کے لیے کسی دوسرے مسلمان کی جان لینا، اپنا ملک بچانے کے لیے دیگر مسلمانوں کے خلاف کافروں کا ساتھ دینا وغیرہ؛ مجبوری کا عذر بنا کر یہ سب شنیع اعمال کرنا درست نہیں ہو گا۔ پش اکراہ بھی کسی کی تکفیر میں مانع ہو سکتا ہے، یہ ایک مفصل بحث ہے جس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔

۳) تاویل کا عذر:
کسی مسلمان میں کفریہ چیز پائی جانے کے باوجود اس کا کافر قرار دئے جانے میں ایک رکاوٹ ’’تاویل‘‘ بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً کسی کا یہ تاویل کر کے جمہوریت میں اترنا کہ اگرچہ وہ اس نظام کو غلط سمجھتا ہے لیکن چونکہ اس کے خیال میں اسلامی حکومت قائم کرنا کا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں بچا اس لیے وہ اس کے ذریعے سے شریعت لانے کی کوشش کرے گا۔ اگرچہ ہمیں اس تاویل سے اختلاف ہے اور اس تاویل کو غلط ثابت کرنے کے لیے درجنوں دلائل دینا ممکن ہے، اور اگرچہ اس تاویل کے ساتھ بھی اس غلیظ کفریہ نظا م میں شریک ہونا ایک سنگین جرم ہے، لیکن یہ تاویل بہت سی صورتوں میں جمہوریت میں شریک شخص کو کافر قرار دئے جانے سے روک دیتی ہے۔ یہی تاویل وہ فرق ہے جو سیکولر دین دشمن جماعتوں اور جمہوریت میں شریک دینی جماعتوں میں فرق کرنے کا باعث ہے۔ اور یہ تفریق کرنا اور سب کو بلا تفریق ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے سے رکنا ضروری بھی ہے۔ الغرض، تاویل میں کسی کو کافر قرار دینے میں مانع ہو سکتی ہے، البتہ شریعت میں اس کی تفصیل بھی موجود ہے کہ کون سے تاویل قابلِ قبول ہے اور کن مواقع پر۔

کسی پر کفر کا حکم لگانا عام آدمی کا کام نہیں:
بعض موانعِ تکفیر کا بیان ہم نے یہاں اختصار سے کر دیا تاکہ قارئیں اس فرق کو اچھی طرح ذہن نشین کرن لیں کہ نظام ِ جمہوریت و دینِ جمہوریت کا فکر بے شک ثابت شدہ ہے، لیکن اس میں شریک متعین افراد یا جماعتوں پر حکم لگانا ہمارا مطمع نظر نہیں۔ نیز جمہوریت کو کفر کہنے سے سیدھا یہ لازم نہیں آتا کہ اس میں کسی بھی سطح پر اور کسی بھی انداز سے شریک ہونے والے تمام لوگ ہمارے نزدیک بلا تفریق دین سے خارج ہو گئے ہیں۔ یہ نہ تو ہم نے کہا ہے اور نہ ایسی غیر محتاط اور مبنی برغلوآرا اختیار کرنا مجاہدین کا طریقہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہمہ وقت ہمارے پیش نظر رہنا چاہیے:

اذا قال الرجل لاخیہ یا کافر فقد باء بہ احدھما۔ (بخاری)
’’جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا‘‘۔

اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس کو کافر کہا گیا ہے، اگر اس میں واقعی کفریہ بات ہے تو پھر تو وہ کافر ہے، لیکن اگر اس میں کوئی کفریہ بات نہیں ہے، اور اس نے بغیر تحقیق کے اس کو کافر کہہ دیا، تو پھر اب یہ کہنے والا خود ایک بہت سنگین گناہ کو مرتکب ہوا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا یجتمع رجلان فی الجنۃ احدھما قال لاخیہ: یا کافر (مسند اسحاق بن راھویہ؛ الجزء الاول: ص ۴۶۲)
’’وہ دو آدمی جنت میں اکھٹے نہیں ہوں گے جن میں سے ایک نے دوسرے مسلمان بھائی کو کافر کہا‘‘۔

یعنی جس کسی نے کسی مسلمان کو کافر کہا(جس کے اندر کوئی کفریہ بات نہیں تھی) تو یہ کہنے والا ایسا عمل کر گیا جو اسے جنت سے محروم کر سکتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص کسی کفر میں مبتلا ہے تو عام آدمی اس کو اس وقت تک کافر نہ کہے جب تک علمائے حق اس کے کافر ہونے کا فتویٰ نہ دیں، البتہ اس کفریہ عمل کو کفر ضرور کہا جائے گا۔

یوں تکفیر کی بحث کے اعتبار سے ہم لوگوں کو تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

۱)عام مسلمان:
کسی بھی عام مسلمان کے لیے (خواہ مجاہد ہی کیوں نہ ہو)، جائز نہیں کہ وہ ان مباحث کو پڑھ کر عام لوگوں پر یا کسی عالم پر کفر کے فتوے لگاتا پھرے۔ ایسا کرنا یقیناً اس کے ایمان کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ لہٰذہ غیر عام کو صرف اتنا کرنا ہے کہ خود کو اپنے گھر والوں اور اقارب کو اس کفر(جمہوریت) سے بچانا ہے، نہ کہ دوسروں پر حکم لگانا۔

۲)عالمِ دین:
اہل ِ علم حضرات خود کو اس کفر سے بچائیں اور جمہوریت کا کفر لوگوں کے سامنے بیان کریں۔ البتہ کسی خاص جماعت،افراد یا کسی عالم پر کفر کا حکم لگانا ہر عالمِ دین کا کام بھی نہیں ہے کیونکہ اس کام میں علم میں گہرائی ورسوخ کی ایک خاص سطح درکار ہے، جو کم کم علماء کو میسر ہوتی ہے۔

۳) محقق علمائے کرام:
کسی کو کافر کہنا، یہ ہر کس وناکس کا کام نہیں، بلکہ انتہائی نازک مسئلہ ہے۔ چنانچہ محقق علماء ہی اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں ملامت کرنے والوں کی ملامت کی پرواہ نہ کریں اور قیامت کے دن کتمانِ حق کے جرم میں پکڑ لیے جانے سے ڈریں۔ دلی جذبات، نفسانی خواہشات، ذاتی رغبتوں، سب کو ایک طرف رکھ کر علمی قواعد اور فتوے کے آداب و اصولوں کے مطابق حق کو ہر حال میں بیان کریں، خواہ اہل اقتدار اور خوہی الٰہ ورب بن جانے والوں کو کتنا ہی ناگوارکیوں نہ لگے۔ ایک دن سب کو معبودِ حقیقی کے سامنے جا کھڑا ہونا ہے،کامیاب وہی ہے جو اس کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈر جائے اور دنیا کی ہر قوت کے خوف سے آزاد ہو جائے۔ آج بھی موت و زندگی وہی بانٹا ہے، ہر چیز پر اسی کی بادشاہت ہے۔ جیلوں میں زہر کے ٹیکے لگانے والے، علمائے حق اور مجاہدین کو شہید کر کے سڑکوں پر پھینک دینے والے کچھ بھی نہیں !

بشکریہ:
نوائے افغان جہاد

کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا پہلے سےآزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور) کو دوبارہ آزاد کروانے
کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی


سوال:
کیا پہلے سے آزادشدہ علاقوں (مثلاً الرقہ اور دیر الزور[شام کے شہروں کے نام]) کو دوبارہ آزاد کروانے کو جہاد کا نام دیا جا سکتا ہے، اس بات کا علم رکھتے ہوئے کہ جن مجموعات نے انہیں آزاد کروایا،وہ بعد میں دیگر صف ِ اول اور ساحلی معرکوں میں نصیریوں ،حزب اللات اور جماعت ابو الفضل وغیرہ کے خلاف قتال میں مصروف ہیں، جہاں تک جماعت الدولۃ کا تعلق ہے ،تو انہوں نے خود کو ان آزاد شدہ علاقوں پر چڑھائی کے لیے مشغول رکھا ہوا ہے، کیا یہ جہاد ہے؟


جواب:
الحمدللہ رب العالمین

پہلے سے آزاد شدہ کرہ زمین کو آزاد کروانا،جبکہ مجاہد، محبوب شامی عوام اور بیش قیمت لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ طاغوت نصیری سلطے اور اس کے نظام سے آزادی کے لیے پیش کیے ہوں،تو یہ معاملات نقصان ،ضرر اور غداری سے تعلق رکھتےہیں، وہ بھی بغدادی اور اس کی دولتِ مذمومہ کے لیے!

مجاہدین صفِ اول میں طاغوت کے خلاف مشغول ہیں، جبکہ بغدادی اور حزبِ بغدادی اپنے مذموم ارادوں کے ساتھ مجاہدین کے علاقوں اور مراکز پر شر اور نقصان لے کر پہنچ رہےہیں، یہ وہ قابلِ حقارت عمل ہے جو سب سے پہلا فتنہ ہے، جس کا تجربہ اہل شام ان غالیوں کے ساتھ کر رہے ہیں۔

جہاد اس وقت تک مقبول جہاد قرار نہیں پاتا جب تک اس میں یہ دو شروط نہ پائی جائیں:

۱)نیت کا درست ہونا
۲)عمل کا درست ہونا

جہاں تک پہلی شرط کا تعلق ہے تو وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے سپرد ہے، اگر ہمیں اِس(نیت) کا علم نہیں ہوتا،
جہاں تک دوسری شرط کا تعلق ہے جو کہ عمل کے درست ہونے سے متعلق ہے، تو اُن (جماعت الدولۃ) کے درمیان اور اِن (مجاہدین ِ شام) کے درمیان(اعمال کے اعتبار سے) زمین اور آسمان جیسا فاصلہ ہے۔

حدیث میں بیان ہوتا ہے:
[جس نے کسی مومن کو اذیت دی، اس کا کوئی جہاد( قبول) نہیں]

پھران لوگوں کا معاملہ کیسا ہو گا جو اہل شام کے مسلمانوں اور مجاہدین کو اذیت دیتےہیں، اور طاغوت نصیری اور اس کی سپاہ کی تلواروں کے ساتھ ساتھ اپنی تلواروں کو بھی(ان پر حملے کے لیے) جمع کر لیتے ہیں ؟!

عبدالمنعم مصطفی حلیمہ
ابو بصیر الطرطوسی
21.09.2014

مصدر:
http://altartosi.net/ar/?p=4767

ہفتہ، 6 دسمبر، 2014

شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام

بسم اللہ الرحمن الرحیم
شہید ِفتنہ شیخ ابو خالد السوریؒ کی جماعت الدولۃ کوفتنہ کے وقت ناحق تکفیر پرنصیحتِ عام
شیخ ابو خالد السوریؒ

الحمد لله والصلاۃ والسلام علی من لا رسول بعدہ أما بعد:

ان حالیہ واقعات کے پیش نظر جو جہادِ شام میں رونما ہو رہے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ [الدین النصیحه]، کہ دین نصیحت وخیرخواہی کا نام ہے ،( صحابہؓ کہتے ہیں )ہم نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس کے لیے ؟ تونبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اللہ تعالی  اوراس کے رسول ، اورمسلمانوں کے اماموں اورعام مسلمانوں کے لیے، پس ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق وشام‘ کی قیادت اور افراد کو اللہ سے مدد مانگتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں:

اول:
بلاشبہ شیطان اولادِ آدمؑ کے شکار کے لیے ہرجگہ گھات لگائے بیٹھا ہے، اور مجاہدین فی سبیل اللہ کے لیے اس کا وار اُن کو غلو کی طرف اور مسلمانوں کے خون کو حلال کرنے کی طرف لے کر جانا ہے، اور یہ وہ مسلک ہے جس نے الجزائر کے جہاد اور دیگر ساحاتِ جہادکو تباہ کر دیا، پس اس عورت کی طرح نہ ہو جانا جس نے اپنا سوت مضبوط کاٹنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کےتوڑ ڈالا ہو، اورجہادِ شام کو اس(غلو)کی طرف پھیرتے ہوئےفساد میں مت بدلو!

دوم:
بلاشبہ احکامِ تکفیر اور ارتداد کا اطلاق اور اسی طرز پر دیگر گروہوں پرملتے جلتے الزامات جیسا کہ یہ صحوات ہیں کی تطبیق کرنا ،جو ان پر ثابت اور واضح نہ ہوئی ہوں کبائر گناہوں میں سے ہے، اور بہت عظیم جرم اور گناہ ہیں،کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: [جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، تو یہ (تکفیر) ان میں سے کسی ایک پر لازم لوٹےگی]، پھر اس شخص کا معاملہ کیسا ہو گا جو احکاماتِ ارتداد کا اطلاق مجاہدین کی اُن جماعتوں پر کرے جو تحکیمِ شریعت اور اقامتِ دین چاہتے ہیں، جیسا کہ ان قائدین سے ہم واقفیت کے ذریعے جانتے ہیں اور ان کی طرف سے بیان کی گئی خبر سے بھی یہ امرمعلوم ہے ؟

سوم:
آج جو ہم اِن جرائم اور اعمالِ خاطی کے بارے میں سن رہے ہیں، جن کا ارتکاب جہاد اوراقامتِ دولتِ اسلامیہ کے نام پر کیا جا رہا، اور جن کو منسوب مشائخ الجہاد شیخ اسامہؒ، شیخ ایمن الظواہری( حفظہ اللہ)، شیخ عبداللہ عزامؒ، شیخ ابو مصعب السوری (فک اللہ اسرہ) اور شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ کی طرف کیا جا رہا ہے، جو جہاد فی سبیل اللہ کو بلند کرنے جیسے معماروں میں سے ہیں، تو یہ اعمال ان قائدین کے منہجِ سلیم سے بہت ہی دور ہیں۔میں تمہیں ایک ایسے نصیحت کرنے والے کی حیثیت سے خبر دیتا ہوں، جس نے ان اکابرین کے ساتھ عمر کا ایک حصہ گزارا اور ان کو قریب سے جاننے کی معرفت کا حق بھی ادا کیا ، بلاشبہ یہ اکابرینِ جہاد اِن تمام اعمال سے بری ہیں جو آج ان کی طرف منسوب کیے جا رہے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے وہ بھیڑیا حضرت یعقوب ؑ کے بیٹے (حضرت یوسفؑ) کے خون سے بری تھا، پس تمہیں تلبیس کرنے والوں کی تلبیس دھوکےمیں نہ ڈالے، اور نہ ہی جھوٹی خبریں پہنچانے والے تمہیں کوئی نقصان پہنچائیں۔

چہارم:
کفار پر عزت اور اللہ کی زمین پراللہ کے دین کی تمکین جہاد فی سبیل کے ذریعے اس وقت تک کفایت نہیں کرے گی ،جب تک ہم تمام مومنین کے سامنے عاجزی اختیار نہ کر لیں اور ان کو نصیحت نہ کر لیں؛ عامۃ المسلمین اور باقی مجاہدین کے ساتھ غرور وتکبر کا معاملہ اہل تمکین کی اپنائی ہوئی راہ نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ اُس کا راستہ ہے، بےشک اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ انکساری اختیار کریں، اور کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے، نہ ہی ایک دوسرے پر ظلم کرے، چنانچہ کسی بندے کے دل میں اپنے بھائیوں پر فخر کا پیداہونا ،اسے ان کے خلاف ظلم کی طرف ہی اکساتا ہے، اور بدقسمتی سے یہی وہ چیز ہے جو آج ہم ساحاتِ شام میں دیکھ رہے ہیں۔

پنجم:
اس داخلی جنگ و قتال سے سب سے فائدہ اٹھانے والا نظامِ (بشار) اسد ہے؛ ان جماعتوں کا صفِ اول سے پسپائی اختیار کرنا، اور آپس میں جنگ وقتال کا ہونا، اُن پر احکاماتِ ارتداد کا اطلاق کرنااوران کے جان و مال کو حلال کرنا، اس بنیاد پر کہ صرف ہم ہی اکیلے خیار(امت کے بہترین نیکوکار لوگ) میں سے ہیں اور ہمارے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہے اورباقی سب کو اس سبب دفع کرنا لازم ہے جیسے فکر وعمل سے ہر اول دستے کمزور ہو جائیں گے اور بشاری نظام پیش قدمی کرتے ہوئے اپنی پہلی حالت پر مستحکم ہو جائے گا، لیکن ساتھ اس کے مجاہدین کے درمیان عداوتیں ہوں گی اور شامی عوام کواِس کا خسارہ اٹھانا پڑے گا، اور یہ اسلامی منصوبے سے عوام کی نفرت کا سبب بنے گا۔

ششم:
یہ خون جو شہداء نے بشاری نظام کو گرانے اور علاقوں کو آزاد کروانے کے لیے پیش کیا ، وہ اس مقصد کے لیے نہیں تھا،وہ صرف اسی لیے پیش کیا گیا تاکہ اقامتِ شریعت اور صفوں کی وحدت ہو سکے، [آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گےاورتمہاری ہوا اکھڑ جائے گی] ،پس جہاد کی ہواکو اکھیڑنے سےگریز کرو اوراس کا سبب نہ بنو، بلاشبہ خالق کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔

ہفتم:
جماعت ’دولت ِ اسلامیہ عراق و شام‘ کا اِن مجاہدین کےمعاملات پر اصرار کرنا، جنہوں نے ملک کو آزاد کروایا اور اس کے لیے شہداء کو پیش کیا، اور ان(جماعت الدولہ) کا یہ کہناکہ یہ جماعتیں ہیں اور یہ دولت (ریاست) ہے، اصلاً لوگوں کے حقوق کو کم کرتا ہے، اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتے ہیں:[ لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو]، اور یہی وہ بات ہے جو نہایت ضروری ہے، اوریوں شام کے میدانِ جہاد میں وہ پیچیدگی داخل ہو گئی جس سے وہ(جہاد) بری ہے، پس اس راہ سے نکلنے اور حل کی طرف جانے کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق کا اعتراف کیا جائے اور قرآن کے حل(اور ان کا کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے) کی طرف جایا جائے۔

اختتاماً:
ہم جماعت ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ کے قائدین اور مہاجرین و انصار بھائیوں کو جو دولۃ کےسپاہ میں سے ہیں کو کہتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں اور اس کے امر اور شریعت کی طرف آئیں، اور ہم آپ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے تنبیہ کرتے ہیں [جو میری امت پر دست درازی کرے کہ اچھے بروں کو قتل کرے اور مومن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہے اس کا عہد بھی پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے تعلق نہیں رکھتا]

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنائیں جوبات کو سننے والے ہوں، اس کی بہترین انداز میں پیروی کرنے والے ہوں، اور جو کسی ملامت کرنے والےکی ملامت کا خوف نہ رکھنے والے ہوں۔ (آمین)

شہید فتنہ شیخ ابو خالد السوری (رحمہ اللہ)

مصدر:
https://justpaste.it/khalid0

آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش اور دولتِ دواعش کے نام سے پکارتے ہیں؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش اور دولتِ دواعش
کے نام سے پکارتے ہیں؟

شیخ ابو بصیر الطرطوسی

سوال:
آپ کیوں جماعت الدولۃ کو داعش، اور ان کی دولت کو دولتِ دواعش کے نام سے پکارتے ہیں۔۔۔ اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کہ دولتِ اسلامیہ کا رقبہ تو بعض دیگر مملکتوں سے بھی بڑا ہو چکا ہے؟

جواب:
الحمد لله رب العالمين
ہم جماعت الدولۃ کو خوارج [داعش]، اور ان کی دولتِ خوارج کو[ دواعش] تین اسباب کی وجہ سےکہتے ہیں:

اول:
کیونکہ یہ نام ان کی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہے،جس کے یہ شرعی طور پر مستحق ہیں۔

دوم:
کیونکہ کلمہ [داعش] ایک طویل اِسم کا اختصار بھی ہے،اور اس کلمہ کے ساتھ نہ ہی کوئی حمد نہ ہی ہتک منسوب ہے!

سوم:
یہ ضروری ہے،کیونکہ امریکہ اور مغرب، اور منافق عرب ذرائع ابلاغ اِن کو ’دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘ سے پکارتا ہے،اور بعض اوقات انہیں دولتِ خلافت کے نام سے بھی پکاراجاتا ہے،اور یہ ان ذرائع ابلاغ کی جانب سے انصاف اور ان کی توصیف پر مبنی برحق بات نہیں ہے،نہیں بالکل نہیں،یہ ان کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے لیےاس کو مخصوص کر کے معمول بنا لینا ان کی طرف سے انصاف نہیں ہے، اس معمول کے استعمال کے پیچھے یہ اپنی عوام اور دیگر اقوامِ عالم میں بسنے والوں کویہ بتانا چاہتےہیں، کہ دیکھو یہ ہے وہ [دولتِ اسلامیہ] یا [خلافۃ الاسلامیہ] جس (خلافت) کی دعوت یہ مسلمان ۱۰۰ سال سے دےرہے ہیں،اور اسی کے لیے کوشش کر رہے ہیں،اور اسی کے لیے جہاد کر رہے ہیں، یہ ہے ان کی صفات و خصائل،اخلاقیات و اصول، اب محاسبہ کرو اِن مسلمانوں کی اس دولت کا جس کی یہ پکار لگا رہے تھے ، پھر ان سلوک، اخلاقیات، غلو، غدر، جرائم اور دولتِ بغدادی کی حقیقت دیکھ لو، چنانچہ جو کوئی بھی دولتِ اسلامیہ کے قیام کی بات کر رہا ہے، وہ تو اس دولت کا قیام دولتِ بغدادی کے طریقہ پر ہی کرنا چاہے گا!

یہ(ذرائع ابلاغ) ان ناموں کے استعمال سے چاہتے ہیں کہ وہ اسلام کی ایک سیاہ مسخ شدہ صورت سامنے لے کر آئیں، اور لوگوں کو دکھائیں کہ یہ وہ دولت ہے جس کے لیے اسلام سعی کرنے کا کہتا ہے، لہٰذہ ان اسماء کی مخالفت کرنا واجب ہے، اور اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ دولت‘ اسلام کی مثال نہیں ہے، نہ ہی یہ (دولتِ بغدادی)اس لقب اور صفت کی مستحق ہے کہ اسے دولتِ اسلامیہ کہا جائے، علاوہ ازیں کہ اسے خلافتِ اسلامیہ کے نام سے پکارا جائے، بلاشبہ اس کا نام دولتِ داعش یا دولتِ خوارج دواعش ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں!

اور یہ قول کہ”دولتِ اسلامیہ عراق و شام‘‘ یا ’’دولتِ خلافت ِاسلامیہ‘‘ کے نام کے استعمال سے اللہ کے دشمن صلیبی اور مرتدین غضب ناک ہوتے ہیں، تو یہ مرکزی حقائق اور اس کے برعکس بات ہے، نہ ہی اس بات پر فہم راضی ہے اور نہ ہی حقیقت کے علم سے متعلق اس کا معاملہ ہے، بلکہ اس نام کے استعمال اور اس کی غلط توصیف سے بہت سے اصول، قدر اور اخلاقِ اسلام کوعظیم ضرر پہنچتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ اس عادل راشد دولتِ اسلامیہ کو بھی نقصان پہنچے گا، جس کے لیے سب مسلمان کوشش کر رہے ہیں۔

اس بات پر غوروفکر کرو کہ کتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کوپہنچے گا،جب آپ ڈاکو، راہزن،قاتل، غدار،مجرم کوجو نہ ہی عہد کا پاس رکھتا ہے نہ ہی اسے نبھاتا ہے،او ر غداری اور رہزنی کے ذریعے حقوق اور حرمات کو جائز قرار دیتا ہے، یہ مسلمانوں کا امام اور یہی خلیفہ(بغدادی) مطلوب ہےاور یہی گروہ جو اِس کے ہمراہ ہے، یہی دولتِ اسلامیہ ہے،اور یہی وہ خلافتِ اسلامیہ ہے جس کے لیے تمام مسلمان ۱۰۰ سال سے زائد عرصے سے کوشش کر رہے ہیں!؟

امید کرتا ہوں کہ جو صورت (اسلام)سامنے آئے گی وہ بہت متعصب ہی ہو گی،جس سے بند پتھرنما عقلیں مرجھا جائیں گی،اور ہم امید رکھتے ہیں کہ یہ جواب سائل تک پہنچ جائے گا، اور ان تک بھی جو اس سےملتا جلتا سوال ذہن میں رکھتے ہیں!


عبدالمنعم مصطفی حلیمۃ
ابو بصیر الطرطوسی
27/9/2014
http://altartosi.net/ar/?p=4904

کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
کیا یہ مقولہ(جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) درست ہے؟
هيئة الشام الإسلامية کا فتوی

سوال:
ہم اکثر سنتے ہیں کہ کفار کی عدم تکفیر کرنا یا ان کے کفر میں شک کرنا، نواقص اسلام میں سے ہے ، اور یہ کہ جو مرتدین کی تکفیر نہیں کرتا وہ کافر ہے، اس عبارت کی صحت کیسی ہے؟ اور کیا یہ عبارت کسی اہل علم نےبیان کی ہے؟ ہمیں فتوی دیجیے اور اجر پائیں۔

جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام على رسولِ الله، وعلى آله وصحبه، وبعد:

بلاشبہ تکفیر کا باب بہت خطرناک ہے، قدم ڈگمگا جاتے ہیں، فہم گمراہی کی طرف چلے جاتےہیں، اسی لیے علماء نے اس مسئلہ کو صراحت سے واضح کرنے کا اہتمام کیا اور اس مسئلہ تکفیر کو مستحکم انداز سے پایۂ تکمیل تک پہنچایا، اسی قاعدے میں سے ایک قاعدہ یہ ہے[جو کسی کافر کو کافر نہ کہےوہ خودکافر ہے]، تو یہ قاعدہ اپنی اصل میں تو درست ہے جو شرعی نصوص کے اندر موجود ہے اور اس کی تکذیب کرنے والےکے احکامات بھی درج ہیں ، یہ قاعدہ بعض مسلمانوں کے کفر پر ہونے کی وجہ سے نہیں اخذ کیا گیا، جیسا کہ ہم آگے بیان کر رہے ہیں:

اول:
یہ قاعدہ [جو کفار کی تکفیر نہ کرے یا ان کے کفر میں شک کرے یا ان کے مذہب کو درست قرار دے، تو وہ خود کافر ہے]، یہ قاعدہ درست ہے، اس پر علمائے متقدمین و متاخرین کا اجماع ہے ؛ کیونکہ جو کفار کی تکفیرنہیں کرتا، جن کی تکفیر قطعی طور پرقرآن و اجماع کی نص سے ثابت ہے، تو وہ قرآن و سنت کی تکذیب کرتا ہے۔

قاضی عیاضؒ اپنی کتاب [الشفا] میں کہتے ہیں:
]اس سبب ہم اُن کی تکفیر کرتے ہیں جو اِن (کفار) کی تکفیر نہیں کرتا، جن کا تعلق مسلمانوں کے دین کے علاوہ دیگر مذاہب سے ہے یا ان کے معاملہ میں توقف کرے، یا اس میں شک کرے، یا ان کے مذہب کو صحیح جانے۔۔اگرچہ وہ اس بیان کردہ سابقہ اعتقاد کے ساتھ اپنے اسلام کا اظہار کرے اور اسلام کا اعتقادبھی رکھے، اور اسلام کے علاوہ باقی سب مذاہب کو بھی باطل جانتا ہے۔۔تب بھی وہ اپنے اس اظہار(میں مسلمان ہوں) کی وجہ سے جو اس نے (اسلام کے) خلاف میں ظاہر کیا کے سبب کافر ہی ہے[

پھر اس کے بعد انہوں نے اپنے قول کی وضاحت کی:
چونکہ کفار کے کافر ہونے پر نص اور اجماع موجود ہے،جو اس معاملہ میں توقف اختیار کرے، وہ اس نص کا انکار کرتا ہے۔

امام نوویؒ [روضۃ الطالبین] میں کہتے ہیں:
]جو اسلام کے علاوہ دیگرمذاہب مثلاً نصاری کو کافر نہ جانے یا ان کی تکفیر میں شک کرےیا ان کے مذاہب کو درست جانے، تو وہ کافر ہے، اگرچہ وہ اس اعتقاد کے ساتھ اپنےاسلام کو بھی ظاہر کرے اور اس پر اعتقاد بھی رکھے[

البھوتیؒ [کشاف القناع] میں کہتے ہیں:
وہ کافر ہے، کیونکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ کے اس قول کا انکار کرتا ہے:
[جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور طریقہ(دین) اختیار کرنا چاہے، اس کا وہ طریقہ قبول نہ کیا جائے گا اور وه آخرت میں ناکام ونامراد ہوگا ](۳: ۸۵)

یہ وہ وقواعدِ تکفیر ہیں جن سے متعلق شرعی نصوص موجود ہیں، اور ان کی تکذیب کرنے والوں کا حکم بیان کرتی ہے ، نہ کہ اس کا تعلق بعض مسلمانوں کے کفرپر ہونےسے ہےیا ان لوگوں سے متعلق ہے جو نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کر لیں؛ لہٰذا اِس قاعدہ کی تطبیق اس وقت تک نہ کی جائے جب تک کہ اس سے متعلق مبینہ خبرکو متفقہ طور پردرست نہ مان لیاجائے، اور اسی طرح اس فعل کے مرتکب شخص کی تکفیر ترک کی جائے ، اس بنیاد پر کہ شاید اس سے منسلک خبر جھوٹی ہو۔

دوم:
اس قاعدے کے اندر تین امور شامل ہیں:

اول:
اس بات سے متعلق قطعی نصوص موجود ہیں کہ جو دین اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب مثلاً یہود، نصاری، مشرکین کی ملت اورانکے شعار کی مخالفت کرتی ہیں اوران کی تکفیر کولازم کرتی ہیں ؛ پس ان کے کفر پرکتاب و سنت میں عام وخاص نصوص دلالت کرتی ہیں۔

عام نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
] بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے] (آل عمران: 19)

نیز فرمایا:
[جو کوئی اسلام کےعلاوہ کسی دین کی پیروی کرے گا،وہ اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا] (آل عمران: 85(

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان:
[اللہ کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، جو کوئی میری امت میں سے، چاہے وہ یہودی ہو یا نصرانی، وہ میرے بارے میں سن لے، اور جس چیز کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں اوراس پر ایمان نہ لائے، اور اسی حالت میں موت اس کو آ لے، تو وہ فقط جہنم کے لوگوں میں سے ہو گا] (رواہ مسلم)

اور خاص نصوص میں سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
[ یہود کہتے ہیں عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ قول صرف ان کے منہ کی بات ہے۔ اگلے منکرین کی یہ بھی نقل کرنے لگے،اللہ انہیں غارت کرے وه کیسے پلٹائے جاتے ہیں ] (التوبہ: 30(

اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[وه لوگ بھی قطعاً کافر ہوگئے جنہوں نے کہا، اللہ تین میں کا تیسرا ہے، دراصل سوا ئےاللہ تعالیٰ کے کوئی معبود نہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے اس قول سے باز نہ رہے تو ان میں سے جو کفر پر رہیں گے، انہیں المناک عذاب ضرور پہنچے گا] (المائدہ: 73(

جو کوئی ان مذاہب کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، یا ان کے عقائد اور دین کو صحیح قرار دے، وہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بلاشبہ جھوٹ باندھنے والاہے، اور اُن دونوں کے حکم کو رَد کرنے والا بن جائے گا۔

اس لیےقاضی عیاض اپنی کتاب [الشفا] میں اس اجماع کو نقل کرتے ہیں:
]جو مسلمانوں کے دین کے علاوہ یہودونصاری اوردیگر مذاہب کی تکفیر نہیں کرتا، یا ان کے تکفیر میں توقف کرتا ہے، یا اس میں شک کرتا ہے، اس کے کفر میں کوئی شک نہیں[

اس قاعدے میں شامل دوم امریہ ہے:
ان ارتدادی گروہوں و مذاہب کے کفر کا قطعی ہونا جن کے ارتداد اور کفر پر سب جمع ہیں، جیسا کہ باطنی فرقوں میں سے قرامطی، اسماعیلی،نصیری،دروزی، بابی، بہائی اور قادیانی شامل ہیں۔ اہل علم نے ان گرہوں پر کفر اور ارتداد کا حکم لگایا ہے؛ جس کی وجہ ان فرقوں کا تمام جہتوں سے اصولِ اسلام کےمنافی اعتقاد رکھنا ہے، جو کوئی ان فرقوں کی حقیقتِ حال کے علم کے بعد بھی ان کی تکفیر نہ کرے، یا ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ ان کے مذہب اور کفریہ عقائد کو بھی درست ماننے والا قرار پائے گا، اور دین اسلام پر طعن کرنے والا بنے گا، اور یہ بھی انہیں کی طرح کافر ہو گا۔

ابن تیمیہؒ اپنے [فتاوی] میں دروزیوں سے متعلق رقمطراز ہیں:
[ان کے کفر سے متعلق مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا ہے؛ بلکہ جو انکے کفر میں شک کرے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے]

اس قاعدے میں شامل سوم امر یہ ہے:
جو کوئی نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کا ارتکاب کرے، جن کو اہل علم نے جمع فرمایا ہے، جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا، یا اُن کی توہین کرنا یا اس چیز کا انکارکرنا جو اسلام میں ضرورتِ دین سےمعلوم ہے۔

جو کوئی ان نواقص کی اقسام کے مرتکب کی تکفیر نہیں کرتا، ایسے اقوال وافعال کے کفر سے انکار کرتا ہے، وہ بھی انہیں کی مثل کافر ہے۔

ابن تیمیہؒ اس شخص کے بارے میں کہتے ہیں جو صحابہؓ کی توہین کے جواز کا اعتقاد رکھتا ہے یا جو کفری اعتقادات کو صحیح جانتا ہے:
]تاہم جو اس طریقہ پر یہ دعوی کرتے ہوئے (دوسرے صحابہؓ پر) طعن و تشنیع کرے کہ علیؓ معبود ہیں یا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے نبی ہیں اور جبریلؑ اپنا پیغام پہنچانے میں غلطی کے مرتکب ہوئے، ایسے شخص کے کفر میں تو کوئی شک نہیں ہے، بلکہ جو کوئی ایسے شخص کی تکفیر پر توقف کرے اس کے کفر میں بھی کوئی شک نہیں ہے[

سوم:
اِس قاعدے(جوکافر کو کافر نہ کہےوہ خود کافر ہے) میں یہ امور شامل نہیں ہیں:

- جن مکفرات میں علماء کے درمیان اختلاف ہے، مثلاً نماز کوسستی کےسبب چھوڑنے والا، ان میں سے متعدد علماء نے اس کفر پر دائرہ اسلام سے خارج کیا ہے، اور دیگر نے اسے اس درجہ تک نہیں جانا ہے، اسی لیے جو کوئی سستی کے سبب نماز کو چھوڑنے والے کی تکفیر نہیں کرتا، اس کوکافر نہیں کہا جائے گا۔

- نواقصِ اسلام میں سے کسی نواقص کے ارتکاب کرنے والے معین مسلمان کی تکفیر سے احتراز کرنے والے شخص کے اوپر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا؛کیونکہ کسی معین شخص پر کفر کے حکم کا اطلاق کرنا اس پر قطعی دلیل نہیں ہے، اس کی تکفیر کرنا اور اس پر ارتداد کا حکم لگانا صحیح اور غلط بھی ہو سکتا ہے، اس شخص کی تکفیر پر توقف کرنا موانع تکفیر کی موجودگی یا شروط ِ تکفیر نہ ہونے کے سبب ممکن ہے یا قیام حجت کی غیر موجودگی اور دیگر ملتے جلتے اسباب بھی شامل ہیں۔

اس قاعدے میں یہ بھی شامل نہیں ہے:

جو کوئی متفق احکام ِ کفر کا اطلاق بعض معین افراد پر نہ کرے،مثلاً طاغوت کے احکام کا اطلاق کرنا یا اللہ کی شریعت کے علاوہ فیصلہ کرنے والے گروہوں کے قائدین یا افراد کو تکفیر کے لیے معین کرنا ؛ کیونکہ کفر بالطاغوت کی اصل اسلام میں اس طرح ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
[اس لئے جو شخص اللہ تعالیٰ کے سوا دوسرے معبودوں کا انکار کرکے اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اس نے مضبوط کڑے کو تھام لیا]

جبکہ کسی معین فرد پر طاغوت کے حکم کا اطلاق کرنا ایک اجتہادی اور نظری بحث ہے۔ اس موقع پر ہم یہ نہیں کہیں گے کہ:
[جو کوئی فلاں مرتکبِ نواقص شخص کی تکفیر نہیں کرے گا، وہ خود کافر ہے]
کیونکہ اس کی وجہ اس معاملہ میں اجتہاد اور اختلاف کا ہونا ہے۔

چہارم:
اس قاعدے کا اطلاق ان قائد ین پر کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں ہے جب تک تکفیر کی شروط کی تحقیق نہ کر لی جائے، اور اس کے موانع کو زائل نہ کر لیا جائے۔

تکفیر مطلق جیسا کہ یہ قول (جوکافر کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے) لوگوں پر معین تکفیر جیسا کہ یہ قول (فلاں شخص کافر کی تکفیر نہیں کرتا یہ بھی کافر ہے)سے مختلف ہوتی ہے۔

معین افراد اپنے اوپر قیامِ حجت کے حساب سے مختلف درجہ پر ہوتے ہیں، اپنے اجتہاد اور تاویل پر مختلف درجہ رکھتے ہیں اور کثر اہل غلو جہالت کے سبب ان مختلف مراتب میں تفریق نہیں کرتے ہیں۔

ابن ابی العز الحنفی [شرح الطحاوية] میں کہتےہیں:
[کسی معین شخص کے لیے ممکن ہے کہ وہ مجتہد ہو جس کے سبب وہ اپنی خطا پر معاف کیا جائے، ممکن ہے کہ ان نصوص میں بہت سے باتیں جو اس کے علاوہ ہیں، اسے آگاہی حاصل نہ ہو، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا ایمان عظیم ہو اور ایسی نیکیاں ہوں جس کے سبب اللہ تعالیٰ کی رحمت ناگزیر ہو جائے]

کوئی شخص کفارِ اصلی، یا مرتدین جن کے ارتداد پر سب متفق ہیں کی عدم تکفیر پر اپنے علم کے قصور یا کسی شبہ کو دیکھنے یا دیگر موانع تکفیر(جیسا کہ جہالت،خطا،اکراہ اور تاویل) کے سبب توقف کر سکتا ہے، اس لیے معین تکفیر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ یہ تمام موانع اس سے زائل ہو چکے ہوں۔

ابن حجرؒ [فتح الباری] میں امام شافعی ؒکے قول کو نقل کرتے ہیں:
[جو شخص اقامتِ حجت کے بعد مخالفت کرے اس نے کفر کیا،تاہم قیامِ حجت سے قبل اسے جہالت کا عذر دیا جائے گا]

ابن تیمیہؒ [فتاوی] میں عقیدہ وحدت الوجود کی حقیقت کو بیان کرتے ہیں اور اسے نصارٰی کے قول کی طرف اشارہ دیتےہوئے لکھتے ہیں:
[یہ تمام عقیدہ اپنے باطن وظاہر پر تمام مسلمانوں کے اجماع کے سبب کفر ہے، اور جو کوئی ان کے قول سے متعلق وضاحت دینے اور دین اسلام کی معرفت کو ظاہر کر دینے کے باوجود ان کے کفر میں شک کرے، پس وہ بھی اسی طرح کافر ہے جو یہودو نصارٰی اور مشرکین کے کفر میں شک کرتا ہے]

اس لیے جو کسی کافر کی تکفیر نہ کرے اس پر اقامتِ حجت ضروری ہے، جو اس کی تعلیم اور اس معاملہ کی وضاحت سے ممکن ہو گی۔

پنجم:
اس قاعدے کے سبب دو فریق گمراہی کا شکار ہوئے ہیں، فریقِ تفریط جو ادنی درجہ پر آیا، اور فریقِ افراط جو غلو کا شکار ہوا۔

- جہاں تک غفلت برتنے والوں کا تعلق ہے: انہوں سے اس قاعدے میں سے کچھ نہ لیا، اور اس کا انکار کیا، ان کے نزدیک کفار کی تکفیران حدودو ضوابط کے پورا ہونے کے بعد بھی نہیں کی جاسکتی ہے۔ ان میں سے بعض یہ زعم بھی رکھتے ہیں کہ کفار کی تکفیر کرناآزادی رائے کے خلاف ہے، ان میں وہ بھی ہیں جو وحدتِ ادیان کی دعوت دیتے ہیں یا ان میں بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، اور یہ اقوال اللہ اور اس کی رسول صل اللہ علیہ وسلم کی تکذیب کے مترادف ہیں اور اجماع امت کا انکار ہے۔

- جہاں تک غلو کرنے والوں کا تعلق ہے: انہوں نے اس قاعدے کو بڑھا دیا، حتیٰ کہ اس میں مسلمانوں کو داخل کر دیا اور اِن پر کفر اور ارتداد کا حکم لگا دیا، اور پھر باقی لوگوں پر اس تکفیر کو لازم قرار دے دیا۔پھر اگر آپ اس قاعدے کے متعلق (ان کے بتلائے ہوئے طریقہ پر)عملاً تکفیر نہیں کرتے، پھر یہ دعوی کرتے ہیں۔۔۔۔(کہ آپ بھی کافر ہیں)!!

بالآخر:
بلاشبہ تکفیر اور ارتداد کا حکم ایک خطرناک معاملہ ہے، اس (حکم) کے اندر وہ آثار ہیں جو زوجین کے درمیان تفریق پیدا کر دیتے ہیں، اور مرتد اور اس کی وراثت سے متعلق احکاماتِ وراثت منقطع ہو جاتے ہیں، اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہوتاہے،اسی طرح اس کی نماز نہ پڑھنے اور دیگر امور اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں۔اس لیے ایک مسلمان کو اس معاملہ میں آگے نہیں بڑھنا چاہیے، بلکہ یہ امر تو سوائےان راسخ العلم حضرات کے لیے ہیں جن کے ہاتھ میں قضاء اور احکامات ہیں۔

ابو حامد الغزالیؒ [الاقتصاد في الاعتقاد] میں لکھتے ہیں:
]جب تکفیر کی راہ سے نکلنا ممکن ہو تو اس سے ضرور احتراز برتنا چاہیے،کیونکہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے والوں کو جو کہ لا إله إلا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتےہوں، کے خون و اموال کو مباح (جائز) قرار دینا غلطی ہے۔ زندگی میں ہزار کفار کے قتل کو ترک کر نے کی غلطی بنسبت ایک مسلمان کے خون کی (المِحْجِمة) جتنی مقدار کو غلطی کے سبب بہا دینے سے ہلکی بات ہے [ اور (المِحْجِمة): حجامہ کا آلہ ہے، اس آلہ ججامہ کے اندر خون کی وہ کم سے کم مقدار جو آسانی سے آ سکے۔

امام شوکانیؒ[السيل الجرار] میں لکھتے ہیں:
]یہ بات جان لو کہ کسی بھی مسلمان شخص پر دینِ اسلام سے خروج کر کے کفر میں داخل ہونے کا حکم لگانا؛ مسلمان جو اللہ تعالیٰ اور یومِ آخر پر ایمان رکھتا ہے، اس کا ذمہ اس وقت تک نہ اٹھائے جب تک وہ اس معاملے میں چمکتے سورج کی مانند واضح دلائل نہ دیکھ لے،اس واسطے کہ صحیح احادیث میں صحابہؓ کی جماعت سے مستند طور پر یہ حدیث مروی ہے کہ:’’ جس نے اپنے بھائی کو کہا اے کافر، پس یہ (تکفیر) اُ ن میں سے ایک کی طرف ضرور لوٹے گی‘‘]

ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس علم کی طرف لے جائیں جس سے ہمیں فائدہ ہو، اور ہمیں امتِ وسط بنائیں جو غلو اور تضاد سے پاک ہو، اور ہمیں اپنے مجرم دشمنوں پر فتح یاب فرمائیں۔

والحمد لله رب العالمين

مصدر:
http://islamicsham.org/fatawa/1904