پیر، 20 اپریل، 2015

شیخ عبدالعزیز الطریفی کے خوارج سے متعلق اقوال

بسم اللہ الرحمن الرحیم



شیخ عبدالعزیز الطریفی کے خوارج سے متعلق اقوال
شیخ عبدالعزیز الطریفی
#شیخ_عبدالعزیز_الطریفی ، #خوارج

• خوارج اپنے فساد میں امت پر کفار کی نسبت زیادہ خطرناک ہیں، نہ کہ اپنی ضلالت پر، جب بھی یہ کسی عہد میں ظاہر ہوتے ہیں، تو مسلمانوں کی تکفیر کرتے ہیں اور اُن سے قتال کرتے ہیں کیونکہ مرتدین سے قتال کفارِاصلی کی نسبت اولیٰ ہے۔

• جو شام میں مجاہدین کو قتل کرتے ہیں اور اُن کی تکفیر کرتے ہیں، وہ باقی مسلمانوں کی حرمت کی تعظیم بھی نہیں کریں گے۔آج جہاد اُس دشمن کے خلاف بھی ہو رہا، جو اسلام کو ہی نہیں چاہتا، اور اُ ن سے بھی کیا جا رہا، جواسلام چاہتا تو ہے، لیکن اُس کی تطبیق میں ناکامی کا شکار ہے۔

• درست صفتِ خوارج جس پردلائل جمع ہیں ، وہ مسلمانوں کی تکفیر ایسی چیز کی بنیاد پر ہے جس سےکفر لازم نہیں آتا اور پھر وہ اُن کےخون بہانے کو حلا ل سمجھتے ہیں، اور یہ (خوارج) ابن عباسؓ کے عہد میں کفار کے ساتھ قتال کرتے تھے، اور شرعی حدود کا نفاذ بھی کرتے تھے،اِن سب کو کرنے کےباوجود بھی انہیں خوارج کہا جاتا۔

• نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوارج کا ربط دجال کے ساتھ کیا کیونکہ اِن کی طرف سے دیے گئے بیانات کی وجہ سے ہمددری پیدا ہوتی ہے،حدیث میں روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: [ ان(خوارج) کی طرف سے جو بھی (شرکا) سینگ نکلے گا، وہ کاٹ دیاجائے گا،یہاں تک کہ اِن کے باقی ماندہ گروہ میں دجال ظاہر ہو گا]

• اللہ پر جھوٹ بولنے کا ایک سبب غلو ہے،کیونکہ غالی جب دلیل اور تاویل سے عاجز ہو جاتا ہے تو وہ اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے تاکہ اپنی ہوائے نفس کی مطابقت ہو جائے[ اپنے دین کے بارے میں حد سے نہ گزر جاؤ اور اللہ پر بجز حق کے اور کچھ نہ کہو]

• خوارج کے اکثر گروہ اپنی ضلالت میں بھی اخلاص پر تھے، اور یہاں پر ایسے ہیں جو گمراہی اور ضلالت میں تو بہت آگے ہیں لیکن اُن میں ایک بھی اِس گمراہی میں اخلاص پر نہیں ہے۔

• میں سوائے روافض اور خوارج کے کوئی ایسے گروہ کے بارے میں نہیں جانتا ہوں، جو بچوں کے قتل کو عبادت کا ذریعہ سمجھتا ہو،کیونکہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اِن بچوں پر بھی اِن کے والدین کا حکم ہے، اور ایک دشمن سے سوائے دشمن کے اورکوئی چیز پرورش نہیں پاتی۔

• ایک دولتِ مرجئہ قائم ہو سکتی ہے،لیکن دولتِ خوارج (ابدی)قائم نہیں ہو سکتی، کیونکہ اللہ تعالی ریاست کو عدل کی بنیاد پر قائم فرماتے ہیں، نہ کہ ظلم کی بنیاد پر اورمرجئہ کا اکثر ظلم دین کے معاملہ میں ہے، اور خوارج کا ظلم دین و دنیا دونوں میں ہے۔

مصدر:
https://justpaste.it/khawarij3

بدھ، 15 اپریل، 2015

اے متردد! خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!

بسم اللہ الرحمن الرحیم



اے متردد!
خوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف جنگ وقتال میں متردد ہونے والوں کے نام!
ابو ماریہ القحطانی
- حفظہ اللہ -


الحمد لله رب العالمين، والعاقبة للمتقين، ولا عدوان إلا على الظالمين، والصلاة والسلام على المبعوث رحمة للعالمين، نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين، وبعد:

جو بھی آج اہلِ شام کے حالات پر نظر رکھے ہوئے ہے وہ دیکھے گاکہ اللہ عزوجل کی جانب سے اُن پر مشکلات اور آزمائشیں آ رہی ہیں، اور یہ سب کچھ ایک عظیم مصلحت اور حکمتِ بالغہ کے سبب ہی ہورہاہے، تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جو فیصلہ فرماتےہیں اور اُس کو مقدر کردیتے ہیں۔ نصیری اور روافض اس بات کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں کہ لوگوں کو قتل کریں اور اُن کے ملکوں کو تباہ وبرباد کردیں، اور اِس کے لیے یہ تمام تر وسائل کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ اقوامِ عالم اِس کو دیکھ اور سن رہے ہیں،اورگویا یہ بیان کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کے خون بہانے اور انہیں نقصان پہنچانے میں جیسے کوئی حرج نہیں۔

پھر اس کے بعد ایک ماہ قبل، اہل شام پر ایک ایسے بھیانک چہرے کا ظہور ہوا اورایک نئے زہریلے خنجر کو آزاد کیا گیا ،جس کا خبث اور ضرر بہت جلدی سے آگے پھیل گیا ہے؛ اور وہ چہرہ خوارج العصر تنظیم ’جماعت الدولۃ‘ کا ہے، جنہوں نے جھوٹ اور دھوکے کا سہارا لیتے ہوئے خود کو تنظیم قاعدۃ الجہاد کی پوشاک کے نیچے چھپائے رکھا، انہوں نے مجاہدین کی تکفیر کی،اُن کے خون ، مال اور مراکز کو حلال قرار دیا، اور انہوں نے مجاہدین اور اُن کی قیادت کو قتل کیا، جن کو قتل کرنے کی استطاعت نصیری اور روافض بھی نہ رکھتے تھے۔ انہوں نے مجاہدین کےحمص اور دیگر علاقوں میں امدادی اوررسد کے رستے منقطع کیے، اور مسلمانوں کے پوشیدہ معاملات کو ظاہر کرتے ہوئے علاقوں کو نصیری نظام کے سپرد کرنا شروع کر دیا اور یوں اُن کی حلب کے محاصرہ کرنے میں مدد کی،اسی طرح اِن سے متعلق اور دیگر چیزیں بھی ظاہر اور واضح ہوتی گئیں اورمجرم نصیری نظام اِن سے اور اِن کے اعمال کے سبب خوب استفادہ کرنے لگا۔

بہت سی تجاویز ان کو پیش کی گئیں اور ان کے لیے بہت سے ابتدائی ثالثی اقدامات کی طرف بڑھنے کی کوششیں کی گئی، اور ان میں سب سے آخری کاوش ہمارے امیر شیخ الجہاد شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی تھی، تاکہ اِن کو دوسروں سے دور رکھا جائے اور اِن کی اپنی گمراہی سے بیدار کیا جائے، اور ہم نے اُن کے احکامات کی پیروی کی اوراُن کی کاوشوں کی حمایت کی، اس امید کے ساتھ کہ شاید یہ واپس ہدایت کی طرف پلٹ آئیں اور اپنے گناہوں سے تائب ہو جائیں، لیکن انہوں نے اس سب کو نظر انداز کیا، اور ہمارے قتال سے رکنے کے باوجود ہم پر ضربیں لگائیں اور دھوکے سے کام لیا۔

پس اس لیے کہ ہم جہادِ شام کی اس پیش قدمی کی تکمیل کر سکیں، ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس خبیث مرض کا خاتمہ کریں اور ساحاتِ شام کو اس سے پاک کر دیں، اور جب ہم شریعتِ الہی میں نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں سوائے سیفِ علیؓ کے علاوہ اِن کا اور کوئی علاج نہیں ملتا ہے،جس تلوار کو انہوں نےعصرِ حاضر کے خوارج کے اجداد کے خلاف نہروان کے مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نکالی، اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگی کہ وہ اِن کی قمر توڑ دیں اور ان کی جڑیں کاٹ دیں، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی پیروی کی کہ اِن کے خلاف قتال کیا جائے اور اِن کو قتل کیا جائے، اور اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس فرمان کے مطابق اجر کی بھی امید رکھی جائے،جس کا انہوں نے وعدہ کیا جب انہوں نے فرمایا:

(طوبى لمن قتلهم وقتلوه)
[اس کے لیے طوبیٰ(جنت کا درخت؛ بشارت) ہے، جو ان(خوارج) کو قتل کریں یا ان(خوارج) کے ہاتھوں قتل ہوں]

ارضِ شام میں مجاہدین لوگوں کو اس بات کو دعوت دے رہے ہیں کہ وہ اس عظیم استحقاق کے سامنے شریعتِ الٰہی کے حکم کی طرف آئیں، جس میں وہ شریعت کے اس حکم کے تابع ہو جائیں اور خوارج سے قتال کریں ،جن کا معاملہ اب واضح ہو چکا ہے اور اُن کے عقائد نظر آنے لگے ہیں، اور یہ اپنے ظلم میں مزید بڑھے جب انہوں نے تمام ثالثی اقدامات کا بھی انکار کر دیا، اورانہوں نے اُن ثالثی اقدامات کا استعمال فقط کچھ مزید وقت حاصل کرنے کے لیے کیا، اور اپنے تکبر اور فجور میں مزید بڑھ گئے:

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

(وكذلك من كَفَرَ المسلمين أو استحل دمائهم وأموالهم ببدعة ابتدعها ليست في كتاب الله ولا سنة رسوله فإنه يجب نهيه عن ذلك، وعقوبته بما يزجره ولو بالقتل أو القتال، فإنه إذا عُوقِب المعتدون من جميع الطوائف وأكرم المتقون من جميع الطوائف كان ذلك من أعظم الأسباب التي ترضي الله ورسوله ويصلح أمر المسلمين) ا.هـ من الفتاوى.
[اسی طرح جو کوئی مسلمانوں کی تکفیر کرے اور ان کے خون اور اموال کو بدعت کی بنیاد پرحلال کرے، وہ ایسی بدعت ہے جو نہ ہی کتاب اللہ میں موجود ہے اور نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے، اس کو اس بدعت سے باز رکھنا واجب ہے،اس کو سزا دینی چاہیے جس کا وہ حقدار ہے،چاہے وہ اس کے قتل یا اس کے خلاف قتال سے کیوں نہ ہو، اور جب تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے معتدین کو سزا دی جائے اور تمام گروہوں سے تعلق رکھنے والے متقی لوگوں کا اکرام کیا جائے، تو یہ وہ بڑے اسباب ہیں جس سے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم راضی ہوتے ہیں اور مسلمانوں کے معاملات درست ہوتے ہیں]

وقت آ گیا ہے کہ اہل حق اُس سر کو کھول دیں جو دینِ ذوالخویصرہ(خارجی) کا قائل ہے، اور اس چیز سے راضی ہے جس پر ذوالثدیہ (خارجی)قائم تھا، اوراُس پر اِس چیز کا غلبہ ہو گیا ہے،جس کا غلبہ ابن ملجم(خارجی) کو ہوا تھا، کیونکہ اب ساحاتِ شام مزید اِن کے خبث اور ضرر کو اٹھانے کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔

اللہ کی قسم، اہل حق کے لیے یہ وقت آ گیا ہے کہ وہ ان گناہگار ہاتھوں کو کاٹ دیں، جو مسلمانوں کے خون کو ناحق بہاتے ہیں اور اِس سبب روافض اور نصیریوں کی اعانت کرتے ہیں، اُ ن کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہیں اور اُن کے دلوں کو خوش کرتے ہیں۔

اللہ کی قسم! اہلِ حق کے لیے وقت آ گیا ہے کہ وہ ان زبانوں کو خاموش کر دیں جنہوں نے شریعتِ حنیف پر زبان درازی کی اور اللہ تعالیٰ پر بغیر علم کے بات کی، اور لوگوں کو اللہ کے رستے سے روکا اور مبارک وحی کی باطل تاویلات کیں۔

اے سچے مجاہدین! نبی صلی اللہ علیہ وسلم خلقِ عظیم کے مالک تھے اور مومنین کے لیے رؤف ورحیم تھے،اور اگر وہ دو (جائز) معاملہ کے متعلق فیصلہ فرماتے، تو ہمیشہ اُن میں سب سے آسان کا انتخاب کرتے، پس اللہ کی قسم! وہ خوارج کو جنہوں نے اہل اسلام کی تکفیر کی اور اُن کا ناحق خون بہایا کو قتل کرنے کا حکم نہ دیتے،اگر اس کے علاوہ خوارج کا اور کوئی مؤثر علاج ہوتا؛ تو پھر بعض مجاہدین کے ساتھ یہ معاملہ کیسا ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وصیت کی تنفیذ کرنے پر عمل نہیں کرتے؟

کیا جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا بھی ہو اور یہ بھی علم رکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب میں افضل ہیں، ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، اور اللہ کی قسم! علی رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں صحابہ رضوان اللہ علیہم میں سب سے بہترین تھے، اور شریعت کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے اور انہوں نے اُن (خوارج) کے خلاف قتال میں کسی بھی قسم کا تردد نہ کیا ، جب اُن(خوارج) نے ناحق خون بہایا اور مسلمانوں پر گرجنے لگے، اور اللہ کی قسم! صحابہ رضوان اللہ علیہم اُن لوگوں میں سے نہ تھے جو اُن مارقہ (خوارج) کے ہاتھوں اللہ کے دین کی تشریح کو چھوڑ دیتے، اور اُن (خوارج) کی تلواروں سے پھر ناحق مسلمانوں کا خون بہتا رہتا،اور نبی کی سنت کا نفاذ اِن کے بیٹھ رہنے سے ساکت رہتا اور وہ اُن کے خلاف قتال سے رک جاتے!

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا آپ نہیں جانتے کہ سب سے بڑا جرم اللہ کے رستے سے روکنا ہے، اوردین کا غلط تصور پیش کرنا ہے،اور لوگوں کو شریعت کی حاکمیت سے متعلق دور بھگانا ہے، جس سے شرک اور باطل کی تزین وآسائش ہو گی، بےشک،آپ لاشعوری طور پر ایسے ہو جاؤ گے جب آپ اپنے بھائیوں کو ،جو اِس خبیث غالی درخت کے کاٹنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، جس نے سابقہ بیان کیے گئے عظیم مفاسد کو جمع کر لیا ہے، کی معاونت کرنے کو ترک کر دو گے۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ آپ مجرم نصیری نظام کی طوالت میں اپنا حصہ ڈال رہے ہو، جو پھر مزید ناحق خون بہائے گا، اورخوارج العصرکی اِس معاونت سے استفادہ کرتے ہوئے مزید حرمات کی پامالی کرے گا،کیونکہ وہ نصیری انہیں کے وجہ سے مزید پھیلے ہیں بلکہ انہیں (خوارج) کی وجہ سے کامیاب ہو رہے ہیں۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیاآپ نہیں جانتے کہ اِن کے خاتمہ کا فائدہ اور مصلحت نہ صرف شام کے مسلمانوں کو ہو گی، بلکہ اس کا فائدہ اہل عراق کے مسلمانوں کو بھی ہوگا،جنہوں نے اِن کی لگائی گئی آگ سے مدتوں نقصان برداشت کیا ہے، پس اپنے اِن بھائیوں کے لیے اُن کی طرف سے لگائے گئے فتنہ کی آگ کو بجھانے کے لیے حق والے صاف پانی کی مثل بن جاؤ۔

اےخوارج العصر (جماعت الدولۃ)کے خلاف قتال میں متردد ہونے والے! کیا تمہیں علم نہیں کہ ناحق خون بہنے کا تسلسل ،جس کی ابتداء خوارج نے خیارمجاہدین اور ان کی قیادت کو ہدف بنانے سے کی ہے، یہیں پر نہ رکے گا ، بلکہ یہ تمام علاقوں تک جائیں گے جہاں تک جانے کی یہ قدرت رکھتے ہوں گے، اور ہم نے اِن کو اجتماعی قتلِ عام کرتے ہوئے دیکھ لیا ہے،جس کے لیے انہوں نے حجت یہ بیان کی کہ یہ مرتدین کے گھر والے ہیں،اُن کی اولاد ہیں اور صحوات ہیں!

اے اہلِ شام، ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جس طرح آپ نے اپنے مجاہدین بھائیوں کو دیکھا کہ وہ شجاعت اور بہادری کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نصیریوں اور روافض کے مقابلے میں دکھائی دیے، آپ اُن کو اِن (خوارج العصر)عناصرکے خلاف بھی دیکھیں گے، جو آپ کی تکفیر کرتے ہیں اور آپ کے خون اور اموال کو حلال کرتے ہیں؛ کیونکہ آپ کی گردنیں دراصل ہماری گردنیں ہیں، اور آپ کا خون ہمارا خون ہے، اور کوئی بھی آپ پر شر کو نہ لا سکے گے سوائے جب کہ ہم کسی ماضی کا حصہ بن چکے ہوں یا ہمارے جسموں کے ٹکڑےٹکڑےکیے جا چکے ہوں!

اے ارضِ شام کی مبارک سرزمین پر ہمارے مجاہد بھائیو، ظلم وعدوان کے ایک سال بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے، اور اس جماعت مارقہ[(شریعت سے )نکلی ہوئی جماعت)] کی جانب سے ناحق تکفیر سے بھی یہ وضاحت ہوچکی کہ مجرم نصیری نظام کے سقوط اور جہادِ شام کی کامیابیوں کوتب تک حاصل نہیں کیا جا سکتا، جب تک ساحاتِ شام کو خوارج جماعت الدولۃ کے وجودسے پاک نہ کر لیا جائے، اور اس معاملہ میں تاخیر کرنا ایک شرعی واجب کی تکمیل کرنے میں نقص ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس شرعی واجب کی ادائیگی کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کریں،کیونکہ ہمیں نصیریوں اور روافض کے ساتھ بہت زورآور معرکے لڑنے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہماری نصرت ان حاقدین کے خلاف کریں گے،جب وہ(نصیری) دیکھ لیں گے کہ جہادِ شام کے اندروہ ایک اہم عوامل (جماعت الدولۃ) سے محروم ہو گئے ہیں، جو کہ ان کی فتح میں تاخیر کا سبب بنا ہوا ہے۔

پس اے ادلب وحماۃکے شیرو، اے حلب و حمص کے شہسوارو! اے ساحل ودمشق کے ابطال، اپنے رب کے لیے اٹھو، اور اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی تکمیل کرو، اور اپنے شرقیہ (مشرقی شام) میں بھائیوں کی مدد کرو،جو کہ اس ملاحم کو جماعت الدولۃ المارقہ کے خلاف رقم کر رہے ہیں ،جو مرابطین صفِ اول کی خندقیں سنبھالے ہوئے ہیں، اور جماعت الدولۃ نے ان کا محاصرہ پیچھے سے کر رکھا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء اور ذخائر کی ناقع بندی اُن پر کر رکھی ہے، نصیری اُن کے آگے ہیں اور یہ مارقہ(خوارج) ان کے پیچھےایسا حقیر پن دکھا رہےہیں کہ اسے بیان نہیں کیا جا سکتا، اور ہم ایک بار پھر حمص میں ہونے والے ظلم کو دہرانے کے متحمل نہیں ہو سکتے، پس اٹھو اور خود کو عزم وایمان اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے لیس کرو،کیونکہ کوئی بھی فتحِ مبین اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں، اِن لوگوں سے قتال کرو جن سے قتال کرنےکا حکم تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں دیا،جنہوں نے ہمیں خبر دی کہ اگر وہ ان(خوارج) کا ادراک کر لیں، تو وہ انہیں مکمل طور پر تباہ کر دیں، پس اگر تم ایسا کرو گے، تو آپ کا رب اپنے وعدے کے مطابق آپ کی نصرت فرمائیں گے:

(ولينصرن الله من ينصره)
[جو اللہ کی مدد کرے گا اللہ بھی ضرور اس کی مدد کرے گا]

اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میر ی جان ہے، ہمارے اور فتح کے درمیان سوائے تمام سچے مجاہدین گروہوں کےجمع ہو جانے کےعلاوہ کوئی چیز حائل نہیں،جو کہ اللہ کی رضا اور اطاعت چاہتے ہوں،اور اکیلے اس سے مدد مانگتے ہوں، اور اپنی تمام خواہشوں اور فیصلوں کو اللہ کے تابع کر لیں، اور اللہ کی حفاظت میں جانے کے لیے سچے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جانے میں ابتدائی قدم خود اٹھائیں، پھر ان کو نصرت کی خوشخبری دی جائے گی اور فتح قریب آن لگے گی، ہم اللہ کی پناہ میں آتے ہیں کہ یہ بات بیان کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو چھوڑ دیں گے جن کی حالت اوپر بیان کی گئی ہے، وہی اللہ عزوجل ہمارا دفاع کرنے والےہیں، اور بہترین حفاظت فرمانے والے ہیں اور بہترین مددگار ہیں۔

میں جماعت المارقہ(جماعت الدولۃ) کےابن ملجم(خارجی) کے جانشین، مارقہ رسمی ترجمان ’’زوابری الشام‘‘(شام کے خارجی) سے وہی کہتا ہوں جو بلند مرتبت پہاڑ کی مانند علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں کہا:

(فمن أضل ممن هذه سيرته واختياره ولكن حق لمن كان أحدًا يمينه ذو خويصرة الذي بلغه ضعف عقله وقلة دينه إلى تجويره رسول الله ﷺ في حكمه والاستدراك ورأى نفسه أورع من رسول الله ﷺ هذا وهو يقر أنه رسول الله ﷺ إليه وبه اهتدى وبه عرف الدين ولولاه لكان حمارًا أو أضل ونعوذ بالله من الخذلان)
[اس سے زیادہ گمراہ کون ہو گا جواس(خوارج) کی سیرت کو اپنائے اور اس کو اختیار کرے، لیکن جو کوئی بھی ذوالخویصرہ کی طرف رغبت دکھائے وہ اسی کا مستحق ہے، جس کی چھوٹی عقل اور قلتِ دین اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پراُن کو غلط کہنے کی طرف لے گیا،اور اس نے خود کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ وفاشعار سمجھنا شروع کیا،جبکہ وہ اس بات کا اقرار بھی کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور انہیں کے ذریعے اسے ہدایت ملی، اور انہی سے دین کی معرفت حاصل کی ہے، اگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو وہ گدھے کی مانند ہوتا یا اس سے بھی زیادہ گمراہ ہوتا، اور ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے چھوڑ دیے جانےسے اُس کی پناہ مانگتے ہیں]

تم نے قیادتِ جہاد کے سامنے جرأت دکھائی، اور اپنی حدود سے تجاوز کیا،اور ان لوگوں کے ساتھ حد سے بڑھے جنہوں نے تمہیں عزت بخشی، اور تم اُن کے ساتھ منسوب ہونے کو فخر سمجھتے تھے، یہاں تک کہ اسی کی بنیاد پر تم نے کم سن ناپختہ ذہن لوگوں کی اپنی طرف متوجہ بھی کیا، جس کے لیے تم نے سحرانگیز شعارات اور فریب کن عنوانات کا استعمال کیا، جس کی وجہ سے تمہارا بازو مضبوط ہوا اور تمہاری چھڑی بھی مضبوط ہوئی، اور تمہارے اوپر شاعر کی یہ بات صادق آ گئی:

أُعَلِّمُه الرمايَة كُلَّ يَومٍ *** فَلَمّا اشتدَّ ساعِدهُ رَماني
وَكَمْ عَلَّمْتُهُ نَظْمَ الْقَوَافي *** فَلَمَّا قَال قَافِيَةً هَجَاني

میں اسے ہر روزنشانہ بازی سکھاتا *** اور جب اس کابازو مضبوط ہوا، اس نے مجھے ہی نشانہ بنا ڈالا
اور کتنی ہی میں نے اس کو نظمیں سکھائیں *** پھر جب وہ نظم کہنے کے قابل ہوا، تو میری ہی تضحیک کر ڈالی

علامہ المناوی ’فیض القدیر‘ میں کہتے ہیں:

(كلاب أهل النار هم قوم ضل سعيهم في الحياة الدنيا وهم يحسبون أنهم يحسنون صنعًا، وذلك لأنهم دأبوا ونصبوا في العبادة وفي قلوبهم زيغ، فمرقوا من الدين بإغواء شيطانهم حتى كفروا الموحدين بذنب واحد، وتأولوا التنزيل على غير وجهه، فخُذلوا بعدما أيدوا حتى صاروا كلاب النار فالمؤمن يستر ويرحم ويرجو المغفرة والرحمة، والمفتون الخارجي يهتك ويعير ويقنط وهذه أخلاق الكلاب وأفعالهم، فلما كلبوا على عباد الله ونظروا لهم بعين النقص والعداوة ودخلوا النار صاروا في هيئة أعمالهم كلابًا كما كانوا على أهل السنة في الدنيا كلابًا بالمعنى المذكور)
[’جہنم کے کتے‘ (یعنی خوارج) ایسی قوم ہے جن کی کاوش دنیا کی زندگی میں ضائع ہو گئی، جبکہ وہ یہ گمان کر رہے تھے کہ وہ نیک اعمال کر رہے ہیں،اور یہ اس سبب ہوا کہ وہ عبادت میں تو ریاضت کر رہے تھے لیکن دل میں گمراہی تھی،وہ اپنے شیاطین کے دھوکے میں آ کر (دین کی تشریح سے) نکل گئے،حتی کہ انہوں نے موحدین کی تکفیر صرف ایک گناہ کی بنیاد پر کرڈالی، اور اللہ کی وحی کو ایک غلط جہت میں پیش کر دیا، پس انہیں مدد دیے جانے کےبعد چھوڑ دیا گیا اور وہ جہنم کے کتے بن گئے، ایک مومن چھپاتا ہے، رحم کرتا ہے اور مغفرت اور رحمت کی امید رکھتا ہے، اور سحرذدہ خارجی منکشف کرتا ہے، ذلیل کرتا اور رسوائی دیتا ہے، اور یہ تمام کلاب(کتوں) کےاسلوب اور افعال ہیں، اور جب انہوں نے اللہ کے بندوں کی طرف شدت دکھائی،اور اُن کی طرف نقص والی آنکھ سے دیکھا اور اُن سے دشمنی کی، تو جہنم میں اپنے اعمال کی وجہ سے داخل کر دیے گئے، بالکل ویسے ہی جیسےکہ یہ اہل سنت پر دنیا میں کلاب(کتوں)والااسلوب رکھتے تھے، جیسا کہ مذکورہ بالا بیان کیا گیا ہے]

آپ رحمہ اللہ نے مزید بیان فرمایا:
(كلاب أهل النار أي: يتعاوون فيها كعواء الكلاب أو هم أخس أهلها وأحقرهم كما أن الكلب أخس الحيوانات )
[’جہنم کے کتے‘ کا مطلب ہے: کہ جہنم میں کتوں کی طرح بھونکیں گے یا وہ جہنم کے لوگوں میں ذلیل ترین اور حقیر ترین ہوں گے جیسا کہ کتا حیوانات میں سب سے ذلیل ترین جانور ہے]

ہم عراقی اہل سنت کو کہتے ہیں،جوعراق میں زخموں سے چور ہیں، اےمعزز قبائل اور مجاہدین جماعتوں کے شیرو! اللہ تعالیٰ آپ میں اور آپ کے جہاد اور مبارک انقلاب میں برکت عطا فرمائیں، جو اس ظلم اورعدوان کے سامنے سینہ سپر ہیں، ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ آپ اپنی کوششوں کو ظالمین اور شدت پسندوں کے ہاتھوں چوری ہونے سے بچائیں، اور اپنا یہ ہدف بنائیں کہ اپنے مسلمانوں سے ظلم کو دورکریں گے،اور اس جہادی سفر کو واپس درست سمت کی طرف لے آئیں، اورعر اق کو اپنی صاف سنی شخصیت واپس دلوائیں، جو کہ افراط و تفریط سے پاک ہو۔

پھر میری نصیحت شام میں اور دیگر علاقوں میں مجاہدین جماعتوں کی قیادت سے ہے: خود کو ناموں کی بنیاد پرحزبیت اورمزموم تعصب سے بچائیں،جن کو آپ نے ہی وضع کیا ہے، اور اپنی اصل شناخت اور مصدر کی طرف آئیں جو دنیا اور آخرت میں فخر دلانے کا باعث ہے، وہی نام جو اللہ تعالیٰ نےآپ کے لیے منتخب کیا ہے، اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں فرماتے ہیں:

(وجاهدوا في الله حق جهاده هو اجتباكم وما جعل عليكم في الدين من حرج ملة أبيكم إبراهيم هو سماكم المسلمين من قبل)
[اور اللہ کی راه میں ویسا ہی جہاد کرو جیسا جہاد کا حق ہے۔ اسی نے تمہیں برگزیده بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیم (علیہ السلام) کا قائم رکھو، اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے]

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:

(وكيف يجوز التفريق بين الأمة بأسماء مبتدعة، لا أصل لها في كتاب الله ولا سنة رسوله ﷺ ؟ وهذا التفريق الذي حصل من الأمة علمائها ومشايخها وأمرائها وكبرائها، هو الذي أوجب تسلط الأعداء عليها)
[بدعتی ناموں کے ذریعے کس طرح امت میں تفریق پیدا کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے، جبکہ اس کی کوئی اصل نہ کتاب اللہ میں موجود ہے، نہ ہی سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی ہیں؟ امت کے اندر پائی جانے والی یہی تفریق جو ان کے علماء و مشائخ اور امراء وکبار میں پیدا ہوئی کے سبب ہی امت پردشمنوں کا تسلط ہوا]

أبي الإسلامُ لا أبَ لي سواهُ *** إذا افتخروا بقيسٍ أو تميمِ.
جہاں تک اسلام کی بات ہے تو اس کے علاوہ میرا کوئی اور والد نہیں ہے *** اگرچہ باقی قیس اورتمیم(قبیلے) پر فخرہی کیوں نہ کریں

اس بات سے متنبہ رہیں کہ آپ ریاست کے عہدوں کو اپنا محور نہ بنائیں، اور آزاد شدہ علاقوں پر تسلط حاصل کرنے کے لیے تنازعات اورجھگڑےپیدا نہ کریں،کیونکہ اگرآپ اس نااتفاقی پر رہو گے، تو آپ کوئی بھی دوست نہ بنا سکو گے اور نہ ہی کسی دشمن کو اداس کر سکو گے، پس اس لیے دل کے امراض اور دنیا اورعز ت کی چاہت سے خبردار رہیے، کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم سے راضی ہوئے اور اس سے متعلق سبب بھی بیان فرمایا: ( فعلم ما في قلوبهم فأنزل السكينة عليهم وأثابهم فتحا قريبا ‏) [ان کے دلوں میں جو تھا اسے اس نے معلوم کر لیا اور ان پر اطمینان نازل فرمایا اور انہیں قریب کی فتح عنایت فرمائی] (۴۸: ۱۸) اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ اُن کے دل میں ایمان اور اخلاص میں کیا موجود ہے، اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرمایا، وہ کامیاب ہوئے کہ اللہ اُن سے راضی ہو گیا اور اللہ کی طرف سے جلد فتح مل گئی۔

اے اللہ، ہمیں جمع فرما دیجیے، ہماری دراڑوں کو بھر دیجیے،ہمارے ضعف کو طاقت میں بدل دیجیے، ہماری صفوں میں اتحاد پیدا فرما دیجیے، اورظالموں اوردشمنوں کے خلاف ہماری نصرت کیجیے۔


سبحان ربك رب العزة عما يصفون، وسلام على المرسلين، والحمد لله رب العالمين

ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=Vy38mPB5ZWU



ساگر کے نام

بسم اللہ الرحمن الرحیم

ساگر کے نام
شیخ ابراہیم الربیش
- رحمہ اللہ -





اے ساگر، مجھے اپنےپیارے عزیزوں کی خبرتو دو

اگر میں اِن بے ایمان لوگوں کی زنجیروں سے نہ بندھا ہوتا، تو میں تجھ میں غوطہ زن ہو جاتا
اور اپنے محبوب اہل وعیال تک جا پہنچتا، یا تیری باہوں میں ہی فنا ہو جاتا

تمہارا ساحل اداسی،قید،تکلیف اور ناانصافی سے عبارت ہے
تمہاری کڑواہٹ میرے صبر کو کھا تی جاتی ہے

تمہارا ٹھہراؤ موت ہے، تمہاری بہتی لہریں عجیب ہیں
تمہاری جانب سے بلند ہونے والی خاموشی ،اپنے اندرفریب رکھتی ہے

تمہارا سکوت ناخدا کو مار دےگا ، اگر وہ ثابت قدمی دکھائے
اور جہاز راں بھی تمہاری لہروں میں ڈوب جائے گا

نرم، بہرے، خاموش،نظرانداز طریقےسے تم غصے کے عالم میں طوفان ہو
اپنے اندر لحدیں(قبریں) اٹھائے ہوئے ہو

اگرہواتمہیں مشتعل کرتی ہے، تمہارے اوپر ظلم واضح ہے
اگرہوا تمہیں خاموش کرتی ہے، تو پھرافراط وتفریط پر موجوں کا بہاؤ ہی ہے

اے ساگر، کیا ہماری زنجیریں تمہیں تکلیف دیتی ہیں؟
ہم تو روزانہ حالتِ جبر میں ہی آتے اور جاتے ہیں

کیا تم ہمارے گناہوں کو جانتے ہو؟
کیا تم سمجھتے ہو کہ ہمیں اِس ظلمت میں پھینک دیا گیاہے؟

اے ساگر، تم ہماری قید پر ہمیں طنز کرتے ہو
تم نے ہمارے دشمنوں کے ساتھ سازباز کر لی ہے، اور تم بھی بے رحمی سے ہماری نگہبانی کرتے ہو

کیا یہ چٹانیں تمہیں اِن کے درمیان کیے گئے جرائم کا پتہ نہیں دیتیں؟
کیا مغلوب کیوبا(گوانتامو) اپنی کہانیوں کی ترجمانی تم سے نہیں کرتا؟

تم ہمارے ساتھ تین سال سے ہو، اور تم نے کیا حاصل کر لیا ہے؟
ساگر پر شاعری کی کشتیاں؛ ایک جلے ہوئے دل میں مدفون شعلہ

شاعر کے الفاظ ہماری طاقت کا سرچشمہ و منبع ہیں
اس کے شعر ہمارے دکھی دلوں کا مرہم ہیں



انگریزی متن:
http://www.andyworthington.co.uk/2007/10/03/a-poem-from-guantanamo-ode-to-the-sea-by-ibrahim-al-rubaish/


جمعہ، 10 اپریل، 2015

’انقلابی جھنڈے ‘ سے متعلق کیا حکم ہے؟

بسم اللہ الرحمن الرحیم
’انقلابی جھنڈے ‘ سے متعلق کیا حکم ہے؟
شیخ ڈاکٹر عبداللہ محیسنی
#حكم_علم_الثورة



وہ سوال جوکثرت سے بہت سے لوگوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے!


‏سوال:
آپ کی’انقلابی جھنڈے ‘کے بارے میں کیا رائےہے؟

جواب:
کسی کے لیے شرعی طور پر یہ جائز نہیں کہ وہ جو چیز اللہ تعالیٰ نے حرام کی ہے،وہ اسے حلال کرے یا وہ چیزجو اللہ تعالیٰ نے حلال کی ہے اسے بغیر کسی دلیل یا برہان کے حرام قرار دے ، یہ’’انقلابی جھنڈے کا حکم‘‘ [#حكم_علم_الثورة] اُس سے لی گئی مراد پر مبنی ہے، اگر وہ جھنڈے کو بلند کرتے ہوئے یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ سقوطِ نظام کاایک شعار ہے اور یہ اس مبارک انقلاب کی علامت ہے جس کی وجہ سے طاغوت کےکل پرزے غیرمستحکم ہوں گے، تو پھرایسا کرنے میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے، اور جو اس جھنڈے کو بلند کرتے ہیں اُن کے بارے میں یہ بات علم میں ہے کہ اس سے کوئی لادینی سیکولر ریاست مراد نہیں لیتے بلکہ وہ اس جھنڈے کو نظام کے سقوط کے شعار اور علامت کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور یہ اس طریقے پرایک مشروع معاملہ ہے اور اللہ کے دین سے متعلق جہالت کی وجہ ہےیہ بیان ہوتا ہے کہ (جھنڈے کا کپڑا)

چاہے کالا ہو یا سبز یاسفید اس پر معتقد ین اس کی بنیاد پر ’الولاء والبراء‘ (دوستی اور دشمنی)کو قائم کرتے ہیں،
اس میں بھائیوں کے لیے عبرت ہے کہ قتال کے مقصدکو دیکھا جاتا ہے نہ کہ جھنڈے کا رنگ اس میں اہمیت رکھتا ہے۔

جو کوئی بھی نظام کے سقوط کے لیے قتال کر رہا، تو وہ ظلم کے خلاف بدلہ لے رہا اور اگر وہ اسی حالت پر فوت ہو جاتا ہے، تو باذن اللہ، وہ شہید ہے، جبکہ جو کوئی اس لیے قتال کر رہا کہ اس کے ذریعے لادینی (بشار)اسدی مشروع کو بدل کر کوئی دوسرا لادینی مشروع لے آئے، تو وہ شہید نہیں ہے، اور جو کوئی بھی اس لیے قتال کر رہا کہ اللہ تعالیٰ کی شریعت کے بغیر کوئی حاکمیت قائم ہو، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس معاملہ سے متعلق فیصلہ دے دیا ہے:

ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الكافرون
[جو لوگ اللہ کی اتاری ہوئی وحی کے ساتھ فیصلے نہ کریں، وه (پورے اور پختہ) کافر ہیں]

بلکہ مزید اس پر یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ یہ بات جہالت پر مبنی ہے کہ جھنڈوں کو دیکھا جائے، اور اگر وہاں پر لکھا ہوا ہے،
[لا الہ الا اللہ] ، تو اُس کواٹھانے والا مسلمان ہے!
وگرنہ لادینی سیکولر!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈوں پر کوئی مہر نہ ہوتی تھی اور نہ کچھ لکھا ہوتا تھا البتہ کچھ کلمہ ہوتا تھا جو کچھ رنگوں سے رنگا ہوتا تھا۔۔۔عادات پر اتنا عمل نہ کرو کہ اسے عقیدہ سمجھنے لگو!

شاید اس باب میں غلطی اس بنیاد پر ہوئی ہے کہ ’اسلامی جھنڈے‘ کے معنی میں لوگ جہالت کا شکار ہوئے ہیں،
اور انہوں نے گمان کیا کہ اس سے مراد کوئی ’کپڑا‘ ہے!
جبکہ اس سے مراد قتال کا مقصد اوراُس قتال کا ہدف ہے

شیخ ڈاکٹر عبداللہ المحیسنی
#حكم_علم_الثورة

مصدر:
https://justpaste.it/mhisne

شیخ ابو عبداللہ شامی کا بیان بعنوان [ مباہلہ]

بسم اللہ الرحمن الرحیم



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
المباهلة
مباہلہ
شیخ ابو عبداللہ الشامی
جبھۃ النصرہ کی مجلسِ شوری اورمجلسِ شرعی عامۃ کے رکن







شیخ ابو عبداللہ شامی کا بیان بعنوان [اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لیے بہتر ہے]

بسم اللہ الرحمن الرحیم



[وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا]
[اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور بہت زیاده مضبوطی والا ہے]

جبھۃ النصرہ کی مجلسِ شوری اورمجلسِ شرعی عامۃ کے رکن
شیخ ابو عبداللہ الشامی
- حفظہ اللہ -


الحمد لله ثم الحمدللہ، الحمدللہ حمداً کثیراً طیباًمبارکاً فیہ کما یحب ربنا ویرضی،
والصلاة والسلام على رسولنا و نبینا و قائدنا و اسوتنا و قدوتنا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين،
اما بعد؛

یہ کچھ وقفات ہیں جو عدنانی کی آخری تقریر بعنوان [ثم نبتهل فنجعل لعنة الله على الكاذبين] کے جواب میں بیان کیے جا رہے ہیں:

اول:

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
للفقراء المهاجرين الذين أخرجوا من ديارهم وأموالهم يبتغون فضلا من الله ورضوانا وينصرون الله ورسوله أولئك هم الصادقون * والذين تبوءوا الدار والإيمان من قبلهم يحبون من هاجر إليهم ولا يجدون في صدورهم حاجة مما أوتوا ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة ومن يوق شح نفسه فأولئك هم المفلحون (الحشر : 8-9)
[(فیء کا مال) ان مہاجر مسکینوں کے لیے ہے جو اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے نکال دیے گئے ہیں وه اللہ کے فضل اور اس کی رضامندی کے طلب گار ہیں اور اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی راست باز لوگ ہیں * اور (ان کے لیے) جنہوں نے اس گھر میں (یعنی مدینہ) اور ایمان میں ان سے پہلے جگہ بنالی ہے اور اپنی طرف ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں اور مہاجرین کو جو کچھ دے دیا جائے اس سے وه اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں رکھتے بلکہ خود اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کو کتنی ہی سخت حاجت ہو (بات یہ ہے) کہ جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا گیا وہی کامیاب (اور بامراد) ہے ]

یہ قرآن مجید میں مسلم معاشرے کے اندر مہاجرین اور انصارکی تصویر کشی کی گئی ہے، پس جو کوئی بھی اسلامی معاشرے میں اِس کے علاوہ کوئی تصویر کشی کرتا ہے، تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے:

أبدعوى الجاهلية وأنا بين أظهركم، دعوها فإنها منتنة
[کیا تم جاہلیت (کے ایام) کی دعوت دیتے ہو جبکہ میں تمہارے درمیان موجو ہوں؟ اسے چھوڑ دو، یہ بوسیدہ (غیر معتبر)ہے]

ساحاتِ شام میں اللہ کے فضل سے مہاجرین وانصار موجود ہیں، اور کوئی بھی منادی جو اس (قرآن کی آیت) کے برعکس ہو، وہ جاہلیت کی دعوت ہے۔ ہماری تم سے اللہ تعالیٰ کے لیے درخواست ہے کہ مہاجرین اور انصار کے مابین صف بندی کو خراب مت کرو!

جبھۃ النصرۃاسلامی معاشرے میں(مہاجرین و انصار) کی وہی تصویر کشی کرنے کی سعی کرتے ہے جو کہ قرآن ِ مجید کی سابقہ آیت میں بیان کی گئی ہے، چنانچہ وہ اپنی صفوف میں مہاجرین کو قبول کرتی ہے۔ اُس کی صفوف میں بہت سے مہاجرین ہیں، الحمدللہ، اگرچہ انصار کی تعداد مہاجرین کی نسبت زیادہ ہے ، جو کہ کسی بھی ساحات(جہاد) کے لیے ایک معیاری بات ہے، کہ جو مہاجرین مدینہ میں جمع ہوئے، اُن کی تعداد بھی انصارانِ مدینہ سے کم تھی۔ الحمدللہ، مہاجرین کا صفوں میں ہونا فقط جبھۃ النصرۃ تک محدود نہیں ہے، بلکہ یہاں پر ایسی جماعتیں بھی میدان میں موجود ہیں، جن کے اندر بہت سے مہاجرین شامل ہیں، یہاں تک کہ ساحاتِ شام میں بہت سے مہاجرین کتائب بھی موجود ہیں، جو کہ جماعت الدولۃ اور نہ ہی جبھۃ النصرہ کے تابع ہیں۔ یہ (مہاجرین وانصار کی محبت) ایک ایسی حقیقت ہے، جو ہماری جہادی شخصیات کے اندر نقش ہو چکی ہیں، اور باذن اللہ، اس معاملہ میں نہ ہم متزلزل ہوں گے نہ ہی تبدیل کیے جائیں گے۔

دوم:
اس قتال کی ایسی تصویر کشی کرنا جیسا کہ اس قتال میں جماعت الدولۃ ایک طرف ہےاور دوسری طرف الجربا اورادریس(شخصیات کے نام) ہیں، یہ بہت بڑی خطا ہے۔ شمالی شام میں سب سے زیادہ بوجھ جن دو بڑی جماعتوں نے جماعت الدولۃ کے خلاف قتال کی وجہ سے اٹھایا، وہ جبھۃالاسلامیہ اور جیش المجاہدین ہیں، اور جہاں تک مشرقی شام کا تعلق ہے،تو وہاں جبھۃ النصرہ نے اس قتال کا بوجھ اٹھایا ،جیسا کہ سب یہ بات جانتے ہیں، کہ جبھۃ النصرہ کا تعلق اِن ارکان اور اتحاد کے ساتھ نہیں ہے۔

اور جہاں تک تعلق جبھۃ الاسلامیہ اور جیش المجاہدین کا ہے جو جماعت الدولۃ کے خلاف قتال میں دو بڑی جماعتیں ہیں، تو ہم پر یہ بات ثابت نہیں ہے کہ انہوں نے ارتداد اختیار کر لیا ہے اور ہم ان کے حال سے متعلق جماعت الدولۃ سے زیادہ با خبر ہیں، کیونکہ ہم اُن کے زیادہ قریب ہیں۔ ہم نے جماعت الدولۃ سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان جماعتوں سے متعلق جو بھی اپنے دلائل رکھتےہیں، اُن کو اپنے باعتماد علمائے مجاہدین کی طرف پیش کریں تاکہ وہ جماعت الدولۃ کے دلائل کو دیکھتے ہوئے اِن جماعتوں سے متعلق واضح حکم کو بیان کر سکیں ۔

میں ہر منصف شخص سے اس چیز کا مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ اُن ملاحم پر نظر ڈالے، جو مبارک ارضِ شام میں جبھۃ النصرہ کے مہاجرین اور انصار نے رقم کی ہیں، جس کی توثیق ’المنارۃ البیضاء‘(جبھۃ النصرہ کا نشر و اشاعت کے لیے مختص ادارہ) پر نشر کیے گئے مواد سے ہو سکے گی، بلکہ بعض دیگر ذرائع ابلاغ سے بھی مثلا الجزیزۃ چینل سے بھی ہو سکے گی۔ ان غزوات کی طرف نظر ڈالیے جو جبھۃ النصرہ نے درعا(جنوب شام کا علاقہ) میں رقم کیں، اور اس کے بعد اسلامی شام اور اس کے دونوں نخلستان اس پر گواہ ہیں، قلمون(علاقہ) کے پہاڑوں سے پوچھیں، وہ آپ کو اِن عظیم ابطال کے کارناموں سے آگاہ کریں گے، جہاں وہ اس ملحمہ (بڑی جنگ) میں روزانہ کی بنیاد پر نصیریوں کے مظالم کو رفع کرنے کےلیے کوشاں ہیں، اور حزب اللات(لبنان کی تنظیم ’حزب اللہ‘ کی طرف اشارہ ہے) اور عراقی رافضی کتائب اور دیگر گروہوں کو ناکوں چنے چبوائے ہیں ۔

اس کے بعد بہادر، مزاحمتی حمص جو کہ حصار میں ہے اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے ہی اس کا شکوہ کرتے ہیں، اور ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں معاملات کو بہتر کرنے کی توفیق عنایت فرمائیں۔ شام کے حماۃ میں ہمارے سپاہی روزانہ کی بنیاد پراُن حرمات کابدلہ لےرہے ہیں جو پچھلی تین دہائیوں سے پامال کی جا رہی تھیں، اور وہ ایک معرکے سے دوسرے معرکے کی طرف گامزن ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس سیدھے رستے پر استقامت دیں۔ ادلب میں بڑے معرکے اور غزوات ہو رہی ہیں، اور صفِ اول کے خطوط کی حفاظت کی جا رہی ہے۔ اور الاذقیہ(علاقہ) میں جبھۃ النصرہ کے عظیم ابطال کے کارناموں کی گواہی وہاں کے پہاڑ دیں گے، اور بہادر حلب(علاقہ) میں بڑے کارنامے اور قربانیاں، جنگیں اور غزوات اللہ کے دشمن نصیریوں اور رافضیوں کے خلاف جاری ہیں تاکہ ان کے شدید حملوں کے خلاف دفاع کیا جا سکے۔ دیر (دیر الزورعلاقہ) کی چھاؤنی میں، وہاں پر رباط میں اللہ کے دشمنوں کے خلاف بہت صبر اور جلالت دکھائی جا رہی ہے، اُن شیروں کی جانب سے جنہوں نے اپنے نفس کو اللہ کے ہاں بیچ دیا، ہم اُن کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کسی کی بڑائی بیان نہیں کرتے۔ جبھۃ النصرہ ہر محاذ پریہی خصوصیت اپنائے ہوئے ہے، اور وہ نصیریوں کے خلاف محاذ پر اپنے کاندھوں پر بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہے، اور شام کی بڑی عملیات میں اُن کی قیادت شریک رہتی ہے اور یہ کوئی اتفاقی معاملہ نہیں ہے ، بلکہ یہ سب کچھ تو شیخ ایمن الظواہری کے فیصلے سے پہلے بھی ایسے ہی تھا، اور بعد میں بھی ویسے ہی جاری ہے۔

یہ جبھۃ النصرہ کی بعض عسکری کارکردگی ہے۔ جماعت الدولۃ نے تقریباً ایک سال پہلے اپنے (شام میں) اعلان کے بعد اللہ کے دشمنوں کے خلاف کیا کارگردگی دکھائی ہے، سوائے کچھ غزوات کے جو کبھی اِدھر کر لیں، کبھی اُدھر کر لیں؟!

میں ہر منصف شخص کو دعوت دیتا ہوں کہ وہ دیکھے کہ کس طرح جبھۃ النصرہ نے کس طرح ایک وسیع پیمارنے پر حرکتِ جہاد کا دفاع کیا ہےاور پیش قدمی کی ہے، اور لوگوں کے سامنے اس جہادی فکری تحریک(دھارے) کو پیش کر دیا ہے، جبکہ کفار اسے ایک بہت بڑے درجہ پر عامۃ الناس سے دور کر رہے تھے۔ تمام لوگ توحید کے جھنڈے [لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ] کو لہرانے لگے اور اس کی حمایت کرنے لگے۔ شام میں یہ جہادی پودا ایک مضبوط تناآور درخت بن گیا، جس کی جڑیں گہری ہو گئیں اور جس کے شاخیں نمایاں طور پر ابھرنے لگیں؛ اس کامضبوط تنا اور شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں، جوجہادشام کے اسلامی سائبان سے بڑھتا ہواپورے عالم میں پھیل گیا۔

جہاد کا قضیہ عالمِ اسلام میں بلند ہونے لگا، اور تمام مسلمانوں نے توحید کے جھنڈے لہرانا شروع کیے، اور اس کے علاوہ کسی چیز پر راضی نہ ہوئے، چاہے وہ لادینی جھنڈے ہوں یا جمہوری اور وہ تمام جھنڈے سر نگوں ہو گئے۔ اور لوگ شریعت کی حاکمیت کی باتیں کرنے لگے، اور اس بات کی شہادت دوست، قریب، دور، مسلم اور غیرمسلم سے قبل دشمن نے بھی خود دی!

بہت سے ذرائع ابلاغ جو مشروعِ جہاد کا راستہ روکتے تھے، وہ اُس کی حمایت کرتے نظر آنے لگے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اِس وجہ سے عنایت کیا کیونکہ ہم نے اپنے دین پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہ کیا۔ جو کوئی بھی شیخ جولانی حفظہ اللہ کی پہلی تقریر کو سنے گا وہ دیکھ لے گا کہ کسی طرح اُن کی طرف سے اس قضیہ کی وضاحت بہت صراحت کے ساتھ بیان کی گئی، کہ’ ولاء والبراء‘ کا عقیدہ ہماری دعوت و منہج کا جزو ہے اور ہم ان شاء اللہ، اس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

ذرائع ابلاغ کا ہم سے یہ تعلق صرف اسی وجہ سے بنا اور خبروں کی زینت بننے لگا کیونکہ ہم نے معاشرے کے اندر موجود ایک سیع حصے کو متحرک کر دیا تھا، اور ہم یہ تمام باتیں کسی تکبر، بداندیشی اور شوخی کے طور پر بیان نہیں کر رہے، لیکن ہمارے اُوپر واجب ہے کہ ہم اللہ کی اِن نعمتوں کا شکر اداکریں، اوراللہ تعالیٰ کا ہم ہر حال میں شکر بجا لاتے ہیں۔

یہ منبر جو لوگوں کو جہاد اور مجاہدین سے دور رکھنے کی صدائیں بلند کرتے تھے، وہ بدل کر جہادومجاہدین کی حمایت کی صدائیں بلند کرنے لگے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے مناجات ہونے لگیں کہ انہیں فتح نصیب فرمائیں۔ جو ہمارے منہج و فکر میں ہم سے اپنی تحریروں میں مخالفت رکھتے تھے، شام میں مشروعِ جہاد کی حمایت کرنے لگے۔ جبھۃ النصرہ علمائے امت سے دور نہ ہوئی، بلکہ ان کے ساتھ مل کر اپنے فیصلوں پر کام کرنے لگی،اور اُن کے اجتہادات اور فقہ کے تابع ہو کر اپنے فیصلے کیے۔

اُس کےعلاوہ جبھۃ النصرہ نے جہاں عسکری بوجھ کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا، وہاں پر (اہل شام) کو خدمات مہیا کرنے کا بوجھ بھی اٹھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کچھ خدمات اُن کمزوروں اور بے گھروں کو مہیا کیں، اور کچھ بیکریوں اورہسپتالوں تک خدمات مہیا کیں، اور کثیر مسلمانوں کو آٹے کی ترسیل کی۔

جبھۃ النصرہ نے اپنا ایک ضابطہ بنایا جس کے ذریعے اس نے تمام دیگر کتائب اور جماعتوں کے ساتھ مل کر ہم آہنگی پیدا کی، خاص طور پر وہ ان کے ساتھ جنہوں نے نصیریوں سے لڑنے کا عہد کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام کاوشیں ایک نکتہ کی طرف مرکوز ہو گئیں، جس سے جہاد، دین اور توحید کی خدمت ہونے لگی،اور اپنی توجہ نصیری دشمن پر مرکوز رکھی گئی، اگرچہ کہ افکار اور مناہج میں اختلافات بھی تھے۔

اللہ کے فضل سے اس کامل صورت کو دیکھتے ہوئے، جبھۃ النصرہ نے لوگوں کا اعتماد اور احترام باقی لوگوں سے حاصل کیا اور وہ مشروعِ امت کی امید بن گیا، جس کے لیے کافی دہائیوں سے لوگ منتظر تھے۔ ہم اپنے اس مشروع(جہاد) پر اپنا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں، ہم اس میں متذبذب نہیں ہوں گے اور نہ ہی پیچھے ہٹیں گے، ان شاء اللہ۔ ہم اللہ تعالیٰ سے استقامت اور قبولیت کا سوال کرتے ہیں، جس میں ہم اپنے جہادی اور فدائی سفر پر رواں ہوں، اپنے مشروع پر جس میں اللہ کی شریعت کی حاکمیت ہو، اور ایک خلافتِ راشدہ کی طرز پراسلامی حکومت کا قیام ہو، جو منہجِ نبوت پر قائم ہو۔ ہم اپنی جانوں کو اللہ کے لیے قربان کر رہے ہیں تاکہ اللہ کی شریعت کی حکمرانی ہو، اور ہم توحید کے جھنڈے کے علاوہ کسی اور جھنڈے تلے اپنی جانوں کو قربان نہیں کر رہے۔

اگرچہ جماعت الدولۃ نے شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے اس فیصلے پر عمل کرنے سے انکار کر دیا ہے کہ وہ واپس عراق پلٹ جائیں، ہم امید کرتے ہیں کہ جماعت الدولۃ اس مبارک مشروع کو جاری رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے اس میں شریک ہو گی اور اِس مشروع کے کسی بھی عنصر کی حمایت میں اپنا حصہ ڈالے گی۔

اس سب کے باوجود، ہمیں صحوات(مرتدین) گردانا جاتا ہے، اور ہم پر احکاماتِ مرتدین کی تطبیق کی جاتی ہے، اور مرتدین کی معاونت کا الزام ڈالا جاتا ہے، اور ہمیں دشمن الجربا اور اُس کے اتحاد کے ساتھ متصف کیا جاتااور دوسری طرف ادریس اور اس کے ارکان میں سمجھ لیا جاتا ہے۔ ہم اس پر بہت صبر کرتے ہیں، اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اس چیز سے جو یہ ہماری طرف منسوب کرتے ہیں۔

سوم:
ہمارا جماعت الدولۃ پر حکم وہ اُن کی ظاہری خصوصیات اور صفات کی وجہ سے ہے،جو اُن کی طرف سے کیے گئے شدت پسند اعمال کی طرف بہت وضاحت سےاشارہ کرتی ہیں،اور جو اِس جماعت کےظاہری اعمال پر قوت سے دلالت کرتی ہیں۔ ہم کسی بھی فکری نظریے،عقائد، منہج یا آراء کی بنیاد پر یہ بیان نہیں کررہے ہیں، بلکہ اِس کا تعلق اِن کے عملی اقدامات سے ہے۔

اہل سنت کا یہ قول ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے، اس لیے کسی پر حکم فقط اقوال کی بنیاد پر نہیں لگتا ہے، بلکہ اُن کے افعال بھی دیکھے جاتے ہیں، اور ہم لوگوں کی نیتوں اور قلوب کے اندر جھانک کر نہیں دیکھتے، بلکہ اُن کے ظاہری اعمال کی طرف دیکھتے ہیں، ہمارے اوپر ظاہر پر فیصلہ کرنا ہے، اور باطن کے (خفیہ) معاملات اللہ تعالیٰ کے سپرد ہیں۔

سیدنا عمرؓ بیان فرماتے ہیں:
فمن أظهر لنا خيرًا أمناه وقربناه وليس إلينا من سريرته شيء الله يحاسبه في سريرته، ومن أظهر لنا سوءًا لم نأمنه ولم نصدقه وإن قال إن سريرته حسنة
[جو ہم پر نیک اعمال کو ظاہر کرے گا، ہم اس کوامان دیں گے اور اپنے قریب کریں گے، اور ہم اس کا محاسبہ اس کے پوشیدہ اعمال پر نہیں کریں گے، کیونکہ اللہ اُن کا محاسبہ کرنے والےہیں، لیکن جو کوئی ہمارے سامنے برے اعمال پیش کرے گا ، ہم نہ ہی اسے سلامتی دیں گے اور نہ ہی اس کی تصدیق کریں گے، اگرچہ وہ یہ دعوی ہی کیوں نہ کرے کہ اُس کی نیت اچھی ہے]

چہارم:
ہم اس بات کا اعتقاد نہیں رکھتے کہ ہمارے اقدامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئی شریعتِ الہیہ ہے، جس کی مخالفت کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، لیکن ہمارا (جہادی) مشروع اللہ تعالیٰ کی شریعت کی طرف سنجیدگی اور مخلصی سے دعوت دینا ہے، اور سب سے پہلے اس کا اطلاق خود ہمارے اوپر ہوتا ہے، شام میں جماعت الدولۃ کا وجود اس فیصلے کی بنیاد نہیں ہے، بلکہ یہ جنگ بندی کی طرف دعوت ہے تاکہ حقوق کو غصب کرنے والوں کا تعین کیا جا سکے، جس میں اُن تنازعات میں ناحق خون اور دیگر دوسرے معاملات کا فیصلہ ہو سکے تاکہ حقوق کو لوٹایا جا سکے اور فریقین کے درمیان تنازعات کے فیصلے کیے جا سکیں۔

ہم قرآن و سنت کو اپنا نورِہدایت بنائیں، اور یہی بات کی پیروی ہمارے اور اُن کے اوپر واجب ہو، ہم اللہ کو گواہ بناتے ہیں کہ اگر تم ہم سے لڑنے سے باز آ جاتے، تو ہم بھی تم سے قتال سے باز رہتے اور اس پر ضرور عمل کرتے، خصوصی طور پر جبکہ تمہارا ظلم ابھی حالیہ ہی دیر الزور(علاقہ ) اور حسکہ(علاقہ) پر ہوا ہے، اور وہ بھی اُس کے بعد ہوا جبکہ تمہارے امیر شیخ بغدادی کی طرف سے یہ پکار لگائی گئی کہ اُن سے قتال سے باز رہا جائے، جو تم سے قتال کرنے کے لیے نہیں آتے۔تم نے اپنے امیر کے حکم پر عمل کرنے کا التزام نہ کیا، حالانکہ ہم تمہارے ساتھ مشرقی جانب کسی بھی تنازعہ میں اُس وقت شریک نہیں تھے۔ جب یہ جارحیت کی گئی تو تم اُن حملہ آوروں کے ساتھ کھڑے ہو گئے، اور ہم دونوں کو اس غیر مطلوب لڑائی میں کھینچ لائے،اگرچہ اُس وقت چاہیے تھا کہ تمہارے امیر کی خلاف ورزی کرنے والوں کا محاسبہ کیا جاتا اور انہیں سزا دی جاتی۔

پنجم:
جیسا کہ رسمی ترجمان ابو محمد عدنانی کی جانب سے یہ بیان ہوا جب اس نے کہا کہ دولۃ نے یہ افعال قصداً نہیں کیے، اس پر جواباً میں یہ کہتا ہوں:

ایک طرف تو جو ہم نے بہت سے اعمال کا تذکرہ کیا ہے ، اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہی ان کا مقصود تھا۔ دوسری طرف اہل سنت اس بات میں تفریق کرتے ہیں کہ کون سا عمل ارادے سے کیا گیا ہے جس پر فاعل کے لیے وعید ہے اورکون سا بغیرارادے کےعمل کیا گیا ہے، اور جو بھی ہم نے تمہارے سے متعلق ذکر کیا ہے اس کا تعلق دوسری قسم سے ہے۔

اگر تم اس مباہلہ کا ارادہ فقط اس قید کے ساتھ کرنا چاہتے ہو جس کو تم نے بیان کیا،تو یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ چھپی ہوئی باتوں کاعلم رکھتے ہیں،اور مباہلہ ایک دعا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کو پکارا جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ خائن لوگوں کا علم رکھتے ہیں اور اس بات کا بھی علم رکھتے ہیں جو لوگ دلوں میں چھپاتے ہیں۔

ششم:
تم نے مجھے مباہلہ کے لیے کچھ چیزوں پر بلایا ہے، اور کچھ چیزوں پر خاموشی اختیار کر لی ہے۔ کیا تمہاری خاموشی میرے نکات کے معتبر ہونے کا اقرار ہیں یا پھر تم کس طرح اپنی خاموشی کی توضیح بیان کرو گے؟ میں تم سے اس سے متعلق کچھ سوالات پوچھتا ہوں:

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ جس شخص نے شیخ ابو خالد السوریؒ کو قتل کیا ، اُس کا تعلق تمہاری جماعت سے نہیں تھا؟ اگر تم یہ کہتے ہو کہ یہ معاملہ شرعی عدالت میں فیصلے کا محتاج ہے، نہ کہ مباہلہ کا محتاج ہے، حتی کہ اس قضیے کا فیصلہ ہو جائے، تو پھر میں تم سے کہوں گا: تم نے سچ کہا، آؤ پھر اس (شرعی محاکمہ ) پر عمل کرتے ہیں؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے تمہاری موجودگی میں یہ بات کہی: (جبھۃ النصرہ) کا براہ ِراست خراسان(القاعدۃ الجہاد، قیادتِ عامہ) سےرابطہ ہو جانا، ہمارے نزدیک ہمارے خلاف خروج نہیں ہے، اور ہمارے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ جبھۃ النصرہ کا براہ راست خراسان سے رابطہ ہو جائے؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے تمہاری موجودگی میں یہ بات کہی: میری گردن پر شیخ اسامہؒ کی بیعت تھی، اور جب ان کی شہادت ہو گئی، اللہ ان کی شہادت قبول فرمائیں، تو میں نے کو خط لکھ کر شیخ ایمن الظواہری حفظہ اللہ کی بیعت کی تجدید کی، اور ہم اپنے امرائے خراسان کی سمع و اطاعت کرتے ہیں؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے تم نے اس بات پر عمل کرنے سے احتراز برتا جس میں تنازعہ سے قبل پیغام میں ہمیں اِس معاملہ کو پچھلی حالت پر منجمدکرنے کا کہا گیا تھا؟

کیا تم مجھ سے اس بات پرمباہلہ کرو گے کہ تم نے مصلحت کو قتل کیا اور فتح کےفتوے لگا دیے؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ بغدادی نے کہا:
اگر جواب جبھۃ النصرہ کے حق میں آ گیا، تو میں تمام شامی لوگوں کے ماتھے کو بوسہ دوں گا، اور سجدے کرتے ہوئے اللہ کا شکر ادا کروں گا، اور عراق واپس چلا جاؤ گا؟

اور اُس(بغدادی) کے نائب امیر نے کہا:
اے جولانی! ہم آپ کی بیعت کریں گے اگر (شیخ ایمن الظواہری کا) فیصلہ جبھۃ النصرہ کے حق میں آ گیا، کیونکہ ہم سبھی جبھۃ النصرہ ہیں۔؟

کیاتم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ جولانی حفظہ اللہ نے ابتدائی قدم اٹھاتے ہوئے شیخ ابو یحییٰ عراقی کو لکھا کہ شیخ جولانی اپنے عہدے سے دستبردار ہو جاتے ہیں، اور جبھۃ النصرہ کی شوری اور الدولۃ کی شوریٰ آپس میں یکجا ہو جاتی ہیں، اور وہ ایک امیرِ عامۃ کا انتخاب کر لیں جو جبھۃ النصرہ کی بھی نمائندگی کرے گا، اور یہ ’تنظیم قاعدۃ الجہاد‘ کے نام سے کام کرے گی؟ اور یہ ان ایام کی بات ہے جب شیخ ایمن الظواہری کافیصلہ اس قضیے پر آ چکا تھا۔ اگرچہ فیصلہ شیخ جولانی کے حق میں تھا ، پھر بھی انہوں نے اس کو چھوڑ دینے کی پیش کش کی؟

کیا تم مجھ سے اس بات پر مباہلہ کرو گے کہ شیخ جولانی نے اس مسئلہ پر تمہاری طرف دو ابتدائی اقدامات اٹھائے؟ انہوں نے یہ ابتدائی اقدامات دو اشخاص کے ذریعے بھیجے۔ ان میں سے ایک شیخ عبدالعزیز قطری (رحمہ اللہ) ہیں، اللہ اُن کی شہادت قبول فرمائیں اور انہوں جنتوں کی وسعتوں میں جگہ دیں، اور دوسرےشخص وہ درمیانی وسیط ہیں، جو شیخ محسینی کے علاوہ انباری سے ملاقات کے لیے آ رہے تھے۔

[پہلا ابتدائی قدم یہ تھا کہ ایک ملاقات دونوں شیوخ جولانی اور بغدادی کے درمیان ہو، اور اس ملاقات میں طے ہو جانے والے امور پر دونوں شیوخ اپنی جماعتوں کو اس کا پابند بنا دیں گے۔

دوسرا ابتدائی قدم یہ تھا کہ دونوں شیوخ، شیخ جولانی اور شیخ بغدادی اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں، اور ہر کوئی جماعت اپنی طرف سے نامزد کیے گئے امیر کے نام کو شیخ ایمن الظواہری کو بھیج دے، اور جس کسی شخص پر بھی شیخ ایمن الظواہری بطور امیر راضی ہوجائیں، وہ دونوں جماعتوں کے امیر منتخب کر لیے جائیں گے، اور جبھۃ النصرہ اور دولۃ کے ناموں کو منسوخ کر دیا جائے گا اور ’تنظیم القاعدۃ الجہاد برائے شام‘کے نام سے تمام عمل کیے جائیں گے ]؟

ہفتم:
جہاں تک عدنانی کا مجھ سے مباہلہ کرنے والے امور کاتعلق ہے، تو وہ تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں:

اول قسم:
تاریخی حقائق؛ یہ بات معلوم ہے کہ تاریخ میں موجود اخبار کا ہم پر اطلاق تقریباً اسی طرح ہوتا ہے جس طرح حدیث سے متعلق قواعد ہیں، اور ان اخبار میں متواتر(بہت راوی) ، مشہور(تین یا اُس سے زائد راوی)،عزیز(جس کے دو راوی ہوں)، الاحاد(ایک راوی) شامل ہیں۔ متواتر کو دلائل میں قطعی حیثیت حاصل ہوتی ہے ، جبکہ الاحاد میں ظن(شبہ) پایا جاتا ہے۔ تو جو بات آخر میں متواتر کے طور پرثابت ہو جائے، تو اس کے متعلق آخر میں مباہلہ کیا جا سکتا ہے، نہ کہ ابتداء میں ہی اس کا آغاز کر دیا جائے۔ اور جو بات الاحاد کے طریقے پر ثابت ہو،تو اس پر مباہلہ نہیں کیا جا سکتا، واللہ اعلم؛ کیونکہ وہ متواتر کے درجے پر قطعی دلیل نہیں ہوتی۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ درست نہیں ہو گی، وہ درست ہو سکتی ہے، تاہم اس پر مباہلہ نہیں کیا جا سکتا۔ پس کسی بھی تاریخی واقعہ کے ثبوت، حقائق، شہادتوں، دلائل اور مباحث کا مطالعہ کیا جاتا ہے،اور اس کے بعد کہا جاتا ہے کہ یہ واقعہ ایسے پیش آیا یا نہیں آیا۔ پس اس قسم کے واقعات سے متعلق درست یہ ہے کہ اس سے متعلق مباہلہ آخر میں کیا جاتا ہے، نہ کہ ابتداء میں اور اس میں بھی اس بات پر جو متواتر سے ثابت ہو ۔

دوم قسم:
بہت سے خون بہا اور اموال سے متعلق حقوق؛ اس طرح کی مماثلت رکھنے والی چیزوں سے متعلق شرعی وسیلہ شرعی محاکمے(فیصلے) کے ذریعے اِن معاملات کا حل کرنا ہے، نہ کہ اِن پر مباہلے کرنا۔ ہم شرعی عدالتوں میں بیٹھتے ہیں اور قواعد کی تطبیق اس انداز سےکرتے ہیں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

البينة على من ادعى واليمين على من أنكر
[ دلائل دینا مدعی کے ذمے ہے، اور قسم اٹھانا انکار کرنے والے پر ہے]

ہم قسم اٹھانے کے وسیلے کو اختیار کریں گے، اس قسم کی چیزوں کا مباہلہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، اور اگرچہ ہم مباہلہ کر بھی لیں، مباہلے سے حقوق (العباد) ساقط نہیں ہوتے۔میں تم سے کہوں گا کہ خود پر تشدد مت کرو ، کیونکہ اس سے تمہارے اوپر خود یہ تشدد پہنچ جائے گا۔ اگر تم شرعی محکمے میں بیٹھتے ہو، تو تمہارے پاس اس معاملہ میں باقاعدہ آزادی ہو گی، جیسا کہ ہمارے ائمہ عظام کی فقہ میں وارد ہوتا ہے۔

امام الزھریؒ کہتے ہیں:
وقعت الفتنة وأصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متوافرون فأجمعوا أن كل مال أو دم أصيب بتأويل القرآن فإنه هدر
[فتنہ پیدا ہوا اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے ہوئے، اور اس بات متفق ہو گئے کہ جو بھی خون اورموال کی حرمت کی پامالی کسی قرآن کی تاویل کی بنیاد پر ہوئی ہے، وہ تلف ہے]

سوم قسم:
ان اجتہادی امور پر جن پر ہم پہنچے اور تمہارے گروہ کو خبرداری کے ساتھ مطالعہ کرنے کے بعد متصف کیا، ہم نے شروع میں ہی یہ بات بیان کر دی تھی، کہ ان کا تعلق ’احکام النوازل‘ سے ہے۔ اگر ہم درست ہوتے ہیں، تو یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ہے، اگر ہم نے غلطی کی ہے، تو ہم اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے ہیں اور توبہ کرتے ہیں اور یہ بات معلوم ہے کہ اجتہادی امور پر مباہلہ نہیں کیا جاتا ہے، کیونکہ مجتہد کو دو اجر (درست ہونے کی صورت میں) اور ایک اجر(غلط ہونے کی صورت میں) ضرور ملتا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے اخلاص اور قبولیت کا سوال کرتے ہیں۔

ششم:
مباہلہ کا امر بہت عظیم اور خطرناک معاملہ ہے، اے عدنانی ، میں تمہیں اللہ کے لیے کہتا ہوں کہ تم اُن لوگوں میں سے نہ ہو جانا، جو اس طریقے(مباہلہ) کو مجاہدین کے مابین شروع کرنے والے ہیں!

حافظ ابن حجرؒ کہتے ہیں:
إذا أصر بعد ظهور الحجة ثم قال: وقد دعي بن عباس إلى ذلك ثم الأوزاعي ووقع ذلك لجماعة من العلماء ومما عرف بالتجربة أن من باهل وكان مبطلًا لا تمضي عليه سنة من يوم المباهلة، ووقع لي ذلك مع شخص كان يتعصب لبعض الملاحدة فلم يقم بعدها إلا شهرين
[اگر وہ حجت کے ظاہر ہونے کے بعد بھی اصرار کرے، اور پھر کہا کہ ابن عباسؓ اور الاوزاعیؒ نے بھی اس طرف گئے ہیں، اور یہ علماء کی جماعت کے ساتھ بھی ہوا جنہوں نے تجربہ سے یہ بات سیکھی کہ جو بھی مباہلہ کرے، اور وہ باطل پر ہو، اُس پر ایک سال سے زائد کا عرصہ مباہلہ کے دن کے بعد سے نہیں گزرتا۔ میرے ساتھ بھی ایسا واقعہ پیش آیا جس میں ایک شخص بعض ملحدین کی طرف راغب تھا، تو وہ(مباہلہ کے بعد) دو مہینے سے زائد نہ ٹھہر سکا]

شارح نونية ابن القيم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
أنها -أي المباهلة- لا تجوز إلا في أمر مهم شرعًا ووقع فيه اشتباه وعناد لا يتيسر دفعه إلا بالمباهلة فيشترط كونها بعد إقامة الحجة والسعي في إزالة الشبه وتقديم النصح والإنذاروعدم نفع ذلك ومساس الضرورة إليها
[یہ (مباہلہ) سوائے کسی اہم شرعی معاملہ کے علاوہ جائز نہیں اور وہاں پر جائز ہے جہاں پر شک وشبہ اور تکبر پایا جائے، جس کو رفع بغیر مباہلہ کے لیے نہ کیا جا سکے۔ پس ضروری ہے کہ اس پر اتمامِ حجت کیا جائے، اور اس کے شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جائے، اور نصیحت اور تنبیہ کی جائے، اور اس سے کوئی فائدہ حاصل نہ کیا جائے اور بغیر ضرورت کے اس کا ہاتھ نہ لگایا جائے]

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنا عذر رکھتے ہیں، لیکن اس عذر کو مزید تقویت دینے کی غرض سے اور اس بات کی یقینی بنانے کے لیے کہ اتمامِ حجت کی جائے، اور تمام شبہات کے ازالہ کی کوشش کی جائے، ہم بعض صوتی یا ویڈیو کی صورت میں گواہیوں کو پیش کریں گے، جس سے متعلق عدنانی نے ہم سے مباہلہ کیا ہے، اس سے قبل کہ ہم اس پر مباہلہ کریں۔ اور یہ مدت عدنانی کو ایک مہلت کی صورت میں دی جا رہی ہے، جس میں وہ اپنے اوپر غوروفکر کرتے ہوئے محاسبہ کرے اور اللہ کے سامنے اکیلے پیش ہونے کو یاد کرے، کیونکہ اس نے بہت ہی خطرناک معاملے کو پیش کیا ہے۔ شاید یہ ممکن ہے کہ اس نے جس بات پر ہم سے مباہلہ کیا، وہ اس کونہ جانتا ہو اور نہ ہی اس کے علم میں وہ باتیں لائی گئی ہوں یا اس نے یہ (مباہلے کا قدم) غصہ میں اٹھایا ہو۔

اختتاماً:
میں اللہ کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میں نے یہ بات نہ ہی کسی کمزوری کی وجہ سے اور نہ ہی فرار اختیار کرنے کے لیے بیان کی ہے، بلکہ میری یہ نصیحت عدنانی کے لیے خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے ہے۔ اگر عدنانی رجوع کر لے، پس الحمدللہ، وگرنہ میں اس سے مباہلہ کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔ ان شاء اللہ، اپنے کلام پر جیسا کہ اس میں تفریق کر دی گئی ہے۔ میں اللہ کو گواہ بنا کر یہ بات کہتا ہوں کہ میں اس(مباہلہ کے) معاملہ کو اُس(عدنانی) پر (اللہ کے) خوف کی وجہ سےنا پسند کرتا ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف یہ شکایت کرتا ہوں: اے اللہ، میں آپ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ میں عدنانی کے ساتھ مباہلہ ہرگز نہ کرتا، اگر اُس نے مجھ سے مباہلہ نہ کیا ہوتا، اور اگر میرا اِس مباہلے سے خاموشی اختیار کرنا ان کے لیے منہجِ جماعت الدولۃ کے درست ہونے کی ایک نئی دلیل نہ سمجھ لی جاتی، تومیں مباہلہ نہ کرتا۔

اے جبرائیل، میکائیل اور اسرافیل کے رب، زمینوں اور آسمانوں کے بنانے والے، عالم الغیب کی خبر رکھنے والے، آپ اپنے بندوں کے درمیان اختلافات پر فیصلہ فرما دیجیے، ہمیں اس بات کی طرف اپنے اذن سے ہدایت دیجیے جس میں ہم اختلاف کر رہے ہیں، بلاشبہ آپ جسے چاہتے ہیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی عطا فرما دیتے ہیں۔

وصلی اللہ علی نبینا محمد و علی الہ و صحبہ وسلم
والحمدللہ رب العالمین

**************

فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِي أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ﴿النساء: ٦٥﴾
سو قسم ہے تیرے پروردگار کی! یہ مومن نہیں ہو سکتے، جب تک کہ تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں، پھر جو فیصلے آپ ان میں کر دیں ان سے اپنے دل میں اور کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کر لیں (۴: ۶۵)

ویڈیو لنک:
https://www.youtube.com/watch?v=sKDUnmZFdiQ

انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/g1ph






شیخ ابو عبداللہ شامی کا بیان بعنوان [کہ تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور چھپاؤ گے نہیں]

بسم اللہ الرحمن الرحیم



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
{ لتبيننه للناس ولا تكتمونه }
[تم اسے سب لوگوں سے ضرور بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں]
شیخ ابو عبداللہ الشامی
جبھۃ النصرہ کی مجلسِ شوری اورمجلسِ شرعی عامۃ کے رکن







بدھ، 1 اپریل، 2015

شیخ ابو ھمام السوری کی گواہی ، گواہیوں کا سلسلہ (۴)

بسم اللہ الرحمن الرحیم



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
گواہیوں کی سلسلہ(۴)
شیخ ابو ھمام السوری
- حفظہ اللہ -



[ویڈیو کا آغاز ہوتا ہے]

قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِين
[آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں] (۱۲:۱۰۸)

• جماعت الدولۃ کے عہداور معاہدوں کے توڑنے پر گواہ ہونا
• جماعت الدولۃ سے متعلق اس بات پر گواہ ہونا کہ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو نصیریوں کے خلاف صفِ اول کے محاذوں سے ہٹا دیا تاکہ اس قوت کے ذریعے دیگر مسلمان جماعتوں سے دوسری جگہوں پر لڑا جائے یا (دوسری جگہوں پر) صفِ اول کے خطوط کو بغیر کسی دفاع کے ہی چھوڑ دیا، اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے کہ اس سے مسلمانوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
• جماعت الدولۃ سے متعلق اس بات پر گواہ ہونا کہ انہوں نےثالثی اور مصالحت کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی یا اپنے معاملہ کو شرعی عدالت میں حل کرنے سےروکے رکھا اور قتال کرنے پر اصرار کیا حالانکہ ہر طرف سے مسلمانوں کا ناحق خون بہہ چکا تھا۔


[قندھار میں قائم معسکر الفاروق کے تدریبی مناظر فوٹیج میں دکھائے جا رہے ہیں]
[عربی نظم پڑھی جا رہی ہے]
[شیخ فاروق ابو ھمام السوری کی مختصر سوانح حیات]


شیخ ابو ھمام السوری (شامی) جو فاروق السوری کی کنیت سے معروف ہیں نےافغانستان ۹۰ کی دہائی میں سفر کیا، ۱۹۹۸ء سے ۱۹۹۹ء کے دوران انہوں نےشیخ ابو مصعب السوری کے الغرباء عسکری مرکز میں ایک سال کے لیے شمولیت اختیار کی، پھر اس کے بعد قندھار کے معروف الفاروق تربیتی مرکز میں چلے گئے، جو ’ائرپورٹ مرکز‘ کے نام سے بھی معروف ہے، جہاں پر افغانستان مجاہدین کے خصوصی دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ شیخ ابو ھمام نے معسکر الفاروق سے باقی ساتھیوں کے ہمراہ تربیت کو مکمل کیا، اور بہترین تربیت یافتہ تلمیذ کے طور پر دوسرے نمبر پر آئے جبکہ بھائی ابو العباس الزہرانی پہلے نمبر پر رہے ، جو کہ ۹۱۱ کے حملوں میں شامل ہونے والے ابطال میں سے تھے۔

اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد اُن کو شیخ سیف العدل ، جو تنظیم قاعدۃ الجہاد کی مجلس شوری کے رکن ہیں، کی جانب سے قندھار ائرپورٹ کے علاقہ کا امیر مقرر کیا گیا۔ شیخ ابو ھمام السوری نے معسکر الفاروق میں ایک مدرب(تریب کار) کی حیثیت سے بھی کام کیا، جہاں انہوں نے شیخ اسامہ بن لادنؒ سے ہاتھ ملاتے ہوئے اُن کی بیعت کی۔

شیخ ابو ھمام السوری کو شام کی طرف افغانستان آئے مہاجرین کا ذمہ دار مقرر کیا گیا، جہاں وہ خراسان میں اُن کے معاملات کی نگرانی کرنے کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے زیادہ تراُن معرکوں میں حصہ لیا جو صلیبیوں کے افغانستان پر حملے کےوقت پیش آئے۔

وہ شیخ سیف العدل کے ساتھ تھے، جب شیخ مصطفی ابو الیزید نے انہیں سقوطِ بغداد سے قبل عراق میں کام کرنے کا حکم دیا، جہاں وہ تقریباً ۴ ماہ تک مقیم رہے، اور خراسان میں تنظیم القاعدۃ الجہاد کی قیادت کے باضابطہ نمائندے رہے۔

اس عرصہ میں، اُن کی ملاقات شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ اور شیخ ابو حمزہ المہاجرؒ دونوں سےہوئی۔ جب وہ عراق میں مقیم تھے، تو انہیں عراقی خفیہ ادارے نے گرفتار کر لیا اور انہیں شامی حکومت کے حوالے کر دیا، جنہوں نے بعد میں انہیں اس بنیاد پر چھوڑ دیا کہ اُن کے خلاف کوئی چیز ثابت نہیں ہو سکی ہے۔

جہادِ عراق کے شروع ہونے کے بعد،آپ کو عسکری مسوؤل کی حیثیت سے مکتبِ خدماتِ مجاہدین میں ذمہ داری دی گئی، ابو مصعب زرقاویؒ اپنے امراء کو شیخ ابو ھمام السوری کے پاس تربیت کے لیے بھیجتے تھے، اور تربیت ختم ہونے کے بعد وہ واپس ہو لیتے۔

نصیریوں کے ہاتھوں شام میں ۲۰۰۵ء کے عرصے میں گرفتاریوں کی ایک وحشی مہم شروع ہوئی، تو آپ لبنان چلے گئے، اور پھر مشائخ کے حکم پر وہاں سے واپس افغانستان آ گئے۔ اس کے بعد اُن کو شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ نے حکم دیا، جو کہ بیرونی عملیات کے ذمہ دار تھے، کہ وہ شام میں جا کر کام کا آغاز کریں اور براہِ راست القاعدۃ کو اس سے آگاہ کریں۔

اُن کو لبنان میں گرفتار کر لیا گیا اوراُن کو ۵ سال کی قید ہو گئ۔ جب انہیں قید سے رہائی ملی، تو وہ القاعدۃ الجہاد برائے شام، جبھۃ النصرہ میں شامل ہو گئے۔ وہ اب جبھۃ النصرہ میں عسکری امیرِ عامۃ کی حیثیت میں کام کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کی مدد فرمائیں۔


[گواہی کا آغاز ہوتا ہے]


بسم الله الرحمن الرحيم

بسم اللہ والحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی الہ و صحبہ و من ولاہ،

اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں سوائے وہ جس کو آپ آسان بنا دیں، اور آپ مشکلوں کو اپنی مشیت سے آسان فرما دیتے ہیں، اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھائیں، اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دیں، اور باطل کو باطل دکھائیں اور اس سے دور رہنے کی توفیق دیں، اے اللہ! ہماری اپنے اذن کے ذریعے(تنازعہ کے معاملہ میں) حق کی طرف رہنمائی فرما دیجیے، بے شک، آپ جسے چاہتے ہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے دیتے ہیں۔

جب ابتداء میں شہر ’اورم‘ میں مسائل ہونا شروع ہوئے، تو میں ابو عمر تونسی کے پاس گیا، کیونکہ وہ’ اورم الکبری‘ کی عملیات کے ذمہ دار تھے۔ وہ اپنے(دولۃ کے) سپاہیوں کو ’فوج 46‘ (سابقہ نصیریوں کے مرکز کا نام ہے جس کو آزاد کروانے کے بعد مجاہدین وہاں پر قیام پذیر تھے) پر حملہ کرنے کے لیے جمع کر رہا تھا۔ میری اُس سے ملاقات ہوئی، اور یہ ملاقات بہت شدید بے اضطرابی اور ذہنی تناؤ میں ہوئی۔ میں یہ سمجھنا چاہ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، اور وہ(جماعت الدولۃ) کیوں اُن پر حملہ کر رہی ہے، اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔

تاہم، اس نے مجھ پر تہمتیں لگانا شروع کردیں اور مجھ پر چیخنا چلانا شروع کر دیا:
’’تم کس طرح جش الحر (FSA) کے ساتھ تعامل و تعاون کر سکتے ہو؟! تم مرتدین کے ساتھ ہو! تم مرتدین کی حفاظت کررہے ہو! تم مرتدین کے ساتھ کھڑے ہو!‘‘

میں نے سوال کیا:
’’تمہاری مرتدین سے کیا مراد ہے؟‘‘

اس نے جواب دیا:
’’تم کس طرح جیش الحر (FSA) سے بیعات لے سکتے ہو، جس میں ابو جلال شامل ہے؟!‘‘

پھر اُس کے بعد میری اس کے ساتھ ایک طویل بحث ہوئی۔ میں اس جنگ کو (مسلمانوں کے) ناحق خون بہنے کے سبب روکنا چاہتا تھا لیکن (دولۃ) اُس کو جاری رکھنے پراصرار کر رہی تھی، میں اُس جنگ کو نہ روک سکا۔

میں نے اُس سے کہا:
’’میں تمہارےمسوؤلِ اعلی سے ملنا چاہتا ہوں ‘‘

اس نے مجھے ابو اسامہ مغربی کے پاس بھیج دیا۔ اب یہاں پر اُن کی طرف سےتکبر اورخودپسندی نظر آئی۔ میں دروازے کے سامنے تین گھنٹے تک انتظار کرتا رہا تاکہ میں ابو اسامہ مغربی سے ملاقات کر سکوں۔

بے شک اس وقت کافی دیر ہو چکی تھی۔ شام کے وقت ایک بھائی آئے اور انہوں نے ابو اسامہ مغربی سے ملاقات کی۔ اُن کے ہاں اس جنگ کو روکنے کی کوئی بھی فکر موجود نہ تھی۔ ہم نے دولۃ کی قیادت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔

رات گئے کافی دیر بعد ہم ابو الاثیر سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں نے اپنے وفد کے بھائیوں کے ساتھ اُس سے ملاقات کی۔ وہ بہت ہی غصے اورتشنج زدہ حالات میں تھا۔ میں اپنے وفد کے بھائیوں کے ساتھ ابو الاثیر سے ملاقات کے لیے داخل ہوا، اور اس سے ’فوج 46‘ سے متعلق معرکے سے متعلق گفتگو شروع کی۔

میں نے اُس سے کہا:
’’چلیں اب سمجھتے ہیں کہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ تم نے اُن کی عمارتوں پر حملہ کیااور تم نے اُن کا اسلحہ اور سامانِ جنگ کو لے لیا ہے۔ چلیں، جنگ بندی کرتے ہیں اور اس جنگ کو روک دیتے ہیں تاکہ ناحق خون بہنے سے رک جائے اور فتنہ کو مزید بڑھنے سے بچایا جا سکے اور قتل و غارت ختم کی جا سکے‘‘

اس لمحے تک کسی بھی بہن کے اغواء یا قید ہونے یا عصمت دری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا ، اِن تمام افواہوں سے متعلق کوئی بھی دلیل ابھی تک ثابت نہیں ہو سکی ہے، اوراس دعوی کی کوئی توثیق اور تصدیق بھی نہیں ہو سکی(کہ کسی بہن کو قید میں لیا گیا یا اس کی عصمت دری ان جھڑپوں کی وجہ سے کی گئی)، میں فقط اس (خصوصی) ملاقات تک کا ذکر کر رہا ہوں، کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔

ابو الاثیر سخت غصے میں تھا۔ وہ (وائرلیس) ریڈیو کے ذریعے کسی سے گفتگو کر رہا تھا اور اُس سے کہا:
’’جتنے بھی صفِ اول کے خطوط پر افراد ہیں ، انہیں حکم دو کہ وہ پسپائی اختیار کر لیں۔ آج میں الاتارب(ایک گاؤں جو اس مرکز کے قریب تھا) پر حملہ کروں گا، میں انہیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتا ہوں!‘‘

میں نے اُس سے کہا:
’’اللہ سے ڈرو! تم کس طرح(نصیریوں کے خلاف) صفِ اوّل کے خطوط پر مقاتلین اور مرابطین کو پسپائی اختیار کرنے کا کہہ سکتے ہو تاکہ تم اِن جیش الحر (FSA) کے ایک چھوٹے سےمجموعہ سے لڑ سکو؟ اگر(نصیری) فوج داخل ہو گئی، تو وہ حرمات کی پامالی کرے گی، اور خواتین کی عصمت دری کرے گی، اور سب کو قتل کر دے گی، چاہے وہ دولۃ سے ہوں یا غیر دولۃ سے!‘‘

اس نے کہا:
’’(نصیری) فوج کو آنے دو اور خواتین کی عصمت دری کرنے دو!‘‘

میں نے کہا:
’’اللہ سے ڈرو! جو تم نے کہا ہے وہ(شریعت میں) جائز نہیں ہے ‘‘

اس نے جواب دیا:
’’(نصیری) فوج کو داخل ہونے دو، اور اِن کی خواتین کی عصمت دری کرنے دو، وہ جائیں اور اپنی خواتین کا دفاع کریں!‘‘

میں نے کوشش کی کہ اُس سے گفتگو کروں تاکہ وہ میری بات کو سمجھ سکے؛ تاہم میں نے اُس کو ایک ذمہ دار شخص نہ پایا اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ ایسے(غیرذمہ دار)شخص کو مسلمانوں کی، اُن کے جانوں اور عزتوں کی حفاظت کرنےکی مسوولیت دینی چاہیے۔

میں نے ابو الاثیر سے کہا:
’’ہمارا(جبھۃ النصرہ) کا فوج (46) میں مرکز ہے۔ کیا تمہارے علم میں نہیں ہے کہ ہم وہاں پر قیام پذیر ہیں؟‘‘

اُس نے جواب دیا:
’’ہاں، ہم جانتے ہیں‘‘

میں نے کہا:
’’کیا تم نے وہاں پر جبھۃ النصرہ کا جھنڈا اُن کے مرکز کے اوپر نہیں دیکھا تھا؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ وہاں پر ایک فوجی دستہ ہے جس نے جبھۃ النصرہ کو بیعت دی ہے اور ہمارے بھائی وہاں پر موجود ہیں اور وہاں پر ہمارے شرعی طلباء ہیں ، جو ہمارےاِن بھائیوں کو وہاں پر تعلیم دے رہے ہیں؟‘‘

اس نے جواب دیا:
’’ہم جانتے ہیں‘‘

میں نے کہا:
’’مطلب کہ تمہیں علم تھا کہ فوج 46 میں جبھۃ النصرہ کا مرکز موجود ہے؟‘‘

اس نے کہا:
’’ہاں، جو پہلے جبھۃالنصرہ تھی، اس سے اب ہماری بیعت کر لی ہے، اور اب وہ دولۃ بن گئی ہے‘‘

میں نے جواب دیا:
’’کیسے؟ مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی؟‘‘

اس نے کہا:
’’جس شخص نے تمہیں (جبھۃ النصرہ) بیعت دی تھی، اس نے ایک ہفتے بعد ہماری بیعت کر لی ہے، وہ میرا پرانا دوست ہے اور ہم نے بہت سے معرکوں میں اکٹھا حصہ لیا ہے۔ ہمیں تعجب ہوا جب ہمیں معلوم ہوا کہ اُس نے جبھۃ النصرہ کو بیعت دے دی ہے، پھر میں نے اُس کے ساتھ ملاقات کی اور اسے تب تک نہ چھوڑا جب تک اُس سے دولۃ کی بیعت نہ کر لی‘‘

میں نے اُس سے کہا:
’’سبحان اللہ! تم نے ہمارے اوپر الزامات لگائے جب ہم نے (جیش الحر) کے ایک فوجی دستے سے بیعت لی، اور جیش الحر (FSA) کو مرتدین قرار دیا، اور ہم پر ’مرتدین‘ کی ’مدد‘ کرنے کی تہمت لگائی، اور ہمیں ’مرتدین‘ کا ’اتحادی‘ قرار دیا، اور اب یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہی شخص تمہار ا سابقہ دوست ہے، اور تم نے اس سے بیعت لے لی ہے ‘‘

ابوالاثیر نے کہا:
’’وہ میرا پرانا دوست ہے اور اب بھی ہے!‘‘

میں نے ابو الاثیر سے کہا:
’’اگر تم اب یہ جنگ روک دیتے ہو، تو تمام (FSA) کے مجموعے جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، اور اُس کی شرط یہ ہے تم ’فوج 46‘ سے پسپائی اختیار کر لو‘‘

اس نےجواب دیا:
’’ہم پسپائی اختیار نہیں کریں گے اور ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے!‘‘

میں نے کہا:
’’ناحق خون روکنے کے لیے بھی نہیں، تمہارے اور ہمارے بھائیوں کا خون، مسلمانوں کا خون؟‘‘

اس نے جواب دیا:
’’اب ہم (نصیریوں کے خلاف) صفِ اول کے خطوط سے تمام مرابطین کو اِدھر جمع کریں گے، اور ان (جیش الحر)کے مراکز پر حملہ کریں گے اور اُن کو نیست و نابود کر دیں گے‘‘

بے شک اس کے بعد اگلے دن ہم ابو اسامہ مغربی کے پاس گئے۔ ہم نے جنگ بندی کروانے کے لیے مذاکرات کیے، کیونکہ وہ اُس علاقہ میں عسکری عملیات کا مسوؤل تھا ۔

ہم نے کہا:
’’تم نے کس طرح اس مرکز پر حملہ کیا اور ہمارے بھائی(جبھۃ النصرہ) اُس کے اندر موجود تھے اور تم نے انہیں قتل کر دیا؟‘‘

اُس نے کہا:
’’ہمیں علم نہیں تھا کہ آپ کے بھائی اندر موجود ہیں اور ہمیں علم نہیں تھا کہ وہاں پر جبھۃ النصرہ موجود ہے‘‘

میں نے کہا:
’’کیسے؟ وہاں پر (جبھۃ النصرہ کا )جھنڈا بھی موجود تھا؟‘‘
اس نے کہا:
’’ہم نے رات کے وقت حملہ کیا۔ ہمارا جھنڈے کی طرف دھیان نہیں گیا‘‘

میں نے کہا:
’’ہمارے بھائی وہاں موجود تھے، کسی نے بھی اُ ن سے گفتگو نہیں کی؟ کسی نے بھی انہیں اطلاع نہیں دی؟‘‘

اس نے جواب دیا:
’’نہیں، حملہ آور تمام کے تمام عجمی تھے اور وہ عربی نہیں بولتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں، اور وہ رات کے وقت داخل ہوئے اور اُن لوگوں کو قتل کر دیا جو اندر موجود تھے۔اس طرح یہ معاملات ہوئے، یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے!‘‘

میں اس وفد کا حصہ تھا جو دولۃ اور دوسرے مسلح (جہادی)جماعتوں کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم دولۃ کے اندر کسی بھی ایسے مسوؤل تک پہنچنے میں ناکام رہے، جو صاحبِ فیصلہ ہو، یہاں تک کہ ہم ابو علی انباری کے پاس پہنچ گئے۔

ہم نے اس سے کہا :
’’ہمیں صاحبِ فیصلہ شخص کی تلاش ہے‘‘

اس نے جواب دیا:
’’میں یہاں پر صاحبِ فیصلہ ہوں، اور دولۃ کےاندرتمام افراداُس فیصلے کےپابند ہیں، حتیٰ کہ(ابوبکر) بغدادی بھی!‘‘

ہم نے کہا:
’’بہترین، ہمارے پاس ہر جماعت سے ایک نمائندہ موجود ہے، اور جبھۃ النصرہ کو بعض جماعتوں نے یہ اختیار دیا ہےکہ اِن مذاکرات میں اُن کی نمائندگی کریں۔ہم نے ابو علی انباری سے بہت گفتگو کی، لیکن ہم کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے ‘‘

ہم نے اُس سے کہا:
’’اب خبردار ہونے کی ضرورت ہے، لوگوں نے تمہارے خلاف بغاوت کر دی ہے‘‘

اس نے کہا:
’’نہیں، انہوں نے بغاوت نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں‘‘

میں نے کہا:
’’تمہیں علم نہیں ہے کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے، لوگ تمہارے خلاف مسلح جنگ کے لیے تیار ہو چکے ہیں‘‘

اس نے کہا:
’’پھر ہم ہر اس شخص سے لڑیں گے جو ہمارے خلاف اسلحہ استعمال کرے گا‘‘

میں نے کہا:
’’ اس میں مسلح جماعتیں(مجاہدین) اور عامۃ الناس ہیں ، اور ہر کوئی جو یہ کہہ رہا ہے تم نے اُن پر ظلم کیا ہے‘‘

اُس نے جواب دیا:
’’ہم اُن سب سے لڑیں گے۔ ہم انہیں نیست و نابود کر دیں گے؛ یا ہم انہیں نیست و نابو د کر دیں گے یا وہ ہمیں! ہم ہر اس کو تباہ وبرباد کر دیں گے، جو ہمارے خلاف اسلحہ اٹھائے گا، دولۃ کے خلاف اسلحہ اٹھائے گا‘‘

اپنی اس پوری تقریر میں وہ ویہ باتیں دہرا تا رہا:
’’یہ صحوات ہیں، یہ مرتدین ہیں، ہم اِن سب کو نیست و نابود کر دیں گے، جو ہمارے خلاف اسلحہ اٹھائے گا!‘‘

اور ہماری یہ ملاقات بغیر کسی نتیجہ کے برخاست ہو گئی۔

ہم اس تنیجہ پر پہنچے کہ یہ شخص غیر ذمہ دار ہے، ایسا شخص جو دولۃ کے اندر نائب کا عہدہ رکھتا ہے، وہ لوگوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے، اور ہر کوئی جو اُن کے خلاف اسلحہ اٹھائے، اُس کو تباہ وبرباد کرنا چاہتا ہے،۔

حتیٰ کہ مصالحتی وفد نے اس سے کہا:
’’ تمام جماعتیں اور کتائب محکمہ شریعہ (شرعی عدالتوں)کے سامنےسرتسلیم خم کریں گی‘‘

اس نے میرے سامنے یہ بات کہی، اور اللہ اس بات پر گواہ ہیں جو میں بیان کرنے لگا ہوں۔

ابو علی انباری نے کہا:
’’جب ہم یہ تمام کام ختم کر لیں(یعنی سب کو قتل کر لیں)، اس کے بعد شرعی عدالتیں سامنے آ سکتی ہیں‘‘

اُس کی باتوں اور گفتگو نےاِسی بات کو ثابت کیا کہ وہ ایک غیرذمہ دار شخص ہے۔

انہوں(دولۃ) نے نوجوان افراد اور مجاہدین کا استعمال دوسری جماعتوں کے خلاف کیا، چاہے وہ جماعتیں اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، اور مجاہد کی اِن کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ اُس مجاہد کے بارے میں جو اِن کے پاس آئے ، یہی سمجھتے ہیں کہ وہ شخص مرنے کے لیے آیا ہے، پس اسے جانے دو اور مرنے دو۔

کچھ فاضل بھائیوں کے ساتھ میں عمر شیشانی سے ملنے گیا، تاکہ جنگ بندی کے معاہدہ پر پہنچا جا سکے۔ ہماری اُس سے طویل ملاقات ہوئی۔ یہ بہت تھکا دینے والی ملاقات تھی، اور ہم آخر کار ایک جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ گئے، اِس شرط پر کہ دولۃ اپنا (متجاوزانہ وجابرانہ و جارحانہ) رویہ اور قتل وغارت ترک کر دےگی، اور دوسری طرف، ہم نے تمام (جہادی)قتالی جماعتوں کے ساتھ یہ کوشش کی کہ وہ بھی جنگ بند ی پر آ جائیں ، اور پھر اُس کے بعد شرعی عدالتوں میں اپنے فیصلے کروائے جائیں۔ جب محکمہ شریعہ (غیر جانبدار شرعی عدالتیں) کا قیام عمل میں آ جائے گا، پھر اُس کے بعد تمام فریقین کے درمیان تنازعات اور اختلافات کے فیصلے ہوں گے۔

میں نے عمر شیشانی سے کہا:
’’ہم اس معاہدے کو معتبر و تصدیق شدہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ باقی جماعتیں اور کتائب ہمارے اوپر یقین کر سکیں‘‘

بے شک، عمر شیشانی اس سے متفق ہوئے حالانکہ اس کے اردگرد موجود بہت سے ساتھی اس معاہدے پر معترض تھے، اور وہ بہت اضطراب کا شکار تھےکہ ہم کیوں مل بیٹھے ہیں اور اس معاہدہ کی توثیق کی جا رہی ہے اور یہ معاہدہ(اتفاق) جبھۃ النصرہ کے عسکری مسوولِ عامہ کا دولۃ کے عسکری مسوولِ عامہ کے ساتھ تھا، جس میں اتفاق ہوا کہ اُن تمام جگہوں پر جنگ بندی کی جائے گی، جہاں پر دولۃ اور باقی جماعتوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔

اور ہم نے اُس سے سوال کیا:
’’کیا اِس معاہدہ کی دولۃ پابند ہو گی؟‘‘

عمر شیشانی کے جواب دیا:
’’جی ہاں! پابند ہو گی‘‘

میرے ساتھ ایک بھائی نے اُس سے پوچھا:
’’جو بات تم کہہ رہے ہو کیا دولۃ اُس کی پابند ہو گی؟‘‘

عمر شیشانی نے جواب دیا:
’’جی ہاں! دولۃ اس معاہدہ کی ہر جگہ پابند ہو گی،میں دولۃ کا عسکری مسوؤلِ عام ہوں، اور دولۃ اس معاہدہ کی پابند ہے‘‘

بے شک، عمر شیشانی جنگ بندی کے لیے بہت جلدی میں تھے، اور مجھ سے کہا:
’’یہ جنگ بندی کب شروع ہو گی؟‘‘

میں نے اُس سے کہا:
’’مجھے قیادتِ عامہ تک اس بات کو پہنچانا ہے اور باقی جماعتوں اور کتائب کو بھی اِس سے آگاہ کرنا ہے‘‘

اُس نے جواب دیا:
’’اِس میں تو (بہت) وقت لگے گا، ہمیں جلدی کرنے کی ضرورت ہے‘‘

میں نے کہا:
’’اس معاملہ کوتقریباً دو دن لگ جائیں گے‘‘

اس نے جواب دیا:
’’نہیں، یہ تو بہت لمبا عرصہ ہے۔ بھائی، تمہیں جلدی کرنی چاہیے‘‘

میں نے کہا:
’’کم از کم دو دن، میں اِس معاملہ کو دو دن سے پہلے حل نہیں کر سکتا، مجھے جبھۃ النصرہ کی قیادتِ عامہ کو مطلع کرنا ہے، اور پھر اس کے بعد باقی جماعتوں کو بھی اس معاملہ سے آگاہ کرنا ہے‘‘

عمر شیشانی مجھے تحریض دلا رہے تھے کہ میں ان اُمور میں عجلت دکھاؤں۔ عمر شیشانی کے ساتھ کچھ افراد موجود تھے جو اس معاملہ پر اعتراض کر رہے تھے، اور وہ اسے تحریض دلا رہے تھے کہ جنگ کو جاری رکھا جائے اور کسی بھی معاہدہ پر متفق نہ ہوا جائے۔

اگلے دن، اپنے حسنِ نیت کے پیش نظر(طنز)، انہوں نے ایک کار بم انادان (علاقہ کا نام) میں بھیج دیا اور ایک عسکری قافلہ منبج (علاقہ کا نام) کی طرف بھیج دیا۔ مجھے نہیں علم کہ دولۃ کے اندر فیصلہ ساز شخص کون ہے، جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، اور اگلے دن،کار بم اورگاؤں پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ اتفاق (معاہدہ) سوائے کاغذ پر سیاہی کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور ہم دولۃ میں کسی ایک بھی شخص تک نہ پہنچ سکے جو صاحبِ فیصلہ ہو۔

ہم دولۃ میں کسی بھی ایسے صاحبِ فیصلہ شخص تک نہ پہنچ سکے، جو کہ جنگ بندی کے لیے کوشش کرے اور مسلمانوں اور ہمارے بھائیوں کے بہتے خون کو روکنے کے لیےجدوجہد کرے۔ سبحان اللہ، ہم تو اِس بات کے حریص تھے کہ مسلمانوں اور مجاہدین کے بہتے خون کو روکا جائے، چاہے ان کا تعلق دولۃ سے ہو یا غیر دولۃ سے!

ہم نے بہت سے علاقوں میں جنگ بندی کے لیے کوشش کی حتی کہ تب بھی جب جیش الحر (FSA) صنعائیہ (صنعتی شہر) میں داخل ہو گئی، ہم نے خبر سنی کہ دولۃ نے اپنے مرکز سے پسپائی اختیار کر لی ہے، ہم نے اپنے (جبھۃ النصرۃ) کے بھائیوں کو پیغام بھیجا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بھائی اِن مراکز میں احتیاط سے داخل ہوں، پس وہ بھائی داخل ہوئے۔ ان مراکز میں سوائے نصب کیے گئے باردو اور دھماکہ خیز مواد کے کچھ نہ تھا۔ وہ بھائی واپس ہوئے اور ہمیں اس بات کی خبر دی، پھر ہم نے ایک بھائی کو بھیجا جو دھماکہ خیز مواد میں مہارت رکھتا تھا، جس نے وہاں جا کر اس دھماکہ خیز مواد کے فیوز کو علیحدہ کیا۔ انہوں نے بارود کے ڈرم کا جال بچھا رکھا تھا اور اس کے پیچھے کلورین(گیس) کے ڈرم موجود تھے۔ اگر وہ دھماکہ خیز مواد پھٹ جاتا، تو وہ زہریلی جان لیوا گیس کلورینیٹ کو پیدا کر دیتا۔

شہر صنعائیہ (صنعتی شہر) میں شہری، عورتیں اور بچے اس وقت موجود تھے، اگر یہ دھماکہ خیز ڈرم اور کلورین گیس ڈرم پھٹ جاتے، تو عظیم قتلِ عام ہوتا، اور اس سے بہت سے بچے اور عورتیں جاں بحق ہوتے، جو کہ باقی علاقوں سے ہجرت کر کے آئے تھے ، اور شہر صنعائیہ میں پناہ لے رکھی تھی، وہ سب قتل ہو جاتے، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔

جہاں تک کار بم کا تعلق ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے اس عملیات کو المسحت (علاقہ کا نام) میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ ایک کار بم کا حملہ آور آیا، اور اس نے اس کو المحست کے دروازے پر اڑا دیا، پھر اس کے بعد دوسرے کار بم کے حملہ آور نے خودکو فافین گاؤں کے اندر جا کر اڑا دیا، اس سے پہلے کہ وہ گاؤں سے باہر نکلتا اور المحست کے قریب پہنچتا۔ دوسرے حملہ آور سے۱۰۰ میٹر کی دوری پر تیسرےکار بم کے حملہ آور نے خود کو گیس سٹیشن کے قریب جا کر اڑا لیا۔

اِن میں دو کار بم کے حملہ آوروں نے اپنی گاڑی کو گاؤں کے اندر شہریوں کے درمیان اڑا دیا، اور وہاں پر کوئی بھی فرد ایسا نہیں تھا جس کا تعلق جیش الحر (FSA) سے ہو، یا جبھۃ النصرہ سے یا کسی اور دوسری جماعت سے! دونوں گاڑیاں گاؤں کے اندر اڑا دی گئیں۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اُس دھماکے کی باقیات اورتباہی کو جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ ابھی بھی وہاں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔ جہاں تک ابو الاثیر، ابو علی انباری ، عمر شیشانی سے ملاقات کا تعلق ہے،اور اسی طرح کاربم حملے جو فافین کے گاؤں میں کیے گئے اور صنعائیہ(صنعتی علاقہ) کے کلورنیٹ کے بیرل بم کا معاملہ، میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا، اور اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں۔۔۔!



[گواہی ختم ہوئی]
[ویڈیو اختتام پذیر ہوتے ہوئے]




’’فقط کاغذ پر سیاہی۔۔۔!!‘‘



جہاد بصیرت پر!

ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=Jp97Oxgn8T8 (حصہ اول)
http://vimow.com/watch?v=6hqngopoRCA (حصہ دوم)

انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/hamam14



شیخ ابو حفص بنشی اور دیگر بھائیوں کی گواہی، گواہیوں کا سلسلہ (۳)

بسم اللہ الرحمن الرحیم



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
گواہیوں کی سلسلہ(۳)
شیخ ابو حفص بنشی اور دیگر بھائیوں کی گواہی
- حفظہ اللہ -







شیخ ابو فراس السوری کی گواہی ، گواہیوں کا سلسلہ (۲)

بسم اللہ الرحمن الرحیم



البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
گواہیوں کی سلسلہ(۲)
شیخ ابو فراس السوری
- حفظہ اللہ -



[ویڈیو کا آغاز ہوتا ہے]

قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِين
[آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں] (۱۲:۱۰۸)

اہم نکات جو شیخ نے اپنی اس گواہی میں بیان کیے درجہ ذیل ہیں:

• جماعت الدولۃ کی طرف سے شیخ خالد السوری کو قتل کی دھمکی دینے پر گواہ ہونا
• جماعت الدولۃ کا لوگوں کی تکفیر ایسے اعمال کی بنیاد پر کرنا جو گناہ نہیں ہیں ، بلکہ نیک اعمال ہیں، اور اِس پر گواہ ہونا


[شیخ ابو فراس السوری کی مختصر سوانح حیات]

شیخ ابو فراس السوری (شامی) ۱۳۶۹ ھ (۱۹۴۹ء) میں دمشق کے مضافاتی علاقہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ملٹری یونیورسٹی میں شمولیت اختیار کی اور وہاں سے سیکنڈ لیفٹیننٹ کے عہدے پر سند حاصل کی۔ اُن کو اسلامی نظریات کی بنیاد پر اُن کےعسکری منصب سے ۱۹۷۹ءمیں ہٹا دیا گیا، جس کی وجہ توپ خانہ سکول میں پیش آنے والے حادثات تھے۔

افغانستان میں قیام کے دوران، شیخ ابو فراس نے ۱۹۸۳ ء میں شیخ عبداللہ عزام ؒ اور شیخ اسامہ بن لادنؒ سے ملاقات کی، جہاں پر آپ مجاہدین کی تربیت اُن مخصوص تربیتی مراکز میں کرواتے رہے جو انڈیا، انڈونیشیا، برما اور ایران میں عملیات کرنےکے لیے قائم کیے گئے تھے۔

وہ شیخ اسامہ بن لادنؒ کی طرف سے پاکستان میں جہاد کی دعوت دینے کے لیے نمائندہ تھے، اور اُنہوں نے پاکستان میں امرائے جہاد کے وفد سے ملاقات کی، جن میں سمیع الحق شامل ہیں، جو حقانی مدرسہ کے مہتمم اعلیٰ تھے، جہاں سے بہت سےافغانی اور طالبان علماء نے سندِ فراغت حاصل کی۔

انہوں نے جماعت اہلحدیث کوایک جہادی جماعت کا قیام عمل میں لانے پر قائل کرنے کے لیے بھی ایک کلیدی کردار ادا کیا، اور اُن کی بعض قیادت سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں، بعض اُن کے کردار کی وجہ سے راغب ہوئے اور ایک نئی جماعت کا قیام عمل میں لائے، جماعت الدعوۃ اورعسکری جماعت لشکرِ طیبہ، جس کو شیخ ابو فراس نے تربیت دی جبکہ اُس کی مالی معاونت شیخ اسامہؒ کی طرف سے آتی رہی اور جس کی قیادت زکی الرحمٰن کر رہےتھے۔

شیخ ابو ابراہیم عراقی اور شیخ ابو فراس نے حکمت یار کے لیے’ تندرفتار جوابی قوت‘کا لشکر تیار کیا۔ شیخ ابو فراس، شیخ ابو عبیدہ بنشیری اور شیخ ابو حفص مصری مل کر ’ماسدہ مجلس عسکری شوری ‘کا قیام عمل میں لائے۔ انہوں نے شیخ ابو مصعب زرقاویؒ سے بھی ملاقات کی اور ارضِ شام میں اپنی(جہادی) کاوشوں کے خطوط کو استوار کرنے کے حوالے سےاکٹھا کام کیا۔ امریکی مداخلت کےوقت، انہوں نے پاکستانی مجاہدین کےاہلِ خانہ کو محفوظ جگہوں پر منتقلی کےلیے بھی کام کیا۔

۲۰۰۳ء میں آپ یمن ہجرت کر گئے، اور وہاں پر ۲۰۱۳ء تک سکونت اختیار کی اور پھر شام کی طرف ہجرت کر گئے، جہاں جبھۃ النصرہ اور جماعت الدولۃ کا آپس میں تنازعہ شروع ہوا۔ انہوں نے شیخ ابو خالد السوریؒ کے ساتھ مل کر اِن تنازعات کو حل کرنے کے لیے بے تحاشا کوششیں صرف کیں، تاہم اُن کی یہ کاوشیں جماعت الدولۃ کی ہٹ دھرمی کے سبب ناکام ہو گئیں۔ وہ تنظیم القاعدۃ الجہاد کی شام میں شاخ جبھۃ النصرۃ میں شامل ہیں اور اُس کے رسمی ترجمان ہیں،اور اب تک تنظیم میں موجود ہیں۔


[گواہی کا آغاز ہوتا ہے]


بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سید المرسلین، نبینا محمد، وعلى آله وصحبه أجمعين، اما بعد

میں نے اس بات سے متعلق نہیں سوچا تھا کہ میں دولۃ کے متعلق گفتگو کروں گا اور جو اس نے امتِ مسلمہ پر جرائم کیےہیں، اس پر بات کروں گا، بلکہ یہ تعارض اسلام کے خلاف بھی کیا گیا ہے، لیکن عدنانی کے بیان کے بعد، جس میں اس نے ہمارے بھائی ابو عبداللہ شامی پر جھوٹ اور بہتان کی تہمت لگائی اور انہیں دعوتِ مباہلہ دیا، پس اِس کو دیکھتے ہوئے میں اس معاملہ پردو نکات سے متعلق بات کروں گا، اس میں پہلا نکتہ شیخ ابو خالدؒکا قضیہ ہے، اور دوسرا قضیہ اِن سے متعلق یہ بیان کروں گا کہ یہ نیک اعمال کی بنیاد پر تکفیر کرتے ہیں۔

جہاں تک شیخ ابو خالد السوریؒ کی تکفیر کرنے کا قضیہ ہے:

اسی جگہ پر، میری شیخ ابو خالد السوری(رحمہ اللہ) سے ملاقات اُن کی شہادت سے کچھ گھنٹےقبل ہوئی،
اور انہوں نے مجھ سے کہا:
انہوں(دولۃ) نے مجھے(شیخ ابو خالد السوری) کو اپنی ’سیاہ فہرست‘ میں ڈال دیا ہے اور وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔
میں نے اُن کو مسکرا کر دیکھا اور کہا:
’زندگی اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے‘ (آپ کی موت کا وقت معین ہے)
انہوں نے جواباً کہا:
’اور آپ بھی احتیاط کریں کیونکہ آپ بھی اُن کا ہدف ہیں‘
میں نے اس پر بہت زیادہ تبصرہ نہ کیا اور انہیں جواب دیا:
’ہم اس کی پرواہ نہیں کرتے، ہماری زندگی کے معاملات اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔‘
لیکن اُن کو میری طرف سےیہ ٹھنڈا مزاج پسند نہ آیا، اور مجھ سے اصرار کیا کہ ہم اپنی احتیاط کریں اور کہا کہ ہم لوگ اِن(دولۃ) کا ہدف ہیں اور اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔

میں نے اُن سے کہا:
’ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہیں اور آپ اپنا خیال رکھیں‘

اور انہوں نے اس بات کی تائیدکرتے ہوئے کہا کہ:
’مجھ تک اُن (الدولہ) کی طرف سے بہت سی دھمکیاں پہنچیں ہیں۔ میں یہ بات کسی ظن کی بنیاد پر نہیں کر رہا، بلکہ اُن کی طرف سے مجھے کثیر تعداد میں دھمکیاں ملی ہیں اور انہوں نے مجھے اس معاملہ پر تنبیہ کی ہے‘

اس کے اگلے دن، صرف کچھ گھنٹوں بعد ہی، مجھے اُن کی شہادت کی خبر ملی، اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائیں۔

جہاں تک دوسرےنکتہ کا تعلق ہے، جس کا قضیہ یہ ہے کہ وہ نیک اعمال پر تکفیر کرتے ہیں:

پہلے دن سے جب سے یہ تنازعہ دوسری جماعتوں اور اِن (دولۃ)کے مابین شروع ہوا، شیخ ابو محمد جولانی اور ہماری طرف سے کوششیں شروع ہوئیں تاکہ سب کے ساتھ مل کر کسی مصالحت کی طرف جایا جائے اور ان تمام تنازعات کو حل کیا جائے، ہم جماعت الدولۃ کے پاس گئے تاکہ صلح کی جا سکے اور مسئلہ کو ختم کیا جا سکے،
اور میری پہلی ملاقات میں ابو علی انباری(عراقی) نے کہا:
’آپ لوگ کیا چاہتے ہو؟‘ ہم نے اُس سے کہا :
’ہمارے پاس تین نکات ہیں، جوکہ ایک حل کی شکل پیش کرتے ہیں۔
اول: فریقین آپس میں جنگ بندی کر لیں۔
دوم: قیدیوں کا تبادلہ کریں۔
سوم: غیر جانبدار شرعی عدالتوں کا قیام کیا جائے، جو کہ تمام تنازعات میں اپنا فیصلہ کرے۔‘

لیکن اس معاملہ کو (انباری نے) مسترد کر دیا۔

اور یہ معاملہ اُس لجنہ(کمیٹی) کے سامنے ہوا جس میں جبھۃ النصرہ کی جانب سے چار (4) بھائی شامل تھے، جس میں ابو حسن تفتنازی، بندۂ فقیر(شیخ ابو فراس السوری)،ابو ھمام الشامی اور ابو عبیدہ تونسی(جو مکتبِ عسکری میں مسوؤلِ شرعی ہیں) تھےاور اس میں بھائی ابو عبداللہ تھے جن کا تعلق ’الفاروق‘ سے تھا، بھائی منصور جن کا تعلق ’اجناد الاقصٰی‘ سے تھا اور شیخ عبداللہ محیسنی، یہ تمام افراد اس میں موجود تھے۔

پھر اِس(ابو علی انباری) نے ہم پر ملامت کی
کہ ہم کس طرح اُن(دولۃ) اور ’مرتدین‘ کے درمیان مصالحت کروا سکتے ہیں؟

ہم نے جواب دیا:
’ہم اُن کو مرتدین نہیں سمجھتے‘

اُس نے جواب دیا:
’اسی نکتہ پر ہمارا اور تمہار اختلاف ہے‘ (مطلب کہ اُن پر یہ حکم لگانا کہ آیا یہ مسلمان ہیں یا مرتدین) اور ہم سے اصرار کیا کہ ہمیں اِن (الدولۃ) اور’’مرتدین‘‘ کے درمیان مصالحت کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔

اس موضوع پر طویل بحث و مباحثہ کے بعد اُس نے کہا:
’مجھے چھوڑ دو تاکہ میں (اپنے بڑوں سے) مشاورت کر لوں‘

پھر وہ ڈیڑھ گھنٹے کے بعد آیا اور کہا:
’ہم آپ کو اپنے فیصلے سے صبح آگاہ کریں گے‘

اگلے دن ہم صبح اُس کے پاس گئے، اور اُن کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ انہوں نے ابو سعد حضرمی کو قتل کر دیا ہے، جو کہ جبھۃ النصرہ کے رقہ (شام کا شہر) کے امیر تھے۔

ہم نے اس (ظلم کے) معاملہ کو جانے دیا اوراس کو بات چیت کا موضوع نہ بنایا، تاکہ ہم مصالحت کی طرف اپنی توجہ کو مرکوزکر سکیں، لیکن اس کے بعد اُس(ابو علی انباری) نے مداخلت کی اور کہا کہ وہ جبھۃ النصرہ کے ارکان کے ساتھ اکیلے ملاقات کرنا چاہتا ہے، پس ہم ایک دوسرے کمرے میں گئے،

اور اُس نے کہا:
’تم نے کیا کیا؟ ‘

ہم نے کہا:
’ہم نے کیا کیاہے؟‘

اس نے کہا:
’تم نے کیا کیا؟ کیا تمہیں نہیں پتہ تم کیا کر رہے ہو؟‘

ہم نے کہا:
’ہم نے کیا کیا؟ آپ ہی ہمیں بتا دو!‘

اُس نے کہا:
’تم کس طرح اپنا جھنڈا ہمارے دار عزہ(علاقہ کا نام) کے مرکز پر لہرا سکتے ہو؟‘

ہم نے جواب دیا:
’ہم نے دار عزہ(علاقہ کا نام) میں اپنا جھنڈا اس لیے بلند کیا تاکہ تمہارے عناصر(سپاہیوں) کی حفاظت ہو سکے،کیونکہ جیش الحر نے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ اس مرکز پر حملہ کرے گی اور تمہارے سارے عناصر کوقتل کر دے گی یا قیدی بنا لے گی، لیکن جبھۃ النصرہ کے وہاں کے مسوؤلِ عسکری نے مداخلت کی اور جیش الحر کوایسا کرنے سے روکا، اور وہاں سے بھائیوں(جماعت الدولۃ کے سپاہیوں) کو لے گئے اور انہیں تمہاری طرف حفاظت کے ساتھ احترام و عزت سے بھیج دیا۔‘

اس نے کہا:
’ہمیں اِس کی کوئی حاجت نہیں ہے، حتیٰ کہ اگر وہ تمام دولۃ کے سپاہی بھی ماردیں، ہمیں تمہاری مصالحت کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور تمہارا ہمارے مراکز پر جھنڈے لہرانا قابلِ قبول نہیں‘

ہم نےکہا:
’ایک جھنڈے کی خاطر تم لوگوں کو مرنے کے لیے چھوڑ دو گے؟ وہ تمہارے بھائی ہیں، ہم اُس جھنڈے کو نیچے اتار لیتے ہیں، تم اپنے لوگوں کو وہاں بھیج دو۔‘

پھر میں نے اُس سے کہا:
’یہ صورتحال حکمت کا تقاضا کرتی ہے‘

اس نے کہا:
’ہم اِس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے، ہم انہیں فنا کر دیں گے یا خود فنا ہو جائیں گے‘

میں نے کہا:
’یا شیخ، یہ صورتِ حال حکمت کا تقاضا کرتی ہے، میں تم سے سوال کرتا ہوں، کیا یہ چیز حکمت میں سے کہ آپ ابو سعد حضرمی جو الرقہ(شہر) کے جبھۃ النصرہ کے امیر ہیں کو قتل کرنے کا اعلان کریں؟‘

اس نے جواب دیا:
’ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں، یہ معاملہ ہمارے لیے اہمیت نہیں رکھتا‘

میں نے پھر کہا:
’اس معاملہ کو چھوڑو کہ یہ تمہارے لیے اہم ہے یا نہیں ہے۔ میں تم سے سوال کر رہا ہوں کہ کیا یہ چیز حکمت یا سیاستِ شریعہ میں سے ہے کہ آپ اس قتل کا اعلان کریں؟‘

اس نے جواب دیا:
’ہمارے لیے یہ معاملہ اہم نہیں ہے‘

پھر بھائی ابو عبیدہ تونسی نے اُس سے سوال کیا:
’تم نے اسے کیوں قتل کیا؟‘

اس(ابو علی انباری) نے جواب دیا:
’کیونکہ وہ مرتد ہے اور اُس نے اعتراف کیا کہ وہ مرتد ہے۔‘

ابو عبیدہ نے پھر سوال کیا:
’تم نے اسے کس چیز کی بنیاد پر مرتد قرار دیا؟‘

اس(ابو علی انباری) نے جواب دیا:
’وہ جیش الحر (FSA)سے بیعت لے رہا ہے۔‘

میں نے کہا:
’اے ابو علی! کیا جیش الحر (FSA) سے بیعت لینا ارتداد ہے؟ وہ لوگوں کو(دعوت کے ذریعے) بلا رہا، تاکہ وہ جہاد پر بیعت کریں، یہ تو نیک(قابلِ محمود) عمل ہے۔

اُس(انباری) نے جواب دیا:
’ہاں، وہ مرتد ہے کیونکہ اس نے جیش الحر (FSA)سے بیعت وصول کی ہیں۔‘

اِس تکفیر کی بنیاد نہ ہی گناہوں پر ہے اور نہ ہی کبائر گناہوں پر ہے، بلکہ اِس تکفیر کی بنیاد نیک اعمال پر ہےاور یہ بیان اس نے ابو عبیدہ تونسی، ابو الحسن تفتنازی اور میری موجودگی میں دیا۔

اور میں اپنی اِس شہادت پر اللہ تعالیٰ کو گواہ بناتا ہوں، اور میں اِس گواہی کو اللہ تبارک و تعالیٰ اور تمام مخلوقات کے سامنے دینے کے لیے تیار ہوں۔

جو بھی میں نے بھائی ابو خالد(رحمہ اللہ) اور بھائی ابو سعد الحضرمی(رحمہ اللہ) سے متعلق بیان کیا اور اس کی وضاحت کی کہ کیسے اُن(سعد الحضرمی) کو جیش الحر(FSA) سے بیعت لینے کی وجہ سے (دولۃ) نے قتل کیا، میں اس پر قسم اٹھاتا ہوں، اور اس بات پر زور دیتا ہوں، اور اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں کہ انہوں نے یہ بات بیان کی، اور میں نے ابو خالدالسوریؒ اور ابو علی انباری کی طرف سے کہی گئی باتوں کو اپنے کانوں سے سنا اور یہ کسی کی جانب سے نقل نہیں کی جا رہیں، اور میں اس تمام (گواہی) پر اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں۔

وصلی اللہ وسلم علی سیدنا محمد و علی الہ و صحبہ اجمعین


[گواہی ختم ہوئی]


شیخ ابو عبداللہ شامی حفظہ اللہ کے بیان سے صوتی اقتباس جس میں وہ جماعت الدولۃ کی تکفیر کا تذکرہ کرتے ہیں:

[اولین خوارج کبائر گناہوں کی بنیاد پر تکفیر کرتے تھے، لیکن آج جماعت الدولۃ تکفیر کبائر گناہوں کے بغیر ہی کر رہی ہے، بلکہ ایسے اعمال پر جن کے ساتھ کوئی گناہ بھی منصوب نہیں ہے، بلکہ یہ تکفیر توجائز اعمال حتیٰ کہ نیک اعمال کی بنیاد پرکی جا رہی ہے۔]

اور ابو عبداللہ شامی حفظہ اللہ نے یہ بھی کہا:

[ان کی تکفیر کی ایک مثال جو یہ نیک اعمال کی بنیاد پر کرتے ہیں، وہ ان کی شیخ سعد الحضرمی (رحمہ اللہ)کی تکفیر ہے، کہ جب بغدادی کے نائب(ابو علی انباری) سے شیخ سعد الحضرمی(رحمہ اللہ) کے ارتداد کی وجہ سے متعلق سوال کیا گیا، تو جواب دیا گیا: ’’ کہ وہ جیش الحر(FSA) سے (جہاد پر) بیعت لے رہے تھے، تو کیا جیش الحر(FSA) سے بیعت لینا ارتداد ہے؟‘‘، تو کون سا ایسا غلو ہے جو اِس سے بڑھ کر ہو؟]



[ویڈیو اختتام پذیر ہوئی]


جہاد بصیرت پر!

ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=6ExHdjGPF1c

انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/firas3