بسم اللہ الرحمن الرحیم
البصیرۃ میڈیا برائے نشرواشاعت
گواہیوں کی سلسلہ(۴)
شیخ ابو ھمام السوری
- حفظہ اللہ -
[ویڈیو کا آغاز ہوتا ہے]
قُلْ هَـٰذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّـهِ ۚ عَلَىٰ بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي ۖ وَسُبْحَانَ اللَّـهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِين
[آپ کہہ دیجئے میری راه یہی ہے۔ میں اور میرے متبعین اللہ کی طرف بلا رہے ہیں، پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ۔ اور اللہ پاک ہے اور میں مشرکوں میں نہیں] (۱۲:۱۰۸)
• جماعت الدولۃ کے عہداور معاہدوں کے توڑنے پر گواہ ہونا
• جماعت الدولۃ سے متعلق اس بات پر گواہ ہونا کہ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو نصیریوں کے خلاف صفِ اول کے محاذوں سے ہٹا دیا تاکہ اس قوت کے ذریعے دیگر مسلمان جماعتوں سے دوسری جگہوں پر لڑا جائے یا (دوسری جگہوں پر) صفِ اول کے خطوط کو بغیر کسی دفاع کے ہی چھوڑ دیا، اس بات کا مکمل ادراک رکھتے ہوئے کہ اس سے مسلمانوں کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
• جماعت الدولۃ سے متعلق اس بات پر گواہ ہونا کہ انہوں نےثالثی اور مصالحت کی کوششوں میں رکاوٹ ڈالی یا اپنے معاملہ کو شرعی عدالت میں حل کرنے سےروکے رکھا اور قتال کرنے پر اصرار کیا حالانکہ ہر طرف سے مسلمانوں کا ناحق خون بہہ چکا تھا۔
[قندھار میں قائم معسکر الفاروق کے تدریبی مناظر فوٹیج میں دکھائے جا رہے ہیں]
[عربی نظم پڑھی جا رہی ہے]
[شیخ فاروق ابو ھمام السوری کی مختصر سوانح حیات]
شیخ ابو ھمام السوری (شامی) جو فاروق السوری کی کنیت سے معروف ہیں نےافغانستان ۹۰ کی دہائی میں سفر کیا، ۱۹۹۸ء سے ۱۹۹۹ء کے دوران انہوں نےشیخ ابو مصعب السوری کے الغرباء عسکری مرکز میں ایک سال کے لیے شمولیت اختیار کی، پھر اس کے بعد قندھار کے معروف الفاروق تربیتی مرکز میں چلے گئے، جو ’ائرپورٹ مرکز‘ کے نام سے بھی معروف ہے، جہاں پر افغانستان مجاہدین کے خصوصی دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ شیخ ابو ھمام نے معسکر الفاروق سے باقی ساتھیوں کے ہمراہ تربیت کو مکمل کیا، اور بہترین تربیت یافتہ تلمیذ کے طور پر دوسرے نمبر پر آئے جبکہ بھائی ابو العباس الزہرانی پہلے نمبر پر رہے ، جو کہ ۹۱۱ کے حملوں میں شامل ہونے والے ابطال میں سے تھے۔
اپنی تربیت مکمل کرنے کے بعد اُن کو شیخ سیف العدل ، جو تنظیم قاعدۃ الجہاد کی مجلس شوری کے رکن ہیں، کی جانب سے قندھار ائرپورٹ کے علاقہ کا امیر مقرر کیا گیا۔ شیخ ابو ھمام السوری نے معسکر الفاروق میں ایک مدرب(تریب کار) کی حیثیت سے بھی کام کیا، جہاں انہوں نے شیخ اسامہ بن لادنؒ سے ہاتھ ملاتے ہوئے اُن کی بیعت کی۔
شیخ ابو ھمام السوری کو شام کی طرف افغانستان آئے مہاجرین کا ذمہ دار مقرر کیا گیا، جہاں وہ خراسان میں اُن کے معاملات کی نگرانی کرنے کے ذمہ دار تھے۔ انہوں نے زیادہ تراُن معرکوں میں حصہ لیا جو صلیبیوں کے افغانستان پر حملے کےوقت پیش آئے۔
وہ شیخ سیف العدل کے ساتھ تھے، جب شیخ مصطفی ابو الیزید نے انہیں سقوطِ بغداد سے قبل عراق میں کام کرنے کا حکم دیا، جہاں وہ تقریباً ۴ ماہ تک مقیم رہے، اور خراسان میں تنظیم القاعدۃ الجہاد کی قیادت کے باضابطہ نمائندے رہے۔
اس عرصہ میں، اُن کی ملاقات شیخ ابو مصعب الزرقاویؒ اور شیخ ابو حمزہ المہاجرؒ دونوں سےہوئی۔ جب وہ عراق میں مقیم تھے، تو انہیں عراقی خفیہ ادارے نے گرفتار کر لیا اور انہیں شامی حکومت کے حوالے کر دیا، جنہوں نے بعد میں انہیں اس بنیاد پر چھوڑ دیا کہ اُن کے خلاف کوئی چیز ثابت نہیں ہو سکی ہے۔
جہادِ عراق کے شروع ہونے کے بعد،آپ کو عسکری مسوؤل کی حیثیت سے مکتبِ خدماتِ مجاہدین میں ذمہ داری دی گئی، ابو مصعب زرقاویؒ اپنے امراء کو شیخ ابو ھمام السوری کے پاس تربیت کے لیے بھیجتے تھے، اور تربیت ختم ہونے کے بعد وہ واپس ہو لیتے۔
نصیریوں کے ہاتھوں شام میں ۲۰۰۵ء کے عرصے میں گرفتاریوں کی ایک وحشی مہم شروع ہوئی، تو آپ لبنان چلے گئے، اور پھر مشائخ کے حکم پر وہاں سے واپس افغانستان آ گئے۔ اس کے بعد اُن کو شیخ عطیۃ اللہ اللیبیؒ نے حکم دیا، جو کہ بیرونی عملیات کے ذمہ دار تھے، کہ وہ شام میں جا کر کام کا آغاز کریں اور براہِ راست القاعدۃ کو اس سے آگاہ کریں۔
اُن کو لبنان میں گرفتار کر لیا گیا اوراُن کو ۵ سال کی قید ہو گئ۔ جب انہیں قید سے رہائی ملی، تو وہ القاعدۃ الجہاد برائے شام، جبھۃ النصرہ میں شامل ہو گئے۔ وہ اب جبھۃ النصرہ میں عسکری امیرِ عامۃ کی حیثیت میں کام کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کی مدد فرمائیں۔
[گواہی کا آغاز ہوتا ہے]
بسم الله الرحمن الرحيم
بسم اللہ والحمدللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ و علی الہ و صحبہ و من ولاہ،
اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں سوائے وہ جس کو آپ آسان بنا دیں، اور آپ مشکلوں کو اپنی مشیت سے آسان فرما دیتے ہیں، اے اللہ! ہمیں حق کو حق دکھائیں، اور ہمیں اس کی اتباع کی توفیق دیں، اور باطل کو باطل دکھائیں اور اس سے دور رہنے کی توفیق دیں، اے اللہ! ہماری اپنے اذن کے ذریعے(تنازعہ کے معاملہ میں) حق کی طرف رہنمائی فرما دیجیے، بے شک، آپ جسے چاہتے ہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دے دیتے ہیں۔
جب ابتداء میں شہر ’اورم‘ میں مسائل ہونا شروع ہوئے، تو میں ابو عمر تونسی کے پاس گیا، کیونکہ وہ’ اورم الکبری‘ کی عملیات کے ذمہ دار تھے۔ وہ اپنے(دولۃ کے) سپاہیوں کو ’فوج 46‘ (سابقہ نصیریوں کے مرکز کا نام ہے جس کو آزاد کروانے کے بعد مجاہدین وہاں پر قیام پذیر تھے) پر حملہ کرنے کے لیے جمع کر رہا تھا۔ میری اُس سے ملاقات ہوئی، اور یہ ملاقات بہت شدید بے اضطرابی اور ذہنی تناؤ میں ہوئی۔ میں یہ سمجھنا چاہ رہا تھا کہ ہو کیا رہا ہے، اور وہ(جماعت الدولۃ) کیوں اُن پر حملہ کر رہی ہے، اور اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں۔
تاہم، اس نے مجھ پر تہمتیں لگانا شروع کردیں اور مجھ پر چیخنا چلانا شروع کر دیا:
’’تم کس طرح جش الحر (FSA) کے ساتھ تعامل و تعاون کر سکتے ہو؟! تم مرتدین کے ساتھ ہو! تم مرتدین کی حفاظت کررہے ہو! تم مرتدین کے ساتھ کھڑے ہو!‘‘
میں نے سوال کیا:
’’تمہاری مرتدین سے کیا مراد ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’تم کس طرح جیش الحر (FSA) سے بیعات لے سکتے ہو، جس میں ابو جلال شامل ہے؟!‘‘
پھر اُس کے بعد میری اس کے ساتھ ایک طویل بحث ہوئی۔ میں اس جنگ کو (مسلمانوں کے) ناحق خون بہنے کے سبب روکنا چاہتا تھا لیکن (دولۃ) اُس کو جاری رکھنے پراصرار کر رہی تھی، میں اُس جنگ کو نہ روک سکا۔
میں نے اُس سے کہا:
’’میں تمہارےمسوؤلِ اعلی سے ملنا چاہتا ہوں ‘‘
اس نے مجھے ابو اسامہ مغربی کے پاس بھیج دیا۔ اب یہاں پر اُن کی طرف سےتکبر اورخودپسندی نظر آئی۔ میں دروازے کے سامنے تین گھنٹے تک انتظار کرتا رہا تاکہ میں ابو اسامہ مغربی سے ملاقات کر سکوں۔
بے شک اس وقت کافی دیر ہو چکی تھی۔ شام کے وقت ایک بھائی آئے اور انہوں نے ابو اسامہ مغربی سے ملاقات کی۔ اُن کے ہاں اس جنگ کو روکنے کی کوئی بھی فکر موجود نہ تھی۔ ہم نے دولۃ کی قیادت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
رات گئے کافی دیر بعد ہم ابو الاثیر سے رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ میں نے اپنے وفد کے بھائیوں کے ساتھ اُس سے ملاقات کی۔ وہ بہت ہی غصے اورتشنج زدہ حالات میں تھا۔ میں اپنے وفد کے بھائیوں کے ساتھ ابو الاثیر سے ملاقات کے لیے داخل ہوا، اور اس سے ’فوج 46‘ سے متعلق معرکے سے متعلق گفتگو شروع کی۔
میں نے اُس سے کہا:
’’چلیں اب سمجھتے ہیں کہ مسئلہ ختم ہو گیا ہے۔ تم نے اُن کی عمارتوں پر حملہ کیااور تم نے اُن کا اسلحہ اور سامانِ جنگ کو لے لیا ہے۔ چلیں، جنگ بندی کرتے ہیں اور اس جنگ کو روک دیتے ہیں تاکہ ناحق خون بہنے سے رک جائے اور فتنہ کو مزید بڑھنے سے بچایا جا سکے اور قتل و غارت ختم کی جا سکے‘‘
اس لمحے تک کسی بھی بہن کے اغواء یا قید ہونے یا عصمت دری کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا تھا ، اِن تمام افواہوں سے متعلق کوئی بھی دلیل ابھی تک ثابت نہیں ہو سکی ہے، اوراس دعوی کی کوئی توثیق اور تصدیق بھی نہیں ہو سکی(کہ کسی بہن کو قید میں لیا گیا یا اس کی عصمت دری ان جھڑپوں کی وجہ سے کی گئی)، میں فقط اس (خصوصی) ملاقات تک کا ذکر کر رہا ہوں، کہ اس طرح کا کوئی بھی واقعہ پیش نہیں آیا۔
ابو الاثیر سخت غصے میں تھا۔ وہ (وائرلیس) ریڈیو کے ذریعے کسی سے گفتگو کر رہا تھا اور اُس سے کہا:
’’جتنے بھی صفِ اول کے خطوط پر افراد ہیں ، انہیں حکم دو کہ وہ پسپائی اختیار کر لیں۔ آج میں الاتارب(ایک گاؤں جو اس مرکز کے قریب تھا) پر حملہ کروں گا، میں انہیں مکمل طور پر ختم کر دینا چاہتا ہوں!‘‘
میں نے اُس سے کہا:
’’اللہ سے ڈرو! تم کس طرح(نصیریوں کے خلاف) صفِ اوّل کے خطوط پر مقاتلین اور مرابطین کو پسپائی اختیار کرنے کا کہہ سکتے ہو تاکہ تم اِن جیش الحر (FSA) کے ایک چھوٹے سےمجموعہ سے لڑ سکو؟ اگر(نصیری) فوج داخل ہو گئی، تو وہ حرمات کی پامالی کرے گی، اور خواتین کی عصمت دری کرے گی، اور سب کو قتل کر دے گی، چاہے وہ دولۃ سے ہوں یا غیر دولۃ سے!‘‘
اس نے کہا:
’’(نصیری) فوج کو آنے دو اور خواتین کی عصمت دری کرنے دو!‘‘
میں نے کہا:
’’اللہ سے ڈرو! جو تم نے کہا ہے وہ(شریعت میں) جائز نہیں ہے ‘‘
اس نے جواب دیا:
’’(نصیری) فوج کو داخل ہونے دو، اور اِن کی خواتین کی عصمت دری کرنے دو، وہ جائیں اور اپنی خواتین کا دفاع کریں!‘‘
میں نے کوشش کی کہ اُس سے گفتگو کروں تاکہ وہ میری بات کو سمجھ سکے؛ تاہم میں نے اُس کو ایک ذمہ دار شخص نہ پایا اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں کہ ایسے(غیرذمہ دار)شخص کو مسلمانوں کی، اُن کے جانوں اور عزتوں کی حفاظت کرنےکی مسوولیت دینی چاہیے۔
میں نے ابو الاثیر سے کہا:
’’ہمارا(جبھۃ النصرہ) کا فوج (46) میں مرکز ہے۔ کیا تمہارے علم میں نہیں ہے کہ ہم وہاں پر قیام پذیر ہیں؟‘‘
اُس نے جواب دیا:
’’ہاں، ہم جانتے ہیں‘‘
میں نے کہا:
’’کیا تم نے وہاں پر جبھۃ النصرہ کا جھنڈا اُن کے مرکز کے اوپر نہیں دیکھا تھا؟ کیا تمہیں علم نہیں کہ وہاں پر ایک فوجی دستہ ہے جس نے جبھۃ النصرہ کو بیعت دی ہے اور ہمارے بھائی وہاں پر موجود ہیں اور وہاں پر ہمارے شرعی طلباء ہیں ، جو ہمارےاِن بھائیوں کو وہاں پر تعلیم دے رہے ہیں؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’ہم جانتے ہیں‘‘
میں نے کہا:
’’مطلب کہ تمہیں علم تھا کہ فوج 46 میں جبھۃ النصرہ کا مرکز موجود ہے؟‘‘
اس نے کہا:
’’ہاں، جو پہلے جبھۃالنصرہ تھی، اس سے اب ہماری بیعت کر لی ہے، اور اب وہ دولۃ بن گئی ہے‘‘
میں نے جواب دیا:
’’کیسے؟ مجھے تمہاری بات سمجھ نہیں آئی؟‘‘
اس نے کہا:
’’جس شخص نے تمہیں (جبھۃ النصرہ) بیعت دی تھی، اس نے ایک ہفتے بعد ہماری بیعت کر لی ہے، وہ میرا پرانا دوست ہے اور ہم نے بہت سے معرکوں میں اکٹھا حصہ لیا ہے۔ ہمیں تعجب ہوا جب ہمیں معلوم ہوا کہ اُس نے جبھۃ النصرہ کو بیعت دے دی ہے، پھر میں نے اُس کے ساتھ ملاقات کی اور اسے تب تک نہ چھوڑا جب تک اُس سے دولۃ کی بیعت نہ کر لی‘‘
میں نے اُس سے کہا:
’’سبحان اللہ! تم نے ہمارے اوپر الزامات لگائے جب ہم نے (جیش الحر) کے ایک فوجی دستے سے بیعت لی، اور جیش الحر (FSA) کو مرتدین قرار دیا، اور ہم پر ’مرتدین‘ کی ’مدد‘ کرنے کی تہمت لگائی، اور ہمیں ’مرتدین‘ کا ’اتحادی‘ قرار دیا، اور اب یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہی شخص تمہار ا سابقہ دوست ہے، اور تم نے اس سے بیعت لے لی ہے ‘‘
ابوالاثیر نے کہا:
’’وہ میرا پرانا دوست ہے اور اب بھی ہے!‘‘
میں نے ابو الاثیر سے کہا:
’’اگر تم اب یہ جنگ روک دیتے ہو، تو تمام (FSA) کے مجموعے جنگ بندی کے لیے تیار ہیں، اور اُس کی شرط یہ ہے تم ’فوج 46‘ سے پسپائی اختیار کر لو‘‘
اس نےجواب دیا:
’’ہم پسپائی اختیار نہیں کریں گے اور ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے!‘‘
میں نے کہا:
’’ناحق خون روکنے کے لیے بھی نہیں، تمہارے اور ہمارے بھائیوں کا خون، مسلمانوں کا خون؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’اب ہم (نصیریوں کے خلاف) صفِ اول کے خطوط سے تمام مرابطین کو اِدھر جمع کریں گے، اور ان (جیش الحر)کے مراکز پر حملہ کریں گے اور اُن کو نیست و نابود کر دیں گے‘‘
بے شک اس کے بعد اگلے دن ہم ابو اسامہ مغربی کے پاس گئے۔ ہم نے جنگ بندی کروانے کے لیے مذاکرات کیے، کیونکہ وہ اُس علاقہ میں عسکری عملیات کا مسوؤل تھا ۔
ہم نے کہا:
’’تم نے کس طرح اس مرکز پر حملہ کیا اور ہمارے بھائی(جبھۃ النصرہ) اُس کے اندر موجود تھے اور تم نے انہیں قتل کر دیا؟‘‘
اُس نے کہا:
’’ہمیں علم نہیں تھا کہ آپ کے بھائی اندر موجود ہیں اور ہمیں علم نہیں تھا کہ وہاں پر جبھۃ النصرہ موجود ہے‘‘
میں نے کہا:
’’کیسے؟ وہاں پر (جبھۃ النصرہ کا )جھنڈا بھی موجود تھا؟‘‘
اس نے کہا:
’’ہم نے رات کے وقت حملہ کیا۔ ہمارا جھنڈے کی طرف دھیان نہیں گیا‘‘
میں نے کہا:
’’ہمارے بھائی وہاں موجود تھے، کسی نے بھی اُ ن سے گفتگو نہیں کی؟ کسی نے بھی انہیں اطلاع نہیں دی؟‘‘
اس نے جواب دیا:
’’نہیں، حملہ آور تمام کے تمام عجمی تھے اور وہ عربی نہیں بولتے اور نہ ہی سمجھتے ہیں، اور وہ رات کے وقت داخل ہوئے اور اُن لوگوں کو قتل کر دیا جو اندر موجود تھے۔اس طرح یہ معاملات ہوئے، یہ ایک چھوٹا سا مسئلہ ہے!‘‘
میں اس وفد کا حصہ تھا جو دولۃ اور دوسرے مسلح (جہادی)جماعتوں کے درمیان جنگ بندی کی کوشش کر رہے تھے۔ ہم دولۃ کے اندر کسی بھی ایسے مسوؤل تک پہنچنے میں ناکام رہے، جو صاحبِ فیصلہ ہو، یہاں تک کہ ہم ابو علی انباری کے پاس پہنچ گئے۔
ہم نے اس سے کہا :
’’ہمیں صاحبِ فیصلہ شخص کی تلاش ہے‘‘
اس نے جواب دیا:
’’میں یہاں پر صاحبِ فیصلہ ہوں، اور دولۃ کےاندرتمام افراداُس فیصلے کےپابند ہیں، حتیٰ کہ(ابوبکر) بغدادی بھی!‘‘
ہم نے کہا:
’’بہترین، ہمارے پاس ہر جماعت سے ایک نمائندہ موجود ہے، اور جبھۃ النصرہ کو بعض جماعتوں نے یہ اختیار دیا ہےکہ اِن مذاکرات میں اُن کی نمائندگی کریں۔ہم نے ابو علی انباری سے بہت گفتگو کی، لیکن ہم کسی نتیجہ تک نہیں پہنچ سکے ‘‘
ہم نے اُس سے کہا:
’’اب خبردار ہونے کی ضرورت ہے، لوگوں نے تمہارے خلاف بغاوت کر دی ہے‘‘
اس نے کہا:
’’نہیں، انہوں نے بغاوت نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس لوگ ہم سے محبت کرتے ہیں‘‘
میں نے کہا:
’’تمہیں علم نہیں ہے کہ حقیقت میں کیا ہو رہا ہے، لوگ تمہارے خلاف مسلح جنگ کے لیے تیار ہو چکے ہیں‘‘
اس نے کہا:
’’پھر ہم ہر اس شخص سے لڑیں گے جو ہمارے خلاف اسلحہ استعمال کرے گا‘‘
میں نے کہا:
’’ اس میں مسلح جماعتیں(مجاہدین) اور عامۃ الناس ہیں ، اور ہر کوئی جو یہ کہہ رہا ہے تم نے اُن پر ظلم کیا ہے‘‘
اُس نے جواب دیا:
’’ہم اُن سب سے لڑیں گے۔ ہم انہیں نیست و نابود کر دیں گے؛ یا ہم انہیں نیست و نابو د کر دیں گے یا وہ ہمیں! ہم ہر اس کو تباہ وبرباد کر دیں گے، جو ہمارے خلاف اسلحہ اٹھائے گا، دولۃ کے خلاف اسلحہ اٹھائے گا‘‘
اپنی اس پوری تقریر میں وہ ویہ باتیں دہرا تا رہا:
’’یہ صحوات ہیں، یہ مرتدین ہیں، ہم اِن سب کو نیست و نابود کر دیں گے، جو ہمارے خلاف اسلحہ اٹھائے گا!‘‘
اور ہماری یہ ملاقات بغیر کسی نتیجہ کے برخاست ہو گئی۔
ہم اس تنیجہ پر پہنچے کہ یہ شخص غیر ذمہ دار ہے، ایسا شخص جو دولۃ کے اندر نائب کا عہدہ رکھتا ہے، وہ لوگوں کو نیست و نابود کرنا چاہتا ہے، اور ہر کوئی جو اُن کے خلاف اسلحہ اٹھائے، اُس کو تباہ وبرباد کرنا چاہتا ہے،۔
حتیٰ کہ مصالحتی وفد نے اس سے کہا:
’’ تمام جماعتیں اور کتائب محکمہ شریعہ (شرعی عدالتوں)کے سامنےسرتسلیم خم کریں گی‘‘
اس نے میرے سامنے یہ بات کہی، اور اللہ اس بات پر گواہ ہیں جو میں بیان کرنے لگا ہوں۔
ابو علی انباری نے کہا:
’’جب ہم یہ تمام کام ختم کر لیں(یعنی سب کو قتل کر لیں)، اس کے بعد شرعی عدالتیں سامنے آ سکتی ہیں‘‘
اُس کی باتوں اور گفتگو نےاِسی بات کو ثابت کیا کہ وہ ایک غیرذمہ دار شخص ہے۔
انہوں(دولۃ) نے نوجوان افراد اور مجاہدین کا استعمال دوسری جماعتوں کے خلاف کیا، چاہے وہ جماعتیں اسلامی ہوں یا غیر اسلامی، اور مجاہد کی اِن کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے۔ یہ اُس مجاہد کے بارے میں جو اِن کے پاس آئے ، یہی سمجھتے ہیں کہ وہ شخص مرنے کے لیے آیا ہے، پس اسے جانے دو اور مرنے دو۔
کچھ فاضل بھائیوں کے ساتھ میں عمر شیشانی سے ملنے گیا، تاکہ جنگ بندی کے معاہدہ پر پہنچا جا سکے۔ ہماری اُس سے طویل ملاقات ہوئی۔ یہ بہت تھکا دینے والی ملاقات تھی، اور ہم آخر کار ایک جنگ بندی کے معاہدے پر پہنچ گئے، اِس شرط پر کہ دولۃ اپنا (متجاوزانہ وجابرانہ و جارحانہ) رویہ اور قتل وغارت ترک کر دےگی، اور دوسری طرف، ہم نے تمام (جہادی)قتالی جماعتوں کے ساتھ یہ کوشش کی کہ وہ بھی جنگ بند ی پر آ جائیں ، اور پھر اُس کے بعد شرعی عدالتوں میں اپنے فیصلے کروائے جائیں۔ جب محکمہ شریعہ (غیر جانبدار شرعی عدالتیں) کا قیام عمل میں آ جائے گا، پھر اُس کے بعد تمام فریقین کے درمیان تنازعات اور اختلافات کے فیصلے ہوں گے۔
میں نے عمر شیشانی سے کہا:
’’ہم اس معاہدے کو معتبر و تصدیق شدہ بنانا چاہتے ہیں، تاکہ باقی جماعتیں اور کتائب ہمارے اوپر یقین کر سکیں‘‘
بے شک، عمر شیشانی اس سے متفق ہوئے حالانکہ اس کے اردگرد موجود بہت سے ساتھی اس معاہدے پر معترض تھے، اور وہ بہت اضطراب کا شکار تھےکہ ہم کیوں مل بیٹھے ہیں اور اس معاہدہ کی توثیق کی جا رہی ہے اور یہ معاہدہ(اتفاق) جبھۃ النصرہ کے عسکری مسوولِ عامہ کا دولۃ کے عسکری مسوولِ عامہ کے ساتھ تھا، جس میں اتفاق ہوا کہ اُن تمام جگہوں پر جنگ بندی کی جائے گی، جہاں پر دولۃ اور باقی جماعتوں کے درمیان جنگ ہو رہی ہے۔
اور ہم نے اُس سے سوال کیا:
’’کیا اِس معاہدہ کی دولۃ پابند ہو گی؟‘‘
عمر شیشانی کے جواب دیا:
’’جی ہاں! پابند ہو گی‘‘
میرے ساتھ ایک بھائی نے اُس سے پوچھا:
’’جو بات تم کہہ رہے ہو کیا دولۃ اُس کی پابند ہو گی؟‘‘
عمر شیشانی نے جواب دیا:
’’جی ہاں! دولۃ اس معاہدہ کی ہر جگہ پابند ہو گی،میں دولۃ کا عسکری مسوؤلِ عام ہوں، اور دولۃ اس معاہدہ کی پابند ہے‘‘
بے شک، عمر شیشانی جنگ بندی کے لیے بہت جلدی میں تھے، اور مجھ سے کہا:
’’یہ جنگ بندی کب شروع ہو گی؟‘‘
میں نے اُس سے کہا:
’’مجھے قیادتِ عامہ تک اس بات کو پہنچانا ہے اور باقی جماعتوں اور کتائب کو بھی اِس سے آگاہ کرنا ہے‘‘
اُس نے جواب دیا:
’’اِس میں تو (بہت) وقت لگے گا، ہمیں جلدی کرنے کی ضرورت ہے‘‘
میں نے کہا:
’’اس معاملہ کوتقریباً دو دن لگ جائیں گے‘‘
اس نے جواب دیا:
’’نہیں، یہ تو بہت لمبا عرصہ ہے۔ بھائی، تمہیں جلدی کرنی چاہیے‘‘
میں نے کہا:
’’کم از کم دو دن، میں اِس معاملہ کو دو دن سے پہلے حل نہیں کر سکتا، مجھے جبھۃ النصرہ کی قیادتِ عامہ کو مطلع کرنا ہے، اور پھر اس کے بعد باقی جماعتوں کو بھی اس معاملہ سے آگاہ کرنا ہے‘‘
عمر شیشانی مجھے تحریض دلا رہے تھے کہ میں ان اُمور میں عجلت دکھاؤں۔ عمر شیشانی کے ساتھ کچھ افراد موجود تھے جو اس معاملہ پر اعتراض کر رہے تھے، اور وہ اسے تحریض دلا رہے تھے کہ جنگ کو جاری رکھا جائے اور کسی بھی معاہدہ پر متفق نہ ہوا جائے۔
اگلے دن، اپنے حسنِ نیت کے پیش نظر(طنز)، انہوں نے ایک کار بم انادان (علاقہ کا نام) میں بھیج دیا اور ایک عسکری قافلہ منبج (علاقہ کا نام) کی طرف بھیج دیا۔ مجھے نہیں علم کہ دولۃ کے اندر فیصلہ ساز شخص کون ہے، جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، اور اگلے دن،کار بم اورگاؤں پر حملہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ اتفاق (معاہدہ) سوائے کاغذ پر سیاہی کے علاوہ کچھ نہ تھا، اور ہم دولۃ میں کسی ایک بھی شخص تک نہ پہنچ سکے جو صاحبِ فیصلہ ہو۔
ہم دولۃ میں کسی بھی ایسے صاحبِ فیصلہ شخص تک نہ پہنچ سکے، جو کہ جنگ بندی کے لیے کوشش کرے اور مسلمانوں اور ہمارے بھائیوں کے بہتے خون کو روکنے کے لیےجدوجہد کرے۔ سبحان اللہ، ہم تو اِس بات کے حریص تھے کہ مسلمانوں اور مجاہدین کے بہتے خون کو روکا جائے، چاہے ان کا تعلق دولۃ سے ہو یا غیر دولۃ سے!
ہم نے بہت سے علاقوں میں جنگ بندی کے لیے کوشش کی حتی کہ تب بھی جب جیش الحر (FSA) صنعائیہ (صنعتی شہر) میں داخل ہو گئی، ہم نے خبر سنی کہ دولۃ نے اپنے مرکز سے پسپائی اختیار کر لی ہے، ہم نے اپنے (جبھۃ النصرۃ) کے بھائیوں کو پیغام بھیجا کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ بھائی اِن مراکز میں احتیاط سے داخل ہوں، پس وہ بھائی داخل ہوئے۔ ان مراکز میں سوائے نصب کیے گئے باردو اور دھماکہ خیز مواد کے کچھ نہ تھا۔ وہ بھائی واپس ہوئے اور ہمیں اس بات کی خبر دی، پھر ہم نے ایک بھائی کو بھیجا جو دھماکہ خیز مواد میں مہارت رکھتا تھا، جس نے وہاں جا کر اس دھماکہ خیز مواد کے فیوز کو علیحدہ کیا۔ انہوں نے بارود کے ڈرم کا جال بچھا رکھا تھا اور اس کے پیچھے کلورین(گیس) کے ڈرم موجود تھے۔ اگر وہ دھماکہ خیز مواد پھٹ جاتا، تو وہ زہریلی جان لیوا گیس کلورینیٹ کو پیدا کر دیتا۔
شہر صنعائیہ (صنعتی شہر) میں شہری، عورتیں اور بچے اس وقت موجود تھے، اگر یہ دھماکہ خیز ڈرم اور کلورین گیس ڈرم پھٹ جاتے، تو عظیم قتلِ عام ہوتا، اور اس سے بہت سے بچے اور عورتیں جاں بحق ہوتے، جو کہ باقی علاقوں سے ہجرت کر کے آئے تھے ، اور شہر صنعائیہ میں پناہ لے رکھی تھی، وہ سب قتل ہو جاتے، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔
جہاں تک کار بم کا تعلق ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے اس عملیات کو المسحت (علاقہ کا نام) میں ہوتے ہوئے دیکھا۔ ایک کار بم کا حملہ آور آیا، اور اس نے اس کو المحست کے دروازے پر اڑا دیا، پھر اس کے بعد دوسرے کار بم کے حملہ آور نے خودکو فافین گاؤں کے اندر جا کر اڑا دیا، اس سے پہلے کہ وہ گاؤں سے باہر نکلتا اور المحست کے قریب پہنچتا۔ دوسرے حملہ آور سے۱۰۰ میٹر کی دوری پر تیسرےکار بم کے حملہ آور نے خود کو گیس سٹیشن کے قریب جا کر اڑا لیا۔
اِن میں دو کار بم کے حملہ آوروں نے اپنی گاڑی کو گاؤں کے اندر شہریوں کے درمیان اڑا دیا، اور وہاں پر کوئی بھی فرد ایسا نہیں تھا جس کا تعلق جیش الحر (FSA) سے ہو، یا جبھۃ النصرہ سے یا کسی اور دوسری جماعت سے! دونوں گاڑیاں گاؤں کے اندر اڑا دی گئیں۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھا اور اُس دھماکے کی باقیات اورتباہی کو جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ، وہ ابھی بھی وہاں جا کر دیکھ سکتے ہیں۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل۔
جہاں تک ابو الاثیر، ابو علی انباری ، عمر شیشانی سے ملاقات کا تعلق ہے،اور اسی طرح کاربم حملے جو فافین کے گاؤں میں کیے گئے اور صنعائیہ(صنعتی علاقہ) کے کلورنیٹ کے بیرل بم کا معاملہ، میں اس پر اللہ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اس کو اپنی آنکھوں سے ہوتے ہوئے دیکھا، اور اللہ تعالیٰ اس بات پر گواہ ہیں جو میں بیان کر رہا ہوں۔۔۔!
[گواہی ختم ہوئی]
[ویڈیو اختتام پذیر ہوتے ہوئے]
’’فقط کاغذ پر سیاہی۔۔۔!!‘‘
جہاد بصیرت پر!
ویڈیو لنک:
http://vimow.com/watch?v=Jp97Oxgn8T8
(حصہ اول)
http://vimow.com/watch?v=6hqngopoRCA
(حصہ دوم)
انگریزی ترجمہ:
http://justpaste.it/hamam14